• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : جب آدمی سفر کی نیت سے اپنی بستی سے نکل جائے تو قصر کرے

حدیث نمبر : 1088
وخرج علي ـ عليه السلام ـ فقصر وهو يرى البيوت فلما رجع قيل له هذه الكوفة‏.‏ قال لا حتى ندخلها‏.‏
اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ( کوفہ سے سفر کے ارادہ سے ) نکلے تو نماز قصر کرنی اسی وقت سے شروع کر دی جب ابھی کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے اور پھر واپسی کے وقت بھی جب آپ کو بتایا گیا کہ یہ کوفہ سامنے ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب تک ہم شہر میں داخل نہ ہو جائیں نماز پوری نہیں پڑھیں گے۔

حدیث نمبر : 1089
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا سفيان، عن محمد بن المنكدر، وإبراهيم بن ميسرة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال صليت الظهر مع النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة أربعا، وبذي الحليفة ركعتين‏.‏
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے، محمد بن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ میں طہر کی چار رکعت پڑھی اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت پڑھی۔

تشریح : دیگر روایتوں میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ شام کے ارادہ سے نکلے تھے۔ کوفہ چھوڑتے ہی آپ نے قصر شروع کر دیا تھا۔ اسی طرح واپسی میں کوفہ کے مکانات دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن آپ نے اس وقت بھی قصر کیا۔ جب آپ سے کہا گیا کہ اب تو کوفہ کے قریب آگئے! تو فرمایا کہ ہم پوری نماز اس وقت تک نہ پڑھیں گے جب تک ہم کوفہ میں داخل نہ ہو جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے ارادہ سے مکہ معظمہ جارہے تھے ظہر کے وقت تک آپ مدینہ میں تھے اس کے بعد سفر شروع ہوگیا پھرآپ ذوالحلیفہ میں پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا اور وہاں آپ نے عصر چار رکعت کے بجائے صرف دو رکعت پڑھی۔ ذو الحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہو اکہ مسافر جب اپنے مقام سے نکل جائے تو قصر شروع کر دے باب کا یہی مطلب ہے۔

حدیث نمبر : 1090
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت الصلاة أول ما فرضت ركعتين فأقرت صلاة السفر، وأتمت صلاة الحضر‏.‏ قال الزهري فقلت لعروة ما بال عائشة تتم قال تأولت ما تأول عثمان‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پہلے نماز دو رکعت فرض ہوئی تھی بعد میں سفر کی نماز تواپنی اسی حالت پر رہ گئی البتہ حضر کی نماز پوری ( چار رکعت ) کردی گئی۔ زہری نے بیان کیا کہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ پھر خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیوں نماز پوری پڑھی تھی انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی جو تاویل کی تھی وہی انہوں نے بھی کی۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب منیٰ میں پوری نماز پڑھی تو فرمایا کہ میں نے یہ اس لیے کیا کہ بہت سے عوام مسلمان جمع ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ نماز کی دو ہی رکعت سمجھ لیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی حج کے موقعہ پر نماز پوری پڑھی اور قصر نہیں کیا حالانکہ آپ مسافر تھیں۔ اس لیے آپ کو نماز قصر کرنی چاہیے تھی۔ مگر آپ سفر میں پوری نماز پڑھنا بہتر جانتی تھیں اور قصر کورخصت سمجھتی تھیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : مغرب کی نماز سفر میں بھی تین ہی رکعت ہیں

حدیث نمبر : 1091
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سالم، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أعجله السير في السفر يؤخر المغرب حتى يجمع بينها وبين العشاء‏.‏ قال سالم وكان عبد الله يفعله إذا أعجله السير‏.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، زہری سے انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی آپ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب سفر میں چلنے کی جلدی ہوتی تو آپ مغرب کی نماز دیر سے پڑھتے یہاں تک کہ مغرب اور عشاءایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو بھی جب سفر میں جلدی ہوتی تو اس طرح کرتے۔

حدیث نمبر : 1092
وزاد الليث قال حدثني يونس، عن ابن شهاب، قال سالم كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يجمع بين المغرب والعشاء بالمزدلفة‏.‏ قال سالم وأخر ابن عمر المغرب، وكان استصرخ على امرأته صفية بنت أبي عبيد فقلت له الصلاة‏.‏ فقال سر‏.‏ فقلت الصلاة‏.‏ فقال سر‏.‏ حتى سار ميلين أو ثلاثة ثم نزل فصلى ثم قال هكذا رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي إذا أعجله السير‏.‏ وقال عبد الله رأيت النبي صلى الله عليه وسلم إذا أعجله السير يؤخر المغرب، فيصليها ثلاثا ثم يسلم، ثم قلما يلبث حتى يقيم العشاء فيصليها ركعتين ثم يسلم، ولا يسبح بعد العشاء حتى يقوم من جوف الليل‏.‏
لیث بن سعد نے اس روایت میں اتنا زیادہ کیا کہ مجھ سے یونس نے ا بن شہاب سے بیان کیا، کہ سالم نے بیان کیا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ جمع کر کے پڑھتے تھے۔ سالم نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے مغرب کی نماز اس دن دیر میں پڑھی تھی جب انہیں ان کی بیوی صفیہ بنت ابی عبید کی سخت بیماری کی اطلاع ملی تھی ( چلتے ہوئے ) میں نے کہا کہ نماز! ( یعنی وقت ختم ہوا چاہتا ہے ) لیکن آپ نے فرمایا کہ چلے چلو پھر دوبارہ میں نے کہا کہ نماز! آپ نے پھر فرمایا کہ چلے چلو اس طرح جب ہم دو یا تین میل نکل گئے توآپ اترے اور نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میںنے خود دیکھا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تیزی کے ساتھ چلنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ میں نے خود دیکھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( منزل مقصود تک ) جلدی پہنچنا چاہتے تو پہلے مغرب کی تکبیر کہلواتے اور آپ اس کی تین رکعت پڑھا کر سلام پھیرتے۔ پھرتھوڑی دیر ٹھہر کر عشاء پڑھاتے اور اس کی دو ہی رکعت پر سلام پھیرتے۔ عشاء کے فرض کے بعد آپ سنتیں وغیرہ نہیں پڑھتے تھے آدھی رات کے بعد کھڑے ہو کر نماز پڑھتے۔

تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں مغرب کی تین رکعت فرض نمازادا کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ

باب : نفل نماز سواری پر، اگر چہ سواری کا رخ کسی طرف ہو

حدیث نمبر : 1093
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا عبد الأعلى، قال حدثنا معمر، عن الزهري، عن عبد الله بن عامر، عن أبيه، قال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي على راحلته حيث توجهت به‏.‏

ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معمر نے زہری سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عامر نے اور ان سے ان کے باپ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اونٹنی پر نماز پڑھتے رہتے خواہ اس کا منہ کسی طرف ہو۔

ثابت ہو اکہ نفل سواری پر درست ہیں اسی طرح وتر بھی۔ امام شافعی اور امام مالک اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی قول ہے اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک وتر سواری پر پڑھنی درست نہیں۔

حدیث نمبر : 1094
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن محمد بن عبد الرحمن، أن جابر بن عبد الله، أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي التطوع وهو راكب في غير القبلة‏.
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شیبان نے کہا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبد الرحمن نے بیان کیا، کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نفل نماز اپنی اونٹنی پر غیر قبلہ کی طرف منہ کر کے بھی پڑھتے تھے۔

یہ واقعہ غزوہ انمار کا ہے قبلہ وہاں جانے والوں کے لیے بائیں طرف رہتا ہے سواری اونٹ اور ہر جانور کو شامل ہے۔

حدیث نمبر : 1095
حدثنا عبد الأعلى بن حماد، قال حدثنا وهيب، قال حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، قال وكان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يصلي على راحلته ويوتر عليها، ويخبر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يفعله‏.‏
ہم سے ابوالاعلیٰ بن حماد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نفل نماز سواری پر پڑھتے تھے۔ اسی طرح وتر بھی۔ اور فرماتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا کرتے تھے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : سواری پر اشارے سے نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 1096
حدثنا موسى، قال حدثنا عبد العزيز بن مسلم، قال حدثنا عبد الله بن دينار، قال كان عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يصلي في السفر على راحلته، أينما توجهت يومئ‏.‏ وذكر عبد الله أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يفعله‏.‏
ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے خواہ اس کا منہ کسی طرف ہوتا۔ آپ اشاروں سے نماز پڑھتے۔ آپ کا بیان تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : نمازی فرض نماز کے لیے سواری سے اتر جائے

حدیث نمبر : 1097
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عبد الله بن عامر بن ربيعة، أن عامر بن ربيعة، أخبره قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على الراحلة يسبح، يومئ برأسه قبل أى وجه توجه، ولم يكن رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع ذلك في الصلاة المكتوبة‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے کہ عامر بن ربیعہ نے انہیں خبر دی انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونٹنی پر نماز نفل پڑھتے دیکھا۔ آپ سر کے اشاروں سے پڑھ رہے تھے اس کا خیال کئے بغیر کہ سواری کا منہ کدھر ہوتا ہے لیکن فرض نمازوں میں آپ اس طرح نہیں کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 1098
وقال الليث حدثني يونس، عن ابن شهاب، قال قال سالم كان عبد الله يصلي على دابته من الليل وهو مسافر، ما يبالي حيث ما كان وجهه‏.‏ قال ابن عمر وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسبح على الراحلة قبل أى وجه توجه، ويوتر عليها، غير أنه لا يصلي عليها المكتوبة‏.‏
اور لیث بن سعد نے بیان کیا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ سالم نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سفر میں رات کے وقت اپنے جانور پر نماز پڑھتے کچھ پرواہ نہ کرتے کہ اس کا منہ کس طرف ہے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اونٹنی پر نفل نماز پڑھا کرتے چاہے اس کا منہ کدھر ہی ہو اور وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے البتہ فرض اس پر نہیں پڑھتے تھے۔

ترجمہ باب اسی فقرے سے نکلتا ہے معلوم ہوا فرض نماز کے لیے جانور سے اترتے کیونکہ وہ سواری پر درست نہیں ہے اس پر علماءکا اجماع ہے۔ سواری سے اونٹ گھوڑے، خچر وغیرہ مراد ہیں۔ ریل میں نماز درست ہے۔

حدیث نمبر : 1099
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان، قال حدثني جابر بن عبد الله، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي على راحلته نحو المشرق فإذا أراد أن يصلي المكتوبة نزل فاستقبل القبلة‏.‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے یحییٰ سے بیان کیا ان سے محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان نے بیا ن کیا انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے نماز پڑھتے تھے اور جب فرض پڑھتے تو سواری سے اتر جاتے اور پھر قبلہ کی طرف رخ کر کے پڑھتے۔

تشریح : اس حدیث سے معلو م ہوا کہ جو سواری اپنے اختیار میں ہو بہر حال اسے روک کر فرض نماز نیچے زمین ہی پر پڑھنی چاہیے۔ ( واللہ اعلم بالصواب )

خاتمہ
لِلّٰہِ الحَمدُ وَالمِنَّۃُ کہ شب وروز مسلسل سفر وحضر کی محنت شاقہ کے نیتجہ میں آج بخاری شریف کے پارہ چہارم کی تسوید سے فراغت حاصل کر رہا ہوں یہ محض اللہ کا فضل ہے کہ مجھ جیسا ناچیز انسان اس عظیم اسلامی مقدس کتاب کی یہ خدمت انجام دیتے ہوئے اس کا بامحاورہ ترجمہ وجامع ترین تشریحات اپنے قدردانوں کی خدمت میں پیش کر رہا ہے اپنی بے بضاعتی وہر کمزوری کی بنا پر خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس سلسلہ میں کہاں کہاں کیا کیا لغزشیں مجھ سے ہوئی ہوں گی۔ اللہ پاک میری ان جملہ لغزشوں کو معاف فرمائے اور اس خدمت کو قبول فرمائے اور اسے نہ صرف میرے لیے بلکہ میرے والدین مرحومین وجملہ متعلقین ومیرے جملہ اساتذہ کرام پھر جملہ قدر دانوں کے لیے جن کا مجھے دامے درمے سخنے تعاون حاصل رہا ان سب کے لیے اس کو وسیلہ نجات آخرت بنائے اور توفیق دے کہ ہم سب مل کر اس کتاب مقدس کے تیس پاروں کی اشاعت اس نہج پر کرکے اردو داں دین پسند طبقہ کے لیے ایک بہترین ذخیرہ معلومات دین مہیا کردیں۔ اس سلسلہ میں اپنے اساتذئہ کرام اور جمیع علماءعظام سے بھی پر زور وپر خلوص درخواست کروں گا کہ ترجمہ و تشریحات میں اپنی ذمہ داریوں کے پیش نظر پورے طور پرمیں نے ہر ممکن تحقیق کی کوشش کی ہے مسائل خلافیہ میں ہر ممکن تفصیلات کو کام میں لاتے ہوئے مخالفین وموافقین سب ہی کو اچھے لفظوں میں یاد کیا ہے اور مسلک محدثین رحمہم اللہ اجمعین کے بیان کے لیے عمدہ سے عمدہ الفاظ لائے گئے ہیں۔ پھر بھی مجھ کو اپنی بھول چوک پر ندامت ہے اگر آپ حضرات کو کہیں بھی علمی اخلاقی کوئی خامی نظر آئے تو للہ اس پر خادم کو ازراہ اخلاص آگاہ فرمائیں شکریہ کے ساتھ آپ کے مشورہ پر توجہ دی جائے گی اورطبع ثانی میں ہر ممکن اصلاح کی کوشش کی جائے گی۔ اپنا مقصد خالصتاً فرامین رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اصل منشاءکے تحت زبان اردو میں منتقل کرنا ہے اور اس کے لیے کتاب یعنی صحیح بخاری شریف مستند ومعتمد کتاب ہے جس کی صحت پر بیشتر اکابر امت کا اتفاق ہے۔

آخر میں اپنے محترم اراکین ٹرسٹ بورڈجامع اہل حدیث ( مسجد چار مینار ) بنگلور شہر کا شکر گزار ہوں اور ان کی ترقی دارین کے لیے دعا ہوں کہ ان حضرات کی پرخلوص دعوت پر مجھے امسال بھی رمضان المبارک1388ھ یہاں جامع اہلحدیث میں گزارنے کا موقع ملا اور پر سکون ماحول میں یہاں اس پارے کی تسوید کا کام انجام کو پہنچا الحمد للہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی الہ واصحابہ اجمعین برحمتک یا ارحم الراحمین۔

غرض نقشے است کزما یاد ماند
کہ ہستی رانمی بینم بقائے

خادم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم محمد داؤد راز دہلوی عفی عنہ ( واردحال )
جامع اہلحدیث کینٹ بنگلور
24 رمضان المبارک 1388ھ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : نفل نماز گدھے پر بیٹھے ہوئے ادا کرنا

حدیث نمبر : 1100
حدثنا أحمد بن سعيد، قال حدثنا حبان، قال حدثنا همام، قال حدثنا أنس بن سيرين، قال استقبلنا أنسا حين قدم من الشأم، فلقيناه بعين التمر، فرأيته يصلي على حمار ووجهه من ذا الجانب، يعني عن يسار القبلة‏.‏ فقلت رأيتك تصلي لغير القبلة‏.‏ فقال لولا أني رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعله لم أفعله‏.‏ رواه ابن طهمان عن حجاج عن أنس بن سيرين عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے احمد بن سعید نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے حبان بن ہلال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن سیرین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ انس رضی اللہ عنہ شام سے جب ( حجاج کی خلیفہ سے شکایت کرکے ) واپس ہوئے تو ہم ان سے عین التمر میں ملے۔ میں نے دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھ رہے تھے ا ور آپ کا منہ قبلہ سے بائیں طرف تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ میں نے آپ کو قبلہ کے سوا دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انہوں نے جواب دیا کہ اگرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔ اس روایت کو ابراہیم ابن طہمان نے بھی حجاج سے، انہوں نے انس بن سیرین سے، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیاہے۔

تشریح : حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بصرہ سے شام میں خلیفہ وقت عبد الملک بن مروان کے ہاں حجاج بن یوسف ظالم ثقفی کی شکایت لے کر گئے تھے۔ جب لوٹ کر بصرہ آئے تو انس بن سیرین آپ کے استقبال کو گئے اور آپ کو دیکھا کہ گدھے پر نفل نماز اشاروں سے ادا کر رہے ہیں اور منہ بھی غیر قبلہ کی طرف ہے۔آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی سواری پر نفل نماز ایسے ہی پڑھتے دیکھا ہے۔ یہ روایت مسلم میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے یوں ہے رایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی علی حمار وھو متوجہ الی خیبر کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ ( نفل نماز ) گدھے پر ادا فرما رہے تھے اور آپ کا چہرہ مبارک خیبر کی طرف تھا۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کو ابراہیم بن طہمان کی سند سے نقل فرمایا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ کو یہ حدیث ابراہیم بن طہمان کے طریق سے موصولا نہیں ملی، البتہ سراج نے عمرو بن عامر سے، انہوں نے حجاج سے، اس لفظ سے روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر نماز پڑھتے چاہے جدھر وہ منہ کرتی تو حضر ت انس رضی اللہ عنہ نے گدھے پر نماز پڑھنے کو اونٹنی کے اوپر پڑھنے پر قیاس کیا اور سراج نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا، انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گدھے پر نماز پڑھتے دیکھا اور آپ خیبر کی طرف منہ کئے ہوئے تھے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرنا بالاجماع فرض ہے۔ مگر جب آدمی عاجز ہو یا خوف ہو یا نفل نماز ہو تو ان حالات میں یہ فرض اٹھ جاتا ہے۔ نفل نماز کے لیے بھی ضروری ہے کہ شروع کرتے وقت نیت باندھنے پر منہ قبلہ رخ ہو بعد میں وہ سواری جدھر بھی رخ کرے نماز نفل ادا کرنا جائز ہے۔ عین التمر ایک گاؤں ملک شام میں عراق کی طرف واقع ہے۔
اس روایت سے ثابت ہو اکہ کسی ظالم حاکم کی شکایت بڑے حاکم کو پہنچانا معیوب نہیں ہے اور یہ کہ کسی بزرگ کے استقبال کے لیے چل کر جانا عین ثواب ہے اور یہ بھی کہ بڑے لوگوں سے چھوٹے آدمی مسائل کی تحقیق کر سکتے ہیں اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دلیل پیش کرنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ مومن کے لیے اس سے آگے گنجائش نہیں۔ اس لیے بالکل سچ کہا گیا ہے۔

اصل دیں آمد کلام اللہ معظم داشتن
پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتن

یعنی دین کی بنیاد ہی یہ ہے کہ قرآن مجید کو حد درجہ قابل تعظیم کہا جائے اور پس احادیث نبوی کو دل وجان سے تسلیم کیا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : سفرمیں جس نے فرض نماز سے پہلے اور پیچھے سنتوں کو نہیں پڑھا

حدیث نمبر : 1101
حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثني ابن وهب، قال حدثني عمر بن محمد، أن حفص بن عاصم، حدثه قال سافر ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ فقال صحبت النبي صلى الله عليه وسلم فلم أره يسبح في السفر، وقال الله جل ذكره ‏{‏لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏}‏‏.‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان کوفی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد بن یزید نے بیان کیا کہ حفص بن عاصم بن عمر نے ان سے بیا ن کیا کہ میں نے سفر میں سنتوں کے متعلق عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں۔ میں نے آپ کو سفر میں کبھی سنتیں پڑھتے نہیں دیکھا اور اللہ جل ذکرہ کا ارشاد ہے کہ تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

معلوم ہوا کہ سفرمیں خالی فرض نماز کی دو رکعتیں ظہر وعصر میں کافی ہیں سنت نہ پڑھنا بھی خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔

حدیث نمبر : 1102
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن عيسى بن حفص بن عاصم، قال حدثني أبي أنه، سمع ابن عمر، يقول صحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان لا يزيد في السفر على ركعتين، وأبا بكر وعمر وعثمان كذلك ـ رضى الله عنهم‏.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عیسیٰ بن حفص بن عاصم نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے سنا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں دو رکعت ( فرض ) سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے۔ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔

تشریح : دوسری روایت مسلم شریف میں یوں ہے۔صحبت ابن عمر فی طریق مکۃ فصلی بنا الظھررکعتین ثم اقبل واقبلنا معہ حتی جاءرحلہ وجلسنا معہ فحانت منہ التفاتۃ فرای ناساً قیاما فقال ما یصنع ھولاءقلت یسبحون قال لو کنت مسبحا لا تممت ( قسطلانی ) حفص بن عاصم کہتے ہیں کہ میں مکہ شریف کے سفر میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ آپ نے ظہر کی دو رکعت فرض نماز قصر پڑھائی پھر کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سنت پڑھ رہے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ اگر میں سنتیں پڑھوں تو پھر فرض ہی کیوں نہ پورے پڑھ لوں۔ اگلی روایت میں مزید وضاحت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم سب کا یہی عمل تھا کہ وہ سفر میں نماز قصر کرتے اور ان دورکعتوں فرض کے علاوہ کوئی سنت نماز نہیں پڑھتے تھے۔ بہت سے نا واقف بھائیوں کو سفر میں دیکھا جاتا ہے کہ وہ اہل حدیث کے اس عمل پر تعجب کیا کرتے ہیں۔ بلکہ بعض تو اظہار نفرت سے بھی نہیں چوکتے، ان لوگوں کو خود اپنی ناواقفی پر افسوس کرنا چاہیے اور معلوم ہونا چاہیے کہ حالت سفر میں جب فرض نماز کو قصر کیا جارہا ہے پھر اس وقت سنت نمازوں کا تو ذکر ہی کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : فرض نمازوں کے بعد اور اول کی سنتوں کے علاوہ اور دوسرے نفل سفر میں پڑھنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں فجر کی سنتوں کو پڑھا ہے

حدیث نمبر : 1103
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا شعبة، عن عمرو، عن ابن أبي ليلى، قال ما أنبأ أحد، أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم صلى الضحى غير أم هانئ ذكرت أن النبي صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة اغتسل في بيتها، فصلى ثمان ركعات، فما رأيته صلى صلاة أخف منها، غير أنه يتم الركوع والسجود‏.‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، ان سے ا بن ابی لیلیٰ نے، انہوں نے کہا کہ ہمیں کسی نے یہ خبرنہیں دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انہوں نے چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہاں ام ہانی رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھر غسل کیا تھا اور اس کے بعد آپ نے آٹھ رکعتیں پڑھی تھیں، میں نے آپ کو کبھی اتنی ہلکی پھلکی نماز پڑھتے نہیں دیکھا البتہ آپ رکوع اور سجدہ پوری طرح کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 1104
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا شعبة، عن عمرو، عن ابن أبي ليلى، قال ما أنبأ أحد، أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم صلى الضحى غير أم هانئ ذكرت أن النبي صلى الله عليه وسلم يوم فتح مكة اغتسل في بيتها، فصلى ثمان ركعات، فما رأيته صلى صلاة أخف منها، غير أنه يتم الركوع والسجود‏.‏
اور لیث بن سعد رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عامر بن ربیعہ نے بیان کیا کہ انہیں ان کے باپ نے خبر دی کہ انہوں نے خود دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات میں) سفر میں نفل نمازیں سواری پر پڑھتے تھے، وہ جدھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے جاتی ادھر ہی سہی۔

تشریح : اس سےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر میں نفل پڑھنا ثابت ہوا، نیز چاشت کی نماز بھی ثابت ہوئی اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر بھر کوئی کام صرف ایک ہی دفعہ کرنا ثابت ہو تو وہ بھی امت کے لئے سنت ہے اور چاشت کے لئے تو اور بھی ثبوت موجود ہیں۔ حضرت ام ہانی نے صرف اپنے دیکھنے کا حال بیان کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ حضرت ام ہانی کو ہروقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔

حدیث نمبر : 1105
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سالم بن عبد الله، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يسبح على ظهر راحلته حيث كان وجهه، يومئ برأسه، وكان ابن عمر يفعله‏.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے اور انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر نے اپنے باپ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر خواہ اس کا منہ کسی طرف ہو تا نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

تشریح : مطلب امام بخاری رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ سفرمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرض نمازوں کے اول اور بعد کی سنن راتبہ نہیں پڑھی ہیں ہاں اور قسم کے نوافل جیسے اشراق وغیرہ سفر میں پڑھنا منقول ہے اور فجر کی سنتوں کا سفرمیں ادا کرنا بھی ثابت ہے۔

قال ابن القیم فی الھدی وکان من ھدیہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر ہ الاقتصار علی الفرض ولم یحفظ عنہ انہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی سنۃ الصلاۃ قبلھا ولا بعدھا الا ما کان من سنۃ الوتر والفجر فانہ لم یکن یدعھا حضرا ولا سفرا انتھیٰ ( نیل الاوطار )
یعنی علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور کتاب زاد المعاد میں لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارک سے یہ بھی ہے کہ حالت سفر میں آپ صرف فرض کی قصر رکعتوں پر اکتفا کرتے تھے اور آپ سے ثابت نہیں کہ آپ نے سفر میں وتر اور فجر کی سنتوں کے سوا اور کوئی نماز ادا کی ہو۔ آپ ان ہر دوکو سفر اور حضر میں برابر پڑھا کر تے تھے۔ پھر علامہ ابن قیم نے ان روایات پر روشنی ڈالی ہے جن سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حالت سفر میں نماز نوافل ادا کرنا ثابت ہوتاہے۔

وقد سئل الاما م احمد عن التطوع فی السفر فقال ارجو ان لا یکون بالتطوع فی السفر باس یعنی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے سفر میں نوافل کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ سفر میں نوافل ادا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے مگر سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا بہتر اور مقدم ہے۔

پس ہر دو امور ثابت ہوئے کہ ترک میں بھی کوئی برائی نہیں اور ادائیگی میں بھی کوئی ہرج نہیں۔ وقال اللہ تعالی ماجعل علیکم فی الدین من حرج والحمد للہ علی نعمائہ الکاملۃ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھنا

حدیث نمبر : 1106
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال سمعت الزهري، عن سالم، عن أبيه، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يجمع بين المغرب والعشاء إذا جد به السير‏.‏
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے زہری سے سنا، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے باپ عبداللہ بن عمرسے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کواگرسفر میں جلد چلنا منظور ہوتا تو مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔

حدیث نمبر : 1107
وقال إبراهيم بن طهمان عن الحسين المعلم، عن يحيى بن أبي كثير، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجمع بين صلاة الظهر والعصر إذا كان على ظهر سير، ويجمع بين المغرب والعشاء‏.‏
اور ابرہیم بن طہمان نے کہا کہ ان سے حسین معلم نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ ملا کر پڑھتے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء کی بھی ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔

حدیث نمبر : 1108
وعن حسين، عن يحيى بن أبي كثير، عن حفص بن عبيد الله بن أنس، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يجمع بين صلاة المغرب والعشاء في السفر‏.‏ وتابعه علي بن المبارك وحرب عن يحيى عن حفص عن أنس جمع النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اور ا بن طہمان ہی نے بیان کیا کہ ان سے حسین نے، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے حفص بن عبید اللہ بن انس رضی اللہ عنہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں مغرب اور عشاء ایک ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ اس روایت کی متابعت علی بن مبارک اور حرب نے یحییٰ سے کی ہے۔ یحییٰ حفص سے اور حفص انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( مغرب اور عشاء) ایک ساتھ ملا کر پڑھی تھیں۔

تشریح : امام بخاری رحمہ اللہ جمع کا مسئلہ قصر کے ابواب میں اس لیے لائے کہ جمع بھی گویا ایک طرح کاقصر ہی ہے۔ سفر میں ظہر عصر اور مغرب عشاءکا جمع کرنا اہل حدیث اور امام احمد رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اور ثوری رحمہ اللہ اور اسحاق سب کے نزدیک جائز ہے خواہ جمع تقدیم کرے یعنی ظہر کے وقت عصر اور مغرب کے وقت عشاءپڑھ لے خواہ جمع تاخیر کرے یعنی عصر کے وقت ظہر اور عشاءکے وقت مغرب بھی پڑھ لے۔ اس بارے میں مزید تفصیل مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہو سکتی ہے۔

عن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی غزوۃ تبوک اذا زاغت الشمس قبل ان یرتحل جمع بین الظھر والعصر وان ارتحل قبل ان تزیغ الشمس اخر الظھر حتی ینزل للعصر وفی المغرب مثل ذلک اذا غابت الشمس قبل ان یر تحل جمع بن المغرب والعشاءوان ارتحل قبل ان تغیب الشمس اخر المغرب حتی ینزل العشاءثم یجمع بینھما۔ رواہ ابوداؤد والترمذی وقال ھذا حدیث حسن غریب یعنی معاذ بن جبل کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی دن کوچ کرنے سے پہلے سورج ڈھل جاتا تو آپ ظہر اور عصر ملا کر پڑھ لیتے ( جسے جمع تقدیم کہا جاتا ہے ) اور اگر کبھی آپ کا سفر سورج ڈھلنے سے پہلے ہی شروع ہوجاتا تو ظہر اور عصر ملاکر پڑھتے ( جسے جمع تاخیر کہا جاتا ہے ) مغرب میں بھی آپ کا یہی عمل تھا اگر کوچ کرتے وقت سورج غروب ہو چکا ہوتا تو آپ مغرب اور عشاءملا کر پڑھ لیتے اور اگر سورج غروب ہونے سے قبل ہی سفر شروع ہو جاتا تو پھر مغرب کو مؤخر کر کے عشاءکے ساتھ ملاکر ادا کرتے۔ مسلم شریف میں بھی یہ روایت مختصر مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاءملا کر پڑھ لیا کرتے تھے۔

ایک اور حدیث حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جس میں مطلق سفر کاذکر ہے اور ساتھ ہی حضرت انس رضی اللہ عنہ یہ بھی بیان فرماتے ہیں کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذارتحل قبل ان تزیغ الشمس اخر الظھر الی وقت العصر الحدیث یعنی سفر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی معمو ل تھا کہ اگر سفرسورج ڈھلنے سے قبل شروع ہوتا توآپ ظہر کو عصر میں ملالیا کرتے تھے اور اگر سورج ڈھلنے کے بعد آپ سفر کرتے تو ظہر کے ساتھ عصر ملا کر سفر شروع کرتے تھے۔

مسلم شریف میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ایسا ہی مروی ہے اس میں مزید یہ ہے کہ قال سعیدفقلت لابن عباس ما حملہ علی ذلک قال اراد ان لایحرج امتہ ( رواہ مسلم ص:246 ) یعنی سعید نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے کیا تاکہ امت تنگی میں نہ پڑ جائے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس بارے میں حضرت علی اور ابن عمر اور انس اور عبد اللہ بن عمر اور حضرت عائشہ اور ابن عباس اور اسامہ بن زید اور جابر رضی اللہ عنہم سے بھی مرویات ہیں اور امام شافعی اوراحمد اور اسحاق رحمہم اللہ بھی یہی کہتے ہیں کہ سفر میں دو نمازوں کا جمع کرنا خواہ جمع تقدیم ہو یا تاخیر بلاخوف وخطر جائز ہے۔
علامہ نووی نے شرح مسلم میں امام شافعی رحمہ اللہ اور اکثر لوگوں کا قول نقل کیا ہے کہ سفر طویل میں جو48میل ہاشمی پر بولا جاتا ہے جمع تقدیم اور جمع تاخیر ہر دو طورپر جمع کرنا جائز ہے اور چھوٹے سفر کے بارے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے دو قول ہیں اور ان میں بہت صحیح قول یہ ہے کہ جس سفر میں نماز کا قصر کرنا جائز نہیں اس میں جمع بھی جائز نہیں ہے علامہ شوکانی دررالبھیۃ میں فرماتے ہیں کہ مسافر کے لیے جمع تقدیم اورجمع تاخیر ہر دو طور پر جمع کرنا جائز ہے۔ خواہ اذان اور اقامت سے ظہر میں عصر کو ملائے یا عصر کے ساتھ ظہر کو ملائے۔ اسی طرح مغرب کے ساتھ عشاءپڑھے یا عشاءکے ساتھ مغرب ملائے۔ حنفیہ کے ہاں سفر میں جمع کر کے پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت ہے جسے بخاری اور مسلم اور ابو داؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے کہ میں نے مزدلفہ کے سوا کہیں نہیں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازیں ملاکر ادا کی ہوں۔
اس کا جواب صاحب مسک الختام نے یوں دیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ بیان ہمارے مقصود کے لیے ہرگز مضر نہیں ہے کہ یہی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اپنے اس بیان کے خلاف بیا ن دے رہے ہیں جیسا کہ محدث سلام اللہ نے محلّی شرح مؤطا امام مالک رحمہ اللہ میں مسند ابی سے نقل کیا ہے کہ ابو قیس ازدی کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفرمیں دو نمازوں کو جمع فرمایا کرتے تھے۔ اب ان کے پہلے بیان میں نفی ہے اور اس میں اثبات ہے اور قاعدہ مقررہ کی رو سے نفی پر اثبات مقدم ہوتا ہے۔ لہذا ثابت ہوا کہ ان کا پہلا بیان محض نسیان کی وجہ سے ہے۔ دوسری دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا ان الصلوٰ ۃ کانت علی المومنین کتابا موقوتا ( النساء: 103 ) یعنی نماز مومنوں پر وقت مقررہ میں فرض ہے اس کا جواب یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کے مفسراول ہیں۔ اور آپ کے عمل سے نمازمیں جمع ثابت ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ جمع بھی وقت موقت ہی میں داخل ہے ورنہ آیت کو اگر مطلق مانا جائے تو پھر مزدلفہ میں بھی جمع کرنا جائز نہیں ہوگا۔ حالانکہ وہاں کے جمع پر حنفی، شافعی اور اہل حدیث سب کا اتفاق ہے۔ بہر حال امر ثابت یہی ہے کہ سفر میں جمع تقدیم وجمع تاخیر ہر دو صورتوں میں جائز ہے۔

وقد روی مسلم عن جابر انہ صلی اللہ علیہ وسلم جمع بین الظھر والعصر بعرفۃ فی وقت الظھر فلو لم یرد من فعلہ الا ھذا لکان ادل دلیل علی جواز جمع التقدیم فی السفر۔ ( قسطلانی ج:2ص:249 ) یعنی امام مسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کی نمازوں کو عرفہ میںظہر کے وقت میں جمع کر کے ادا فرمایا۔ پس اگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اسی موقع پر صحیح روایت سے جمع ثابت ہوا۔ یہی بہت بڑی دلیل ہے کہ جمع تقدیم سفر میں جائز ہے۔

علامہ قسطلانی نے امام زہری کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے سالم سے پوچھا کہ سفر میں ظہر اور عصر کا جمع کرنا کیسا ہے؟انہوں نے فرمایا کہ بلا شک جائز ہے تم دیکھتے نہیں کہ عرفات میں لوگ ظہر اور عصر ملا کر ادا کرتے ہیں۔
پھر علامہ قسطلانی فرماتے ہیں کہ جمع تقدیم کے لیے ضروری ہے کہ پہلے اول والی نماز پڑھی جائے مثلا ظہر وعصرکو ملانا ہے توپہلے ظہر ادا کی جائے اور یہ بھی ضروری ہے کہ نیت بھی پہلے ظہر ادا کرنے کی جائے اور یہ بھی ضرور ی ہے کہ ان ہر دو نمازوں کو پے در پے پڑھا جائے درمیان میں کسی سنت راتبہ وغیرہ سے فصل نہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نمرہ میں ظہر اور عصر کو جمع فرمایا تو والی بینھما وترک الرواتب واقام الصلوۃ بینھماورواہ الشیخان آپ نے ان کو ملا کر پڑھا درمیان میں کوئی سنت نماز نہیں پڑھی اور درمیان میں تکبیر کہی۔ اسے بخاری ومسلم نے بھی روایت کیا ہے ( حوالہ مذکور )

ا س بارے میں علامہ شوکانی نے یوں باب منعقد فرمایا ہے باب الجمع باذان واقامتین من غیر تطوع بینھما یعنی نماز کو ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ جمع کرنا اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہ ادا کرنا۔ پھر آپ اس بارے میں بطور دلیل حدیث ذیل کو لائے ہیں۔

عن ابن عمران النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلی المغرب والعشاءبالمزدلفہ جمیعا کل واحدۃ منھما باقامۃ ولم یسبح بینھما ولا علی اثر واحدۃ منھما۔ ( رواہ البخاری والنسائی ) یعنی حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ مزدلفہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاءکو الگ الگ اقامت کے ساتھ جمع فرمایا اور نہ آپ نے ان کے درمیان کوئی نفل نماز ادا کی اور نہ ان کے آگے پیچھے۔ جابر کی روایت سے مسلم اوراحمد اور نسائی میں اتنا اور زیادہ ہے ثم اضطجع حتی طلع الفجر پھر آپ لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر ہوگئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : جب مغرب اور عشاء ملا کر پڑھے تو کیا ان کے لیے اذان وتکبیر کہی جائےگی؟

حدیث نمبر : 1109
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سالم، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أعجله السير في السفر يؤخر صلاة المغرب، حتى يجمع بينها وبين العشاء‏.‏ قال سالم وكان عبد الله يفعله إذا أعجله السير، ويقيم المغرب فيصليها ثلاثا، ثم يسلم، ثم قلما يلبث حتى يقيم العشاء، فيصليها ركعتين، ثم يسلم ولا يسبح بينها بركعة، ولا بعد العشاء بسجدة حتى يقوم من جوف الليل‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خبر دی۔ آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب جلدی سفر طے کرنا ہوتا تو مغرب کی نماز مؤخر کر دیتے۔ پھر اسے عشاء کے ساتھ ملا کر پڑھتے تھے۔ سالم نے بیان کیا کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اگر سفر سرعت کے ساتھ طے کرنا چاہتے تو اسی طرح کرتے تھے۔ مغرب کی تکبیر پہلے کہی جاتی اور آپ تین رکعت مغرب کی نماز پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ پھر معمولی سے توقف کے بعد عشاء کی تکبیر کہی جاتی اور آپ اس کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے۔ دونوں نمازوں کے درمیان ایک رکعت بھی سنت وغیرہ نہ پڑھتے اور اسی طرح عشاء کے بعد بھی نماز نہیں پڑھتے تھے۔ یہاں تک کہ درمیان شب میں آپ اٹھتے ( اور تہجد ادا کرتے )۔

حدیث نمبر : 1110
حدثنا إسحاق، حدثنا عبد الصمد، حدثنا حرب، حدثنا يحيى، قال حدثني حفص بن عبيد الله بن أنس، أن أنسا ـ رضى الله عنه ـ حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجمع بين هاتين الصلاتين في السفر‏.‏ يعني المغرب والعشاء‏.‏
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الصمد بن عبد الوارث نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہم سے حرب بن سداد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے حفص بن عبید اللہ بن انس نے بیان کیا کہ انس رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دو نمازوں یعنی مغرب اور عشاءکو سفر میں ایک ساتھ ملا کر پڑھا کرتے تھے
 
Top