• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : موزوں پر مسح کرنے کے بیان میں

حدیث نمبر : 202
حدثنا أصبغ بن الفرج المصري، عن ابن وهب، قال حدثني عمرو، حدثني أبو النضر، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمر، عن سعد بن أبي وقاص، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه مسح على الخفين‏.‏ وأن عبد الله بن عمر سأل عمر عن ذلك فقال نعم إذا حدثك شيئا سعد عن النبي صلى الله عليه وسلم فلا تسأل عنه غيره‏.‏ وقال موسى بن عقبة أخبرني أبو النضر أن أبا سلمة أخبره أن سعدا حدثه فقال عمر لعبد الله‏.‏ نحوه‏.‏
ہم سے اصبغ ابن الفرج نے بیان کیا، وہ ابن وہب سے کرتے ہیں، کہا مجھ سے عمرو نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوالنضر نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے واسطے سے نقل کیا، وہ عبدالرحمن بن عمر سے، وہ سعد بن ابی وقاص سے، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا ( سچ ہے اور یاد رکھو ) جب تم سے سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان فرمائیں۔ تو اس کے متعلق ان کے سوا ( کسی ) دوسرے آدمی سے مت پوچھو اور موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوالنضر نے بتلایا، انھیں ابوسلمہ نے خبر دی کہ سعد بن ابی وقاص نے ان سے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ) حدیث بیان کی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے بیٹے ) عبداللہ سے ایسا کہا۔

تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر جب حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس کوفہ آئے، اور انھیں موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا حوالہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسح کیا کرتے تھے، انھوں نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا اور حضرت سعد کا حوالہ دیاتو انھوں نے فرمایا کہ ہاں سعد کی روایت واقعی قابل اعتماد ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث نقل کرتے ہیں وہ قطعاً صحیح ہوتی ہے۔ کسی اور سے تصدیق کرانے کی ضرورت نہیں۔

موزوں پر مسح کرنا تقریباً سترصحابہ کرام سے مروی ہے اور یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ سورۃ مائدہ کی آیت سے یہ منسوخ ہوچکا ہے۔ کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت جو آگے آرہی ہے۔ وہ غزوئہ تبوک کے موقع پر بیان کی گئی ہے، سورۃ مائدہ اس سے پہلے اتر چکی تھی اور دوسرے راوی جریر بن عبداللہ بھی سورۃ مائدہ اترنے کے بعد اسلام لائے بہرحال تمام صحابہ کے اتفاق سے موزوں کا مسح ثابت ہے اور اس کا انکار کرنے والا اہل سنت سے خارج ہے۔

حدیث نمبر : 203
حدثنا عمرو بن خالد الحراني، قال حدثنا الليث، عن يحيى بن سعيد، عن سعد بن إبراهيم، عن نافع بن جبير، عن عروة بن المغيرة، عن أبيه المغيرة بن شعبة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه خرج لحاجته فاتبعه المغيرة بإداوة فيها ماء، فصب عليه حين فرغ من حاجته، فتوضأ ومسح على الخفين‏.‏
ہم سے عمرو بن خالد الحرانی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے یحییٰ بن سعید کے واسطے سے نقل کیا، وہ سعد بن ابراہیم سے، وہ نافع بن جبیر سے وہ عروہ ابن المغیرہ سے وہ اپنے باپ مغیرہ بن شعبہ سے روایت کرتے ہیں وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں۔ ( ایک دفعہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفع حاجت کے لیے باہر گئے تو مغیرہ پانی کا ایک برتن لے کر آپ کے پیچھے گئے، جب آپ قضاء حاجت سے فارغ ہو گئے تو مغیرہ نے ( آپ کو وضو کراتے ہوئے ) آپ ( کے اعضاء مبارکہ ) پر پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور موزوں پر مسح فرمایا۔

حدیث نمبر : 204
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جعفر بن عمرو بن أمية الضمري، أن أباه، أخبره أنه، رأى النبي صلى الله عليه وسلم يمسح على الخفين‏.‏ وتابعه حرب بن شداد وأبان عن يحيى‏.‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوسلمہ سے، انھوں نے جعفر بن عمرو بن امیہ الضمری سے نقل کیا، انھیں ان کے باپ نے خبر دی کہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔ اس حدیث کی متابعت میں حرب اور ابان نے یحییٰ سے حدیث نقل کی ہے۔

حدیث نمبر : 205
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا الأوزاعي، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن جعفر بن عمرو، عن أبيه، قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يمسح على عمامته وخفيه‏.‏ وتابعه معمر عن يحيى عن أبي سلمة عن عمرو قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو اوزاعی نے یحییٰ کے واسطے سے خبر دی، وہ ابوسلمہ سے، وہ جعفر بن عمرو سے، وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے عمامے اور موزوں پر مسح کرتے دیکھا۔ اس کو روایت کیا معمر نے یحییٰ سے، وہ ابوسلمہ سے، انھوں نے عمرو سے متابعت کی اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ( آپ واقعی ایسا ہی کیا کرتے تھے )

تشریح : عمامہ پر مسح کے بارے میں حضرت علامہ شمس الحق صاحب محدث ڈیانوی قدس سرہ فرماتے ہیں۔ قلت احادیث المسح علی العمامۃ اخرجہ البخاری ومسلم والترمذی واحمد والنسائی وابن ماجۃ وغیرواحد من الائمۃ من طرق قویۃ متصلۃ الاسانید وذہب الیہ جماعۃ من السلف کما عرفت وقدثبت عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ مسح علی الراس فقط و علی العمامۃ فقط و علی الراس والعمامۃ معا والکل صحیح ثابت عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم موجود فی کتب الائمۃ الصحاح والنبی صلی اللہ علیہ وسلم مبین عن اللہ تبارک و تعالیٰ الخ۔ ( عون المعبود، ج1، ص: 56 )

یعنی عمامہ پر مسح کی احادیث بخاری، مسلم، ترمذی، احمد، نسائی، ابن ماجہ اور بھی بہت سے اماموں نے پختہ متصل اسانید کے ساتھ روایت کی ہیں اور سلف کی ایک جماعت نے اسے تسلیم کیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے خالی سر پر مسح فرمایا اور خالی عمامہ پر بھی مسح فرمایا اور سر اور عمامہ ہردو پر اکٹھے بھی مسح فرمایا۔ یہ تینوں صورتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح طور پر ثابت ہیں اور ائمہ کرام کی کتب صحاح میں یہ موجود ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے فرمان وامسحوا برؤسکم ( المائدہ: 6 ) کے بیان فرمانے والے ہیں۔ ( لہٰذا آپ کا یہ عمل وحی خفی کے تحت ہے )
عمامہ پر مسح کے بارے میں حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا من لم یطہرہ المسح علی العمامۃ فلاطہرہ اللہ رواہ الخلال باسنادہ یعنی جس شخص کو عمامہ پر مسح نے پاک نہ کیا پس خدا بھی اس کو پاک نہ کرے۔ اس بارے میں حنفیہ نے بہت سی تاویلات کی ہیں۔ بعض نے کہا کہ عمامہ پر مسح کرنا بدعت ہے۔ بعض نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشانی پر مسح کرکے پگڑی کو درست کیاہوگا۔ جسے راوی نے پگڑی کا مسح گمان کرلیا۔ بعض نے کہا کہ چوتھائی سر کا مسح جو فرض تھا اسے کرنے کے بعد آپ نے سنت کی تکمیل کے لیے بجائے مسح بقیہ سر کے پگڑی پر مسح کرلیا۔ بعض نے کہا کہ پگڑی پر آپ نے مسح کیا تھا۔ مگروہ بعدمیں منسوخ ہوگیا۔
حضرت العلام مولانا محمدانورشاہ صاحب دیوبندی مرحوم:
مناسب ہوگا کہ ان جملہ احتمالات فاسدہ کے جواب میں ہم سرتاج علماءدیوبند حضرت مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا بیان نقل کردیں۔ جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ عمامہ پر مسح کرنے کا مسئلہ حق وثابت ہے یا نہیں۔ حضرت مولانا مرحوم فرماتے ہیں۔
“ میرے نزدیک واضح وحق بات یہ ہے کہ مسح عمامہ تواحادیث سے ثابت ہے اور اسی لیے ائمہ ثلاثہ نے بھی ( جو صرف مسح عمامہ کو ادائے فرض کے لیے کافی نہیں سمجھتے ) اس امر کو تسلیم کرلیا ہے اور استحباب یا استیعاب کے طور پر اس کو مشروع بھی مان لیا ہے۔ پس اگر اس کی کچھ اصل نہ ہوتی تو اس کو کیسے اختیار کرسکتے تھے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو صرف الفاظ پر جمود کرکے دین بناتے ہیں۔ بلکہ اموردین کی تعیین کے لیے میرے نزدیک سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ امت کا توارث اور ائمہ کا مسلک مختار معلوم کیاجائے۔ کیونکہ وہ دین کے ہادی ورہنما اور اس کے مینار وستون تھے اور ان ہی کے واسطے سے ہم کو دین پہنچاہے۔ ان پر اس کے بارے میں پورا اعتماد کرنا پڑے گا اور اس کے بارے میں کسی قسم کی بھی بدگمانی مناسب نہیں ہے۔
غرض مسح عمامہ کو جس حد تک ثابت ہوا ہمیں دین کا جزو ماننا ہے، اسی لیے اس کو بدعت کہنے کی جرات بھی ہم نہیں کرسکتے جو بعض کتابوںمیں لکھ دیا گیا ہے۔ ” ( انوارالباری،جلد 5، ص: 192 )
برادران احناف جو اہل حدیث سے خواہ مخواہ اس قسم کے فروعی مسائل میں جھگڑتے رہتے ہیں، وہ اگر حضرت مولانا مرحوم کے اس بیان کو نظر انصاف سے ملاحظہ کریں گے توان پر واضح ہوجائے گا کہ مسلک اہل حدیث کے فروعی واصولی مسائل ایسے نہیں ہیں جن کو باآسانی متروک العمل اور قطعی غیرمقبول قرار دے دیاجائے۔ مسلک اہل حدیث کی بنیادخالص کتاب وسنت پر ہے۔ جس میں قیل وقال و آرائے رجال سے کچھ گنجائش نہیں ہے۔ جس کا مختصر تعاارف یہ ہے
ما اہل حدیثیم دغارانہ شناسیم
صد شکر کہ در مذہب ماحیلہ وفن نیست
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : وضوکرکے موزے پہننے کے بیان میں

حدیث نمبر : 206
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا زكرياء، عن عامر، عن عروة بن المغيرة، عن أبيه، قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فأهويت لأنزع خفيه فقال ‏"‏ دعهما، فإني أدخلتهما طاهرتين‏"‏‏. ‏ فمسح عليهما‏.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ عامر سے وہ عروہ بن مغیرہ سے، وہ اپنے باپ ( مغیرہ ) سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، تو میں نے چاہا ( کہ وضو کرتے وقت ) آپ کے موزے اتار ڈالوں۔ آپ نے فرمایا کہ انھیں رہنے دو۔ چونکہ جب میں نے انھیں پہنا تھا تو میرے پاؤں پاک تھے۔ ( یعنی میں وضو سے تھا ) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مسح کیا۔

مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات اور مسافر کے لیے تین دن اور تین رات مسلسل موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، کم از کم چالیس اصحاب نبوی سے موزوں پر مسح کرنے کی روایت نقل ہوئی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بکری کا گوشت اور ستو کھا کر نیا وضو نہ کرنا ثابت ہے

وأكل أبو بكر وعمر وعثمان ـ رضى الله عنهم ـ لحما فلم يتوضئوا‏.‏
“ اور حضرت ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم نے گوشت کھایا اور نیا وضو نہیں کیا۔ ”

حدیث نمبر : 207
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن عبد الله بن عباس،‏.‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أكل كتف شاة، ثم صلى ولم يتوضأ‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے زید بن اسلم سے خبر دی، وہ عطاء بن یسار سے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کا گوشت کا شانہ کھایا۔ پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔

حدیث نمبر : 208
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني جعفر بن عمرو بن أمية، أن أباه، أخبره أنه، رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم يحتز من كتف شاة، فدعي إلى الصلاة فألقى السكين فصلى ولم يتوضأ‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہمیں لیث نے عقیل سے خبر دی، وہ ابن شہاب سے روایت کرتے ہیں، انھیں جعفر بن عمرو بن امیہ نے اپنے باپ عمرو سے خبر دی کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بکری کے شانہ سے کاٹ کاٹ کر کھا رہے تھے، پھر آپ نماز کے لیے بلائے گئے تو آپ نے چھری ڈال دی اور نماز پڑھی، نیا وضو نہیں کیا۔

کسی بھی جائز اور مباح چیز کے کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، جن روایات میں ایسے وضو کرنے کا ذکر آیا ہے وہاں لغوی وضو یعنی صرف ہاتھ منہ دھونا۔ کلی کرنا مراد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ کوئی شخص ستو کھا کر صرف کلی کرے اور نیا وضو نہ کرے۔

حدیث نمبر : 209
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن بشير بن يسار، مولى بني حارثة أن سويد بن النعمان، أخبره‏.‏ أنه، خرج مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام خيبر، حتى إذا كانوا بالصهباء ـ وهي أدنى خيبر ـ فصلى العصر، ثم دعا بالأزواد، فلم يؤت إلا بالسويق، فأمر به فثري، فأكل رسول الله صلى الله عليه وسلم وأكلنا، ثم قام إلى المغرب، فمضمض ومضمضنا، ثم صلى ولم يتوضأ‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھے امام مالک نے یحیٰی بن سعید کے واسطے سے خبر دی، وہ بشیر بن یسار بنی حارثہ کے آزاد کردہ غلام سے روایت کرتے ہیں کہ سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ فتح خیبر والے سال وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صہبا کی طرف، جو خیبر کے قریب ایک جگہ ہے پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی، پھر ناشتہ منگوایا گیا تو سوائے ستو کے اور کچھ نہیں لایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ بھگو دیا گیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا اور ہم نے ( بھی ) کھایا۔ پھر مغرب ( کی نماز ) کے لئے کھڑے ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی اور ہم نے ( بھی ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور نیا وضو نہیں کیا۔

حدیث نمبر : 210
وحدثنا أصبغ، قال أخبرنا ابن وهب، قال أخبرني عمرو، عن بكير، عن كريب، عن ميمونة، أن النبي صلى الله عليه وسلم أكل عندها كتفا، ثم صلى ولم يتوضأ‏.‏
ہم سے اصبغ نے بیان کیا، کہا مجھے ابن وہب نے خبر دی، کہا مجھے عمرو نے بکیر سے، انھوں نے کریب سے، ان کو حضرت میمونہ زوجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے یہاں ( بکری کا ) شانہ کھایا پھر نماز پڑھی اور نیا وضو نہیں فرمایا۔

یہاں حضرت امام رحمہ اللہ نے ثابت فرمایاکہ بکری کا شانہ کھانے پر آپ نے وضو نہیں فرمایا توستو کھاکر بھی وضو نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلی حدیث میں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ کیا دودھ پی کر کلی کرنی چاہیے؟

حدیث نمبر : 211
حدثنا يحيى بن بكير، وقتيبة، قالا حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم شرب لبنا، فمضمض وقال ‏"‏ إن له دسما‏"‏‏. ‏ تابعه يونس وصالح بن كيسان عن الزهري‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر اور قتیبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، وہ عقیل سے، وہ ابن شہاب سے، وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا، پھر کلی کی اور فرمایا اس میں چکنائی ہوتی ہے۔ اس حدیث میں عقیل کی یونس اور صالح بن کیسان نے زہری سے متابعت کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سونے کے بعد وضو کرنے کے بیان میں

الوضوء من النوم ومن لم ير من النعسة والنعستين أو الخفقة وضوءا
اور بعض علماء کے نزدیک ایک یا دو مرتبہ کی اونگھ سے یا ( نیند کا ) ایک جھونکا آ جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔

حدیث نمبر : 212

حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا نعس أحدكم وهو يصلي فليرقد حتى يذهب عنه النوم، فإن أحدكم إذا صلى وهو ناعس لا يدري لعله يستغفر فيسب نفسه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا مجھ کو مالک نے ہشام سے، انھوں نے اپنے باپ سے خبر دی، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز پڑھتے وقت تم میں سے کسی کو اونگھ آ جائے، تو چاہیے کہ وہ سو رہے یہاں تک کہ نیند ( کا اثر ) اس سے ختم ہو جائے۔ اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے لگے اور وہ اونگھ رہا ہو تو وہ کچھ نہیں جانے گا کہ وہ ( خدا سے ) مغفرت طلب کر رہا ہے یا اپنے نفس کو بددعا دے رہا ہے۔

حدیث نمبر : 213
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، حدثنا أيوب، عن أبي قلابة، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا نعس أحدكم في الصلاة فلينم حتى يعلم ما يقرأ‏"‏‏. ‏
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے، کہا ہم سے ایوب نے ابوقلابہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز میں اونگھنے لگو تو سو جانا چاہیے۔ پھر اس وقت نماز پڑھے جب جان لے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔

فرض نماز کے لیے بہرحال جاگنا ہی چاہئیے جیسا کہ بعض مواقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جگایا جاتا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بغیرحدث کے بھی نیا وضو کرنا جائز ہے

حدیث نمبر : 214
حدثنا محمد بن يوسف، قال حدثنا سفيان، عن عمرو بن عامر، قال سمعت أنسا، ح قال وحدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن سفيان، قال حدثني عمرو بن عامر، عن أنس، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يتوضأ عند كل صلاة‏.‏ قلت كيف كنتم تصنعون قال يجزئ أحدنا الوضوء ما لم يحدث‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے عمرو بن عامر کے واسطے سے بیان کیا، کہا میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا۔ ( دوسری سند سے ) ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ نے، وہ سفیان سے روایت کرتے ہیں، ان سے عمرو بن عامر نے بیان کیا، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے لیے نیا وضو فرمایا کرتے تھے۔ میں نے کہا تم لوگ کس طرح کرتے تھے، کہنے لگے ہم میں سے ہر ایک کو اس کا وضو اس وقت تک کافی ہوتا، جب تک کوئی وضو توڑنے والی چیز پیش نہ آ جاتی۔ ( یعنی پیشاب، پاخانہ، یا نیند وغیرہ )

حدیث نمبر : 215
حدثنا خالد بن مخلد، قال حدثنا سليمان، قال حدثني يحيى بن سعيد، قال أخبرني بشير بن يسار، قال أخبرني سويد بن النعمان، قال خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام خيبر، حتى إذا كنا بالصهباء، صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم العصر، فلما صلى دعا بالأطعمة، فلم يؤت إلا بالسويق، فأكلنا وشربنا، ثم قام النبي صلى الله عليه وسلم إلى المغرب فمضمض، ثم صلى لنا المغرب ولم يتوضأ‏.‏
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے یحییٰ بن سعید نے خبر دی، انھیں بشیر بن یسار نے خبر دی، انھوں نے کہا مجھے سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ نے بتلایا انھوں نے کہا کہ ہم خیبر والے سال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جب صہباء میں پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی۔ جب نماز پڑھ چکے تو آپ نے کھانے منگوائے۔ مگر ( کھانے میں ) صرف ستو ہی لایا گیا۔ سو ہم نے ( اسی کو ) کھایا اور پیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی، پھر ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی اور ( نیا ) وضو نہیں کیا۔

دونوں احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگرچہ ہرنماز کے لیے نیا وضو مستحب ہے۔ مگر ایک ہی وضو سے آدمی کئی نمازیں بھی پڑھ سکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : پیشاب کے چھینٹوں سے نہ بچنا کبیرہ گناہ ہے

حدیث نمبر : 216
حدثنا عثمان، قال حدثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بحائط من حيطان المدينة أو مكة، فسمع صوت إنسانين يعذبان في قبورهما، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يعذبان، وما يعذبان في كبير ‏"‏، ثم قال ‏"‏ بلى، كان أحدهما لا يستتر من بوله، وكان الآخر يمشي بالنميمة‏"‏‏. ‏ ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين، فوضع على كل قبر منهما كسرة‏.‏ فقيل له يا رسول الله لم فعلت هذا قال ‏"‏ لعله أن يخفف عنهما ما لم تيبسا أو إلى أن ييبسا‏"‏‏. ‏
ہم سے عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ مجاہد سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ ( وہاں ) آپ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( کھجور کی ) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے ( ایک ایک ٹکڑا ) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے۔

تشریح : اس حدیث سے عذاب قبرثابت ہوا۔ یہ دونوں قبروں والے مسلمان ہی تھے اور قبریں بھی نئی تھیں۔ ہری ڈالیاں تسبیح کرتی ہیں اس وجہ سے عذاب میں کمی ہوئی ہوگی۔ بعض کہتے ہیں کہ عذاب کا کم ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ہوا تھا ان ڈالیوں کا اثرنہ تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : پیشاب کو دھونے کے بیان میں

وقال النبي صلى الله عليه وسلم لصاحب القبر ‏"‏ كان لا يستتر من بوله‏"‏‏. ‏ ولم يذكر سوى بول الناس‏.‏
اور یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر والے کے بارے میں فرمایا تھا کہ وہ اپنے پیشاب سے بچنے کی کوشش نہیں کیا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدمی کے پیشاب کے علاوہ کسی اور کے پیشاب کا ذکر نہیں فرمایا۔

حدیث نمبر : 217
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، قال حدثني روح بن القاسم، قال حدثني عطاء بن أبي ميمونة، عن أنس بن مالك، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا تبرز لحاجته أتيته بماء فيغسل به‏.‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو اسماعیل بن ابراہیم نے خبر دی، کہا مجھے روح بن القاسم نے بتلایا، کہا مجھ سے عطاء بن ابی میمونہ نے بیان کیا، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رفع حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو میں آپ کے پاس پانی لاتا۔ آپ اس سے استنجاء فرماتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :۔۔۔

حدیث نمبر : 218
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا محمد بن خازم، قال حدثنا الأعمش، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس، قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بقبرين فقال ‏"‏ إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة‏"‏‏. ‏ ثم أخذ جريدة رطبة، فشقها نصفين، فغرز في كل قبر واحدة‏.‏ قالوا يا رسول الله، لم فعلت هذا قال ‏"‏ لعله يخفف عنهما ما لم ييبسا‏"‏‏. ‏ قال ابن المثنى وحدثنا وكيع قال حدثنا الأعمش قال سمعت مجاهدا مثله ‏"‏ يستتر من بوله‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن المثنی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے محمد بن حازم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے مجاہد کے واسطے سے روایت کیا، وہ طاؤس سے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ( ایک مرتبہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں پر گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے پیشاب سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہری ٹہنی لے کر بیچ سے اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر ایک قبر پر ایک ٹکڑا گاڑ دیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایسا ) کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں ان پر عذاب میں کچھ تخفیف رہے۔ ابن المثنی نے کہا کہ اس حدیث کو ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، انھوں نے مجاہد سے اسی طرح سنا۔

لایستتر من البول کا ترجمہ یہ بھی ہے کہ وہ پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا۔ بعض روایات میں لایستنزہ آیا ہے جس کا مطلب یہ کہ پیشاب کے چھینٹوں سے پرہیز نہیں کیا کرتا تھا۔ مقصد ہر دو لفظوں کا ایک ہی ہے۔
 
Top