• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ غسل اور وضو کے درمیان فصل کرنا بھی جائز ہے

ويذكر عن ابن عمر، أنه غسل قدميه بعد ما جف وضوءه
ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ انھوں نے اپنے قدموں کو وضو کردہ اعضاء کے خشک ہونے کے بعد دھویا۔
اس اثر کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الام میں روایت کیا ہے کہ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما نے بازار میں وضو کیا۔ پھر ایک جنازے میں بلائے گئے تووہاں آپ نے موزوں پر مسح کیا اور جنازے کی نماز پڑھی۔ حافظ نے کہا اس کی سند صحیح ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشاءباب یہ ہے کہ غسل اور وضومیں موالات واجب نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 266
حدثنا محمد بن محبوب، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا الأعمش، عن سالم بن أبي الجعد، عن كريب، مولى ابن عباس عن ابن عباس، قال قالت ميمونة وضعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ماء يغتسل به، فأفرغ على يديه، فغسلهما مرتين مرتين أو ثلاثا، ثم أفرغ بيمينه على شماله، فغسل مذاكيره، ثم دلك يده بالأرض، ثم مضمض واستنشق، ثم غسل وجهه ويديه ثم غسل رأسه ثلاثا، ثم أفرغ على جسده، ثم تنحى من مقامه فغسل قدميه‏.‏
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے سالم بن ابی الجعد کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر گرا کر انھیں دو یا تین بار دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں پر گرا کر اپنی شرمگاہوں کو دھویا۔ پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہایا، پھر آپ اپنی غسل کی جگہ سے الگ ہو گئے۔ پھر اپنے قدموں کو دھویا۔

یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا ہے کہ موالات واجب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سارا وضو کرلیا۔ مگرپاؤں نہیں دھوئے۔ یہاں تک کہ آپ غسل سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے پیردھوئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جس نے جماع کیا اور پھردوبارہ کیا اور جس نے اپنی کئی بیویوں سے ہم بستر ہوکر ایک ہی غسل کیا اس کا بیان

حدیث نمبر : 267
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا ابن أبي عدي، ويحيى بن سعيد، عن شعبة، عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر، عن أبيه، قال ذكرته لعائشة فقالت يرحم الله أبا عبد الرحمن، كنت أطيب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فيطوف على نسائه، ثم يصبح محرما ينضخ طيبا‏.
ہم سے محمد بن بشار نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے ابن ابی عدی اور یحییٰ بن سعید نے شعبہ سے، وہ ابراہیم بن محمد بن منتشر سے، وہ اپنے والد سے، انھوں نے کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس مسئلہ کا ذکر کیا۔ تو آپ نے فرمایا، اللہ ابو عبدالرحمن پر رحم فرمائے میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی پھر آپ اپنی تمام ازواج ( مطہرات ) کے پاس تشریف لے گئے اور صبح کو احرام اس حالت میں باندھا کہ خوشبو سے بدن مہک رہا تھا۔

تشریح : حدیث سے ترجمۃ الباب یوں ثابت ہوا کہ اگرآپ ہر بیوی کے پاس جاکر غسل فرماتے توآپ کے جسم مبارک پر خوشبو کا نشان باقی نہ رہتا۔ جمہور کے نزدیک احرام سے پہلے اس قدر خوشبو لگاناکہ احرام کے بعد بھی اس کا اثرباقی رہے جائز ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اسے جائز نہیں جانتے تھے۔ اسی پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی اصلاح کے لیے ایسا فرمایا، ابوعبدالرحمن ان کی کنیت ہے۔امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فتویٰ قول ابن عمر رضی اللہ عنہما پر ہی ہے۔ مگرجمہور اس کے خلاف ہیں۔

حدیث نمبر : 268
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا معاذ بن هشام، قال حدثني أبي، عن قتادة، قال حدثنا أنس بن مالك، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يدور على نسائه في الساعة الواحدة من الليل والنهار، وهن إحدى عشرة‏.‏ قال قلت لأنس أوكان يطيقه قال كنا نتحدث أنه أعطي قوة ثلاثين‏.‏ وقال سعيد عن قتادة إن أنسا حدثهم تسع نسوة‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا۔ انھوں نے کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے قتادہ کے واسطہ سے، کہا ہم سے انس بن مالک نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس گئے اور یہ گیارہ تھیں۔ ( نو منکوحہ اور دو لونڈیاں ) راوی نے کہا، میں نے انس سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت رکھتے تھے۔ تو آپ نے فرمایا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے اور سعید نے کہا قتادہ کے واسطہ سے کہ ہم کہتے تھے کہ انس نے ان سے نو ازواج کا ذکر کیا۔

تشریح : جس جگہ راوی نے نوبیویوں کا ذکر کیا ہے، وہاں آپ کی نوازواج مطہرات ہی مراد ہیں اور جہاں گیارہ کا ذکر آیا ہے۔ وہاں ماریہ اور ریحانہ جو آپ کی لونڈیاں تھیں،ان کو بھی شامل کرلیاگیا۔

علامہ عینی فرماتے ہیں: قال ابن خزیمۃ لم یقل احدمن اصحاب قتادۃ احدی عشرۃ الامعاذ بن ہشام وقدروی البخاری الروایۃ الاخری عن انس تسع نسوۃ وجمع بینہما بان ازواجہ کن تسعا فی ہذاالوقت کما فی روایۃ سعید و سریتاہ ماریۃ و ریحانۃ۔
حدیث کے لفظ فی الساعۃ الواحدۃ سے ترجمۃ الباب ثابت ہوتا ہے۔ آپ نے ایک ہی ساعت میں جملہ بیویوں سے ملاپ فرماکر آخر میں ایک ہی غسل فرمایا۔
قوتِ مردانگی جس کا ذکر روایت میں کیا گیا ہے یہ کوئی عیب نہیں ہے بلکہ نامردی کو عیب شمار کیا جاتا ہے۔ فی الواقع آپ میں قوتِ مردانگی اس سے بھی زیادہ تھی۔ باوجود اس کے آپ نے عین عالم شباب میں صرف ایک معمربیوی حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا پر اکتفا فرمایا۔ جو آپ کے کمال ضبط کی ایک بین دلیل ہے۔ ہاں مدنی زندگی میں کچھ ایسے ملکی وسیاسی واخلاقی وسماجی مصالح تھے جن کی بناء پر آپ کی ازواج مطہرات کی تعداد نوتک پہنچ گئی۔ا س پر اعتراض کرنے والوں کو پہلے اپنے گھر کی خبرلینی چاہئیے کہ ان کے مذہبی اکابر کے گھروں میں سو،سو بلکہ ہزار تک عورتیں کتب تواریخ میں لکھی ہوئی ہیں۔ کسی دوسرے مقام پر اس کی تفصیل آئے گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ مذی کا دھونا اور اس کی وجہ سے وضو کرنا ضروری ہے

حدیث نمبر : 269
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا زائدة، عن أبي حصين، عن أبي عبد الرحمن، عن علي، قال كنت رجلا مذاء فأمرت رجلا أن يسأل النبي صلى الله عليه وسلم لمكان ابنته فسأل فقال ‏"‏ توضأ واغسل ذكرك‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے ابوحصین کے واسطہ سے، انھوں نے ابوعبدالرحمن سے، انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ مجھے مذی بکثرت آتی تھی، چونکہ میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ( حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا ) تھیں۔ اس لیے میں نے ایک شخص ( مقداد بن اسود اپنے شاگرد ) سے کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق مسئلہ معلوم کریں انھوں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وضو کر اور شرمگاہ کو دھو ( یہی کافی ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ جس نے خوشبو لگائی پھر غسل کیا اور خوشبو کا اثر اب بھی باقی رہا

حدیث نمبر : 270
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا أبو عوانة، عن إبراهيم بن محمد بن المنتشر، عن أبيه، قال سألت عائشة فذكرت لها قول ابن عمر ما أحب أن أصبح، محرما أنضخ طيبا‏.‏ فقالت عائشة أنا طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم طاف في نسائه ثم أصبح محرما‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ابراہیم بن محمد منتشر سے، وہ اپنے والد سے، کہا میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول کا ذکر کیا کہ میں اسے گوارا نہیں کر سکتا کہ میں احرام باندھوں اور خوشبو میرے جسم سے مہک رہی ہو۔ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا، میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشبو لگائی۔ پھر آپ اپنی تمام ازواج کے پاس گئے اور اس کے بعد احرام باندھا۔

حدیث سے ترجمہ باب اس طرح ثابت ہوا کہ غسل کے بعد بھی آپ کے جسم مبارک پر خوشبو کا اثرباقی رہتا تھا۔ معلوم ہوا کہ ہم بستری کے وقت میاں بیوی کے لیے خوشبو استعمال کرنا سنت ہے، جیساکہ ابن بطال نے کہا ہے ( فتح الباری ) باقی تفصیل حدیث نمبر 262میں گزر چکی ہے۔

حدیث نمبر : 271
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا الحكم، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة، قالت كأني أنظر إلى وبيص الطيب في مفرق النبي صلى الله عليه وسلم وهو محرم‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے حدیث بیان کی، کہا ہم سے حکم نے ابراہیم کے واسطہ سے، وہ اسود سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا گویا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں خوشبو کی چمک دیکھ رہی ہوں اس حال میں کہ آپ احرام باندھے ہوئے ہیں۔

حافظ ابن حجرفرماتے ہیں کہ یہ حدیث مختصرہے، تفصیلی واقعہ وہی ہے جو اوپر گزرا، باب کا مطلب اس حدیث سے یوں نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کا غسل ضرور کیا ہوگا۔اسی سے خوشبو لگانے کے بعد غسل کرنا ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بالوں کا خلال کرنا اور جب یقین ہو جائے کہ کھال تر ہوگئی تو اس پر پانی بہا دینا (جائز ہے)

حدیث نمبر : 272
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اغتسل من الجنابة غسل يديه، وتوضأ وضوءه للصلاة ثم اغتسل، ثم يخلل بيده شعره، حتى إذا ظن أن قد أروى بشرته، أفاض عليه الماء ثلاث مرات، ثم غسل سائر جسده‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد کے حوالہ سے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنابت کا غسل کرتے تو پہلے اپنے ہاتھوں کو دھوتے اور نماز کی طرح وضو کرتے۔ پھر غسل کرتے۔ پھر اپنے ہاتھوں سے بالوں کا خلال کرتے اور جب یقین کر لیتے کہ جسم تر ہو گیا ہے۔ تو تین مرتبہ اس پر پانی بہاتے، پھر تمام بدن کا غسل کرتے۔

حدیث نمبر : 273
وقالت كنت أغتسل أنا ورسول الله، صلى الله عليه وسلم من إناء واحد نغرف منه جميعا‏.‏
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن میں غسل کرتے تھے۔ ہم دونوں اس سے چلو بھر بھر کر پانی لیتے تھے۔

تشریح : اس حدیث سے ثابت ہواکہ جنابت کے غسل میں انگلیاں بھگوکر بالوں کی جڑوں میں خلال کرے، جب یقین ہوجائے کہ سر اور داڑھی کے بال اور اندر کا چمڑا بھیگ گئے ہیں، تب بالو ں پر پانی بہائے۔ یہ خلال بھی آداب غسل سے ہے۔ جو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک واجب اور جمہور کے نزدیک صرف سنت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ جس نے جنابت میں وضو کیا پھر اپنے تمام بدن کو دھویا، لیکن وضو کے اعضاءکو دوبارہ نہیں دھویا

حدیث نمبر : 274
حدثنا يوسف بن عيسى، قال أخبرنا الفضل بن موسى، قال أخبرنا الأعمش، عن سالم، عن كريب، مولى ابن عباس عن ابن عباس، عن ميمونة، قالت وضع رسول الله صلى الله عليه وسلم وضوءا لجنابة فأكفأ بيمينه على شماله مرتين، أو ثلاثا، ثم غسل فرجه، ثم ضرب يده بالأرض ـ أو الحائط ـ مرتين أو ثلاثا، ثم مضمض واستنشق، وغسل وجهه وذراعيه، ثم أفاض على رأسه الماء، ثم غسل جسده، ثم تنحى فغسل رجليه‏.‏ قالت فأتيته بخرقة، فلم يردها، فجعل ينفض بيده‏.‏
ہم سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے فضل بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا انھوں نے سالم کے واسطہ سے، انھوں نے کریب مولیٰ ابن عباس سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کیا، انھوں نے ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ پھر اپنی جگہ سے سرک کر پاؤں دھوئے۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں ایک کپڑا لائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا اور ہاتھوں ہی سے پانی جھاڑنے لگے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب کوئی شخص مسجد میں ہو اور اسے یاد آئے کہ مجھ کونہانے کی حاجت ہے تواسی طرح نکل جائے اور تیمم نہ کرے

حدیث نمبر : 275
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا عثمان بن عمر، قال أخبرنا يونس، عن الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال أقيمت الصلاة، وعدلت الصفوف قياما، فخرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فلما قام في مصلاه ذكر أنه جنب فقال لنا ‏:‏ ‏"‏ مكانكم‏"‏‏. ‏ ثم رجع فاغتسل، ثم خرج إلينا ورأسه يقطر، فكبر فصلينا معه‏.‏ تابعه عبد الأعلى عن معمر عن الزهري‏.‏ ورواه الأوزاعي عن الزهري‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس نے خبر دی زہری کے واسطے سے، وہ ابوسلمہ سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نماز کی تکبیر ہوئی اور صفیں برابر ہو گئیں، لوگ کھڑے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے ہماری طرف تشریف لائے۔ جب آپ مصلے پر کھڑے ہو چکے تو یاد آیا کہ آپ جنبی ہیں۔ پس آپ نے ہم سے فرمایا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور آپ واپس چلے گئے۔ پھر آپ نے غسل کیا اور واپس ہماری طرف تشریف لائے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور ہم نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ عثمان بن عمر سے اس روایت کی متابعت کی ہے عبدالاعلیٰ نے معمر سے اور وہ زہری سے۔ اور اوزاعی نے بھی زہری سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔

عبدالاعلیٰ کی روایت کوامام احمد نے نکالا ہے اور اوزاعی کی روایت کو خود حضرت امام بخاری نے کتاب الاذان میں ذکر فرمایا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ غسل جنابت کے بعد ہاتھوں سے پانی جھاڑ لینا (سنت نبوی ہے)

حدیث نمبر : 276
حدثنا عبدان، قال أخبرنا أبو حمزة، قال سمعت الأعمش، عن سالم، عن كريب، عن ابن عباس، قال قالت ميمونة وضعت للنبي صلى الله عليه وسلم غسلا، فسترته بثوب، وصب على يديه فغسلهما، ثم صب بيمينه على شماله، فغسل فرجه، فضرب بيده الأرض فمسحها، ثم غسلها فمضمض، واستنشق، وغسل وجهه وذراعيه، ثم صب على رأسه، وأفاض على جسده، ثم تنحى فغسل قدميه، فناولته ثوبا فلم يأخذه، فانطلق وهو ينفض يديه‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوحمزہ ( محمد بن میمون ) نے، کہا میں نے اعمش سے سنا، انھوں نے سالم بن ابی الجعد سے، انھوں نے کریب سے، انھوں نے ابن عباس سے، آپ نے کہا کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا اور ایک کپڑے سے پردہ کر دیا۔ پہلے آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انھیں دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ میں پانی لیا اور شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر مارا اور دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے اور بازو دھوئے۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ اس کے بعد آپ مقام غسل سے ایک طرف ہو گئے۔ پھر دونوں پاؤں دھوئے۔ اس کے بعد میں نے آپ کو ایک کپڑا دینا چاہا۔ تو آپ نے اسے نہیں لیا اور آپ ہاتھوں سے پانی جھاڑنے لگے۔

باب اور حدیث کی مطابقت ظاہر ہے، معلوم ہوا کہ افضل یہی ہے کہ وضو اور غسل میں بدن کپڑے سے نہ پونچھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص کے متعلق جس نے اپنے سر کے داہنے حصے سے غسل کیا

حدیث نمبر : 277
حدثنا خلاد بن يحيى، قال حدثنا إبراهيم بن نافع، عن الحسن بن مسلم، عن صفية بنت شيبة، عن عائشة، قالت كنا إذا أصابت إحدانا جنابة، أخذت بيديها ثلاثا فوق رأسها، ثم تأخذ بيدها على شقها الأيمن، وبيدها الأخرى على شقها الأيسر‏.‏
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، انھوں نے حسن بن مسلم سے روایت کی، وہ صفیہ بنت شیبہ سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ ہم ازواج ( مطہرات ) میں سے کسی کو اگر جنابت لاحق ہوتی تو وہ ہاتھوں میں پانی لے کر سر پر تین مربتہ ڈالتیں۔ پھر ہاتھ میں پانی لے کر سر کے داہنے حصے کا غسل کرتیں اور دوسرے ہاتھ سے بائیں حصے کا غسل کرتیں

تشریح : پہلا چلودائیں جانب پر دوسرا چلو بائیں جانب پر تیسرا چلو سر کے بیچ جیساکہ باب من بدءبالحلاب اوالطیب میں بیان ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں اسی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔ اور ترجمہ باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ بعضوں کے نزدیک ترجمہ باب جملہ ثم تاخذ بیدہا علی شقہا الایمن سے نکلتا ہے کہ اس میں ضمیر سر کی طرف پھرتی ہے۔ یعنی پھر سر کے دائیں طرف پر ہاتھ سے پانی ڈالتے اور سر کے بائیں طرف پر دوسرے ہاتھ سے۔ کرمانی نے کہا کہ باب کا ترجمہ اس سے نکل آیاکیونکہ بدن میں سر سے لے کر قدم تک داخل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص کے بارے میں جس نے تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کیا۔ اور جس نے کپڑاباندھ کرغسل کیا اور کپڑا باندھ کر غسل کرنا افضل ہے

وقال بهز عن أبيه عن جده عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الله أحق أن يستحيا منه من الناس‏"‏‏. ‏
اور بہز بن حکیم نے اپنے والد سے، انھوں نے بہز کے دادا ( معاویہ بن حیدہ ) سے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ لوگوں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔
تشریح : اس کو امام احمدرحمۃ اللہ علیہ وغیرہ اصحاب سنن نے روایت کیا ہے۔ پوری حدیث یوں ہے کہ میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم کن شرمگاہوں پر تصرف کریں اور کن سے بچیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صرف تمہاری بیوی اور لونڈی تمہارے لیے حلال ہے۔ میں نے کہا حضور جب ہم میں سے کوئی اکیلا ہو تو ننگا غسل کر سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اللہ زیادہ لائق ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔
ابن ابی لیلیٰ نے اکیلے بھی ننگا نہانا ناجائز کہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا رد کیا اور بتلایاکہ یہ جائز ہے مگر سترڈھانپ کرنہانا افضل ہے۔ حدیث میں حضرت موسیٰ علیہ السلام وحضرت ایوب علیہ السلام کا نہانا مذکور ہے۔ اس سے ترجمہ باب ثابت ہوا۔

حدیث نمبر : 278
حدثنا إسحاق بن نصر، قال حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام بن منبه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ كانت بنو إسرائيل يغتسلون عراة، ينظر بعضهم إلى بعض، وكان موسى يغتسل وحده، فقالوا والله ما يمنع موسى أن يغتسل معنا إلا أنه آدر، فذهب مرة يغتسل، فوضع ثوبه على حجر، ففر الحجر بثوبه، فخرج موسى في إثره يقول ثوبي يا حجر‏.‏ حتى نظرت بنو إسرائيل إلى موسى، فقالوا والله ما بموسى من بأس‏.‏ وأخذ ثوبه، فطفق بالحجر ضربا‏"‏‏. ‏ فقال أبو هريرة والله إنه لندب بالحجر ستة أو سبعة ضربا بالحجر‏.‏
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انھوں نے معمر سے، انھوں نے ہمام بن منبہ سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل ننگے ہو کر اس طرح نہاتے تھے کہ ایک شخص دوسرے کو دیکھتا لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام تنہا پردہ سے غسل فرماتے۔ اس پر انھوں نے کہا کہ بخدا موسیٰ کو ہمارے ساتھ غسل کرنے میں صرف یہ چیز مانع ہے کہ آپ کے خصیے بڑھے ہوئے ہیں۔ ایک مرتبہ موسیٰ علیہ السلام غسل کرنے لگے اور آپ نے کپڑوں کو ایک پتھر پر رکھ دیا۔ اتنے میں پتھر کپڑوں کو لے کر بھاگا اور موسیٰ علیہ السلام بھی اس کے پیچھے بڑی تیزی سے دوڑے۔ آپ کہتے جاتے تھے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اے پتھر! میرا کپڑا دے۔ اس عرصہ میں بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام کو ننگا دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ بخدا موسیٰ کو کوئی بیماری نہیں اور موسیٰ علیہ السلام نے کپڑا لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ ابوہریرہ نے کہا کہ بخدا اس پتھر پر چھ یا سات مار کے نشان باقی ہیں۔

حدیث نمبر : 279
وعن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ بينا أيوب يغتسل عريانا فخر عليه جراد من ذهب، فجعل أيوب يحتثي في ثوبه، فناداه ربه يا أيوب، ألم أكن أغنيتك عما ترى قال بلى وعزتك ولكن لا غنى بي عن بركتك‏"‏‏. ‏ ورواه إبراهيم عن موسى بن عقبة عن صفوان عن عطاء بن يسار عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ بينا أيوب يغتسل عريانا‏"‏‏.
اور اسی سند کے ساتھ ابوہریرہ سے روایت ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ ( ایک بار ) ایوب علیہ السلام ننگے غسل فرما رہے تھے کہ سونے کی ٹڈیاں آپ پر گرنے لگیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام انھیں اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے۔ اتنے میں ان کے رب نے انھیں پکارا۔ کہ اے ایوب! کیا میں نے تمہیں اس چیز سے بے نیاز نہیں کر دیا، جسے تم دیکھ رہے ہو۔ ایوب علیہ السلام نے جواب دیا ہاں تیری بزرگی کی قسم۔ لیکن تیری برکت سے میرے لیے بے نیازی کیوں کر ممکن ہے۔ اور اس حدیث کو ابراہیم نے موسیٰ بن عقبہ سے، وہ صفوان سے، وہ عطاء بن یسار سے، وہ ابوہریرہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، اس طرح نقل کرتے ہیں “ جب کہ حضرت ایوب علیہ السلام ننگے ہو کر غسل کر رہے تھے ” ( آخر تک )

تشریح : ابراہیم بن طہمان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نہیں سنا تو یہ تعلیق ہوگئی۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کو نسائی اور اسماعیلی نے وصل کیا ہے۔
 
Top