Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی سے نکل جائے تو قصر کرے
حدیث نمبر : 1088
وخرج علي ـ عليه السلام ـ فقصر وهو يرى البيوت فلما رجع قيل له هذه الكوفة. قال لا حتى ندخلها.
اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( کوفہ سے سفر کے ارادہ سے ) نکلے تو نماز قصر کرنی اسی وقت سے شروع کر دی جب ابھی کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے اور پھر واپسی کے وقت بھی جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ کوفہ سامنے ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب تک ہم شہر میں داخل نہ ہو جائیں نماز پوری نہیں پڑھیں گے۔
حدیث نمبر : 1089
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا سفيان، عن محمد بن المنكدر، وإبراهيم بن ميسرة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال صليت الظهر مع النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة أربعا، وبذي الحليفة ركعتين.
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے، محمد بن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں طہر کی چار رکعت پڑھی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت پڑھی۔
تشریح : دیگر روایتوں میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شام کے ارادہ سے نکلے تھے۔ کوفہ چھوڑتے ہی آپ نے قصر شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح واپسی میں کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن آپ نے اس وقت بھی قصر کیا۔ جب آپ سے کہا گیا کہ اب تو کوفہ کے قریب آگئے! تو فرمایا کہ ہم پوری نماز اس وقت تک نہ پڑھیں گے جب تک ہم کوفہ میں داخل نہ ہو جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ جارہے تھے ظہر کے وقت تک آپ مدینہ میں تھے اس کے بعد سفر شروع ہوگیا پھرآپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا اور وہاں آپ نے عصر چار رکعت کے بجائے صرف دو رکعت پڑھی۔ ذو الحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہو اکہ مسافر جب اپنے مقام سے نکل جائے تو قصر شروع کر دے باب کا یہی مطلب ہے۔
حدیث نمبر : 1090
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت الصلاة أول ما فرضت ركعتين فأقرت صلاة السفر، وأتمت صلاة الحضر. قال الزهري فقلت لعروة ما بال عائشة تتم قال تأولت ما تأول عثمان.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پہلے نماز دو رکعت فرض ہوئی تھی بعد میں سفر کی نماز تواپنی اسی حالت پر رہ گئی البتہ حضر کی نماز پوری ( چار رکعت ) کردی گئی۔ زہری نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ پھر خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیوں نماز پوری پڑھی تھی انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی جو تاویل کی تھی وہی انہوں نے بھی کی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب منیٰ میں پوری نماز پڑھی تو فرمایا کہ میں نے یہ اس لیے کیا کہ بہت سے عوام مسلمان جمع ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نماز کی دو ہی رکعت سمجھ لیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حج کے موقعہ پر نماز پوری پڑھی اور قصر نہیں کیا حالانکہ آپ مسافر تھیں۔ اس لیے آپ کو نماز قصر کرنی چاہیے تھی۔ مگر آپ سفر میں پوری نماز پڑھنا بہتر جانتی تھیں اور قصر کورخصت سمجھتی تھیں۔
باب : جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی سے نکل جائے تو قصر کرے
حدیث نمبر : 1088
وخرج علي ـ عليه السلام ـ فقصر وهو يرى البيوت فلما رجع قيل له هذه الكوفة. قال لا حتى ندخلها.
اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( کوفہ سے سفر کے ارادہ سے ) نکلے تو نماز قصر کرنی اسی وقت سے شروع کر دی جب ابھی کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے اور پھر واپسی کے وقت بھی جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ کوفہ سامنے ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب تک ہم شہر میں داخل نہ ہو جائیں نماز پوری نہیں پڑھیں گے۔
حدیث نمبر : 1089
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا سفيان، عن محمد بن المنكدر، وإبراهيم بن ميسرة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال صليت الظهر مع النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة أربعا، وبذي الحليفة ركعتين.
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے، محمد بن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں طہر کی چار رکعت پڑھی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت پڑھی۔
تشریح : دیگر روایتوں میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شام کے ارادہ سے نکلے تھے۔ کوفہ چھوڑتے ہی آپ نے قصر شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح واپسی میں کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن آپ نے اس وقت بھی قصر کیا۔ جب آپ سے کہا گیا کہ اب تو کوفہ کے قریب آگئے! تو فرمایا کہ ہم پوری نماز اس وقت تک نہ پڑھیں گے جب تک ہم کوفہ میں داخل نہ ہو جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ جارہے تھے ظہر کے وقت تک آپ مدینہ میں تھے اس کے بعد سفر شروع ہوگیا پھرآپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا اور وہاں آپ نے عصر چار رکعت کے بجائے صرف دو رکعت پڑھی۔ ذو الحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہو اکہ مسافر جب اپنے مقام سے نکل جائے تو قصر شروع کر دے باب کا یہی مطلب ہے۔
حدیث نمبر : 1090
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت الصلاة أول ما فرضت ركعتين فأقرت صلاة السفر، وأتمت صلاة الحضر. قال الزهري فقلت لعروة ما بال عائشة تتم قال تأولت ما تأول عثمان.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پہلے نماز دو رکعت فرض ہوئی تھی بعد میں سفر کی نماز تواپنی اسی حالت پر رہ گئی البتہ حضر کی نماز پوری ( چار رکعت ) کردی گئی۔ زہری نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ پھر خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیوں نماز پوری پڑھی تھی انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی جو تاویل کی تھی وہی انہوں نے بھی کی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب منیٰ میں پوری نماز پڑھی تو فرمایا کہ میں نے یہ اس لیے کیا کہ بہت سے عوام مسلمان جمع ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نماز کی دو ہی رکعت سمجھ لیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حج کے موقعہ پر نماز پوری پڑھی اور قصر نہیں کیا حالانکہ آپ مسافر تھیں۔ اس لیے آپ کو نماز قصر کرنی چاہیے تھی۔ مگر آپ سفر میں پوری نماز پڑھنا بہتر جانتی تھیں اور قصر کورخصت سمجھتی تھیں۔