• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایڑیوں کے دھونے کے بیان میں

وكان ابن سيرين يغسل موضع الخاتم إذا توضأ‏.‏
امام ابن سیرین وضو کرتے وقت انگوٹھی کے نیچے کی جگہ ( بھی ) دھویا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 165
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا محمد بن زياد، قال سمعت أبا هريرة ـ وكان يمر بنا والناس يتوضئون من المطهرة ـ قال أسبغوا الوضوء فإن أبا القاسم صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ويل للأعقاب من النار‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ ہمارے پاس سے گزرے اور لوگ لوٹے سے وضو کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اچھی طرح وضو کرو کیونکہ ابوالقاسم نے فرمایا ( خشک ) ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔

منشا یہ ہے کہ وضو کا کوئی عضو خشک نہ رہ جائے ورنہ وہی عضو قیامت کے دن عذاب الٰہی میں مبتلا کیا جائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جوتوں کے اندر پاؤں دھونا چاہیے اور جوتوں پر مسح نہ کرنا چاہیے۔

حدیث نمبر : 166
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن سعيد المقبري، عن عبيد بن جريج، أنه قال لعبد الله بن عمر يا أبا عبد الرحمن، رأيتك تصنع أربعا لم أر أحدا من أصحابك يصنعها‏.‏ قال وما هي يا ابن جريج قال رأيتك لا تمس من الأركان إلا اليمانيين، ورأيتك تلبس النعال السبتية، ورأيتك تصبغ بالصفرة، ورأيتك إذا كنت بمكة أهل الناس إذا رأوا الهلال ولم تهل أنت حتى كان يوم التروية‏.‏ قال عبد الله أما الأركان فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يمس إلا اليمانيين، وأما النعال السبتية فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يلبس النعل التي ليس فيها شعر ويتوضأ فيها، فأنا أحب أن ألبسها، وأما الصفرة فإني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصبغ بها، فأنا أحب أن أصبغ بها، وأما الإهلال فإني لم أر رسول الله صلى الله عليه وسلم يهل حتى تنبعث به راحلته‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے سعید المقبری کے واسطے سے خبر دی، وہ عبیداللہ بن جریج سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے عبداللہ بن عمر سے کہا اے ابوعبدالرحمن! میں نے تمہیں چار ایسے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے جنھیں تمہارے ساتھیوں کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ کہنے لگے، اے ابن جریج! وہ کیا ہیں؟ ابن جریج نے کہا کہ میں نے طواف کے وقت آپ کو دیکھا کہ دو یمانی رکنوں کے سوا کسی اور رکن کو آپ نہیں چھوتے ہو۔ ( دوسرے ) میں نے آپ کو بستی جوتے پہنے ہوئے دیکھا اور ( تیسرے ) میں نے دیکھا کہ آپ زرد رنگ استعمال کرتے ہو اور ( چوتھی بات ) میں نے یہ دیکھی کہ جب آپ مکہ میں تھے، لوگ ( ذی الحجہ کا ) چاند دیکھ کر لبیک پکارنے لگتے ہیں۔ ( اور ) حج کا احرام باندھ لیتے ہیں اور آپ آٹھویں تاریخ تک احرام نہیں باندھتے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ ( دوسرے ) ارکان کو تو میں یوں نہیں چھوتا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یمانی رکنوں کے علاوہ کسی اور رکن کو چھوتے ہوئے نہیں دیکھا اور رہے جوتے، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے جوتے پہنے ہوئے دیکھا کہ جن کے چمڑے پر بال نہیں تھے اور آپ انھیں کو پہنے پہنے وضو فرمایا کرتے تھے، تو میں انہی کو پہننا پسند کرتا ہوں اور زرد رنگ کی بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زرد رنگ رنگتے ہوئے دیکھا ہے۔ تو میں بھی اسی رنگ سے رنگنا پسند کرتا ہوں اور احرام باندھنے کا معاملہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت تک احرام باندھتے ہوئے نہیں دیکھا جب تک آپ کی اونٹنی آپ کو لے کر نہ چل پڑتی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : وضو اور غسل میں داہنی جانب سے ابتدا کرنا ضروری ہے

حدیث نمبر : 167
حدثنا مسدد، قال حدثنا إسماعيل، قال حدثنا خالد، عن حفصة بنت سيرين، عن أم عطية، قالت قال النبي صلى الله عليه وسلم لهن في غسل ابنته ‏"‏ ابدأن بميامنها ومواضع الوضوء منها‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے خالد نے حفصہ بنت سیرین کے واسطے سے نقل کیا، وہ ام عطیہ سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ( مرحومہ ) صاحبزادی ( حضرت زینب ) کو غسل دینے کے وقت فرمایا تھا کہ غسل داہنی طرف سے دو، اور اعضاء وضو سے غسل کی ابتدا کرو۔

وضو اور غسل میں داہنی طرف سے کام شروع کرنا مسنون ہے، اس کے علاوہ دوسرے کاموں میں بھی یہ طریقہ مسنون ہے۔

حدیث نمبر : 168
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا شعبة، قال أخبرني أشعث بن سليم، قال سمعت أبي، عن مسروق، عن عائشة، قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن في تنعله وترجله وطهوره وفي شأنه كله‏.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، انھیں اشعث بن سلیم نے خبر دی، ان کے باپ نے مسروق سے سنا، وہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے اور اپنے ہر کام میں داہنی طرف سے کام کی ابتدا کرنے کو پسند فرمایا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز کا وقت ہوجانے پر پانی کی تلاش ضروری ہے

وقالت عائشة حضرت الصبح فالتمس الماء، فلم يوجد، فنزل التيمم‏.‏
“ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ( ایک سفر میں ) صبح ہو گئی ‘ پانی تلاش کیا گیا، مگر نہیں ملا۔ تو آیت تیمم نازل ہوئی۔ ”

حدیث نمبر : 169
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، أنه قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت صلاة العصر، فالتمس الناس الوضوء فلم يجدوه، فأتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بوضوء، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك الإناء يده، وأمر الناس أن يتوضئوا منه‏.‏ قال فرأيت الماء ينبع من تحت أصابعه حتى توضئوا من عند آخرهم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو مالک نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے خبر دی، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ نماز عصر کا وقت آ گیا، لوگوں نے پانی تلاش کیا، جب انھیں پانی نہ ملا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( ایک برتن میں ) وضو کے لیے پانی لایا گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں اپنا ہاتھ ڈال دیا اور لوگوں کو حکم دیا کہ اسی ( برتن ) سے وضو کریں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا آپ کی انگلیوں کے نیچے سے پانی ( چشمے کی طرح ) ابل رہا تھا۔ یہاں تک کہ ( قافلے کے ) آخری آدمی نے بھی وضو کر لیا۔

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ ایک پیالہ پانی سے سب لوگوں نے وضو کرلیا۔ وضو کے لیے پانی تلاش کرنا اس سے ثابت ہوا، نہ ملے تو پھر تیمم کرلینا چاہئیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جس پانی سے آدمی کے بال دھوئے جائیں اس پانی کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟

وكان عطاء لا يرى به بأسا أن يتخذ منها الخيوط والحبال، وسؤر الكلاب وممرها في المسجد‏.‏ وقال الزهري إذا ولغ في إناء ليس له وضوء غيره يتوضأ به‏.‏ وقال سفيان هذا الفقه بعينه، يقول الله تعالى ‏{‏فلم تجدوا ماء فتيمموا‏}‏ وهذا ماء، وفي النفس منه شىء، يتوضأ به ويتيمم‏.‏
عطاء بن ابی رباح آدمیوں کے بالوں سے رسیاں اور ڈوریاں بنانے میں کچھ حرج نہیں دیکھتے تھے اور کتوں کے جھوٹے اور ان کے مسجد سے گزرنے کا بیان۔ زہری کہتے ہیں کہ جب کتا کسی ( پانی کے بھرے ) برتن میں منہ ڈال دے اور اس کے علاوہ وضو کے لیے اور پانی موجود نہ ہو تو اس سے وضو کیا جا سکتا ہے۔ سفیان کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے سمجھ میں آتا ہے۔ جب پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو اور کتے کا جھوٹا پانی ( تو ) ہے۔ ( مگر ) طبیعت اس سے نفرت کرتی ہے۔ ( بہرحال ) اس سے وضو کر لے۔ اور ( احتیاطاً ) تیمم بھی کر لے۔

حدیث نمبر : 170
حدثنا مالك بن إسماعيل، قال حدثنا إسرائيل، عن عاصم، عن ابن سيرين، قال قلت لعبيدة عندنا من شعر النبي صلى الله عليه وسلم أصبناه من قبل أنس، أو من قبل أهل أنس فقال لأن تكون عندي شعرة منه أحب إلى من الدنيا وما فيها‏.‏
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے عاصم کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن سیرین سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عبیدہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ بال ( مبارک ) ہیں، جو ہمیں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یا انس رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کی طرف سے ملے ہیں۔ ( یہ سن کر ) عبیدہ نے کہا کہ اگر میرے پاس ان بالوں میں سے ایک بال بھی ہو تو وہ میرے لیے ساری دنیا اور اس کی ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔

حدیث نمبر : 171
حدثنا محمد بن عبد الرحيم، قال أخبرنا سعيد بن سليمان، قال حدثنا عباد، عن ابن عون، عن ابن سيرين، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما حلق رأسه كان أبو طلحة أول من أخذ من شعره‏.‏
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی انھوں نے، کہا ہم سے عباد نے ابن عون کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ ابن سیرین سے، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حجۃ الوداع میں ) جب سر کے بال منڈوائے تو سب سے پہلے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے بال لیے تھے۔

سیدالمحدثین حضر ت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض اس حدیث سے انسان کے بالوں کی پاکی اور طہارت بیان کرنا مقصود ہے۔ پھر ان احادیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے بالوں کو تبرک کے لیے لوگوں میں تقسیم فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب کتا برتن میں پی لے ( تو کیا کرنا چاہیے )

حدیث نمبر : 172
حدثنا عبد الله بن يوسف، عن مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا شرب الكلب في إناء أحدكم فليغسله سبعا‏"‏‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، وہ اعرج سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کتا تم میں سے کسی کے برتن میں سے ( کچھ ) پی لے تو اس کو سات مرتبہ دھولو ( تو پاک ہو جائے گا۔ )

حدیث نمبر : 173
حدثنا إسحاق، أخبرنا عبد الصمد، حدثنا عبد الرحمن بن عبد الله بن دينار، سمعت أبي، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أن رجلا رأى كلبا يأكل الثرى من العطش، فأخذ الرجل خفه فجعل يغرف له به حتى أرواه، فشكر الله له فأدخله الجنة‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالصمد نے خبر دی، کہا ہم کو عبدالرحمن بن عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ سے سنا، وہ ابوصالح سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص نے ایک کتے کو دیکھا، جو پیاس کی وجہ سے گیلی مٹی کھا رہا تھا۔ تو اس شخص نے اپنا موزہ لیا اور اس سے پانی بھر کر پلانے لگا، حتیٰ کہ اس کو خوب سیراب کر دیا۔ اللہ نے اس شخص کے اس کام کی قدر کی اور اسے جنت میں داخل کر دیا۔

حدیث نمبر : 174
وقال أحمد بن شبيب حدثنا أبي، عن يونس، عن ابن شهاب، قال حدثني حمزة بن عبد الله، عن أبيه، قال كانت الكلاب تبول وتقبل وتدبر في المسجد في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يكونوا يرشون شيئا من ذلك‏.‏
احمد بن شبیب نے کہا کہ ہم سے میرے والد نے یونس کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا مجھ سے حمزہ بن عبداللہ نے اپنے باپ ( یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ) کے واسطے سے بیان کیا۔ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کتے مسجد میں آتے جاتے تھے لیکن لوگ ان جگہوں پر پانی نہیں چھڑکتے تھے۔

تشریح : علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ یہ معاملہ اسلام کے ابتدائی دور میں تھا جب کہ مسجد کے کواڑ وغیرہ بھی نہ تھے، اس کے بعد جب مساجد کے بارے میں احترام واہتمام کا حکم نازل ہوا تو اس طرح کی سب باتوں سے منع کردیا گیا، جیسا کہ عبداللہ بن عمر کی روایت میں ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے بلند آواز سے فرمایا کہ لوگو! مسجد میں بے ہودہ بات کرنے سے پرہیز کیا کرو، سو جب لغو باتوں سے روک دیا گیا، تو دوسرے امورکا حال بھی بدرجہ اولیٰ معلوم ہوگیا۔ اسی لیے اس سے پہلے حدیث میں کتے کے جھوٹے برتن کو سات مرتبہ دھونے کا حکم آیا۔ اب وہی حکم باقی ہے۔ جس کی تائید اور بہت سی احادیث سے ہوتی ہے۔ بلکہ بعض روایات میں کتے کے جھوٹے برتن کے بارے میں اتنی تاکید آئی ہے کہ اسے پانی کے علاوہ آٹھویں بار مٹی سے صاف کرنے کا بھی حکم ہے۔ مٹی سے اول مرتبہ دھونا چاہئیے پھر سات دفعہ پانی سے دھونا چاہئیے۔

اس مسئلہ میں احناف اور اہل حدیث کا اختلاف: کتے کے جھوٹے برتن کو سات بار پانی سے دھونا اور ایک بار صرف مٹی سے مانجھنا واجب ہے۔ یہ اہل حدیث کا مذہب ہے اور صرف تین بار پانی سے دھونایہ حنفیہ کا مذہب ہے۔ سرتاج علمائے اہل حدیث حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ قال الشوکانی فی النیل یدل علی وجوب الغسلات السبع فی ولوغ الکلب والیہ ذہب ابن عباس و عروۃ بن الزبیر و محمد بن سیرین و طاووس و عمروبن دینار والاوزاعی ومالک و الشافعی واحمد بن حنبل واسحاق و ابوثور و ابوعبیدۃ و داود انتہی۔ وقال النووی وجوب غسل نجاسۃ ولوغ الکلب سبع مرات وہذا مذہبنا و مذہب مالک و الجماہیر۔ وقال ابوحنیفۃ یکفی غسلہ ثلاث مرات انتہی۔ وقال الحافظ فی الفتح واما الحنفیۃ فلم یقولوا بوجوب السبع ولا التترتیب۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 93 )
خلاصہ اس عبارت کا یہی ہے کہ ان احادیث کی بنا پر جمہورعلمائے اسلام، صحابہ کرام و تابعین وائمہ ثلاثہ و دیگر محدثین کا مذہب یہی ہے کہ سات مرتبہ دھویا جائے۔ برخلاف اس کے حنفیہ صرف تین ہی دفعہ دھونے کے قائل ہیں۔ اور ان کی دلیل وہ حدیث ہے جسے طبرانی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے کسی برتن میں کتا منہ ڈال دے تو اسے تین بار یاپانچ بار یا سات بار دھوڈالو۔ جواب اس کا یہ ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔ اس لیے کہ شیخ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر میں لکھا ہے کہ حسب وضاحت امام دارقطنی اس کی سند میں ایک راوی عبدالوہاب نامی متروک ہے، جس نے اسماعیل نامی اپنے استاد سے اس حدیث کو اس طرح بیان کیا۔ حالانکہ ان ہی اسماعیل سے دوسرے راوی اسی حدیث کو روایت کرتے ہیں۔ جنھوں نے سات بار دھونا نقل کیا ہے۔ دوسرا جواب یہ کہ یہ حدیث دار قطنی میں ہے جو طبقہ ثالثہ کی کتاب ہے اور سنن ابن ماجہ میں یہ روایت ہے۔ اخرج ابن ماجۃ عن ابی رزین قال رایت اباہریرۃ یضرب جبہتہ بیدہ ویقول یا اہل العراق انتم تزعمون انی اکذب علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم لیکون لکم الہنا وعلی الاثم اشہد سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم یقول اذا ولغ الکلب فی اناءاحدکم فلیغسلہ سبع مرات۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 94 ) یعنی ابورزین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا آپ اظہار افسوس کرتے ہوئے اپنی پیشانی پر ہاتھ ماررہے تھے اور فرما رہے تھے کہ اے عراقیو! تم ایسا خیال رکھتے ہو کہ میں تمہاری آسانی کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھوں اور گنہگار بنوں۔ یاد رکھو میں گواہی دیتاہوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایاکہ جب کتا تمہارے برتن میں منہ ڈالے تواسے سات مرتبہ دھو ڈالو۔ معلوم ہوا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے تین بار دھونے کی روایت ناقابل اعتبارہے۔ علامہ عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے دلائل خلافیہ پر منصفانہ روشنی ڈالی ہے۔ ( دیکھو سعایہ، ص: 451 )
بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک کتا اور کتے کا جھوٹا پاک ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں فرماتے ہیں کہ بعض علماءمالکیہ وغیرہ کہتے ہیں کہ ان حادیث سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض کتے کی اور اس کے جھوٹے کی پاکی ثابت کرنا ہے اور بعض علماءکہتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ غرض نہیں ہے۔ بلکہ آپ نے صرف لوگوں کے مذہب بیان کئے ہیں۔ وہ خود اس کے قائل نہیں ہیں، اس لیے کہ ترجمہ میں آپ نے صرف کتے کے جھوٹے کا نام لیا۔یوں نہیں کہا کہ کتے کا جھوٹا پاک ہے۔ حدیث بخاری کے ذیل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں: وفی الحدیث دلیل علی نجاسۃ فم الکلب من حیث الامر بالغسل لما ولغ فیہ والا راقۃ للمائ۔ ( مرعاۃ، ج 1، ص: 324 ) یعنی اس حدیث مذکورہ سے بخاری میں دلیل ہے کہ کتے کا منہ ناپاک ہے اسی لیے جس برتن میں وہ منہ ڈال دے اسے دھونے اور اس پانی کے بہادینے کاحکم ہوا۔ اگر اس کا منہ پاک ہوتا تو پانی کو اس طور پر ضائع کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔ منہ کے ناپاک ہونے کا مطلب اس کے تمام جسم کا ناپاک ہونا ہے۔
عبداللہ بن معقل کی حدیث جسے مسلم ودیگر محدثین نے نقل کیا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ سات بار پانی سے دھونا چاہئیے اور آٹھویں بار مٹی سے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت شیخ الحدیث مبارک پوری مدظلہ العالی فرماتے ہیں: “ وظاہرہ یدل علی ایجاب ثمان غسلات وان غسلہ التتریب غیرالغسلات السبع وان التتریب خارج عنہا والحدیث قداجمعوا علی صحۃ اسنادہ وہی زیادۃ ثقۃ فتعین المصیر الیہا۔ ( مرعاۃ، ج1، ص: 324 ) یعنی اس سے آٹھ دفعہ دھونے کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور یہ کہ مٹی سے دھونے کا معاملہ سات دفعہ پانی سے دھونے کے علاوہ ہے۔ یہ حدیث بالاتفاق صحیح ہے اور پہلی مرتبہ مٹی سے دھونا بھی صحیح ہے۔ جو پہلے ہی ہونا چاہئیے بعد میں سات دفعہ پانی سے دھویا جائے۔
باقی احناف کے دیگر دلائل کے مفصل جوابات شیخ العلام حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مایہ ناز کتاب ابکار المنن،ص: 29-32 ) میں مفصل ذکر فرمائے ہیں، ان کا بیان یہاں کرنا طوالت کا باعث ہوگا۔
مناسب ہوگا کہ کتے کے لعاب کے بارے میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے مسلک سے متعلق حضرت العلام مولانا انور شاہ صاحب دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ کا قول بھی نقل کردیا جائے جو صاحب انوار الباری کی روایت سے یہ ہے۔
“ امام بخاری سے یہ بات مستبعد ہے کہ وہ لعاب کلب کی طہارت کے قائل ہوں۔ جب کہ اس باب میں قطعیات سے نجاست کا ثبوت ہوچکا ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ امام بخاری نے دونوں طرف کی احادیث ذکر کردی ہیں۔ ناظرین خود یہ فیصلہ کرلیں۔ کیونکہ یہ بھی ان کی ایک عادت ہے۔ جب وہ کسی باب میں دونوں جانب قوت دیکھتے ہیں تو دونوں طرف کی احادیث ذکر کردیا کرتے ہیں۔ جس سے یہ اشارہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی کسی ایک جانب کا یقین نہیں فرماتے واللہ اعلم۔ ( انوارالباری، ج5،ص: 107 ) کلب معلم کی حدیث ذیل لانے سے بھی ظاہر ہے کہ حضرت امام عمومی طور پر لعاب کلب کی طہارت کے قائل نہیں ہیں۔
کلب معلم وہ کتاجس میں اطاعت شعاری کا مادہ بدرجہ اتم ہو اور جب بھی وہ شکار کرے کبھی اس میں سے خود کچھ نہ کھائے۔ ( کرمانی )

حدیث نمبر : 175
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا شعبة، عن ابن أبي السفر، عن الشعبي، عن عدي بن حاتم، قال سألت النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ إذا أرسلت كلبك المعلم فقتل فكل، وإذا أكل فلا تأكل، فإنما أمسكه على نفسه‏"‏‏. ‏ قلت أرسل كلبي فأجد معه كلبا آخر قال ‏"‏ فلا تأكل، فإنما سميت على كلبك، ولم تسم على كلب آخر‏"‏‏. ‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے ابن ابی السفر کے واسطے سے بیان کیا، وہ شعبی سے نقل فرماتے ہیں، وہ عدی بن حاتم سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ( کتے کے شکار کے متعلق ) دریافت کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تو اپنے سدھائے ہوئے کتے کو چھوڑے اور وہ شکار کر لے تو، تُو اس ( شکار ) کو کھا اور اگر وہ کتا اس شکار میں سے خود ( کچھ ) کھالے تو، تُو ( اس کو ) نہ کھائیو۔ کیونکہ اب اس نے شکار اپنے لیے پکڑا ہے۔ میں نے کہا کہ بعض دفعہ میں ( شکار کے لیے ) اپنے کتے چھوڑتا ہوں، پھر اس کے ساتھ دوسرے کتے کو بھی پاتا ہوں۔ آپ نے فرمایا۔ پھر مت کھا۔ کیونکہ تم نے بسم اللہ اپنے کتے پر پڑھی تھی۔ دوسرے کتے پر نہیں پڑھی۔

اس حدیث کی اصل بحث کتاب الصید میں آئے گی۔ ان شاءاللہ تعالیٰ۔ معلوم ہوا کہ عام کتوں کی نجاست کے حکم سے سدھائے ہوئے کتوں کے شکار کا استثناء ہے بشرائط معلومہ مذکورہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ بعض لوگوں کے نزدیک صرف پیشاب اور پاخانے کی راہ سے کچھ نکلنے سے وضو ٹوٹتا ہے

وقول الله تعالى ‏{‏أو جاء أحد منكم من الغائط‏}‏ وقال عطاء فيمن يخرج من دبره الدود أو من ذكره نحو القملة يعيد الوضوء‏.‏ وقال جابر بن عبد الله إذا ضحك في الصلاة أعاد الصلاة، ولم يعد الوضوء‏.‏ وقال الحسن إن أخذ من شعره وأظفاره أو خلع خفيه فلا وضوء عليه‏.‏ وقال أبو هريرة لا وضوء إلا من حدث‏.‏ ويذكر عن جابر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان في غزوة ذات الرقاع فرمي رجل بسهم، فنزفه الدم فركع وسجد، ومضى في صلاته‏.‏ وقال الحسن ما زال المسلمون يصلون في جراحاتهم‏.‏ وقال طاوس ومحمد بن علي وعطاء وأهل الحجاز ليس في الدم وضوء‏.‏ وعصر ابن عمر بثرة فخرج منها الدم، ولم يتوضأ‏.‏ وبزق ابن أبي أوفى دما فمضى في صلاته‏.‏ وقال ابن عمر والحسن فيمن يحتجم ليس عليه إلا غسل محاجمه‏.‏
کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ “ جب تم میں سے کوئی قضاء حاجت سے فارغ ہو کر آئے تو تم پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو۔ ” عطاء کہتے ہیں کہ جس شخص کے پچھلے حصہ سے ( یعنی دبر سے ) یا اگلے حصہ سے ( یعنی ذکر یا فرج سے ) کوئی کیڑا یا جوں کی قسم کا کوئی جانور نکلے اسے چاہیے کہ وضو لوٹائے اور جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ جب ( آدمی ) نماز میں ہنس پڑے تو نماز لوٹائے اور وضو نہ لوٹائے اور حسن ( بصری ) نے کہا کہ جس شخص نے ( وضو کے بعد ) اپنے بال اتروائے یا ناخن کٹوائے یا موزے اتار ڈالے اس پر وضو نہیں ہے۔ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ وضو حدث کے سوا کسی اور چیز سے فرض نہیں ہے اور حضرت جابر سے نقل کیا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذات الرقاع کی لڑائی میں ( تشریف فرما ) تھے۔ ایک شخص کے تیر مارا گیا اور اس ( کے جسم ) سے بہت خون بہا مگر اس نے پھر بھی رکوع اور سجدہ کیا اور نماز پوری کر لی اور حسن بصری نے کہا کہ مسلمان ہمیشہ اپنے زخموں کے باوجود نماز پڑھا کرتے تھے اور طاؤس، محمد بن علی اور اہل حجاز کے نزدیک خون ( نکلنے ) سے وضو ( واجب ) نہیں ہوتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ( اپنی ) ایک پھنسی کو دبا دیا تو اس سے خون نکلا۔ مگر آپ نے ( دوبارہ ) وضو نہیں کیا اور ابن ابی اوفیٰ نے خون تھوکا۔ مگر وہ اپنی نماز پڑھتے رہے اور ابن عمر اور حسن رضی اللہ عنہم پچھنے لگوانے والے کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ جس جگہ پچھنے لگے ہوں اس کو دھولے، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ ”

حدیث نمبر : 176
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال حدثنا ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يزال العبد في صلاة ما كان في المسجد ينتظر الصلاة، ما لم يحدث‏"‏‏. ‏ فقال رجل أعجمي ما الحدث يا أبا هريرة قال الصوت‏.‏ يعني الضرطة‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سعید المقبری نے بیان کیا، وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بندہ اس وقت تک نماز ہی میں رہتا ہے جب تک وہ مسجد میں نماز کا انتظار کرتا ہے۔ تاوقیتکہ وہ حدث نہ کرے۔ ایک عجمی آدمی نے پوچھا کہ اے ابوہریرہ! حدث کیا چیز ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ ہوا جو پیچھے سے خارج ہو۔ ( جسے عرف عام میں گوز مارنا کہتے ہیں۔ )

حدیث نمبر : 177
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن عباد بن تميم، عن عمه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا ينصرف حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن عیینہ نے، وہ زہری سے، وہ عباد بن تمیم سے، وہ اپنے چچا سے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( نمازی نماز سے ) اس وقت تک نہ پھرے جب تک ( ریح کی ) آواز نہ سن لے یا اس کی بو نہ پا لے۔

خلاصہ حدیث یہ ہے کہ جت تک وضو ٹوٹنے کا یقین نہ ہو، اس وقت تک محض کسی شبہ کی بنا پر نماز نہ توڑے۔

حدیث نمبر : 178
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا جرير، عن الأعمش، عن منذر أبي يعلى الثوري، عن محمد ابن الحنفية، قال قال علي كنت رجلا مذاء، فاستحييت أن أسأل رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمرت المقداد بن الأسود فسأله فقال ‏"‏ فيه الوضوء‏"‏‏. ‏ ورواه شعبة عن الأعمش‏.‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، وہ منذر سے، وہ ابویعلیٰ ثوری سے، وہ محمد ابن الحنفیہ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں ایسا آدمی تھا جس کو سیلان مذی کی شکایت تھی، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہوئے مجھے شرم آئی۔ تو میں نے ابن الاسود کو حکم دیا، انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس میں وضو کرنا فرض ہے۔ اس روایت کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا۔


حدیث نمبر : 179
حدثنا سعد بن حفص، حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، أن عطاء بن يسار، أخبره أن زيد بن خالد أخبره أنه، سأل عثمان بن عفان ـ رضى الله عنه ـ قلت أرأيت إذا جامع فلم يمن قال عثمان يتوضأ كما يتوضأ للصلاة، ويغسل ذكره‏.‏ قال عثمان سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ فسألت عن ذلك عليا، والزبير، وطلحة، وأبى بن كعب ـ رضى الله عنهم ـ فأمروه بذلك‏.
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شیبان نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ عطاء بن یسار سے نقل کرتے ہیں، انھیں زید بن خالد نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص صحبت کرے اور منی نہ نکلے۔ فرمایا کہ وضو کرے جس طرح نماز کے لیے وضو کرتا ہے اور اپنے عضو کو دھولے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ( یہ ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ ( زید بن خالد کہتے ہیں کہ ) پھر میں نے اس کے بارے میں حضرت علی، زبیر، طلحہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا۔ سب نے اس شخص کے بارے میں یہی حکم دیا۔

حدیث نمبر : 180
حدثنا إسحاق، قال أخبرنا النضر، قال أخبرنا شعبة، عن الحكم، عن ذكوان أبي صالح، عن أبي سعيد الخدري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرسل إلى رجل من الأنصار فجاء ورأسه يقطر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لعلنا أعجلناك‏"‏‏. ‏ فقال نعم‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أعجلت أو قحطت، فعليك الوضوء‏"‏‏. ‏ تابعه وهب قال حدثنا شعبة‏.‏ قال أبو عبد الله ولم يقل غندر ويحيى عن شعبة الوضوء‏.‏
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہمیں نضر نے خبر دی، کہا ہم کو شعبہ نے حکم کے واسطے سے بتلایا، وہ ذکوان سے، وہ ابوصالح سے، وہ ابوسعید خدری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کو بلایا۔ وہ آئے تو ان کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید ہم نے تمہیں جلدی میں ڈال دیا۔ انھوں نے کہا، جی ہاں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی جلدی ( کا کام ) آ پڑے یا تمہیں انزال نہ ہو تو تم پر وضو ہے ( غسل ضروری نہیں )

تشریح : یہ سب روایات ابتدائی عہد سے متعلق ہیں۔ اب صحبت کے بعد غسل فرض ہے خواہ انزال ہو یا نہ ہو۔ قال النووی اعلم ان الامۃ مجتمعۃ الآن علی وجوب الغسل بالجماع وان لم یکن معہ انزال وکانت جماعۃ من الصحابۃ علی انہ لایجب الا بالانزال ثم رجع بعضہم وانعقد الاجماع بعد الاخرین انتہی۔ قلت لاشک فی ان مذہب الجمہور ہوالحق والصواب۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1، ص: 110-111 )
یعنی اب امت کا اجماع ہے کہ جماع کرنے سے غسل واجب ہوتا ہے منی نکلے یا نہ نکلے۔ ( حضرت مولانا وشیخنا علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں ) کہ میں کہتاہوں یہی حق و صواب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص کے بارے میں جو اپنے ساتھی کو وضو کرائے

حدیث نمبر : 181
حدثني محمد بن سلام، قال أخبرنا يزيد بن هارون، عن يحيى، عن موسى بن عقبة، عن كريب، مولى ابن عباس عن أسامة بن زيد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما أفاض من عرفة عدل إلى الشعب، فقضى حاجته‏.‏ قال أسامة بن زيد فجعلت أصب عليه ويتوضأ فقلت يا رسول الله أتصلي فقال ‏"‏ المصلى أمامك‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن ہارون نے یحییٰ سے خبر دی، وہ موسیٰ بن عقبہ سے، وہ کریب ابن عباس کے آزاد کردہ غلام سے، وہ اسامہ بن زید سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عرفہ سے لوٹے، تو ( پہاڑ کی ) گھاٹی کی جانب مڑ گئے، اور رفع حاجت کی۔ اسامہ کہتے ہیں کہ پھر ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( اعضاء ) پر پانی ڈالنے لگا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے رہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہ! آپ ( اب ) نماز پڑھیں گے؟ آپ نے فرمایا نماز کا مقام تمہارے سامنے ( یعنی مزدلفہ میں ) ہے۔ وہاں نماز پڑھی جائے گی۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ وضو میں دوسرے آدمی کی مدد لینا جائز ہے۔

حدیث نمبر : 182
حدثنا عمرو بن علي، قال حدثنا عبد الوهاب، قال سمعت يحيى بن سعيد، قال أخبرني سعد بن إبراهيم، أن نافع بن جبير بن مطعم، أخبره أنه، سمع عروة بن المغيرة بن شعبة، يحدث عن المغيرة بن شعبة، أنه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، وأنه ذهب لحاجة له، وأن مغيرة جعل يصب الماء عليه، وهو يتوضأ، فغسل وجهه ويديه ومسح برأسه ومسح على الخفين‏.‏
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، انھوں نے کہا میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا، انھوں نے کہا مجھے سعد بن ابراہیم نے نافع بن جبیر بن مطعم سے بتلایا۔ انھوں نے عروہ بن مغیرہ بن شعبہ سے سنا، وہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ وہ ایک سفر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ ( وہاں ) آپ رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے ( جب آپ واپس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو شروع کیا ) تو مغیرہ بن شعبہ آپ کے ( اعضاء وضو ) پر پانی ڈالنے لگے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر رہے تھے آپ نے اپنے منہ اور ہاتھوں کو دھویا، سر کا مسح کیا اور موزوں پر مسح کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بے وضو ہونے کی حالت میں تلاوت قرآن کرنا وغیرہ اور جو جائز ہیں ان کا بیان

وقال منصور عن إبراهيم لا بأس بالقراءة في الحمام، وبكتب الرسالة على غير وضوء‏.‏ وقال حماد عن إبراهيم إن كان عليهم إزار فسلم، وإلا فلا تسلم‏.‏
منصور نے ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ حمام ( غسل خانہ ) میں تلاوت قرآن میں کچھ حرج نہیں، اسی طرح بغیر وضو خط لکھنے میں ( بھی ) کچھ حرج نہیں اور حماد نے ابراہیم سے نقل کیا ہے کہ اگر اس ( حمام والے آدمی کے بدن ) پر تہ بند ہو تو اس کو سلام کرو، اور اگر ( تہ بند ) نہ ہو تو سلام مت کرو۔

حدیث نمبر : 183
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن مخرمة بن سليمان، عن كريب، مولى ابن عباس أن عبد الله بن عباس، أخبره أنه، بات ليلة عند ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم وهي خالته فاضطجعت في عرض الوسادة، واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهله في طولها، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا انتصف الليل، أو قبله بقليل أو بعده بقليل، استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس يمسح النوم عن وجهه بيده، ثم قرأ العشر الآيات الخواتم من سورة آل عمران، ثم قام إلى شن معلقة، فتوضأ منها فأحسن وضوءه، ثم قام يصلي‏.‏ قال ابن عباس فقمت فصنعت مثل ما صنع، ثم ذهبت، فقمت إلى جنبه، فوضع يده اليمنى على رأسي، وأخذ بأذني اليمنى، يفتلها، فصلى ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم أوتر، ثم اضطجع، حتى أتاه المؤذن، فقام، فصلى ركعتين خفيفتين، ثم خرج فصلى الصبح‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک نے مخرمہ بن سلیمان کے واسطے سے نقل کیا، وہ کریب ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انھیں خبر دی کہ انھوں نے ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ اور اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما کے گھر میں گزاری۔ ( وہ فرماتے ہیں کہ ) میں تکیہ کے عرض ( یعنی گوشہ ) کی طرف لیٹ گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ نے ( معمول کے مطابق ) تکیہ کی لمبائی پر ( سر رکھ کر ) آرام فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے رہے اور جب آدھی رات ہو گئی یا اس سے کچھ پہلے یا اس کے کچھ بعد آپ بیدار ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی نیند کو دور کرنے کے لیے ایک آنکھیں ملنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، پھر ایک مشکیزہ کے پاس جو ( چھت میں ) لٹکا ہوا تھا آپ کھڑے ہو گئے اور اس سے وضو کیا، خوب اچھی طرح، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے بھی کھڑے ہو کر اسی طرح کیا، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تھا۔ پھر جا کر میں بھی آپ کے پہلوئے مبارک میں کھڑا ہو گیا۔ آپ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں پڑھ کر اس کے بعد آپ نے وتر پڑھا اور لیٹ گئے، پھر جب مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے اٹھ کر دو رکعت معمولی ( طور پر ) پڑھیں۔ پھر باہر تشریف لا کر صبح کی نماز پڑھی۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے اٹھنے کے بعد بغیر وضو آیات قرآنی پڑھیں، اس سے ثابت ہوا کہ بغیروضو تلاوت قرآن شریف جائز ہے۔ وضو کرکے تہجد کی بارہ رکعتیں پڑھیں اور وتربھی ادا فرمائے، پھر لیٹ گئے، صبح کی اذان کے بعد جب مؤذن آپ کو جگانے کے لیے پہنچا تو آپ نے فجر کی سنتیں کم قرات کے ساتھ پڑھیں، پھر فجر کی نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر ( مسجد میں ) تشریف لے گئے۔

سنت فجر کے بعد لیٹنا صاحب انوارالباری کے لفظوں میں : اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تہجد میں وتر کے بعد لیٹنا مذکور ہے اور دوسری روایت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنت فجر کے بعد بھی تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔
اسی بنا پر اہل حدیث کے ہاں یہ اضطجاع معمول ہے۔ صاحب انوارالباری کے لفظوں میں اس کی بابت حنفیہ کا فتویٰ یہ ہے “ حنفیہ سنت فجر کے بعد لیٹنے کو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ پر معمول کرتے ہیں۔ اور سنت مقصودہ آپ کے حق میں نہیں سمجھتے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص آپ کی عادت مبارکہ کی اقتداءکے طریقہ پر ایسا کرے گا ماجورہوگا، اسی لیے ہم اس کو بدعت نہیں کہہ سکتے اور جس نے ہماری طرف ایسی نسبت کی ہے وہ غلط ہے۔ ” ( انوارالباری،ج5،ص: 137 )
اہل حدیث کے اس معمول کو برادران احناف عموماً بلکہ اکابر احناف تک بہ نظر تخفیف دیکھا کرتے ہیں۔ مقام شکرہے کہ محترم صاحب انوارالباری نے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تسلیم کرلیا اور اس کی اقتدا کرنے والے کو ماجور قرار دیا اور بدعتی کہنے والوں کو خاطی قراردیا۔ الحمد للہ اہل حدیث کے لیے باعث فخرہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات مبارکہ اپنائیں اور ان کو اپنے لیے معمول قرار دیں جب کہ ان کا قول ہے
ما بلبلیم نالاں گلزار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ما عاشقیم بے دل دلدار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ بعض علماء کے نزدیک صرف بے ہوشی کے شدید دورہ ہی سے وضو ٹوٹتا ہے

حدیث نمبر : 184
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن هشام بن عروة، عن امرأته، فاطمة عن جدتها، أسماء بنت أبي بكر أنها قالت أتيت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حين خسفت الشمس، فإذا الناس قيام يصلون، وإذا هي قائمة تصلي فقلت ما للناس فأشارت بيدها نحو السماء وقالت سبحان الله‏.‏ فقلت آية فأشارت أى نعم‏.‏ فقمت حتى تجلاني الغشى، وجعلت أصب فوق رأسي ماء، فلما انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم حمد الله وأثنى عليه، ثم قال ‏"‏ ما من شىء كنت لم أره إلا قد رأيته في مقامي هذا حتى الجنة والنار، ولقد أوحي إلى أنكم تفتنون في القبور مثل أو قريبا من فتنة الدجال ـ لا أدري أى ذلك قالت أسماء ـ يؤتى أحدكم فيقال ما علمك بهذا الرجل فأما المؤمن ـ أو الموقن لا أدري أى ذلك قالت أسماء ـ فيقول هو محمد رسول الله، جاءنا بالبينات والهدى، فأجبنا وآمنا واتبعنا، فيقال نم صالحا، فقد علمنا إن كنت لمؤمنا، وأما المنافق ـ أو المرتاب لا أدري أى ذلك قالت أسماء ـ فيقول لا أدري، سمعت الناس يقولون شيئا فقلته‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا مجھ سے مالک نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ اپنی بیوی فاطمہ سے، وہ اپنی دادی اسماء بنت ابی بکر سے روایت کرتی ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایسے وقت آئی جب کہ سورج کو گہن لگ رہا تھا اور لوگ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، کیا دیکھتی ہوں وہ بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہی ہیں۔ میں نے کہا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے؟ تو انھوں نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف اشارہ کر کے کہا، سبحان اللہ! میں نے کہا ( کیا یہ ) کوئی ( خاص ) نشانی ہے؟ تو انھوں نے اشارے سے کہا کہ ہاں۔ تو میں بھی آپ کے ساتھ نماز کے لیے کھڑی ہو گئی۔ ( آپ نے اتنا فرمایا کہ ) مجھ پر غشی طاری ہونے لگی اور میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا، آج کوئی چیز ایسی نہیں رہی جس کو میں نے اپنی اسی جگہ نہ دیکھ لیا ہو حتیٰ کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھ لیا۔ اور مجھ پر یہ وحی کی گئی ہے کہ تم لوگوں کو قبروں میں آزمایا جائے گا۔ دجال جیسی آزمائش یا اس کے قریب قریب۔ ( راوی کا بیان ہے کہ ) میں نہیں جانتی کہ اسماء نے کون سا لفظ کہا۔ تم میں سے ہر ایک کے پاس ( اللہ کے فرشتے ) بھیجے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ تمہارا اس شخص ( یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں کیا خیال ہے؟ پھر اسماء نے لفظ ایماندار کہا یا یقین رکھنے والا کہا۔ مجھے یاد نہیں۔ ( بہرحال وہ شخص ) کہے گا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں۔ وہ ہمارے پاس نشانیاں اور ہدایت کی روشنی لے کر آئے۔ ہم نے ( اسے ) قبول کیا، ایمان لائے، اور ( آپ کا ) اتباع کیا۔ پھر ( اس سے ) کہہ دیا جائے گا تو سو جا درحالیکہ تو مرد صالح ہے اور ہم جانتے تھے کہ تو مومن ہے۔ اور بہرحال منافق یا شکی آدمی، اسماء نے کون سا لفظ کہا مجھے یاد نہیں۔ ( جب اس سے پوچھا جائے گا ) کہے گا کہ میں ( کچھ ) نہیں جانتا، میں نے لوگوں کو جو کہتے سنا، وہی میں نے بھی کہہ دیا۔

حضرت امام المحدثین نے اس سے ثابت کیاکہ معمولی غشی کے دورے سے وضو نہیں ٹوٹتا کہ حضرت اسماءاپنے سر پر پانی ڈالتی رہیں اور پھر بھی نماز پڑھتی رہیں۔
 
Top