Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
باب : امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں
وصلى النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي توفي فيه بالناس وهو جالس. وقال ابن مسعود إذا رفع قبل الإمام يعود فيمكث بقدر ما رفع ثم يتبع الإمام. وقال الحسن فيمن يركع مع الإمام ركعتين ولا يقدر على السجود يسجد للركعة الآخرة سجدتين، ثم يقضي الركعة الأولى بسجودها. وفيمن نسي سجدة حتى قام يسجد.
اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی ( لوگ کھڑے ہوئے تھے ) اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب کوئی امام سے پہلے سر اٹھا لے ( رکوع میں سجدے میں ) تو پھر وہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سر اٹھائے رہا تھا پھر امام کی پیروی کرے۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دو رکعات پڑھے لیکن سجدہ نہ کر سکے، تو وہ آخری رکعت کے لیے دو سجدے کرے۔ پھر پہلی رکعت سجدہ سمیت دہرائے اور جو شخص سجدہ کئے بغیر بھول کر کھڑا ہو گیا تو وہ سجدے میں چلا جائے۔
حدیث نمبر : 687
حدثنا أحمد بن يونس، قال حدثنا زائدة، عن موسى بن أبي عائشة، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال دخلت على عائشة فقلت ألا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت بلى، ثقل النبي صلى الله عليه وسلم فقال " أصلى الناس". قلنا لا، هم ينتظرونك. قال " ضعوا لي ماء في المخضب". قالت ففعلنا فاغتسل فذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال صلى الله عليه وسلم " أصلى الناس". قلنا لا، هم ينتظرونك يا رسول الله. قال " ضعوا لي ماء في المخضب". قالت فقعد فاغتسل، ثم ذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال " أصلى الناس". قلنا لا، هم ينتظرونك يا رسول الله. فقال " ضعوا لي ماء في المخضب "، فقعد فاغتسل، ثم ذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال " أصلى الناس". فقلنا لا، هم ينتظرونك يا رسول الله ـ والناس عكوف في المسجد ينتظرون النبي عليه السلام لصلاة العشاء الآخرة ـ فأرسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر بأن يصلي بالناس، فأتاه الرسول فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرك أن تصلي بالناس. فقال أبو بكر ـ وكان رجلا رقيقا ـ يا عمر صل بالناس. فقال له عمر أنت أحق بذلك. فصلى أبو بكر تلك الأيام، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم وجد من نفسه خفة فخرج بين رجلين أحدهما العباس لصلاة الظهر، وأبو بكر يصلي بالناس، فلما رآه أبو بكر ذهب ليتأخر فأومأ إليه النبي صلى الله عليه وسلم بأن لا يتأخر. قال " أجلساني إلى جنبه". فأجلساه إلى جنب أبي بكر. قال فجعل أبو بكر يصلي وهو يأتم بصلاة النبي صلى الله عليه وسلم والناس بصلاة أبي بكر، والنبي صلى الله عليه وسلم قاعد. قال عبيد الله فدخلت على عبد الله بن عباس فقلت له ألا أعرض عليك ما حدثتني عائشة عن مرض النبي صلى الله عليه وسلم قال هات. فعرضت عليه حديثها، فما أنكر منه شيئا، غير أنه قال أسمت لك الرجل الذي كان مع العباس قلت لا. قال هو علي.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں زائدہ بن قدامہ نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے خبر دی، انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی حالت آپ ہم سے بیان کرتیں، ( تو اچھا ہوتا ) انھوں نے فرمایا کہ ہاں ضرور سن لو۔ آپ کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظام کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو پھر آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی نہیں حضور! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے ( پھر ) فرمایا کہ لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ نے غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ( دوبارہ ) پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ لگن میں پانی لاؤ اور آپ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش ہوا تو آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آ کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم فرمایا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل انسان تھے۔ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ آخر ( بیماری ) کے دنوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاج کچھ ہلکا معلوم ہوا تو دو مردوں کا سہارا لے کر جن میں ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے ظہر کی نماز کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے، جب انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انھیں روکا کہ پیچھے نہ ہٹو! پھر آپ نے ان دونوں مردوں سے فرمایا کہ مجھے ابوبکر کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ دونوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بازو میں بٹھا دیا۔ راوی نے کہا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی پیروی کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے۔ عبید اللہ نے کہا کہ پھر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور ان سے عرض کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں جو حدیث بیان کی ہے کیا میں آپ کو سناؤں؟ انھوں نے فرمایا کہ ضرور سناؤ۔ میں نے یہ حدیث سنا دی۔ انھوں نے کسی بات کا انکار نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان صاحب کا نام بھی تم کو بتا دیا جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
تشریح : امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ مرض موت میں آپ نے لوگوں کو یہی نماز پڑھائی وہ بھی بیٹھ کر بعض نے گمان کیا کہ یہ فجر کی نماز تھی، کیوں کہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے وہیں سے قرات شرو ع کی جہاں تک ابوبکر پہنچے تھے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ ظہر میں بھی آیت کا سننا ممکن ہے۔ جیسے ایک حدیث میں ہے کہ آپ سری نماز میں بھی اس طرح سے قرات کرتے تھے کہ ایک آدھ آیت ہم کو سنا دیتے یعنی پڑھتے پڑھتے ایک آدھ آیت ذرا ہلکی آواز سے پڑھ دیتے کہ مقتدی اس کو سن لیتے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
ترجمۃ الباب کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہذہ الترجمۃ قطعۃ من الحدیث الآتی فی الباب و المراد بہا ان الائتمام یقتضی متابعۃ الماموم لامامہ الخ ( فتح ) یعنی یہ باب حدیث ہی کا ایک ٹکڑا ہے جو آگے مذکور ہے۔ مرا دیہ ہے کہ اقتدا کرنے کا اقتضاءہی یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام کی نماز میں پیروی کرے اس پر سبقت نہ کرے۔ مگر دلیل شرعی سے کچھ ثابت ہو تو وہ امر دیگر ہے۔ جیسا کہ یہاں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔
حدیث نمبر : 688
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أم المؤمنين، أنها قالت صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيته وهو شاك، فصلى جالسا وصلى وراءه قوم قياما، فأشار إليهم أن اجلسوا، فلما انصرف قال " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔ انہوں نے اپنے باپ عروہ سے انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں میرے ہی گھر میں نماز پڑھی۔ آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
تشریح : قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث سے حضرت امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل لی کہ امام فقط سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنا لک الحمد یا ربنا و لک الحمد یا اللہم ربنا لک الحمد کہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے امام احمد بن حنبل کا یہ قول ہے کہ امام دونوں لفظ کہے اور اسی طرح مقتدی بھی دونوں لفظ کہے۔ ( مولانا وحید الزماں )
حدیث نمبر : 689
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه، فجحش شقه الأيمن، فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد، فصلينا وراءه قعودا، فلما انصرف قال " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده. فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون". قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله " إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا". هو في مرضه القديم، ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما، لم يأمرهم بالقعود، وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول “ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ” کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتدا کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔
تشریح : صاحب عون المعبود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال الخطابی قلت و فی اقامۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابابکر عن یمینہ و ہو مقام الماموم و فی تکبیرہ بالناس و تکبیر ابی بکر بتکبیرہ بیان واضح ان الامام فی ہذہ الصلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد صلی قاعداً و الناس من خلفہ قیام و ہی اخر صلوٰۃ صلاہا بالناس فدل علی ان حدیث انس و جابر منسوخ و یزید ما قلناہ وضوحا ما رواہ ابو معاویۃ عن الاعمش عن ابراہیم عن الاسود عن عائشۃ قالت لما ثقل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ذکر الحدیث قالت فجاءرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی بالناس جالسا و ابوبکر قائما یقتدی بہ و الناس یقتدون بابی بکر حدثونا بہ عن یحیی بن محمد بن یحیٰی قال نا مسدد قال نا ابومعاویۃ و القیاس یشہد لہذا القول لان الامام لا یسقط عن القوم شیئا من ارکان الصلٰوۃ مع القدرۃ علیہ الا تری انہ لا یحیل الرکوع و السجود الی الایماءو کذلک لایحیل القیام الی القعود و الی ہذا ذہب سفیان الثوری و صاحب الرای و الشافعی و ابوثور و قال مالک بن انس لا ینبغی لاحد ان یوم الناس قاعداً و ذہب احمد بن حنبل و اسحق بن راہویہ و نفر من اہل الحدیث الی خبر انس فان الامام اذا صلی قاعداً صلوٰا من خلفہ قعوداً و زرعم بعض اہل الحدیث ان الروایات اختلف فی ہذا فروی الاسود عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اماما و روی شقیق عنہا ان الامام کان ابوبکر فلم یجز ان یترک بہ حدیث انس و جابر ( عون المعبود، ج:1ص:234 )
یعنی امام خطابی نے کہا کہ حدیث مذکورہ میں جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب کھڑا ہونا ذکر ہے جو مقتدی کی جگہ ہے اور ان لوگوں کا تکبیر کہنا اور ابوبکر کی تکبیروں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر کے پیچھے ہونا اس میں واضح بیان موجود ہے کہ اس نماز میں امام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور سارے صحابہ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے اور یہ آخری نماز ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ حضرت انس اور جابر کی احادیث جن میں امام بیٹھا ہو تو مقتدیوں کو بھی بیٹھنا لازم مذکور ہے۔ وہ منسوخ ہے اور ہم نے جو کہا ہے اس کی مزید وضاحت اس روایت سے ہوگئی ہے جسے ابومعاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے اسود سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تو آپ تشریف لائے اور ابوبکر کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور آپ بیٹھ کر ہی لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر کھڑے ہو کر آپ کی اقتدا کر رہے تھے اور دیگر جملہ نمازی کھڑے ہو کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر رہے تھے۔ اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ امام ارکان صلوۃمیں سے مقتدیوں سے جب وہ ان پر قادر ہوں کسی رکن کو ساقط نہیں کرسکتا۔ نہ وہ رکوع سجود ہی کو محض اشاروں سے ادا کرسکتا ہے تو پھر قیام جو ایک رکن نماز ہے اسے قعود سے کیسے بدل سکتا ہے۔ امام سفیان ثوری اور اصحاب رائے اور امام شافعی اور ابوثور وغیرہ کا یہی مسلک ہے اور حضرت امام مالک بن انس کہتے ہیں کہ مناسب نہیں کہ کوئی بیٹھ کر لوگوں کی امامت کرائے اور امام احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ اور ایک گروہ اہل حدیث کا یہی مسلک ہے جو حدیث انس میں مذکور ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر ہی پڑھیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
راقم کہتا ہے کہ میں اس تفصیل کے لیے سخت حیران تھا۔ “ تحفۃ الاحوذی، نیل الاوطار، فتح الباری ” وغیرہ جملہ کتب سامنے تھیں مگر کسی سے تشفی نہ ہو رہی تھی کہ اچانک اللہ سے امر حق کے لیے دعا کرکے عون المعبود کو ہاتھ میں لیا اور کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا کہ پہلی ہی دفعہ فی الفور تفصیل بالا سامنے آگئی جسے یقیناً تائید غیبی کہنا ہی مناسب ہے۔ والحمد للہ علی ذلک۔ ( راز
باب : امام اس لیے مقرر کیا جاتا ہے کہ لوگ اس کی پیروی کریں
وصلى النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي توفي فيه بالناس وهو جالس. وقال ابن مسعود إذا رفع قبل الإمام يعود فيمكث بقدر ما رفع ثم يتبع الإمام. وقال الحسن فيمن يركع مع الإمام ركعتين ولا يقدر على السجود يسجد للركعة الآخرة سجدتين، ثم يقضي الركعة الأولى بسجودها. وفيمن نسي سجدة حتى قام يسجد.
اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں لوگوں کو بیٹھ کر نماز پڑھائی ( لوگ کھڑے ہوئے تھے ) اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ جب کوئی امام سے پہلے سر اٹھا لے ( رکوع میں سجدے میں ) تو پھر وہ رکوع یا سجدے میں چلا جائے اور اتنی دیر ٹھہرے جتنی دیر سر اٹھائے رہا تھا پھر امام کی پیروی کرے۔ اور امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ دو رکعات پڑھے لیکن سجدہ نہ کر سکے، تو وہ آخری رکعت کے لیے دو سجدے کرے۔ پھر پہلی رکعت سجدہ سمیت دہرائے اور جو شخص سجدہ کئے بغیر بھول کر کھڑا ہو گیا تو وہ سجدے میں چلا جائے۔
حدیث نمبر : 687
حدثنا أحمد بن يونس، قال حدثنا زائدة، عن موسى بن أبي عائشة، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال دخلت على عائشة فقلت ألا تحدثيني عن مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت بلى، ثقل النبي صلى الله عليه وسلم فقال " أصلى الناس". قلنا لا، هم ينتظرونك. قال " ضعوا لي ماء في المخضب". قالت ففعلنا فاغتسل فذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال صلى الله عليه وسلم " أصلى الناس". قلنا لا، هم ينتظرونك يا رسول الله. قال " ضعوا لي ماء في المخضب". قالت فقعد فاغتسل، ثم ذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال " أصلى الناس". قلنا لا، هم ينتظرونك يا رسول الله. فقال " ضعوا لي ماء في المخضب "، فقعد فاغتسل، ثم ذهب لينوء فأغمي عليه، ثم أفاق فقال " أصلى الناس". فقلنا لا، هم ينتظرونك يا رسول الله ـ والناس عكوف في المسجد ينتظرون النبي عليه السلام لصلاة العشاء الآخرة ـ فأرسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى أبي بكر بأن يصلي بالناس، فأتاه الرسول فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرك أن تصلي بالناس. فقال أبو بكر ـ وكان رجلا رقيقا ـ يا عمر صل بالناس. فقال له عمر أنت أحق بذلك. فصلى أبو بكر تلك الأيام، ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم وجد من نفسه خفة فخرج بين رجلين أحدهما العباس لصلاة الظهر، وأبو بكر يصلي بالناس، فلما رآه أبو بكر ذهب ليتأخر فأومأ إليه النبي صلى الله عليه وسلم بأن لا يتأخر. قال " أجلساني إلى جنبه". فأجلساه إلى جنب أبي بكر. قال فجعل أبو بكر يصلي وهو يأتم بصلاة النبي صلى الله عليه وسلم والناس بصلاة أبي بكر، والنبي صلى الله عليه وسلم قاعد. قال عبيد الله فدخلت على عبد الله بن عباس فقلت له ألا أعرض عليك ما حدثتني عائشة عن مرض النبي صلى الله عليه وسلم قال هات. فعرضت عليه حديثها، فما أنكر منه شيئا، غير أنه قال أسمت لك الرجل الذي كان مع العباس قلت لا. قال هو علي.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں زائدہ بن قدامہ نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے خبر دی، انہوں نے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انہوں نے کہا کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا، کاش! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی حالت آپ ہم سے بیان کرتیں، ( تو اچھا ہوتا ) انھوں نے فرمایا کہ ہاں ضرور سن لو۔ آپ کا مرض بڑھ گیا۔ تو آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ ہم نے عرض کی جی نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظام کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میرے لیے ایک لگن میں پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم نے پانی رکھ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر آپ اٹھنے لگے، لیکن آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو پھر آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی نہیں حضور! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے ( پھر ) فرمایا کہ لگن میں میرے لیے پانی رکھ دو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نے پھر پانی رکھ دیا اور آپ نے غسل فرمایا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی لیکن ( دوبارہ ) پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ جب ہوش ہوا تو آپ نے پھر یہی فرمایا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے۔ ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ آپ نے پھر فرمایا کہ لگن میں پانی لاؤ اور آپ نے بیٹھ کر غسل کیا۔ پھر اٹھنے کی کوشش کی، لیکن پھر آپ بے ہوش ہو گئے۔ پھر جب ہوش ہوا تو آپ نے پوچھا کہ کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہم نے عرض کی کہ نہیں یا رسول اللہ! وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ لوگ مسجد میں عشاء کی نماز کے لیے بیٹھے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آدمی بھیجا اور حکم فرمایا کہ وہ نماز پڑھا دیں۔ بھیجے ہوئے شخص نے آ کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نماز پڑھانے کے لیے حکم فرمایا ہے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے نرم دل انسان تھے۔ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ تم نماز پڑھاؤ، لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں۔ آخر ( بیماری ) کے دنوں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھاتے رہے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مزاج کچھ ہلکا معلوم ہوا تو دو مردوں کا سہارا لے کر جن میں ایک حضرت عباس رضی اللہ عنہ تھے ظہر کی نماز کے لیے گھر سے باہر تشریف لائے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے، جب انھوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنا چاہا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے انھیں روکا کہ پیچھے نہ ہٹو! پھر آپ نے ان دونوں مردوں سے فرمایا کہ مجھے ابوبکر کے بازو میں بٹھا دو۔ چنانچہ دونوں نے آپ کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بازو میں بٹھا دیا۔ راوی نے کہا کہ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر رہے تھے اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نماز کی پیروی کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے بیٹھے نماز پڑھ رہے تھے۔ عبید اللہ نے کہا کہ پھر میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں گیا اور ان سے عرض کی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے بارے میں جو حدیث بیان کی ہے کیا میں آپ کو سناؤں؟ انھوں نے فرمایا کہ ضرور سناؤ۔ میں نے یہ حدیث سنا دی۔ انھوں نے کسی بات کا انکار نہیں کیا۔ صرف اتنا کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان صاحب کا نام بھی تم کو بتا دیا جو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ میں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔
تشریح : امام شافعی رحمہ اللہ نے کہا کہ مرض موت میں آپ نے لوگوں کو یہی نماز پڑھائی وہ بھی بیٹھ کر بعض نے گمان کیا کہ یہ فجر کی نماز تھی، کیوں کہ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے وہیں سے قرات شرو ع کی جہاں تک ابوبکر پہنچے تھے مگر یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ ظہر میں بھی آیت کا سننا ممکن ہے۔ جیسے ایک حدیث میں ہے کہ آپ سری نماز میں بھی اس طرح سے قرات کرتے تھے کہ ایک آدھ آیت ہم کو سنا دیتے یعنی پڑھتے پڑھتے ایک آدھ آیت ذرا ہلکی آواز سے پڑھ دیتے کہ مقتدی اس کو سن لیتے۔ ( مولانا وحید الزماں مرحوم )
ترجمۃ الباب کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہذہ الترجمۃ قطعۃ من الحدیث الآتی فی الباب و المراد بہا ان الائتمام یقتضی متابعۃ الماموم لامامہ الخ ( فتح ) یعنی یہ باب حدیث ہی کا ایک ٹکڑا ہے جو آگے مذکور ہے۔ مرا دیہ ہے کہ اقتدا کرنے کا اقتضاءہی یہ ہے کہ مقتدی اپنے امام کی نماز میں پیروی کرے اس پر سبقت نہ کرے۔ مگر دلیل شرعی سے کچھ ثابت ہو تو وہ امر دیگر ہے۔ جیسا کہ یہاں مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔
حدیث نمبر : 688
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أم المؤمنين، أنها قالت صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيته وهو شاك، فصلى جالسا وصلى وراءه قوم قياما، فأشار إليهم أن اجلسوا، فلما انصرف قال " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ہشام بن عروہ سے بیان کیا۔ انہوں نے اپنے باپ عروہ سے انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں میرے ہی گھر میں نماز پڑھی۔ آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے۔ آپ نے ان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا ولک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔
تشریح : قسطلانی نے کہا کہ اس حدیث سے حضرت امام ابوحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے دلیل لی کہ امام فقط سمع اللہ لمن حمدہ کہے اور مقتدی ربنا لک الحمد یا ربنا و لک الحمد یا اللہم ربنا لک الحمد کہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے امام احمد بن حنبل کا یہ قول ہے کہ امام دونوں لفظ کہے اور اسی طرح مقتدی بھی دونوں لفظ کہے۔ ( مولانا وحید الزماں )
حدیث نمبر : 689
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ركب فرسا فصرع عنه، فجحش شقه الأيمن، فصلى صلاة من الصلوات وهو قاعد، فصلينا وراءه قعودا، فلما انصرف قال " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا صلى قائما فصلوا قياما، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده. فقولوا ربنا ولك الحمد. وإذا صلى قائما فصلوا قياما، وإذا صلى جالسا فصلوا جلوسا أجمعون". قال أبو عبد الله قال الحميدي قوله " إذا صلى جالسا فصلوا جلوسا". هو في مرضه القديم، ثم صلى بعد ذلك النبي صلى الله عليه وسلم جالسا والناس خلفه قياما، لم يأمرهم بالقعود، وإنما يؤخذ بالآخر فالآخر من فعل النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھوڑے پر سوار ہوئے تو آپ اس پر سے گر پڑے۔ اس سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آئے۔ تو آپ نے کوئی نماز پڑھی۔ جسے آپ بیٹھ کر پڑھ رہے تھے۔ اس لیے ہم نے بھی آپ کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔ جب آپ فارغ ہوئے تو فرمایا کہ امام اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ اس لیے جب وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر پڑھو اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو۔ جب وہ رکوع سے سر اٹھائے تو تم بھی اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا کہ حمیدی نے آپ کے اس قول “ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ ” کے متعلق کہا ہے کہ یہ ابتداء میں آپ کی پرانی بیماری کا واقعہ ہے۔ اس کے بعد آخری بیماری میں آپ نے خود بیٹھ کر نماز پڑھی تھی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر اقتدا کر رہے تھے۔ آپ نے اس وقت لوگوں کو بیٹھنے کی ہدایت نہیں فرمائی اور اصل یہ ہے کہ جو فعل آپ کا آخری ہو اس کو لینا چاہئے اور پھر جو اس سے آخری ہو۔
تشریح : صاحب عون المعبود رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: قال الخطابی قلت و فی اقامۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابابکر عن یمینہ و ہو مقام الماموم و فی تکبیرہ بالناس و تکبیر ابی بکر بتکبیرہ بیان واضح ان الامام فی ہذہ الصلوٰۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وقد صلی قاعداً و الناس من خلفہ قیام و ہی اخر صلوٰۃ صلاہا بالناس فدل علی ان حدیث انس و جابر منسوخ و یزید ما قلناہ وضوحا ما رواہ ابو معاویۃ عن الاعمش عن ابراہیم عن الاسود عن عائشۃ قالت لما ثقل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ذکر الحدیث قالت فجاءرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی بالناس جالسا و ابوبکر قائما یقتدی بہ و الناس یقتدون بابی بکر حدثونا بہ عن یحیی بن محمد بن یحیٰی قال نا مسدد قال نا ابومعاویۃ و القیاس یشہد لہذا القول لان الامام لا یسقط عن القوم شیئا من ارکان الصلٰوۃ مع القدرۃ علیہ الا تری انہ لا یحیل الرکوع و السجود الی الایماءو کذلک لایحیل القیام الی القعود و الی ہذا ذہب سفیان الثوری و صاحب الرای و الشافعی و ابوثور و قال مالک بن انس لا ینبغی لاحد ان یوم الناس قاعداً و ذہب احمد بن حنبل و اسحق بن راہویہ و نفر من اہل الحدیث الی خبر انس فان الامام اذا صلی قاعداً صلوٰا من خلفہ قعوداً و زرعم بعض اہل الحدیث ان الروایات اختلف فی ہذا فروی الاسود عن عائشۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان اماما و روی شقیق عنہا ان الامام کان ابوبکر فلم یجز ان یترک بہ حدیث انس و جابر ( عون المعبود، ج:1ص:234 )
یعنی امام خطابی نے کہا کہ حدیث مذکورہ میں جہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں جانب کھڑا ہونا ذکر ہے جو مقتدی کی جگہ ہے اور ان لوگوں کا تکبیر کہنا اور ابوبکر کی تکبیروں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تکبیر کے پیچھے ہونا اس میں واضح بیان موجود ہے کہ اس نماز میں امام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور آپ بیٹھ کر نماز پڑھ رہے تھے اور سارے صحابہ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھ رہے تھے اور یہ آخری نماز ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی۔ جو اس بات پر دلیل ہے کہ حضرت انس اور جابر کی احادیث جن میں امام بیٹھا ہو تو مقتدیوں کو بھی بیٹھنا لازم مذکور ہے۔ وہ منسوخ ہے اور ہم نے جو کہا ہے اس کی مزید وضاحت اس روایت سے ہوگئی ہے جسے ابومعاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے اسود سے انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ بیمار ہو گئے تو آپ تشریف لائے اور ابوبکر کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور آپ بیٹھ کر ہی لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے اور ابوبکر کھڑے ہو کر آپ کی اقتدا کر رہے تھے اور دیگر جملہ نمازی کھڑے ہو کر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتدا کر رہے تھے۔ اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے کہ امام ارکان صلوۃمیں سے مقتدیوں سے جب وہ ان پر قادر ہوں کسی رکن کو ساقط نہیں کرسکتا۔ نہ وہ رکوع سجود ہی کو محض اشاروں سے ادا کرسکتا ہے تو پھر قیام جو ایک رکن نماز ہے اسے قعود سے کیسے بدل سکتا ہے۔ امام سفیان ثوری اور اصحاب رائے اور امام شافعی اور ابوثور وغیرہ کا یہی مسلک ہے اور حضرت امام مالک بن انس کہتے ہیں کہ مناسب نہیں کہ کوئی بیٹھ کر لوگوں کی امامت کرائے اور امام احمد بن حنبل اور اسحق بن راہویہ اور ایک گروہ اہل حدیث کا یہی مسلک ہے جو حدیث انس میں مذکور ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھائے تو مقتدی بھی بیٹھ کر ہی پڑھیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔
راقم کہتا ہے کہ میں اس تفصیل کے لیے سخت حیران تھا۔ “ تحفۃ الاحوذی، نیل الاوطار، فتح الباری ” وغیرہ جملہ کتب سامنے تھیں مگر کسی سے تشفی نہ ہو رہی تھی کہ اچانک اللہ سے امر حق کے لیے دعا کرکے عون المعبود کو ہاتھ میں لیا اور کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا کہ پہلی ہی دفعہ فی الفور تفصیل بالا سامنے آگئی جسے یقیناً تائید غیبی کہنا ہی مناسب ہے۔ والحمد للہ علی ذلک۔ ( راز