باب : شاگرد کا استاد کے سامنے پڑھنا اور اس کو سنانا
روایت حدیث کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ شیخ اپنے شاگرد کو حدیث پڑھ کر سنائے۔ اسی طرح یوں بھی ہے کہ شاگرد استاد کو پڑھ کر سنائے۔ بعض لوگ دوسرے طریقوں میں کلام کرتے تھے۔ اس لیے حضرت امام رحمہ اللہ نے یہ باب منعقد کرکے بتلادیا کہ ہردوطریقے جائز اور درست ہیں۔
وقوله تعالى {وقل رب زدني علما} القراءة والعرض على المحدث. ورأى الحسن والثوري ومالك القراءة جائزة، واحتج بعضهم في القراءة على العالم بحديث ضمام بن ثعلبة قال للنبي صلى الله عليه وسلم آلله أمرك أن نصلي الصلوات قال " نعم". قال فهذه قراءة على النبي صلى الله عليه وسلم أخبر ضمام قومه بذلك فأجازوه. واحتج مالك بالصك يقرأ على القوم فيقولون أشهدنا فلان. ويقرأ ذلك قراءة عليهم، ويقرأ على المقرئ فيقول القارئ أقرأني فلان. اور امام حسن بصری
اور سفیان ثوری اور مالک نے شاگرد کے پڑھنے کو جائز کہا ہے اور بعض نے استاد کے سامنے پڑھنے کی دلیل ضمام بن ثعلبہ کی حدیث سے لی ہے۔ اس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم فرمایا ہے کہ ہم لوگ نماز پڑھا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ تو یہ ( گویا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھنا ہی ٹھہرا۔ ضمام نے پھر جا کر اپنی قوم سے یہ بیان کیا تو انھوں نے اس کو جائز رکھا۔ اور امام مالک نے دستاویز سے دلیل لی جو قوم کے سامنے پڑھ کر سنائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم کو فلاں شخص نے دستاویز پر گواہ کیا اور پڑھنے والا پڑھ کر استاد کو سناتا ہے پھر کہتا ہے مجھ کو فلاں نے پڑھایا۔
ابن بطال نے کہا کہ دستاویز والی دلیل بہت ہی پختہ ہے کیونکہ شہادت تواخبار سے بھی زیادہ اہم ہے۔ مطلب یہ کہ صاحب معاملہ کو دستاویز پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ گواہوں کے سامنے کہہ دے کہ ہاں یہ دستاویز صحیح ہے توگواہ اس پر گواہی دے سکتے ہیں۔ اسی طرح جب عالم کو کتاب پڑھ کر سنائی جائے اور وہ اس کا اقرار کرے تو اس سے روایت کرنا صحیح ہوگا۔
حدثنا محمد بن سلام حدثنا محمد بن الحسن الواسطي عن عوف عن الحسن قال لا بأس بالقراءة على العالم. وأخبرنا محمد بن يوسف الفربري وحدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال حدثنا عبيد الله بن موسى عن سفيان قال إذا قرئ على المحدث فلا بأس أن يقول حدثني. قال وسمعت أبا عاصم يقول عن مالك وسفيان القراءة على العالم وقراءته سواء.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن حسن واسطی نے بیان کیا، کہا انھوں نے عوف سے، انھوں نے حسن بصری سے، انھوں نے کہا عالم کے سامنے پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ اور ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے سفیان ثوری سے سنا، وہ کہتے تھے جب کوئی شخص محدث کو حدیث پڑھ کر سنائے تو کچھ قباحت نہیں اگر یوں کہے کہ اس نے مجھ سے بیان کیا۔ اور میں نے ابوعاصم سے سنا، وہ امام مالک اور سفیان ثوری کا قول بیان کرتے تھے کہ عالم کو پڑھ کر سنانا اور عالم کا شاگردوں کے سامنے پڑھنا دونوں برابر ہیں۔
حدیث نمبر : 63
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال حدثنا الليث، عن سعيد ـ هو المقبري ـ عن شريك بن عبد الله بن أبي نمر، أنه سمع أنس بن مالك، يقول بينما نحن جلوس مع النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد، دخل رجل على جمل فأناخه في المسجد، ثم عقله، ثم قال لهم أيكم محمد والنبي صلى الله عليه وسلم متكئ بين ظهرانيهم. فقلنا هذا الرجل الأبيض المتكئ. فقال له الرجل ابن عبد المطلب فقال له النبي صلى الله عليه وسلم " قد أجبتك". فقال الرجل للنبي صلى الله عليه وسلم إني سائلك فمشدد عليك في المسألة فلا تجد على في نفسك. فقال " سل عما بدا لك". فقال أسألك بربك ورب من قبلك، آلله أرسلك إلى الناس كلهم فقال " اللهم نعم". قال أنشدك بالله، آلله أمرك أن نصلي الصلوات الخمس في اليوم والليلة قال " اللهم نعم". قال أنشدك بالله، آلله أمرك أن نصوم هذا الشهر من السنة قال " اللهم نعم". قال أنشدك بالله، آلله أمرك أن تأخذ هذه الصدقة من أغنيائنا فتقسمها على فقرائنا فقال النبي صلى الله عليه وسلم " اللهم نعم". فقال الرجل آمنت بما جئت به، وأنا رسول من ورائي من قومي، وأنا ضمام بن ثعلبة أخو بني سعد بن بكر. رواه موسى وعلي بن عبد الحميد عن سليمان عن ثابت عن أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، انھوں نے سعید مقبری سے، انھوں نے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر سے، انھوں نے انس بن مالک سے سنا کہ ایک بار ہم مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں ایک شخص اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور اونٹ کو مسجد میں بٹھا کر باندھ دیا۔ پھر پوچھنے لگا ( بھائیو ) تم لوگوں میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کون سے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لوگوں میں تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا ( حضرت ) محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) یہ سفید رنگ والے بزرگ ہیں جو تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما ہیں۔ تب وہ آپ سے مخاطب ہوا کہ اے عبدالمطلب کے فرزند! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کہو میں آپ کی بات سن رہا ہوں۔ وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ دینی باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں اور ذرا سختی سے بھی پوچھوں گا تو آپ اپنے دل میں برا نہ مانئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں جو تمہارا دل چاہے پوچھو۔ تب اس نے کہا کہ میں آپ کو آپ کے رب اور اگلے لوگوں کے رب تبارک وتعالیٰ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا آپ کو اللہ نے دنیا کے سب لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر اس نے کہا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ سال بھر میں اس مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! پھر کہنے لگا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا اللہ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ آپ ہم میں سے جو مالدار لوگ ہیں ان سے زکوٰۃ وصول کر کے ہمارے محتاجوں میں بانٹ دیا کریں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یا میرے اللہ! تب وہ شخص کہنے لگا جو حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے پاس سے لائے ہیں، میں ان پر ایمان لایا اور میں اپنی قوم کے لوگوں کا جو یہاں نہیں آئے ہیں بھیجا ہوا ( تحقیق حال کے لیے ) آیا ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے، میں بنی سعد بن بکر کے خاندان سے ہوں۔ اس حدیث کو ( لیث کی طرح ) موسیٰ اور علی بن عبدالحمید نے سلیمان سے روایت کیا، انھوں نے ثابت سے، انھوں نے انس سے، انھوں نے یہی مضمون آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔
تشریح : مسلم کی روایت میں حج کا بھی ذکر ہے۔ مسنداحمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں یوں ہے فاناخ بعیرہ علی باب المسجد یعنی اس نے اپنا اونٹ مسجد کے دروازے پر باندھ دیا تھا۔ اس نے بے تکلفی سے سوالات کئے اور آپ بھی بے تکلفی سے جواب دیتے رہے اور لفظ مبارک اللہم نعم کا استعمال فرماتے رہے۔ اللہم تمام اسمائے حسنیٰ کے قائم مقام ہے، اس لیے گویا آپ نے جواب کے وقت اسمائے حسنی کو شامل فرما لیا یہ عربوں کے مح اور کے مطابق بھی تھا کہ وہ وثوق کامل کے مقام پر اللہ کا نام بطور قسم استعمال کرتے تھے۔ ضمام کا آنا9ھ کی بات ہے جیسا کہ محمد بن اسحاق اور ابوعبیدہ وغیرہ کی تحقیق ہے، اس کی تائید طبرانی کی روایت سے ہوتی ہے جس کے راوی ابن عباس ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ فتح مکہ کے بعد تشریف لائے تھے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ عرض وقرات کا طریقہ بھی معتبرہے جیسا کہ ضمام نے بہت سی دینی باتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا اور آپ تصدیق فرماتے رہے۔ پھر ضمام اپنی قوم کے ہاں گئے اور انھوں نے ان کا اعتبار کیا اور ایمان لائے۔
حاکم نے اس روایت سے عالی سند کے حصول کی فضیلت پر استدلال کیا ہے۔ کیونکہ ضمام نے اپنے ہاں آپ کے قاصد کے ذریعہ یہ ساری باتیں معلوم کرلی تھیں لیکن پھر خودحاضر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بالمشافہ ساری باتوں کو معلوم کیا۔ لہٰذا اگرکسی کے پاس کوئی روایت چندواسطوں سے ہو اور کسی شیخ کی اجازت سے ان واسطوں میں کمی آسکتی ہو توملاقات کرکے عالی سند حاصل کرنا بہرحال بڑی فضیلت کی چیز ہے۔
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن مغیرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ثابت نے انس سے نقل کیا، انھوں نے فرمایا کہہم کو قرآن کریم میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے سے منع کر دیا گیا تھا اور ہم کو اسی لیے یہ بات پسند تھی کہ کوئی ہوشیار دیہاتی آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دینی امور پوچھے اور ہم سنیں۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے کہا کہ ( اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! ) ہمارے ہاں آپ کا مبلغ گیا تھا۔ جس نے ہم کو خبر دی کہ اللہ نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے، ایسا آپ کا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ آسمان کس نے پیدا کئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ زمین کس نے پیدا کی ہے اور پہاڑ کس نے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے پوچھا کہ ان میں نفع دینے والی چیزیں کس نے پیدا کی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ عزوجل نے۔ پھر اس نے کہا کہ پس اس ذات کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں جس نے زمین و آسمان اور پہاڑوں کو پیدا کیا اور اس میں منافع پیدا کئے کہ کیا اللہ عزوجل نے آپ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں بالکل سچ ہے۔ ( اللہ نے مجھ کو رسول بنایا ہے ) پھر اس نے کہا کہ آپ کے مبلغ نے بتلایا ہے کہ ہم پر پانچ وقت کی نمازیں اور مال سے زکوٰۃ ادا کرنا اسلامی فرائض ہیں، کیا یہ درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے بالکل سچ کہا ہے۔ پھر اس نے کہا آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بنایا ہے کہ اللہ پاک ہی نے آپ کو ان چیزوں کا حکم فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں بالکل درست ہے۔ پھر وہ بولا آپ کے قاصد کا خیال ہے کہ ہم میں سے جو طاقت رکھتا ہو اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں وہ سچا ہے۔ پھر وہ بولا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا کہ کیا اللہ ہی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم فرمایا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں۔ پھر وہ کہنے لگا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں پر کچھ زیادہ کروں گا نہ کم کروں گا۔ ( بلکہ ان ہی کے مطابق اپنی زندگی گزاروں گا ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے اپنی بات کو سچ کر دکھایا تو وہ ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔
تشریح : صنعانی نے کہا یہ حدیث اس مقام پر اسی ایک نسخہ بخاری میں ہے جو فربری پر پڑھا گیا اور کسی نسخہ میں نہیں ہے۔ شرح قسطلانی رحمہ اللہ میں بھی یہ روایت یہاں نہیں ہے۔ بہرحال صحابہ کرام کو غیرضروری سوالات کرنے سے روک دیا گیا تھا، وہ احتیاطاً خاموشی اختیار کرکے منتظر رہا کرتے تھے کہ کوئی باہر کا آدمی آکر مسائل معلوم کرے اور ہم کوسننے کا موقع مل جائے۔ اس روایت میں بھی شاید وہی ضمام بن ثعلبہ مراد ہیں جن کا ذکر پچھلی روایت میں آچکا ہے۔ اس کے تمام سوالات کا تعلق اصول وفرائض دین سے متعلق تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اصولی طور پر فرائض ہی کا ذکر فرمایا۔ نوافل فرائض کے تابع ہیں چنداں ان کے ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی اس لیے اس بار ے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا۔ اس سے سنن ونوافل کی اہمیت جو اپنی جگہ پر مسلم ہے وہ کم نہیں ہوئی۔
ایک بے جا الزام: صاحب ایضاح البخاری جیسے سنجیدہ مرتب کو خداجانے کیاسوجھی کہ حدیث طلحہ بن عبیداللہ جو کتاب الایمان میں بذیل باب الزکوٰۃ من الاسلام مذکورہوئی ہے اس میں آنے والے شخص کو اہل نجد سے بتلایا گیا ہے۔ بعض شارحین کا خیال ہے کہ یہ ضمام بن ثعلبہ ہی ہیں۔ بہرحال اس ذیل میں آپ نے ایک عجیب سرخی “ دور حاضرہ کا ایک فتنہ ” سے قائم فرمائی ہے۔ پھر اس کی توضیح یوں کی ہے کہ “ اہل حدیث اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے سنن کے اہتمام سے پہلوتہی کرتے ہیں۔ ” ( ایضاح البخاری،جلد4، ص: 386 )
اہل حدیث پر یہ الزام اس قدر بے جا ہے کہ اس پر جتنی بھی نفریں کی جائے کم ہے۔ کاش آپ غور کرتے اور سوچتے کہ آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ جو جماعت سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کی وجہ سے آپ کے ہاں انتہائی معیوب ہے۔ وہ بھلاسنن کے اہتمام سے پہلوتہی کرے، یہ بالکل غلط ہے۔ انفرادی طور پر اگر کوئی شخص ایسا کرگزرتا ہے تواس فعل کا وہ خودذمہ دارہے یوں کتنے مسلمان خودنماز فرض ہی سے پہلوتہی کرتے ہیں توکیاکسی غیرمسلم کا یہ کہنا درست ہوجائے گا کہ مسلمانوں کے ہاں نماز کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔
اہل حدیث کا تونعرہ ہی یہ ہے۔
ماعاشقیم بے دل دلدار ما محمد
ما بلبلیم نالاں گلزار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم
ہاں! اہل حدیث یہ ضرور کہتے ہیں کہ فرض وسنن ونوافل کے مراتب الگ الگ ہیں۔ کوئی شخص کبھی کسی معقول عذر کی بنا پر اگر سنن ونوافل سے محروم رہ جائے وہ اسلام سے خارج نہیں ہوجائے گا۔ نہ اس کی ادا کردہ فرض نماز پر اس کا کچھ اثر پڑے گا، اگراہل حدیث ایسا کہتے ہیں تو یہ بالکل بجا ہے۔ اس لیے کہ یہ توخود آپ کا بھی فتوی ہے۔ جیسا کہ آپ خود اسی کتاب میں فرما رہے ہیں، آپ کے لفظ یہ ہیں۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بے کم وکاست عمل کرنے کی قسم پر دخول جنت کی بشارت دی کیونکہ اگربالفرض وہ صرف انھیں تعلیمات پر اکتفا کررہا ہے اور سنن ونوافل کوشامل نہیں کررہا ہے۔ تب بھی دخول جنت کے لیے توکافی ہے۔ ” ایضاح البخاری، جلد5،ص: 31 ) صدافسوس کہ آپ یہاں ان کو داخل جنت فرما رہے ہیں اور پچھلے مقام پر آپ ہی اسے “ دورحاضرہ کا ایک فتنہ ” بتلاتے ہیں۔ ہم کو آپ کی انصاف پسند طبیعت سے پوری توقع ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں اس کی اصلاح فرمادیں گے۔