• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : جو شخص رات کے شروع میں سو جائے اور اخیر میں جاگے

وقال سلمان لأبي الدرداء ـ رضى الله عنهما ـ نم‏.‏ فلما كان من آخر الليل قال قم‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ صدق سلمان‏"‏‏. ‏
اور حضرت سلمان فارسی نے ابو درداء ( رضی اللہ عنہما ) سے فرمایا کہ شروع رات میں سوجا اور آخر رات میں عبادت کر۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایاتھا کہ سلمان نے بالکل سچ کہا۔

حدیث نمبر : 1146
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة،‏.‏ وحدثني سليمان، قال حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، عن الأسود، قال سألت عائشة ـ رضى الله عنها ـ كيف صلاة النبي صلى الله عليه وسلم بالليل قالت كان ينام أوله ويقوم آخره، فيصلي ثم يرجع إلى فراشه، فإذا أذن المؤذن وثب، فإن كان به حاجة اغتسل، وإلا توضأ وخرج‏.‏
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ( دوسری سند ) اور مجھ سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابو اسحاق عمرو بن عبداللہ نے، ان سے اسود بن یزید نے، انہوں نے بتلایا کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز کیونکر پڑھتے تھے؟ آپ نے بتلایا کہ شروع رات میں سو رہتے اور آخر رات میں بیدار ہو کر تہجد کی نماز پڑھتے۔ اس کے بعد بستر پر آ جاتے اور جب مؤذن اذان دیتا تو جلدی سے اٹھ بیٹھتے۔ اگر غسل کی ضرورت ہوتی تو غسل کرتے ورنہ وضو کر کے باہر تشریف لے جاتے۔

مطلب یہ کہ نہ ساری رات سوتے ہی رہتے نہ ساری رات نماز ہی پڑھتے رہتے بلکہ درمیانی راستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا اور یہی مسنون ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان اور غیر رمضان میں رات کو نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 1147
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن سعيد بن أبي سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه أخبره أنه، سأل عائشة ـ رضى الله عنها ـ كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فقالت ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يزيد في رمضان ولا في غيره على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعا فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا، قالت عائشة فقلت يا رسول الله أتنام قبل أن توتر‏.‏ فقال ‏"‏ يا عائشة، إن عينى تنامان ولا ينام قلبي‏"‏‏. ‏
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک ؒ نے خبر دی، انہیں سعید بن ابو سعید مقبری نے خبر دی، انہیں ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے خبر دی کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے انہوں نے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں ( رات کو ) کتنی رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( رات میں ) گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ خواہ رمضان کا مہینہ ہو تایا کوئی اور۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت پڑھتے۔ ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعت اور پڑھتے ان کی خوبی اور لمبائی کا کیا پوچھنا۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ وتر پڑھنے سے پہلے ہی سو جاتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا میری آنکھیں سوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

تشریح : ان ہی گیارہ رکعتوں کو تراویح قرار دیا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان اور غیر رمضان میں بروایات صحیحہ یہی گیارہ رکعات ثابت ہیں۔ رمضان شریف میں یہ نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیر رمضان میں تہجد کے نام سے پکاری گئی۔ پس سنت نبوی صرف آٹھ رکعات تراویح اس طرح کل گیارہ رکعات ادا کرنی ثابت ہیں۔

جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے مزید وضاحت ہوتی ہے۔
عن جابر رضی اللہ عنہ قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات والوتر علامہ محمد بن نصر مروزی حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو رمضان میں آٹھ رکعت تراویح اور وتر پڑھادیا ( یعنی کل گیارہ رکعات )
نیز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماکان یزیدفی رمضان ولا فی غیرہ علی احدی عشرۃ رکعۃ رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔

بعض لوگوں کو اس سے غلط فہمی ہوگئی ہے کہ یہ تہجد کے بارے میں ہے تراویح کے بارے میں نہیں۔ لہذا معلوم ہو اکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں تراویح اور تہجد الگ دو نمازیں قائم نہیں کیں وہی قیام رمضان ( تراویح ) یا بالفاظ دیگر تہجد گیارہ رکعت پڑھتے اور قیام رمضان ( تراویح ) کو حدیث شریف میں قیام اللیل ( تہجد ) بھی فرمایا ہے۔
رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تراویح پڑھا کر فرمایا“مجھ کو خوف ہو اکہ تم پر صلوۃ اللیل ( تہجد ) فرض نہ ہو جائے ” دیکھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تراویح کو تہجد فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ رمضان میں قیام رمضان ( تراویح ) اور صلوۃ اللیل ( تہجد ) ایک ہی نماز ہے۔

تراویح وتہجد کے ایک ہونے کی دوسری دلیل!
عن ابی ذر قال صمنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان فلم یقم بنا شیئا منہ حتی بقی سبع لیال فقام بنا لیلۃ السابعۃ حتی مضی نحو من ثلث اللیل ثم کانت اللیلۃ السادسۃ التی تلیھافلم یقم بنا حتی کانت خامسۃ التی تلیھا قام بنا حتی مضی نحو من شطر اللیل فقلت یا رسول اللہ لو نفلتنا بقیۃ لیلتنا ھذہ فقال انہ من قام مع الامام حتی ینصرف فانہ یعدل قیام اللیلۃ ثم کانت الرابعۃ التی تلیھا فلم یقمھا حتی کانت الثالثۃ التی تلیھا قال فجمع نسائہ واھلہ واجتمع الناس قال فقام بنا حتی خشینا ان یفوتناالفلاح قیل وما الفلاح قال السحور ثم لم یقم بنا شیئا من بقیۃ الشھر رواہ ابن ماجہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے رمضان کے روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو آخر کے ہفتہ میں تین طاق راتوں میں تراویح اس ترتیب سے پڑھائیں کہ پہلی رات کو اول وقت میں، دوسری رات کو نصف شب میں، پھر نصف بقیہ سے۔ سوال ہواکہ اور نماز پڑھائیے!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو امام کے ساتھ نماز ادا کرے اس کا پوری رات کا قیام ہوگا۔ پھر تیسری رات کو آخر شب میں اپنے اہل بیت کو جمع کر کے سب لوگوں کی جمعیت میں تراویح پڑھائیں، یہاں تک کہ ہم ڈرے کہ جماعت ہی میں سحری کا وقت نہ چلا جائے۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور بخاری شریف میں یہ حدیث مختصر لفظوں میں کئی جگہ نقل ہوئی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ آپ نے اسی ایک نماز تراویح کو رات کے تین حصوں میں پڑھایا ہے اور اس تراویح کا وقت بعد عشاءکے اخیر رات تک اپنے فعل ( اسوہ حسنہ ) سے بتادیا۔ جس میں تہجد کا وقت آگیا۔ پس فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو گیا کہ بعد عشاءکے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔
نیز اس کی تائید حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول سے ہوتی ہے جو آپ نے فرمایا والتی تنامون عنھا افضل من التی تقومون“یہ تراویح پچھلی شب میں کہ جس میں تم سوتے ہو پڑھنا بہتر ہے اول وقت پڑھنے سے ”معلوم ہوا کہ نماز تراویح وتہجد ایک ہی ہے اور یہی مطلب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا ہے۔

نیز اسی حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب باندھا ہے کہ باب فضل من قام رمضان اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث مذکور پر یوں باب منعقد کیا ہے باب ما روی فی عدد رکعات القیام فی شھر رمضان اوراسی طرح امام محمد رحمہ اللہ شاگرد امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے باب قیام شہررمضان کے تحت حدیث مذکور کو نقل کیا ہے۔ ان سب بزرگوں کی مراد بھی حدیث عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے تراویح ہی ہے اور اوپر مفصل گزر چکا کہ اول رات سے آخر رات تک ایک ہی نماز ہے۔ اب رہا کہ ان تین راتوں میں کتنی رکعتیں پڑھائی تھیں؟ سو عرض ہے کہ علاوہ وتر آٹھ ہی رکعتیں پڑھائی تھیں۔ اس کے ثبوت میں کئی روایات صحیحہ آئی ہیں جو ہدیہ ناظرین ہیں۔

علماءوفقہائے حنفیہ نے فرمادیا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے!
( 1 ) علامہ عینی رحمہ اللہ عمدہ القاری ( جلد:3 ص:597 ) میں فرماتے ہیں: فان قلت لم یبین فی الروایات المذکورۃ عدد الصلوۃ التی صلھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی تلک اللیالی قلت رواہ ابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر “اگر تو سوال کرے کہ جو نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتوں میں پڑھائی تھی اس میں تعداد کا ذکر نہیں تو میں اس کے جواب میں کہوں گا کہ ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائی تھیں”۔

( 2 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ( جلد:1 ص:597 ) میں فرماتے ہیں کہ لم اری فی شئی من طرقہ بیان عدد صلوتہ فی تلک اللیالی لکن رواہ ابن خزیمۃ وابن حبان من حدیث جابر قال صلی بنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی رمضان ثمان رکعات ثم اوتر “ میں نے حدیث مذکورہ بالا کی کسی سند میں یہ نہیں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین راتوں میں کتنی رکعت پڑھائی تھیں۔ لیکن ابن خزیمہ اور ابن حبان نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاوہ وتر آٹھ رکعت پڑھائی تھیں۔

( 3 ) علامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ نے نصب الرایہ فی تخریج احادیث الھدایہ ( جلد :1ص: 293 ) میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ عند ابن حبان فی صحیحہ عن جابر ابن عبد اللہ انہ علیہ الصلوۃ والسلام صلی بھم ثمان رکعات والوتر ابن حبان نے نے اپنی صحیح میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھائے یعنی کل گیارہ رکعات۔

( 4 ) امام محمد شاگرد امام اعظم رحمہما اللہ اپنی کتاب مؤطا امام محمد ( ص:93 ) میں باب تراویح کے تحت فرماتے ہیں عن ابی سلمۃ بن عبد الرحمن انہ سال عائشۃ کیف کانت صلوۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قالت ما کان رسول اللہ یزید فی رمضان ولا فی غیرہ علی احدیٰ عشرۃ رکعۃ ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کیونکر تھی تو بتلایا رمضان وغیررمضان میں آپ گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ رمضان وغیر رمضان کی تحقیق پہلے گزر چکی ہے۔ پھر امام محمد رحمہ اللہ اس حدیث شریف کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں محمد وبھذا ناخذ کلہ یعنی ہمارا بھی ان سب حدیثوں پر عمل ہے،ہم ان سب کو لیتے ہیں۔

( 5 ) ہدایہ جلد اول کے حاشیہ پر ہے السنۃ ما واظب علیہ الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحسب فعلی ھذا التعریف یکون السنۃ ھو ذلک القدر المذکور وما زاد علیہ یکون مستحبا سنت صرف وہی ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کیا ہو۔ پس اس تعریف کے مطابق صرف مقدار مذکور ( آٹھ رکعت ہی ) سنت ہوگی اور جو اس سے زیادہ ہو وہ نماز مستحب ہوگی۔

( 6 ) امام ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ فتح القدیر شرح ہدایہ میں فرماتے ہیں فتحصل من ھذا کلہ ان قیام رمضان سنۃ احدیٰ عشرۃ رکعۃ با لوتر فی جماعۃ فعلہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام کا خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کا قیام ( تراویح ) سنت مع وتر گیارہ رکعت با جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل ( اسوہ حسنہ ) سے ثابت ہے۔

( 7 ) علامہ ملا قاری حنفی رحمہ اللہ اپنی کتاب مرقاۃ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں: ان التراویح فی الاصل احدیٰ عشرۃ رکعۃ فعلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ترکہ لعذر در اصل تراویح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے گیارہ ہی رکعت ثابت ہے۔ جن کو آپ نے پڑھا بعد میں عذر کی وجہ سے چھوڑ دیا۔

( 8 ) مولانا عبد الحی حنفی لکھنؤی رحمہ اللہ تعلیق الممجد شرح مؤطا امام محمد میں فرماتے ہیں واخرج ابن حبان فی صحیحہ من حدیث جابر انہ صلی بھم ثمان رکعات ثم اوتر وھذا اصح اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ کو علاوہ وتر آٹھ رکعتیں پڑھائیں۔ یہ حدیث بہت صحیح ہے۔

ان حدیثوں سے صاف ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعت تراویح پڑھتے اور پڑھاتے تھے۔ جن روایات میں آپ کا بیس رکعات پڑھنا مذکور ہے وہ سب ضعیف اور ناقابل استدلال ہیں۔

صحابہ رضی اللہ عنہ اور صحابیات رضی اللہ عنہ کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آٹھ رکعت تراویح پڑھنا!
( 9 ) امام محمد بن نصر مروزی نے قیام اللیل میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے جاءابی ابن کعب فی رمضان فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان اللیلۃ شئی قال وما ذاک یا ابی قال نسوۃ داری قلن انا لا نقرءالقرآن فنصلی خلفک بصلوتک فصلیت بھن ثمان رکعات والوتر فسکت عنہ شبہ الرضاء ابی بن کعب رضی اللہ عنہ رمضان میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آج رات کو ایک خاص بات ہوگئی ہے۔ آپ نے فرمایا اے ابی! وہ کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھرانے کی عورتوں نے کہا کہ ہم قرآن نہیں پڑھتی ہیں اس لیے تمہارے پیچھے نماز ( تراویح ) تمہاری اقتدا میں پڑھیں گی۔ تو میں نے ان کو آٹھ رکعت اور وتر پڑھا دیا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر سکوت فرمایا۔ گویا اس بات کو پسند فرمایا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے زمانہ میں آٹھ رکعت ( تراویح ) پڑھتے تھے۔


حضرت عمر خلیفہ ثانی رضی اللہ عنہ کی نماز تراویح مع وتر گیارہ رکعت!
( 10 ) عن سائب ابن یزید قال امرعمر ابی بن کعب وتمیما الداری ان یقوما للناس فی رمضان احدیٰ عشرۃ رکعۃ الخ سائب بن یزید نے کہا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ عنہما کو حکم دیاکہ رمضان شریف میں لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں ( مؤطا امام مالک )

واضح ہواکہ آٹھ اور گیارہ میں وتر کا فرق ہے اور علاوہ آٹھ رکعت تراویح کے وتر ایک تین اور پانچ پڑھنے حدیث شریف میں آئے ہیں اور بیس تراویح کی روایت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں اور جو روایت ان سے نقل کی جاتی ہے وہ منقطع السند ہے۔ اس لیے کہ بیس کا راوی یزید بن رومان ہے۔ اس نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا۔ چنا نچہ علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ وعلامہ زیلعی حنفی رحمہ اللہ عمدۃالقاری اور نصب الرایہ میں فرماتے ہیں کہ یزید ابن رومان لم یدرک عمر“یزید بن رومان نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا زمانہ نہیں پایا” اور جن لوگوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پایا ہے ان کی روایات باتفاق گیارہ رکعت کی ہیں، ان میں حضرت سائب رضی اللہ عنہ کی روایت اوپر گزر چکی ہے۔

اور حضرت اعرج ہیں جو کہتے ہیں کان القاری یقرءسورۃ البقرۃ فی ثمان رکعات قاری سورہ بقرہ آٹھ رکعت میں ختم کرتا تھا ( مؤطا امام مالک ) فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب وتمیم داری اور سلیمان بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہم کو مع وتر گیارہ رکعت پڑھانے کا حکم دیا تھا ( مصنف ابن ابی شیبہ ) غرض حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موافق ہے۔ لہٰذا علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاءالراشدین سے بھی گیارہ پر عمل کرنا ثابت ہوا۔


فقہاءسے آٹھ کا ثبوت اور بیس کا ضعف!
( 11 ) علامہ ابن الہمام حنفی رحمہ اللہ فتح القدیر شرح ہدایہ ( جلد:1ص:205 ) میں فرماتے ہیں بیس رکعت تراویح کی حدیث ضعیف ہے۔ انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمۃ ابن عبد الرحمن انہ سال عائشۃ الحدیث علاوہ بریں یہ ( بیس کی روایت ) صحیح حدیث کے بھی خلاف ہے جو ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان وغیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زائد نہ پڑھتے تھے۔

( 12 ) شیخ عبد الحق صاحب حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ فتح سرالمنان میں فرماتے ہیں ولم یثبت روایۃ عشرین منہ صلی اللہ علیہ وسلم کما ھو المتعارف الان الا فی روایۃ ابن ابی شیبۃ وھو ضعیف وقد عارضہ حدیث عائشۃ وھو حدیث صحیح جو بیس تراویح مشہور ومعروف ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں اور جو ابن ابی شیبہ میں بیس کی روایت ہے وہ ضعیف ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے بھی مخالف ہے ( جس میں مع وتر گیارہ رکعت ثابت ہیں )

( 13 ) شیخ عبد الحق حنفی محدث دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ماثبت با لسنۃ ( ص:217 ) میں فرماتے ہیں والصحیح ما روتہ عائشۃ انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی احدیٰ عشرۃ رکعۃ کماھو عادتہ فی قیام اللیل وروی انہ کان بعض السلف فی عھد عمر ابن عبد العزیز یصلون احدیٰ عشرۃ رکعۃ قصدا تشبیھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحیح حدیث وہ ہے جس کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے کہ آپ گیارہ رکعت پڑھتے تھے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام اللیل کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعض سلف امیر المومنین عمر بن عبد العزیز کے عہد خلافت میں گیارہ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے مشابہت پیدا کریں۔

اس سے معلوم ہوا کہ شیخ صاحب رحمہ اللہ خود آٹھ رکعت تراویح کے قائل تھے اور سلف صالحین میں بھی یہ مشہور تھا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت نبوی ہے اور کیوں نہ ہو جب کہ خود جناب پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعت تراویح پڑھیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو پڑھائیں۔ نیز ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے عورتوں کو آٹھ رکعت تراویح پڑھائیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مع وتر گیارہ رکعت تراویح پڑھنے کا حکم تھا اور لوگ اس پر عمل کرتے تھے نیز حضرت عمر بن عبد العزیز کے وقت میں لوگ آٹھ رکعت تراویح پرسنت رسول سمجھ کر عمل کرتے تھے۔ اور امام مالک رحمہ اللہ نے بھی مع وتر گیا رہ رکعت ہی کو سنت کے مطابق اختیار کیا ہے، چنانچہ
( 14 ) علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ احدیٰ عشرۃ رکعۃ وھو اختیار مالک لنفسہ “گیارہ رکعت کو امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے لیے اختیار کیا ہے ”۔
اسی طرح فقہاءوعلماءمثل علامہ عینی حنفی، علامہ زیلعی حنفی، حافظ ابن حجر، علامہ محمد بن نصر مروزی، شیخ عبدا لحی صاحب حنفی محدث دہلوی، مولانا عبد الحق حنفی لکھنؤی رحمہم اللہ وغیرہم نے علاوہ وتر کے آٹھ رکعت تراویح کو صحیح اور سنت نبوی فرمایا ہے جن کے حوالے پہلے گزر چکے۔ اور امام محمدشاگرد رشید امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے تو فرمایا کہ وبھذا ناخذ کلہ“ہم ان سب حدیثوں کو لیتے ہیں” یعنی ان گیارہ رکعت کی حدیثوں پر ہمارا عمل ہے۔ فالحمد للہ کہ مع وتر گیارہ رکعت تراویح کی مسنونیت ثابت ہوگئی۔

اس کے بعد سلف امت میں کچھ ایسے حضرات بھی ملتے ہیں جو بیس رکعات اور تیس رکعات اور چالیس رکعات تک بطور نفل نماز تراویح پڑھا کرتے تھے لہٰذا یہ دعویٰ کہ بیس رکعات پر اجماع ہوگیا، باطل ہے۔ اصل سنت نبوی آٹھ رکعت تراویح تین وتر کل گیارہ رکعات ہیں۔ نفل کے لیے ہر وقت اختیار ہے کوئی جس قدر چاہے پڑھ سکتا ہے۔ جن حضرات نے ہر رمضان میں آٹھ رکعات تراویح کو خلاف سنت کہنے کا مشغلہ بنا لیا ہے اور ایسا لکھنا یا کہنا ان کے خیال میں ضروری ہے وہ سخت غلطی میں مبتلا ہیں بلکہ اسے بھی ایک طرح سے تلبیس ابلیس کہا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالی سب کونیک سمجھ عطاکرے۔ آمین۔
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جو رات کے نوافل چار چار رکعت ملا کر پڑھنا افضل کہا ہے، وہ اسی حدیث سے دلیل لیتے ہیں۔ حالانکہ اس سے استدلال صحیح نہیں کیونکہ اس میں یہ تصریح نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار چار کے بعد سلام پھیرتے۔ ممکن ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ( دو سلام کے ساتھ ) بہت لمبی پڑھتے ہوں پھر دوسری چار رکعتیں ( دو سلاموں کے ساتھ ) ان سے ہلکی پڑھتے ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس طرح ان چار چار رکعتوں کا علیحدہ علیحدہ ذکر فرمایا اور یہ بھی ممکن ہے کہ چار رکعتوں کا ایک سلام کے ساتھ پڑھنا مراد ہو۔ اسی لیے علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ واما ما سبق من انہ کان یصلی مثنی مثنی ثم واحدۃ فمحمول علی وقت اخر فالامران جائزان یعنی پچھلی روایات میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دو دو رکعت پڑھنا مذکور ہوا ہے۔ پھر ایک رکعت وتر پڑھنا تو وہ دوسرے وقت پر محمو ل ہے اور یہ چار چار کر کے پڑھنا پھر تین وتر پڑھنا دوسرے وقت پر محمول ہے اس لیے ہر دو امر جائز ہیں۔

حدیث نمبر : 1148
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى بن سعيد، عن هشام، قال أخبرني أبي، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ في شىء من صلاة الليل جالسا، حتى إذا كبر قرأ جالسا، فإذا بقي عليه من السورة ثلاثون أو أربعون آية قام فقرأهن ثم ركع‏.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا اور انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا کہ مجھے میرے باپ عروہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی کسی نماز میں بیٹھ کر قرآن پڑھتے نہیں دیکھا۔ یہا ں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بوڑھے ہوگئے تو بیٹھ کر قرآن پڑھتے تھے لیکن جب تیس چالیس آیتیں رہ جاتیں تو کھڑے ہو جاتے پھر اس کو پڑھ کر رکوع کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : دن اور رات میں باوضو رہنے کی فضیلت اور وضو کے بعد رات اور دن میں نماز پڑھنے کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر : 1149
حدثنا إسحاق بن نصر، حدثنا أبو أسامة، عن أبي حيان، عن أبي زرعة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لبلال عند صلاة الفجر ‏"‏ يا بلال حدثني بأرجى عمل عملته في الإسلام، فإني سمعت دف نعليك بين يدى في الجنة‏"‏‏. ‏ قال ما عملت عملا أرجى عندي أني لم أتطهر طهورا في ساعة ليل أو نهار إلا صليت بذلك الطهور ما كتب لي أن أصلي‏.‏ قال أبو عبد الله دف نعليك يعني تحريك‏.‏
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ حماد بن اسابہ نے بیان کیا، ان سے ابو حیان یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ابو زرعہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فجر کے وقت پوچھا کہ اے بلال! مجھے اپنا سب سے زیادہ امید والا نیک کام بتاؤ جسے تم نے اسلام لانے کے بعد کیا ہے کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی چاپ سنی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میں نے تو اپنے نزدیک اس سے زیادہ امید کا کوئی کام نہیں کیا کہ جب میں نے رات یا دن میں کسی وقت بھی وضو کیا تو میں اس وضو سے نفل نماز پڑھتا رہتا جتنی میری تقدیر لکھی گئی تھی۔

تشریح : یعنی جیسے تو بہشت میں چل رہاہے اور تیری جوتیوں کی آواز نکل رہی ہے۔ یہ اللہ تعالی نے آپ کو دکھلادیا جو نظر آیا وہ ہونے والا تھا۔ علماءکا اس پر اتفاق ہے کہ بہشت میں بیداری کے عالم میں اس دنیا میں رہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں گیا۔ آپ معراج کی شب میں وہاں تشریف لے گئے۔ اسی طرح دوزخ میں اور یہ جو بعض فقراءسے منقول ہے کہ ان کا خادم حقہ کی آگ لینے کے لیے دوزخ میں گیا محض غلط ہے۔ بلال رضی اللہ عنہ دنیا میں بھی بطور خادم کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سامان وغیرہ لے کر چلا کرتے، ویسا ہی اللہ تعالی نے اپنے پیغمبر کو دکھلادیا کہ بہشت میں بھی ہوگا۔ اس حدیث سے بلال رضی اللہ عنہ کی فضیلت نکلی اور ان کا جنتی ہونا ثابت ہوا ( وحیدی )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : عبادت میں بہت سختی اٹھانا مکروہ ہے

حدیث نمبر : 1150
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، عن عبد العزيز بن صهيب، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال دخل النبي صلى الله عليه وسلم فإذا حبل ممدود بين الساريتين فقال ‏"‏ ما هذا الحبل‏"‏‏. ‏ قالوا هذا حبل لزينب فإذا فترت تعلقت‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا، حلوه، ليصل أحدكم نشاطه، فإذا فتر فليقعد‏"‏‏.
ہم سے ابو معمرعبد اللہ بن عمرو نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے عبد الوارث بن سعد نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے عبد العزیز بن صہیب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے۔ آپ کی نظر ایک رسی پر پڑی جو دو ستونوں کے درمیان تنی ہوئی تھی۔ دریافت فرمایا کہ یہ رسی کیسی ہے؟ لوگوں نے عرض کی کہ یہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے باندھی ہے جب وہ ( نماز میں کھڑی کھڑی ) تھک جاتی ہیں تو اس سے لٹکی رہتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں یہ رسی نہیں ہونی چاہیے اسے کھول ڈالو، تم میں ہر شخص کو چاہیے جب تک دل لگے نماز پڑھے، تھک جائے تو بیٹھ جائے۔

حدیث نمبر : 1151
قال وقال عبد الله بن مسلمة عن مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كانت عندي امرأة من بني أسد فدخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ من هذه‏"‏‏. ‏ قلت فلانة لا تنام بالليل‏.‏ فذكر من صلاتها فقال ‏"‏ مه عليكم ما تطيقون من الأعمال، فإن الله لا يمل حتى تملوا‏"‏‏. ‏
اور امام بخاریؒ نے فرمایا کہ ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے مالکؒ نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میرے پاس بن و اسد کی ایک عورت بیٹھی تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو ان کے متعلق پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ فلاں خاتون ہیں جو رات بھر نہیں سوتیں۔ ان کی نماز کا آپ کے سامنے ذکر کیا گیا۔ لیکن آپ نے فرمایا کہ بس تمہیں صرف اتنا ہی عمل کرنا چاہیے جتنے کی تم میں طاقت ہو۔ کیونکہ اللہ تعالی تو ( ثواب دینے سے ) تھکتا ہی نہیں تم ہی عمل کر تے کرتے تھک جاؤ گے۔

تشریح : اس لیے حدیث انس رضی اللہ عنہ اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ میں مروی ہے کہ اذا نعس احدکم فی الصلوۃ فلینم حتی یعلم ما یقراء یعنی جب نماز میں کوئی سونے لگے تو اسے چاہیے کہ پہلے سولے پھر نماز پڑھے تاکہ وہ سمجھ لے کہ کیا پڑھ رہا ہے۔ یہ لفظ بھی ہیں فلیرقد حتی یذھب عنہ النوم ( فتح الباری ) یعنی سوجائے تاکہ اس سے نیند چلی جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : جو شخص رات کو عبادت کیا کرتا تھا وہ اگر اسے چھوڑ دے تو اس کی یہ عادت مکروہ ہے

حدیث نمبر : 1152
حدثنا عباس بن الحسين، حدثنا مبشر، عن الأوزاعي،‏.‏ وحدثني محمد بن مقاتل أبو الحسن، قال أخبرنا عبد الله، أخبرنا الأوزاعي، قال حدثني يحيى بن أبي كثير، قال حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، قال حدثني عبد الله بن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنهما ـ قال قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا عبد الله، لا تكن مثل فلان، كان يقوم الليل فترك قيام الليل‏"‏‏. وقال هشام: حدثنا ابن أبي العشرين: حدثنا الأوزاعي قال: حدثني يحيى، عن عمر ابن الحكم بن ثوبان قال: حدثني أبو سلمة: مثله. وتابعه عمرو بن أبي سلمة، عن الأوزاعي.
ہم سے عباس بن حسین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مبشر بن اسماعیل حلبی نے، اوزاعی سے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمد بن مقاتل ابو الحسن نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں امام اوزاعی نے خبر دی کہا کہ مجھ سے یحیٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عبد اللہ! فلاں کی طرح نہ ہوجانا وہ رات میں عبادت کیا کرتا تھا پھر چھوڑدی۔ اور ہشام بن عمار نے کہا کہ ہم سے عبد الحمید بن ابوالعشرین نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحیٰ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حکم بن ثوبان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے، اسی طرح پھر یہی حدیث بیان کی، ا بن ابی العشرین کی طرح عمرو بن ابی سلمہ نے بھی اس کو امام اوزاعی سے روایت کیا۔

تشریح : عباس بن حسین سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب میں ایک یہ حدیث اور ایک جہاد کے باب میں روایت کی، پس دوہی حدیثیں۔ یہ بغداد کے رہنے والے تھے۔ ابن ابی عشرین یہ امام اوزاعی کا منشی تھا اس میں محدثین نے کلام کیا ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ اس کی روایت متابعتاً لائے۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن کی سند کو امام بخاری رحمہ اللہ اس لیے لائے کہ اس میں یحیٰ بن ابی کثیر اور ابو سلمہ میں ایک شخص کا واسطہ ہے یعنی عمرو بن حکم کا اور اگلی سند میں یحیٰ کہتے ہیں کہ مجھ سے خود ابو سلمہ نے بیان کیا تو شاید یحیٰ نے یہ حدیث عمرو کے واسطے سے اور بلا واسطہ دونوں طرح ابو سلمہ سے سنی ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1153
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن أبي العباس، قال سمعت عبد الله بن عمرو ـ رضى الله عنهما ـ قال لي النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ألم أخبر أنك تقوم الليل وتصوم النهار ‏"‏ قلت إني أفعل ذلك‏.‏ قال ‏"‏ فإنك إذا فعلت ذلك هجمت عينك ونفهت نفسك، وإن لنفسك حق، ولأهلك حق، فصم وأفطر، وقم ونم‏"‏‏.
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابو العباس سائب بن فروخ نے کہا میں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم رات بھر عبادت کرتے ہو اور پھر دن میں روزے رکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں حضور میں ایسا ہی کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ لیکن اگر تم ایسا کروگے تو تمہاری آنکھیں ( بیداری کی وجہ سے ) بیٹھ جائیں گی اور تیری جان ناتواں ہو جائے گی۔ یہ جان لو کہ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے اور بیوی بچوں کا بھی۔ اس لیے کبھی روزہ بھی رکھو اور کبھی بلا روزے کے بھی رہو، عبادت بھی کرو اور سوؤ بھی۔

گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے سخت مجاہدہ سے منع کیا۔ اب جو لوگ ایسا کریں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف چلتے ہیں، اس سے نتیجہ کیا؟ عبادت تو اسی لیے ہے کہ اللہ اور رسول راضی ہوں
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : جس شخص کی رات کو آنکھ کھلے پھر وہ نماز پڑھے اس کی فضیلت

حدیث نمبر : 1154
حدثنا صدقة بن الفضل، أخبرنا الوليد، عن الأوزاعي، قال حدثني عمير بن هانئ، قال حدثني جنادة بن أبي أمية، حدثني عبادة بن الصامت، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من تعار من الليل فقال لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شىء قدير‏.‏ الحمد لله، وسبحان الله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، ولا حول ولا قوة إلا بالله‏.‏ ثم قال اللهم اغفر لي‏.‏ أو دعا استجيب، فإن توضأ وصلى قبلت صلاته‏"‏‏. ‏
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ولید بن مسلم نے امام اوزاعی سے خبر دی، کہا کہ مجھ کو عمیر بن ہانی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جنادہ بن ابی امیہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبادہ بن صامت نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رات کو بیدار ہو کر یہ دعا پڑھے ( ترجمہ ) “ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ملک اسی کے لیے ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اللہ کی ذات پاک ہے، اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں اور اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ کی مدد کے بغیر نہ کسی کو گناہوں سے بچنے کی طاقت ہے نہ نیکی کر نے کی ہمت ” پھر یہ پڑھے ( ترجمہ ) اے اللہ! میری مغفرت فرما ”۔ یا ( یہ کہا کہ ) کوئی دعا کرے تواس کی دعا قبول ہوتی ہے۔ پھر اگر اس نے وضو کیا ( اور نماز پڑھی ) تو نماز بھی مقبول ہوتی ہے۔

تشریح : ابن بطال رحمہ اللہ نے اس حدیث پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر یہ وعدہ فرماتا ہے کہ جو مسلمان بھی رات میں اس طرح بیدار ہو کہ اس کی زبا ن پر اللہ تعالی کی توحید، اس پر ایمان ویقین، اس کی کبریائی اور سلطنت کے سامنے تسلیم اور بندگی، اس کی نعمتوں کا اعتراف اور اس پر اس کا شکر وحمد اور اس کی ذات پاک کی تنزیہ وتقدیس سے بھرپور کلمات زبان پر جاری ہوجائیں توا للہ تعالی اس کی دعا کو بھی قبول کرتا ہے اور اس کی نماز بھی بارگاہ رب العزت میں مقبول ہوتی ہے۔ اس لیے جس شخص تک بھی یہ حدیث پہنچے، اسے اس پر عمل کو غنیمت سمجھنا چاہیے اور اپنے رب کے لیے تمام اعمال میں نیت خالص پیدا کرنی چاہیے کہ سب سے پہلی شرط قبولیت یہی خلوص ہے۔ ( تفہیم البخاری )

حدیث نمبر : 1155
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، أخبرني الهيثم بن أبي سنان، أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ وهو يقصص في قصصه وهو يذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم إن أخا لكم لا يقول الرفث‏.‏ يعني بذلك عبد الله بن رواحة وفينا رسول الله يتلو كتابه إذا انشق معروف من الفجر ساطع أرانا الهدى بعد العمى فقلوبنا به موقنات أن ما قال واقع يبيت يجافي جنبه عن فراشه إذا استثقلت بالمشركين المضاجع تابعه عقيل‏.‏ وقال الزبيدي أخبرني الزهري عن سعيد والأعرج عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه‏.
ہم سے یحیٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ کو ہیثم بن ابی سنان نے خبر دی کہ انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ اپنے وعظ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کررہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ تمہارے بھائی نے ( اپنے نعتیہ اشعار میں ) یہ کوئی غلط بات نہیں کہی۔ آپ کی مراد عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ اور ان کے اشعار سے تھی جن کا ترجمہ یہ ہے : “ ہم میں اللہ کے رسول موجود ہیں، جو اس کی کتاب اس وقت ہمیں سناتے ہیں جب فجر طلوع ہوتی ہے۔ ہم تو اندھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گمراہی سے نکال کر صحیح راستہ دکھایا۔ ان کی باتیں اسی قدر یقینی ہیں جو ہمارے دلوں کے اندر جاکر بیٹھ جاتی ہیں اور جو کچھ آپ نے فرمایا وہ ضرور واقع ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات بستر سے اپنے کوالگ کر کے گزارتے ہیں جبکہ مشرکوں سے ان کے بستر بوجھل ہو رہے ہوتے ہیں ”۔ یونس کی طرح اس حدیث کو عقیل نے بھی زہری سے روایت کیا اور زبیدی نے یوں کہا سعید بن مسیب اور اعرج سے، انہوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔

تشریح : زبیدی کی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ میں اور طبرانی نے معجم کبیر میں نکالا۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض اس بیان سے یہ ہے کہ زہری کے شیخ میں راویوں کا اختلاف ہے۔ یونس اور عقیل نے ہیثم بن ابی سنان کہا ہے اور زبیدی نے سعید بن مسیب اور اعرج اور ممکن ہے کہ زہری نے ان تینوں سے اس حدیث کو سنا ہو، حافظ نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک پہلا طریق راجح ہے کیونکہ یونس اور عقیل دونوں نے بالاتفاق زہری کا شیخ ہیثم کو قرار دیا ہے ( وحیدی )

اس حدیث سے ثابت ہو اکہ مجالس وعظ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کا نظم ونثر میں ذکر کرنا درست اور جائز ہے۔ سیرت کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت اور حیات طیبہ کے واقعات کا ذکر کرنا باعث ازدیاد ایمان ہے لیکن محافل میلاد مروجہ کا انعقاد کسی شرعی دلیل سے ثابت نہیں۔ عہد صحابہ وتابعین وتبع تابعین وائمہ مجتہدین وجملہ محدثین کرام میں ایسی محافل کا نام ونشان بھی نہیں ملتا۔ پورے چھ سو سال گرز گئے دنیائے اسلام محفل میلاد کے نام سے بھی آشنا نہ تھی۔ تاریخ ابن خلکان میں ہے کہ اس محفل کا موجد اول ایک بادشاہ ابو سعید مظفرالدین نامی تھا، جو نزد موصل اربل نامی شہر کا حاکم تھا۔ علمائے راسخین نے اسی وقت سے اس نوایجاد محفل کی مخالفت فرمائی۔ مگر صد افسوس کہ نام نہاد فدائیان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج بھی بڑے طنطنہ سے ایسی محافل کرتے ہیں جن میں نہایت غلط سلط روایات بیان کی جاتی ہیں، چراغاں اور شیرنی کا اہتمام خاص ہوتا ہے اور اس عقیدہ سے قیام کر کے سلام پڑھا جاتاہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک خود اس محفل میں تشریف لائی ہے۔ یہ جملہ امور غلط بے ثبوت ہیں جن کے کرنے سے بدعت کا ارتکاب لازم آتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرما دیا کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ فھو رد جو ہمارے دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرے جس کا ثبوت ادلہ شرعیہ سے نہ ہو وہ مردود ہے۔

حدیث نمبر : 1156
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر، رضى الله عنهما قال رأيت على عهد النبي صلى الله عليه وسلم كأن بيدي قطعة إستبرق، فكأني لا أريد مكانا من الجنة إلا طارت إليه، ورأيت كأن اثنين أتياني أرادا أن يذهبا بي إلى النار فتلقاهما ملك فقال لم ترع خليا عنه‏.‏
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ خواب دیکھا کہ گویا ایک گاڑھے ریشمی کپڑے کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ ہے۔ جیسے میں جنت میں جس جگہ کا بھی ارادہ کرتا ہوں تو یہ ادھر اڑا کے مجھ کو لے جاتا ہے اور میں نے دیکھا کہ جیسے دو فرشتے میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھے دوزخ کی طرف لے جانے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ ایک فرشتہ ان سے آکر ملا اور ( مجھ سے ) کہا کہ ڈرو نہیں ( اور ان سے کہا کہ ) اسے چھوڑدو۔

حدیث نمبر : 1157
فقصت حفصة على النبي صلى الله عليه وسلم إحدى رؤياى فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ نعم الرجل عبد الله لو كان يصلي من الليل‏"‏‏. ‏ فكان عبد الله ـ رضى الله عنه ـ يصلي من الليل‏.‏
میری بہن ( ام المؤمنین ) حفصہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میرا ایک خواب بیان کیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بڑا ہی اچھا آدمی ہے کاش رات میں بھی نماز پڑھا کرتا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ اس کے بعد ہمیشہ رات میں نماز پڑھا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 1158
وكانوا لا يزالون يقصون على النبي صلى الله عليه وسلم الرؤيا أنها في الليلة السابعة من العشر الأواخر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أرى رؤياكم قد تواطت في العشر الأواخر، فمن كان متحريها فليتحرها من العشر الأواخر‏"‏‏. ‏
بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے خواب بیان کئے کہ شب قدر ( رمضان کی ) ستائیسویں رات ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تم سب کے خواب رمضان کے آخری عشرے میں ( شب قدر کے ہونے پر ) متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے شب قدر کی تلاش ہو وہ رمضان کے آخری عشرے میں ڈھونڈے۔

تشریح : حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کتاب الصیام میں باب تحری لیلۃ القدر کے تحت میں فرماتے ہیں فی ھذہ الترجمۃ اشارۃ الی رجحان کون لیلۃ القدر منحصرۃ فی رمضان ثم فی العشر الاخیر منہ ثم فی اوتارہ لا فی لیلۃ منھا بعینھا وھذا ھو الذی یدل علیہ مجموع الاخبار الواردۃ فیھا۔ ( فتح ) یعنی لیلۃ القدر رمضان میں منحصر ہے اور وہ آخری عشرہ کی کسی ایک طاق رات میں ہوتی ہے جملہ احادیث جو اس باب میں وارد ہوئی ہیں ان سب سے یہی ثابت ہوتا ہے۔ باقی تفصیل کتاب الصیام میں آئےگی۔ طاق راتوں سے 21, 23, 25, 27, 29 کی راتیں مراد ہیں۔ ان میں سے وہ کسی رات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ احادیث سے یہی ثابت ہوا ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد

باب : فجر کی سنتوں کو ہمیشہ پڑھنا

حدیث نمبر : 1159
حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا سعيد ـ هو ابن أبي أيوب ـ قال حدثني جعفر بن ربيعة، عن عراك بن مالك، عن أبي سلمة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت صلى النبي صلى الله عليه وسلم العشاء ثم صلى ثمان ركعات وركعتين جالسا وركعتين بين النداءين، ولم يكن يدعهما أبدا‏.‏
ہم سے عبدا للہ بن یزید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عراک بن مالک نے، ان سے ابو سلمہ نے، ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاءکی نماز پڑھی پھر رات کو اٹھ کر آپ نے تہجد کی آٹھ رکعتیں پڑھیں اور دو رکعتیں صبح کی اذان واقامت کے درمیان پڑھیں جن کو آپ کبھی نہیں چھوڑ تے تھے۔ ( فجر کی سنتوں پر مداومت ثابت ہوئی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : فجر کی سنتیں پڑھ کر داہنی کروٹ پر لیٹ جا نا

حدیث نمبر : 1160
حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا سعيد بن أبي أيوب، قال حدثني أبو الأسود، عن عروة بن الزبير، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا صلى ركعتى الفجر اضطجع على شقه الأيمن‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابو الاسود محمد بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی دو سنت رکعتیں پڑھنے کے بعد دائیں کروٹ پر لیٹ جاتے۔

تشریح : فجر کی سنت پڑھ کر تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹنا مسنون ہے، اس بارے میں کئی جگہ لکھا جا چکا ہے۔ یہاں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے متعلق یہ باب منعقد فرمایا ہے اور حدیث عائشہ رضی اللہ عنہ سے صاف ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔ علامہ شوکانی نے اس بارے میں علماءکے چھ قول نقل کئے ہیں۔

المحدث الکبیر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
الاول انہ مشروع علی سبیل الاستحباب کما حکاہ الترمذی عن بعض اھل العلم وھو قول ابی موسیٰ الاشعری ورافع بن خدیج وانس بن مالک وابی ھریرۃ قال الحافظ ابن القیم فی زاد المعاد قد ذکر عبدا لرزاق فی المصنف عن معمر عن ایوب عن ابن سیرین ان ابا موسی ورافع بن خدیج وانس بن مالک کانوا یضطجعون بعدرکعتی الفجر ویامرون بذلک وقال العراقی ممن کان یفعل ذلک او یفتی بہ من الصحابۃ ابو موسی الاشعری ورافع بن خدیج وانس بن مالک وابو ھریرۃ انتھی وممن قال بہ من التابعین محمد بن سیرین وعروۃ ابن الزبیر کما فی شرح المنتقی وقال ابو محمد علی بن حزم فی المحلی وذکر عبدا لرحمن بن زید فی کتاب السبعۃ انھم یعنی سعید بن المسیب والقاسم بن محمد بن ابی بکر وعروۃ ابن الزبیر وابابکر ھو ابن عبد الرحمن وخارجۃ بن زید بن ثابت وعبید اللہ بن عبداللہ بن عتبۃ بن سلیمان بن یسار کانوا یضطجعون علی ایمانھم بین رکعتی الفجر وصلوۃ الصبح انتھی وممن قال بہ من الائمۃ من الشافعی واصحابہ قال العینی فی عمدۃ القاری ذھب الشافعی واصحابہ الی انہ سنۃ انتھی۔ ( تحفۃ الاحوذی )
یعنی اس لیٹنے کے بارے میں پہلا قول یہ ہے کہ یہ مستحب ہے جیسا کہ امام ترمذی نے بعض اہل علم کا مسلک یہی نقل فرمایا ہے اور ابوموسی اشعری اور رافع بن خدیج اور انس بن مالک اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کا یہی عمل تھا، یہ سب سنت فجر کے بعد لیٹا کرتے اورلوگوں کو بھی اس کاحکم فرمایاکرتے تھے جیسا کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں نقل فرمایا ہے اور علامہ عراقی نے ان جملہ مذکورہ صحابہ کے نام لکھے ہیں کہ یہ اس کے لیے فتوی دیاکرتے تھے، تابعین میں سے محمد بن سیرین اور عروہ بن زبیر کا بھی یہی عمل تھا۔جیسا کہ شرح منتقیٰ میں ہے اور علامہ ابن حزم نے محلّی میں نقل فرمایا ہے کہ سعید بن مسیب، قاسم بن محمد بن ابی بکر، عروہ بن زبیر، ابو بکر بن عبدالرحمن، خارجہ بن زید بن ثابت اور عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن سلیمان بن یسار، ان جملہ اجلہ تابعین کا یہی مسلک تھا کہ یہ فجر کی سنتیں پڑھ کر دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔ امام شافعی اوران کے شاگردوں کا بھی یہی مسلک ہے کہ یہ لیٹنا سنت ہے۔

اس بارے میں دوسرا قول علامہ ابن حزم کا ہے جو اس لیٹنے کو واجب کہتے ہیں۔ اس بارے میں علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قلت قد عرفت ان الامر الوارد فی حدیث ابی ھریرۃ محمول علی الاستحباب لانہ صلی اللہ علیہ وسلم لم یکن یداوم علی الاضطجاع فلا یکون واجب فضلا عن ان یکون شرطا لصحۃ صلوۃ الصبح یعنی حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں اس بارے میں جو بصیغہ امر وارد ہوا ہے کہ جوشخص فجر کی سنتوں کو پڑھے اس کو چاہیے کہ اپنی دائیں کروٹ پر لیٹے۔ ( رواہ الترمذی ) یہ امر استحباب کے لیے ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر مداومت منقول نہیں ہے بلکہ ترک بھی منقول ہے۔ پس یہ بایں طور واجب نہ ہوگا کہ نماز صبح کی صحت کے لیے یہ شرط ہو۔

بعض بزرگوں سے اس کا انکار بھی ثابت ہے مگر صحیح حدیثوں کے مقابلے پر ایسے بزرگوں کا قول قابل حجت نہیں ہے۔ اتباع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہر حال مقدم اور موجب اجر وثواب ہے۔ پچھلے صفحات میں علامہ انورشاہ دیوبندی مرحوم کا قول بھی اس بارے میں نقل کیا جا چکاہے۔ بحث کے خاتمہ پر علامہ عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ والقول الراجح المعمول علیہ ھو ان الاضطجاع بعد سنۃ الفجر مشروع علی طریق الاستحباب واللہ تعالی اعلم یعنی قول راجح یہی ہے کہ یہ لیٹنا بطور استحباب مشروع ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : فجر کی سنتیں پڑھ کر باتیں کرنا اور نہ لیٹنا

حدیث نمبر : 1161
حدثنا بشر بن الحكم، حدثنا سفيان، قال حدثني سالم أبو النضر، عن أبي سلمة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا صلى ‏{‏سنة الفجر‏}‏ فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع حتى يؤذن بالصلاة‏.‏
ہم سے بشر بن حکم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سالم ابو النضرنے ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے بیان کیا اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ چکتے تو اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے جب تک نماز کی اذان ہوتی۔

معلوم ہوا کہ اگر لیٹنے کا موقع نہ ملے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ مگر اس لیٹنے کو برا جاننا فعل رسول کی تنقیص کرنا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : نفل نمازیں دو دو رکعتیں کر کے پڑھنا

ويذكر ذلك عن عمار وأبي ذر وأنس وجابر بن زيد وعكرمة والزهري ـ رضى الله عنهم ـ‏.‏ وقال يحيى بن سعيد الأنصاري ما أدركت فقهاء أرضنا إلا يسلمون في كل اثنتين من النهار‏. امام بخاری ؒ نے فرمایا اور عمار اور ابوذر اور یونس رضی اللہ عنہم صحابیوں سے بیان کیا، اور جابر بن زید، عکرمہ اور زہری رحمہ اللہ علیہم تابعیوں سے ایسا ہی منقول ہے اور یحیٰ بن سعید انصاری ( تابعی ) نے کہا کہ میں نے اپنے ملک ( مدینہ طیبہ ) کے عالموں کو یہی دیکھا کہ وہ نوافل میں ( دن کو ) ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا کرتے تھے۔

حافظ نے کہا عمار اور ابو ذر رضی اللہ عنہما کی حدیثوں کو ابن ابی شیبہ نے نکا لا اور انس رضی اللہ عنہ کی حدیث تو اسی کتاب میں گزری کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر جا کر دو دو رکعتیں نفل پڑھیں اور جابر بن زید کا اثر مجھ کو نہیں ملا اور عکرمہ کا اثر ابن ابی شیبہ نے نکالااور یحییٰبن سعید کا اثر مجھ کو نہیں ملا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1162
حدثنا قتيبة، قال حدثنا عبد الرحمن بن أبي الموالي، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الأمور كما يعلمنا السورة من القرآن يقول ‏"‏ إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك، وأسألك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري ـ أو قال عاجل أمري وآجله ـ فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري ـ أو قال في عاجل أمري وآجله ـ فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان ثم أرضني ـ قال ـ ويسمي حاجته‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الرحمن بن ابی الموال نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اپنے تمام معاملات میں استخارہ کرنے کی اسی طرح تعلیم دیتے تھے جس طرح قرآن کی کوئی سورت سکھلاتے۔ آپ صل صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ جب کوئی اہم معاملہ تمہارے سامنے ہو تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھے ( ترجمہ ) “ اے میرے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کی بدولت خیر طلب کر تا ہوں اور تیری قدرت کی بدولت تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل عظیم کا طلبگار ہوں کہ قدرت تو ہی رکھتا ہے اور مجھے کوئی قدرت نہیں۔ علم تجھ ہی کوہے اور میں کچھ نہیں جانتا اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے۔ اے میرے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام جس کے لیے استخارہ کیا جارہا ہے میرے دین دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے میرے لیے بہتر ہے یا ( آپ نے یہ فرمایاکہ ) میرے لیے وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے یہ ( خیر ہے ) تو اسے میرے لیے نصیب کر اور اس کا حصول میرے لیے آسان کر اور پھر اس میں مجھے برکت عطا کر اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے دین، دنیا اور میرے کام کے انجام کے اعتبار سے برا ہے۔ یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ ) میرے معاملہ میں وقتی طور پر اور انجام کے اعتبار سے ( برا ہے ) تو اسے مجھ سے ہٹا دے اور مجھے بھی اس سے ہٹا دے۔ پھر میرے لیے خیر مقدر فرما دے، جہاں بھی وہ ہو اور اس سے میرے دل کو مطمئن بھی کردے ”۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اس کام کی جگہ اس کام کا نام لے۔

تشریح : استخارہ سے کاموں میں برکت پیدا ہوتی ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ استخارہ کرنے کے بعد کوئی خواب بھی دیکھا جائے یا کسی دوسرے ذریعہ سے یہ معلوم ہو جائے کہ پیش آمدہ معاملہ میں کون سی روش مناسب ہوگی۔ اس طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ طبعی رجحان ہی کی حد تک کوئی بات استخارہ سے دل میں پیدا ہو جائے۔ حدیث میں استخارہ کے یہ فوائد کہیں بیان نہیں ہوئے ہیں اور واقعات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ استخارہ کے بعد بعض اوقات ان میں سے کوئی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ استخارہ کا مقصد صرف طلب خیر ہے۔ جس کام کاارادہ ہے یا جس معاملہ میں آپ الجھے ہوئے ہیں گویا استخارہ کے ذریعہ آپ نے اسے خدا کے علم اور قدرت پر چھوڑ دیا اور اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر پوری طرح اس پر توکل کا وعدہ کر لیا۔“ میں تیرے علم کے واسطہ سے تجھ سے خیر طلب کرتا ہوں اور تیری قدرت کے واسطہ سے تجھ سے طاقت مانگتا ہوں اور تیرے فضل کا خواستگار ہوں” یہ توکل اور تفویض نہیں تواور کیا چیز ہے؟اور پھر دعا کے آخری الفاظ “میرے لیے خیر مقدر فرمادیجئے جہاں بھی وہ ہوا اوراس پر میرے قلب کو مطمئن بھی کر دیجئے”یہ ہے رضا بالقضاءکی دعا کہ اللہ کے نزدیک معاملہ کی جو نوعیت صحیح ہے، کام اسی کے مطابق ہو اور پھر اس پر بندہ اپنے لیے ہر طرح اطمینان کی بھی دعا کرتا ہے کہ دل میں اللہ کے فیصلہ کے خلاف کسی قسم کا خطرہ بھی نہ پیدا ہو دراصل استخارہ کی اس دعا کے ذریعہ بندہ اول تو توکل کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ثابت قدمی اور رضا بالقضاءکی دعا کرتا ہے کہ خواہ معاملہ کا فیصلہ میری خواہش کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، ہو وہ خیر ہی اور میرا دل اس سے مطمئن اور راضی ہو جائے۔ اگر واقعی کوئی خلوص دل سے اللہ کے حضور میں یہ دونوں باتیں پیش کر دے تو اس کے کام میں اللہ تعالی کا فضل وکرم سے برکت یقینا ہوگی۔ استخارہ کا صرف یہی فائدہ ہے اور اس سے زیادہ اور کیا چاہیے؟ ( تفہیم البخاری ) حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں نفل نماز دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے اور یہی ترجمہ باب ہے۔

حدیث نمبر : 1163
حدثنا المكي بن إبراهيم، عن عبد الله بن سعيد، عن عامر بن عبد الله بن الزبير، عن عمرو بن سليم الزرقي، سمع أبا قتادة بن ربعي الأنصاري ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا دخل أحدكم المسجد فلا يجلس حتى يصلي ركعتين‏"‏‏. ‏
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن سعید نے، ان سے غامر بن عبد اللہ بن زبیر نے بیان کیا، انہوں نے عمرو بن سلیم زرقی سے، انہوں نے ابو قتادہ بن ربعی انصاری صحابی رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی تم میں سے مسجد میں آئے تو نہ بیٹھے جب تک دو رکعت ( تحیة المسجدکی ) نہ پڑھ لے۔

حدیث نمبر : 1164
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم انصرف‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( ہمارے گھر میں جب دعوت میں آئے تھے ) دو رکعت نماز پڑھائی اور پھر واپس تشریف لے گئے۔

حدیث نمبر : 1165
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني سالم، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين قبل الظهر، وركعتين بعد الظهر، وركعتين بعد الجمعة، وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء‏.‏
ہم سے یحی بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے عقیل سے بیان کیا، عقیل سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی اور انہیں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، آپ نے بتلایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر سے پہلے دو رکعت سنت پڑھی اور ظہر کے بعد دو رکعت اور جمعہ کے بعد دو رکعت اور مغرب کے بعد دو رکعت اور عشاءکے بعد بھی دو رکعت ( نماز سنت ) پڑھی ہے۔

حدیث نمبر : 1166
حدثنا آدم، قال أخبرنا شعبة، أخبرنا عمرو بن دينار، قال سمعت جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب ‏"‏ إذا جاء أحدكم والإمام يخطب ـ أو قد خرج ـ فليصل ركعتين‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبر دی، انہیں عمرو بن دینار نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص بھی ( مسجد میں ) آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو یا خطبہ کے لیے نکل چکا ہو تووہ دو رکعت نماز ( تحیة المسجد کی ) پڑھ لے۔

حدیث نمبر : 1167
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا سيف بن سليمان المكي، سمعت مجاهدا، يقول أتي ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ في منزله فقيل له هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد دخل الكعبة قال فأقبلت فأجد رسول الله صلى الله عليه وسلم قد خرج، وأجد بلالا عند الباب قائما فقلت يا بلال، صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في الكعبة قال نعم‏.‏ قلت فأين قال بين هاتين الأسطوانتين‏.‏ ثم خرج فصلى ركعتين في وجه الكعبة‏.‏ قال أبو عبد الله قال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ أوصاني النبي صلى الله عليه وسلم بركعتى الضحى‏.‏ وقال عتبان غدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر ـ رضى الله عنه ـ بعد ما امتد النهار وصففنا وراءه فركع ركعتين‏.‏
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سیف بن سلیمان نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ( مکہ شریف میں ) اپنے گھرآئے۔ کسی نے کہا بیٹھے کیا ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ آگئے بلکہ کعبہ کے اندر بھی تشریف لے جا چکے ہیں۔ عبد اللہ نے کہا یہ سن کر میں آیا۔ دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ سے باہر نکل چکے ہیں اور بلال رضی اللہ عنہ دروازے پر کھڑے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اے بلال! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ میں نماز پڑھی؟ انہوں نے کہا کہ ہاں پڑھی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کہاں پڑھی تھی؟ انہوں نے بتایا کہ یہاں ان دوستونوں کے درمیان۔ پھر آپ باہرتشریف لائے اور دو رکعتیں کعبہ کے دروازے کے سامنے پڑھیں اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاشت کی دو رکعتوں کی وصیت کی تھی اور عتبان نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما صبح دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے۔ ہم نے آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے صف بن ا لی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز پڑھائی۔

ان تمام روایتوں سے امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نفل نماز خواہ دن ہی میں کیوں نہ پڑھی جائے، دو دو رکعت کر کے پڑھنا افضل ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔
 
Top