Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : اس بیان میں کہ غسل اور وضو کے درمیان فصل کرنا بھی جائز ہے
ويذكر عن ابن عمر، أنه غسل قدميه بعد ما جف وضوءه
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انھوں نے اپنے قدموں کو وضو کردہ اعضاء کے خشک ہونے کے بعد دھویا۔
اس اثر کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الام میں روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے بازار میں وضو کیا۔ پھر ایک جنازے میں بلائے گئے تووہاں آپ نے موزوں پر مسح کیا اور جنازے کی نماز پڑھی۔ حافظ نے کہا اس کی سند صحیح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشاءباب یہ ہے کہ غسل اور وضومیں موالات واجب نہیں ہے۔
حدیث نمبر : 266
حدثنا محمد بن محبوب، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا الأعمش، عن سالم بن أبي الجعد، عن كريب، مولى ابن عباس عن ابن عباس، قال قالت ميمونة وضعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ماء يغتسل به، فأفرغ على يديه، فغسلهما مرتين مرتين أو ثلاثا، ثم أفرغ بيمينه على شماله، فغسل مذاكيره، ثم دلك يده بالأرض، ثم مضمض واستنشق، ثم غسل وجهه ويديه ثم غسل رأسه ثلاثا، ثم أفرغ على جسده، ثم تنحى من مقامه فغسل قدميه.
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے سالم بن ابی الجعد کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر گرا کر انھیں دو یا تین بار دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں پر گرا کر اپنی شرمگاہوں کو دھویا۔ پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہایا، پھر آپ اپنی غسل کی جگہ سے الگ ہو گئے۔ پھر اپنے قدموں کو دھویا۔
یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا ہے کہ موالات واجب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سارا وضو کرلیا۔ مگرپاؤں نہیں دھوئے۔ یہاں تک کہ آپ غسل سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے پیردھوئے۔
ويذكر عن ابن عمر، أنه غسل قدميه بعد ما جف وضوءه
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انھوں نے اپنے قدموں کو وضو کردہ اعضاء کے خشک ہونے کے بعد دھویا۔
اس اثر کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الام میں روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے بازار میں وضو کیا۔ پھر ایک جنازے میں بلائے گئے تووہاں آپ نے موزوں پر مسح کیا اور جنازے کی نماز پڑھی۔ حافظ نے کہا اس کی سند صحیح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشاءباب یہ ہے کہ غسل اور وضومیں موالات واجب نہیں ہے۔
حدیث نمبر : 266
حدثنا محمد بن محبوب، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا الأعمش، عن سالم بن أبي الجعد، عن كريب، مولى ابن عباس عن ابن عباس، قال قالت ميمونة وضعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ماء يغتسل به، فأفرغ على يديه، فغسلهما مرتين مرتين أو ثلاثا، ثم أفرغ بيمينه على شماله، فغسل مذاكيره، ثم دلك يده بالأرض، ثم مضمض واستنشق، ثم غسل وجهه ويديه ثم غسل رأسه ثلاثا، ثم أفرغ على جسده، ثم تنحى من مقامه فغسل قدميه.
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے سالم بن ابی الجعد کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر گرا کر انھیں دو یا تین بار دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں پر گرا کر اپنی شرمگاہوں کو دھویا۔ پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہایا، پھر آپ اپنی غسل کی جگہ سے الگ ہو گئے۔ پھر اپنے قدموں کو دھویا۔
یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا ہے کہ موالات واجب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سارا وضو کرلیا۔ مگرپاؤں نہیں دھوئے۔ یہاں تک کہ آپ غسل سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے پیردھوئے۔