Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : موزوں پر مسح کرنے کے بیان میں
حدیث نمبر : 202
حدثنا أصبغ بن الفرج المصري، عن ابن وهب، قال حدثني عمرو، حدثني أبو النضر، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمر، عن سعد بن أبي وقاص، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه مسح على الخفين. وأن عبد الله بن عمر سأل عمر عن ذلك فقال نعم إذا حدثك شيئا سعد عن النبي صلى الله عليه وسلم فلا تسأل عنه غيره. وقال موسى بن عقبة أخبرني أبو النضر أن أبا سلمة أخبره أن سعدا حدثه فقال عمر لعبد الله. نحوه.
ہم سے اصبغ ابن الفرج نے بیان کیا، وہ ابن وہب سے کرتے ہیں، کہا مجھ سے عمرو نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوالنضر نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے واسطے سے نقل کیا، وہ عبدالرحمن بن عمر سے، وہ سعد بن ابی وقاص سے، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا ( سچ ہے اور یاد رکھو ) جب تم سے سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان فرمائیں۔ تو اس کے متعلق ان کے سوا ( کسی ) دوسرے آدمی سے مت پوچھو اور موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوالنضر نے بتلایا، انھیں ابوسلمہ نے خبر دی کہ سعد بن ابی وقاص نے ان سے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ) حدیث بیان کی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے بیٹے ) عبداللہ سے ایسا کہا۔
تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر جب حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس کوفہ آئے، اور انھیں موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا حوالہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسح کیا کرتے تھے، انھوں نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا اور حضرت سعد کا حوالہ دیاتو انھوں نے فرمایا کہ ہاں سعد کی روایت واقعی قابل اعتماد ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث نقل کرتے ہیں وہ قطعاً صحیح ہوتی ہے۔ کسی اور سے تصدیق کرانے کی ضرورت نہیں۔
موزوں پر مسح کرنا تقریباً سترصحابہ کرام سے مروی ہے اور یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ سورۃ مائدہ کی آیت سے یہ منسوخ ہوچکا ہے۔ کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت جو آگے آرہی ہے۔ وہ غزوئہ تبوک کے موقع پر بیان کی گئی ہے، سورۃ مائدہ اس سے پہلے اتر چکی تھی اور دوسرے راوی جریر بن عبداللہ بھی سورۃ مائدہ اترنے کے بعد اسلام لائے بہرحال تمام صحابہ کے اتفاق سے موزوں کا مسح ثابت ہے اور اس کا انکار کرنے والا اہل سنت سے خارج ہے۔
حدیث نمبر : 203
حدثنا عمرو بن خالد الحراني، قال حدثنا الليث، عن يحيى بن سعيد، عن سعد بن إبراهيم، عن نافع بن جبير، عن عروة بن المغيرة، عن أبيه المغيرة بن شعبة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه خرج لحاجته فاتبعه المغيرة بإداوة فيها ماء، فصب عليه حين فرغ من حاجته، فتوضأ ومسح على الخفين.
ہم سے عمرو بن خالد الحرانی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے یحییٰ بن سعید کے واسطے سے نقل کیا، وہ سعد بن ابراہیم سے، وہ نافع بن جبیر سے وہ عروہ ابن المغیرہ سے وہ اپنے باپ مغیرہ بن شعبہ سے روایت کرتے ہیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں۔ ( ایک دفعہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لیے باہر گئے تو مغیرہ پانی کا ایک برتن لے کر آپ کے پیچھے گئے، جب آپ قضاء حاجت سے فارغ ہو گئے تو مغیرہ نے ( آپ کو وضو کراتے ہوئے ) آپ ( کے اعضاء مبارکہ ) پر پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور موزوں پر مسح فرمایا۔
حدیث نمبر : 204
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جعفر بن عمرو بن أمية الضمري، أن أباه، أخبره أنه، رأى النبي صلى الله عليه وسلم يمسح على الخفين. وتابعه حرب بن شداد وأبان عن يحيى.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، انھوں نے جعفر بن عمرو بن امیہ الضمری سے نقل کیا، انھیں ان کے باپ نے خبر دی کہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ اس حدیث کی متابعت میں حرب اور ابان نے یحییٰ سے حدیث نقل کی ہے۔
حدیث نمبر : 205
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا الأوزاعي، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جعفر بن عمرو، عن أبيه، قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يمسح على عمامته وخفيه. وتابعه معمر عن يحيى عن أبي سلمة عن عمرو قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو اوزاعی نے یحییٰ کے واسطے سے خبر دی، وہ ابوسلمہ سے، وہ جعفر بن عمرو سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمامے اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔ اس کو روایت کیا معمر نے یحییٰ سے، وہ ابوسلمہ سے، انھوں نے عمرو سے متابعت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ( آپ واقعی ایسا ہی کیا کرتے تھے )
تشریح : عمامہ پر مسح کے بارے میں حضرت علامہ شمس الحق صاحب محدث ڈیانوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔ قلت احادیث المسح علی العمامۃ اخرجہ البخاری ومسلم والترمذی واحمد والنسائی وابن ماجۃ وغیرواحد من الائمۃ من طرق قویۃ متصلۃ الاسانید وذہب الیہ جماعۃ من السلف کما عرفت وقدثبت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ مسح علی الراس فقط و علی العمامۃ فقط و علی الراس والعمامۃ معا والکل صحیح ثابت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم موجود فی کتب الائمۃ الصحاح والنبی صلی اللہ علیہ وسلم مبین عن اللہ تبارک و تعالیٰ الخ۔ ( عون المعبود، ج1، ص: 56 )
یعنی عمامہ پر مسح کی احادیث بخاری، مسلم، ترمذی، احمد، نسائی، ابن ماجہ اور بھی بہت سے اماموں نے پختہ متصل اسانید کے ساتھ روایت کی ہیں اور سلف کی ایک جماعت نے اسے تسلیم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے خالی سر پر مسح فرمایا اور خالی عمامہ پر بھی مسح فرمایا اور سر اور عمامہ ہردو پر اکٹھے بھی مسح فرمایا۔ یہ تینوں صورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہیں اور ائمہ کرام کی کتب صحاح میں یہ موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے فرمان وامسحوا برؤسکم ( المائدہ: 6 ) کے بیان فرمانے والے ہیں۔ ( لہٰذا آپ کا یہ عمل وحی خفی کے تحت ہے )
عمامہ پر مسح کے بارے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا من لم یطہرہ المسح علی العمامۃ فلاطہرہ اللہ رواہ الخلال باسنادہ یعنی جس شخص کو عمامہ پر مسح نے پاک نہ کیا پس خدا بھی اس کو پاک نہ کرے۔ اس بارے میں حنفیہ نے بہت سی تاویلات کی ہیں۔ بعض نے کہا کہ عمامہ پر مسح کرنا بدعت ہے۔ بعض نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی پر مسح کرکے پگڑی کو درست کیاہوگا۔ جسے راوی نے پگڑی کا مسح گمان کرلیا۔ بعض نے کہا کہ چوتھائی سر کا مسح جو فرض تھا اسے کرنے کے بعد آپ نے سنت کی تکمیل کے لیے بجائے مسح بقیہ سر کے پگڑی پر مسح کرلیا۔ بعض نے کہا کہ پگڑی پر آپ نے مسح کیا تھا۔ مگروہ بعدمیں منسوخ ہوگیا۔
حضرت العلام مولانا محمدانورشاہ صاحب دیوبندی مرحوم:
مناسب ہوگا کہ ان جملہ احتمالات فاسدہ کے جواب میں ہم سرتاج علماءدیوبند حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان نقل کردیں۔ جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ عمامہ پر مسح کرنے کا مسئلہ حق وثابت ہے یا نہیں۔ حضرت مولانا مرحوم فرماتے ہیں۔
“ میرے نزدیک واضح وحق بات یہ ہے کہ مسح عمامہ تواحادیث سے ثابت ہے اور اسی لیے ائمہ ثلاثہ نے بھی ( جو صرف مسح عمامہ کو ادائے فرض کے لیے کافی نہیں سمجھتے ) اس امر کو تسلیم کرلیا ہے اور استحباب یا استیعاب کے طور پر اس کو مشروع بھی مان لیا ہے۔ پس اگر اس کی کچھ اصل نہ ہوتی تو اس کو کیسے اختیار کرسکتے تھے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف الفاظ پر جمود کرکے دین بناتے ہیں۔ بلکہ اموردین کی تعیین کے لیے میرے نزدیک سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ امت کا توارث اور ائمہ کا مسلک مختار معلوم کیاجائے۔ کیونکہ وہ دین کے ہادی ورہنما اور اس کے مینار وستون تھے اور ان ہی کے واسطے سے ہم کو دین پہنچاہے۔ ان پر اس کے بارے میں پورا اعتماد کرنا پڑے گا اور اس کے بارے میں کسی قسم کی بھی بدگمانی مناسب نہیں ہے۔
غرض مسح عمامہ کو جس حد تک ثابت ہوا ہمیں دین کا جزو ماننا ہے، اسی لیے اس کو بدعت کہنے کی جرات بھی ہم نہیں کرسکتے جو بعض کتابوںمیں لکھ دیا گیا ہے۔ ” ( انوارالباری،جلد 5، ص: 192 )
برادران احناف جو اہل حدیث سے خواہ مخواہ اس قسم کے فروعی مسائل میں جھگڑتے رہتے ہیں، وہ اگر حضرت مولانا مرحوم کے اس بیان کو نظر انصاف سے ملاحظہ کریں گے توان پر واضح ہوجائے گا کہ مسلک اہل حدیث کے فروعی واصولی مسائل ایسے نہیں ہیں جن کو باآسانی متروک العمل اور قطعی غیرمقبول قرار دے دیاجائے۔ مسلک اہل حدیث کی بنیادخالص کتاب وسنت پر ہے۔ جس میں قیل وقال و آرائے رجال سے کچھ گنجائش نہیں ہے۔ جس کا مختصر تعاارف یہ ہے
ما اہل حدیثیم دغارانہ شناسیم
صد شکر کہ در مذہب ماحیلہ وفن نیست
حدیث نمبر : 202
حدثنا أصبغ بن الفرج المصري، عن ابن وهب، قال حدثني عمرو، حدثني أبو النضر، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمر، عن سعد بن أبي وقاص، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه مسح على الخفين. وأن عبد الله بن عمر سأل عمر عن ذلك فقال نعم إذا حدثك شيئا سعد عن النبي صلى الله عليه وسلم فلا تسأل عنه غيره. وقال موسى بن عقبة أخبرني أبو النضر أن أبا سلمة أخبره أن سعدا حدثه فقال عمر لعبد الله. نحوه.
ہم سے اصبغ ابن الفرج نے بیان کیا، وہ ابن وہب سے کرتے ہیں، کہا مجھ سے عمرو نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوالنضر نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے واسطے سے نقل کیا، وہ عبدالرحمن بن عمر سے، وہ سعد بن ابی وقاص سے، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا ( سچ ہے اور یاد رکھو ) جب تم سے سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان فرمائیں۔ تو اس کے متعلق ان کے سوا ( کسی ) دوسرے آدمی سے مت پوچھو اور موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوالنضر نے بتلایا، انھیں ابوسلمہ نے خبر دی کہ سعد بن ابی وقاص نے ان سے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ) حدیث بیان کی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے بیٹے ) عبداللہ سے ایسا کہا۔
تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر جب حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس کوفہ آئے، اور انھیں موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا حوالہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسح کیا کرتے تھے، انھوں نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا اور حضرت سعد کا حوالہ دیاتو انھوں نے فرمایا کہ ہاں سعد کی روایت واقعی قابل اعتماد ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث نقل کرتے ہیں وہ قطعاً صحیح ہوتی ہے۔ کسی اور سے تصدیق کرانے کی ضرورت نہیں۔
موزوں پر مسح کرنا تقریباً سترصحابہ کرام سے مروی ہے اور یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ سورۃ مائدہ کی آیت سے یہ منسوخ ہوچکا ہے۔ کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت جو آگے آرہی ہے۔ وہ غزوئہ تبوک کے موقع پر بیان کی گئی ہے، سورۃ مائدہ اس سے پہلے اتر چکی تھی اور دوسرے راوی جریر بن عبداللہ بھی سورۃ مائدہ اترنے کے بعد اسلام لائے بہرحال تمام صحابہ کے اتفاق سے موزوں کا مسح ثابت ہے اور اس کا انکار کرنے والا اہل سنت سے خارج ہے۔
حدیث نمبر : 203
حدثنا عمرو بن خالد الحراني، قال حدثنا الليث، عن يحيى بن سعيد، عن سعد بن إبراهيم، عن نافع بن جبير، عن عروة بن المغيرة، عن أبيه المغيرة بن شعبة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه خرج لحاجته فاتبعه المغيرة بإداوة فيها ماء، فصب عليه حين فرغ من حاجته، فتوضأ ومسح على الخفين.
ہم سے عمرو بن خالد الحرانی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے یحییٰ بن سعید کے واسطے سے نقل کیا، وہ سعد بن ابراہیم سے، وہ نافع بن جبیر سے وہ عروہ ابن المغیرہ سے وہ اپنے باپ مغیرہ بن شعبہ سے روایت کرتے ہیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں۔ ( ایک دفعہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لیے باہر گئے تو مغیرہ پانی کا ایک برتن لے کر آپ کے پیچھے گئے، جب آپ قضاء حاجت سے فارغ ہو گئے تو مغیرہ نے ( آپ کو وضو کراتے ہوئے ) آپ ( کے اعضاء مبارکہ ) پر پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور موزوں پر مسح فرمایا۔
حدیث نمبر : 204
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جعفر بن عمرو بن أمية الضمري، أن أباه، أخبره أنه، رأى النبي صلى الله عليه وسلم يمسح على الخفين. وتابعه حرب بن شداد وأبان عن يحيى.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، انھوں نے جعفر بن عمرو بن امیہ الضمری سے نقل کیا، انھیں ان کے باپ نے خبر دی کہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ اس حدیث کی متابعت میں حرب اور ابان نے یحییٰ سے حدیث نقل کی ہے۔
حدیث نمبر : 205
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا الأوزاعي، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جعفر بن عمرو، عن أبيه، قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يمسح على عمامته وخفيه. وتابعه معمر عن يحيى عن أبي سلمة عن عمرو قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو اوزاعی نے یحییٰ کے واسطے سے خبر دی، وہ ابوسلمہ سے، وہ جعفر بن عمرو سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمامے اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔ اس کو روایت کیا معمر نے یحییٰ سے، وہ ابوسلمہ سے، انھوں نے عمرو سے متابعت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ( آپ واقعی ایسا ہی کیا کرتے تھے )
تشریح : عمامہ پر مسح کے بارے میں حضرت علامہ شمس الحق صاحب محدث ڈیانوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔ قلت احادیث المسح علی العمامۃ اخرجہ البخاری ومسلم والترمذی واحمد والنسائی وابن ماجۃ وغیرواحد من الائمۃ من طرق قویۃ متصلۃ الاسانید وذہب الیہ جماعۃ من السلف کما عرفت وقدثبت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ مسح علی الراس فقط و علی العمامۃ فقط و علی الراس والعمامۃ معا والکل صحیح ثابت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم موجود فی کتب الائمۃ الصحاح والنبی صلی اللہ علیہ وسلم مبین عن اللہ تبارک و تعالیٰ الخ۔ ( عون المعبود، ج1، ص: 56 )
یعنی عمامہ پر مسح کی احادیث بخاری، مسلم، ترمذی، احمد، نسائی، ابن ماجہ اور بھی بہت سے اماموں نے پختہ متصل اسانید کے ساتھ روایت کی ہیں اور سلف کی ایک جماعت نے اسے تسلیم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے خالی سر پر مسح فرمایا اور خالی عمامہ پر بھی مسح فرمایا اور سر اور عمامہ ہردو پر اکٹھے بھی مسح فرمایا۔ یہ تینوں صورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہیں اور ائمہ کرام کی کتب صحاح میں یہ موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے فرمان وامسحوا برؤسکم ( المائدہ: 6 ) کے بیان فرمانے والے ہیں۔ ( لہٰذا آپ کا یہ عمل وحی خفی کے تحت ہے )
عمامہ پر مسح کے بارے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا من لم یطہرہ المسح علی العمامۃ فلاطہرہ اللہ رواہ الخلال باسنادہ یعنی جس شخص کو عمامہ پر مسح نے پاک نہ کیا پس خدا بھی اس کو پاک نہ کرے۔ اس بارے میں حنفیہ نے بہت سی تاویلات کی ہیں۔ بعض نے کہا کہ عمامہ پر مسح کرنا بدعت ہے۔ بعض نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی پر مسح کرکے پگڑی کو درست کیاہوگا۔ جسے راوی نے پگڑی کا مسح گمان کرلیا۔ بعض نے کہا کہ چوتھائی سر کا مسح جو فرض تھا اسے کرنے کے بعد آپ نے سنت کی تکمیل کے لیے بجائے مسح بقیہ سر کے پگڑی پر مسح کرلیا۔ بعض نے کہا کہ پگڑی پر آپ نے مسح کیا تھا۔ مگروہ بعدمیں منسوخ ہوگیا۔
حضرت العلام مولانا محمدانورشاہ صاحب دیوبندی مرحوم:
مناسب ہوگا کہ ان جملہ احتمالات فاسدہ کے جواب میں ہم سرتاج علماءدیوبند حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان نقل کردیں۔ جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ عمامہ پر مسح کرنے کا مسئلہ حق وثابت ہے یا نہیں۔ حضرت مولانا مرحوم فرماتے ہیں۔
“ میرے نزدیک واضح وحق بات یہ ہے کہ مسح عمامہ تواحادیث سے ثابت ہے اور اسی لیے ائمہ ثلاثہ نے بھی ( جو صرف مسح عمامہ کو ادائے فرض کے لیے کافی نہیں سمجھتے ) اس امر کو تسلیم کرلیا ہے اور استحباب یا استیعاب کے طور پر اس کو مشروع بھی مان لیا ہے۔ پس اگر اس کی کچھ اصل نہ ہوتی تو اس کو کیسے اختیار کرسکتے تھے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف الفاظ پر جمود کرکے دین بناتے ہیں۔ بلکہ اموردین کی تعیین کے لیے میرے نزدیک سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ امت کا توارث اور ائمہ کا مسلک مختار معلوم کیاجائے۔ کیونکہ وہ دین کے ہادی ورہنما اور اس کے مینار وستون تھے اور ان ہی کے واسطے سے ہم کو دین پہنچاہے۔ ان پر اس کے بارے میں پورا اعتماد کرنا پڑے گا اور اس کے بارے میں کسی قسم کی بھی بدگمانی مناسب نہیں ہے۔
غرض مسح عمامہ کو جس حد تک ثابت ہوا ہمیں دین کا جزو ماننا ہے، اسی لیے اس کو بدعت کہنے کی جرات بھی ہم نہیں کرسکتے جو بعض کتابوںمیں لکھ دیا گیا ہے۔ ” ( انوارالباری،جلد 5، ص: 192 )
برادران احناف جو اہل حدیث سے خواہ مخواہ اس قسم کے فروعی مسائل میں جھگڑتے رہتے ہیں، وہ اگر حضرت مولانا مرحوم کے اس بیان کو نظر انصاف سے ملاحظہ کریں گے توان پر واضح ہوجائے گا کہ مسلک اہل حدیث کے فروعی واصولی مسائل ایسے نہیں ہیں جن کو باآسانی متروک العمل اور قطعی غیرمقبول قرار دے دیاجائے۔ مسلک اہل حدیث کی بنیادخالص کتاب وسنت پر ہے۔ جس میں قیل وقال و آرائے رجال سے کچھ گنجائش نہیں ہے۔ جس کا مختصر تعاارف یہ ہے
ما اہل حدیثیم دغارانہ شناسیم
صد شکر کہ در مذہب ماحیلہ وفن نیست