• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے

حدیث نمبر : 71
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثنا ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، قال قال حميد بن عبد الرحمن سمعت معاوية، خطيبا يقول سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين، وإنما أنا قاسم والله يعطي، ولن تزال هذه الأمة قائمة على أمر الله لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، ان سے وہب نے یونس کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے کہا کہ میں نے معاویہ سے سنا۔ وہ خطبہ میں فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم ( قیامت ) آ جائے ( اور یہ عالم فنا ہو جائے )

تشریح : ناسمجھ لوگ جو مدعیان علم اور واعظ ومرشدبن جائیں نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملاخطرہ ایمان ان ہی کے حق میں کہا گیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : علم میں سمجھداری سے کام لینے کے بیان میں

حدیث نمبر : 72
حدثنا علي، حدثنا سفيان، قال قال لي ابن أبي نجيح عن مجاهد، قال صحبت ابن عمر إلى المدينة فلم أسمعه يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا حديثا واحدا، قال كنا عند النبي صلى الله عليه وسلم فأتي بجمار فقال ‏"‏ إن من الشجر شجرة مثلها كمثل المسلم‏"‏‏. ‏ فأردت أن أقول هي النخلة، فإذا أنا أصغر القوم فسكت، قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هي النخلة‏"‏‏. ‏
ہم سے علی ( بن مدینی ) نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے ابن ابی نجیح نے مجاہد کے واسطے سے نقل کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ مدینے تک رہا، میں نے ( اس ) ایک حدیث کے سوا ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اور حدیث نہیں سنی، وہ کہتے تھے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجور کا ایک گابھا لایا گیا۔ ( اسے دیکھ کر ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درختوں میں ایک درخت ایسا ہے اس کی مثال مسلمان کی طرح ہے۔ ( ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر ) میں نے ارادہ کیا کہ عرض کروں کہ وہ ( درخت ) کھجور کا ہے مگر چونکہ میں سب میں چھوٹا تھا اس لیے خاموش رہا۔ ( پھر ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا کہ وہ کھجور ہے۔

تشریح : اس حدیث کے آخر میں جو فرمایا، اس کا مطلب دوسری حدیث کی وضاحت کے مطابق یہ ہے کہ امت کس قدر بھی گمراہ ہوجائے مگر اس میں ایک جماعت حق پر قائم رہے گی، اس کی لوگ کتنی بھی مخالفت کریں مگر اس جماعت حقہ کو اس مخالفت کی کچھ پر وا نہ ہوگی، اس جماعت سے جماعت اہل حدیث مراد ہے۔ جس نے تقلید جامد سے ہٹ کر صرف کتاب وسنت کو اپنا مدار عمل قرار دیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : علم و حکمت میں رشک کرنے کے بیان میں
وقال عمر تفقهوا قبل أن تسودوا
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ سردار بننے سے پہلے سمجھ دار بنو ( یعنی دین کا علم حاصل کرو ) اور ابوعبداللہ ( حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہ نے بڑھاپے میں بھی دین سیکھا۔

حدیث نمبر : 73
حدثنا الحميدي، قال حدثنا سفيان، قال حدثني إسماعيل بن أبي خالد، على غير ما حدثناه الزهري، قال سمعت قيس بن أبي حازم، قال سمعت عبد الله بن مسعود، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته في الحق، ورجل آتاه الله الحكمة، فهو يقضي بها ويعلمها‏"‏‏. ‏
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے دوسرے لفظوں میں بیان کیا، ان لفظوں کے علاوہ جو زہری نے ہم سے بیان کئے، وہ کہتے ہیں میں نے قیس بن ابی حازم سے سنا، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت ( کی دولت ) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور ( لوگوں کو ) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو۔

تشریح : شارحین حدیث لکھتے ہیں : اعلم ان المراد بالحسد، ہہنا الغبطۃ فان الحسد مذموم قدبین الشرع باوضح بیان وقد یجی الحسد بمعنی الغبطۃ وان کان قلیلا۔ یعنی حدیث ( 73 ) میں حسد کے لفظ سے غبطہ یعنی رشک کرنا مراد ہے کیونکہ حسد بہرحال مذموم ہے۔ جس کی شرع نے کافی مذمت کی ہے۔ کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بہت سے نافہم لوگ حضرت امام بخاری سے حسدکرکے ان کی توہین وتخفیف کے درپے ہیں، ایسا حسد کرنا مومن کی شان نہیں۔ اللہم احفظنا آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : حضرت موسی علیہ السلام کے حضرت خضر علیہ السلام کے پاس دریا میں جانے کے ذکر میں

وقوله تعالى ‏{‏هل أتبعك على أن تعلمن مما علمت رشدا‏}‏
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ( جو حضرت موسیٰ کا قول ہے ) کیا میں تمہارے ساتھ چلوں اس شرط پر کہ تم مجھے ( اپنے علم سے کچھ ) سکھاؤ۔

حدیث نمبر : 74
حدثنا محمد بن غرير الزهري، قال حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثني أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، حدث أن عبيد الله بن عبد الله أخبره عن ابن عباس، أنه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى قال ابن عباس هو خضر‏.‏ فمر بهما أبى بن كعب، فدعاه ابن عباس فقال إني تماريت أنا وصاحبي، هذا في صاحب موسى الذي سأل موسى السبيل إلى لقيه، هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه قال نعم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل، جاءه رجل فقال هل تعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا‏.‏ فأوحى الله إلى موسى بلى، عبدنا خضر، فسأل موسى السبيل إليه، فجعل الله له الحوت آية، وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع، فإنك ستلقاه، وكان يتبع أثر الحوت في البحر، فقال لموسى فتاه أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت، وما أنسانيه إلا الشيطان أن أذكره‏.‏ قال ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا، فوجدا خضرا‏.‏ فكان من شأنهما الذي قص الله ـ عز وجل ـ في كتابه‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا، ان سے یعقوب بن ابراہیم نے، ان سے ان کے باپ ( ابراہیم ) نے، انھوں نے صالح سے سنا، انھوں نے ابن شہاب سے، وہ بیان کرتے ہیں کہ انھیں عبیداللہ بن عبداللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے خبر دی کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحثے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ خضر علیہ السلام تھے۔ پھر ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں بلایا اور کہا کہ میں اور میرے یہ رفیق موسیٰ علیہ السلام کے اس ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے انھوں نے ملاقات چاہی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں کچھ ذکر سنا ہے۔ انھوں نے کہا، ہاں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ ایک دن حضرت موسیٰ بنی اسرائیل کی ایک جماعت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے پوچھا کیا آپ جانتے ہیں کہ ( دنیا میں ) کوئی آپ سے بھی بڑھ کر عالم موجود ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے پاس وحی بھیجی کہ ہاں ہمارا بندہ خضر ہے ( جس کا علم تم سے زیادہ ہے ) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ سے دریافت کیا کہ خضر علیہ السلام سے ملنے کی کیا صورت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کو ان سے ملاقات کی علامت قرار دیا اور ان سے کہہ دیا کہ جب تم اس مچھلی کو گم کر دو تو ( واپس ) لوٹ جاؤ، تب خضر سے تمہاری ملاقات ہو گی۔ تب موسیٰ ( چلے اور ) دریا میں مچھلی کی علامت تلاش کرتے رہے۔ اس وقت ان کے ساتھی نے کہا جب ہم پتھر کے پاس تھے، کیا آپ نے دیکھا تھا، میں اس وقت مچھلی کا کہنا بھول گیا اور شیطان ہی نے مجھے اس کا ذکر بھلا دیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا، اسی مقام کی ہمیں تلاش تھی۔ تب وہ اپنے نشانات قدم پر ( پچھلے پاؤں ) باتیں کرتے ہوئے لوٹے ( وہاں ) انھوں نے خضر علیہ السلام کو پایا۔ پھر ان کا وہی قصہ ہے جو اللہ نے اپنی کتاب قرآن میں بیان کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ “اللہ اسے قرآن کا علم عطا فرمائیو! ”

حدیث نمبر : 75
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال ضمني رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال ‏"‏ اللهم علمه الكتاب‏"‏‏.
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے، ان سے خالد نے عکرمہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ انھوں نے فرمایا کہ ( ایک مرتبہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ( سینے سے ) لگا لیا اور دعا دیتے ہوئے فرمایا کہ “ اے اللہ اسے علم کتاب ( قرآن ) عطا فرمائیو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ بچے کا (حدیث) سننا کس عمر میں صحیح ہے؟

حدیث نمبر : 76
حدثنا إسماعيل بن أبي أويس، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن عبد الله بن عباس، قال أقبلت راكبا على حمار أتان، وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بمنى إلى غير جدار، فمررت بين يدى بعض الصف وأرسلت الأتان ترتع، فدخلت في الصف، فلم ينكر ذلك على‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، ان سے مالک نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ میں ( ایک مرتبہ ) گدھی پر سوار ہو کر چلا، اس زمانے میں، میں بلوغ کے قریب تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کے سامنے دیوار ( کی آڑ ) نہ تھی، تو میں بعض صفوں کے سامنے سے گزرا اور گدھی کو چھوڑ دیا۔ وہ چرنے لگی، جب کہ میں صف میں شامل ہو گیا ( مگر ) کسی نے مجھے اس بات پر ٹوکا نہیں۔

حدیث نمبر : 77

حدثني محمد بن يوسف، قال حدثنا أبو مسهر، قال حدثني محمد بن حرب، حدثني الزبيدي، عن الزهري، عن محمود بن الربيع، قال عقلت من النبي صلى الله عليه وسلم مجة مجها في وجهي وأنا ابن خمس سنين من دلو‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ابومسہر نے، ان سے محمد بن حرب نے، ان سے زبیدی نے زہری کے واسطے سے بیان کیا، وہ محمود بن الربیع سے نقل کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھے یاد ہے کہ ( ایک مرتبہ ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول سے منہ میں پانی لے کر میرے چہرے پر کلی فرمائی، اور میں اس وقت پانچ سال کا تھا۔

تشریح : بعض بچے ایسے بھی ذہین، ذکی، فہیم ہوتے ہیں کہ پانچ سال کی عمر ہی میں ان کا بلوغ قابل اعتماد ہو جاتا ہے۔ یہاں ایسا ہی بچہ مراد ہے اس سے ثابت ہواکہ لڑکا یا گدھا اگر نمازی کے آگے سے نکل جائے تونماز فاسد نہ ہوگی۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ دلیل لی ہے کہ لڑکے کی روایت صحیح ہے چونکہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت تک لڑکے ہی تھے۔ مگرآپ کی روایت کو مانا گیا ہے دوسری روایت میں محمود کا ذکر ہے جو بہت ہی کمسن تھے چونکہ ان کو یہ بات یادرہی توان کی روایت معتبر ٹھہری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلی شفقت اور برکت کے لیے ڈالی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : علم کی تلاش میں نکلنے کے بارے میں

ورحل جابر بن عبد الله مسيرة شهر إلى عبد الله بن أنيس في حديث واحد‏.‏
جابر بن عبداللہ کا ایک حدیث کی خاطر عبداللہ بن انیس کے پاس جانے کے لیے ایک ماہ کی مسافت طے کرنا۔

حدیث نمبر : 78
حدثنا أبو القاسم، خالد بن خلي قال حدثنا محمد بن حرب، قال قال الأوزاعي أخبرنا الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود، عن ابن عباس، أنه تمارى هو والحر بن قيس بن حصن الفزاري في صاحب موسى، فمر بهما أبى بن كعب، فدعاه ابن عباس فقال إني تماريت أنا وصاحبي هذا في صاحب موسى الذي سأل السبيل إلى لقيه، هل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه فقال أبى نعم، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يذكر شأنه يقول ‏"‏ بينما موسى في ملإ من بني إسرائيل، إذ جاءه رجل فقال أتعلم أحدا أعلم منك قال موسى لا‏.‏ فأوحى الله عز وجل إلى موسى بلى، عبدنا خضر، فسأل السبيل إلى لقيه، فجعل الله له الحوت آية، وقيل له إذا فقدت الحوت فارجع، فإنك ستلقاه، فكان موسى صلى الله عليه وسلم يتبع أثر الحوت في البحر‏.‏ فقال فتى موسى لموسى أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة فإني نسيت الحوت، وما أنسانيه إلا الشيطان أن أذكره‏.‏ قال موسى ذلك ما كنا نبغي‏.‏ فارتدا على آثارهما قصصا، فوجدا خضرا، فكان من شأنهما ما قص الله في كتابه‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالقاسم خالد بن خلی قاضی حمص نے بیان کیا، ان سے محمد بن حرب نے، اوزاعی کہتے ہیں کہ ہمیں زہری نے عبیداللہ ابن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود سے خبر دی، وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ اور حر بن قیس بن حصن فزاری حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں جھگڑے۔ ( اس دوران میں ) ان کے پاس سے ابی بن کعب گزرے، تو ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انھیں بلا لیا اور کہا کہ میں اور میرے ( یہ ) ساتھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی کے بارے میں بحث کر رہے ہیں جس سے ملنے کی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ( اللہ سے ) دعا کی تھی۔ کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ ان کا ذکر فرماتے ہوئے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : پڑھنے اور پڑھانے والے کی فضیلت کے بیان میں

حدیث نمبر : 79
حدثنا محمد بن العلاء، قال حدثنا حماد بن أسامة، عن بريد بن عبد الله، عن أبي بردة، عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ مثل ما بعثني الله به من الهدى والعلم كمثل الغيث الكثير أصاب أرضا، فكان منها نقية قبلت الماء، فأنبتت الكلأ والعشب الكثير، وكانت منها أجادب أمسكت الماء، فنفع الله بها الناس، فشربوا وسقوا وزرعوا، وأصابت منها طائفة أخرى، إنما هي قيعان لا تمسك ماء، ولا تنبت كلأ، فذلك مثل من فقه في دين الله ونفعه ما بعثني الله به، فعلم وعلم، ومثل من لم يرفع بذلك رأسا، ولم يقبل هدى الله الذي أرسلت به‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله قال إسحاق وكان منها طائفة قيلت الماء‏.‏ قاع يعلوه الماء، والصفصف المستوي من الأرض‏.‏
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، ان سے حماد بن اسامہ نے برید بن عبداللہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابی بردہ سے روایت کرتے ہیں، وہ حضرت ابوموسیٰ سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جس علم و ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اس کی مثال زبردست بارش کی سی ہے جو زمین پر ( خوب ) برسے۔ بعض زمین جو صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت بہت سبزہ اور گھاس اگاتی ہے اور بعض زمین جو سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے اس سے اللہ تعالیٰ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ وہ اس سے سیراب ہوتے ہیں اور سیراب کرتے ہیں۔ اور کچھ زمین کے بعض خطوں پر پانی پڑتا ہے جو بالکل چٹیل میدان ہوتے ہیں۔ نہ پانی روکتے ہیں اور نہ ہی سبزہ اگاتے ہیں۔ تو یہ اس شخص کی مثال ہے جو دین میں سمجھ پیدا کرے اور نفع دے، اس کو وہ چیز جس کے ساتھ میں مبعوث کیا گیا ہوں۔ اس نے علم دین سیکھا اور سکھایا اور اس شخص کی مثال جس نے سر نہیں اٹھایا ( یعنی توجہ نہیں کی ) اور جو ہدایت دے کر میں بھیجا گیا ہوں اسے قبول نہیں کیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن اسحاق نے ابواسامہ کی روایت سے “ قبلت الماء ” کا لفظ نقل کیا ہے۔ قاع اس خطہ زمین کو کہتے ہیں جس پر پانی چڑھ جائے ( مگر ٹھہرے نہیں ) اور صفصف اس زمین کو کہتے ہیں جو بالکل ہموار ہو۔

تشریح : حدیث ( 78 ) سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ حضرت موسیٰ نے علم حاصل کرنے کے لیے کتنا بڑا سفر کیا۔ جن لوگوں نے یہ حکایت نقل کی ہے کہ حضرت خضرعلیہ السلام نے فقہ حنفی سیکھی اور پھر قشیری کو سکھائی یہ سارا قصہ محض جھوٹ ہے۔ اسی طرح بعضوں کا یہ خیال کہ حضرت عیسیٰ یا امام مہدی حنفی مذہب کے مقلد ہوں گے محض بے اصل اور خلاف قیاس ہے۔ حضرت ملاعلی قاری نے اس کا خوب رد کیا ہے۔ حضرت امام مہدی خالص کتاب وسنت کے علم بردار پختہ اہل حدیث ہوں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : علم کے زوال اور جہل کی اشاعت کے بیان میں

وقال ربيعة لا ينبغي لأحد عنده شىء من العلم أن يضيع نفسه‏.‏
اور ربیعہ کا قول ہے کہ جس کے پاس کچھ علم ہو، اسے یہ جائز نہیں کہ ( دوسرے کام میں لگ کر علم چھوڑ دے اور ) اپنے آپ کو ضائع کر دے۔

حدیث نمبر : 80
حدثنا عمران بن ميسرة، قال حدثنا عبد الوارث، عن أبي التياح، عن أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن من أشراط الساعة أن يرفع العلم، ويثبت الجهل، ويشرب الخمر، ويظهر الزنا‏"‏‏. ‏
ہم سے عمران بن میسرہ نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے ابوالتیاح کے واسطے سے نقل کیا، وہ حضرت انس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ ( دینی ) علم اٹھ جائے گا اور جہل ہی جہل ظاہر ہو جائے گا۔ اور ( علانیہ ) شراب پی جائے گی اور زنا پھیل جائے گا۔

حدیث نمبر : 81
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن شعبة، عن قتادة، عن أنس، قال لأحدثنكم حديثا لا يحدثكم أحد بعدي سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ من أشراط الساعة أن يقل العلم، ويظهر الجهل، ويظهر الزنا، وتكثر النساء ويقل الرجال، حتى يكون لخمسين امرأة القيم الواحد‏"‏‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا ان سے یحییٰ نے شعبہ سے نقل کیا، وہ قتادہ سے اور قتادہ حضرت انس سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا کہ میں تم سے ایک ایسی حدیث بیان کرتا ہوں جو میرے بعد تم سے کوئی نہیں بیان کرے گا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ علامات قیامت میں سے یہ ہے کہ علم ( دین ) کم ہو جائے گا۔ جہل ظاہر ہو جائے گا۔ زنا بکثرت ہو گا۔ عورتیں بڑھ جائیں گی اور مرد کم ہو جائیں گے۔ حتیٰ کہ 50 عورتوں کا نگراں صرف ایک مرد رہ جائے گا۔

ان لڑائیوں کی طرف بھی اشارہ ہے جن میں مرد بکثرت تہتیغ ہوگئے اور عورتیں ہی عورتیں رہ گئیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : علم کی فضیلت کے بیان میں

حدیث نمبر : 82
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، عن حمزة بن عبد الله بن عمر، أن ابن عمر، قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ بينا أنا نائم أتيت بقدح لبن، فشربت حتى إني لأرى الري يخرج في أظفاري، ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب‏"‏‏. ‏ قالوا فما أولته يا رسول الله قال ‏"‏ العلم‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے لیث نے، ان سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطے سے نقل کیا، وہ حمزہ بن عبداللہ بن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا ( اسی حالت میں ) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے ( خوب اچھی طرح ) پی لیا۔ حتی کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا ( دودھ ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم۔
 
Top