• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : مسافر جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرے تو ظہر کی نماز میں عصر کا وقت آنے تک دیر کرے

فيه ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
( مسافر جب سورج ڈھلنے سے پہلے کوچ کرے تو ظہر کی نماز میں عصر کا وقت آنے تک دیر کرے ) اس کو ابن عباس رضی اللہ عنہمانے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے

حدیث نمبر : 1111
حدثنا حسان الواسطي، قال حدثنا المفضل بن فضالة، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر، ثم يجمع بينهما، وإذا زاغت صلى الظهر ثم ركب‏.‏
ہم سے حسان واسطی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مفضل بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اگر سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر کی نماز عصر تک نہ پڑھتے پھر ظہر اور عصر ایک ساتھ پڑھتے اور اگر سورج ڈھل چکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھ لیتے پھر سوار ہوتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : سفر اگر سورج ڈھلنے کے بعد شروع ہو تو پہلے ظہر پڑھ لے پھر سوار ہو

حدیث نمبر : 1112
حدثنا قتيبة، قال حدثنا المفضل بن فضالة، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا ارتحل قبل أن تزيغ الشمس أخر الظهر إلى وقت العصر، ثم نزل فجمع بينهما، فإن زاغت الشمس قبل أن يرتحل صلى الظهر ثم ركب‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مفضل بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج ڈھلنے سے پہلے سفر شروع کرتے تو ظہر عصر کا وقت آنے تک نہ پرھتے۔ پھر کہیں ( راستے میں ) ٹھہر تے اور ظہر اور عصر ملا کر پڑھتے لیکن اگر سفر شروع کرنے سے پہلے سورج ڈھل چکا ہوتا تو پہلے ظہر پڑھتے پھر سوار ہوتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان

حدیث نمبر : 1113
حدثنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيته وهو شاك، فصلى جالسا وصلى وراءه قوم قياما، فأشار إليهم أن اجلسوا، فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ عروہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیما ر تھے اس لیے آپ نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھائی، بعض لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے۔ لیکن آپ نے انہیں اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اس لیے جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھا ئے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔

حدیث نمبر : 1114
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال سقط رسول الله صلى الله عليه وسلم من فرس فخدش ـ أو فجحش ـ شقه الأيمن، فدخلنا عليه نعوده، فحضرت الصلاة فصلى قاعدا فصلينا قعودا وقال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ فقولوا ربنا ولك الحمد‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے اور اس کی وجہ سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آگئے۔ ہم مزاج پرسی کے لیے گئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم نے بھی بیٹھ کر آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اسی موقع پر فرمایا تھا کہ امام اس لیے ہے تا کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھا ئے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا ولک الحمد کہو۔

ہر دو احادیث میں مقتدیوں کے لیے بیٹھنے کا حکم پہلے دیا گیا تھا۔ بعد میں آخری نماز مرض الموت میں جو آپ نے پڑھائی اس میں آپ بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس سے پہلا حکم منسوخ ہو گیا۔

حدیث نمبر : 1115
حدثنا إسحاق بن منصور، قال أخبرنا روح بن عبادة، أخبرنا حسين، عن عبد الله بن بريدة، عن عمران بن حصين ـ رضى الله عنه ـ أنه سأل نبي الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ أخبرنا إسحاق قال أخبرنا عبد الصمد قال سمعت أبي قال حدثنا الحسين عن ابن بريدة قال حدثني عمران بن حصين ـ وكان مبسورا ـ قال سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعدا فقال ‏"‏ إن صلى قائما فهو أفضل، ومن صلى قاعدا فله نصف أجر القائم، ومن صلى نائما فله نصف أجر القاعد‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں حسین نے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن بریدہ نے، انہیں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ( دوسری سند ) اور ہمیں اسحاق بن منصور نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبد الصمد نے خبر دی، کہا کہ میں نے اپنے باپ عبدالوارث سے سنا، کہا کہ ہم سے حسین نے بیا ن کیا اور ان سے ا بن بریدہ نے کہا کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ بواسیر کے مریض تھے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی آدمی کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا کہ آپ نے فرمایا کہ افضل یہی ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے اور لیٹے لیٹے پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔

تشریح : اس حدیث میں ایک اصول بتایا گیا ہے کہ کھڑے ہو کر بیٹھ کر اور لیٹ کر نمازوں کے ثواب میں کیا تفاوت ہے۔ رہی صورت مسئلہ کہ لیٹ کر نماز جائز بھی ہے یا نہیں اس سے کوئی بحث نہیں کی گئی ہے ا س لیے اس حدیث پر یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ جب لیٹ کر نماز جائز ہی نہیں تو حدیث میں اس پرثواب کا کیسے ذکر ہو رہا ہے؟ مصنف رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث پر جو عنوان لگایا ہے اس کا مقصد اسی اصول کی وضاحت ہے۔ اس کی تفصیلات دوسرے مواقع پر شارع سے خود ثابت ہیں۔ اس لیے عملی حدود میں جواز اور عدم جواز کافیصلہ انہیں تفصیلات کے پیش نظر ہوگا۔ اس باب کی پہلی دو احادیث پر بحث پہلے گزر چکی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عذر کی وجہ سے مسجد میں نہیں جا سکتے تھے اس لیے آپ نے فرض اپنی قیامگاہ پر ادا کئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوکر عیادت کے لیے حاضر ہوئے اور جب آپ کو نماز پڑھتے دیکھا تو آپ کے پیچھے انہوں نے بھی اقتداءکی نیت باندھ لی۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے آپ نے انہیں منع کیا کہ نفل نماز میں امام کی حالت کے اس طرح خلاف مقتدیوں کے لیے کھڑا ہونا مناسب نہیں ہے۔ ( تفہیم البخاری، پ:5ص:13 ) جو مریض بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکے وہ لیٹ کر پڑھ سکتا ہے۔ جس کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ امام کے ساتھ مقتدیوں کا بیٹھ کر نماز پڑھنا بعد میں منسوخ ہوگیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : بیٹھ کر اشاروں سے نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 1116
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا حسين المعلم، عن عبد الله بن بريدة، أن عمران بن حصين ـ وكان رجلا مبسورا ـ وقال أبو معمر مرة عن عمران، قال سألت النبي صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل وهو قاعد فقال ‏"‏ من صلى قائما فهو أفضل، ومن صلى قاعدا فله نصف أجر القائم، ومن صلى نائما فله نصف أجر القاعد‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله نائما عندي مضطجعا ها هنا‏.‏
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسین معلم نے بیا ن کیا اور ان سے عبداللہ بن بریدہ نے کہ عمران بن حصین نے جنہیں بواسیر کا مرض تھا۔ اور کبھی ابومعمر نے یوں کہا کہ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنا افضل ہے لیکن اگر کوئی بیٹھ کر نماز پڑھے تو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے اسے آدھا ثواب ملے گا اور لیٹ کر پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملے گا۔ ابوعبداللہ ( حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ میں نائم مضطجع کے معنی میں ہے یعنی لیٹ کر نماز پڑھنے والا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : جب بیٹھ کر بھی نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہو تو کروٹ کے بل لیٹ کر پڑھے

وقال عطاء إن لم يقدر أن يتحول إلى القبلة صلى حيث كان وجهه‏.
اور عطاء رحمہ اللہ نے کہا کہ اگر قبلہ رخ ہو نے کی بھی طاقت نہ ہوتو جس طرف اس کا رخ ہو ادھر ہی نماز پڑھ سکتا ہے۔

حدیث نمبر : 1117
حدثنا عبدان، عن عبد الله، عن إبراهيم بن طهمان، قال حدثني الحسين المكتب، عن ابن بريدة، عن عمران بن حصين ـ رضى الله عنه ـ قال كانت بي بواسير فسألت النبي صلى الله عليه وسلم عن الصلاة فقال ‏"‏ صل قائما، فإن لم تستطع فقاعدا، فإن لم تستطع فعلى جنب‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، ان سے امام عبداللہ بن مبارک نے، ان سے ابراہیم بن طہمان نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حسین مکتب نے ( جو بچوں کو لکھنا سکھاتا تھا ) بیان کیا، ان سے ابن بریدہ نے اور ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے بواسیر کا مرض تھا۔ اس لیے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر نماز پڑھا کرو اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو بیٹھ کر اور اگر اس کی بھی نہ ہو تو پہلو کے بل لیٹ کر پڑھ لو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : اگر کسی شخص نے نماز بیٹھ کر شروع کی لیکن دوران نماز میں وہ تندرست ہو گیا یا مرض میں کچھ کمی محسوس کی تو باقی نماز کھڑے ہوکر پوری کرے

وقال الحسن إن شاء المريض صلى ركعتين قائما وركعتين قاعدا‏.‏
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے کہا کہ مریض دو رکعت بیٹھ کر اور دو رکعت کھڑے ہو کر پڑھ سکتا ہے۔

حدیث نمبر : 1118
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أم المؤمنين أنها أخبرته أنها لم تر رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي صلاة الليل قاعدا قط حتى أسن، فكان يقرأ قاعدا حتى إذا أراد أن يركع قام، فقرأ نحوا من ثلاثين آية أو أربعين آية، ثم ركع‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ عروہ بن زبیر نے اور انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بیٹھ کر نماز پڑھتے نہیں دیکھا البتہ جب آپ ضعیف ہو گئے تو قرات قرآن نماز میں بیٹھ کر کر تے تھے، پھر جب رکوع کا وقت آتا تو کھڑے ہو جاتے اور پھر تقریبا تیس یا چالیس آیتیں پڑھ کر رکوع کرتے۔

حدیث نمبر : 1119
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن عبد الله بن يزيد، وأبي النضر، مولى عمر بن عبيد الله عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة أم المؤمنين ـ رضى الله عنها ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي جالسا فيقرأ وهو جالس، فإذا بقي من قراءته نحو من ثلاثين أو أربعين آية قام فقرأها وهو قائم، ثم يركع ثم يسجد، يفعل في الركعة الثانية مثل ذلك، فإذا قضى صلاته نظر، فإن كنت يقظى تحدث معي، وإن كنت نائمة اضطجع‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے عبداللہ بن یزید اور عمر بن عبید اللہ کے غلام ابوالنضر سے خبر دی، انہیں ابو سلمہ بن عبد الرحمن بن عوف نے، انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز بیٹھ کر پڑھنا چاہتے تو قرات بیٹھ کر کرتے۔ جب تقریبا تیس چالیس آیتیں پڑھنی باقی رہ جاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں کھڑے ہو کر پڑھتے۔ پھر رکوع اور سجدہ کرتے پھر دوسری رکعت میں بھی اسی طرح کرتے۔ نماز سے فارغ ہونے پر دیکھتے کہ میں جاگ رہی ہوں تو مجھ سے باتیں کرتے لیکن اگر میں سوتی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی لیٹ جاتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب التہجد


صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : رات میں تہجد پڑھنا

وقوله عز وجل ‏{‏ومن الليل فتهجد به نافلة لك‏}‏
اور رات کے ایک حصہ میں تہجد پڑھ یہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے زیادہ حکم ہے۔

حدیث نمبر : 1120
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا سليمان بن أبي مسلم، عن طاوس، سمع ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل يتهجد قال ‏"‏ اللهم لك الحمد أنت قيم السموات والأرض ومن فيهن ولك الحمد، لك ملك السموات والأرض ومن فيهن، ولك الحمد أنت نور السموات والأرض، ولك الحمد أنت الحق، ووعدك الحق، ولقاؤك حق، وقولك حق، والجنة حق، والنار حق، والنبيون حق، ومحمد صلى الله عليه وسلم حق، والساعة حق، اللهم لك أسلمت، وبك آمنت وعليك توكلت، وإليك أنبت، وبك خاصمت، وإليك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت وما أعلنت، أنت المقدم وأنت المؤخر، لا إله إلا أنت ـ أو لا إله غيرك ـ‏"‏‏. ‏ قال سفيان وزاد عبد الكريم أبو أمية ‏"‏ ولا حول ولا قوة إلا بالله‏"‏‏. ‏ قال سفيان قال سليمان بن أبي مسلم سمعه من طاوس عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سلیمان بن ابی مسلم نے بیان کیا، ان سے طاؤس نے اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا پڑھتے۔ (جس کاترجمہ یہ ہے) ”اے میرے اللہ!ہر طرح کی تعریف تیرے ہی لیے زیبا ہے، تو آسمان اور زمین اور ان میں رہنے والی تمام مخلوق کا سنبھالنے والا ہے اور حمد تمام کی تمام بس تیرے ہی لیے مناسب ہے آسمان اور زمین ان کی تمام مخلوقات پر حکومت صرف تیرے ہی لیے ہے اور تعریف تیرے ہی لیے ہے، تو آسمان اور زمین کا نور ہے اور تعریف تیرے ہی لیے زیباہے ، تو سچا ہے، تیرا وعدہ سچا، تیری ملاقات سچی، تیرا فرمان سچاہے، جنت سچ ہے، دوزخ سچ ہے، انبیاء سچے ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں اور قیامت کاہونا سچ ہے۔ اے میرے اللہ!میں تیرا ہی فرماں بردار ہوں اور تجھی پر ایمان رکھتا ہوں، تجھی پر بھروسہ ہے، تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں، تیرے ہی عطا کئے ہوئے دلائل کے ذریعہ بحث کرتا ہوں اور تجھی کو حکم بناتا ہوں۔ پس جو خطائیں مجھ سے پہلے ہوئیں اورجو بعد میں ہوں گی ان سب کی مغفرت فرما، خواہ وہ ظاہر ہوئی ہوں یا پوشیدہ۔ آگے کرنے ولااورپیچھے رکھنے والا تو ہی ہے۔معبود صرف توہی ہے۔ یا(یہ کہا کہ )تیرے سوا کوئی معبود نہیں“۔ ابوسفیان نے بیان کیا کہ عبدالکریم ابو امیہ نے اس دعا میں یہ زیادتی کی ہے(لاحول ولا قوۃ الا باللہ)سفیان نے بیان کیا کہ سلیمان بن مسلم نے طاؤس سے یہ حدیث سنی تھی، انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عبا س رضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم سے۔

تشریح : مسنون ہے کہ تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے والے خوش نصیب مسلمان اٹھتے ہی پہلے یہ دعا پڑھ لیں۔ لفظ تہجد باب تفعل کا مصدر ہے اس کا مادہ ہجود ہے۔ علامہ قسطلانی فرماتے ہیں اصلہ ترک الھجود وھو النوم قال ابن فارس المتھجد المصلی لیلا فتھجد بہ ای اترک الھجود للصلٰوۃ یعنی اصل اس کا یہ ہے کہ رات کو سونا نماز کے لیے ترک دیا جائے۔ پس اصطلاحی معنی متہجدکے مصلّی ( نمازی ) کے ہیں جو رات میں اپنی نیند کو خیرباد کہہ کر نماز میں مشغول ہو جائے۔ اصطلاح میں رات کی نماز کو نماز تہجد سے موسوم کیا گیا۔ آیت شریفہ کے جملہ نافلۃ لک کی تفسیر میں علامہ قسطلانی لکھتے ہیں۔ فریضۃ زائدۃ لک علی الصلوات المفروضۃ خصصت بھامن بین امتک روی الطبرانی باسناد ضعیف عن ابن عباس ان النافلۃ للنبی صلی اللہ علیہ وسلم خاصۃ لانہ امر بقیام اللیل وکتب علیہ دون امتہ یعنی تہجد کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نماز پنجگانہ کے علاوہ فرض کی گئی اور آپ کو اس بارے میں امت سے ممتاز قرار دیا گیا کہ امت کے لیے یہ فرض نہیں مگر آپ پر فرض ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی لفظ نافلۃ لک کی تفسیر میں فرمایا کہ یہ خاص آپ کے لیے بطور ایک فرض نماز کے ہے۔ آپ رات کی نماز کے لیے مامور کیے گئے اور امت کے علاوہ آپ پر اسے فرض قرار دیا گیا لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے بیان کیا کہ بعد میں آپ کے اوپر سے بھی اس کی فرضیت کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔

بہرحال نماز تہجد فرائض پنجگانہ کے بعد بڑی اہم نماز ہے جو پچھلی رات میں ادا کی جاتی ہے اور اس کی گیارہ رکعات ہیں جن میں آٹھ رکعتیں دو دو کرکے سلام سے ادا کی جاتی ہیں اورآخر میں تین وتر پڑھے جاتے ہیں۔ یہی نماز رمضان میں تراویح سے موسوم کی گئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : رات کی نماز کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر : 1121
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا هشام، قال أخبرنا معمر،‏.‏ وحدثني محمود، قال حدثنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر، عن الزهري، عن سالم، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال كان الرجل في حياة النبي صلى الله عليه وسلم إذا رأى رؤيا قصها على رسول الله صلى الله عليه وسلم فتمنيت أن أرى رؤيا فأقصها على رسول الله صلى الله عليه وسلم وكنت غلاما شابا، وكنت أنام في المسجد على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فرأيت في النوم كأن ملكين أخذاني فذهبا بي إلى النار فإذا هي مطوية كطى البئر، وإذا لها قرنان، وإذا فيها أناس قد عرفتهم فجعلت أقول أعوذ بالله من النار ـ قال ـ فلقينا ملك آخر فقال لي لم ترع‏.
ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن یوسف صنعانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر نے حدیث بیان کی ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سالم نے، انہیں ان کے باپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب کوئی خواب دیکھتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم تعبیر دیتے ) میرے بھی دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں بھی کوئی خواب دیکھتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتا، میں ابھی نوجوان تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد میں سوتا تھا۔ چنانچہ میں نے خواب میں دیکھا کہ دو فرشتے مجھے پکڑ کر دوزخ کی طرف لے گئے۔ میں نے دیکھا کہ دوزخ پر کنویں کی طرح بن دش ہے ( یعنی اس پر کنویں کی سی منڈیر بن ی ہوئی ہے ) اس کے دو جانب تھے۔ دوزخ میں بہت سے ایسے لوگو ں کو دیکھا جنہیں میں پہچانتا تھا۔ میں کہنے لگا دوزخ سے خدا کی پناہ! انہوں نے بیان کیاکہ پھر ہم کو ایک فرشتہ ملا اور اس نے مجھ سے کہا ڈرو نہیں۔

حدیث نمبر : 1122
فقصتها حفصة على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: (نعم الرجل عبد الله، لو كان يصلي من الليل). فكان بعد لا ينام من الليل إلا قليلا.
یہ خواب میں نے (اپنی بہن ) حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو سنایا اور انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔ تعبیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ عبد اللہ بہت خوب لڑکا ہے۔ کاش رات میں نماز پڑھا کرتا۔ (راوی نے کہا کہ آپ کے اس فرمان کے بعد) عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما رات میں بہت کم سوتے تھے۔ (زیادہ عبادت ہی کرتے رہتے)۔

تشریح : حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس خواب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی رات میں غفلت کی نیند پر محمول فرمایا اور ارشاد ہوا کہ وہ بہت ہی اچھے آدمی ہیں مگر اتنی کسر ہے کہ رات کو نماز تہجد نہیں پڑھتے۔ اس کے بعد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نماز تہجد کو اپنی زندگی کا معمول بنا لیا۔ اس سے معلوم ہو اکہ نماز تہجد کی بے حد فضیلت ہے۔ اس بارے میں کئی احادیث مروی ہیں۔ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علیکم بقیام اللیل فانہ داب الصالحین قبلکم یعنی اپنے لیے نمازتہجد کو لازم کر لو یہ تمام صالحین ،نیکو کار بندوں کا طریقہ ہے۔ حدیث سے یہ بھی نکلتا ہے کہ رات میں تہجد پڑھنا دوزخ سے نجات پانے کا باعث ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کو ان کی والدہ نے نصیحت فرمائی تھی رات بہت سونا اچھا نہیں جس سے آدمی قیامت کے دن محتاج ہو کر رہ جائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : رات کی نمازوں میں لمبے سجدے کرنا

حدیث نمبر : 1123
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي إحدى عشرة ركعة، كانت تلك صلاته، يسجد السجدة من ذلك قدر ما يقرأ أحدكم خمسين آية قبل أن يرفع رأسه، ويركع ركعتين قبل صلاة الفجر، ثم يضطجع على شقه الأيمن حتى يأتيه المنادي للصلاة‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی اور انہیں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( رات میں ) گیارہ رکعتیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہی نماز تھی۔ لیکن اس کے سجدے اتنے لمبے ہوا کرتے کہ تم میں سے کوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اٹھانے سے قبل پچاس آیتیں پڑھ سکتا تھا ( اور طلوع فجر ہونے پر ) فجر کی نماز سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت سنت پڑھتے۔ اس کے بعد دائیں پہلو پر لیٹ جاتے۔ آخر مؤذن آپ کو نما ز کے لیے بلانے آتا۔

تشریح : فجر کی سنتوں کے بعد تھوڑی دیر کے لیے داہنی کروٹ پر لیٹنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔ جس قدر روایات فجر کی سنتوں کے بارے میں مروی ہیں ان سے بیشتر میں اس “اضطجاع”کا ذکر ملتا ہے۔اسی لیے اہل حدیث کا یہ معمول ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر سنت اور آپ کی ہر مبارک عادت کو اپنے لیے سرمایہ نجات جانتے ہیں۔ پچھلے کچھ متعصب ومتشدد قسم کے بعض حنفی علماءنے اس لیٹنے کو بدعت قرار دے دیا تھا مگر آج کل سنجیدگی کا دور ہے اس میں کوئی اوٹ پٹانگ بات ہانک دینا کسی بھی اہل علم کے لیے زیبا نہیں، اسی لیے آج کل کے سنجیدہ علماءاحناف نے پہلے متشدد خیال والوں کی تردید کی ہے اور صاف لفظوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کا اقرار کیاہے۔

چنانچہ صاحب تفہیم البخاری کے یہاں یہ الفاظ ہیں:
“اس حدیث میں سنت فجر کے بعدلیٹنے کاذکر ہے۔ احناف کی طرف اس مسئلے کی نسبت غلط ہے کہ ان کے نزدیک سنت فجر کے بعد لیٹنا بدعت ہے۔ اس میں بدعت کا کوئی سوال ہی نہیں۔ یہ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی، عبادات سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں البتہ ضروری سمجھ کر فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا پسندیدہ نہیں خیال کیا جاسکتا، اس حیثیت سے کہ یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک عادت تھی اس میں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے تو ضرور اجر وثواب ملے گا”۔
فاضل موصوف نے بہر حال اس عادت نبوی پر عمل کرنے والوں کے لیے اجر وثواب کا فتویٰ دے ہی دیا ہے۔ باقی یہ کہنا کہ عبادات سے اس کا کوئی تعلق نہیں غلط ہے، موصوف کو معلوم ہوگا کہ عبادت ہر وہ کام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دینی امور میں تقرب الی اللہ کے لیے انجام دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ لیٹنا بھی تقرب الی اللہ ہی کے لیے ہوتا تھا کیونکہ دوسری روایات میں موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت لیٹ کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللھم اجعل فی قلبی نورا وفی بصری نورا وفی سمعی نورا وعن یمینی نورا وعن یساری نورا وفوقی نورا وتحتی نورا و امامی نورا وخلفی نورا واجعل لی نورا وفی لسانی نورا وفی عصبی نورا ولحمی نورا ودمی نورا وشعری نورا وبشری نورا واجعل فی نفسی نورا واعظم لی نورا اللھم اعطنی نورا ( صحیح مسلم ) اس دعا کے بعد کون ذی عقل کہہ سکتا ہے کہ آپ کا یہ کام محض عادت ہی سے متعلق تھااور بالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت ہی سہی بہر حال آپ کے سچے فدائیوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا آپ کی ہر عادت آپ کا ہرطور طریقہ زندگی باعث صد فخر ومباہات ہے۔ اللہ عمل کی توفیق بخشے آمین۔

بہ مصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
وگر با ونہ رسیدی تمام بولبہی است


آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں یہ بار بار کہا کرتے سبحنک اللھم ربنا وبحمدک اللھم اغفرلی ایک روایت میں یوں ہے سبحنک لا الہ الا انت سلف صالحین بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں لمبا سجدہ کرتے۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما اتنی دیر تک سجدہ میں رہتے کہ چڑیاں اتر کر ان کی پیٹھ پر بیٹھ جاتیں اور سمجھتیں کہ یہ کوئی دیوار ہے ( وحیدی )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : مریض بیماری میں تہجد ترک سکتا ہے

حدیث نمبر : 1124
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا سفيان، عن الأسود، قال سمعت جندبا، يقول اشتكى النبي صلى الله عليه وسلم فلم يقم ليلة أو ليلتين‏.‏
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے اسود بن قیس سے بیان کیا، کہا کہ میں نے جندب رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو ایک یادو رات تک ( نماز کے لیے ) نہ اٹھ سکے۔

حدیث نمبر : 1125
حدثنا محمد بن كثير، قال أخبرنا سفيان، عن الأسود بن قيس، عن جندب بن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال احتبس جبريل صلى الله عليه وسلم على النبي صلى الله عليه وسلم فقالت امرأة من قريش أبطأ عليه شيطانه‏.‏ فنزلت ‏{‏والضحى * والليل إذا سجى * ما ودعك ربك وما قلى‏}‏
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں سفیان ثوری نے اسود بن قیس سے خبر دی، ان سے جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام ( ایک مرتبہ چند دنوں تک ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ( وحی لے کر ) نہیں آئے تو قریش کی ایک عورت ( ام جمیل ابو لہب کی بیوی ) نے کہا کہ اب اس کے شیطان نے اس کے پاس آنے سے دیر لگائی۔ اس پر یہ سورت اتری ﴿والضحی واللیل اذا سجی ماودعک ربک وماقلی﴾

تشریح : ترجمہ یہ ہے قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب وہ ڈھانپ لے تیرے مالک نے نہ تجھ کو چھوڑا نہ تجھ سے غصے ہوا۔ اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے اور اصل یہ ہے کہ یہ حدیث اگلی حدیث کا تتمہ ہے جب آپ بیمار ہوئے تھے تو رات کا قیام چھوڑ دیا تھا۔ اسی زمانہ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بھی آنا موقوف کر دیا اور شیطان ابو لہب کی بیوی ( ام جمیل بنت حرب اخت ابی سفیان امراۃ ابی لہب حمالۃ الحطب ) نے یہ فقرہ کہا۔ چنانچہ ابن ابی حاتم نے جندب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آپ کی انگلی کو پتھر کی مار لگی آپ نے فرمایا ھل انت الا اصبع دمیت وفی سبیل اللہ ما لقیت تو ہے کیا ایک انگلی ہے اللہ کی راہ میں تجھ کو مار لگی خون آلودہ ہوئی۔ اسی تکلیف سے آپ دوتین روز تہجد کے لیے بھی نہ اٹھ سکے تو ایک عورت ( مذکورہ ام جمیل ) کہنے لگی میں سمجھتی ہوں اب تیرے شیطان نے تجھ کو چھوڑ دیا۔ اس وقت یہ سورۃ اتری والضحی واللیل اذا سجی ما ودعک ربک وما قلی ( الضحی:1-3 ) ( وحیدی )

احادیث گذشتہ کو بخاری شریف کے بعض نسخوں میں لفظ ح سے نقل کر کے ہر دوکو ایک ہی حدیث شمار کیا گیا ہے۔
 
Top