• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ پورے سر کا مسح کرنا ضروری ہے

لقول الله تعالى ‏{‏وامسحوا برءوسكم‏}‏‏.‏ وقال ابن المسيب المرأة بمنزلة الرجل تمسح على رأسها‏.‏ وسئل مالك أيجزئ أن يمسح بعض الرأس فاحتج بحديث عبد الله بن زيد‏.‏
کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ “ اپنے سروں کا مسح کرو۔ ” اور ابن مسیب نے کہا ہے کہ سر کا مسح کرنے میں عورت مرد کی طرح ہے۔ وہ ( بھی ) اپنے سر کا مسح کرے۔ امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ کیا کچھ حصہ سر کا مسح کرنا کافی ہے؟ تو انھوں نے دلیل میں عبداللہ بن زید کی ( یہ ) حدیث پیش کی، یعنی پورے سر کا مسح کرنا چاہیے۔

حدیث نمبر : 185
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن عمرو بن يحيى المازني، عن أبيه، أن رجلا، قال لعبد الله بن زيد ـ وهو جد عمرو بن يحيى ـ أتستطيع أن تريني، كيف كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ فقال عبد الله بن زيد نعم‏.‏ فدعا بماء، فأفرغ على يديه فغسل يده مرتين، ثم مضمض واستنثر ثلاثا، ثم غسل وجهه ثلاثا، ثم غسل يديه مرتين مرتين إلى المرفقين، ثم مسح رأسه بيديه، فأقبل بهما وأدبر، بدأ بمقدم رأسه، حتى ذهب بهما إلى قفاه، ثم ردهما إلى المكان الذي بدأ منه، ثم غسل رجليه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو امام مالک نے عمرو بن یحییٰ المازنی سے خبر دی، وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ جو عمرو بن یحییٰ کے دادا ہیں، سے پوچھا کہ کیا آپ مجھے دکھا سکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح وضو کیا ہے؟ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں! پھر انھوں نے پانی کا برتن منگوایا پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر ڈالا اور دو مرتبہ ہاتھ دھوئے۔ پھر تین مرتبہ کلی کی، تین بار ناک صاف کی، پھر تین دفعہ اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو مرتبہ دھوئے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کا مسح کیا۔ اس طور پر اپنے ہاتھ ( پہلے ) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے۔ ( مسح ) سر کے ابتدائی حصے سے شروع کیا۔ پھر دونوں ہاتھ گدی تک لے جا کر وہیں واپس لائے جہاں سے ( مسح ) شروع کیا تھا، پھر اپنے پیر دھوئے۔

تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ پورے سرکا مسح کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ اللہ پاک نے اپنے ارشاد ( المائدۃ: 6 ) میں کوئی حد مقرر نہیں کی کہ آدھے سر یاچوتھائی سر کا مسح کرو۔ جیسے ہاتھوں میں کہنیوں تک اور پیروں میں ٹخنوں تک کی قید موجود ہے تومعلوم ہوا کہ سارے سر کا مسح فرض ہے جب سر پر عمامہ نہ ہو اور اگرعمامہ ہو تو پیشانی سے مسح شروع کرکے عمامہ پر ہاتھ پھیر لینا کافی ہے۔ عمامہ اتارنا ضروری نہیں۔ حدیث کی رو سے یہی مسلک صحیح ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ ٹخنوں تک پاؤں دھونا ضروری ہے

حدیث نمبر : 186
حدثنا موسى، قال حدثنا وهيب، عن عمرو، عن أبيه، شهدت عمرو بن أبي حسن سأل عبد الله بن زيد عن وضوء النبي، صلى الله عليه وسلم فدعا بتور من ماء، فتوضأ لهم وضوء النبي صلى الله عليه وسلم فأكفأ على يده من التور، فغسل يديه ثلاثا، ثم أدخل يده في التور، فمضمض واستنشق واستنثر ثلاث غرفات، ثم أدخل يده فغسل وجهه ثلاثا، ثم أدخل يده فغسل يديه مرتين إلى المرفقين مرتين، ثم أدخل يده فمسح رأسه، فأقبل بهما وأدبر مرة واحدة، ثم غسل رجليه إلى الكعبين‏.‏
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، انھوں نے عمرو سے، انھوں نے اپنے باپ ( یحییٰ ) سے خبر دی، انھوں نے کہا کہ میری موجودگی میں عمرو بن حسن نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے پانی کا طشت منگوایا اور ان ( پوچھنے والوں ) کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سا وضو کیا۔ ( پہلے طشت سے ) اپنے ہاتھوں پر پانی گرایا۔ پھر تین بار ہاتھ دھوئے، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا ( اور پانی لیا ) پھر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، ناک صاف کی، تین چلوؤں سے، پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور تین مرتبہ منہ دھویا۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو بار دھوئے۔ پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈالا اور سر کا مسح کیا۔ ( پہلے ) آگے لائے پھر پیچھے لے گئے، ایک بار۔ پھر ٹخنوں تک اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : لوگوں کے وضو کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا

وأمر جرير بن عبد الله أهله أن يتوضئوا بفضل سواكه‏.‏
جریر بن عبداللہ نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کے مسواک کے بچے ہوئے پانی سے وضو کر لیں۔
یعنی مسواک جس پانی میں ڈوبی رہتی تھی، اس پانی سے گھر کے لوگوں کو بخوشی و ضو کرنے کے لیے کہتے تھے۔

حدیث نمبر : 187
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا الحكم، قال سمعت أبا جحيفة، يقول خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بالهاجرة، فأتي بوضوء فتوضأ، فجعل الناس يأخذون من فضل وضوئه فيتمسحون به، فصلى النبي صلى الله عليه وسلم الظهر ركعتين والعصر ركعتين، وبين يديه عنزة‏.‏
ہم سے آدم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حکم نے بیان کیا، انھوں نے ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ ( ایک دن ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس دوپہر کے وقت تشریف لائے تو آپ کے لیے وضو کا پانی حاضر کیا گیا جس سے آپ نے وضو فرمایا۔ لوگ آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی لے کر اسے ( اپنے بدن پر ) پھیرنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی بھی دو رکعتیں اور آپ کے سامنے ( آڑ کے لیے ) ایک نیزہ تھا۔

حدیث نمبر : 188
وقال أبو موسى دعا النبي صلى الله عليه وسلم بقدح فيه ماء، فغسل يديه ووجهه فيه، ومج فيه ثم قال لهما اشربا منه، وأفرغا على وجوهكما ونحوركما‏.
( اور ایک دوسری حدیث میں ) ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگوایا۔ جس میں پانی تھا۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ دھوئے اور اسی پیالہ میں منہ دھویا اور اس میں کلی فرمائی، پھر فرمایا، تو تم لوگ اس کو پی لو اور اپنے چہروں اور سینوں پر ڈال لو۔

تشریح : اس سے معلوم ہوا کہ انسان کا جھوٹا پانی ناپاک نہیں۔ جیسے کہ آپ کی کلی کا پانی کہ اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پی لینے کا حکم فرمایا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مستعمل پانی پاک ہے۔

حدیث نمبر : 189

حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، قال حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال أخبرني محمود بن الربيع، قال وهو الذي مج رسول الله صلى الله عليه وسلم في وجهه وهو غلام من بئرهم‏.‏ وقال عروة عن المسور وغيره يصدق كل واحد منهما صاحبه وإذا توضأ النبي صلى الله عليه وسلم كادوا يقتتلون على وضوئه‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے، کہا ہم سے میرے باپ نے، انھوں نے صالح سے سنا۔ انھوں نے ابن شہاب سے، کہا انھیں محمود بن الربیع نے خبر دی، ابن شہاب کہتے ہیں محمود وہی ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کے کنویں ( کے پانی ) سے ان کے منہ میں کلی ڈالی تھی اور عروہ نے اسی حدیث کو مسور وغیرہ سے بھی روایت کیا ہے اور ہر ایک ( راوی ) ان دونوں میں سے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے تھے تو آپ کے بچے ہوئے وضو کے پانی پر صحابہ رضی اللہ عنہم جھگڑنے کے قریب ہو جاتے تھے۔

تشریح : یہ ایک طویل حدیث کا حصہ ہے جو کتاب الشروط میں نقل کی ہے اور یہ صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے جب مشرکوں کی طرف سے عروہ بن مسعود ثقفی آپ سے گفتگو کرنے آیا تھا۔ اس نے واپس ہوکر مشرکین مکہ سے صحابہ کرام کی جان نثاری کو والہانہ انداز میں بیان کرتے ہوئے بتلایا کہ وہ ایسے سچے فدائی ہیں کہ آپ کے وضو سے جو پانی بچ رہتا ہے اس کو لینے کے لیے ایسے دوڑتے ہیں گویا قریب ہے کہ لڑمریں گے۔ اس سے بھی آبِ مستعمل کا پاک ہونا ثابت ہوا۔

حدیث نمبر : 190
حدثنا عبد الرحمن بن يونس، قال حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن الجعد، قال سمعت السائب بن يزيد، يقول ذهبت بي خالتي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله، إن ابن أختي وجع‏.‏ فمسح رأسي ودعا لي بالبركة، ثم توضأ فشربت من وضوئه، ثم قمت خلف ظهره، فنظرت إلى خاتم النبوة بين كتفيه مثل زر الحجلة‏.‏
ہم سے عبدالرحمن بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے جعد کے واسطے سے بیان کیا، کہا انھوں نے سائب بن یزید سے سنا، وہ کہتے تھے کہ میری خالہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرا یہ بھانجا بیمار ہے، آپ نے میرے سر پر اپنا ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا فرمائی، پھر آپ نے وضو کیا اور میں نے آپ کے وضو کا بچا ہوا پانی پیا۔ پھر میں آپ کی کمر کے پیچھے کھڑا ہو گیا اور میں نے مہر نبوت دیکھی جو آپ کے مونڈھوں کے درمیان ایسی تھی جیسے چھپر کھٹ کی گھنڈی۔ ( یا کبوتر کا انڈا )

وضو کا بچا ہوا پانی پاک تھا تب ہی تواسے پیاگیا۔ پس جو لوگ آبِ مستعمل کو ناپاک کہتے ہیں وہ بالکل غلط کہتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی دینے کے بیان میں

حدیث نمبر : 191
حدثنا مسدد، قال حدثنا خالد بن عبد الله، قال حدثنا عمرو بن يحيى، عن أبيه، عن عبد الله بن زيد، أنه أفرغ من الإناء على يديه فغسلهما، ثم غسل أو مضمض، واستنشق من كفة واحدة، ففعل ذلك ثلاثا، فغسل يديه إلى المرفقين مرتين مرتين، ومسح برأسه ما أقبل وما أدبر، وغسل رجليه إلى الكعبين، ثم قال هكذا وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ ( یحییٰ ) کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ ( وضو کرتے وقت ) انھوں نے برتن سے ( پہلے ) اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ پھر انھیں دھویا۔ پھر دھویا۔ ( یا یوں کہا کہ ) کلی کی اور ناک میں ایک چلو سے پانی ڈالا۔ اور تین مرتبہ اسی طرح کیا۔ پھر تین مرتبہ اپنا چہرہ دھویا پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے۔ پھر سر کا مسح کیا۔ اگلی جانب اور پچھلی جانب کا اور ٹخنوں تک اپنے دونوں پاؤں دھوئے، پھر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو اسی طرح ہوا کرتا تھا۔

یہ شک امام بخاری کے استاد شیخ مسدد سے ہوا ہے۔ مسلم کی روایت میں شک نہیں ہے۔ صاف یوں مذکور ہے کہ اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا پھر اسے نکالا اور کلی کی حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سرکا مسح ایک بار کرنے کے بیان میں

حدیث نمبر : 192
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا وهيب، قال حدثنا عمرو بن يحيى، عن أبيه، قال شهدت عمرو بن أبي حسن سأل عبد الله بن زيد عن وضوء النبي، صلى الله عليه وسلم فدعا بتور من ماء، فتوضأ لهم، فكفأ على يديه فغسلهما ثلاثا، ثم أدخل يده في الإناء، فمضمض واستنشق، واستنثر ثلاثا بثلاث غرفات من ماء، ثم أدخل يده في الإناء، فغسل وجهه ثلاثا، ثم أدخل يده في الإناء، فغسل يديه إلى المرفقين مرتين مرتين، ثم أدخل يده في الإناء، فمسح برأسه فأقبل بيديه وأدبر بهما، ثم أدخل يده في الإناء فغسل رجليه‏.‏ وحدثنا موسى قال حدثنا وهيب قال مسح رأسه مرة‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ ( یحییٰ ) کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میری موجودگی میں عمرو بن حسن نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بارے میں پوچھا۔ تو عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے پانی کا ایک طشت منگوایا، پھر ان ( لوگوں ) کے دکھانے کے لیے وضو ( شروع کیا )۔ ( پہلے ) طشت سے اپنے ہاتھوں پر پانی گرایا۔ پھر انھیں تین بار دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ برتن کے اندر ڈالا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر ناک صاف کی، تین چلوؤں سے تین دفعہ۔ پھر اپنا ہاتھ برتن کے اندر ڈالا اور اپنے منہ کو تین بار دھویا۔ پھر اپنا ہاتھ برتن کے اندر ڈالا اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو دو بار دھوئے ( پھر ) سر پر مسح کیا اس طرح کہ ( پہلے ) آگے کی طرف اپنا ہاتھ لائے پھر پیچھے کی طرف لے گئے۔ پھر برتن میں اپنا ہاتھ ڈالا اور اپنے دونوں پاؤں دھوئے ( دوسری روایت میں ) ہم سے موسیٰ نے، ان سے وہیب نے بیان کیا کہ آپ نے سر کا مسح ایک دفعہ کیا۔

تشریح : معلوم ہوا کہ ایک بار تو وضو میں دھوئے جانے والے ہر عضو کا دھونا فرض ہے۔ دومرتبہ دھونا کافی ہے اور تین مرتبہ دھونا سنت ہے۔ اسی طرح کلی اور ناک میں پانی ایک چلو سے سنت ہے۔ سر کا مسح ایک بار کرنا چاہئیے، دوبار یاتین بار نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ وضوکرنا اور عورت کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا جائز ہے

وتوضأ عمر بالحميم من بيت نصرانية‏.
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گرم پانی سے اور عیسائی عورت کے گھر کے پانی سے وضو کیا۔
تشریح : یہ دوجداجدااثر ہیں پہلے کو سعید بن منصور نے اور دوسرے کو شافعی اور عبدالرزاق نے نکالا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض صرف یہ ہے کہ جیسے بعض لوگ عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت کرنا منع سمجھتے تھے، اسی طرح گرم پانی سے یاکافر کے گھر کے پانی سے بھی منع سمجھتے تھے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ گرم پانی سے بھی اور کافر کے گھر کے پانی سے بھی بشرطیکہ اس کا پاک ہونا یقینی ہو، طہارت کی جا سکتی ہے۔

حدیث نمبر : 193
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، أنه قال كان الرجال والنساء يتوضئون في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم جميعا‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے نافع سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورت اور مرد سب ایک ساتھ ( ایک ہی برتن سے ) وضو کیا کرتے تھے۔ ( یعنی وہ مرد اور عورتیں جو ایک دوسرے کے محرم ہوتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بے ہوش آدمی پر اپنے وضو کا پانی چھڑکنے کے بیان میں

حدیث نمبر : 194
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، عن محمد بن المنكدر، قال سمعت جابرا، يقول جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني، وأنا مريض لا أعقل، فتوضأ وصب على من وضوئه، فعقلت فقلت يا رسول الله لمن الميراث إنما يرثني كلالة‏.‏ فنزلت آية الفرائض‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے محمد بن المنکدر کے واسطے سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میں بیمار تھا ایسا کہ مجھے ہوش تک نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، تو مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میرا وارث کون ہو گا؟ میرا تو صرف ایک کلالہ۔ وارث ہے۔ اس پر آیت میراث نازل ہوئی۔

کلالہ اس کو کہتے ہیں جس کا نہ باپ دادا ہو، نہ اس کی اولاد ہو۔ باب کی مناسبت اس سے ظاہر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کا بچا ہوا پانی جابر پر ڈالا۔ اگریہ ناپاک ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ڈالتے۔ آیت یوں ہے۔ یستفتونک قل اللہ یفتیکم فی الکلٰلۃ ( النساء: 176 ) تفصیلی ذکر کتاب التفسیر میں آئے گا۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : لگن، پیالے، لکڑی اور پتھر کے برتن سے غسل اور وضو کرنے کے بیان میں

حدیث نمبر : 195
حدثنا عبد الله بن منير، سمع عبد الله بن بكر، قال حدثنا حميد، عن أنس، قال حضرت الصلاة، فقام من كان قريب الدار إلى أهله، وبقي قوم، فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بمخضب من حجارة فيه ماء، فصغر المخضب أن يبسط فيه كفه، فتوضأ القوم كلهم‏.‏ قلنا كم كنتم قال ثمانين وزيادة‏.‏
ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن بکر سے سنا، کہا ہم کو حمید نے یہ حدیث بیان کی۔ انھوں نے انس سے نقل کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ ) نماز کا وقت آ گیا، تو جس شخص کا مکان قریب ہی تھا وہ وضو کرنے اپنے گھر چلا گیا اور کچھ لوگ ( جن کے مکان دور تھے ) رہ گئے۔ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پتھر کا ایک لگن لایا گیا۔ جس میں کچھ پانی تھا اور وہ اتنا چھوٹا تھا کہ آپ اس میں اپنی ہتھیلی نہیں پھیلا سکتے تھے۔ ( مگر ) سب نے اس برتن کے پانی سے وضو کر لیا، ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تم کتنے نفر تھے؟ کہا اسی ( 80 ) سے کچھ زیادہ ہی تھے۔

تشریح : یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ اتنی قلیل مقدار سے اتنے لوگوں نے وضو کرلیا۔

حدیث نمبر : 196
حدثنا محمد بن العلاء، قال حدثنا أبو أسامة، عن بريد، عن أبي بردة، عن أبي موسى، أن النبي صلى الله عليه وسلم دعا بقدح فيه ماء، فغسل يديه ووجهه فيه ومج فيه‏.‏
ہم سے محمد بن العلاء نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابواسامہ نے برید کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابوبردہ سے، وہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگایا جس میں پانی تھا۔ پھر اس میں آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرے کو دھویا اور اسی میں کلی کی۔

گو اس حدیث میں وضو کرنے کا ذکر نہیں۔ مگر منہ ہاتھ دھونے کے ذکر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا ہی وضو کیاتھا اور راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ باب کا مطلب نکلنا ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 197

حدثنا أحمد بن يونس، قال حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة، قال حدثنا عمرو بن يحيى، عن أبيه، عن عبد الله بن زيد، قال أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخرجنا له ماء في تور من صفر فتوضأ، فغسل وجهه ثلاثا ويديه مرتين مرتين، ومسح برأسه فأقبل به وأدبر، وغسل رجليه‏.‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبداللہ بن زید سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ہمارے گھر ) تشریف لائے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تانبے کے برتن میں پانی نکالا۔ ( اس سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا۔ تین بار چہرہ دھویا، دو دو بار ہاتھ دھوئے اور سر کا مسح کیا۔ ( اس طرح کہ ) پہلے آگے کی طرف ( ہاتھ ) لائے۔ پھر پیچھے کی جانب لے گئے اور پیر دھوئے۔

تشریح : معلوم ہوا کہ تانبے کے برتن میں پانی لے کر اس سے وضو کرنا جائز ہے۔

حدیث نمبر : 198
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، أن عائشة، قالت لما ثقل النبي صلى الله عليه وسلم واشتد به وجعه، استأذن أزواجه في أن يمرض في بيتي، فأذن له، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم بين رجلين تخط رجلاه في الأرض بين عباس ورجل آخر‏.‏ قال عبيد الله فأخبرت عبد الله بن عباس فقال أتدري من الرجل الآخر قلت لا‏.‏ قال هو علي‏.‏ وكانت عائشة ـ رضى الله عنها ـ تحدث أن النبي صلى الله عليه وسلم قال بعد ما دخل بيته واشتد وجعه ‏"‏ هريقوا على من سبع قرب، لم تحلل أوكيتهن، لعلي أعهد إلى الناس‏"‏‏. ‏ وأجلس في مخضب لحفصة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ثم طفقنا نصب عليه تلك حتى طفق يشير إلينا أن قد فعلتن، ثم خرج إلى الناس‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی تحقیق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ کی بیماری زیادہ ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ( دوسری ) بیویوں سے اس بات کی اجازت لے لی کہ آپ کی تیمارداری میرے ہی گھر کی جائے۔ انھوں نے آپ کو اجازت دے دی، ( ایک روز ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کے درمیان ( سہارا لے کر ) گھر سے نکلے۔ آپ کے پاؤں ( کمزوری کی وجہ سے ) زمین پر گھسٹتے جاتے تھے، حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک آدمی کے درمیان ( آپ باہر ) نکلے تھے۔ عبیداللہ ( راوی حدیث ) کہتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو سنائی، تو وہ بولے، تم جانتے ہو دوسرا آدمی کون تھا، میں نے عرض کیا کہ نہیں۔ کہنے لگے وہ علی رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی تھیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوئے اور آپ کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ نے فرمایا میرے اوپر ایسی سات مشکوں کا پانی ڈالو، جن کے سربند نہ کھولے گئے ہوں۔ تا کہ میں ( سکون کے بعد ) لوگوں کو کچھ وصیت کروں۔ ( چنانچہ ) آپ کو حضرت حفصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( دوسری ) بیوی کے لگن میں ( جو تانبے کا تھا ) بیٹھا دیا گیا اور ہم نے آپ پر ان مشکوں سے پانی بہانا شروع کیا۔ جب آپ ہم کو اشارہ فرمانے لگے کہ بس اب تم نے اپنا کام پورا کر دیا تو اس کے بعد آپ لوگوں کے پاس باہر تشریف لے گئے۔

تشریح : بعض تیز بخاروں میں ٹھنڈے پانی سے مریض کو غسل دلانا بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔ آج کل برف بھی ایسے مواقع پر سر اور جسم پر رکھی جاتی ہے۔ باب میں جن جن برتنوں کا ذکر تھا احادیث مذکورہ میں ان سب سے وضو کرنا ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : طشت سے ( پانی لے کر ) وضو کرنے کے بیان میں

حدیث نمبر : 199
حدثنا خالد بن مخلد، قال حدثنا سليمان، قال حدثني عمرو بن يحيى، عن أبيه، قال كان عمي يكثر من الوضوء، قال لعبد الله بن زيد أخبرني كيف رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يتوضأ فدعا بتور من ماء، فكفأ على يديه فغسلهما ثلاث مرار، ثم أدخل يده في التور، فمضمض واستنثر ثلاث مرات من غرفة واحدة، ثم أدخل يده فاغترف بها فغسل وجهه ثلاث مرات، ثم غسل يديه إلى المرفقين مرتين مرتين، ثم أخذ بيده ماء، فمسح رأسه، فأدبر بيديه وأقبل ثم غسل رجليه، فقال هكذا رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يتوضأ‏.‏
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سلیمان نے، کہا مجھ سے عمرو بن یحییٰ نے اپنے باپ ( یحییٰ ) کے واسطے سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میرے چچا بہت زیادہ وضو کیا کرتے تھے ( یا یہ کہ وضو میں بہت پانی بہاتے تھے ) ایک دن انھوں نے عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے بتلائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح وضو کیا کرتے تھے۔ انھوں نے پانی کا ایک طشت منگوایا۔ اس کو ( پہلے ) اپنے ہاتھوں پر جھکایا۔ پھر دونوں ہاتھ تین بار دھوئے۔ پھر اپنا ہاتھ طشت میں ڈال کر ( پانی لیا اور ) ایک چلو سے کلی کی اور تین بار اپنا چہرہ دھویا۔ پھر کہنیوں تک اپنے دونوں ہاتھ دو دو بار دھوئے۔ پھر ہاتھ میں پانی لے کر اپنے سر کا مسح کیا۔ تو ( پہلے اپنے ہاتھ ) پیچھے لے گئے، پھر آگے کی طرف لائے۔ پھر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ اور فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث لاکر یہاں طشت سے براہِ راست وضو کرنے کا جواز ثابت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 200
حدثنا مسدد، قال حدثنا حماد، عن ثابت، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم دعا بإناء من ماء، فأتي بقدح رحراح فيه شىء من ماء، فوضع أصابعه فيه‏.‏ قال أنس فجعلت أنظر إلى الماء ينبع من بين أصابعه، قال أنس فحزرت من توضأ ما بين السبعين إلى الثمانين‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد نے، وہ ثابت سے، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک برتن طلب فرمایا۔ تو آپ کے لیے ایک چوڑے منہ کا پیالہ لایا گیا جس میں کچھ تھوڑا پانی تھا، آپ نے اپنی انگلیاں اس میں ڈال دیں۔ انس کہتے ہیں کہ میں پانی کی طرف دیکھنے لگا۔ پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہا تھا۔ انس کہتے ہیں کہ اس ( ایک پیالہ ) پانی سے جن لوگوں نے وضو کیا، وہ ستر سے اسی تک تھے۔

یہ حدیث پہلے بھی آ چکی ہے یہاں اس برتن کی حضوصیت یہ ذکر کی ہے۔ کہ وہ چوڑے منہ کا پھیلا ہوا برتن تھا۔ جس میں پانی کی مقدار کم آتی ہے۔ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ اتنی کم مقدار سے اسی آدمیوں نے وضو کر لیا
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مد سے وضو کرنے کے بیان میں

حدیث نمبر : 201
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا مسعر، قال حدثني ابن جبر، قال سمعت أنسا، يقول كان النبي صلى الله عليه وسلم يغسل ـ أو كان يغتسل ـ بالصاع إلى خمسة أمداد، ويتوضأ بالمد‏.‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے، کہا مجھ سے ابن جبیر نے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب دھوتے یا ( یہ کہا کہ ) جب نہاتے تو ایک صاع سے لے کر پانچ مد تک ( پانی استعمال فرماتے تھے ) اور جب وضو فرماتے تو ایک مد ( پانی ) سے۔

تشریح : ایک پیمانہ عرب میں رائج تھا جس میں ایک رطل اور تہائی رطل آتا تھا، اسے مد کہا کرتے تھے۔ اس حدیث کی روشنی میں سنت یہ ہے کہ وضو ایک مد پانی سے کم سے نہ کرے اور غسل ایک صاع پانی سے کم سے نہ کرے۔ صاع چارمد کا ہوتا ہے اور یک رطل اور تہائی رطل کا ہمارے ملک کے وزن سے صاع سوادو سیر ہوتا ہے اور مد آدھ سیر سے کچھ زیادہ۔ دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وضومیں دورطل پانی کافی ہے۔ صحیح یہ ہے کہ باختلاف اشخاص وحالات یہ مقدار مختلف ہوئی ہے۔ پانی میں اسراف کرنا اور بے ضرورت بہانا بہرحال منع ہے۔ بہتر یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے تجاوز نہ کیا جائے۔

باب اور روایت کردہ حدیث سےظاہر ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ وضو اور غسل میں تعیین مقدار کے قائل ہیں۔ ائمہ حنفیہ میں سے حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ بھی تعیین مقدار کے قائل اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ہم نوا ہیں۔
علامہ ابن قیم نے اغاثۃ اللہفان میں بڑی تفصیل کے ساتھ ان وسواس والے لوگوں کا رد کیا ہے جو وضو اور غسل میں مقدار نبوی کو بنظر تخفیف دیکھتے ہوئے تکثیر ماء پر عامل ہوتے ہیں۔ یہ شیطان کا ایک مکرہے جس میں یہ لوگ بری طرح سے گرفتار ہوئے ہیں اور بجائے ثواب کے مستحق عذاب بنتے ہیں۔ تفصیل کے لیے تہذیب الایمان ترجمہ اغاثۃ اللہفان مطبوعہ بریلی کا ص: 146ملاحظہ کیا جائے۔
اوپر جس صاع کا ذکر ہوا ہے اسے صاع حجازی کہا جاتا ہے، صاع عراقی جو حنفیہ کا معمول ہے وہ آٹھ رطل اور ہندوستانی حساب سے وہ صاع عراقی تین سیرچھ چھٹانک بنتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں صاع حجازی ہی مروج تھا۔ فخرالمحدثین حضرت علامہ عبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ والحاصل انہ لم یقم دلیل صحیح علی ماذہب الیہ ابوحنیفۃ من ان المدرطلان ولذلک ترک الامام ابویوسف مذہبہ واختار ماذہب الیہ جمہور اہل العلم ان المدرطل و ثلث رطل قال البخاری فی صحیحہ باب صاع المدینۃ ومدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وبرکتہ و ماتوارث اہل المدینۃ من ذلک قرنا بعدقرن انتہی الی آخرہ۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 59, 60 ) خلاصہ یہ کہ مد کے وزن دورطل ہونے پر جیسا کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مذہب ہے کوئی صحیح دلیل قائم نہیں ہوئی۔ اسی لیے حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے جو حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اولین شاگرد رشید ہیں، انھوں نے صاع کے بارے میں حنفی مذہب چھوڑ کر جمہور اہل علم کا مذہب اختیار فرمالیاتھا کہ بلاشک مدرطل اور ثلث رطل کا ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے جامع الصحیح میں صاع المدینہ اور مدالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عنوان سے باب منعقد کیا ہے اور بتلایا ہے کہ یہی برکت والا صاع تھا جومدینہ میں بڑوں سے چھوٹوں تک بطور ورثہ کے نقل ہوتا رہا۔ حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ جب مدینہ المنورہ تشریف لائے اور امام دارالہجرۃ حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے ملاقات فرمائی تو صاع کے بارے میں ذکر چل پڑا۔ جس پر حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے آٹھ رطل والا صاع پیش کیا۔ جسے سن کر حضرت امام مالک رحمہ اللہ اپنے گھر تشریف لے گئے اور ایک صاع لے کر آئے اور فرمایاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمولہ صاع یہی ہے۔ جسے وزن کرنے پر پانچ رطل اور ثلث کا پایاگیا۔ حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ نے اسی وقت صاع عراقی سے رجوع فرماکر صاع مدنی کو اپنا مذہب قرار دیا۔
تعجب ہے کہ بعض علماءاحناف نے حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے اس واقعہ کا انکار فرمایا ہے۔ حالانکہ حضرت امام بیہقی اور حضرت امام ابن خزیمہ اور حاکم نے اسانید صحیحہ کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کی سب سے بڑی دلیل خود حضرت امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے
جسے علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ نے تحفۃ الاحوذی،جلداول، ص: 60 پر بایں الفاظ نقل فرمایا ہے۔
واخرج الطحاوی فی شرح الآثار قال حدثنا ابن ابی عمران قال اخبرنا علی بن صالح وبشربن الولید جمیعا عن ابی یوسف قال قدمت المدینۃ فاخرج الی من اثق بہ صاعافقال ہذا صاع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقدرتہ فوجدتہ خمسۃ ارطال وثلث رطل وسمعت این ابی عمران یقول یقال ان الذی اخرج ہذا لابی یوسف ہو مالک ابن انس۔
یعنی حضرت امام طحاوی حنفی رحمہ اللہ نے اپنی سند کے ساتھ شرح الآثار میں اس واقعہ کونقل فرمایا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے سفر حج کا واقعہ بھی سند صحیح کے ساتھ نقل فرمایا ہے کہ وہ حج کے موقع پر جب مدینہ شریف تشریف لے گئے اور صاع کی تحقیق چاہی تو انصار ومہاجرین کے پچاس بوڑھے اپنے اپنے گھروں سے صاع لے لے کر آئے، ان سب کو وزن کیا گیا توبخلاف صاع عراقی کے وہ پانچ رطل اور ثلث کا تھا۔ ان جملہ بزرگوں نے بیان کیا کہ یہی صاع ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک سے ہمارے ہاں مروج ہے جسے سن کر حضرت امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے صاع کے بارے میں اہل مدینہ کا مسلک اختیارفرمالیا۔
علمائے احناف نے اس بارے میں جن جن تاویلات سے کام لیا ہے اور جس جس طرح سے صاع حجازی کی تردید و تخفیف کرکے اپنی تقلید جامد کا ثبوت پیش فرمایا ہے۔ وہ بہت ہی قابل افسوس ہے۔ آئندہ کسی موقع پر اور تفصیلی روشنی ڈالی جائے گی ان شاءاللہ۔
الحمد للہ کہ عصر حاضرمیں بھی اکابر علمائے حدیث کے ہاں صاع حجازی مع سند موجود ہے۔ جسے وہ بوقت فراغت اپنے ارشد تلامذہ کو سند صحیح کے ساتھ روایت کرنے کی اجازت دیا کرتے ہیں۔ ہمارے شیخ مرحوم حضرت مولانا ابومحمدعبدالجبار صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم شکراوہ کے پاس بھی اس صاع کی نقل بسند صحیح موجود ہے۔ والحمدللہ علی ذلک۔
 
Top