صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت
حدیث نمبر : 1154
حدثنا صدقة بن الفضل، أخبرنا الوليد، عن الأوزاعي، قال حدثني عمير بن هانئ، قال حدثني جنادة بن أبي أمية، حدثني عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " من تعار من الليل فقال لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شىء قدير. الحمد لله، وسبحان الله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله. ثم قال اللهم اغفر لي. أو دعا استجيب، فإن توضأ وصلى قبلت صلاته".
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ولید بن مسلم نے امام اوزاعی سے خبر دی، کہا کہ مجھ کو عمیر بن ہانی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جنادہ بن ابی امیہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبادہ بن صامت نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو کر یہ دعا پڑھے ( ترجمہ ) “ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ملک اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کی ذات پاک ہے، اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی کو گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کر نے کی ہمت ” پھر یہ پڑھے ( ترجمہ ) اے اللہ! میری مغفرت فرما ”۔ یا ( یہ کہا کہ ) کوئی دعا کرے تواس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر اگر اس نے وضو کیا ( اور نماز پڑھی ) تو نماز بھی مقبول ہوتی ہے۔
تشریح : ابن بطال رحمہ اللہ نے اس حدیث پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہ وعدہ فرماتا ہے کہ جو مسلمان بھی رات میں اس طرح بیدار ہو کہ اس کی زبا ن پر اللہ تعالی کی توحید، اس پر ایمان ویقین، اس کی کبریائی اور سلطنت کے سامنے تسلیم اور بندگی، اس کی نعمتوں کا اعتراف اور اس پر اس کا شکر وحمد اور اس کی ذات پاک کی تنزیہ وتقدیس سے بھرپور کلمات زبان پر جاری ہوجائیں توا للہ تعالی اس کی دعا کو بھی قبول کرتا ہے اور اس کی نماز بھی بارگاہ رب العزت میں مقبول ہوتی ہے۔ اس لیے جس شخص تک بھی یہ حدیث پہنچے، اسے اس پر عمل کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اپنے رب کے لیے تمام اعمال میں نیت خالص پیدا کرنی چاہیے کہ سب سے پہلی شرط قبولیت یہی خلوص ہے۔ ( تفہیم البخاری )
حدیث نمبر : 1155
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، أخبرني الهيثم بن أبي سنان، أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ وهو يقصص في قصصه وهو يذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أخا لكم لا يقول الرفث. يعني بذلك عبد الله بن رواحة وفينا رسول الله يتلو كتابه إذا انشق معروف من الفجر ساطع أرانا الهدى بعد العمى فقلوبنا به موقنات أن ما قال واقع يبيت يجافي جنبه عن فراشه إذا استثقلت بالمشركين المضاجع تابعه عقيل. وقال الزبيدي أخبرني الزهري عن سعيد والأعرج عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه.
ہم سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہیثم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ اپنے وعظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کررہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بھائی نے ( اپنے نعتیہ اشعار میں ) یہ کوئی غلط بات نہیں کہی۔ آپ کی مراد عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اشعار سے تھی جن کا ترجمہ یہ ہے : “ ہم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، جو اس کی کتاب اس وقت ہمیں سناتے ہیں جب فجر طلوع ہوتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گمراہی سے نکال کر صحیح راستہ دکھایا۔ ان کی باتیں اسی قدر یقینی ہیں جو ہمارے دلوں کے اندر جاکر بیٹھ جاتی ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ضرور واقع ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بستر سے اپنے کوالگ کر کے گزارتے ہیں جبکہ مشرکوں سے ان کے بستر بوجھل ہو رہے ہوتے ہیں ”۔ یونس کی طرح اس حدیث کو عقیل نے بھی زہری سے روایت کیا اور زبیدی نے یوں کہا سعید بن مسیب اور اعرج سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔
تشریح : زبیدی کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں نکالا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض اس بیان سے یہ ہے کہ زہری کے شیخ میں راویوں کا اختلاف ہے۔ یونس اور عقیل نے ہیثم بن ابی سنان کہا ہے اور زبیدی نے سعید بن مسیب اور اعرج اور ممکن ہے کہ زہری نے ان تینوں سے اس حدیث کو سنا ہو، حافظ نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک پہلا طریق راجح ہے کیونکہ یونس اور عقیل دونوں نے بالاتفاق زہری کا شیخ ہیثم کو قرار دیا ہے ( وحیدی )
اس حدیث سے ثابت ہو اکہ مجالس وعظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا نظم ونثر میں ذکر کرنا درست اور جائز ہے۔ سیرت کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اور حیات طیبہ کے واقعات کا ذکر کرنا باعث ازدیاد ایمان ہے لیکن محافل میلاد مروجہ کا انعقاد کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں۔ عہد صحابہ وتابعین وتبع تابعین وائمہ مجتہدین وجملہ محدثین کرام میں ایسی محافل کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔ پورے چھ سو سال گرز گئے دنیائے اسلام محفل میلاد کے نام سے بھی آشنا نہ تھی۔ تاریخ ابن خلکان میں ہے کہ اس محفل کا موجد اول ایک بادشاہ ابو سعید مظفرالدین نامی تھا، جو نزد موصل اربل نامی شہر کا حاکم تھا۔ علمائے راسخین نے اسی وقت سے اس نوایجاد محفل کی مخالفت فرمائی۔ مگر صد افسوس کہ نام نہاد فدائیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی بڑے طنطنہ سے ایسی محافل کرتے ہیں جن میں نہایت غلط سلط روایات بیان کی جاتی ہیں، چراغاں اور شیرنی کا اہتمام خاص ہوتا ہے اور اس عقیدہ سے قیام کر کے سلام پڑھا جاتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک خود اس محفل میں تشریف لائی ہے۔ یہ جملہ امور غلط بے ثبوت ہیں جن کے کرنے سے بدعت کا ارتکاب لازم آتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد جو ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرے جس کا ثبوت ادلہ شرعیہ سے نہ ہو وہ مردود ہے۔
حدیث نمبر : 1156
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر، رضى الله عنهما قال رأيت على عهد النبي صلى الله عليه وسلم كأن بيدي قطعة إستبرق، فكأني لا أريد مكانا من الجنة إلا طارت إليه، ورأيت كأن اثنين أتياني أرادا أن يذهبا بي إلى النار فتلقاهما ملك فقال لم ترع خليا عنه.
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ خواب دیکھا کہ گویا ایک گاڑھے ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ ہے۔ جیسے میں جنت میں جس جگہ کا بھی ارادہ کرتا ہوں تو یہ ادھر اڑا کے مجھ کو لے جاتا ہے اور میں نے دیکھا کہ جیسے دو فرشتے میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے دوزخ کی طرف لے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک فرشتہ ان سے آکر ملا اور ( مجھ سے ) کہا کہ ڈرو نہیں ( اور ان سے کہا کہ ) اسے چھوڑدو۔
حدیث نمبر : 1157
فقصت حفصة على النبي صلى الله عليه وسلم إحدى رؤياى فقال النبي صلى الله عليه وسلم " نعم الرجل عبد الله لو كان يصلي من الليل". فكان عبد الله ـ رضى الله عنه ـ يصلي من الليل.
میری بہن ( ام المؤمنین ) حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا ایک خواب بیان کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بڑا ہی اچھا آدمی ہے کاش رات میں بھی نماز پڑھا کرتا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد ہمیشہ رات میں نماز پڑھا کرتے تھے۔
حدیث نمبر : 1158
وكانوا لا يزالون يقصون على النبي صلى الله عليه وسلم الرؤيا أنها في الليلة السابعة من العشر الأواخر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم " أرى رؤياكم قد تواطت في العشر الأواخر، فمن كان متحريها فليتحرها من العشر الأواخر".
بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خواب بیان کئے کہ شب قدر ( رمضان کی ) ستائیسویں رات ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب رمضان کے آخری عشرے میں ( شب قدر کے ہونے پر ) متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے شب قدر کی تلاش ہو وہ رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈے۔
تشریح : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الصیام میں باب تحری لیلۃ القدر کے تحت میں فرماتے ہیں فی ھذہ الترجمۃ اشارۃ الی رجحان کون لیلۃ القدر منحصرۃ فی رمضان ثم فی العشر الاخیر منہ ثم فی اوتارہ لا فی لیلۃ منھا بعینھا وھذا ھو الذی یدل علیہ مجموع الاخبار الواردۃ فیھا۔ ( فتح ) یعنی لیلۃ القدر رمضان میں منحصر ہے اور وہ آخری عشرہ کی کسی ایک طاق رات میں ہوتی ہے جملہ احادیث جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ باقی تفصیل کتاب الصیام میں آئےگی۔ طاق راتوں سے 21, 23, 25, 27, 29 کی راتیں مراد ہیں۔ ان میں سے وہ کسی رات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ احادیث سے یہی ثابت ہوا ہے