• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں علمی مذاکرہ کرنا اور فتوی دینا جائز ہے۔

حدیث نمبر : 133
حدثني قتيبة بن سعيد، قال حدثنا الليث بن سعد، قال حدثنا نافع، مولى عبد الله بن عمر بن الخطاب عن عبد الله بن عمر،‏.‏ أن رجلا، قام في المسجد فقال يا رسول الله، من أين تأمرنا أن نهل فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يهل أهل المدينة من ذي الحليفة، ويهل أهل الشأم من الجحفة، ويهل أهل نجد من قرن‏"‏‏. ‏ وقال ابن عمر ويزعمون أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ويهل أهل اليمن من يلملم‏"‏‏. ‏ وكان ابن عمر يقول لم أفقه هذه من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، ان سے نافع مولیٰ عبداللہ بن عمر بن الخطاب نے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ ( ایک مرتبہ ) ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس جگہ سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مدینہ والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، اور اہل شام جحفہ سے اور نجد والے قرن منازل سے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ ( آخری جملہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد نہیں۔

تشریح : مسجد میں سوال کیاگیا اور مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے جواب دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مساجد کو دارلحدیث کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سائل کو اس کے سوال سے زیادہ جواب دینا، (تاکہ اسے تفصیلی معلومات ہوجائیں)

حدیث نمبر : 134
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وعن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم أن رجلا سأله ما يلبس المحرم فقال ‏"‏ لا يلبس القميص ولا العمامة ولا السراويل ولا البرنس ولا ثوبا مسه الورس أو الزعفران، فإن لم يجد النعلين فليلبس الخفين وليقطعهما حتى يكونا تحت الكعبين‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا ان کو ابن ابی ذئب نے نافع کے واسطے سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور ( دوسری سند میں ) زہری سالم سے، کہا وہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنے نہ صافہ باندھے اور نہ پاجامہ اور نہ کوئی سرپوش اوڑھے اور نہ کوئی زعفران اور ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے اور اگر جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انھیں ( اس طرح ) کاٹ دے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔

تشریح : ورس ایک قسم کی خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔حج کا احرام باندھنے کے بعد اس کا استعمال جائز نہیں۔ سائل نے سوال تومختصر سا کیاتھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے تفصیل کے ساتھ اس کو جواب دیا، تاکہ جواب نامکمل نہ رہ جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ استاد کو مسائل کی تفصیل میں فیاضی سے کام لینا چاہئیے تاکہ طلباءکے لیے کوئی گوشہ تشنہ تکمیل نہ رہ جائے۔

الحمدللہ کہ آج عشرہ اول ربیع الثانی 1387ھ میں کتاب العلم کے ترجمہ وحواشی سے فراغت حاصل ہوئی، اس سلسلہ میں بوجہ کم علمی کے خادم سے جو لغزش ہوگئی ہو اللہ تعالیٰ اسے معاف فر مائے۔ ربنا لاعلم لنا الا ماعلمتنا انک انت العلیم الحکیم۔ رب اشرح لی صدری ویسرلی امری آمین یاارحم الراحمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الوضو


وضو: وضوکے لغوی معنی صفائی ستھرائی اور روشنی کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں وضو طریقہ مقررہ کے ساتھ صفائی کرنا ہے جس کی برکت سے قیامت کے دن اعضائے وضو کو نور حاصل ہوگا۔ حضرت امام بخاری قدس سرہ نے کتاب الوضو کو آیت قرآنی سے شروع فرماکر اشارہ فرمایاکہ آئندہ جملہ تفصیلات کو اس آیت کی تفسیر سمجھنا چاہئیے۔ آیت شریفہ میں بسلسلہ وضو چہرہ دھونا اور کہنیوں سے دونوں ہاتھوں کو دھونا، سرکامسح کرنا اور ٹخنوں تک پیروں کا دھونا اصول وضو کے طور پر بیان کئے گئے ہیں۔پورے سرکا مسح ایک بار کرنا یہی مسلک راجح ہے۔ جس کی صورت آئندہ بیان ہوگی۔

لفظ وضو کی تحقیق میں علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وہو بالضم الفعل وبالفتح الماءالذی یتوضاءبہ و حکی فی کل الفتح والضم و ہو مشتق من الوضاءۃ وہو الحسن والنظافۃ لان المصلی یتنظف بہ فیصیر وضیا یعنی وضو کا لفظ واؤ کے پیش کے ساتھ وضو کرنے کے معنی میں ہے اور واؤ کے زبر کے ساتھ لفظ وضو اس پانی پر بولا جاتا ہے جس سے وضو کیا جاتا ہے۔ یہ لفظ “ وضاءت ” سے مشتق ہے جس کے معنی حسن اور نظافت کے ہیں۔ نمازی اس سے نظافت بھی حاصل کرتا ہے۔ پس وہ ایک طرح سے صاحب حسن ہو جاتا ہے۔ عبادت کے لیے وضو کا عمل بھی ان خصوصیات اسلام سے ہے جس کی نظیر مذاہب عالم میں نہیں ملے گی۔ وللتفصیل مقام آخر۔

باب : اس آیت کے بیا ن میں کہ
وقول الله تعالى ‏{‏إذا قمتم إلى الصلاة فاغسلوا وجوهكم وأيديكم إلى المرافق وامسحوا برءوسكم وأرجلكم إلى الكعبين‏}‏
اللہ تعالیٰ نے فرمایا “ اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ تو ( پہلے وضو کرتے ہوئے ) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک دھولو۔ اور اپنے سروں کا مسح کرو۔ اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھوؤ۔ ”
قال أبو عبد الله وبين النبي صلى الله عليه وسلم أن فرض الوضوء مرة مرة، وتوضأ أيضا مرتين وثلاثا، ولم يزد على ثلاث، وكره أهل العلم الإسراف فيه وأن يجاوزوا فعل النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وضو میں ( اعضاء کا دھونا ) ایک ایک مرتبہ فرض ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اعضاء ) دو دو بار ( دھو کر بھی ) وضو کیا ہے اور تین تین بار بھی۔ ہاں تین مرتبہ سے زیادہ نہیں کیا اور علماء نے وضو میں اسراف ( پانی حد سے زائد استعمال کرنے ) کو مکروہ کہا ہے کہ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے آگے بڑھ جائیں۔

خاص طور پر ہاتھ پیروں کا تین تین بار سے زائد دھونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں سب اعضاءتین تین باردھوئے پھر فرمایا کہ جس نے اس پر زیادہ یا کم کیا اس نے براکیا اور ظلم کیا۔
ابن خزیمہ کی روایت میں صرف یوں ہے کہ جس نے زیادہ کیا، یہی صحیح ہے اور پچھلی روایت میں کم کرنے کا لفظ غیرصحیح ہے۔ کیونکہ تین بار سے کم دھونا بالاجماع برا نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ نماز بغیر پاکی کے قبول نہیں ہوتی

یہ ترجمہ باب خود ایک حدیث میں وارد ہے۔ جسے ترمذی وغیرہ نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ نماز بغیر طہارت کے قبول نہیں ہوتی اور چوری کے مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس روایت کو نہیں لائے کیونکہ وہ ان کی شرط کے موافق نہ تھی۔

حدیث نمبر : 135
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي، قال أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، أنه سمع أبا هريرة، يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقبل صلاة من أحدث حتى يتوضأ‏"‏‏. ‏ قال رجل من حضرموت ما الحدث يا أبا هريرة قال فساء أو ضراط‏.‏
ہم سے اسحاق بن ابراہیم الحنظلی نے بیان کیا۔ انھیں عبدالرزاق نے خبر دی، انھیں معمر نے ہمام بن منبہ کے واسطے سے بتلایا کہ انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حدث کرے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ ( دوبارہ ) وضو نہ کر لے۔ حضرموت کے ایک شخص نے پوچھا کہ حدث ہونا کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( پاخانہ کے مقام سے نکلنے والی ) آواز یا بے آواز والی ہوا۔

فساءہوا کو کہتے ہیں جو ہلکی آواز سے آدمی کے مقعد سے نکلتی ہے اور ضراط وہ ہوا جس میں آواز ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : وضو کی فضیلت کے بیان میں ( اور ان لوگوں کی فضیلت میں ) جو ( قیامت کے دن ) وضوکے نشانات سے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والے ہوں گے

حدیث نمبر : 136
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن خالد، عن سعيد بن أبي هلال، عن نعيم المجمر، قال رقيت مع أبي هريرة على ظهر المسجد، فتوضأ فقال إني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ إن أمتي يدعون يوم القيامة غرا محجلين من آثار الوضوء، فمن استطاع منكم أن يطيل غرته فليفعل‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، ان سے لیث نے خالد کے واسطے سے نقل کیا، وہ سعید بن ابی ہلال سے نقل کرتے ہیں، وہ نعیم المجمر سے، وہ کہتے ہیں کہ میں ( ایک مرتبہ ) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد کی چھت پر چڑھا۔ تو آپ نے وضو کیا اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ میری امت کے لوگ وضو کے نشانات کی وجہ سے قیامت کے دن سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والوں کی شکل میں بلائے جائیں گے۔ تو تم میں سے جو کوئی اپنی چمک بڑھانا چاہتا ہے تو وہ بڑھا لے ( یعنی وضو اچھی طرح کرے )۔

جو اعضاءوضومیں دھوئے جاتے ہیں قیامت میں وہ سفید اور روشن ہوں گے، ان ہی کوغرامحجلین کہا گیا ہے۔ چمک بڑھانے کا مطلب یہ کہ ہاتھوں کو مونڈھوں تک اور پاؤں کو گھٹنے تک دھوئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بعض دفعہ ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ جب تک وضو ٹوٹنے کا پورا یقین نہ ہو محض شک کی وجہ سے نیا وضو نہ کرے

حدیث نمبر : 137
حدثنا علي، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا الزهري، عن سعيد بن المسيب، وعن عباد بن تميم، عن عمه، أنه شكا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الرجل الذي يخيل إليه أنه يجد الشىء في الصلاة‏.‏ فقال ‏"‏ لا ينفتل ـ أو لا ينصرف ـ حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا‏"‏‏. ‏
ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے زہری نے سعید بن المسیب کے واسطے سے نقل کیا، وہ عبادہ بن تمیم سے روایت کرتے ہیں، وہ اپنے چچا ( عبداللہ بن زید ) سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ ایک شخص ہے جسے یہ خیال ہوتا ہے کہ نماز میں کوئی چیز ( یعنی ہوا نکلتی ) معلوم ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( نماز سے ) نہ پھرے یا نہ مڑے، جب تک آواز نہ سنے یا بو نہ پائے۔

تشریح : اگر نماز پڑھتے ہوئے ہوا خارج ہونے کا شک ہو تومحض شک سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ جب تک ہوا خارج ہونے کی آواز یا اس کی بدبو معلوم نہ کرلے۔ باب کا یہی مقصد ہے۔ یہ حکم عام ہے خواہ نماز کے اندر ہو یانماز کے باہر۔ امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ اس حدیث سے ایک بڑا قاعدہ کلیہ نکلتا ہے کہ کوئی یقینی کام شک کی وجہ سے زائل نہ ہوگا۔ مثلاً ہرفرش یا ہرجگہ یا ہرکپڑا جو پاک صاف اور ستھرا ہو اب اگر کوئی اس کی پاکی میں شک کرے تو وہ شک غلط ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ ہلکا وضو کرنا بھی درست اور جائز ہے

اس کا مطلب یہ ہے کہ نمازی پانی اعضاء پر بہا لے، یا وضو میں وہ اعضاء کو صرف ایک ایک بار دھو لے۔ یا ان پر پانی کم ڈالے بوقت ضرورت یہ سب صورتیں جاءز ہین۔

حدیث نمبر : 138
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، عن عمرو، قال أخبرني كريب، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم نام حتى نفخ ثم صلى ـ وربما قال اضطجع حتى نفخ ـ ثم قام فصلى‏.‏ ثم حدثنا به سفيان مرة بعد مرة عن عمرو عن كريب عن ابن عباس قال بت عند خالتي ميمونة ليلة، فقام النبي صلى الله عليه وسلم من الليل، فلما كان في بعض الليل قام النبي صلى الله عليه وسلم فتوضأ من شن معلق وضوءا خفيفا ـ يخففه عمرو ويقلله ـ وقام يصلي فتوضأت نحوا مما توضأ، ثم جئت فقمت عن يساره ـ وربما قال سفيان عن شماله ـ فحولني فجعلني عن يمينه، ثم صلى ما شاء الله، ثم اضطجع، فنام حتى نفخ، ثم أتاه المنادي فآذنه بالصلاة، فقام معه إلى الصلاة، فصلى ولم يتوضأ‏.‏ قلنا لعمرو إن ناسا يقولون إن رسول الله صلى الله عليه وسلم تنام عينه ولا ينام قلبه‏.‏ قال عمرو سمعت عبيد بن عمير يقول رؤيا الأنبياء وحى، ثم قرأ ‏{‏إني أرى في المنام أني أذبحك‏}‏‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے عمرو کے واسطے سے نقل کیا، انھیں کریب نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لینے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور کبھی ( راوی نے یوں ) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے۔ پھر خراٹے لینے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اس کے بعد نماز پڑھی۔ پھر سفیان نے ہم سے دوسری مرتبہ یہی حدیث بیان کی عمرو سے، انھوں نے کریب سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ وہ کہتے تھے کہ ( ایک مرتبہ ) میں نے اپنی خالہ ( ام المؤمنین ) حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گزاری، تو ( میں نے دیکھا کہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے۔ جب تھوڑی رات باقی رہ گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر ایک لٹکے ہوئے مشکیزے سے ہلکا سا وضو کیا۔ عمرو اس کا ہلکا پن اور معمولی ہونا بیان کرتے تھے اور آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، تو میں نے بھی اسی طرح وضو کیا۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ پھر آ کر آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا اور کبھی سفیان نے عن یسارہ کی بجائے عن شمالہ کا لفظ کہا ( مطلب دونوں کا ایک ہی ہے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پھیر لیا اور اپنی داہنی جانب کر لیا۔ پھر نماز پڑھی جس قدر اللہ کو منظور تھا۔ پھر آپ لیٹ گئے اور سو گئے۔ حتی کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی۔ پھر آپ کی خدمت میں مؤذن حاضر ہوا اور اس نے آپ کو نماز کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ پھر آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ ( سفیان کہتے ہیں کہ ) ہم نے عمرو سے کہا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی تھیں، دل نہیں سوتا تھا۔ عمرو نے کہا میں نے عبید بن عمیر سے سنا، وہ کہتے تھے کہ انبیاء علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ پھر ( قرآن کی یہ ) آیت پڑھی۔ “ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ ”

رسول کریم نے رات کو جو وضوفرمایا تھا تویاتو تین مرتبہ ہرعضو کو نہیں دھویا، یا دھویا تو اچھی طرح ملا نہیں، بس پانی بہادیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ اس طرح بھی وضو ہو جاتا ہے۔ یہ بات صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی کہ نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ آپ کے علاوہ کسی بھی شخص کو لیٹ کریوں غفلت کی نیند آجائے تواس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ تخفیف وضو کا یہ بھی مطلب ہے کہ پانی کم استعمال فرمایا اور اعضاءوضو پر زیادہ پانی نہیں ڈالا۔
آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول ہے جو انھوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا تھا۔ عبید نے ثابت کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خواب کو وحی ہی سمجھا اسی لیے وہ اپنے لخت جگر کی قربانی کے لیے مستعد ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ پیغمبروں کا خواب بھی وحی الٰہی کا درجہ رکھتا ہے اور یہ کہ پیغمبر سوتے ہیں مگر ان کے دل جاگتے رہتے ہیں۔ عمرونے یہی پوچھا تھا۔ جسے عبیدنے ثابت فرمایا۔ وضو میں ہلکا پن سے مراد یہ کہ ایک ایک دفعہ دھویا اور ہاتھ پیروں کو پانی سے زیادہ نہیں ملا۔ بلکہ صرف پانی بہانے پر اقتصار کیا۔ ( فتح الباری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : وضو پورا کرنے کے بارے میں

وقال ابن عمر إسباغ الوضوء الإنقاء
“ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول ہے کہ وضو کا پورا کرنا اعضاء وضو کا صاف کرنا ہے ”

حدیث نمبر : 139
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن موسى بن عقبة، عن كريب، مولى ابن عباس عن أسامة بن زيد، أنه سمعه يقول دفع رسول الله صلى الله عليه وسلم من عرفة حتى إذا كان بالشعب نزل فبال، ثم توضأ ولم يسبغ الوضوء‏.‏ فقلت الصلاة يا رسول الله‏.‏ فقال ‏"‏ الصلاة أمامك‏"‏‏. ‏ فركب، فلما جاء المزدلفة نزل فتوضأ، فأسبغ الوضوء، ثم أقيمت الصلاة فصلى المغرب، ثم أناخ كل إنسان بعيره في منزله، ثم أقيمت العشاء فصلى ولم يصل بينهما‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے موسیٰ بن عقبہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انھوں نے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات سے واپس ہوئے۔ جب گھاٹی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( پہلے ) پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور خوب اچھی طرح نہیں کیا۔ تب میں نے کہا، یا رسول اللہ! نماز کا وقت ( آ گیا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : نماز، تمہارے آگے ہے ( یعنی مزدلفہ چل کر پڑھیں گے ) جب مزدلفہ میں پہنچے تو آپ نے خوب اچھی طرح وضو کیا، پھر جماعت کھڑی کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھی، پھر ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنی جگہ بٹھلایا، پھر عشاء کی جماعت کھڑی کی گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں پڑھی۔

پہلی مرتبہ آپ نے وضوصرف پاکی حاصل کرنے کے لیے کیاتھا۔ دوسری مرتبہ نماز کے لیے کیاتوخوب اچھی طرح کیا، ہراعضائے وضو کو تین تین باردھویا۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مزدلفہ میں مغرب وعشاءکوملا کر پڑھنا چاہئیے۔ اس رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آب زمزم سے وضو کیاتھا۔ جس سے آبِ زمزم سے وضو کرنا بھی ثابت ہوا۔ ( فتح الباری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دونوں ہاتھوں سے چہرے کا صرف ایک چلو (پانی) سے دھونا بھی جائز ہے

اس امر پر آگاہ کرنا مقصد ہے کہ دونوں ہاتھوں سے اکٹھے چلو بھرنا شرط نہیں ہے۔ ( فتح الباری )

حدیث نمبر : 140
حدثنا محمد بن عبد الرحيم، قال أخبرنا أبو سلمة الخزاعي، منصور بن سلمة قال أخبرنا ابن بلال ـ يعني سليمان ـ عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابن عباس، أنه توضأ فغسل وجهه، ثم أخذ غرفة من ماء، فمضمض بها واستنشق، ثم أخذ غرفة من ماء، فجعل بها هكذا، أضافها إلى يده الأخرى، فغسل بهما وجهه، ثم أخذ غرفة من ماء، فغسل بها يده اليمنى، ثم أخذ غرفة من ماء، فغسل بها يده اليسرى، ثم مسح برأسه، ثم أخذ غرفة من ماء فرش على رجله اليمنى حتى غسلها، ثم أخذ غرفة أخرى، فغسل بها رجله ـ يعني اليسرى ـ ثم قال هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ‏.‏
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے روایت کیا، انھوں نے کہا مجھ کو ابوسلمہ الخزاعی منصور بن سلمہ نے خبر دی، انھوں نے کہا ہم کو ابن بلال یعنی سلیمان نے زید بن اسلم کے واسطے سے خبر دی، انھوں نے عطاء بن یسار سے سنا، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ ( ایک مرتبہ ) انھوں نے ( یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ) وضو کیا تو اپنا چہرہ دھویا ( اس طرح کہ پہلے ) پانی کے ایک چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی دیا۔ پھر پانی کا ایک اور چلو لیا، پھر اس کو اس طرح کیا ( یعنی ) دوسرے ہاتھ کو ملایا۔ پھر اس سے اپنا چہرہ دھویا۔ پھر پانی کا دوسرا چلو لیا اور اس سے اپنا داہنا ہاتھ دھویا۔ پھر پانی کا ایک اور چلو لے کر اس سے اپنا بایاں ہاتھ دھویا۔ اس کے بعد اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر پانی کا چلو لے کر داہنے پاؤں پر ڈالا اور اسے دھویا۔ پھر دوسرے چلو سے اپنا پاؤں دھویا۔ یعنی بایاں پاؤں اس کے بعد کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

وفی ہذاالحدیث دلیل الجمع بین المضمضۃ والاستنشاق بغرفۃ واحدۃ یعنی اس حدیث میں ایک ہی چلو سے کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا ثابت ہوا۔ ( قسطلانی رحمہ اللہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ ہرحال میں بسم اللہ پڑھنایہاں تک کہ جماع کے وقت بھی ضروری ہے

حدیث نمبر : 141

حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا جرير، عن منصور، عن سالم بن أبي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لو أن أحدكم إذا أتى أهله قال بسم الله اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا‏.‏ فقضي بينهما ولد، لم يضره‏"‏‏. ‏

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے روایت کیا، انھوں نے سالم ابن ابی الجعد سے نقل کیا، وہ کریب سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ اس حدیث کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے کہ آپ نے فرمایا : “ جب تم میں سے کوئی اپنی بیوی سے جماع کرے تو کہے “ اللہ کے نام کے ساتھ شروع کرتا ہوں۔ اے اللہ! ہمیں شیطان سے بچا اور شیطان کو اس چیز سے دور رکھ جو تو ( اس جماع کے نتیجے میں ) ہمیں عطا فرمائے۔ ” یہ دعا پڑھنے کے بعد ( جماع کرنے سے ) میاں بیوی کو جو اولاد ملے گی اسے شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

تشریح : وضو کے شروع میں بسم اللہ کہنا اہل حدیث کے نزدیک ضروری ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب میں ذکر کردہ حدیث میں یہی ثابت فرمایا کہ جب جماع کے شروع میں بسم اللہ کہنا مشروع ہے تووضو میں کیوں کر مشروع نہ ہوگا وہ توایک عبادت ہے۔ ایک روایت میں ہے لاوضوءلمن لم یذکراسم اللہ علیہ جو بسم اللہ نہ پڑھے اس کا وضو نہیں۔ یہ روایت حضرت امام بخاری کی شرائط کے موافق نہ تھی اس لیے آپ نے اسے چھوڑکر اس حدیث سے استدلال فرماکر ثابت کیا کہ وضو کے شروع میں بسم اللہ ضروری ہے۔ ابن جریر نے جامع الآثار میں مجاہد سے روایت کیا ہے کہ جب کوئی مرداپنی بیوی سے جماع کرے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو شیطان بھی اس کی عورت سے جماع کرتا ہے۔ آیت قرآنی لم یطمثھن انس قبلہم ولاجان ( الرحمن: 56 ) میں اسی کی نفی ہے۔ ( قسطلانی رحمہ اللہ )

استاد العلماءشیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری حدیث لاوضوءلمن لم یذکراسم اللہ علیہ کے ذیل میں فرماتے ہیں: ای لایصح الوضوءولا یوجد شرعا الا بالتسمیۃ اذا لا صل فی التفی الحقیقۃ والنفی الصحۃ اقرب الی الذات واکثر لزوماً للحقیقۃ فیستلزم عدمہا عدم الذات ومالیس بصحیح لایجزی ولایعتد بہ فالحدیث نص علی افتراض التسمیۃ عندابتداءالوضوءوالیہ ذہب احمد فی روایۃ وہو قول اہل الظاہر وذہبت الشافعیۃ والحنفیۃ ومن وافقہم الی ان التسمیۃ سنۃ فقط واختار ابن الہمام من الحنفیۃ وجوبہا۔ ( مرعاۃ )
اس بیان کا خلاصہ یہی ہے کہ وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنا فرض ہے۔ امام احمد اور اصحاب ظواہر کا یہی مذہب ہے۔ حنفی وشافعی وغیرہ اسے سنت مانتے ہیں۔ مگرحنفیہ میں سے ایک بڑے عالم امام دین ہمام اس کے واجب ہونے کے قائل ہیں۔ علامہ ابن قیم نے اعلام میں بسم اللہ کے واجب ہونے پر پچاس سے بھی زائد دلائل پیش کئے ہیں۔

صاحب انوارالباری کا تبصرہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ صاحب انوارالباری نے ہر اختلافی مقام پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تنقیص کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ مگرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی جلالت علمی ایسی حقیقت ہے کہ کبھی نہ کبھی آپ کے کٹرمخالفوں کو بھی اس کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے۔ بحث مذکورہ میں صاحب انوارالباری کا تبصرہ اسکا ایک روشن ثبوت ہے۔ چنانچہ آپ استاد محترم حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد نقل کرتے ہیں۔ کہ آپ نے فرمایا۔

امام بخاری کا مقام رفیع: یہاں یہ چیز قابل لحاظ ہے کہ امام بخاری نے باوجود اپنے رجحان مذکور کے بھی ترجمۃ الباب میں وضو کے لیے تسمیہ کا ذکر نہیں کیاتاکہ اشارہ ان احادیث کی تحسین کی طرف نہ ہوجائے۔ جو وضو کے بارے میں مروی ہیں حتیٰ کہ انھوں نے حدیث ترمذی کو بھی ترجمۃ الباب میں ذکرکرنا موزوں نہیں سمجھا۔ اس سے امام بخاری کی “ جلالت قدر ورفعت مکانی ” معلوم ہوتی ہے کہ جن احادیث کو دوسرے محدثین تحت الابواب ذکر کرتے ہیں۔ ان کو امام اپنے تراجم اور عنوانات ابواب میں بھی ذکر نہیں کرتے۔ پھر یہاں چونکہ ان کے رجحان کے مطابق کوئی معتبر حدیث ان کے نزدیک نہیں تھی توانھوں نے عمومات سے تمسک کیا اور وضو کو ان کے نیچے داخل کیا اور جماع کا بھی ساتھ ذکرکیا۔ تاکہ معلوم ہوکہ خدا کا اسم معظم ذکرکرنا جماع سے قبل مشروع ہوا تو بدرجہ اولیٰ وضو سے پہلے بھی مشروع ہونا چاہئیے۔ گویایہ استدلال نظائر سے ہوا۔ ( انوار الباری، ج4، ص: 161 )

مخلصانہ مشورہ: صاحب انوارالباری نے جگہ جگہ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں لب کشائی کرتے ہوئے آپ کو غیرفقیہ، زودرنج وغیرہ وغیرہ طنزیات سے یادکیا۔ کیااچھا ہوکہ حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے بیان بالا کے مطابق آپ حضرت امام قدس سرہ کی شان میں تنقیص سے پہلے ذرا سوچ لیاکریں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی جلالت قدر ورفعت مکانی ایک اظہرمن الشمس حقیقت ہے۔ جس سے انکارکرنے والے خوداپنی ہی تنقیص کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ ہمارے محترم ناظرین میں سے شاید کوئی صاحب ہمارے بیان کو مبالغہ سمجھیں، اس لیے ہم ایک دو مثالیں پیش کردیتے ہیں۔ جن سے اندازہ ہوسکے گا کہ صاحب انوارالباری کے قلب میں حضرت امام المحدثین قدس سرہ کی طرف سے کس قدر تنگی ہے۔

بخاری ومسلم میں مبتدعین واصحاب اہواءکی روایات: آج تک دنیائے اسلام یہی سمجھتی چلی آرہی ہے کہ صحیح بخاری اور پھر صحیح مسلم نہایت ہی معتبر کتابیں ہیں۔ خصوصاً قرآن مجید کے بعد اصح الکتب بخاری شریف ہے۔ مگرصاحب انوارالباری کی رائے میں بخاری ومسلم میں بعض جگہ مبتدعین واہل اہواءجیسے بدترین قسم کے لوگوں کی روایات بھی موجود ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
“ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کسی بدعتی سے خواہ وہ کیسا ہی پاک باز وراست باز ہو حدیث کی روایت کے روادار نہیں برخلاف اس کے بخاری ومسلم میں مبتدعین اور بعض اصحاب اہواءکی روایات بھی لی گئی ہیں۔ اگرچہ ان میں ثقہ اور صادق اللہجہ ہونے کی شرط ورعایت ملحوظ رکھی گئی ہے۔ ” ( انوارالباری،ج4،ص: 53 )
مقام غورہے کہ سادہ لوح حضرات صاحب انورالباری کے اس بیان کے نتیجہ میں بخاری ومسلم کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گے۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ آپ نے محض غلط بیانی کی ہے، آگے اگر آپ بخاری ومسلم کے مبتدعین اور اہل اہواءکی کوئی فہرست پیش کریں گے تواس بارے میں تفصیل سے لکھا جائے گا اور آپ کے افتراء پر وضاحت سے روشنی ڈالی جائے گی۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور آپ کی جامع کامقام گرانے کی ایک اور مذموم کوشش: حبک الشئی یعمی ویصم کسی چیز کی حد سے زیادہ محبت انسان کواندھا اور بہرا بنادیتی ہے۔ صدافسوس کہ صاحب انوارالباری نے اس حدیث نبوی کی بالکل تصدیق فرمادی ہے۔ بخاری شریف کا مقام گرانے اور حضرت امیرالمحدثین کی نیت پر حملہ کرنے کے لیے آپ بڑے ہی محققانہ انداز میں فرماتے ہیں:
“ ہم نے ابھی بتلایاکہ امام اعظم کی کتاب الآثار مذکورمیں صرف احادیث کی تعداد چار ہزار تک پہنچتی ہے، اس کے مقابلہ میں جامع صحیح بخاری کے تمام ابواب غیرمکرر موصول احادیث مرویہ کی تعداد 2353 سب تصریح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ہے۔ اور مسلم شریف کی کل ابواب کی احادیث مرویہ چارہزارہیں۔ ابوداؤد کی4800 اور ترمذی شریف کی پانچ ہزار۔ اس سے معلوم ہوا کہ احادیث احکام کا سب سے بڑا ذخیرہ کتاب الآثار امام اعظم پھر ترمذی وابوداؤد میں ہے۔ مسلم میں ان سے کم، بخاری میں ان سب سے کم ہے۔ جس کی وجہ یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ صرف اپنے اجتہاد کے موافق احادیث ذکر کرتے ہیں۔ ” ( انوارالباری،ج4،ص: 53 )
حضرت امام بخاری کا مقام رفیع اور ان کی جلالت قدرورفعت مکانی کا ذکر بھی آپ صاحب انوار الباری کی قلم سے ابھی پڑھ چکے ہیں اور جامع الصحیح اور خود حضرت امام بخاری کے متعلق آپ کا یہ بیان بھی ناظرین کے سامنے ہے۔ جس میں آپ نے کھلے لفظوں میں بتلایا کہ امام بخاری نے صرف اپنے اجتہاد کو صحیح ثابت کرنے کے لیے اپنی حسب منشاءاحادیث نبوی جمع کی ہیں۔ صاحب انوار الباری کا یہ حملہ اس قدر سنگین ہے کہ اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ تاہم متانت وسنجیدگی سے کام لیتے ہوئے ہم کوئی منتقمانہ انکشاف نہیں کریں گے۔ ورنہ حقیقت یہی ہے کہ الاناءیترشح بمافیہ برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی اس سے ٹپکتا ہے۔ حضرت والا خود ذخائر احادیث نبوی کو اپنے مفروضات مسلکی کے سانچے میں ڈھالنے کے لیے کمربستہ ہوئے ہیں۔ سوآپ کو حضرت امام بخاری قدس سرہ بھی ایسے ہی نظر آتے ہیں۔ سچ ہے المرءیقیس علی نفسہ۔
 
Top