• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ان نجاستوں کے بارے میں جو گھی اور پانی میں گرجائیں

وقال الزهري لا بأس بالماء ما لم يغيره طعم أو ريح أو لون‏.‏ وقال حماد لا بأس بريش الميتة‏.‏ وقال الزهري في عظام الموتى نحو الفيل وغيره أدركت ناسا من سلف العلماء يمتشطون بها، ويدهنون فيها، لا يرون به بأسا‏.‏ وقال ابن سيرين وإبراهيم ولا بأس بتجارة العاج‏.‏
زہری نے کہا کہ جب تک پانی کی بو، ذائقہ اور رنگ نہ بدلے، اس میں کچھ حرج نہیں اور حماد کہتے ہیں کہ ( پانی میں ) مردار پرندوں کے پر ( پڑ جانے ) سے کچھ حرج نہیں ہوتا۔ مردوں کی جیسے ہاتھی وغیرہ کی ہڈیاں اس کے بارے میں زہری کہتے ہیں کہ میں نے پہلے لوگوں کو علماء سلف میں سے ان کی کنگھیاں کرتے اور ان ( کے برتنوں ) میں تیل رکھتے ہوئے دیکھا ہے، وہ اس میں کچھ حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ابن سیرین اور ابراہیم کہتے ہیں کہ ہاتھی کے دانت کی تجارت میں کچھ حرج نہیں۔

حدیث نمبر : 235
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، عن ميمونة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سئل عن فأرة سقطت في سمن فقال ‏"‏ ألقوها وما حولها فاطرحوه‏.‏ وكلوا سمنكم‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے روایت کیا، وہ عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چوہے کے بارہ میں پوچھا گیا جو گھی میں گر گیا تھا۔ فرمایا اس کو نکال دو اور اس کے آس پاس ( کے گھی ) کو نکال پھینکو اور اپنا ( باقی ) گھی استعمال کرو۔

حدیث نمبر : 236
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا معن، قال حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن ابن عباس، عن ميمونة، أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن فأرة سقطت في سمن فقال ‏"‏ خذوها وما حولها فاطرحوه‏"‏‏. ‏ قال معن حدثنا مالك ما لا أحصيه يقول عن ابن عباس عن ميمونة‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے معن نے، کہا ہم سے مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، وہ عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چوہے کے بارے میں دریافت کیا گیا جو گھی میں گر گیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اس چوہے کو اور اس کے آس پاس کے گھی کو نکال کر پھینک دو۔ معن کہتے ہیں کہ مالک نے اتنی بار کہ میں گن نہیں سکتا ( یہ حدیث ) ابن عباس سے اور انھوں نے حضرت میمونہ سے روایت کی ہے۔

تشریح : پانی کم ہو یا زیادہ جب تک گندگی سے اس کے رنگ یا بو یا مزہ میں فرق نہ آئے، وہ ناپاک نہیں ہوتا۔ ائمہ اہل حدیث کایہی مسلک ہے جن لوگوں نے قلتین یادہ دردہ کی قید لگائی ہے ان کے دلائل قوی نہیں ہیں۔ حدیث الماءطہور لاینجسہ شئی اس بارے میں بطور اصل کے ہے۔ مردار جانوروں کے بال اور پر ان کی ہڈیاں جیسے ہاتھی دانت وغیرہ یہ پانی وغیرہ میں پڑجائیں تو وہ پانی وغیرہ ناپاک نہ ہوگا۔ حضرت امام بخاری قدس سرہ کا منشائے باب یہی ہے۔ بعض علماءنے یہ فرق ضرور کیا ہے کہ گھی اگرجما ہوا ہو تو بقیہ گھی استعمال میں آسکتا ہے اور اگر پگھلا ہوا سیال ہو تو سارا ہی ناقابل استعمال ہوجائے گا۔ یہ اس صورت میں کہ چوہا اس میں گر جائے۔

حدیث نمبر : 237
حدثنا أحمد بن محمد، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ كل كلم يكلمه المسلم في سبيل الله يكون يوم القيامة كهيئتها إذ طعنت، تفجر دما، اللون لون الدم، والعرف عرف المسك‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، انھوں نے کہا مجھے معمر نے ہمام بن منبہ سے خبر دی اور وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا ہر زخم جو اللہ کی راہ میں مسلمان کو لگے وہ قیامت کے دن اسی حالت میں ہو گا جس طرح وہ لگا تھا۔ اس میں سے خون بہتا ہو گا۔ جس کا رنگ ( تو ) خون کا سا ہو گا اور خوشبو مشک کی سی ہو گی۔

تشریح : اس حدیث کی علماءنے مختلف توجیہات بیان کی ہیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس حدیث سے یہ ثابت کرنا ہے کہ مشک پاک ہے۔ جو ایک جما ہوا خون ہوتا ہے۔ مگر اس کے جمنے اور اس میں خوشبو پیدا ہوجانے سے اس کا خون کا حکم نہ رہا۔ بلکہ وہ پاک صاف مشک کی شکل بن گئی ایسے ہی جب پانی کا رنگ یا بویا مزہ گندگی سے بدل جائے تووہ اصل حالت طہارت پر نہ رہے گا بلکہ ناپاک ہوجائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے

حدیث نمبر : 238
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، قال أخبرنا أبو الزناد، أن عبد الرحمن بن هرمز الأعرج، حدثه أنه، سمع أبا هريرة، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ نحن الآخرون السابقون‏"‏‏.
ہم سے ابوالیمان بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا مجھے ابوالزناد نے خبر دی کہ ان سے عبدالرحمن بن ہرمزالاعرج نے بیان کیا، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ ہم ( لوگ ) دنیا میں پچھلے زمانے میں آئے ہیں ( مگر آخرت میں ) سب سے آگے ہیں۔

حدیث نمبر : 239
وبإسناده قال ‏"‏ لا يبولن أحدكم في الماء الدائم الذي لا يجري، ثم يغتسل فيه‏"‏‏. ‏
اور اسی سند سے ( ہم سے ابوالیمان بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، کہا مجھے ابوالزناد نے خبر دی کہ ان سے عبدالرحمن بن ہرمزالاعرج نے بیان کیا، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ) ( یہ بھی ) فرمایا کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو جاری نہ ہو پیشاب نہ کرے۔ پھر اسی میں غسل کرنے لگے؟

یعنی یہ ادب اور نظافت کے خلاف ہے کہ اسی پانی میں پیشاب کرنا اور پھراسی سے غسل کرنا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب نمازی کی پشت پر ( اچانک ) کو ئی نجاست یا مردار ڈال دیا جائے تو اس کی نماز فاسد نہیں ہوتی

وكان ابن عمر إذا رأى في ثوبه دما وهو يصلي وضعه ومضى في صلاته‏.‏ وقال ابن المسيب والشعبي إذا صلى وفي ثوبه دم أو جنابة أو لغير القبلة أو تيمم، فصلى ثم أدرك الماء في وقته، لا يعيد‏.‏
اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز پڑھتے وقت کپڑے میں خون لگا ہوا دیکھتے تو اس کو اتار ڈالتے اور نماز پڑھتے اور نماز پڑھتے رہتے، ابن مسیب اور شعبی کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے کپڑے پر نجاست یا جنابت لگی ہو، یا ( بھول کر ) قبلے کے علاوہ کسی اور طرف نماز پڑھی ہو یا تیمم کر کے نماز پڑھی ہو، پھر نماز ہی کے وقت میں پانی مل گیا ہو تو ( اب ) نماز نہ دہرائے۔

ان آثار کو عبدالرزاق اور سعید بن منصور اور ابن ابی شیبہ نے صحیح اسانید سے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 240
حدثنا عبدان، قال أخبرني أبي، عن شعبة، عن أبي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله، قال بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ساجد ح قال وحدثني أحمد بن عثمان قال حدثنا شريح بن مسلمة قال حدثنا إبراهيم بن يوسف عن أبيه عن أبي إسحاق قال حدثني عمرو بن ميمون أن عبد الله بن مسعود حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي عند البيت، وأبو جهل وأصحاب له جلوس، إذ قال بعضهم لبعض أيكم يجيء بسلى جزور بني فلان فيضعه على ظهر محمد إذا سجد فانبعث أشقى القوم فجاء به، فنظر حتى إذا سجد النبي صلى الله عليه وسلم وضعه على ظهره بين كتفيه وأنا أنظر، لا أغير شيئا، لو كان لي منعة‏.‏ قال فجعلوا يضحكون ويحيل بعضهم على بعض، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ساجد لا يرفع رأسه، حتى جاءته فاطمة، فطرحت عن ظهره، فرفع رأسه ثم قال ‏"‏ اللهم عليك بقريش‏"‏‏. ‏ ثلاث مرات، فشق عليهم إذ دعا عليهم ـ قال وكانوا يرون أن الدعوة في ذلك البلد مستجابة ـ ثم سمى ‏"‏ اللهم عليك بأبي جهل، وعليك بعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وأمية بن خلف، وعقبة بن أبي معيط‏"‏‏. ‏ وعد السابع فلم يحفظه قال فوالذي نفسي بيده، لقد رأيت الذين عد رسول الله صلى الله عليه وسلم صرعى في القليب قليب بدر‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھے میرے باپ ( عثمان ) نے شعبہ سے خبر دی، انھوں نے ابواسحاق سے، انھوں نے عمرو بن میمون سے، انھوں نے عبداللہ سے وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ شریف میں سجدہ میں تھے۔ ( ایک دوسری سند سے ) ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف نے اپنے باپ کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابواسحاق سے روایت کرتے ہیں۔ ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ عبداللہ بن مسعود نے ان سے حدیث بیان کی کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے ساتھی ( بھی وہیں ) بیٹھے ہوئے تھے تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص ہے جو قبیلے کی ( جو ) اونٹنی ذبح ہوئی ہے ( اس کی ) اوجھڑی اٹھا لائے اور ( لا کر ) جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جائیں تو ان کی پیٹھ پر رکھ دے۔ یہ سن کر ان میں سے ایک سب سے زیادہ بدبخت ( آدمی ) اٹھا اور وہ اوجھڑی لے کر آیا اور دیکھتا رہا جب آپ نے سجدہ کیا تو اس نے اس اوجھڑی کو آپ کے دونوں کندھوں کے درمیان رکھ دیا ( عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں ) میں یہ ( سب کچھ ) دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ کاش! ( اس وقت ) مجھے روکنے کی طاقت ہوتی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ ہنسنے لگے اور ( ہنسی کے مارے ) لوٹ پوٹ ہونے لگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں تھے ( بوجھ کی وجہ سے ) اپنا سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور وہ بوجھ آپ کی پیٹھ سے اتار کر پھینکا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا پھر تین بار فرمایا۔ یا اللہ! تو قریش کو پکڑ لے، یہ ( بات ) ان کافروں پر بہت بھاری ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بددعا دی۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ وہ سمجھتے تھے کہ اس شہر ( مکہ ) میں جو دعا کی جائے وہ ضرور قبول ہوتی ہے پھر آپ نے ( ان میں سے ) ہر ایک کا ( جدا جدا ) نام لیا کہ اے اللہ! ان ظالموں کو ضرور ہلاک کر دے۔ ابوجہل، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط کو۔ ساتویں ( آدمی ) کا نام ( بھی ) لیا مگر مجھے یاد نہیں رہا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ جن لوگوں کے ( بددعا کرتے وقت ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیے تھے، میں نے ان کی ( لاشوں ) کو بدر کے کنویں میں پڑا ہوا دیکھا۔

اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اگرنماز پڑھتے ہوئے اتفاقاً کوئی نجاست پشت پر آپڑے تونماز ہوجائے گی۔ اوجھڑی لانے والا بدبخت عقبہ بن ابی معیط تھا۔ یہ سب لوگ بدر کی لڑائی میں واصل جہنم ہوئے۔ عمارہ بن ولید حبش کے ملک میں مرا۔ یہ کیوں کر ممکن تھا کہ مظلوم رسول کی دعا قبول نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کپڑے میں تھوک اور رینٹ وغیرہ لگ جانے کے بارے میں

قال عروة عن المسور ومروان خرج النبي صلى الله عليه وسلم زمن حديبية فذكر الحديث‏.‏ وما تنخم النبي صلى الله عليه وسلم نخامة إلا وقعت في كف رجل منهم فدلك بها وجهه وجلده‏.‏
عروہ نے مسور اور مروان سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے زمانے میں نکلے ( اس سلسلہ میں ) انھوں نے پوری حدیث ذکر کی ( اور پھر کہا ) کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی مرتبہ بھی تھوکا وہ لوگوں کی ہتھیلی پر پڑا۔ پھر وہ لوگوں نے اپنے چہروں اور بدن پر مل لیا۔

حدیث نمبر : 241
حدثنا محمد بن يوسف، قال حدثنا سفيان، عن حميد، عن أنس، قال بزق النبي صلى الله عليه وسلم في ثوبه‏.‏ طوله ابن أبي مريم قال أخبرنا يحيى بن أيوب حدثني حميد قال سمعت أنسا عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے حمید کے واسطے سے بیان کیا، وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک مرتبہ ) اپنے کپڑے میں تھوکا۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ سعید بن ابی مریم نے اس حدیث کو طوالت کے ساتھ بیان کیا انھوں نے کہا ہم کو خبر دی یحییٰ بن ایوب نے، کہا مجھ سے حمید نے بیان کیا، کہا میں نے انس سے سنا، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔

تشریح : اس سند کے بیان کرنے سے حضرت امام رضی اللہ عنہ کی غرض یہ ہے کہ حمید کا سماع انس رضی اللہ عنہ سے ثابت ہوجائے اور یحییٰ بن سعید قطان کا یہ قول غلط ٹھہرے کہ حمید نے یہ حدیث ثابت سے سنی ہے انھوں نے ابونضرہ سے انھوں نے انس سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز پڑھتے وقت اگرکسی کپڑے میں تھوک لے تاکہ نماز میں خلل بھی نہ واقع ہو اور قریب کی جگہ بھی خراب نہ ہو تو یہ جائز درست ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبیذ سے اور کسی نشہ والی چیز سے وضو جائز نہیں

وكرهه الحسن وأبو العالية‏.‏ وقال عطاء التيمم أحب إلى من الوضوء بالنبيذ واللبن‏.‏
حضرت حسن بصری اور ابوالعالیہ نے اسے مکروہ کہا اور عطاء کہتے ہیں کہ نبیذ اور دودھ سے وضو کرنے کے مقابلے میں مجھے تیمم کرنا زیادہ پسند ہے۔

حدیث نمبر : 242
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا الزهري، عن أبي سلمة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ كل شراب أسكر فهو حرام‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، ان سے زہری نے ابوسلمہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پینے کی ہر وہ چیز جو نشہ لانے والی ہو حرام ہے۔

تشریح : نبیذ کھجور کے شربت کو کہتے ہیں جو میٹھا ہو اور اس میں نشہ نہ آیاہو۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے وضو جائز رکھا ہے جب پانی نہ ملے اور امام شافعی وامام احمد ودیگر جملہ ائمہ اہل حدیث کے نزدیک نبیذ سے وضو جائز نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ حسن کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے اور ابوالعالیہ کے اثر کو دارقطنی اور عطاءکے اثر کو ابوداؤد نے موصولاً روایت کیا ہے۔ حدیث الباب کا مقصد یہ ہے کہ نشہ آور چیز حرام ہوئی تو اس سے وضو کیوں کر جائز ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون دھونا جائز ہے

وقال أبو العالية امسحوا على رجلي فإنها مريضة‏.‏
ابوالعالیہ نے ( اپنے لڑکوں سے ) کہا کہ میرے پیروں پر مالش کرو کیونکہ وہ مریض ہو گئے۔
حدیث نمبر : 243
حدثنا محمد، قال أخبرنا سفيان بن عيينة، عن أبي حازم، سمع سهل بن سعد الساعدي،، وسأله الناس، وما بيني وبينه أحد بأى شىء دووي جرح النبي صلى الله عليه وسلم فقال ما بقي أحد أعلم به مني، كان علي يجيء بترسه فيه ماء، وفاطمة تغسل عن وجهه الدم، فأخذ حصير فأحرق فحشي به جرحه‏.‏
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے ابن ابی حازم کے واسطے سے نقل کیا، انھوں نے سہل بن سعد الساعدی سے سنا کہ لوگوں نے ان سے پوچھا، اور ( میں اس وقت سہل کے اتنا قریب تھا کہ ) میرے اور ان کے درمیان کوئی دوسرا حائل نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( احد کے ) زخم کا علاج کس دوا سے کیا گیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ اس بات کا جاننے والا ( اب ) مجھ سے زیادہ کوئی نہیں رہا۔ علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال میں پانی لاتے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ کے منہ سے خون دھوتیں پھر ایک بوریا کا ٹکڑا جلایا گیا اور آپ کے زخم میں بھر دیا گیا۔

اس حدیث سے دواا ور علاج کرنے کا جواز ثابت ہوا اور یہ کہ یہ توکل کے منافی نہیں۔ نیز یہ کہ نجاست دورکرنے میں دوسروںسے مددلینا درست ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسواک کرنے کا بیان

حدیث نمبر : 243
وقال ابن عباس بت عند النبي صلى الله عليه وسلم فاستن‏.‏
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رات رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری تو ( میں نے دیکھا کہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسواک کی۔
حدیث نمبر : 244
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا حماد بن زيد، عن غيلان بن جرير، عن أبي بردة، عن أبيه، قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فوجدته يستن بسواك بيده يقول ‏"‏ أع أع ‏"‏، والسواك في فيه، كأنه يتهوع‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے غیلان بن جریر کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابوبردہ سے وہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ میں ( ایک مرتبہ ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ کو اپنے ہاتھ سے مسواک کرتے ہوئے پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے اع اع کی آواز نکل رہی تھی اور مسواک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ میں تھی جس طرح آپ قے کر رہے ہوں۔

اگرحلق کے اندر سے مسواک کی جائے تو اس قسم کی آواز نکلا کرتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وقت یہی کیفیت تھی۔ مسواک کرنے میں مبالغہ کرنا مراد ہے۔

حدیث نمبر : 245
حدثنا عثمان، قال حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، عن حذيفة، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل يشوص فاه بالسواك‏.‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے، وہ ابووائل سے، وہ حضرت حذیفہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو اپنے منہ کو مسواک سے صاف کرتے۔

تشریح : مسواک کی فضیلت کے بارے میں یہ حدیث ہی کافی ہے کہ جو نماز مسواک کرکے پڑھی جائے وہ بغیرمسواک والی نماز پر ستائیس درجہ فضیلت رکھتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کا اس قدر اہتمام فرماتے کہ آخر وقت بھی اس سے غافل نہ ہوئے۔ طبی لحاظ سے بھی مسواک کے بہت سے فوائد ہیں۔ بہترہے کہ پیلو کی تازہ جڑ سے کی جائے۔ مسواک کرنے سے آنکھیں بھی روشن ہوتی ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بڑے آدمی کو مسواک دینا ( ادب کا تقاضا ہے )

حدیث نمبر : 246
وقال عفان حدثنا صخر بن جويرية، عن نافع، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أراني أتسوك بسواك، فجاءني رجلان أحدهما أكبر من الآخر، فناولت السواك الأصغر منهما، فقيل لي كبر‏.‏ فدفعته إلى الأكبر منهما‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله اختصره نعيم عن ابن المبارك عن أسامة عن نافع عن ابن عمر‏.‏
عفان نے کہا کہ ہم سے صخر بن جویریہ نے نافع کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ ( خواب میں ) مسواک کر رہا ہوں تو میرے پاس دو آدمی آئے۔ ایک ان میں سے دوسرے سے بڑا تھا، تو میں نے چھوٹے کو مسواک دے دی پھر مجھ سے کہا گیا کہ بڑے کو دو۔ تب میں نے ان میں سے بڑے کو دی۔ ابوعبداللہ بخاری کہتے ہیں کہ اس حدیث کو نعیم نے ابن المبارک سے، وہ اسامہ سے، وہ نافع سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مختصر طور پر روایت کیا ہے۔

معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر بڑے آدمی کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ نیز یہ بھی معلوم ہواکہ دوسرے آدمی کی مسواک بھی استعمال کی جا سکتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رات کو وضو کر کے سونے والے کی فضیلت کے بیان میں

حدیث نمبر : 247
حدثنا محمد بن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا سفيان، عن منصور، عن سعد بن عبيدة، عن البراء بن عازب، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أتيت مضجعك فتوضأ وضوءك للصلاة، ثم اضطجع على شقك الأيمن، ثم قل اللهم أسلمت وجهي إليك، وفوضت أمري إليك، وألجأت ظهري إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك، اللهم آمنت بكتابك الذي أنزلت، وبنبيك الذي أرسلت‏.‏ فإن مت من ليلتك فأنت على الفطرة، واجعلهن آخر ما تتكلم به‏"‏‏. ‏ قال فرددتها على النبي صلى الله عليه وسلم فلما بلغت ‏"‏ اللهم آمنت بكتابك الذي أنزلت‏"‏‏. ‏ قلت ورسولك‏.‏ قال ‏"‏ لا، ونبيك الذي أرسلت‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انھوں نے کہا ہمیں سفیان نے منصور کے واسطے سے خبر دی، انھوں نے سعد بن عبیدہ سے، وہ براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنے بستر پر لیٹنے آؤ تو اس طرح وضو کرو جس طرح نماز کے لیے کرتے ہو۔ پھر داہنی کروٹ پر لیٹ کر یوں کہو “ اے اللہ! میں نے اپنا چہرہ تیری طرف جھکا دیا۔ اپنا معاملہ تیرے ہی سپرد کر دیا۔ میں نے تیرے ثواب کی توقع اور تیرے عذاب کے ڈر سے تجھے ہی پشت پناہ بنا لیا۔ تیرے سوا کہیں پناہ اور نجات کی جگہ نہیں۔ اے اللہ! جو کتاب تو نے نازل کی میں اس پر ایمان لایا۔ جو نبی تو نے بھیجا میں اس پر ایمان لایا۔ ” تو اگر اس حالت میں اسی رات مر گیا تو فطرت پر مرے گا اور اس دعا کو سب باتوں کے اخیر میں پڑھ۔ حضرت براء کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس دعا کو دوبارہ پڑھا۔ جب میں آمنت بکتابک الذی انزلت پر پہنچا تو میں نے ورسولک ( کا لفظ ) کہہ دیا۔ آپ نے فرمایا نہیں ( یوں کہو ) ونبیک الذی ارسلت۔

تشریح : سیدالمرسلین حضرت امام بخاری قدس سرہ نے کتاب الوضوء کی آیت کریمہ اذا قمتم الی الصلوۃ ( المائدہ: 6 ) سے شروع فرمایا تھا اور اب کتاب الوضو کو سوتے وقت وضوکرنے کی فضیلت پر ختم فرمایا ہے۔ اس ارتباط کے لیے حضرت امام قدس سرہ کی نظر غائر بہت سے امور پر ہے اور اشارہ کرنا ہے کہ ایک مرد مومن کی صبح اور شام، ابتدا وانتہا، بیداری وشب باشی سب کچھ باوضو ذکرالٰہی پر ہونی چاہئیے۔ اور ذکر الٰہی بھی عین اسی نہج اسی طور طریقہ پر ہو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلیم فرمودہ ہے۔ اس سے اگر ذرا بھی ہٹ کر دوسرا راستہ اختیار کیاگیا تووہ عنداللہ مقبول نہ ہوگا۔ جیسا کہ یہاں مذکو رہے کہ رات کو سوتے وقت کی دعائے مذکورہ میں صحابی نے آپ کے تعلیم فرمودہ لفظ کو ذرا بدل دیا تو آپ نے فوراً اسے اس کی کمی وبیشی کو گوارا نہیں فرمایا۔ آیت کریمہ یآیہا الذین آمنوا لاتقدموا بین یدی اللہ ورسولہ ( الحجرات: 1 ) کا یہی تقاضا اور دعوت اہل حدیث کا یہی خلاصہ ہے۔ تعجب ہے ان مقلدین جامدین پر جو محض اپنے مزعومہ مسالک کی حمایت کے لیے حضرت سیدالمحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی درایت وفقاہت پر لب کشائی کرتے ہیں اور آپ کی تخفیف وتنقیص کرکے اپنی دریدہ ذہنی کا ثبوت دیتے ہیں۔

کتاب الوضو ختم کرتے ہوئے ہم پھر ببانگ دہل اعلان کرتے ہیں کہ فن حدیث شریف میں حضرت امام بخاری قدس سرہ امت کے اندر وہ مقام رکھتے ہیں جہاں آپ کا کوئی مثیل ونظیر نہیں ہے۔ آپ کی جامع الصحیح یعنی صحیح بخاری وہ کتاب ہے جسے امت نے بالاتفاق اصح الکتب بعدکتاب اللہ قراردیا ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ظاہر ہے کہ ائمہ مجتہدین رحمۃ اللہ علیہم کا بھی امت میں ایک خصوصی مقام ہے ان کی بھی ادنیٰ تحقیر گناہ کبیرہ ہے۔ سب کو اپنے اپنے درجہ پر رکھنا اور سب کی عزت کرنا تقاضائے ایمان ہے۔ان میں سے کس کو کس پر فضیلت دی جائے اور اس کے لیے دفاتر سیاہ کئے جائیں یہ ایک خبط ہے۔ جو اس چودہویں صدی میں بعض مقلدین جامدین کو ہو گیا ہے۔ اللہ پاک نے پیغمبروں کے متعلق بھی صاف فرمادیا ہے۔ تلک الرسل فضلنا بعضہم علی بعض ( البقرۃ: 253 ) پھر ائمہ کرام واولیائے عظام ومحدثین ذوی الاحترام کا توذکر ہی کیا ہے۔ ان کے متعلق یہی اصول مدنظر رکھنا ہوگا۔
ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است
یااللہ! کس منہ سے تیرا شکرادا کروں کہ تونے مجھ ناچیز حقیر فقیر گنہگار شرمسار ادنیٰ ترین بندے کو اپنے حبیب پاک گنبد خضراءکے مکین صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مقدس بابرکت کتاب کی خدمت کے لیے توفیق عطا فرمائی، یہ فضل تیرامحض وکرم ہے ورنہ من آنم کہ من مولائے کریم!
اس مقدس کتاب کے ترجمہ وتشریحات میں نہ معلوم مجھ سے کس قدر لغزشیں ہوئی ہوں گی۔ کہاں کہاں میرا قلم جادئہ اعتدال سے ہٹ گیا ہوگا۔
الہ العالمین! میری غلطیوں کومعاف فرمادے اور اس خدمت کو قبول فرماکر میرے لیے، میرے والدین واساتذہ واولاد وجملہ معاونین کرام و ہمدردان عظام کے لیے باعث نجات بنادے اور اسے قبول عام عطا فرماکر اپنے بندوں بندیوں کے لیے باعث رشد وہدایت فرما۔
الحمدللہ! کہ آج شروع ماہ جمادی الثانی 1387ھ میں بخاری شریف کے پہلے پارہ کے ترجمہ وتشریحات سے فراغت حاصل ہوئی۔ اللہ پاک پوری کتاب کا ترجمہ وتشریحات مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اور قدر دانوں کو اس سے ہدایت اور ازدیاد ایمان نصیب کرے۔آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الغسل


باب : اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وضاحت میں کہ

وقول الله تعالى ‏{‏وإن كنتم جنبا فاطهروا وإن كنتم مرضى أو على سفر أو جاء أحد منكم من الغائط أو لامستم النساء فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا فامسحوا بوجوهكم وأيديكم منه ما يريد الله ليجعل عليكم من حرج ولكن يريد ليطهركم وليتم نعمته عليكم لعلكم تشكرون‏}‏
اگر جنبی ہو جاؤ تو خوب اچھی طرح پاکی حاصل کرو اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں یا کوئی تم میں پاخانہ سے آئے یا تم نے اپنی بیویوں سے جماع کیا ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی کا قصد کرو اور اپنے منہ اور ہاتھ پر اسے مل لو۔ اللہ نہیں چاہتا کہ تم پر تنگی کرے لیکن چاہتا ہے کہ تم کو پاک کرے اور پورا کرے اپنی نعمت تم پر تا کہ تم اس کا شکر کرو۔ ( المائدہ : ۶ )

وقوله جل ذكره ‏{‏يا أيها الذين آمنوا لا تقربوا الصلاة وأنتم سكارى حتى تعلموا ما تقولون ولا جنبا إلا عابري سبيل حتى تغتسلوا وإن كنتم مرضى أو على سفر أو جاء أحد منكم من الغائط أو لامستم النساء فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا فامسحوا بوجوهكم وأيديكم إن الله كان عفوا غفورا‏}‏‏.‏
اور اللہ کا دوسرا فرمان ہے کہ “ اے ایمان والو نزدیک نہ جاؤ نماز کے جس وقت کہ تم نشہ میں ہو۔ یہاں تک کہ سمجھنے لگو جو کہتے ہو اور نہ اس وقت کہ غسل کی حاجت ہو مگر حالت سفر میں یہاں تک کہ غسل کر لو اور اگر تم مریض ہو یا سفر میں یا آئے تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے یا تم پاس گئے ہو عورتوں کے، پھر نہ پاؤ تم پانی تو ارادہ کرو پاک مٹی کا، پس ملو اپنے منہ کو اور ہاتھوں کو، بے شک اللہ معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔ ” ( سورہ النساء : ۴۳ )

قال ابن حجر فی الفتح کذا فی روایتنا بتقدیم البسملۃ وللاکثر بالعکس والاول ظاہرووجہ الثانی وعلیہ اکثر الروایات انہ جعل الترجمۃ قائمۃ مقام تسمیۃ السورۃ والاحادیث المذکورۃ بعدالبسملۃ کالآیات مستفتحۃ بالبسملۃ یعنی حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہماری روایت بخاری میں کتاب الغسل پر بسم اللہ مقدم ہے۔ اکثر مؤخر بھی نقل کرتے ہیں۔ اول روایت ظاہر ہے گویا حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمہ ( کتاب الغسل ) کو قرآن مجید کی سورتوں میں کسی ایک سورۃ کے قائم مقام قراردے کر احادیث بعدکوان آیات کی جگہ پر رکھا ہے جوسورت میں بسم اللہ کے بعد آتی ہیں۔لفظ غسل ( غین کے ضمہ کے ساتھ ) تمام بدن کے دھونے کا نام ہے۔ طہارت میں پہلے قضائے حاجت سے فارغ ہوکراستنجاءکرنا پھر وضوکرنا پھر بوقت ضرورت غسل کرنا۔ اسی ترتیب کے پیش نظرحضرت امام قدس سرہ نے کتاب الغسل کو درج فرمایا اور اس کو آیات قرآنی سے شروع کیا۔ جس سے مقصود یہ بتانا ہے کہ غسل جنابت کی فرضیت قرآن مجید سے ثابت ہے۔ پہلی آیت سورۃ مائدہ کی اور دوسری آیت سورۃ نسا ءکی ہے۔ دونوں میں طریقہ غسل کی کچھ تفصیلات مذکور ہوئی ہیں۔ ساتھ ہی یہ بھی بتلایا گیا ہے کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں وضو اور غسل کی جگہ تیمم بطریقہ معلومہ کرلینا کافی ہو جاتا ہے۔
 
Top