• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کی نماز اور نوافل پڑھنے کے لیے ترغیب دلانا لیکن واجب نہ کرنا

وطرق النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة وعليا ـ عليهما السلام ـ ليلة للصلاة‏.‏
ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت فاطمہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے پاس رات کی نماز کے لیے جگانے آئے تھے

حدیث نمبر : 1126
حدثنا ابن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن هند بنت الحارث، عن أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم استيقظ ليلة فقال ‏"‏ سبحان الله ماذا أنزل الليلة من الفتنة، ماذا أنزل من الخزائن من يوقظ صواحب الحجرات، يا رب كاسية في الدنيا عارية في الآخرة‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ہند بن ت حارث نے اور انہیں ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات جاگے تو فرمایا سبحان اللہ! آج رات کیا کیا بلائیں اتری ہیں اور ساتھ ہی ( رحمت اور عنایت کے ) کیسے خزانے نازل ہوئے ہیں۔ ان حجرے والیوں ( ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن ) کو کوئی جگانے والا ہے افسوس! کہ دنیا میںبہت سی کپڑے پہننے والی عورتیں آخرت میں ننگی ہوں گی۔

حدیث نمبر : 1127
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني علي بن حسين، أن حسين بن علي، أخبره أن علي بن أبي طالب أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم طرقه وفاطمة بنت النبي ـ عليه السلام ـ ليلة فقال ‏"‏ ألا تصليان‏"‏‏. ‏ فقلت يا رسول الله، أنفسنا بيد الله، فإذا شاء أن يبعثنا بعثنا‏.‏ فانصرف حين قلنا ذلك ولم يرجع إلى شيئا‏.‏ ثم سمعته وهو مول يضرب فخذه وهو يقول ‏"‏وكان الإنسان أكثر شىء جدلا‏}‏‏"‏‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے حضرت زین العابدین علی بن حسین نے خبر دی، اور انہیں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات ان کے اور فاطمہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، آپ نے فر مایا کہ کیا تم لوگ ( تہجد کی ) نماز نہیں پڑھو گے؟ میں عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہماری روحیں خدا کے قبضہ میں ہیں، جب وہ چاہے گا ہمیں اٹھادے گا۔ ہماری اس عرض پر آپ واپس تشریف لے گئے۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن واپس جاتے ہوئے میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ران پر ہاتھ مار کر ( سورہ کہف کی یہ آیت پڑھ رہے تھے ) آدمی سب سے زیادہ جھگڑالو ہے ﴿ وکان الانسان اکثر شئی جدلا ﴾

تشریح : یعنی آپ نے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کو رات کی نماز کی طرف رغبت دلائی لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عذر سن کر آپ چپ ہو گئے۔ اگر نماز فرض ہوتی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عذر قابل قبول نہیں ہو سکتا تھا۔ البتہ جاتے ہوئے تاسف کا اظہار ضرور کر دیا۔

مولانا وحید الزماں لکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جواب فی الحقیقت درست تھا مگر اس کا استعمال اس موقع پر درست نہ تھا کیونکہ دنیادار کو تکلیف ہے اس میں نفس پر زور ڈال کر تمام اوامر الٰہی کو بجالانا چاہیے۔ تقدیر پر تکیہ کر لینا اور عبادت سے قاصر ہو کر بیٹھنا اورجب کوئی اچھی بات کا حکم کرے تو تقدیر پر حوالہ کرنا کج بحثی اور جھگڑاہے۔ تقدیر کا اعتقاد اس لیے نہیں ہے کہ آدمی اپاہج ہو کر بیٹھ رہے اور تدبیر سے غافل ہوجائے۔ بلکہ تقدیر کا مطلب یہ ہے کہ سب کچھ محنت اور مشقت اور اسباب حاصل کرنے میں کوشش کرے مگر یہ سمجھے رہے کہ ہوگا وہی جو اللہ نے قسمت میں لکھا ہے۔ چونکہ رات کا وقت تھا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ سے چھوٹے اور داماد تھے لہٰذا آپ نے اس موقع پر تطویل بحث اور سوال جواب کو نامناسب سمجھ کر جواب نہ دیا مگر آپ کو اس جواب سے افسوس ہوا۔

حدیث نمبر : 1128
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدع العمل وهو يحب أن يعمل به خشية أن يعمل به الناس فيفرض عليهم، وما سبح رسول الله صلى الله عليه وسلم سبحة الضحى قط، وإني لأسبحها‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے ا بن شہاب زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کام کو چھوڑ دیتے اور آپ کو اس کا کرنا پسند ہوتا۔ اس خیال سے ترک کردیتے کہ دوسرے صحابہ بھی اس پر ( آپ کو دیکھ کر ) عمل شروع کر دیں اور اس طرح وہ کام ان پر فرض ہوجائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی نماز کبھی نہیں پڑھی لیکن میں پڑھتی ہوں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو شاید وہ قصہ معلوم نہ ہوگا جس کو ام ہانی نے نقل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن چاشت کی نماز پڑھی۔ باب کا مطلب حدیث سے یوں نکلتا ہے کہ چاشت کی نفل نماز کا پڑھنا آپ کو پسند تھا۔ جب پسند ہوا تو گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ترغیب دلائی اور پھر اس کو واجب نہ کیا۔ کیونکہ آپ نے خود اس کو نہیں پڑھا۔ بعضوں نے کہا آپ نے کبھی چاشت کی نماز نہیں پڑھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ہمیشگی کے ساتھ کبھی نہیں پڑھی کیونکہ دوسری روایت سے آپ کا یہ نمازپڑھنا ثابت ہے۔

حدیث نمبر : 1129
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة أم المؤمنين ـ رضى الله عنها أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى ذات ليلة في المسجد فصلى بصلاته ناس، ثم صلى من القابلة فكثر الناس، ثم اجتمعوا من الليلة الثالثة أو الرابعة، فلم يخرج إليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما أصبح قال ‏"‏ قد رأيت الذي صنعتم ولم يمنعني من الخروج إليكم إلا أني خشيت أن تفرض عليكم ‏"‏، وذلك في رمضان‏.‏

ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے خبر دی، انہیں ا بن شہاب زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے، انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات مسجد میں نماز پڑھی۔ صحابہ نے بھی آپ کے ساتھ یہ نماز پڑھی۔ دوسری رات بھی آپ نے یہ نماز پڑھی تو نمازیوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تیسری یا چوتھی رات تو پورا اجتماع ہی ہوگیا تھا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس رات نماز پڑھانے تشریف نہیں لائے۔ صبح کے وقت آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جتنی بڑی تعداد میں جمع ہوگئے تھے۔ میں نے اسے دیکھا لیکن مجھے باہر آنے سے یہ خیال مانع رہا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہوجائے۔ یہ رمضان کا واقعہ تھا۔

تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چند راتوں میں رمضان کی نفل نماز صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو جماعت سے پڑھائی بعد میں اس خیال سے کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے آپ نے جماعت کا اہتمام ترک فرمادیا۔ اس سے رمضان شریف میں نماز تراویح با جماعت کی مشروعیت ثابت ہوئی۔ آپ نے یہ نفل نماز گیارہ رکعات پڑھائی تھی۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے۔

چنانچہ علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
واما العدد الثابت عنہ صلی اللہ علیہ وسلم فی صلوتہ فی رمضان فاخرج البخاری وغیرہ عن عائشۃ انھا قالت ماکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلیٰ بھم ثمان رکعات ثم اوتر۔ ( نیل الاوطار ) اور رمضان کی اس نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عدد صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں وہ یہ کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان اور غیر رمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعات سے زیادہ ادا نہیں فرمایا اور مسند ابن حبان میں بسند صحیح مزید وضاحت یہ موجود ہے کہ آپ نے آٹھ رکعتیں پڑھا ئیں پھر تین وتر پڑھائے۔

پس ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو رمضان میں تراویح باجماعت گیارہ رکعات پڑھائی تھیں اور تراویح وتہجد میں یہی عدد مسنون ہے، باقی تفصیلات اپنے مقام پر آئیں گی۔ ان شاءاللہ تعالی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد

باب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز میں اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ پاؤں سوج جاتے

وقالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ حتى تفطر قدماه
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ آپ کے پاؤں پھٹ جاتے تھے۔ فطور کے معنی عربی زبان میں پھٹنا اور قرآن شریف میں لفظ انفطرت اسی سے ہے یعنی جب آسمان پھٹ جائے۔

حدیث نمبر : 1130

حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا مسعر، عن زياد، قال سمعت المغيرة ـ رضى الله عنه ـ يقول إن كان النبي صلى الله عليه وسلم ليقوم ليصلي حتى ترم قدماه أو ساقاه، فيقال له فيقول ‏"‏ أفلا أكون عبدا شكورا‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے زیاد بن علاقہ نے، انہوں نے بیان کیاکہ میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر تک کھڑے ہو کر نماز پڑھتے رہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم یا ( یہ کہا کہ ) پنڈلیوں پر ورم آجاتا، جب آپ سے اس کے متعلق کچھ عرض کیا جاتا تو فرماتے “ کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ”

سورۃ مزمل کے شروع نزول کے زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمول تھا کہ رات کے اکثر حصوں میں آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : جو شخص سحر کے وقت سو گیا

حدیث نمبر : 1131
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا عمرو بن دينار، أن عمرو بن أوس، أخبره أن عبد الله بن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له ‏"‏ أحب الصلاة إلى الله صلاة داود ـ عليه السلام ـ وأحب الصيام إلى الله صيام داود، وكان ينام نصف الليل ويقوم ثلثه وينام سدسه، ويصوم يوما ويفطر يوما‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن دینار نے بیان کیاکہ عمرو بن اوس نے انہیں خبر دی اور انہیں عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ سب نمازوں میں اللہ تعالی کے نزدیک پسندیدہ نمازداؤد علیہ السلام کی نماز ہے اور روزوں میں بھی داؤد علیہ السلام ہی کا روزہ۔ آپ آدھی رات تک سوتے، اس کے بعد تہائی رات نماز پڑھنے میں گزارتے۔ پھر رات کے چھٹے حصے میں بھی سو جاتے۔ اسی طرح آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔

رات کے بارہ گھنٹے ہوتے ہیں تو پہلے چھ گھنٹے میں سو جاتے، پھر چا ر گھنٹے عبادت کرتے، پھر دو گھنٹے سورہتے۔ گویا سحر کے وقت سوتے ہوتے یہی ترجمہ باب ہے۔

حدیث نمبر : 1132
حدثني عبدان، قال أخبرني أبي، عن شعبة، عن أشعث، سمعت أبي قال، سمعت مسروقا، قال سألت عائشة ـ رضى الله عنها ـ أى العمل كان أحب إلى النبي صلى الله عليه وسلم قالت الدائم‏.‏ قلت متى كان يقوم قالت يقوم إذا سمع الصارخ‏.‏ حدثنا محمد بن سلام قال أخبرنا أبو الأحوص عن الأشعث قال إذا سمع الصارخ قام فصلى‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ عثمان بن جبلہ نے شعبہ سے خبر دی، انہیں اشعث نے۔ اشعث نے کہا کہ میں نے اپنے باپ ( سلیم بن اسود ) سے سنا اور میرے باپ نے مسروق سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کون سا عمل زیادہ پسندتھا؟ آپ نے جواب دیا کہ جس پر ہمیشگی کی جائے ( خواہ وہ کوئی بھی نیک کام ہو ) میں نے دریافت کیا کہ آپ ( رات میں نماز کے لیے ) کب کھڑے ہوتے تھے؟ آپ نے فرمایا کہ جب مرغ کی آواز سنتے۔ ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ابو الاحوص سلام بن سلیم نے خبر دی، ان سے اشعث نے بیان کیا کہ مرغ کی آواز سنتے ہی آپ کھڑے ہوجاتے اور نماز پڑھتے۔

تشریح : کہتے ہیں کہ پہلے پہل مرغ آدھی رات کے وقت بانگ دیتا ہے۔ احمد اور ابو داؤد میں ہے کہ مرغ کو برامت کہو وہ نماز کے لیے جگاتا ہے۔ مرغ کی عادت ہے کہ فجر طلوع ہوتے ہی اور سورج کے ڈھلنے پر بانگ دیا کرتا ہے۔ یہ خدا کی فطرت ہے پہلے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام کی شب بیداری کا حال بیان کیا۔ پھر ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی عمل اس کے مطابق ثابت کیا تو ان دونوں حدیثوں سے یہ نکلا کہ آپ اول شب میں آدھی رات تک سوتے رہتے پھر مرغ کی بانگ کے وقت یعنی آدھی رات پر اٹھتے۔ پھر آگے کی حدیث سے یہ ثابت کیا کہ سحر کو آپ سوتے ہوتے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور حضرت داؤد علیہ السلام کا عمل یکساں ہوگیا۔ عراقی نے اپنی کتاب سیرت میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک سفید مرغ تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔

حدیث نمبر : 1133
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، قال ذكر أبي عن أبي سلمة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت ما ألفاه السحر عندي إلا نائما‏.‏ تعني النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ میرے باپ سعد بن ابراہیم نے اپنے چچا ابو سلمہ سے بیان کیا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ انہوں نے اپنے یہاں سحر کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ لیٹے ہوئے پایا۔

عادت مبارکہ تھی کہ تہجد سے فارغ ہو کر آپ قبل فجر سحرکے وقت تھوڑی دیر آرام فرمایا کرتے تھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یہی بیان فرمارہی ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : اس بارے میں جو سحری کھانے کے بعد صبح کی نماز پڑھنے تک نہیں سویا

حدیث نمبر : 1134
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثنا روح، قال حدثنا سعيد، عن قتادة، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ أن نبي الله صلى الله عليه وسلم وزيد بن ثابت ـ رضى الله عنه ـ تسحرا، فلما فرغا من سحورهما قام نبي الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة فصلى‏.‏ قلنا لأنس كم كان بين فراغهما من سحورهما ودخولهما في الصلاة قال كقدر ما يقرأ الرجل خمسين آية‏.‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی عروبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ دونوں نے مل کر سحری کھائی، سحری سے فارغ ہو کر آپ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور دونوں نے نماز پڑھی۔ ہم نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ سحری سے فراغت اور نماز شروع کرنے کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہوگا؟ آپ نے جواب دیا کہ اتنی دیر میں ایک آدمی پچاس آیتیں پڑھ سکتا ہے۔

تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ یہا ں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے جو احادیث بیان ہوئی ہیں، ان سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ تہجد پڑھ کر لیٹ جاتے تھے اور پھر مؤذن صبح کی نماز کی اطلاع دینے آتا تھا لیکن یہ بھی آپ سے ثابت ہے کہ آپ اس وقت لیٹتے نہیں تھے بلکہ صبح کی نماز پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول رمضان کے مہینہ میں تھا کہ سحری کے بعد تھوڑا سا توقف فرماتے پھر فجر کی نماز اندھیرے میں ہی شروع کردیتے تھے ( تفہیم البخاری ) پس معلوم ہواکہ فجر کی نماز غلس میں پڑھنا سنت ہے جو لوگ اس سنت کا انکار کرتے اور فجر کی نماز ہمیشہ سورج نکلنے کے قریب پڑھتے ہیں وہ یقینا سنت کے خلاف کر تے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد

باب : رات کے قیام میں نماز کولمبا کرنا ( یعنی قرات بہت کرنا )

حدیث نمبر : 1135
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن الأعمش، عن أبي وائل، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم ليلة، فلم يزل قائما حتى هممت بأمر سوء‏.‏ قلنا وما هممت قال هممت أن أقعد وأذر النبي صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیا کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے اعمش سے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک مرتبہ رات میں نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا لمبا قیام کیا کہ میرے دل میں ایک غلط خیال پیدا ہوگیا۔ ہم نے پوچھا کہ وہ غلط خیال کیا تھا تو آپ نے بتایا کہ میں نے سوچا کہ بیٹھ جاؤں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑدوں۔

یہ ایک وسوسہ تھا جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے دل میں آیاتھا مگر وہ فوراً سنبھل کر اس وسوسہ سے باز آگئے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ رات کی نماز میں آپ بہت لمبی قرات کیا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 1136
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا خالد بن عبد الله، عن حصين، عن أبي وائل، عن حذيفة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا قام للتهجد من الليل يشوص فاه بالسواك‏.‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبد اللہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبد الرحمن نے ان سے ابو وائل نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو پہلے اپنا منہ مسواک سے خوب صاف کرتے۔

تہجد کے لیے مسواک کا خاص اہتمام اس لیے تھا کہ مسواک کر لینے سے نیند کا خمار بخوبی اتر جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نیند کا خمار اتار کر طول قیام کے لیے اپنے کو تیار فرماتے۔ یہاں اس حدیث اور باب میں یہی وجہ مطابقت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کی کیا کیفیت تھی؟ اور رات کی نماز کیوں کر پڑھنی چاہیے؟

حدیث نمبر : 1137
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سالم بن عبد الله، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال إن رجلا قال يا رسول الله، كيف صلاة الليل قال ‏"‏ مثنى مثنى، فإذا خفت الصبح فأوتر بواحدة‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے سالم بن عبد اللہ نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا ایک شخص نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! را ت کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو دو رکعت اور جب طلوع صبح ہونے کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر پڑھ کر اپنی ساری نماز کو طاق بن ا لے۔

تشریح : رات کی نماز کی کیفیت بتلائی کہ وہ دو دو رکعت پڑھی جائے۔ اس طرح آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ کر اسے طاق بنا لیا جائے۔ اسی بنا پر رات کی نماز کو جس کا نام غیر رمضان میں تہجد ہے اور رمضان میں تراویح، گیارہ رکعت پڑھنا مسنون ہے جس میں آٹھ رکعتیں دو دو رکعت کے سلام سے پڑھی جائیں گی پھرآخر میں تین رکعات وتر ہوں گے یا دس رکعات ادا کر کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ لیا جائے اور اگر فجر قریب ہو تو پھر جس قدر بھی رکعتیں پڑھی جا چکی ہیں ان پر اکتفاکرتے ہوئے ایک رکعت وتر پڑھ کر ان کو طاق بنا لیا جائے۔ اس حدیث سے صاف ایک رکعت وتر ثابت ہے۔ مگر حنفی حضرات ایک رکعت وتر کا انکار کرتے ہیں۔

اس حدیث کے ذیل علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: وھو حجۃ للشافعیۃ علی جواز الایتار برکعۃ واحدۃ قال النووی وھو مذھب الجمھور وقال ابو حنیفۃ لا یصح بواحدۃ ولا تکون الرکعۃ الواحدۃ صلوۃ قط والاحادیث الصحیحۃ ترد علیہ۔ یعنی اس حدیث سے ایک رکعت وتر کا صحیح ہونا ثابت ہو رہاہے اورجمہور کا یہی مذہب ہے۔ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کا انکار کرتے ہیں اور کہتے کہ ایک رکعت کوئی نماز نہیں ہی ہے حالانکہ احادیث صحیحہ ان کے اس خیال کی تردید کررہی ہیں۔

حدیث نمبر : 1138
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن شعبة، قال حدثني أبو جمرة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كان صلاة النبي صلى الله عليه وسلم ثلاث عشرة ركعة‏.‏ يعني بالليل‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے کہا کہ مجھ سے ابو حمزہ نے بیان کیا اور ان سے ا بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز تیرہ رکعت ہوتی تھی۔

حدیث نمبر : 1139
حدثنا إسحاق، قال حدثنا عبيد الله، قال أخبرنا إسرائيل، عن أبي حصين، عن يحيى بن وثاب، عن مسروق، قال سألت عائشة ـ رضى الله عنها ـ عن صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم بالليل‏.‏ فقالت سبع وتسع وإحدى عشرة سوى ركعتى الفجر‏.‏
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں اسرائیل نے خبر دی، انہیں ابو حصین بن عثمان بن عاصم نے، انہیں یحیٰ بن وثاب نے، انہیں مسروق بن اجدع نے، آپ نے کہا کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات نو اور گیارہ تک رکعتیں پڑھتے تھے۔ فجر کی سنت اس کے سو اہوتی۔

رات کی نماز سے مراد غیررمضان میں نماز تہجد اور رمضان میں تراویح ہے۔

حدیث نمبر : 1140
حدثنا عبيد الله بن موسى، قال أخبرنا حنظلة، عن القاسم بن محمد، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل ثلاث عشرة ركعة منها الوتر وركعتا الفجر‏.‏
ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں حنظلہ بن ابی سفیان نے خبر دی، انہیں قاسم بن محمدنے اور انہیں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ وتر اور فجر کی دو سنت رکعتیں اسی میں ہوتیں۔

تشریح : وتر سمیت یعنی دس رکعتیں تہجدکی دو دو کر کے پڑھتے۔ پھر ایک رکعت پڑھ کر سب کو طاق کر لیتے۔ یہ گیارہ تہجد اور وتر کی تھیں اور دو فجر کی سنتیں ملا کر تیرہ رکعتیں ہوئیں۔ کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیر رمضان میں کبھی گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ جن روایات میں آپ کا بیس رکعات تراویح پڑھنا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل احتجاج ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رات میں اور سوجانا اور رات کی نماز میں سے جو منسوخ ہوا ( اس کابیان )

وقوله تعالى ‏{‏يا أيها المزمل * قم الليل إلا قليلا * نصفه أو انقص منه قليلا * أو زد عليه ورتل القرآن ترتيلا * إنا سنلقي عليك قولا ثقيلا * إن ناشئة الليل هي أشد وطاء وأقوم قيلا * إن لك في النهار سبحا طويلا‏}‏ وقوله ‏{‏علم أن لن تحصوه فتاب عليكم فاقرءوا ما تيسر من القرآن علم أن سيكون منكم مرضى وآخرون يضربون في الأرض يبتغون من فضل الله وآخرون يقاتلون في سبيل الله فاقرءوا ما تيسر منه وأقيموا الصلاة وآتوا الزكاة وأقرضوا الله قرضا حسنا وما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله هو خيرا وأعظم أجرا‏}‏‏.‏ قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ نشأ قام بالحبشية، وطاء قال مواطأة القرآن أشد موافقة لسمعه وبصره وقلبه ‏{‏ليواطئوا‏}‏ ليوافقوا‏.‏
اور اللہ تعالی نے اسی باب میں ( سورہ مزمل میں ) فرمایا اے کپڑا لپیٹنے والے! رات کو ( نماز میں ) کھڑا رہ آدھی رات یا اس سے کچھ کم سبحا طویلا تک۔ اور فرمایا کہ اللہ پاک جانتا ہے کہ تم رات کی اتنی عبادت کو نباہ نہ سکو گے تو تم کو معاف کردیا۔ واستغفروا اللہ ان اللہ غفوررحیم تک۔ اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا قرآن میں جو لفظ ناشئة اللیل ہے تو نشا کے معنی حبشی زبان میں کھڑا ہوا اور وطا کے معنی موافق ہونا یعنی رات کا قرآن کان اور آنکھ اور دل کو ملا کر پڑھا جاتا ہے۔

اس کو بھی عبد بن حمید نے وصل کیا یعنی رات کو بوجہ سکوت اور خاموشی کے قرآن پڑھنے میں دل اور زبان اور کان اور آنکھ سب اسی کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ ورنہ دن کو آنکھ کسی طرف پڑتی ہے، کان کہیں لگتا ہے، دل کہیں ہوتا ہے۔

حدیث نمبر : 1141
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني محمد بن جعفر، عن حميد، أنه سمع أنسا ـ رضى الله عنه ـ يقول كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفطر من الشهر حتى نظن أن لا يصوم منه، ويصوم حتى نظن أن لا يفطر منه شيئا، وكان لا تشاء أن تراه من الليل مصليا إلا رأيته ولا نائما إلا رأيته‏.‏ تابعه سليمان وأبو خالد الأحمر عن حميد‏.‏
ہم سے عبد العزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینہ میں روزہ نہ رکھتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ اب آپ اس مہینہ میں روزہ ہی نہیں رکھیں گے اور اگرکسی مہینہ میں روزہ رکھنا شروع کرتے تو خیال ہوتا کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کااس مہینہ کا ایک دن بھی بغیر روزہ کے نہیں رہ جائے گا اور رات کو نمازتو ایسی پڑھتے تھے کہ تم جب چاہتے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیتے اور جب چاہتے سوتا دیکھ لیتے۔ محمد بن جعفر کے ساتھ اس حدیث کو سلیمان اور ابو خالد نے بھی حمید سے روایت کیا ہے۔

تشریح : اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات سوتے بھی نہیں تھے اور ساری رات جاگتے اور عبادت بھی نہیں کرتے تھے۔ ہر رات میں سوتے اور عبادت بھی کرتے تو جو شخص آپ کو جس حال میں دیکھنا چاہتا دیکھ لیتا۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ساری رات جاگنا اور عبادت کرنا یا ہمیشہ روزہ رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔ ان کو اتنا شعور نہیں کہ ساری رات جاگتے رہنے سے یا ہمیشہ روزہ رکھنے سے نفس کو عادت ہو جاتی ہے پھر اس کو عبادت میں کوئی تکلیف نہیں رہتی۔ مشکل یہی ہے کہ رات کو سونے کی عادت بھی رہے اسی طرح دن میں کھانے پینے کی اورپھر نفس پر زور ڈال کر جب ہی چاہے اس کی عادت توڑے۔ میٹھی نیند سے منہ موڑے۔ پس جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہی افضل اور وہی اعلیٰ اور وہی مشکل ہے۔ آپ کی نوبیویاں تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا حق بھی ادا فرماتے، اپنے نفس کا بھی حق ادا کرتے۔ اپنے عزیز واقارب اور عام مسلمانوں کے بھی حقوق ادا فرماتے۔ اس کے ساتھ خدا کی بھی عبادت کرتے، کہیے اس کے لیے کتنا بڑا دل اور جگر چاہیے۔ ایک سونٹا لے کر لنگوٹ باندھ کر اکیلے دم بیٹھ رہنا اور بے فکری سے ایک طرف کے ہوجانا یہ نفس پر بہت سہل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : جب آدمی رات کو نماز نہ پڑھے تو شیطان کا گدی پر گرہ لگانا

حدیث نمبر : 1142
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يعقد الشيطان على قافية رأس أحدكم إذا هو نام ثلاث عقد، يضرب كل عقدة عليك ليل طويل فارقد، فإن استيقظ فذكر الله انحلت عقدة، فإن توضأ انحلت عقدة، فإن صلى انحلت عقدة فأصبح نشيطا طيب النفس، وإلا أصبح خبيث النفس كسلان‏"‏‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالکؒ نے خبر دی، انہیں ابو الزناد نے، انہیں اعرج نے اور انہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شیطان آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگادیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوںپھونک دیتا ہے کہ سوجا ابھی رات بہت باقی ہے پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کی یاد کرنے لگا تو ایک گرہ کھُل جاتی ہے پھر جب وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز ( فرض یا نفل ) پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق وچو بن د خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ ست اور بدباطن رہتا ہے۔

حدیث میں جو آیا ہے وہ بالکل ٹھیک ہے۔ حقیقت میں شیطان گرہیں لگاتا ہے اور یہ گرہیں ایک شیطانی دھاگے میں ہوتی ہیں وہ دھاگہ گدی پر رہتا ہے۔ امام احمد کی روایت میں صاف یہ ہے کہ ایک رسی سے گرہ لگاتا ہے بعضوں نے کہا گرہ لگانے سے یہ مقصود ہے کہ شیطان جادو گر کی طرح اس پر اپنا افسوں چلاتا ہے اور اسے نماز سے غافل کرنے کے لیے تھپک تھپک کر سلادیتا ہے۔

حدیث نمبر : 1143
حدثنا مؤمل بن هشام، قال حدثنا إسماعيل، قال حدثنا عوف، قال حدثنا أبو رجاء، قال حدثنا سمرة بن جندب ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم في الرؤيا قال ‏"‏ أما الذي يثلغ رأسه بالحجر فإنه يأخذ القرآن فيرفضه وينام عن الصلاة المكتوبة‏"‏‏. ‏
ہم سے مؤمل بن ہشام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عوف اعرابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو رجاءنے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ قرآن کا حافظ تھا مگر وہ قرآن سے غافل ہو گیا اور فرض نماز پڑھے بغیر سو جایا کرتا تھا۔

یعنی عشاءکی نماز نہ پڑھتا نہ فجر کے لیے اٹھتا حالانکہ اس نے قرآن پڑھا تھا مگر اس پر عمل نہیں کیا بلکہ اس کو بھلا بیٹھا۔ آج دوزخ میں اس کو یہ سزا مل رہی ہے۔ یہ حدیث تفصیل کے ساتھ آگے آئے گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : جو شخص سوتا رہے اور ( صبح کی ) نماز نہ پڑھے، معلوم ہوا کہ شیطان نے اس کے کانوں میں پیشاب کر دیا ہے

حدیث نمبر : 1144
حدثنا مسدد، قال حدثنا أبو الأحوص، قال حدثنا منصور، عن أبي وائل، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال ذكر عند النبي صلى الله عليه وسلم رجل فقيل ما زال نائما حتى أصبح ما قام إلى الصلاة‏.‏ فقال ‏"‏ بال الشيطان في أذنه‏"‏‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو الاحوص سلام بن سلیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے منصور بن معتمر نے ابو وائل سے بیان کیا اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک شخص کا ذکر آیا کہ وہ صبح تک پڑا سوتا رہا اور فرض نماز کے لیے بھی نہیں اٹھا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ شیطان نے اس کے کان میں پیشاب کر دیا ہے۔

جب شیطان کھاتاپیتاہے تو پیشاب بھی کرتا ہوگا۔ اس میں کوئی امر قیاس کے خلاف نہیں ہے۔ بعضوں نے کہا پیشاب کرنے سے یہ مطلب ہے کہ شیطان نے اس کو اپنا محکوم بنا لیا اور کان کی تخصیص اس وجہ سے کی ہے کہ آدمی کان ہی سے آواز سن کر بیدارہوتا ہے۔ شیطان نے اس میں پیشاب کر کے اس کے کان بھر دیئے۔ قال القرطبی وغیرہ لا مانع من ذلک اذلا احالۃ فیہ لانہ ثبت ان الشیطان یاکل ویشرب وینکح فلا مانع من ان یبول۔ ( فتح الباری ) یعنی قرطبی وغیرہ نے کہا کہ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ جب یہ ثابت ہے کہ شیطان کھاتا اور پیتااور شادی بھی کرتا ہے تو اس کا ایسے غافل بے نمازی آدمی کے کان میں پیشاب کردینا کیا بعید ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : آخر رات میں دعا اور نماز کا بیان

وقال ‏{‏كانوا قليلا من الليل ما يهجعون‏}‏ أى ما ينامون ‏{‏وبالأسحار هم يستغفرون‏}‏
اور اللہ تعالی نے ( سورہ والذاریات میں ) فرمایا کہ رات میں وہ بہت کم سوتے اور سحر کے وقت استغفار کرتے تھے۔ ہجوع کے معنی سونا۔

حدیث نمبر : 1145
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة، وأبي عبد الله الأغر، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ينزل ربنا تبارك وتعالى كل ليلة إلى السماء الدنيا حين يبقى ثلث الليل الآخر يقول من يدعوني فأستجيب له من يسألني فأعطيه من يستغفرني فأغفر له‏"‏‏. ‏
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالکؒ نے، ان نے ا بن شہاب نے، ان سے ابو سلمہ عبد الرحمن اور ابو عبد اللہ اغر نے اور ان دونوں حضرات سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا پروردگار بلند برکت ہے ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کوئی مجھ سے دعا کرنے والا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کوئی مجھ سے مانگنے والا ہے کہ میں اسے دوں کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والاہے کہ میں اس کو بخش دوں۔

تشریح : بلاتاویل وبلا تکییف اللہ پاک رب العالمین کا عرش معلی سے آسمان دنیا پر اترنا برحق ہے۔ جس طرح اس کا عرش عظیم پر مستوی ہونا برحق ہے۔ اہل الحدیث کا ازاول تا آخر یہی عقیدہ ہے۔ قرآن مجید کی سات آیات میں اللہ کا عرش پر مستوی ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چونکہ آسمان بھی سات ہی ہیں لہذا ان ساتوں کے اوپر عرش عظیم اور اس پر اللہ کا استواءاسی لیے سات آیات میں مذکور ہوا۔پہلی آیت سورۃ اعراف میں ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمَوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الاعراف: 54 ) تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ ایام میں آسمان اور زمین کو پیدا کیا، پھر وہ عرش پر مستوی ہوا۔ دوسری آیت سورۃ یونس کی ہے اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سَتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یُدَ بِّرُالاَمرَ ( یونس:3 ) بے شک تمہارا رب وہ ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمان کو بنایا اور پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔ تیسری آیت سورۃ رعد میں ہے اَللّٰہُ الَّذِی رَفَعَ السَّمٰوٰت بِغَیرِ عَمَدٍ تَرَونَھَاثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الرعد: 2 ) اللہ وہ ہے جس نے بغیر ستونوں کے اونچے آسمان بنائے جن کو تم دیکھ رہے ہو پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔ چوتھی آیت سورۃ طہ میں ہے تَنزِیلاً مِّمَّن خَلَقَ الاَرضَ وَالسَّمٰوٰتِ العُلٰی اَلرَّحمٰنُ عَلَی العَرشِ استَوٰی ( طہ:19,20 ) یعنی اس قرآن کا نازل کرنا اس کا کام ہے جس نے زمین آسمان کو پیدا کیا پھر وہ رحمن عرش کے اوپر مستوی ہوا۔ پانچویں آیت سورہ فرقان میں ہے اَلَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( الفرقان: 59 ) وہ اللہ جس نے زمین آسمان اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے سب کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر قائم ہوا۔چھٹی آیت سورۃ سجدہ میں ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ وَمَا بَینَھُمَا فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ ( السجدہ:4 ) اللہ وہ ہے جس نے زمین آسمان کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے چھ دنوں میں بنایا وہ پھر عرش پر قائم ہوا۔ساتویں آیت سورہ حدید میں ہے۔ ھُوَالَّذِی خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرضَ فِی سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ استَوٰی عَلَی العَرشِ یَعلَمُ مَا یَلِجُ فِی الاَرضِ وَمَا یَخرُجُ مِنھَا وَمَا یَنزِلُ مِنَ السَّمَائِ وَمَا یَعرُجُ فِیھَا وَھُوَ مَعَکُم اَینَ مَا کُنتُم وَاللّٰہُ بِمَا تَعمَلُونَ بَصِیر ( الحدید:4 ) یعنی اللہ وہ ذات پاک ہے جس نے چھ دنوں میں زمین آسمانوں کو بنا یا وہ پھر عرش پر قائم ہوا ان سب چیزوں کو جانتاہے جو زمین میں داخل ہوتی ہیں اور جو کچھ اس سے باہر نکلتی ہیں اور جو چیزیں آسمان سے اترتی ہیں اور جو کچھ آسمان کی طرف چڑھتی ہیں وہ سب سے واقف ہے اور وہ تمہارے ساتھ ہے تم جہاں بھی ہو اور اللہ پاک تمہارے سارے کاموں کو دیکھنے والا ہے۔

ان سات آیتوں میں صراحت کے ساتھ اللہ پاک کا عرش عظیم پر مستوی ہونا مذکور ہے۔ آیات قرآنی کے علاوہ پندرہ احادیث نبوی ایسی ہیں جن میں اللہ پاک کاآسمانوں کے اوپر عرش اعظم پر ہونا مذکور ہے اور جن سے اس کے لیے جہت فوق ثابت ہے۔ اس حقیقت کے بعد اس باری تعالی وتقدس کا عرش عظیم سے آسمان دنیا پر نزول فرمانا یہ بھی برحق ہے۔
حضرت علامہ ابن تیمہ رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک مستقل کتاب بنام نزول الرب الی السماءالدنیا تحریر فرمائی ہے جس میں بدلائل واضحہ اس کا آسمان دنیا پر نازل ہونا ثابت فرمایا ہے۔
حضرت علامہ وحید الزماں صاحب کے لفظوں میں خلاصہ یہ ہے یعنی وہ خود اپنی ذات سے اترتا ہے جیسے دوسری روایت میں ہے۔نزل بذاتہ اب یہ تاویل کرنا اس کی رحمت اترتی ہے، محض فاسد ہے۔ علاوہ اس کے اس کی رحمت اتر کر آسمان تک رہ جانے سے ہم کو فائدہ ہی کیا ہے، اس طرح یہ تاویل کہ ایک فرشتہ اس کا اترتا ہے یہ بھی فاسد ہے کیونکہ فرشتہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے جو کوئی مجھ سے دعا کرے میں قبول کروں گا، گناہ بخش دوں گا۔ دعا قبول کرنا یا گناہوں کا بخش دینا خاص پروردگار کا کام ہے۔اہل حدیث نے اس قسم کی حدیثوں کو جن میں صفات الہی کا بیان ہے، بہ دل وجان قبول کیا ہے اور ان کے اپنے ظاہری معنی پر محمول رکھا ہے، مگر یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اس کی صفات مخلوق کی صفات کے مشابہ نہیں ہیں اور ہمارے اصحاب میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس حدیث کی شرح میں ایک کتاب لکھی ہے جو دیکھنے کے قابل ہے اور مخالفوں کے تمام اعتراضوں اور شبہوں کا جواب دیا ہے۔
اس حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے المحدث الکبیر حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مبارکپوری فرماتے ہیں: ومنھم من اجراہ علی ما ورد مومنا بہ علی طریق الاجمال منزھا اللہ تعالی من الکیفیۃ والتشبیہ وھم جمھور السلف ونقلہ البیھقی وغیرہ عن الائمۃ الاربعۃ السفیانین والحمادین والاوزاعی واللیث وغیرھم وھذا القول ھو الحق فعلیک اتباع جمھور السلف وایاک ان تکون من اصحاب التاویل واللہ تعالی اعلم۔ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی سلف صالحین وائمہ اربعہ اور بیشتر علمائے دین اسلاف کرام کا یہی عقیدہ ہے کہ وہ بغیر تاویل اور کیفیت اورتشبیہ کے کہ اللہ اس سے پاک ہے جس طرح سے یہ صفات باری تعالی وارد ہوئی ہیں۔ ان پر ایمان رکھتے ہیں اور یہی حق اور صواب ہے۔ پس سلف کی اتباع لازم پکڑلے اور تاویل والوں میں سے مت ہو کہ یہی حق ہے۔ واللہ اعلم
 
Top