• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ غسل سے پہلے وضوکرلینا چاہیے

حدیث نمبر : 248
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا اغتسل من الجنابة بدأ فغسل يديه، ثم يتوضأ كما يتوضأ للصلاة، ثم يدخل أصابعه في الماء، فيخلل بها أصول شعره ثم يصب على رأسه ثلاث غرف بيديه، ثم يفيض الماء على جلده كله‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں مالک نے ہشام سے خبر دی، وہ اپنے والد سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل فرماتے تو آپ پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر اسی طرح وضو کرتے جیسا نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کیا کرتے تھے۔ پھر پانی میں اپنی انگلیاں داخل فرماتے اور ان سے بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے تین چلو سر پر ڈالتے پھر تمام بدن پر پانی بہا لیتے۔

حدیث نمبر : 249
حدثنا محمد بن يوسف، قال حدثنا سفيان، عن الأعمش، عن سالم بن أبي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، عن ميمونة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت توضأ رسول الله صلى الله عليه وسلم وضوءه للصلاة غير رجليه، وغسل فرجه، وما أصابه من الأذى، ثم أفاض عليه الماء، ثم نحى رجليه فغسلهما، هذه غسله من الجنابة‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا اعمش سے روایت کر کے، وہ سالم ابن ابی الجعد سے، وہ کریب سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، وہ میمونہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے وضو کی طرح ایک مرتبہ وضو کیا، البتہ پاؤں نہیں دھوئے۔ پھر اپنی شرمگاہ کو دھویا اور جہاں کہیں بھی نجاست لگ گئی تھی، اس کو دھویا۔ پھر اپنے اوپر پانی بہا لیا۔ پھر پہلی جگہ سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں کو دھویا۔ آپ کا غسل جنابت اسی طرح ہوا کرتا تھا۔

حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں تقدیم تاخیر ہوگئی ہے۔ شرمگاہ کو وضو سے پہلے دھونا چاہئیے جیسا کہ دوسری روایات میں ہے۔ پھر وضو کرنا مگرپیرنہ دھونا پھرغسل کرنا پھر باہر نکل کر پیردھونا یہی مسنون طریقہ غسل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ مردکا اپنی بیوی کے ساتھ غسل کرنا درست ہے

حدیث نمبر : 250
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت كنت أغتسل أنا والنبي، صلى الله عليه وسلم من إناء واحد من قدح يقال له الفرق‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے حدیث بیان کی۔ انھوں نے زہری سے، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کیا کرتے تھے اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا۔

تشریح : ہردومیاں بیوی ایک ہی برتن میں پانی بھرکر غسل کرسکتے ہیں۔ یہاں فرق ( برتن ) کا ذکر ہردو کے لیے مذکور ہے۔ جن احادیث میں صرف ایک صاع پانی کا ذکر ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تنہا اکیلے غسل کا ذکر ہے۔ دوفرق کا وزن سولہ رطل یعنی آٹھ سیر کے قریب ہوتا ہے جو تین صاع حجازی کے برابرہے۔
صاحب عون المعبود فرماتے ہیں: ولیس الغسل بالصاع والوضوءبالمد للتحدید والتقدیر بل کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم ربما اقتصر بالصاع وربما زاد روی مسلم من حدیث عائشۃ انھا کانت تغتسل ہی والنبی صلی اللہ علیہ وسلم من اناءواحد ہوالفرق قال ابن عیینۃ والشافعی وغیرہما ہوثلاثۃ اصع ( عون المعبود،ج1،ص: 35 ) یعنی غسل اور وضو کے لیے صاع کی تحدید نہیں ہے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع پر کبھی زیادہ پر اکتفا فرمایا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا چاہیے

حدیث نمبر : 251
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثني عبد الصمد، قال حدثني شعبة، قال حدثني أبو بكر بن حفص، قال سمعت أبا سلمة، يقول دخلت أنا وأخو، عائشة على عائشة فسألها أخوها عن غسل النبي، صلى الله عليه وسلم فدعت بإناء نحوا من صاع، فاغتسلت وأفاضت على رأسها، وبيننا وبينها حجاب‏.‏ قال أبو عبد الله قال يزيد بن هارون وبهز والجدي عن شعبة قدر صاع‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالصمد نے، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے، انھوں نے کہا ہم سے ابوبکر بن حفص نے، انھوں نے کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے یہ حدیث سنی کہ میں ( ابوسلمہ ) اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عائشہ کی خدمت میں گئے۔ ان کے بھائی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں سوال کیا۔ تو آپ نے صاع جیسا ایک برتن منگوایا۔ پھر غسل کیا اور اپنے اوپر پانی بہایا۔ اس وقت ہمارے درمیان اور ان کے درمیان پردہ حائل تھا۔ امام ابوعبداللہ ( بخاری ) کہتے ہیں کہ یزید بن ہارون، بہز اور جدی نے شعبہ سے قدر صاع کے الفاظ روایت کئے ہیں۔

تشریح : یہ ابوسلمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے اور آپ کے محرم تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ سے خود غسل فرماکر ان کو طریقہ غسل کی تعلیم فرمائی۔ مسنون غسل یہی ہے کہ ایک صاع پانی استعمال کیا جائے۔ صاع حجازی کچھ کم پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل کچھ پہلے گزر چکی ہے۔

حدیث نمبر : 252
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا يحيى بن آدم، قال حدثنا زهير، عن أبي إسحاق، قال حدثنا أبو جعفر، أنه كان عند جابر بن عبد الله هو وأبوه، وعنده قوم فسألوه عن الغسل،‏.‏ فقال يكفيك صاع‏.‏ فقال رجل ما يكفيني‏.‏ فقال جابر كان يكفي من هو أوفى منك شعرا، وخير منك، ثم أمنا في ثوب‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن آدم نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا ہم سے زہیر نے ابواسحاق کے واسطے سے، انھوں نے کہا ہم سے ابوجعفر ( محمد باقر ) نے بیان کیا کہ وہ اور ان کے والد ( جناب زین العابدین ) جابر بن عبداللہ کے پاس تھے اور کچھ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ ان لوگوں نے آپ سے غسل کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ایک صاع کافی ہے۔ اس پر ایک شخص بولا یہ مجھے تو کافی نہ ہو گا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ ان کے لیے کافی ہوتا تھا جن کے بال تم سے زیادہ تھے اور جو تم سے بہتر تھے ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) پھر حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے صرف ایک کپڑا پہن کر ہمیں نماز پڑھائی۔

تشریح : وہ بولنے والے شخص حسن بن محمد بن حنفیہ تھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے ان کوسختی سے سمجھایا۔ جس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے خلاف فضول اعتراض کرنے والوں کو سختی سے سمجھانا چاہئیے اور حدیث کے مقابلہ پر رائے قیاس تاویل سے کام لینا کسی طرح بھی جائز نہیں ۔والحنفیۃ کانت زوجۃ علی تزوجہا بعد فاطمۃ فولدت لہا محمداً فاشتہربالنسبۃ الیہا۔ ( فتح الباری ) یعنی حنفیہ نامی عورت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیوی ہیں جو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ کے نکاح میں آئیں جن کے بطن سے محمدنامی بچہ پیدا ہوا اور وہ بجائے باپ کے ماںہی کے نام سے زیادہ مشہورہوا۔

حدیث نمبر : 253
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا ابن عيينة، عن عمرو، عن جابر بن زيد، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم وميمونة كانا يغتسلان من إناء واحد‏.‏ قال أبو عبد الله كان ابن عيينة يقول أخيرا عن ابن عباس عن ميمونة، والصحيح ما روى أبو نعيم‏.‏
ہم سے ابونعیم نے روایت کی، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو کے واسطہ سے بیان کیا، وہ جابر بن زید سے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا ایک برتن میں غسل کر لیتے تھے۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) فرماتے ہیں کہ ابن عیینہ اخیر عمر میں اس حدیث کو یوں روایت کرتے تھے ابن عباس سے انھوں نے میمونہ سے اور صحیح وہی روایت ہے جو ابونعیم نے کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس کے بارے میں جو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہائے

حدیث نمبر : 254
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا زهير، عن أبي إسحاق، قال حدثني سليمان بن صرد، قال حدثني جبير بن مطعم، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أما أنا فأفيض على رأسي ثلاثا‏"‏‏. ‏ وأشار بيديه كلتيهما‏.‏
ابونعیم نے ہم سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے زہیر نے روایت کی ابواسحاق سے، انھوں نے کہا کہ ہم سے جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے روایت کی۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا۔

ابونعیم نے مستخرج میں روایت کیا ہے کہ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غسل جنابت کا ذکر کیا۔ صحیح مسلم میں ہے کہ انھوں نے جھگڑا کیاتب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔

حدیث نمبر : 255
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا غندر، قال حدثنا شعبة، عن مخول بن راشد، عن محمد بن علي، عن جابر بن عبد الله، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يفرغ على رأسه ثلاثا‏.‏
محمد بن بشار نے ہم سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، مخول بن راشد کے واسطے سے، وہ محمد ابن علی سے، وہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتے تھے۔

حدیث نمبر : 256
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا معمر بن يحيى بن سام، حدثني أبو جعفر، قال قال لي جابر أتاني ابن عمك يعرض بالحسن بن محمد ابن الحنفية قال كيف الغسل من الجنابة فقلت كان النبي صلى الله عليه وسلم يأخذ ثلاثة أكف ويفيضها على رأسه، ثم يفيض على سائر جسده‏.‏ فقال لي الحسن إني رجل كثير الشعر‏.‏ فقلت كان النبي صلى الله عليه وسلم أكثر منك شعرا‏.‏
ہم سے ابونعیم ( فضل بن دکین ) نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر بن یحییٰ بن سام نے روایت کیا، کہا کہ ہم سے ابوجعفر ( محمد باقر ) نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے جابر نے بیان کیا کہ میرے پاس تمہارے چچا کے بیٹے ( ان کی مراد حسن بن محمد ابن حنفیہ سے تھی ) آئے۔ انھوں نے پوچھا کہ جنابت کے غسل کا کیا طریقہ ہے؟ میں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین چلو پانی لیتے اور ان کو اپنے سر پر بہاتے تھے۔ پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہاتے تھے۔ حسن نے اس پر کہا کہ میں تو بہت بالوں والا آدمی ہوں۔ میں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تم سے زیادہ تھے۔

تشریح : چچاکے بیٹے مجازاً کہا۔ دراصل وہ ان کے باپ یعنی زین العابدین کے چچازاد بھائی تھے کیونکہ محمدابن حنفیہ جناب حسن اور جناب حسین رضی اللہ عنہما کے بھائی تھے۔ جو حسن کے باپ ہیں، جنھوں نے جابر سے یہ مسئلہ پوچھا تھا۔ترجمۃ الباب اور احادیث واردہ کی مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت میں سرمبارک پر تین چلو پانی بہاتے تھے۔ پس مسنون طریقہ یہی ہے۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل بہرصورت لائق اتباع ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ صرف ایک مرتبہ بدن پر پانی ڈال کر اگرغسل کیا جائے تو کافی ہوگا

حدیث نمبر : 257
حدثنا موسى، قال حدثنا عبد الواحد، عن الأعمش، عن سالم بن أبي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، قال قالت ميمونة وضعت للنبي صلى الله عليه وسلم ماء للغسل، فغسل يديه مرتين أو ثلاثا، ثم أفرغ على شماله فغسل مذاكيره، ثم مسح يده بالأرض، ثم مضمض واستنشق وغسل وجهه ويديه، ثم أفاض على جسده، ثم تحول من مكانه فغسل قدميه‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے سالم بن ابی الجعد سے، انھوں نے کریب سے، انھوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے فرمایا کہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے اپنے ہاتھ دو مرتبہ یا تین مرتبہ دھوئے۔ پھر پانی اپنے بائیں ہاتھ میں لے کر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر زمین پر ہاتھ رگڑا۔ اس کے بعد کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہا لیا اور اپنی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھوئے۔

تشریح : یعنی غسل میں ایک ہی بارسارے بدن پر پانی ڈالنا کافی ہے۔ گوباب کی حدیث میں ایک بار کی صراحت نہیں مطلق پانی بہانے کا ذکر ہے جو ایک ہی بار پر محمول ہوگا اسی سے ترجمہ باب نکلا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ جس نے حلاب سے یا خوشبو لگا کر غسل کیاتو اس کا بھی غسل ہوگیا

حدیث نمبر : 258
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا أبو عاصم، عن حنظلة، عن القاسم، عن عائشة، قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا اغتسل من الجنابة دعا بشىء نحو الحلاب، فأخذ بكفه، فبدأ بشق رأسه الأيمن ثم الأيسر، فقال بهما على رأسه‏.‏
محمد بن مثنیٰ نے ہم سے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعاصم ( ضحاک بن مخلد ) نے بیان کیا، وہ حنظلہ بن ابی سفیان سے، وہ قاسم بن محمد سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرنا چاہتے تو حلاب کی طرح ایک چیز منگاتے۔ پھر ( پانی کا چلو ) اپنے ہاتھ میں لیتے اور سر کے داہنے حصے سے غسل کی ابتدا کرتے۔ پھر بائیں حصہ کا غسل کرتے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے بیچ میں لگاتے تھے۔

تشریح : حلاب کے متعلق مجمع البحار میں ہے : الحلاب بکسر مہملۃ وخفۃ لام اناءیسع قدرحلب ناقۃ ای کان یبتدی بطلب ظرف و بطلب طیب اواراد بہ اناءالطیب یعنی بدا تارۃ بطلب ظرف و تارۃ بطلب نفس الطیب وروی بشدۃ لام وجیم وہو خطائ۔ ( مجمع البحار ) یعنی حلاب ایک برتن ہوتا تھا جس میں ایک اونٹنی کا دودھ سماسکے۔ آ پ وہ برتن پانی سے پر کرکے منگاتے اور اس سے غسل فرماتے یا اس سے خوشبو رکھنے کا برتن مراد لیا ہے۔ یعنی کبھی محض آپ برتن منگاتے کبھی محض خوشبو۔ ترجمہ باب کا مطلب یہ ہے کہ خواہ غسل پہلے پانی سے شروع کرے جو حلاب جیسے برتن میں بھرا ہوا ہو پھرغسل کے بعد خوشبو لگائے یا پہلے خوشبو لگاکر بعدمیں نہائے۔ یہاں باب کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت کیا اور دوسرے مطلب کے لیے وہ حدیث ہے جو آگے آرہی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبو لگانے کے بعد اپنی بیویوں سے صحبت کی اور صحبت کے بعد غسل ہوتا ہے توغسل سے قبل خوشبو لگانا ثابت ہوا۔ شاہ ولی اللہ مرحوم نے فرمایا ہے کہ حلاب سے مراد بیجوں کا ایک شیرہ ہے جو عرب لوگ غسل سے پہلے لگایا کرتے تھے۔ جیسے آج کل صابون یابٹنہ یا تیل اور بیسن ملاکر لگاتے ہیں پھر نہایا کرتے ہیں۔ بعضوں نے اس لفظ کو جیم کے ساتھ جلاب پڑھا ہے اور اسے گلاب کا معرب قراردیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ غسل جنابت کرتے وقت کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا چاہیے

حدیث نمبر : 259
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، قال حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال حدثني سالم، عن كريب، عن ابن عباس، قال حدثتنا ميمونة، قالت صببت للنبي صلى الله عليه وسلم غسلا، فأفرغ بيمينه على يساره فغسلهما، ثم غسل فرجه، ثم قال بيده الأرض فمسحها بالتراب، ثم غسلها، ثم تمضمض واستنشق، ثم غسل وجهه، وأفاض على رأسه، ثم تنحى فغسل قدميه، ثم أتي بمنديل، فلم ينفض بها‏.‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے، کہا مجھ سے سالم نے کریب کے واسطہ سے، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، کہا ہم سے میمونہ نے بیان فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو پہلے آپ نے پانی کو دائیں ہاتھ سے بائیں پر گرایا۔ اس طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑ کر اسے مٹی سے ملا اور دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنے چہرہ کو دھویا اور اپنے سر پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف ہو کر دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر آپ کو رومال دیا گیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پانی کو خشک نہیں کیا۔

تشریح : معلوم ہوا کہ وضو اور غسل دونوں میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا واجب ہے۔ کذا قال اہل الحدیث وامام احمدبن حنبل۔ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایاکہ وضو کے بعد اعضاءکے پونچھنے کے بارے میں کوئی حدیث نہیں آئی۔ بلکہ صحیح احادیث سے یہی ثابت ہے کہ غسل کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومال واپس کردیا۔ جسم مبارک کو اس سے نہیں پونچھا۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس بارے میں بہت اختلاف ہے۔ کچھ لوگ مکروہ جانتے ہیں کچھ مستحب کہتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ پونچھنا اور نہ پونچھنا برابرہے۔ ہمارے نزدیک یہی مختارہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ ( گندگی پاک کرنے کے بعد ) ہاتھ مٹی سے ملنا تا کہ وہ خوب صاف ہو جائیں

حدیث نمبر : 260
حدثنا الحميدي، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا الأعمش، عن سالم بن أبي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، عن ميمونة، أن النبي صلى الله عليه وسلم اغتسل من الجنابة، فغسل فرجه بيده، ثم دلك بها الحائط ثم غسلها، ثم توضأ وضوءه للصلاة، فلما فرغ من غسله غسل رجليه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا سالم بن ابی الجعد کے واسطہ سے، انھوں نے کریب سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کیا تو پہلے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے دھویا۔ پھر ہاتھ کو دیوار پر رگڑ کر دھویا۔ پھر نماز کی طرح وضو کیا اور جب آپ اپنے غسل سے فارغ ہو گئے تو دونوں پاؤں دھوئے۔

تشریح : پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے، مگر یہاں دوسری سند سے مروی ہے۔ حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ ایک ہی حدیث کو کئی بار مختلف مسائل نکالنے کے لیے بیان کرتے ہیں مگرجداجدا اسنادوں سے تاکہ تکرار بے فائدہ نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کیا جنبی اپنے ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈال سکتا ہے؟

إذا لم يكن على يده قذر غير الجنابة وأدخل ابن عمر والبراء بن عازب يده في الطهور، ولم يغسلها ثم توضأ‏.‏ ولم ير ابن عمر وابن عباس بأسا بما ينتضح من غسل الجنابة‏.‏
جب کہ جنابت کے سوا ہاتھ میں کوئی گندگی نہیں لگی ہوئی ہو۔ ابن عمر اور براء بن عازب نے ہاتھ دھونے سے پہلے غسل کے پانی میں اپنا ہاتھ ڈالا تھا۔ اور ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم اس پانی سے غسل میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے جس میں غسل جنابت کا پانی ٹپک کر گر گیا ہو۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہاتھ پر اور کوئی نجاست نہ ہو اور ہاتھ دھونے سے پہلے برتن میں ڈال دے تو پانی نجس نہ ہوگا۔ کیونکہ جنابت نجاست حکمی ہے، حقیقی نہیں ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہا کے اثر کوسعید بن منصور نے اور براءبن عازب کے اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالا ہے۔ ان میں جنابت کا ذکر نہیں ہے۔ مگر حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے جنابت کو حدث پر قیاس کیا ہے۔ کیوں کہ دونوں حکمی نجاست ہیں اور ابن ابی شیبہ نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ بعض اصحاب کرام اپنے ہاتھ بغیر دھوئے پانی میں ڈال دیتے حالانکہ وہ جنبی ہوتے، یہ اسی حالت میں کہ ان کے ہاتھوں پر ظاہر میں کوئی نجاست لگی ہوئی نہ ہوتی تھی۔

حدیث نمبر : 261
حدثنا عبد الله بن مسلمة، أخبرنا أفلح، عن القاسم، عن عائشة، قالت كنت أغتسل أنا والنبي، صلى الله عليه وسلم من إناء واحد تختلف أيدينا فيه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا قاسم سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن میں اس طرح غسل کرتے تھے کہ ہمارے ہاتھ باری باری اس میں پڑتے تھے۔

یعنی کبھی میرا ہاتھ اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی دونوں ہاتھ مل بھی جاتے تھے۔ جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔

حدیث نمبر : 262
حدثنا مسدد، قال حدثنا حماد، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اغتسل من الجنابة غسل يده‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حماد نے ہشام کے واسطے سے بیان کیا، وہ اپنے والد سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت فرماتے تو ( پہلے ) اپنا ہاتھ دھوتے۔

اس حدیث کے لانے سے غرض یہ ہے کہ جب ہاتھ پر نجاست کا شبہ ہو تو ہاتھ دھوکر برتن میں ڈالنا چاہئیے اور اگر کوئی شبہ نہ ہو تو بغیردھوئے بھی جائز ہے۔

حدیث نمبر : 263
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، عن أبي بكر بن حفص، عن عروة، عن عائشة، قالت كنت أغتسل أنا والنبي، صلى الله عليه وسلم من إناء واحد من جنابة‏.‏ وعن عبد الرحمن بن القاسم عن أبيه عن عائشة مثله‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا۔ کہا ہم سے شعبہ نے ابوبکر بن حفص کے واسطے سے بیان کیا، وہ عروہ سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( دونوں مل کر ) ایک ہی برتن میں غسل جنابت کرتے تھے۔ اور شعبہ نے عبدالرحمن بن قاسم سے، انھوں نے اپنے والد ( قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ) سے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ اسی طرح روایت کرتے ہیں۔

حدیث نمبر : 264
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، عن عبد الله بن عبد الله بن جبر، قال سمعت أنس بن مالك، يقول كان النبي صلى الله عليه وسلم والمرأة من نسائه يغتسلان من إناء واحد‏.‏ زاد مسلم ووهب عن شعبة من الجنابة‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے عبداللہ بن عبداللہ بن جبیر سے انھوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی کوئی زوجہ مطہرہ ایک برتن میں غسل کرتے تھے۔ اس حدیث میں مسلم بن ابراہیم اور وہب بن جریر کی روایت میں شعبہ سے من الجنابۃ کا لفظ ( زیادہ ) ہے۔ ( یعنی یہ جنابت کا غسل ہوتا تھا )

تشریح : حافظ نے کہا کہ اسماعیل نے وہب کی روایت کو نکالا ہے۔ لیکن اس میں یہ زیادتی نہیں ہے۔ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ یہ تعلیق نہیں ہے کیونکہ مسلم بن ابراہیم توامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ ہیں اور وہب نے بھی جب وفات پائی توامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عمر اس وقت بارہ سال کی تھی۔ کیا تعجب ہے کہ آپ کو ان سے سماعت حاصل ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص سے متعلق جس نے غسل میں اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی گرایا

حدیث نمبر : 265
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا أبو عوانة، حدثنا الأعمش، عن سالم بن أبي الجعد، عن كريب، مولى ابن عباس عن ابن عباس، عن ميمونة بنت الحارث، قالت وضعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم غسلا وسترته، فصب على يده، فغسلها مرة أو مرتين ـ قال سليمان لا أدري أذكر الثالثة أم لا ـ ثم أفرغ بيمينه على شماله، فغسل فرجه، ثم دلك يده بالأرض أو بالحائط، ثم تمضمض واستنشق، وغسل وجهه ويديه، وغسل رأسه، ثم صب على جسده، ثم تنحى فغسل قدميه، فناولته خرقة، فقال بيده هكذا، ولم يردها‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے سالم بن ابی الجعد کے واسطہ سے بیان کیا، وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولیٰ کریب سے، انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ( غسل کا ) پانی رکھا اور پردہ کر دیا، آپ نے ( پہلے غسل میں ) اپنے ہاتھ پر پانی ڈالا اور اسے ایک یا دو بار دھویا۔ سلیمان اعمش کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں راوی ( سالم بن ابی الجعد ) نے تیسری بار کا بھی ذکر کیا یا نہیں۔ پھر داہنے ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالا۔ اور شرمگاہ دھوئی، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ اور سر کو دھویا۔ پھر سارے بدن پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف سرک کر دونوں پاؤں دھوئے۔ بعد میں میں نے ایک کپڑا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ اسے ہٹاؤ اور آپ نے اس کپڑے کا ارادہ نہیں فرمایا۔

تشریح : امام احمد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا۔ آداب غسل سے ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کرپہلے خوب اچھی طرح سے استنجاءکرلیا جائے۔ ترجمہ باب حدیث سے ظاہر ہے۔
 
Top