• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بیت الخلاء جانے کے وقت کیا دعا پڑھنی چاہیے؟

حدیث نمبر : 142
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، عن عبد العزيز بن صهيب، قال سمعت أنسا، يقول كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل الخلاء قال ‏"‏ اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے عبدالعزیز بن صہیب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ( قضائے حاجت کے لیے ) بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو یہ ( دعا ) پڑھتے۔ اے اللہ! میں ناپاک جنوں اور ناپاک جنیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔

اس حدیث میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعا پڑھنا مذکور ہے اور مسلم کی ایک روایت میں لفظ امرکے ساتھ ہے کہ جب تم بیت الخلاءمیں داخل ہوتویہ دعا پڑھو۔ بسم اللہ اعوذ باللہ من الخبث والخبائث ان لفظوں میں پڑھنا بھی جائز ہے۔ خبث اور خبائث سے ناپاک جن اور جنیاں مراد ہیں۔ حضرت امام نے فارغ ہونے کے بعد والی دعا کی حدیث کواس لیے ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کی شرطوں کے موافق نہ تھی۔ جسے ابن خزیمہ اور ابن حبان نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ آپ فارغ ہونے کے بعد غفرانک پڑھتے۔ اور ابن ماجہ میں یہ دعا آئی ہے الحمدللہ الذی اذہب عنی الاذی وعافانی ( سب تعریف ) اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھ کو عافیت دی اور اس گندگی کو مجھ سے دور کردیا ) فارغ ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی پڑھا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بیت الخلاء کے قریب پانی رکھنا بہتر ہے

حدیث نمبر : 143
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا هاشم بن القاسم، قال حدثنا ورقاء، عن عبيد الله بن أبي يزيد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل الخلاء، فوضعت له وضوءا قال ‏"‏ من وضع هذا‏"‏‏. ‏ فأخبر فقال ‏"‏ اللهم فقهه في الدين‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہاشم ابن القاسم نے، کہا کہ ان سے ورقاء بن یشکری نے عبیداللہ بن ابی یزید سے نقل کیا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاخانہ میں تشریف لے گئے۔ میں نے ( پاخانے کے قریب ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے وضو کا پانی رکھ دیا۔ ( باہر نکل کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کس نے رکھا؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا گیا تو آپ نے ( میرے لیے دعا کی اور ) فرمایا، اے اللہ! اس کو دین کی سمجھ عطا فرمائیو۔

یہ ام المؤمنین حضرت میمونہ بنت حارث حضرت ابن عباس کی خالہ کے گھر کا واقعہ ہے۔ آپ کو خبردینے والی بھی حضرت میمونہ ہی تھیں۔ آپ کی دعا کی برکت سے حضرت ابن عباس فقیہ امت قرار پائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس مسئلہ میں کہ پیشاب اور پاخانہ کے وقت قبلہ کی طرف منہ نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن جب کسی عمارت یا دیوار وغیرہ کی آڑ ہو تو کچھ حرج نہیں

حدیث نمبر : 144
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، قال حدثنا الزهري، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن أبي أيوب الأنصاري، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أتى أحدكم الغائط فلا يستقبل القبلة ولا يولها ظهره، شرقوا أو غربوا‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے، کہا کہ ہم سے زہری نے عطاء بن یزید اللیثی کے واسطے سے نقل کیا، وہ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی پاخانے میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ کرے نہ اس کی طرف پشت کرے ( بلکہ ) مشرق کی طرف منہ کر لو یا مغرب کی طرف۔

تشریح : یہ حکم مدینہ والوں کے لیے خاص ہے۔ کیونکہ مدینہ مکہ سے شمال کی طرف واقع ہے۔ اس لیے آپ نے قضاءحاجت کے وقت پچھم یا پورب کی طرف منہ کرنے کا حکم فرمایا۔ یہ بیت اللہ کا ادب ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث کے عنوان سے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ اگرکوئی آڑ سامنے ہو تو قبلہ کی طرف منہ یا پشت کر سکتا ہے۔ آپ نے جو حدیث اس باب میں ذکر کی ہے وہ ترجمہ باب کے مطابق نہیں ہوتی کیونکہ حدیث سے مطلق ممانعت نکلتی ہے اور ترجمہ باب میں عمارت کو مستثنیٰ کیا ہے۔ بعضوں نے کہا ہے کہ آپ نے یہ حدیث محض ممانعت ثابت کرنے کے لیے ذکر کی ہے اور عمارت کا استثناءآگے والی حدیث سے نکالا ہے جو ابن عمر سے مروی ہے۔ بعضوں نے لفظ غائط سے صرف میدان مراد لیا ہے اور اس ممانعت سے سمجھا گیا کہ عمارت میں ایسا کرنا درست ہے۔

حضرت مولانا شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ مبارک پوری نے اس بارے میں دلائل طرفین پر مفصل روشنی ڈالتے ہوئے اپنا آخری فیصلہ یہ دیا ہے وعندی الاحتراز عن الاستقبال والاستدبار فی البیوت احوط وجوبا لاندبا یعنی میرے نزدیک بھی وجوباً احتیاط کا تقاضا ہے کہ گھروں میں بھی بیت اللہ کی طرف پیٹھ یا منہ کرنے سے پرہیز کیاجائے۔ ( مرعاۃ،جلداول، ص: 241 ) علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ صاحب تحفۃ الاحوذی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ کو ئی شخص دو اینٹوں پر بیٹھ کر قضاء حاجت کرے ( تو کیا حکم ہے؟ )

حدیث نمبر : 145
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن عمه، واسع بن حبان، عن عبد الله بن عمر، أنه كان يقول إن ناسا يقولون إذا قعدت على حاجتك، فلا تستقبل القبلة ولا بيت المقدس‏.‏ فقال عبد الله بن عمر لقد ارتقيت يوما على ظهر بيت لنا، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم على لبنتين مستقبلا بيت المقدس لحاجته‏.‏ وقال لعلك من الذين يصلون على أوراكهم، فقلت لا أدري والله‏.‏ قال مالك يعني الذي يصلي ولا يرتفع عن الأرض، يسجد وهو لاصق بالأرض‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے یحییٰ بن سعید سے خبر دی۔ وہ محمد بن یحییٰ بن حبان سے، وہ اپنے چچا واسع بن حبان سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے تھے کہ لوگ کہتے تھے کہ جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو نہ بیت المقدس کی طرف ( یہ سن کر ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے دو اینٹوں پر قضاء حاجت کے لیے بیٹھے ہیں۔ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( واسع سے ) کہا کہ شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنے چوتڑوں کے بل نماز پڑھتے ہیں۔ تب میں نے کہا خدا کی قسم! میں نہیں جانتا ( کہ آپ کا مطلب کیا ہے ) امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہ شخص مراد لیا جو نماز میں زمین سے اونچا نہ رہے، سجدہ میں زمین سے چمٹ جائے۔

تشریح : حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما اپنی کسی ضرورت سے کوٹھے پر چڑھے۔ اتفاقیہ ان کی نگاہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑگئی۔ ابن عمر کے اس قول کا منشا کہ بعض لوگ اپنے چوتڑوں پر نماز پڑھتے ہیں۔ شاید یہ ہو کہ قبلہ کی طرف شرمگاہ کا رخ اس حال میں منع ہے کہ جب آدمی رفع حاجت وغیرہ کے لیے ننگا ہو۔ ورنہ لباس پہن کر پھر یہ تکلیف کرنا کسی قبلہ کی طرف سامنا یا پشت نہ ہو، یہ نرا تکلف ہے۔ جیسا کہ انھوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سجدہ اس طرح کرتے ہیں کہ اپنا پیٹ بالکل رانوں سے ملالیتے ہیں اسی کو یصلون علی اور اکہم سے تعبیر کیا گیا مگر صحیح تفسیر وہی ہے جو مالک سے نقل ہوئی۔


صاحب انوار الباری کا عجیب اجہتاد: احناف میں عورتوں کی نماز مردوں کی نماز سے کچھ مختلف قسم کی ہوتی ہے۔ صاحب انوارالباری نے لفظ مذکور یصلون علی اور اکہم سے عورتوں کی اس مروجہ نماز پر اجتہاد فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے : “ یصلون علی اور اکہم سے عورتوں والی نشست اور سجدہ کی حالت بتلائی گئی ہے کہ عورتیں نماز میں کول ہے اور سرین پر بیٹھتی ہیں اور سجدہ بھی خوب سمٹ کر کرتی ہیں۔ کہ پیٹ رانوں کے اوپر کے حصوں سے مل جاتا ہے۔ تاکہ ستر زیادہ سے زیادہ چھپ سکے لیکن ایسا کرنا مردوں کے لیے خلاف سنت ہے۔ ان کو سجدہ اس طرح کرنا چاہئیے کہ پیٹ ران وغیرہ حصوں سے بالکل الگ رہے۔ اور سجدہ اچھی طرح کھل کر کیاجائے۔ غرض عورتوں کی نماز میں بیٹھنے اور سجدہ کرنے کی حالت مردوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ ” ( انوارالباری،ج4،ص: 187 )

صاحب انوارالباری کی اس وضاحت سے ظاہر ہے کہ مردوں کے لیے ایسا کرنا خلاف سنت ہے اور عورتوں کے لیے عین سنت کے مطابق ہے۔ شاید آپ کے اس بیان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات سے ایسی ہی نماز ثابت ہوگی۔ کاش! آپ ان احادیث نبوی کو بھی نقل کردیتے جن سے عورتوں اور مردوں کی نمازوں میں یہ تفریق ثابت ہوتی ہے یا ازواج مطہرات ہی کا عمل نقل فرمادیتے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی نمازوں میں یہ تفریق مجوزہ محض صاحب انوارالباری ہی کا اجتہاد ہے۔ ہمارے علم میں احادیث صحیحہ سے یہ تفریق ثابت نہیں ہے۔ مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عورتوں کا قضائے حاجت کے لیے باہر نکلنے کا کیا حکم ہے؟

حدیث نمبر : 146
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، أن أزواج النبي، صلى الله عليه وسلم كن يخرجن بالليل إذا تبرزن إلى المناصع ـ وهو صعيد أفيح ـ فكان عمر يقول للنبي صلى الله عليه وسلم احجب نساءك‏.‏ فلم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل، فخرجت سودة بنت زمعة زوج النبي صلى الله عليه وسلم ليلة من الليالي عشاء، وكانت امرأة طويلة، فناداها عمر ألا قد عرفناك يا سودة‏.‏ حرصا على أن ينزل الحجاب، فأنزل الله آية الحجاب‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں رات میں مناصع کی طرف قضاء حاجت کے لیے جاتیں اور مناصع ایک کھلا میدان ہے۔ تو ( حضرت ) عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کرتے تھے کہ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل نہیں کیا۔ ایک روز رات کو عشاء کے وقت حضرت سودہ بنت زمعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ جو دراز قد عورت تھیں، ( باہر ) گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں آواز دی ( اور کہا ) ہم نے تمہیں پہچان لیا اور ان کی خواہش یہ تھی کہ پردہ ( کا حکم ) نازل ہو جائے۔ چنانچہ ( اس کے بعد ) اللہ نے پردہ ( کا حکم ) نازل فرما دیا۔

حدیث نمبر : 147
حدثنا زكرياء، قال حدثنا أبو أسامة، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قد أذن أن تخرجن في حاجتكن‏"‏‏. ‏ قال هشام يعني البراز‏.‏
ہم سے زکریا نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ اپنے باپ سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اپنی بیویوں سے ) فرمایا کہ تمہیں قضاء حاجت کے لیے باہر نکلنے کی اجازت ہے۔ ہشام کہتے ہیں کہ حاجت سے مراد پاخانے کے لیے ( باہر ) جانا ہے۔

آیت حجاب کے بعد بھی بعض دفعہ رات کو اندھیرے میں عورتوں کا جنگل میں جانا ثابت ہے۔ ( فتح الباری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : گھروں میں قضاء حاجت کرنا ثابت ہے

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد اس باب سے یہ اشارہ کرنا ہے کہ عورتوں کا حاجت کے لیے میدان میں جانا ہمیشہ نہیں رہا اور بعد میں گھروں میں انتظام کرلیاگیا۔

حدیث نمبر : 148
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا أنس بن عياض، عن عبيد الله، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن واسع بن حبان، عن عبد الله بن عمر، قال ارتقيت فوق ظهر بيت حفصة لبعض حاجتي، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقضي حاجته مستدبر القبلة مستقبل الشأم‏.‏
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے عبیداللہ بن عمر کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمد بن یحییٰ بن حبان سے نقل کرتے ہیں، وہ واسع بن حبان سے، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ( ایک دن میں اپنی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ ) حفصہ کے مکان کی چھت پر اپنی کسی ضرورت سے چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔

آپ اس وقت فضا میں نہ تھے، بلکہ وہاں پاخانہ بنا ہوا تھا، اس میں آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ ( فتح الباری )

حدیث نمبر : 149
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثنا يزيد بن هارون، قال أخبرنا يحيى، عن محمد بن يحيى بن حبان، أن عمه، واسع بن حبان، أخبره أن عبد الله بن عمر أخبره قال لقد ظهرت ذات يوم على ظهر بيتنا، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدا على لبنتين مستقبل بيت المقدس‏.‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، انھوں نے کہا، ہمیں یحییٰ نے محمد بن یحییٰ بن حبان سے خبر دی، انھیں ان کے چچا واسع بن حبان نے بتلایا، انھیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو اینٹوں پر ( قضاء حاجت کے وقت ) بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔

تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کبھی اپنے گھر کی چھت اور کبھی حضرت حفصہ کے گھر کی چھت کا ذکر کیا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ گھر تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ ہی کا تھا۔ مگر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد ورثہ میں ان ہی کے پاس آ گیا تھا۔ اس باب کی احادیث کا منشاءیہ ہے کہ گھروں میں پاخانہ بنانے کی اجازت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مکانوں میں قضائے حاجت کے وقت کعبہ شریف کی طرف منہ یا پیٹھ کی جا سکتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : پانی سے طہارت کرنا بہتر ہے

حدیث نمبر : 150
حدثنا أبو الوليد، هشام بن عبد الملك قال حدثنا شعبة، عن أبي معاذ ـ واسمه عطاء بن أبي ميمونة ـ قال سمعت أنس بن مالك، يقول كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا خرج لحاجته أجيء أنا وغلام معنا إداوة من ماء‏.‏ يعني يستنجي به‏.‏
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے ابومعاذ سے جن کا نام عطاء بن ابی میمونہ تھا نقل کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لیے نکلتے تو میں اور ایک لڑکا اپنے ساتھ پانی کا برتن لے آتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ اس پانی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طہارت کیا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کسی شخص کے ہمراہ اس کی طہارت کے لیے پانی لے جانا جائز ہے

وقال أبو الدرداء أليس فيكم صاحب النعلين والطهور والوساد
حضرت ابوالدرداء نے فرمایا کہ تم میں جوتوں والے، پاک پانی والے اور تکیہ والے صاحب نہیں ہیں؟
یہ اشارہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی طرف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیاں، تکیہ اور وضو کا پانی لیے رہتے تھے، اسی مناسبت سے آپ کا یہ خطاب پڑگیا۔



حدیث نمبر : 151
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن أبي معاذ ـ هو عطاء بن أبي ميمونة ـ قال سمعت أنسا، يقول كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج لحاجته تبعته أنا وغلام منا معنا إداوة من ماء‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، وہ عطاء بن ابی میمونہ سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لیے نکلتے، میں اور ایک لڑکا دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جاتے تھے اور ہمارے ساتھ پانی کا ایک برتن ہوتا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : استنجاء کے لیے پانی کے ساتھ نیزہ ( بھی ) لے جانا ثابت ہے۔

حدیث نمبر : 152
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا محمد بن جعفر، قال حدثنا شعبة، عن عطاء بن أبي ميمونة، سمع أنس بن مالك، يقول كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل الخلاء، فأحمل أنا وغلام إداوة من ماء، وعنزة، يستنجي بالماء‏.‏ تابعه النضر وشاذان عن شعبة‏.‏ العنزة عصا عليه زج‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے محمد بن جعفر نے، ان سے شعبہ نے عطاء بن ابی میمونہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاخانے میں جاتے تو میں اور ایک لڑکا پانی کا برتن اور نیزہ لے کر چلتے تھے۔ پانی سے آپ طہارت کرتے تھے، ( دوسری سند سے ) نضر اور شاذان نے اس حدیث کی شعبہ سے متابعت کی ہے۔ عنزہ لاٹھی کو کہتے ہیں جس پر پھلکا لگا ہوا ہو۔

تشریح : یہ ڈھیلا توڑنے کے لیے کام میں لائی جاتی تھی اور موذی جانوروں کودفع کرنے کے لیے بھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : داہنے ہاتھ سے طہارت کرنے کی ممانعت ہے

حدیث نمبر : 153
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام ـ هو الدستوائي ـ عن يحيى بن أبي كثير، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء، وإذا أتى الخلاء فلا يمس ذكره بيمينه، ولا يتمسح بيمينه‏"‏‏. ‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن ابی قتادہ سے، وہ اپنے باپ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب تم میں سے کوئی پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب پاخانہ میں جائے تو اپنی شرمگاہ کو داہنے ہاتھ سے چھوئے اور نہ داہنے ہاتھ سے استنجاء کرے۔
 
Top