• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں جس نے علمی مسائل کے لیے اپنی آواز کو بلند کیا

حدیث نمبر : 60
حدثنا أبو النعمان، عارم بن الفضل قال حدثنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن يوسف بن ماهك، عن عبد الله بن عمرو، قال تخلف عنا النبي صلى الله عليه وسلم في سفرة سافرناها، فأدركنا وقد أرهقتنا الصلاة ونحن نتوضأ، فجعلنا نمسح على أرجلنا، فنادى بأعلى صوته ‏"‏ ويل للأعقاب من النار‏"‏‏. ‏ مرتين أو ثلاثا‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے ابوبشر سے بیان کیا، انھوں نے یوسف بن ماہک سے، انھوں نے عبداللہ بن عمرو سے، انھوں نے کہا ایک سفر میں جو ہم نے کیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اس وقت ملے جب ( عصر کی ) نماز کا وقت آن پہنچا تھا ہم ( جلدی جلدی ) وضو کر رہے تھے۔ پس پاؤں کو خوب دھونے کے بدل ہم یوں ہی سا دھو رہے تھے۔ ( یہ حال دیکھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکارا دیکھو ایڑیوں کی خرابی دوزخ سے ہونے والی ہے دو یا تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( یوں ہی بلند آواز سے ) فرمایا۔

تشریح : بلندآوازسے کوئی بات کرنا شان نبوی کے خلاف ہے کیونکہ آپ کی شان میں لیس بصخاب آیا ہے کہ آپ شور وغل کرنے والے نہ تھے مگریہاں حضرت امام قدس سرہ نے یہ باب منعقد کرکے بتلادیا کہ مسائل کے اجتہاد کے لیے آپ کبھی آواز کو بلند بھی فرمادیتے تھے۔ خطبہ کے وقت بھی آپ کی یہی عادت مبارکہ تھی جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو آپ کی آواز بلند ہوجایا کرتی تھی۔ ترجمہ باب اسی سے ثابت ہوتا ہے۔ آپ کا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ جلدی کی وجہ سے ایڑیوں کو خشک نہ رہنے دیں، یہ خشکی ان ایڑیوں کو دوزخ میں لے جائیں گی۔ یہ سفر مکہ سے مدینہ کی طرف تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : محدث کا لفظ حدثنا واخبرنا وانبانا استعمال کرنا صحیح ہے

وقال، لنا الحميدي كان عند ابن عيينة حدثنا وأخبرنا وأنبأنا وسمعت واحدا،‏.‏ وقال ابن مسعود حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو الصادق المصدوق‏.‏ وقال شقيق عن عبد الله سمعت النبي صلى الله عليه وسلم كلمة‏.‏ وقال حذيفة حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثين‏.‏ وقال أبو العالية عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم فيما يروي عن ربه‏.‏ وقال أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم يرويه عن ربه عز وجل‏.‏ وقال أبو هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم يرويه عن ربكم عز وجل‏.‏
جیسا کہ امام حمیدی نے کہا کہ ابن عیینہ کے نزدیک الفاظ حدثنا اور اخبرنا اور انبانا اور سمعت ایک ہی تھے اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی یوں ہی کہا حدثنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درحالیکہ آپ سچوں کے سچے تھے۔ اور شقیق نے عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی اور حذیفہ نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو حدیثیں بیان کیں اور ابوالعالیہ نے روایت کیا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار سے اور انس رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پروردگار سے۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔ کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تمہارے رب اللہ تبارک وتعالیٰ سے روایت کرتے ہیں۔

تشریح : حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ محدثین کی نقل درنقل کی اصطلاح میں الفاظ حدثنا واخبرنا وانبانا کا استعمال ان کا خود ایجادکردہ نہیں ہے۔ بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ وتابعین کے پاک زمانوں میں بھی نقل درنقل کے لیے ان ہی لفظوں کا استعمال ہوا کرتا تھا۔ حضرت امام یہاں ان چھ روایات کو بغیر سندکے لائے ہیں۔ دوسرے مقامات پر ان کی اسناد موجود ہیں۔ اسناد کا علم دین میں بہت ہی بڑا درجہ ہے۔ محدثین کرام نے سچ فرمایا ہے کہ الاسناد من الدین ولولا الاسناد لقال من شاءماشاء یعنی اسناد بھی دین ہی میں داخل ہے۔ اگراسناد نہ ہوتی تو جس کے دل میں جوکچھ آتا وہ کہہ ڈالتا۔ مگرعلم اسناد نے صحت نقل کے لیے حدبندی کردی ہے اور یہی محدثین کرام کی سب سے بڑی خوبی ہے کہ وہ علم الاسناد کے ماہر ہوتے ہیں اور رجال کے مالہ وماعلیہ پر ان کی پوری نظر ہوتی ہے اسی لیے کذب وافتراءان کے سامنے نہیں ٹھہرسکتا۔

حدیث نمبر : 61
حدثنا قتيبة، حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن من الشجر شجرة لا يسقط ورقها، وإنها مثل المسلم، فحدثوني ما هي‏"‏‏. ‏ فوقع الناس في شجر البوادي‏.‏ قال عبد الله ووقع في نفسي أنها النخلة، فاستحييت ثم قالوا حدثنا ما هي يا رسول الله قال ‏"‏ هي النخلة‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن دینار سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی مثال اسی درخت کی سی ہے۔ بتاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کا خیال جنگل کے درختوں کی طرف دوڑا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔ مگر میں اپنی ( کم سنی کی ) شرم سے نہ بولا۔ آخر صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے پوچھا کہ وہ کون سا درخت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے۔

تشریح : اس روایت کو حضرت امام قدس سرہ اس باب میں اس لیے لائے ہیں کہ اس میں لفظ حدثنا وحدثونی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی زبانوں سے بولے گئے ہیں۔ پس ثابت ہوگیا کہ یہ اصطلاحات عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروج ہیں۔ بلکہ خود قرآن مجید ہی سے ان سب کا ثبوت ہے۔ جیسا کہ سورۃ تحریم میں ہے قالت من انباک ہذا قال نبانی العلیم الخبیر ( التحریم)
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : استاد اپنے شاگردوں کا علم آزمانے کے لیے ان سے کو ئی سوال کرے۔ (یعنی امتحان لینے کا بیان)

حدیث نمبر : 62
حدثنا خالد بن مخلد، حدثنا سليمان، حدثنا عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن من الشجر شجرة لا يسقط ورقها، وإنها مثل المسلم، حدثوني ما هي‏"‏‏. ‏ قال فوقع الناس في شجر البوادي‏.‏ قال عبد الله فوقع في نفسي أنها النخلة، ثم قالوا حدثنا ما هي يا رسول الله قال ‏"‏ هي النخلة‏"‏‏. ‏
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ ( ایک مرتبہ ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کے پتے نہیں جھڑتے اور مسلمان کی بھی یہی مثال ہے بتلاؤ وہ کون سا درخت ہے؟ یہ سن کر لوگوں کے خیالات جنگل کے درختوں میں چلے گئے۔ عبداللہ نے کہا کہ میرے دل میں آیا کہ بتلا دوں کہ وہ کھجور کا درخت ہے لیکن ( وہاں بہت سے بزرگ موجود تھے اس لیے ) مجھ کو شرم آئی۔ آخر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ہی بیان فرما دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ وہ کھجور کا درخت ہے۔

اس حدیث اور واقعہ نبوی سے طالب علموں کا امتحان لینا ثابت ہوا۔ جب کہ کھجور کے درخت سے مسلمان کی تشبیہ اس طرح ہوئی کہ مسلمان متوکل علی اللہ ہوکرہرحال میں ہمیشہ خوش وخرم رہتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا

روایت حدیث کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ شیخ اپنے شاگرد کو حدیث پڑھ کر سنائے۔ اسی طرح یوں بھی ہے کہ شاگرد استاد کو پڑھ کر سنائے۔ بعض لوگ دوسرے طریقوں میں کلام کرتے تھے۔ اس لیے حضرت امام رحمہ اللہ نے یہ باب منعقد کرکے بتلادیا کہ ہردوطریقے جائز اور درست ہیں۔
وقوله تعالى ‏{‏وقل رب زدني علما‏}‏ القراءة والعرض على المحدث‏.‏ ورأى الحسن والثوري ومالك القراءة جائزة، واحتج بعضهم في القراءة على العالم بحديث ضمام بن ثعلبة قال للنبي صلى الله عليه وسلم آلله أمرك أن نصلي الصلوات قال ‏"‏ نعم‏"‏‏. ‏ قال فهذه قراءة على النبي صلى الله عليه وسلم أخبر ضمام قومه بذلك فأجازوه‏.‏ واحتج مالك بالصك يقرأ على القوم فيقولون أشهدنا فلان‏.‏ ويقرأ ذلك قراءة عليهم، ويقرأ على المقرئ فيقول القارئ أقرأني فلان‏.‏ ‏ اور امام حسن بصری اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ تو یہ ( گویا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انھوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔

ابن بطال نے کہا کہ دستاویز والی دلیل بہت ہی پختہ ہے کیونکہ شہادت تواخبار سے بھی زیادہ اہم ہے۔ مطلب یہ کہ صاحب معاملہ کو دستاویز پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ اس کا اقرار کرے تو اس سے روایت کرنا صحیح ہوگا۔

حدثنا محمد بن سلام حدثنا محمد بن الحسن الواسطي عن عوف عن الحسن قال لا بأس بالقراءة على العالم‏.‏ وأخبرنا محمد بن يوسف الفربري وحدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال حدثنا عبيد الله بن موسى عن سفيان قال إذا قرئ على المحدث فلا بأس أن يقول حدثني‏.‏ قال وسمعت أبا عاصم يقول عن مالك وسفيان القراءة على العالم وقراءته سواء‏.‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انھوں نے عوف سے، انھوں نے حسن بصری سے، انھوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔

حدیث نمبر : 63
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال حدثنا الليث، عن سعيد ـ هو المقبري ـ عن شريك بن عبد الله بن أبي نمر، أنه سمع أنس بن مالك، يقول بينما نحن جلوس مع النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد، دخل رجل على جمل فأناخه في المسجد، ثم عقله، ثم قال لهم أيكم محمد والنبي صلى الله عليه وسلم متكئ بين ظهرانيهم‏.‏ فقلنا هذا الرجل الأبيض المتكئ‏.‏ فقال له الرجل ابن عبد المطلب فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قد أجبتك‏"‏‏. ‏ فقال الرجل للنبي صلى الله عليه وسلم إني سائلك فمشدد عليك في المسألة فلا تجد على في نفسك‏.‏ فقال ‏"‏ سل عما بدا لك‏"‏‏. ‏ فقال أسألك بربك ورب من قبلك، آلله أرسلك إلى الناس كلهم فقال ‏"‏ اللهم نعم‏"‏‏. ‏ قال أنشدك بالله، آلله أمرك أن نصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة قال ‏"‏ اللهم نعم‏"‏‏. ‏ قال أنشدك بالله، آلله أمرك أن نصوم هذا الشهر من السنة قال ‏"‏ اللهم نعم‏"‏‏. ‏ قال أنشدك بالله، آلله أمرك أن تأخذ هذه الصدقة من أغنيائنا فتقسمها على فقرائنا فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اللهم نعم‏"‏‏. ‏ فقال الرجل آمنت بما جئت به، وأنا رسول من ورائي من قومي، وأنا ضمام بن ثعلبة أخو بني سعد بن بكر‏.‏ رواه موسى وعلي بن عبد الحميد عن سليمان عن ثابت عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انھوں نے سعید مقبری سے، انھوں نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے، انھوں نے انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا ( بھائیو ) تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون سے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا ( حضرت ) محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا ( تحقیق حال کے لیے ) آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔ اس حدیث کو ( لیث کی طرح ) موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے سلیمان سے روایت کیا، انھوں نے ثابت سے، انھوں نے انس سے، انھوں نے یہی مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔

تشریح : مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسنداحمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے فاناخ بعیرہ علی باب المسجد یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ مبارک اللہم نعم کا استعمال فرماتے رہے۔ اللہم تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنی کو شامل فرما لیا یہ عربوں کے مح اور کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض وقرات کا طریقہ بھی معتبرہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔
حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کرلی تھیں لیکن پھر خودحاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگرکسی کے پاس کوئی روایت چندواسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہو توملاقات کرکے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔

ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا، انھوں نے فرمایا کہہم کو قرآن کریم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ ( اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ) ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔ ( اللہ نے مجھ کو رسول بنایا ہے ) پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا ہے کہ اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ ( بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزاروں گا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔

تشریح : صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے۔ شرح قسطلانی رحمہ اللہ میں بھی یہ روایت یہاں نہیں ہے۔ بہرحال صحابہ کرام کو غیرضروری سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا، وہ احتیاطاً خاموشی اختیار کرکے منتظر رہا کرتے تھے کہ کوئی باہر کا آدمی آکر مسائل معلوم کرے اور ہم کوسننے کا موقع مل جائے۔ اس روایت میں بھی شاید وہی ضمام بن ثعلبہ مراد ہیں جن کا ذکر پچھلی روایت میں آچکا ہے۔ اس کے تمام سوالات کا تعلق اصول وفرائض دین سے متعلق تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اصولی طور پر فرائض ہی کا ذکر فرمایا۔ نوافل فرائض کے تابع ہیں چنداں ان کے ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی اس لیے اس بار ے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔ اس سے سنن ونوافل کی اہمیت جو اپنی جگہ پر مسلم ہے وہ کم نہیں ہوئی۔

ایک بے جا الزام: صاحب ایضاح البخاری جیسے سنجیدہ مرتب کو خداجانے کیاسوجھی کہ حدیث طلحہ بن عبیداللہ جو کتاب الایمان میں بذیل باب الزکوٰۃ من الاسلام مذکورہوئی ہے اس میں آنے والے شخص کو اہل نجد سے بتلایا گیا ہے۔ بعض شارحین کا خیال ہے کہ یہ ضمام بن ثعلبہ ہی ہیں۔ بہرحال اس ذیل میں آپ نے ایک عجیب سرخی “ دور حاضرہ کا ایک فتنہ ” سے قائم فرمائی ہے۔ پھر اس کی توضیح یوں کی ہے کہ “ اہل حدیث اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے سنن کے اہتمام سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ ” ( ایضاح البخاری،جلد4، ص: 386 )
اہل حدیث پر یہ الزام اس قدر بے جا ہے کہ اس پر جتنی بھی نفریں کی جائے کم ہے۔ کاش آپ غور کرتے اور سوچتے کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ جو جماعت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی وجہ سے آپ کے ہاں انتہائی معیوب ہے۔ وہ بھلاسنن کے اہتمام سے پہلوتہی کرے، یہ بالکل غلط ہے۔ انفرادی طور پر اگر کوئی شخص ایسا کرگزرتا ہے تواس فعل کا وہ خودذمہ دارہے یوں کتنے مسلمان خودنماز فرض ہی سے پہلوتہی کرتے ہیں توکیاکسی غیرمسلم کا یہ کہنا درست ہوجائے گا کہ مسلمانوں کے ہاں نماز کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
اہل حدیث کا تونعرہ ہی یہ ہے۔
ماعاشقیم بے دل دلدار ما محمد
ما بلبلیم نالاں گلزار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم

ہاں! اہل حدیث یہ ضرور کہتے ہیں کہ فرض وسنن ونوافل کے مراتب الگ الگ ہیں۔ کوئی شخص کبھی کسی معقول عذر کی بنا پر اگر سنن ونوافل سے محروم رہ جائے وہ اسلام سے خارج نہیں ہوجائے گا۔ نہ اس کی ادا کردہ فرض نماز پر اس کا کچھ اثر پڑے گا، اگراہل حدیث ایسا کہتے ہیں تو یہ بالکل بجا ہے۔ اس لیے کہ یہ توخود آپ کا بھی فتوی ہے۔ جیسا کہ آپ خود اسی کتاب میں فرما رہے ہیں، آپ کے لفظ یہ ہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بے کم وکاست عمل کرنے کی قسم پر دخول جنت کی بشارت دی کیونکہ اگربالفرض وہ صرف انھیں تعلیمات پر اکتفا کررہا ہے اور سنن ونوافل کوشامل نہیں کررہا ہے۔ تب بھی دخول جنت کے لیے توکافی ہے۔ ” ایضاح البخاری، جلد5،ص: 31 ) صدافسوس کہ آپ یہاں ان کو داخل جنت فرما رہے ہیں اور پچھلے مقام پر آپ ہی اسے “ دورحاضرہ کا ایک فتنہ ” بتلاتے ہیں۔ ہم کو آپ کی انصاف پسند طبیعت سے پوری توقع ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح فرمادیں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مناولہ کا بیان اور اہل علم کا علمی باتیں لکھ کر ( دوسرے ) شہروں کو بھیجنا

وقال أنس نسخ عثمان المصاحف، فبعث بها إلى الآفاق‏.‏ ورأى عبد الله بن عمر ويحيى بن سعيد ومالك ذلك جائزا‏.‏ واحتج بعض أهل الحجاز في المناولة بحديث النبي صلى الله عليه وسلم حيث كتب لأمير السرية كتابا وقال ‏"‏ لا تقرأه حتى تبلغ مكان كذا وكذا‏"‏‏. ‏ فلما بلغ ذلك المكان قرأه على الناس، وأخبرهم بأمر النبي صلى الله عليه وسلم‏.
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مصاحف ( یعنی قرآن ) لکھوائے اور انھیں چاروں طرف بھیج دیا۔ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، یحییٰ بن سعید، اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ ( کتابت ) جائز ہے۔ اور بعض اہل حجاز نے مناولہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے جس میں آپ نے امیر لشکر کے لیے خط لکھا تھا۔ پھر ( قاصد سے ) فرمایا تھا کہ جب تک تم فلاں فلاں جگہ نہ پہنچ جاو اس خط کو مت پڑھنا۔ پھر جب وہ اس جگہ پہنچ گئے تو اس نے خط کو لوگوں کے سامنے پڑھا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا وہ انھیں بتلایا۔

حدیث نمبر : 64
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، أن عبد الله بن عباس، أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث بكتابه رجلا، وأمره أن يدفعه إلى عظيم البحرين، فدفعه عظيم البحرين إلى كسرى، فلما قرأه مزقه‏.‏ فحسبت أن ابن المسيب قال فدعا عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يمزقوا كل ممزق‏.‏
اسماعیل بن عبداللہ نے ہم سے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے صالح کے واسطے سے روایت کی، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو اپنا ایک خط دے کر بھیجا اور اسے یہ حکم دیا کہ اسے حاکم بحرین کے پاس لے جائے۔ بحرین کے حاکم نے وہ خط کسریٰ ( شاہ ایران ) کے پاس بھیج دیا۔ جس وقت اس نے وہ خط پڑھا تو چاک کر ڈالا ( راوی کہتے ہیں ) اور میرا خیال ہے کہ ابن مسیب نے ( اس کے بعد ) مجھ سے کہا کہ ( اس واقعہ کو سن کر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایران کے لیے بددعا کی کہ وہ ( بھی چاک شدہ خط کی طرح ) ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔

اللہ نے بہت جلد اپنے سچے رسول کی دعا کا اثر ظاہر کردیا۔

حدیث نمبر : 65
حدثنا محمد بن مقاتل أبو الحسن، أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا شعبة، عن قتادة، عن أنس بن مالك، قال كتب النبي صلى الله عليه وسلم كتابا ـ أو أراد أن يكتب ـ فقيل له إنهم لا يقرءون كتابا إلا مختوما‏.‏ فاتخذ خاتما من فضة نقشه محمد رسول الله‏.‏ كأني أنظر إلى بياضه في يده‏.‏ فقلت لقتادة من قال نقشه محمد رسول الله قال أنس‏.‏
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، ان سے عبداللہ نے، انھیں شعبہ نے قتادہ سے خبر دی، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے ) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے ( یعنی بے مہر کے خط کو مستند نہیں سمجھتے ) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔ جس میں “محمد رسول اللہ” کندہ تھا۔ گویا میں ( آج بھی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں اس کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ ( شعبہ راوی حدیث کہتے ہیں کہ ) میں نے قتادہ سے پوچھا کہ یہ کس نے کہا ( کہ ) اس پر “محمد رسول اللہ” کندہ تھا؟ انھوں نے جواب دیا، انس رضی اللہ عنہ نے۔

تشریح : مناولہ اصطلاح محدثین میں اسے کہتے ہیں اپنی اصل مرویات اور مسموعات کی کتاب جس میں اپنے استادوں سے سن کر حدیثیں لکھ رکھی ہوں اپنے کسی شاگرد کے حوالہ کردی جائے اور اس کتاب میں درج شدہ احادیث کو روایت کرنے کی اس کو اجازت بھی دے دی جائے، تو یہ جائز ہے اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہی ہے۔ اگراپنی کتاب حوالہ کرتے ہوئے روایت کرنے کی اجازت نہ دے تو اس صورت میں حدثنی یا اخبرنی فلاں کہنا جائز نہیں ہے۔ حدیث نمبر64 میں کسریٰ کے لیے بددعا کا ذکر ہے کیوں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تھا،چنانچہ خود اس کے بیٹے نے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔ سوجب وہ مرنے لگا تواس نے دواؤں کا خزانہ کھولا اور زہر کے ڈبے پر لکھ دیا کہ یہ دوا قوت باہ کے لیے اکسیر ہے۔ وہ بیٹا جماع کا بہت شوق رکھتا تھا جب وہ مرگیا اور اس کے بیٹے نے دواخانے میں اس ڈبے پر یہ لکھا ہوا دیکھا تو اس کو وہ کھاگیا اور وہ بھی مرگیا۔ اسی دن سے اس سلطنت میں تنزل شروع ہوا، آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہدخلافت میں ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہا۔ ایران کے ہر بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے کے کسریٰ کا نام پرویز بن ہرمزبن نوشیروان تھا، اسی کو خسرو پرویز بھی کہتے ہیں۔ اس کے قاتل بیٹے کا نام شیرویہ تھا، خلافت فاروقی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ایران فتح ہوا۔

مناولہ کے ساتھ باب میں مکاتبت کا ذکر ہے جس سے مراد یہ کہ استاد اپنے ہاتھ سے خط لکھے یا کسی اور سے لکھواکرشاگرد کے پاس بھیجے،شاگرد اس صورت میں بھی اس کو اپنے استاد سے روایت کر سکتا ہے۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خداداد قوت اجتہاد کی بنا پر ہردو مذکورہ احادیث سے ان اصطلاحات کو ثابت فرمایا ہے پھر تعجب ہے ان کم فہموں پر جو حضرت امام کو غیرفقیہ اور زودرنج اور محض ناقل حدیث سمجھ کر آپ کی تخفیف کے درپے ہیں۔ نعوذ باللہ من شرورانفسنا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : وہ شخص جو مجلس کے آخرمیں بیٹھ جائے اور وہ شخص جودرمیان میں جہاں جگہ دیکھے بیٹھ جائے ( بشرطیکہ دوسروں کو تکلیف نہ ہو )

حدیث نمبر : 66
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، أن أبا مرة، مولى عقيل بن أبي طالب أخبره عن أبي واقد الليثي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو جالس في المسجد والناس معه، إذ أقبل ثلاثة نفر، فأقبل اثنان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وذهب واحد، قال فوقفا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فأما أحدهما فرأى فرجة في الحلقة فجلس فيها، وأما الآخر فجلس خلفهم، وأما الثالث فأدبر ذاهبا، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ألا أخبركم عن النفر الثلاثة أما أحدهم فأوى إلى الله، فآواه الله، وأما الآخر فاستحيا، فاستحيا الله منه، وأما الآخر فأعرض، فأعرض الله عنه‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ان سے مالک نے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ کے واسطے سے ذکر کیا، بے شک ابومرہ مولیٰ عقیل بن ابی طالب نے انھیں ابوواقد اللیثی سے خبر دی کہ ( ایک مرتبہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے کہ تین آدمی وہاں آئے ( ان میں سے ) دو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پہنچ گئے اور ایک واپس چلا گیا۔ ( راوی کہتے ہیں کہ ) پھر وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اس کے بعد ان میں سے ایک نے ( جب ) مجلس میں ( ایک جگہ کچھ ) گنجائش دیکھی، تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا اہل مجلس کے پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا جو تھا وہ لوٹ گیا۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( اپنی گفتگو سے ) فارغ ہوئے ( تو صحابہ رضی اللہ عنہ سے ) فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ تو ( سنو ) ان میں سے ایک نے اللہ سے پناہ چاہی اللہ نے اسے پناہ دی اور دوسرے کو شرم آئی تو اللہ بھی اس سے شرمایا ( کہ اسے بھی بخش دیا ) اور تیسرے شخص نے منہ موڑا، تو اللہ نے ( بھی ) اس سے منہ موڑ لیا۔


تشریح : ثابت ہوا کہ مجالس علمی میں جہاں جگہ ملے بیٹھ جانا چاہئیے۔ آپ نے مذکورہ تین آدمیوں کی کیفیت مثال کے طور پر بیان فرمائی۔ ایک شخص نے مجلس میں جہاں جگہ دیکھی وہاں ہی وہ بیٹھ گیا۔ دوسرے نے کہیں جگہ نہ پائی تومجلس کے کنارے جا بیٹھا اور تیسرے نے جگہ نہ پاکر اپنا راستہ لیا۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اعراض گویا اللہ سے اعراض ہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں سخت الفاظ فرمائے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مجلس میں آدمی کو جہاں جگہ ملے وہاں بیٹھ جانا چاہئیے اگرچہ اس کو سب سے آخر میں جگہ ملے۔ آج بھی وہ لوگ جن کو قرآن وحدیث کی مجلس پسند نہ ہوبڑے ہی بدبخت ہوتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کی تفصیل میں کہ بسا اوقات وہ شخص جسے ( حدیث ) پہنچائی جائے سننے والے سے زیادہ ( حدیث کو ) یاد رکھ لیتا ہے۔

حدیث نمبر : 67
حدثنا مسدد، قال حدثنا بشر، قال حدثنا ابن عون، عن ابن سيرين، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه، ذكر النبي صلى الله عليه وسلم قعد على بعيره، وأمسك إنسان بخطامه ـ أو بزمامه ـ قال ‏"‏ أى يوم هذا‏"‏‏. ‏ فسكتنا حتى ظننا أنه سيسميه سوى اسمه‏.‏ قال ‏"‏ أليس يوم النحر‏"‏‏. ‏ قلنا بلى‏.‏ قال ‏"‏ فأى شهر هذا‏"‏‏. ‏ فسكتنا حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه‏.‏ فقال ‏"‏ أليس بذي الحجة‏"‏‏. ‏ قلنا بلى‏.‏ قال ‏"‏ فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم بينكم حرام كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا‏.‏ ليبلغ الشاهد الغائب، فإن الشاهد عسى أن يبلغ من هو أوعى له منه‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر نے، ان سے ابن عون نے ابن سیرین کے واسطے سے، انھوں نے عبدالرحمن بن ابی بکرہ سے نقل کیا، انھوں نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ ( ایک دفعہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک شخص نے اس کی نکیل تھام رکھی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا آج یہ کون سا دن ہے؟ ہم خاموش رہے، حتیٰ کہ ہم سمجھے کہ آج کے دن کا آپ کوئی دوسرا نام اس کے نام کے علاوہ تجویز فرمائیں گے ( پھر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا آج قربانی کا دن نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، ہاں بے شک۔ ( اس کے بعد ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ کون سا مہینہ ہے؟ ہم ( اس پر بھی ) خاموش رہے اور یہ ( ہی ) سمجھے کہ اس مہینے کا ( بھی ) آپ اس کے نام کے علاوہ کوئی دوسرا نام تجویز فرمائیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم نے عرض کیا، بے شک۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تو یقینا تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری آبرو تمہارے درمیان اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کے دن کی حرمت تمہارے اس مہینے اور اس شہر میں ہے۔ پس جو شخص حاضر ہے اسے چاہیے کہ غائب کو یہ ( بات ) پہنچا دے، کیونکہ ایسا ممکن ہے جو شخص یہاں موجود ہے وہ ایسے شخص کو یہ خبر پہنچائے، جو اس سے زیادہ ( حدیث کا ) یاد رکھنے والا ہو۔

تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ضرورت کے وقت امام خطیب یا محدث یا استاد سواری پر بیٹھے ہوئے بھی خطبہ دے سکتا ہے، وعظ کہہ سکتا ہے۔ شاگردوں کے کسی سوال کوحل کر سکتا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ شاگرد کو چاہئیے کہ استاد کی تشریح و تفصیل کا انتظار کرے اور خودجواب دینے میں عجلت سے کام نہ لے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ بعض شاگرد فہم اور حفظ میں اپنے استادوں سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ چیز استاد کے لیے باعث مسرت ہونی چاہئیے۔ یہ حدیث ان اسلامی فلاسفروں کے لیے بھی دلیل ہے جو شرعی حقائق کو فلسفیانہ تشریح کے ساتھ ثابت کرتے ہیں۔ جیسے کہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں احکام شرع کے حقائق وفوائد بیان کرنے میں بہترین تفصیل سے کام لیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ علم ( کا درجہ ) قول و عمل سے پہلے ہے

لقول الله تعالى ‏{‏فاعلم أنه لا إله إلا الله‏}‏ فبدأ بالعلم، وأن العلماء هم ورثة الأنبياء ـ ورثوا العلم ـ من أخذه أخذ بحظ وافر، ومن سلك طريقا يطلب به علما سهل الله له طريقا إلى الجنة‏.‏ وقال جل ذكره ‏{‏إنما يخشى الله من عباده العلماء‏}‏ وقال ‏{‏وما يعقلها إلا العالمون‏}‏ ‏{‏وقالوا لو كنا نسمع أو نعقل ما كنا في أصحاب السعير‏}‏‏.‏ وقال ‏{‏هل يستوي الذين يعلمون والذين لا يعلمون‏}‏‏.‏ وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين، وإنما العلم بالتعلم‏"‏‏. ‏ وقال أبو ذر لو وضعتم الصمصامة على هذه وأشار إلى قفاه ـ ثم ظننت أني أنفذ كلمة سمعتها من النبي صلى الله عليه وسلم قبل أن تجيزوا على لأنفذتها‏.‏ وقال ابن عباس ‏{‏كونوا ربانيين‏}‏ حكماء فقهاء‏.‏ ويقال الرباني الذي يربي الناس بصغار العلم قبل كباره‏.‏
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : “ فاعلم انہ لا الہ الا اللہ ” ( آپ جان لیجیئے کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے ) تو ( گویا ) اللہ تعالیٰ نے علم سے ابتدا فرمائی اور ( حدیث میں ہے ) کہ علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ ( اور ) پیغمبروں نے علم ( ہی ) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ پھر جس نے علم حاصل کیا اس نے ( دولت کی ) بہت بڑی مقدار حاصل کر لی۔ اور جو شخص کسی راستے پر حصول علم کے لیے چلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور ( دوسری جگہ ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔ اور فرمایا، اور ان لوگوں ( کافروں ) نے کہا اگر ہم سنتے یا عقل رکھتے تو جہنمی نہ ہوتے۔ اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کرنا چاہتا ہے تو اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے۔ اور علم تو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔ اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ اگر تم اس پر تلوار رکھ دو، اور اپنی گردن کی طرف اشارہ کیا، اور مجھے گمان ہو کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ایک کلمہ سنا ہے، گردن کٹنے سے پہلے بیان کر سکوں گا تو یقینا میں اسے بیان کر ہی دوں گا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حاضر کو چاہیے کہ ( میری بات ) غائب کو پہنچا دے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ آیت “ کونوا ربانیین” سے مراد حکماء، فقہاء، علماء ہیں۔ اور ربانی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو بڑے مسائل سے پہلے چھوٹے مسائل کو سمجھا کر لوگوں کی ( علمی ) تربیت کرے۔

بچوں کو قاعدہ،پارہ پڑھانے والے حضرات بھی اسی میں داخل ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لوگوں کی رعایت کرتے ہوئے نصیحت فرمانے اور تعلیم دینے کے بیان میں تا کہ انھیں ناگوار نہ ہو

حدیث نمبر : 68
حدثنا محمد بن يوسف، قال أخبرنا سفيان، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن ابن مسعود، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولنا بالموعظة في الأيام، كراهة السآمة علينا‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، انھیں سفیان نے اعمش سے خبر دی، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں، وہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نصیحت فرمانے کے لیے کچھ دن مقرر کر دیئے تھے اس ڈر سے کہ کہیں ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں۔

حدیث نمبر : 69
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا يحيى بن سعيد، قال حدثنا شعبة، قال حدثني أبو التياح، عن أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يسروا ولا تعسروا، وبشروا ولا تنفروا‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے شعبہ نے، ان سے ابوالتیاح نے، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نقل کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور خوش کرو اور نفرت نہ دلاؤ۔

معلّمین واساتذہ وواعظین وخطباء اور مفتی حضرات سب ہی کے لیے یہ ارشاد واجب العمل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ کو ئی شخص اہل علم کے لیے کچھ دن مقرر کر دے ( تو یہ جائز ہے ) یعنی استاد اپنے شاگردوں کے لیے اوقات مقرر کر سکتا ہے۔

حدیث نمبر : 70
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، قال حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، قال كان عبد الله يذكر الناس في كل خميس، فقال له رجل يا أبا عبد الرحمن لوددت أنك ذكرتنا كل يوم‏.‏ قال أما إنه يمنعني من ذلك أني أكره أن أملكم، وإني أتخولكم بالموعظة كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يتخولنا بها، مخافة السآمة علينا‏.‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابووائل سے روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ ( ابن مسعود ) رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کے دن لوگوں کو وعظ سنایا کرتے تھے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن! میں چاہتا ہوں کہ تم ہمیں ہر روز وعظ سنایا کرو۔ انھوں نے فرمایا، تو سن لو کہ مجھے اس امر سے کوئی چیز مانع ہے تو یہ کہ میں یہ بات پسند نہیں کرتا کہ کہیں تم تنگ نہ ہو جاؤ اور میں وعظ میں تمہاری فرصت کا وقت تلاش کیا کرتا ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس خیال سے کہ ہم کبیدہ خاطر نہ ہو جائیں، وعظ کے لیے ہمارے اوقات فرصت کا خیال رکھتے تھے۔

تشریح : احادیث بالا اور اس باب سے مقصود اساتذہ کو یہ بتلانا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے ذہن کا خیال رکھیں، تعلیم میں اس قدر انہماک اور شدت صحیح نہیں کہ طلباءکے دماغ تھک جائیں اور وہ اپنے اندر بے دلی اور کم رغبتی محسوس کرنے لگ جائیں۔ اسی لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے درس ومواعظ کے لیے ہفتہ میں صرف جمعرات کا دن مقرر کررکھاتھا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نفل عبادت اتنی نہ کی جائے کہ دل میں بے رغبتی اور ملال پیدا ہو۔ بہرحال اصول تعلیم یہ ہے کہ یسروا والاتعسروا وبشروا ولاتنفروا۔
 
Top