• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان

باب : امام کو چاہئے کہ قیام ہلکا کرے ( مختصر سورتیں پڑھے ) اور رکوع اور سجود پورے پورے ادا کرے

حدیث نمبر : 702
حدثنا أحمد بن يونس، قال حدثنا زهير، قال حدثنا إسماعيل، قال سمعت قيسا، قال أخبرني أبو مسعود، أن رجلا، قال والله يا رسول الله إني لأتأخر عن صلاة الغداة من أجل فلان مما يطيل بنا‏.‏ فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في موعظة أشد غضبا منه يومئذ ثم قال ‏"‏ إن منكم منفرين، فأيكم ما صلى بالناس فليتجوز، فإن فيهم الضعيف والكبير وذا الحاجة‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، کہا کہ مجھے ابومسعود انصاری نے خبر دی کہ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہ! قسم اللہ کی میں صبح کی نماز میں فلاں کی وجہ سے دیر میں جاتا ہوں، کیوں کہ وہ نماز کو بہت لمبا کر دیتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ ( کبھی بھی ) غضب ناک نہیں دیکھا۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کچھ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ( عوام کو عبادت سے یا دین سے ) نفرت دلا دیں، خبردار تم میں لوگوں کو جو شخص بھی نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھائے۔ کیوں کہ نمازیوں میں بوڑھے اور کمزور بوڑھے اور ضرورت والے سب ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : جب اکیلا نماز پڑھے تو جتنی چاہے طویل کرسکتا ہے

حدیث نمبر : 703
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا صلى أحدكم للناس فليخفف، فإن منهم الضعيف والسقيم والكبير، وإذا صلى أحدكم لنفسه فليطول ما شاء‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انہوں نے اعرج سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جب کوئی تم میں سے لوگوں کو نماز پڑھائے تو تخفیف کرے کیوں کہ جماعت میں ضعیف بیمار اور بوڑھے ( سب ہی ) ہوتے ہیں، لیکن اکیلا پڑھے تو جس قدر جی چاہے طول دے سکتا ہے۔ ( باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : اس کے بارے میں جس نے امام سے نماز کے طویل ہوجانے کی شکایت کی

وقال أبو أسيد طولت بنا يا بنى‏.‏
ایک صحابی ابواسید ( مالک بن ربیعہ ) نے اپنے بیٹے ( منذر ) سے فرمایا بیٹا تو نے نماز کو ہم پر لمبا کر دیا۔

حدیث نمبر : 704
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن إسماعيل بن أبي خالد، عن قيس بن أبي حازم، عن أبي مسعود، قال قال رجل يا رسول الله إني لأتأخر عن الصلاة في الفجر مما يطيل بنا فلان فيها‏.‏ فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم ما رأيته غضب في موضع كان أشد غضبا منه يومئذ ثم قال ‏"‏ يا أيها الناس إن منكم منفرين، فمن أم الناس فليتجوز، فإن خلفه الضعيف والكبير وذا الحاجة‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا اسماعیل بن ابی خالد سے، انہوں نے قیس بن ابی حازم سے، انہوں نے ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! میں فجر کی نماز میں تاخیر کر کے اس لیے شریک ہوتا ہوں کہ فلاں صاحب فجر کی نماز بہت طویل کر دیتے ہیں۔ اس پر آپ اس قدر غصہ ہوئے کہ میں نے نصیحت کے وقت اس دن سے زیادہ غضب ناک آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔ پھر آپ نے فرمایا لوگو! تم میں بعض لوگ ( نماز سے لوگوں کو ) دور کرنے کا باعث ہیں۔ پس جو شخص امام ہو اسے ہلکی نماز پڑھنی چاہئے اس لیے کہ اس کے پیچھے کمزور، بوڑھے اور ضرورت والے سب ہی ہوتے ہیں۔

حدیث نمبر : 705
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا محارب بن دثار، قال سمعت جابر بن عبد الله الأنصاري، قال أقبل رجل بناضحين وقد جنح الليل، فوافق معاذا يصلي، فترك ناضحه وأقبل إلى معاذ، فقرأ بسورة البقرة أو النساء، فانطلق الرجل، وبلغه أن معاذا نال منه، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فشكا إليه معاذا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا معاذ أفتان أنت ـ أو فاتن ثلاث مرار ـ فلولا صليت بسبح اسم ربك، والشمس وضحاها، والليل إذا يغشى، فإنه يصلي وراءك الكبير والضعيف وذو الحاجة‏"‏‏. ‏ أحسب هذا في الحديث‏.‏ قال أبو عبد الله وتابعه سعيد بن مسروق ومسعر والشيباني‏.‏ قال عمرو وعبيد الله بن مقسم وأبو الزبير عن جابر قرأ معاذ في العشاء بالبقرة‏.‏ وتابعه الأعمش عن محارب‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محارب بن دثار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری سے سنا، آپ نے بتلایا کہ ایک شخص پانی اٹھانے والا دو اونٹ لئے ہوئے آیا، رات تاریک ہو چکی تھی۔ اس نے معاذ کو نماز پڑھاتے ہوئے پایا۔ اس لیے اپنے اونٹوں کو بٹھا کر ( نماز میں شریک ہونے کے لیے ) معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف بڑھا۔ معاذ رضی اللہ عنہ نے نماز میں سورہ بقرہ یا سورہ نساء شروع کی۔ چنانچہ وہ شخص نیت توڑ کر چل دیا۔ پھر اسے معلوم ہوا کہ معاذ رضی اللہ عنہ نے مجھ کو برا بھلا کہا ہے۔ اس لیے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور معاذ کی شکایت کی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا، معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو۔ آپ نے تین مرتبہ ( فتان یا فاتن ) فرمایا، سبح اسم ربک الاعلی و الشمس و ضحہٰا، واللیل اذا یغشی ( سورتیں ) تم نے کیوں نہ پڑھیں، کیونکہ تمہارے پیچھے بوڑھے، کمزور اور حاجت مند نماز پڑھتے ہیں۔ شعبہ نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ آخری جملہ ( کیونکہ تمہارے پیچھے الخ ) حدیث میں داخل ہے۔ شعبہ کے ساتھ اس کی متابعت سعید بن مسروق، مسعر اور شیبانی نے کی ہے اور عمرو بن دینار، عبیداللہ بن مقسم اور ابوالزبیر نے بھی اس حدیث کو جابر کے واسطہ سے بیان کیا ہے کہ معاذ نے عشاء میں سورہ بقرہ پڑھی تھی اور شعبہ کے ساتھ اس روایت کی متابعت اعمش نے محارب کے واسطہ سے کی ہے۔

تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ایک نہایت اہم مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ کیا کسی ایسے کام کے بارے میں جو خیر محض ہو شکایت کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ نماز ہر طرح خیر ہی خیر ہے، کسی برائی کا اس میں کوئی پہلو نہیں۔ اس کے باوجود اس سلسلے میں ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سنا اور شکایت کی طر ف بھی توجہ فرمائی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں بھی شکایت بشرطیکہ معقول اور مناسب ہو جائز ہے۔ ( تفہیم البخاری )

دوسری روایت میں ہے کہ سورۃ الطارق اور والشمس و ضحٰہا یا سبح اسم یا اقتربت الساعۃ پڑھنے کا حکم فرمایا۔ مفصل قرآن کی ساتویں منزل کا نام ہے۔ یعنی سورۃ ق سے آخر قرآن تک۔ پھر ان میں تین ٹکڑے ہیں۔ طوال یعنی ق سے سورۃ عم تک۔ اور اوساط یعنی بیچ کی عم سے والضحیٰ تک۔ قصار یعنی چھوٹی والضحیٰ سے آخر تک۔ ائمہ کو ان ہدایات کا مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : نماز مختصر اور پوری پڑھنا ( یعنی رکوع و سجود اچھی طرح کرنا )

حدیث نمبر : 706
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا عبد العزيز، عن أنس، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يوجز الصلاة ويكملها‏.‏
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو مختصر اور پوری پڑھتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : جس نے بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو مختصر کردیا

حدیث نمبر : 707
حدثنا إبراهيم بن موسى، قال أخبرنا الوليد، قال حدثنا الأوزاعي، عن يحيى بن أبي كثير، عن عبد الله بن أبي قتادة، عن أبيه أبي قتادة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إني لأقوم في الصلاة أريد أن أطول فيها، فأسمع بكاء الصبي، فأتجوز في صلاتي كراهية أن أشق على أمه‏"‏‏. ‏ تابعه بشر بن بكر وابن المبارك وبقية عن الأوزاعي‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام عبدالرحمن بن عمرو اوزاعی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن ابی قتادہ سے، انہوں نے اپنے باپ ابوقتادہ حارث بن ربعی سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز دیر تک پڑھنے کے ارادہ سے کھڑا ہوتا ہوں۔ لیکن کسی بچے کے رونے کی آواز سن کر نماز کو ہلکی کر دیتا ہوں، کیوں کہ اس کی ماں کو ( جو نماز میں شریک ہو گی ) تکلیف میں ڈالنا برا سمجھتا ہوں۔ ولید بن مسلم کے ساتھ اس روایت کی متابعت بشر بن بکر، بقیہ بن ولید اور ابن مبارک نے اوزاعی کے واسطہ سے کی ہے۔

حدیث نمبر : 708
حدثنا خالد بن مخلد، قال حدثنا سليمان بن بلال، قال حدثنا شريك بن عبد الله، قال سمعت أنس بن مالك، يقول ما صليت وراء إمام قط أخف صلاة ولا أتم من النبي صلى الله عليه وسلم، وإن كان ليسمع بكاء الصبي فيخفف مخافة أن تفتن أمه‏.‏
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شریک بن عبداللہ بن ابی نمر قریشی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہلکی لیکن کامل نماز میں نے کسی امام کے پیچھے کبھی نہیں پڑھی۔ آپ کا یہ حال تھا کہ اگر آپ بچے کے رونے کی آواز سن لیتے تو اس خیال سے کہ اس کی ماں کہیں پریشانی میں نہ مبتلا ہو جائے نماز مختصر کر دیتے۔

تشریح : یعنی آپ کی نماز باعتبار قرات کے تو ہلکی ہوتی، چھوٹی چھوٹی سورتیں پڑھتے اور ارکان یعنی رکوع سجدہ وغیرہ پورے طور سے ادا فرماتے جو لوگ سنت کی پیروی کرنا چاہیں۔ ان کو امامت کی حالت میں ایسی ہی نماز پڑھانی چاہئے۔

حدیث نمبر : 709
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا يزيد بن زريع، قال حدثنا سعيد، قال حدثنا قتادة، أن أنس بن مالك، حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إني لأدخل في الصلاة وأنا أريد إطالتها، فأسمع بكاء الصبي، فأتجوز في صلاتي مما أعلم من شدة وجد أمه من بكائه‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نماز شروع کر دیتا ہوں۔ ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز طول کروں، لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ مجھے معلوم ہے کہ ماں کے دل پر بچے کے رونے سے کیسی چوٹ پڑتی ہے۔

حدیث نمبر : 710
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا ابن أبي عدي، عن سعيد، عن قتادة، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إني لأدخل في الصلاة فأريد إطالتها، فأسمع بكاء الصبي، فأتجوز مما أعلم من شدة وجد أمه من بكائه‏"‏‏. ‏ وقال موسى حدثنا أبان، حدثنا قتادة، حدثنا أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں محمد بن ابراہیم بن عدی نے سعید بن ابی عروبہ کے واسطہ سے خبر دی، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نماز کی نیت باندھتا ہوں، ارادہ یہ ہوتا ہے کہ نماز کو طویل کروں گا، لیکن بچے کے رونے کی آواز سن کر مختصر کر دیتا ہوں کیوں کہ میں اس درد کو سمجھتا ہوں جو بچے کے رونے کی وجہ سے ماں کو ہو جاتا ہے۔ اور موسیٰ بن اسماعیل نے کہا ہم سے ابان بن یزید نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا ہم سے انس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث بیان کی۔

تشریح : ان جملہ احادیث سے آپ کی شفقت ظاہر ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں عورتیں بھی شریک جماعت ہوا کرتی تھیں، ابن ابی شیبہ میں ہے کہ ایک دفعہ آپ نے پہلی رکعت میں ساٹھ آیات کو پڑھا۔ پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر آپ نے اتنا اثر لیا کہ دوسری رکعت میں صرف تین آیات پڑھ کر نماز کو پورا کردیا۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : ایک شخص نماز پڑھ کو دوسرے لوگوں کی امامت کرے

حدیث نمبر : 711
حدثنا سليمان بن حرب، وأبو النعمان، قالا حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن عمرو بن دينار، عن جابر، قال كان معاذ يصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم ثم يأتي قومه فيصلي بهم‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب اور ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انہوں نےایوب سختیانی سے، انہوں نے عمرو بن دینار سے، انہوں نے جابر سے فرمایا کہ معاذ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے پھر واپس آ کر اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : جو مقتدیوں کو امام کی تکبیر سنائے۔

حدیث نمبر : 712
حدثنا مسدد، قال حدثنا عبد الله بن داود، قال حدثنا الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت لما مرض النبي صلى الله عليه وسلم مرضه الذي مات فيه أتاه بلال يؤذنه بالصلاة فقال ‏"‏ مروا أبا بكر فليصل‏"‏‏. ‏ قلت إن أبا بكر رجل أسيف، إن يقم مقامك يبكي فلا يقدر على القراءة‏.‏ قال ‏"‏ مروا أبا بكر فليصل‏"‏‏. ‏ فقلت مثله فقال في الثالثة أو الرابعة ‏"‏ إنكن صواحب يوسف، مروا أبا بكر فليصل‏"‏‏. ‏ فصلى وخرج النبي صلى الله عليه وسلم يهادى بين رجلين، كأني أنظر إليه يخط برجليه الأرض، فلما رآه أبو بكر ذهب يتأخر، فأشار إليه أن صل، فتأخر أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ وقعد النبي صلى الله عليه وسلم إلى جنبه، وأبو بكر يسمع الناس التكبير‏.‏ تابعه محاضر عن الأعمش‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن داؤد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے ابراہیم نخعی سے بیان کیا، انہوں نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر خدمت ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے عرض کیا کہ ابوبکر کچے دل کے آدمی ہیں اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رو دیں گے اور قرآت نہ کر سکیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے کہو وہ نماز پڑھائیں۔ میں نے وہی عذر پھر دہرایا۔ پھر آپ نے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا کہ تم لوگ تو بالکل صواحب یوسف کی طرح ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نماز شروع کرا دی۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( اپنا مزاج ذرا ہلکا پا کر ) دو آدمیوں کا سہارا لیے ہوئے باہر تشریف لائے۔ گویا میری نظروں کے سامنے وہ منظر ہے کہ آپ کے قدم زمین پر نشان کر رہے تھے۔ ابوبکر آپ کو دیکھ کر ہٹنے لگے۔ لیکن آپ نے اشارہ سے انھیں نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ ابوبکر پیچھے ہٹ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بازو میں بیٹھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر سنا رہے تھے۔ عبداللہ بن داؤد کے ساتھ اس حدیث کو محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔

تشریح : جب مقتدی زیادہ ہوں تو دوسرا شخص تکبیر زور سے پکارے تاکہ سب کو آواز پہنچ جائے۔ آج کل اس مقصد کے لیے ایک آلہ وجود میں آگیا ہے جسے آواز پہچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ اکثر علماءکے نزدیک جائز قرار دیا گیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : ایک شخص امام کی اقتدا کرے اور لوگ اس کی اقتدا کریں ( تو کیسا ہے؟ )

ويذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ائتموا بي وليأتم بكم من بعدكم‏"‏‏.
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے ( پہلی صف والوں سے ) فرمایا تم میری پیروی کرو اور تمہارے پیچھے جو لوگ ہیں وہ تمہاری پیروی کریں۔

حدیث نمبر : 713
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة، قالت لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء بلال يؤذنه بالصلاة فقال ‏"‏ مروا أبا بكر أن يصلي بالناس‏"‏‏. ‏ فقلت يا رسول الله، إن أبا بكر رجل أسيف، وإنه متى ما يقم مقامك لا يسمع الناس، فلو أمرت عمر‏.‏ فقال ‏"‏ مروا أبا بكر يصلي بالناس‏"‏‏. ‏ فقلت لحفصة قولي له إن أبا بكر رجل أسيف، وإنه متى يقم مقامك لا يسمع الناس، فلو أمرت عمر‏.‏ قال ‏"‏ إنكن لأنتن صواحب يوسف، مروا أبا بكر أن يصلي بالناس‏"‏‏. ‏ فلما دخل في الصلاة وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفسه خفة، فقام يهادى بين رجلين، ورجلاه يخطان في الأرض حتى دخل المسجد، فلما سمع أبو بكر حسه ذهب أبو بكر يتأخر، فأومأ إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى جلس عن يسار أبي بكر، فكان أبو بكر يصلي قائما، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي قاعدا، يقتدي أبو بكر بصلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس مقتدون بصلاة أبي بكر رضى الله عنه‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابومعاویہ محمد بن حازم نے بیان کیا، انہوں نے اعمش کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے ابراہیم نخعی سے، انہوں نے اسود سے، انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تھے تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی خبر دینے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر ایک نرم دل آدمی ہیں اور جب بھی وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے لوگوں کو ( شدت گریہ کی وجہ سے ) آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر رضی اللہ عنہ سے کہتے تو بہتر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ ابوبکر سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ پھر میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم کہو کہ ابوبکر نرم دل آدمی ہیں اور اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو لوگوں کو اپنی آواز نہیں سنا سکیں گے۔ اس لیے اگر عمر سے کہیں تو بہتر ہو گا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ تم لوگ صواحب یوسف سے کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ نماز پڑھائیں۔ جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھانے لگے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض میں کچھ ہلکا پن محسوس فرمایا اور دو آدمیوں کا سہارا لے کر کھڑے ہو گئے۔ آپ کے پاؤں زمین پر نشان کر رہے تھے۔ اس طرح چل کر آپ مسجد میں داخل ہوئے۔ جب ابوبکر نے آپ کی آہٹ پائی تو پیچھے ہٹنے لگے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے روکا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں طرف بیٹھ گئے تو ابوبکر کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء۔

اسی جملہ سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خود مقتدی تھے، لیکن دوسرے مقتدیوں نے ان کی اقتدا کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : اس بارے میں کہ اگر امام کو شک ہو جائے تو کیا مقتدیوں کی بات پر عمل کرسکتا ہے؟

حدیث نمبر : 714
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك بن أنس، عن أيوب بن أبي تميمة السختياني، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من اثنتين، فقال له ذو اليدين أقصرت الصلاة أم نسيت يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أصدق ذو اليدين‏"‏‏. ‏ فقال الناس نعم‏.‏ فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى اثنتين أخريين ثم سلم، ثم كبر فسجد مثل سجوده أو أطول‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انہوں نے حضرت امام مالک بن انس سے بیان کیا، انہوں نے ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی سے، انہوں نے محمد بن سیرین سے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ظہر کی نماز میں ) دو رکعت پڑھ کر نماز ختم کر دی تو آپ سے ذوالیدین نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز کم ہو گئی ہے یا آپ بھول گئے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اور لوگوں کی طرف دیکھ کر ) پوچھا کیا ذوالیدین صحیح کہتے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں! پھر آپ اٹھے اور دوسری دو رکعتیں بھی پڑھیں۔ پھر سلام پھیرا۔ پھر تکبیر کہی اور سجدہ کیا پہلے کی طرح یا اس سے کچھ لمبا سجدہ۔

تشریح : یہ باب لاکر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے شافعیہ کا رد کیا ہے جو کہتے ہیں کہ امام مقتدیوں کی بات نہ سنے، بعض نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اس مسئلہ میں اختلاف اس حالت میں ہے جب امام کو خود شک ہو، لیکن اگر امام کو ایک امر کا یقین ہو تو بالاتفاق مقتدیوں کی بات نہ سننا چاہئے۔ ذو الیدین کا اصلی نام خرباق تھا۔ ان کے دونوں ہاتھ لمبے لمبے تھے اس لیے لوگ ان کو ذو الیدین کہنے لگے۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ درجہ یقین حاصل کرنے کے لیے اور لوگوں سے بھی شہادت لی جاسکتی ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ امر حق کا اظہار ایک ادنی آدمی بھی کرسکتا ہے۔

حدیث نمبر : 715
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم الظهر ركعتين، فقيل صليت ركعتين‏.‏ فصلى ركعتين، ثم سلم ثم سجد سجدتين‏.‏
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے سعد بن ابراہیم سے بیان کیا، وہ ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، آپ نے بتلایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ایک مرتبہ ) ظہر کی صرف دو ہی رکعتیں پڑھیں ( اور بھول سے سلام پھیر دیا ) پھر کہا گیا کہ آپ نے صرف دو ہی رکعتیں پڑھی ہیں۔ پس آپ نے دو رکعتیں اور پڑھیں پھر سلام پھیرا۔ پھر دو سجدے کئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : جب امام نماز میں رو دے ( تو کیسا ہے؟ )

وقال عبد الله بن شداد سمعت نشيج عمر وأنا في آخر الصفوف يقرأ ‏{‏إنما أشكو بثي وحزني إلى الله‏}‏
اور عبداللہ بن شداد رحمہ اللہ علیہ ( تابعی ) نے بیان کیا کہ میں نے نماز میں عمر رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی حالانکہ میں آخری صف میں تھا۔ آپ آیت شریفہ انما اشکوا بثی و حزنی الی اللہ پڑھ رہے تھے۔
یہ سورۃ یوسف کی آیت کا ایک جملہ ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ میں اپنے غم اور فکر کی شکایت اللہ ہی سے کرتا ہوں، یہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا تھا۔

حدیث نمبر : 716
حدثنا إسماعيل، قال حدثنا مالك بن أنس، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أم المؤمنين، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال في مرضه ‏"‏ مروا أبا بكر يصلي بالناس‏"‏‏. ‏ قالت عائشة قلت إن أبا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل‏.‏ فقال ‏"‏ مروا أبا بكر فليصل للناس‏"‏‏. ‏ قالت عائشة لحفصة قولي له إن أبا بكر إذا قام في مقامك لم يسمع الناس من البكاء، فمر عمر فليصل للناس‏.‏ ففعلت حفصة‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ مه، إنكن لأنتن صواحب يوسف، مروا أبا بكر فليصل للناس‏"‏‏. ‏ قالت حفصة لعائشة ما كنت لأصيب منك خيرا‏.‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک بن انس نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا، انہوں نے اپنے باپ سے، انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الوفات میں فرمایا کہ ابوبکر سے لوگوں کو نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ ابوبکر اگر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو رونے کی وجہ سے لوگوں کو اپنی آواز نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے آپ عمر رضی اللہ عنہ سے فرمائیے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ نہیں ابوبکر ہی سے نماز پڑھانے کے لیے کہو۔ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ تم بھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرو کہ اگر ابوبکر آپ کی جگہ کھڑے ہوئے تو آپ کو یاد کر کے گریہ و زاری کی وجہ سے لوگوں کو قرآن نہ سنا سکیں گے۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ سے کہئے کہ وہ نماز پڑھائیں۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی کہہ دیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ بس چپ رہو، تم لوگ صواحب یوسف سے کسی طرح کم نہیں ہو۔ ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں۔ بعد میں حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا۔ بھلا مجھ کو تم سے کہیں بھلائی ہونی ہے۔

تشریح : مقصد باب یہ ہے کہ رونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ جنت یا دوزخ کے ذکر پر رونا تو عین مطلوب ہے، کئی احادیث سے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز میں رونا ثابت ہے۔ یہ حدیث پہلے کئی جگہ گزر چکی ہے اور امام المحدثین رحمہ اللہ نے اس سے بہت سے مسائل اخذ کئے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے رونے کا ذکر سنا پھر بھی آپ نے ان کو نماز کے لیے حکم فرمایا۔ پس دعویٰ ثابت کہ رونے سے نماز نہیں ٹوٹ سکتی۔ صواحب یوسف کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے۔ زلیخا اور اس کے ساتھ والی عورتیں مراد ہیں۔ جن کی زبان پر کچھ تھا اور دل میں کچھ اور۔ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا اپنے کہنے پر پچھتائی اور اسی لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر اظہا رخفگی فرمایا۔ ( رضی اللہ عنہن اجمعین
 
Top