Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : تکبیرہوتے وقت اور تکبیر کے بعد صفوں کا برابر کرنا
حدیث نمبر : 717
حدثنا أبو الوليد، هشام بن عبد الملك قال حدثنا شعبة، قال أخبرني عمرو بن مرة، قال سمعت سالم بن أبي الجعد، قال سمعت النعمان بن بشير، يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم " لتسون صفوفكم أو ليخالفن الله بين وجوهكم".
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سالم بن ابوالجعد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ نماز میں اپنی صفوں کو برابر کرلو، نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارا منہ الٹ دے گا۔
تشریح : یعنی مسخ کر دے گا۔ بعض نے یہ مراد لی کہ پھوٹ ڈال دے گا۔ باب کی حدیثوں میں یہ مضمون نہیں ہے کہ تکبیر کے بعد صفوں کو برابر کرو، لیکن امام بخاری نے ان حدیثوں کے دوسرے طریقوں کی طرف اشارہ کیا، چنانچہ آگے چل کر خود امام بخاری نے اسی حدیث کو اس طرح نکالا ہے کہ نماز کی تکبیر ہونے کے بعد آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور یہ فرمایا۔ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع کرنے کو تھے کہ یہ فرمایا۔ امام ابن حزم نے ان حدیثوں کے ظاہر سے یہ کہا ہے کہ صفیں برابر کرنا واجب ہے اور جمہور علماءکے نزدیک سنت ہے اور یہ وعید اس لیے فرمائی کہ لوگ اس سنت کا بخوبی خیال رکھیں۔ برابر رکھنے سے یہ غرض ہے کہ ایک خط مستقیم پر کھڑے ہوں گے آگے پیچھے نہ کھڑے ہوں۔ یا صف میں جو جگہ خالی رہے اس کو بھردیں۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ویحتمل ان یکون البخاری اخذ الوجوب من صیغہ الامر فی قولہ سووا صفوفکم و من عمعرم قولہ صلوا کما رایتمونی اصلی و من ورود الوعید علی ترکہ الخ یعنی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے صیغہ امر سے سووا صفوفکم ( صفوں کو سیدھا کرو ) سے وجوب نکالا ہو اور حدیث نبوی کے اس عموم سے بھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی نماز پڑھو جیسی نماز پڑھتے ہوئے تم نے مجھ کو دیکھا ہے۔
صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو عثمان نہدی کے قدم پر مارا جب کہ وہ صف میں سیدھے کھڑے نہیں ہو رہے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا بھی یہی دستور تھا کہ جس کو وہ صف میں ٹیڑھا دیکھتے وہ ان کے قدموں کو مارنا شروع کردیتے۔ الغرض صفوں کو سیدھا کرنا بے حد ضروری ہے۔
حدیث نمبر : 718
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، عن عبد العزيز، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال " أقيموا الصفوف فإني أراكم خلف ظهري".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے عبدالعزیز بن صہیب سے بیان کیا، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ صفیں سیدھی کر لو۔ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں۔
تشریح : یہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ جس طرح آپ سامنے سے دیکھتے اسی طرح پیچھے مہر نبوت سے آپ دیکھ لیا کرتے تھے۔ صفوں کو درست کرنا اس قدر اہم ہے کہ آپ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کابھی یہی دستور رہا کہ جب تک صف بالکل درست نہ ہوجاتی یہ نماز شروع نہیں کیا کرتے تھے۔ عہد فاروقی میں اس مقصد کے لیے لوگ مقرر تھے جو صف بندی کرائیں، مگر آج کل سب سے زیادہ متروک یہی چیز ہے۔ جس مسجد میں بھی چلے جاؤ صفیں اس قدر ٹیڑھی نظر آئیں گی کہ خدا کی پناہ، اللہ پاک مسلمانوں کو اسوہ نبوی پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔
باب : تکبیرہوتے وقت اور تکبیر کے بعد صفوں کا برابر کرنا
حدیث نمبر : 717
حدثنا أبو الوليد، هشام بن عبد الملك قال حدثنا شعبة، قال أخبرني عمرو بن مرة، قال سمعت سالم بن أبي الجعد، قال سمعت النعمان بن بشير، يقول قال النبي صلى الله عليه وسلم " لتسون صفوفكم أو ليخالفن الله بين وجوهكم".
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے سالم بن ابوالجعد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ نماز میں اپنی صفوں کو برابر کرلو، نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارا منہ الٹ دے گا۔
تشریح : یعنی مسخ کر دے گا۔ بعض نے یہ مراد لی کہ پھوٹ ڈال دے گا۔ باب کی حدیثوں میں یہ مضمون نہیں ہے کہ تکبیر کے بعد صفوں کو برابر کرو، لیکن امام بخاری نے ان حدیثوں کے دوسرے طریقوں کی طرف اشارہ کیا، چنانچہ آگے چل کر خود امام بخاری نے اسی حدیث کو اس طرح نکالا ہے کہ نماز کی تکبیر ہونے کے بعد آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور یہ فرمایا۔ اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ تکبیر کہہ کر نماز شروع کرنے کو تھے کہ یہ فرمایا۔ امام ابن حزم نے ان حدیثوں کے ظاہر سے یہ کہا ہے کہ صفیں برابر کرنا واجب ہے اور جمہور علماءکے نزدیک سنت ہے اور یہ وعید اس لیے فرمائی کہ لوگ اس سنت کا بخوبی خیال رکھیں۔ برابر رکھنے سے یہ غرض ہے کہ ایک خط مستقیم پر کھڑے ہوں گے آگے پیچھے نہ کھڑے ہوں۔ یا صف میں جو جگہ خالی رہے اس کو بھردیں۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ویحتمل ان یکون البخاری اخذ الوجوب من صیغہ الامر فی قولہ سووا صفوفکم و من عمعرم قولہ صلوا کما رایتمونی اصلی و من ورود الوعید علی ترکہ الخ یعنی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث کے صیغہ امر سے سووا صفوفکم ( صفوں کو سیدھا کرو ) سے وجوب نکالا ہو اور حدیث نبوی کے اس عموم سے بھی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی نماز پڑھو جیسی نماز پڑھتے ہوئے تم نے مجھ کو دیکھا ہے۔
صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ابو عثمان نہدی کے قدم پر مارا جب کہ وہ صف میں سیدھے کھڑے نہیں ہو رہے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا بھی یہی دستور تھا کہ جس کو وہ صف میں ٹیڑھا دیکھتے وہ ان کے قدموں کو مارنا شروع کردیتے۔ الغرض صفوں کو سیدھا کرنا بے حد ضروری ہے۔
حدیث نمبر : 718
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، عن عبد العزيز، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال " أقيموا الصفوف فإني أراكم خلف ظهري".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے عبدالعزیز بن صہیب سے بیان کیا، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ صفیں سیدھی کر لو۔ میں تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے دیکھ رہا ہوں۔
تشریح : یہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ جس طرح آپ سامنے سے دیکھتے اسی طرح پیچھے مہر نبوت سے آپ دیکھ لیا کرتے تھے۔ صفوں کو درست کرنا اس قدر اہم ہے کہ آپ اور آپ کے بعد خلفائے راشدین کابھی یہی دستور رہا کہ جب تک صف بالکل درست نہ ہوجاتی یہ نماز شروع نہیں کیا کرتے تھے۔ عہد فاروقی میں اس مقصد کے لیے لوگ مقرر تھے جو صف بندی کرائیں، مگر آج کل سب سے زیادہ متروک یہی چیز ہے۔ جس مسجد میں بھی چلے جاؤ صفیں اس قدر ٹیڑھی نظر آئیں گی کہ خدا کی پناہ، اللہ پاک مسلمانوں کو اسوہ نبوی پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔