• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : نفل نمازیں جماعت سے پڑھنا

حدیث نمبر : 1184
ذكره أنس وعائشة ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.
اس کاذکر انس اور عائشہ رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہے۔

تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کے مطلب پر انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے دلیل لی جو اوپر گزر چکی ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بھی باب قیام اللیل میں گزر چکی۔ قسطلانی نے کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے مراد کسوف کی حدیث ہے۔ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت سے نماز پڑھی۔ ان احادیث سے نفل نمازوں میں جماعت کا جواز ثابت ہوتا ہے اوربعضوں نے تداعی یعنی بلانے کے ساتھ ان میں امامت مکروہ رکھی ہے۔ اگرخود بخود کچھ آدمی جمع ہوجائیں توامامت مکروہ نہیں ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1185
حدثني إسحاق، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبي، عن ابن شهاب، قال أخبرني محمود بن الربيع الأنصاري، أنه عقل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعقل مجة مجها في وجهه من بئر كانت في دارهم‏.

ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے باپ ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے کہا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کلی بھی یاد ہے جو آپ نے ان کے گھر کے کنویں سے پانی لے کر ان کے منہ میں کی تھی۔

حدیث نمبر : 1186
فزعم محمود أنه سمع عتبان بن مالك الأنصاري ـ رضى الله عنه ـ وكان ممن شهد بدرا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول كنت أصلي لقومي ببني سالم، وكان يحول بيني وبينهم واد إذا جاءت الأمطار فيشق على اجتيازه قبل مسجدهم، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت له إني أنكرت بصري، وإن الوادي الذي بيني وبين قومي يسيل إذا جاءت الأمطار فيشق على اجتيازه، فوددت أنك تأتي فتصلي من بيتي مكانا أتخذه مصلى‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ سأفعل‏"‏‏. ‏ فغدا على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر ـ رضى الله عنه ـ بعد ما اشتد النهار فاستأذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فأذنت له فلم يجلس حتى قال ‏"‏ أين تحب أن أصلي من بيتك‏"‏‏. ‏ فأشرت له إلى المكان الذي أحب أن أصلي فيه، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر وصففنا وراءه، فصلى ركعتين، ثم سلم وسلمنا حين سلم، فحبسته على خزير يصنع له فسمع أهل الدار رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيتي فثاب رجال منهم حتى كثر الرجال في البيت‏.‏ فقال رجل منهم ما فعل مالك لا أراه‏.‏ فقال رجل منهم ذاك منافق لا يحب الله ورسوله‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقل ذاك ألا تراه قال لا إله إلا الله‏.‏ يبتغي بذلك وجه الله‏"‏‏. ‏ فقال الله ورسوله أعلم‏.‏ أما نحن فوالله لا نرى وده ولا حديثه إلا إلى المنافقين‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فإن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله‏.‏ يبتغي بذلك وجه الله‏"‏‏. ‏ قال محمود فحدثتها قوما فيهم أبو أيوب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوته التي توفي فيها ويزيد بن معاوية عليهم بأرض الروم، فأنكرها على أبو أيوب قال والله ما أظن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ما قلت قط‏.‏ فكبر ذلك على فجعلت لله على إن سلمني حتى أقفل من غزوتي أن أسأل عنها عتبان بن مالك ـ رضى الله عنه ـ إن وجدته حيا في مسجد قومه، فقفلت فأهللت بحجة أو بعمرة، ثم سرت حتى قدمت المدينة فأتيت بني سالم، فإذا عتبان شيخ أعمى يصلي لقومه فلما سلم من الصلاة سلمت عليه وأخبرته من أنا، ثم سألته عن ذلك الحديث فحدثنيه كما حدثنيه أول مرة‏.
محمود نے کہا کہ میں نے عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا جو بدر کی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے، وہ کہتے تھے کہ میں اپنی قوم بن ی سالم کو نماز پڑھایا کرتا تھامیرے ( گھر ) اور قوم کی مسجدکے بیچ میں ایک نالہ تھا، اور جب بارش ہوتی تو اسے پار کر کے مسجد تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہو جاتا تھا۔ چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے میں نے کہا کہ میری آنکھیں خراب ہوگئی ہیں اور ایک نالہ ہے جو میرے اور میری قوم کے درمیان پڑتا ہے، وہ بارش کے دنوں میں بہنے لگ جاتا ہے اور میرے لیے اس کا پار کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاکر میرے گھر کسی جگہ نماز پڑھ دیںتاکہ میں اسے اپنے لیے نماز پڑھنے کی جگہ مقرر کرلوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری یہ خواہش جلد ہی پوری کر وں گا۔ پھر دوسرے ہی دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر صبح تشریف لے آئے اور آپ نے اجازت چاہی اور میں نے اجازت دے دی۔ آپ تشریف لا کر بیٹھے بھی نہیں بلکہ پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کس جگہ میرے لیے نماز پڑھنا پسند کروگے۔ میں جس جگہ کو نماز پڑھنے کے لیے پسند کر چکا تھا اس کی طرف میں نے اشارہ کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہی اور ہم سب نے آپ کے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی پھر سلام پھیر ا۔ ہم نے بھی آپ کے ساتھ سلام پھیرا۔ میںنے حلیم کھانے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا جو تیار ہو رہاتھا۔ محلہ والوں نے جو سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف فرما ہیں تو لوگ جلدی جلدی جمع ہونے شروع ہو گئے اور گھر میں ایک خاصا مجمع ہو گیا۔ ان میں سے ایک شخص بولا۔ مالک کو کیا ہو گیا ہے! یہاں دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر دوسرا بولاوہ تو منافق ہے۔ اسے خدا اور رسول سے محبت نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا۔ ایسا مت کہو، دیکھتے نہیںکہ وہ لاالہ الا اللہ پڑھتا ہے اور اس سے اس کا مقصد اللہ تعالی کی خوشنودی ہے۔ تب وہ کہنے لگا کہ ( اصل حال ) تو اللہ اور رسول کو معلوم ہے۔ لیکن واللہ! ہم تو ان کی بات چیت اور میل جول ظاہر میں منافقوں ہی سے دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن اللہ تعالی نے ہر اس آدمی پر دوزخ حرام کر دی ہے جس نے لا الہ الا اللہ خدا کی رضا اور خوشنودی کے لیے کہہ لیا۔ محمود بن ربیع نے بیان کیا کہ میں نے یہ حدیث ایک ایسی جگہ میں بیان کی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مشہور صحابی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ یہ روم کے اس جہاد کا ذکر ہے جس میں آپ کی موت واقع ہوئی تھی۔ فوج کے سردار یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ تھے۔ ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے اس حدیث سے انکار کیا اور فرمایا کہ خدا کی قسم! میںنہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بات کبھی بھی کہی ہو۔ آپ کی یہ گفتگو مجھ کو بہت ناگوار گزری اور میں نے اللہ تعالی کی منت مانی کہ اگر میں اس جہاد سے سلامتی کے ساتھ لوٹا تو واپسی پر اس حدیث کے بارے میں عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے ضرور پوچھوں گا۔ اگر میں نے انہیں ان کی قوم کی مسجد میں زندہ پایا۔ آخر میں جہاد سے واپس ہوا۔ پہلے تومیں نے حج اور عمرہ کا احرام باندھا پھر جب مدینہ واپسی ہوئی تو میں قبیلہ بن و سالم میں آیا۔ حضرت عتبان رضی اللہ عنہ جو بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے، اپنی قوم کونماز پڑھاتے ہوئے ملے۔ سلام پھیرنے کے بعد میں نے حاضر ہوکر آپ کو سلام کیا اور بتلایا کہ میں فلاں ہوں۔ پھر میں نے اس حدیث کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے مجھ سے اس مرتبہ بھی اس طرح یہ حدیث بیان کی جس طرح پہلے بیان کی تھی۔

تشریح : یہ50ھ یا اس کے بعد کا واقعہ ہے۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے قسطنطنیہ پر فوج بھیجی تھی اور اس کا محاصرہ کر لیا تھا۔ اس لشکر کے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بیٹے یزید تھے۔ جو بعد میں حادثہ کربلا کی وجہ سے تاریخ اسلام میں مطعون ہوئے۔ اس فوج میں ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری پر اولین میزبان ہیں۔ ان کی موت اسی موقع پر ہوئی اور قسطنطنیہ کے قلعہ کی دیوار کے نیچے دفن ہوئے۔ ترجمہ باب اس حدیث سے یوں نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور حاضرین خانہ نے آپ کے پیچھے صف باندھی اور یہ نفل نماز جماعت سے ادا کی گئی۔ کیونکہ دوسری حدیث میں موجود ہے کہ آدمی کی نفل نماز گھر ہی میں بہتر ہے اور فرض نماز کا مسجد میں با جماعت ادا کرنا ضروری ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو اس حدیث پر شبہ اس لیے ہوا کہ اس میں اعمال کے بغیر صرف کلمہ پڑھ لینے پر جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ مگر یہ حدیث اس بارے میں مجمل ہے دیگر احادیث میں تفصیل موجود ہے کہ کلمہ طیبہ بے شک جنت کی کنجی ہے۔ مگر ہر کنجی کے لیے دندانے ضروری ہیں۔ اسی طرح کلمہ طیبہ کے دندانے فرائض اور واجبات کو ادا کرنا ہے۔محض کلمہ پڑھ لینا اور اس کے مطابق عمل نہ کرنا بے نتیجہ ہے۔

حضرت امیر المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ اگر چہ اس طویل حدیث کو یہاں اپنے مقصد باب کے تحت لائے ہیں کہ نفل نماز ایسی حالت میں باجماعت پڑھی جا سکتی ہے۔ مگر اس کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل اور اس سے ثابت ہوتے ہیں مثلاًمعذور لوگ اگر جماعت میں آنے کی سکت نہ رکھتے ہوں تو وہ اپنے گھر ہی میں ایک جگہ مقرر کر کے وہاں نماز پڑھ سکتے ہیںاور یہ بھی ثابت ہوا کہ مہمانان خصوصی کو عمدہ سے عمدہ کھانا کھلانا مناسب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ بغیر سوچے سمجھے کسی پر نفاق یا کفر کا فتویٰ لگا دینا جائز نہیں۔ لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس شخص مالک نامی کا ذکر برے لفظوں میں کیا جو آپ کو ناگوار گزرا اورآپ نے فرمایا کہ وہ کلمہ پڑھنے والا ہے اسے تم لوگ منافق کیسے کہہ سکتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم تھا کہ وہ محض رسمی رواجی کلمہ گو نہیں ہے بلکہ کلمہ پڑھنے سے اللہ کی خوشنودی اس کے مد نظر ہے۔ پھر اسے کیسے منافق کہا جا سکتا ہے۔اس سے یہ بھی نکلا کہ جو لوگ اہلحدیث حضرات پر طعن کرتے ہیں اور ان کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں وہ سخت خطاکار ہیں۔ جبکہ اہلحدیث حضرات نہ صرف کلمہ توحید پڑھتے ہیں بلکہ اسلام کے سچے عامل اورقرآن وحدیث کے صحیح تابعدار ہیں۔
اس پر حضرت مولانا وحید الزماں مرحوم فرماتے ہیں کہ مجھے اس وقت وہ حکایت یاد آئی کہ شیخ محی الدین ابن عربی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں خفگی ہوئی تھی۔ ہوا یہ تھا کہ ان کے پیر شیخ ابو مدین مغربی کو ایک شخص بر ابھلا کہاکرتا تھا۔ شیخ ابن عربی اس سے دشمنی رکھتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم خواب میں ان پر اپنی خفگی ظاہر کی۔ انہوں نے وجہ پوچھی۔ ارشاد ہوا تو فلاں شخص سے کیوں دشمنی رکھتا ہے۔ شیخ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ میرے پیر کوبرا کہتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے اپنے پیر کو برا کہنے کی وجہ سے تواس سے دشمنی رکھی اور اللہ اور اس کے رسول سے جو وہ محبت رکھتا ہے اس کا خیال کر کے تونے اس سے محبت کیوں نہ رکھی۔ شیخ نے توبہ کی اور صبح کو معذرت کے لیے اس کے پاس گئے۔ مومنین کو لازم ہے کہ اہلحدیث سے محبت رکھیں کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتے ہیں اور گو مجتہدوں کی رائے اور قیاس کو نہیں مانتے مگر وہ بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت کی وجہ سے پیغمبر صاحب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف وہ کسی کی رائے اور قیاس کو کیوں مانیں سچ ہے

ماعاشقیم بے دل دلدار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم
مابلبلیم نالاں گلزار مامحمد صلی اللہ علیہ وسلم

حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ کے انکار کی وجہ یہ بھی تھی کہ محض کلمہ پڑھ لینا اور عمل اس کے مطابق نہ ہونا نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔ اسی خیال کی بنا پر انہوں نے اپنا خیال ظاہر کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیونکر فرماسکتے ہیں۔ مگر واقعتا محمود بن الربیع سچے تھے اور انہوں نے اپنی مزید تقویت کے لیے دوبارہ عتبان بن مالک کے ہاں حاضری دی اور مکرر اس حدیث کی تصدیق کی۔ حدیث مذکور میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجمل ایک ایسا لفظ بھی فرما دیا تھا جو اس چیز کا مظہر ہے کہ محض کلمہ پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ ابتغاءلوجہ اللہ ( اللہ کی رضا مندی کی طلب وتلاش ) بھی ضروری ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیز کلمہ پڑھنے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے ہی سے حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اجمالی ذکر فرمایا۔ آپ کا یہ مقصد نہ تھا کہ محض کلمہ پڑھنے سے وہ شخص جنتی ہو سکتا ہے۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد جامع تھا کہ کلمہ پڑھنا اور اس کے مطابق عمل درآمد کرنا اوریہ چیزیں آپ کو شخص متنازعہ کے بارے میں معلوم تھیں۔ اس لیے آپ نے اس کے ایمان کی توثیق فرمائی اور لوگوں کو اس کے بارے میں بد گمانی سے منع فرمایا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب التہجد
باب : گھر میں نفل نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 1187
حدثنا عبد الأعلى بن حماد، حدثنا وهيب، عن أيوب، وعبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اجعلوا فى بيوتكم من صلاتكم ولا تتخذوها قبورا‏"‏‏. ‏ تابعه عبد الوهاب عن أيوب‏.‏
ہم سے عبدا لاعلی بن حماد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی اور عبید اللہ بن عمر نے، ان سے نافع نے اور ان سے ا بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے گھروں میں بھی کچھ نمازیں پڑھا کرو اور انہیں بالکل قبریں نہ بن الو ( کہ جہاں نماز ہی نہ پڑھی جاتی ہو ) وہیب کے ساتھ اس حدیث کو عبد الوہاب ثقفی نے بھی ایوب سے روایت کیا ہے۔

تشریح : نماز سے مراد یہاں نفل ہی ہے کیونکہ دوسری حدیث میں ہے کہ آدمی کی افضل نماز وہ ہے جو گھر میں ہو۔ مگر فرض نماز کا مسجد میں پڑھنا افضل ہے۔ قبر میں مردہ نماز نہیں پڑھتا لہذا جس گھر میں نماز نہ پڑھی جائے وہ بھی قبر ہوا۔ قبرستان میں نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ اس لیے فرمایا کہ گھروں کو قبرستان کی طرح نماز کے لیے مقام ممنوعہ نہ بنالو۔ عبدالوہاب کی روایت کو امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی جامع الصحیح میں نکالا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب فضل الصلوۃ فی مکۃ والمدینۃ


صحیح بخاری -> کتاب فضل الصلوۃ فی مکۃ والمدینۃ

باب : مکہ اور مدینہ ( زاد ہما اللہ شرفاً وتعظیماً ) کی مساجد میں نماز کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر : 1188
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، قال أخبرني عبد الملك بن عمير، عن قزعة، قال سمعت أبا سعيد ـ رضى الله عنه ـ أربعا قال سمعت من النبي، صلى الله عليه وسلم وكان غزا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثنتى عشرة غزوة ح‏.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عبد الملک نے قزعہ سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابو سعید رضی اللہ عنہ سے چار باتیں سنیں اور انہوں نے بتلایا کہ میں نے انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا، آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہاد کئے تھے۔

حدیث نمبر : 1189
حدثنا علي، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد المسجد الحرام، ومسجد الرسول صلى الله عليه وسلم ومسجد الأقصى‏"‏‏.
( دوسری سند ) ہم سے علی بن مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سعید بن مسیب نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ ( یعنی سفر نہ کیا جائے ) ایک مسجد حرام، دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد اور تیسرے مسجد اقصیٰ یعنی بیت المقدس۔ ( ان چارباتوں کا بیان آگے آرہا ہے )

تشریح : مسجد اقصیٰ کی وجہ تسمیہ علامہ قسطلانی کے لفظوں میں یہ ہے۔ وسمی بہ لبعدہ عن مسجد مکۃ فی المسافۃ یعنی اس لیے اس کا نام مسجد اقصیٰ رکھا گیا کہ مسجد مکہ سے مسافت میں یہ دور واقع ہے۔لفظ رحال رحل کی جمع ہے یہ لفظ اونٹ کے کجاوہ پر بولاجا تا ہے۔ اس زمانہ میں سفر کے لیے اونٹ کا استعمال ہی عام تھا۔ اس لیے یہی لفظ استعمال کیا گیا۔

مطلب یہ ہوا کہ صرف یہ تین مساجد ہی ایسا منصب رکھتی ہیں کہ ان میں نماز پڑھنے کے لیے، ان کی زیارت کے لیے سفرکیا جائے ان تین کے علاوہ کوئی بھی جگہ مسلمانوں کے لیے یہ درجہ نہیں رکھتی کہ ان کی زیارت کے لیے سفر کیا جاسکے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت سے یہی حدیث بخاری شریف میں دوسری جگہ موجود ہے۔ مسلم شریف میں یہ ان لفظوں میں ہے: عن قزعۃ عن ابی سعید قال سمعت منہ حدیثا فاعجبنی فقلت لہ انت سمعت ھذا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال فاقول علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مالم اسمع قال سمعتہ یقول قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا تشدوا الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد مسجدی ھذا والمسجد الحرام والمسجد الاقصیٰ الحدیث۔
یعنی قزعہ نامی ایک بزرگ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث سنی جو مجھ کو بے حد پسند آئی۔ میں نے ان سے کہا کہ کیا فی الواقع آپ نے اس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے؟ وہ بولے کیا یہ ممکن ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حدیث بیان کروں جو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ سنی ہو۔ ہرگز نہیں بے شک میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ کجاوے نہ باندھومگر صرف ان ہی تین مساجد کے لیے۔ یعنی یہ میری مسجد اور مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ۔ ترمذی میں بھی یہ حدیث موجود ہے اور امام ترمذی کہتے ہیں ھذا حدیث حسن صحیح یعنی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ معجم طبرانی صغیر میں یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی ان ہی لفظوں میں موجود ہے اور ابن ماجہ میں عبد اللہ بن عمرو بن عاص کی روایت سے یہ حدیث ان ہی لفظوں میں ذکر ہوئی ہے اور حضرت امام مالک نے مؤطا میں اسے بصرہ بن ابی بصرہ غفاری سے روایت کیا ہے۔ وہاں والی مسجد ایلیااوبیت المقدس کے لفظ ہیں۔

خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے بالکل صحیح قابل اعتماد ہے اور اسی دلیل کی بنا پر بغرض حصول تقرب الی اللہ سامان سفر تیار کرنا اور زیارت کے لیے گھر سے نکلنا یہ صرف ان ہی تین مقامات کے ساتھ مخصوص ہے دیگر مساجد میں نماز ادا کرنے جانا یا قبرستان میں اموات مسلمین کی دعائے مغفرت کے لیے جانا یہ امور ممنوعہ نہیں۔ اس لیے کہ ان کے بارے میں دیگر احادیث صحیحہ موجود ہیں۔ نماز باجماعت کے لیے کسی بھی مسجد میں جانا اس درجہ کا ثواب ہے کہ ہر ہر قدم کے بدلے دس دس نیکیوں کا وعدہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح قبرستان میں دعائے مغفرت کے لیے جانا خود حدیث نبوی کے تحت ہے۔جس میں ذکر ہے فانھا تذکر الاخرۃ یعنی وہاں جانے سے آخرت کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ باقی بزرگوں کے مزارات پر اس نیت سے جانا کہ وہاں جانے سے وہ بزرگ خوش ہو کر ہماری حاجت روائی کے لیے وسیلہ بن جائیں گے بلکہ وہ خود ایسی طاقت کے مالک ہیں کہ ہماری ہر مصیبت کو دور کر دیں گے یہ جملہ اوہام باطلہ اور اس حدیث کے تحت قطعا ناجائز امور ہیں۔


ا س سلسلہ میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
واول من وضع الاحادیث فی السفر لزیارۃ المشاھد التی علی القبور اھل البدع الرافضۃ ونحوھم الذین یعطلون المساجد ویعظمون المشاھد یدعون بیوت اللہ التی امر ان یذکر فیھا اسمہ ویعبد وحدہ لا شریک لہ ویعظمون المشاھد التی یشرک فیھا ویکذب فیھا ویبتدع فیھا دین لم ینزل اللہ بہ سلطانا فان الکتاب والسنۃ انما فیھا ذکر المساجد دون المشاھد وھذا کلہ فی شدالرحال واما الزیارۃ فمشروعۃ بدونہ۔ ( نیل الاوطار )
یعنی اہل بدعت اور روافض ہی اولین وہ ہیں جنہوں نے مشاہد اور مقابر کی زیارت کے لیے احادیث وضع کیں، یہ وہ لوگ ہیں جو مساجد کو معطل کر تے اور مقابر ومشاہد ومزارات کی حد درجہ تعظیم بجالاتے ہیں۔ مساجد جن میں اللہ تعالی کے ذکر کرنے کا حکم ہے اور خالص اللہ کی عبادت جہاں مقصود ہے ان کو چھوڑ کر یہ فرضی مزارات پر جاتے ہیں اور ان کی اس درجہ تعظیم کرتے ہیں کہ وہ درجہ شرک تک پہنچ جاتی ہے اور وہاں جھوٹ بولتے اور ایسا نیا دین ایجاد کرتے ہیں جس پر اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔ کتاب وسنت میں کہیں بھی ایسے مشاہد اور مزارات ومقابر کا ذکر نہیں ہے جن کے لیے بایں طور پر شد رحال کیا جاسکے۔ ہاں مساجد کی حاضری کے لیے کتاب وسنت میں بہت سی تاکیدات موجود ہیں۔ ان منکرات کے علاوہ شرعی طریق پر قبرستان جانا اور زیارت کرنا مشروع ہے۔

رہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرشریف پرحاضر ہونا اور وہاں جا کر آپ پر صلوۃ وسلام پڑھنا یہ ہر مسلمان کے لیے عین سعادت ہے۔مگر“گر فرق مراتب نہ کنی زندیقی”کے تحت وہاں بھی فرق مراتب کی ضرورت ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زیارت سے قبل مسجد نبوی کا حق ہے۔ وہ مسجد نبوی جس میں ایک رکعت ایک ہزار رکعتوں کے برابر درجہ رکھتی ہے اور خاص طورپر روضۃ من ریاض الجنۃ کا درجہ اور بھی بڑھ کر ہے۔اس مسجد نبوی کی زیارت اور وہاں ادائے نماز کی نیت سے مدینہ منورہ کا سفر کرنا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف پر بھی حاضر ہونا اور آپ پر صلوۃ وسلام پڑھنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت صدیق اکبروحضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے اوپر سلام پڑھنا پھر بقیع الغرقد قبرستان میں جاکر وہاں جملہ اموات کے لیے دعائے مغفرت کرنا۔ اسی طرح مسجد قبا میں جانا اور وہاں دو رکعت ادا کرنا، یہ جملہ امور مسنون ہیں جو سنت صحیحہ سے ثابت ہیں۔
اس تفصیل کے بعدکچھ اہل بدعت قسم کے لوگ ایسے بھی ہیں جو اہلحدیث پر ان کے اسلاف پر اورخاص کر حضرت علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف پر صلوۃ وسلام سے منع کرتے ہیں۔ یہ صریح کذب اور بہتا ن ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس سلسلہ میں جو فرمایا ہے وہ یہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ باقی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر حاضر ہو کردرود وسلام بھیجنا، یہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مسلک میں مدینہ شریف جانے والوں اور مسجد نبوی میں حاضری دینے والوں کے لیے ضروری ہے۔


چنانچہ صاحب صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الشیخ الدحلان علامہ محمد بشیر صاحب سہسوانی مرحوم تحریرفرماتے ہیں:
لانزاع لنا فی نفس مشروعیۃ زیارۃ قبر نبینا صلی اللہ علیہ وسلم واما ما نسب الی شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ من القول بعدم مشروعیۃ زیارۃ قبر نبینا صلی اللہ علیہ وسلم فافتراءبحت قال الامام العلامۃ ابو عبد اللہ محمدبن احمد بن عبد الھادی المقدسی الحنبلی فی الصارم المنکی ان شیخ الاسلام لم یحرم زیارۃ القبور علی الوجہ المشروع فی شئی من کتبہ ولم ینہ عنھا ولم یکرھھا بل استحبھا وحض علیھا ومصنفاتہ ومناسکہ طافحۃ بذکر استحباب زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم سائر القبور قال رحمہ اللہ فی بعض مناسکہ باب زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم اذا شرف علی مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم قبل الحج او بعدہ فلیقل ما تقدم فاذا دخل استحب لہ ان یغتسل نص علیہ الامام احمد فاذا دخل المسجد بدءبرجلہ الیمنیٰ وقال بسم اللہ والصلوۃ علی رسول اللہ اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک ثم یاتی الروضۃ بین القبر والمنبر فیصلی بھا ویدعو بما شاءثم یاتی قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیستقبل جدار القبر لا یمسہ ولا یقبلہ ویجعل القندیل الذی فی القبلۃ عند القبر علی راسہ لیکون قائما وجاہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ویقف متباعد کما یقف اوظھر فی حیاتہ بخشوع وسکون ومنکسر الراس خاض الطرف مستحضرا بقلبہ جلالۃ موقفہ ثم یقول السلام علیک یا رسول اللہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علیک یا نبی اللہ وخیرتہ من خلقہ السلام علیک یا سید المرسلین ویاخاتم النبیین وقائد الغر المحجلین اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد انک رسول اللہ واشھد انک قد بلغت رسٰلٰت ربک ونصحت لامتک ودعوت الی سبیل ربک بالحکمۃ الموعظۃ الحسنۃ وعبدت اللہ حتی اتاک الیقین فجزاک اللہ افضل ما جزی نبیا ورسولا عن امتہ اللھم آتہ الوسیلۃ والفضیلۃ وابعثہ مقاما محمود الذی وعدتہ لیغبطہ بہ الاولون والاخرون اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمیدمجید اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلی آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم احشرنا فی ذمرتہ وتوف علی سنۃ واوردنا حوضہ واسقنا بکاسہ شربا رویا لانظما بعدہ ابداً ثم یاتی ابا بکر وعمر فیقول السلام علیک یا ابا بکر الصدیق السلام علیک یا عمر الفاروق السلام علیکما یا صاحبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضجیعیہ ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جزا کما اللہ عن صحبۃ نبیکما وعن الاسلام خیر السلام علیکم بما صبر تم فنعم عقبی الدار قال ویزور قبور اھل البقیع وقبورالشھداءان امکن ھذا کلام الشیخ رحمہ اللہ بحروفہ انتہی مافی الصارم۔ ( صیانۃ الانسان عن وسوسۃ الدحلان، ص:3 )
یعنی شرعی طریقہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کرنے میں قطعا کوئی نزاع نہیں ہے اور اس بارے میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر یہ محض جھوٹا بہتان ہے کہ قبر نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کو ناجائز کہتے تھے، یہ محض الزام ہے۔ علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد نے اپنی مشہور کتاب الصارم المنکی میں لکھا ہے کہ شرعی طریقہ پر زیارت قبور سے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ہرگز منع نہیں کیا نہ اسے مکروہ سمجھا۔ بلکہ وہ اسے مستحب قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے رغبت دلاتے ہیں۔انہوں نے اس بارے میں اپنی کتاب بابت ذکر مناسک حج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی زیارت کے سلسلہ میں باب منعقد فرمایا ہے اور اس میں لکھا ہے کہ جب کوئی مسلمان حج سے پہلے یا بعد میں مدینہ شریف جائے تو پہلے وہ دعا مسنون پڑھے جو شہروں میں داخلہ کے وقت پڑھی جاتی ہے۔ پھر غسل کر ے اور بعد میں مسجد نبوی میں پہلے دایاں پاؤں رکھ کر داخل ہو اور یہ دعا پڑھے بسم اللہ والصلوۃ علی رسول اللہ اللھم اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک پھر اس جگہ آئے جو جنت کی کیاری ہے اوروہاں نماز پڑھے اور جو چاہے دعا مانگے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر آئے اور دیوار کی طرف منہ کرے نہ اسے بوسہ دے نہ ہاتھ لگائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اورپھر وہاں سلام اور درود پڑھے ( جن کے الفاظ پیچھے نقل کئے گئے ہیں ) پھر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے آئے اور وہاں بھی سلام پڑھے جیسا کہ مذکور ہوا اورپھر ممکن ہو تو بقیع غرقد نامی قبرستان میں جاکر وہاں بھی قبور مسلمین اور شہداءکی زیارت مسنونہ کرے۔

سابق امتوں میں کچھ لوگ کوہ طور اور تربت بابرکت حضرت یحیٰ علیہ السلام وغیرہ کی زیارت کے لیے دور دراز سے سفر کر کے جایا کرتے تھے۔ اللہ کے سچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تمام سفروں سے منع فرما کر اپنی امت کے لیے صرف یہ تین زیارت گاہیں مقرر فرمائیں۔ اب جو عوام اجمیر اورپاک پٹن وغیرہ وغیرہ مزارات کے لیے سفر باندھتے ہیں یہ ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے کی وجہ سے عاصی نافرمان اور آپ کے باغی ٹھہرتے ہیں۔ ہاں قبور المسلمین اپنے شہر یا قریہ میں ہوںوہ اپنوں کی ہوں یا بیگانوں کی وہاں مسنون طریقہ پر زیارت کرنا مشروع ہے کہ گورستان والوں کے لیے دعا ئے مغفرت کریں اور اپنی موت کو یاد کر کے دنیا سے بے رغبتی اختیار کریں۔ سنت طریقہ صرف یہی ہے۔
علامہ ابن حجر اس حدیث کی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں فمعنی الحدیث لاتشد الرحال الی مسجد من المساجد او الی مکان من الامکنۃ لاجل ذلک المکان الا الی الثلاثۃ المذکورۃ وشد الرحال الی زیارۃ او طلب علم لیس الی المکان بل الی من فی ذلک المکان واللہ اعلم ( فتح الباری ) یعنی حدیث کا مطلب اسی قدر ہے کہ کسی بھی مسجد یا مکان کے لیے سفر نہ کیا جائے اس غرض سے کہ ان مساجد یا مکانات کی محض زیارت ہی موجب رضائے الٰہی ہے ہاں یہ تین مساجد یہ درجہ رکھتی ہیں جن کی طرف شد رحال کیا جانا چاہیے اور کسی کی ملاقات یا تحصیل علم کے لیے شد رحال کرنا اس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ یہ سفر کسی مکان یا مدرسہ کی عمارت کے لیے نہیں کیا جاتا بلکہ مکان کے مکین کی ملاقات اور مدرسہ میں تحصیل علم کے لیے کیا جاتا ہے۔

حدیث نمبر : 1190
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن زيد بن رباح، وعبيد الله بن أبي عبد الله الأغر، عن أبي عبد الله الأغر، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ صلاة في مسجدي هذا خير من ألف صلاة فيما سواه إلا المسجد الحرام‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے زید بن رباح اور عبید اللہ بن ابی عبد اللہ اغرسے خبر دی، انہیں ابو عبد للہ اغر نے اور انہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں نماز مسجد حرام کے سوا تمام مسجدوں میں نماز سے ایک ہزار درجہ زیادہ افضل ہے۔

میری مسجد سے مسجد نبوی مراد ہے۔ حضرت امام رحمہ اللہ کا اشارہ یہی ہے کہ مسجد نبوی کی زیارت کے لیے شد رحال کیا جائے اور جو وہاں جائے گا لازماً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحضرات شیخین پر بھی درود وسلام کی سعادتیں اس کو حاصل ہوں گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب فضل الصلوۃ فی مکۃ والمدینۃ
باب : مسجد قباء کی فضیلت

حدیث نمبر : 1191
حدثنا يعقوب بن إبراهيم ـ هو الدورقي ـ حدثنا ابن علية، أخبرنا أيوب، عن نافع، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ كان لا يصلي من الضحى إلا في يومين يوم يقدم بمكة، فإنه كان يقدمها ضحى، فيطوف بالبيت، ثم يصلي ركعتين خلف المقام، ويوم يأتي مسجد قباء، فإنه كان يأتيه كل سبت، فإذا دخل المسجد كره أن يخرج منه حتى يصلي فيه‏.‏ قال وكان يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يزوره راكبا وماشيا‏.
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں ایوب سختیانی نے خبر دی اور انہیں نافع نے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہماچاشت کی نماز صرف دو دن پڑھتے تھے۔ جب مکہ آتے کیونکہ آپ مکہ میں چاشت ہی کے وقت آتے تھے اس وقت پہلے آپ طواف کرتے اور پھر مقام ابراہیم کے پیچھے دورکعت پڑھتے۔ دوسرے جس دن آپ مسجد قباءمیں تشریف لاتے آپ کا یہاں ہر ہفتہ کو آنے کا معمول تھا۔ جب آپ مسجد کے اند رآتے تونماز پڑھے بغیر باہر نکلنا برا جانتے۔ آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں سوار اور پیدل دونوں طرح آیاکرتے تھے۔

حدیث نمبر : 1192
قال وكان يقول إنما أصنع كما رأيت أصحابي يصنعون، ولا أمنع أحدا أن يصلي في أى ساعة شاء من ليل أو نهار، غير أن لا تتحروا طلوع الشمس ولا غروبها‏.‏
نافع نے بیان کیا کہ ا بن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ میں اسی طرح کرتا ہوں جیسے میں نے اپنے ساتھیوں ( صحابہ رضی اللہ عنہ ) کو کرتے دیکھا ہے۔ لیکن تمہیں رات یا دن کے کسی حصے میں نماز پڑھنے سے نہیں روکتا۔ صرف اتنی بات ہے کہ قصد کر کے تم سورج نکلتے یا ڈوبتے وقت نہ پڑھو۔

تشریح : قباشہر مدینہ سے تین میل کے فاصلہ پر ایک مشہورگاؤں ہے۔ جہاں ہجرت کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چند روز قیام فرمایا تھا اور یہاں آپ نے اولین مسجد کی بنیاد رکھی جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی اس اولین مسجد سے اس قدر محبت تھی کہ آپ ہفتہ میں ایک دفعہ یہاں ضرور تشریف لاتے اور اس مسجد میں دو رکعت تحیۃ المسجد ادا فرمایاکرتے تھے۔ ان دو رکعتوں کا بہت بڑا ثواب ہے۔

آج کل حرم نبوی کے متصل بس اڈہ سے قبا کو بسیں دوڑتی رہتی ہیں۔ الحمد للہ کہ 1951ءپھر1962ءکے ہر دو سفروں میں مدینہ منورہ کی حاضر ی کی سعادت پر بارہا مسجد قباءبھی جانے کا اتفاق ہوا تھا۔62کا سفر حج میرے خاص الخاص مہربان قدردان حضرت الحاج محمد پارہ آف رنگون وارد حال کراچی ادام اللہ اقبالھم وبارک لہم بارک علیھم کے محترم والد ماجد حضرت الحاج اسماعیل پارہ رحمہ اللہ کے حج بدل کے لیے گیا تھا۔ اللہ پاک قبول فرما کر مرحوم اسماعیل پارہ کے لیے وسیلہ آخرت بنائے اور گرامی قدر حاجی محمد پارہ اور ان کے بچوں اور جملہ متعلقین کو دارین کی نعمتوں سے نوازے اور ترقیات نصیب کرے اور میری عاجزانہ دعائیں ان سب کے حق میں قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب فضل الصلوۃ فی مکۃ والمدینۃ
باب : جو شخص مسجد قباء میں ہرہفتہ حاضر ہوا

حدیث نمبر : 1193
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن مسلم، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يأتي مسجد قباء كل سبت ماشيا وراكبا‏.‏ وكان عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ يفعله‏.‏
ہم سے موسی بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبدا للہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کو مسجد قباءآتے پیدل بھی ( بعض دفعہ ) اور سواری پر بھی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے۔

معلوم ہوا کہ مسجد قباءکی ان دو رکعتوں کا عظیم ثواب ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو نصیب فرمائے آمین۔ یہی وہ تاریخی مسجد ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ان لفظوں میں کیا گیا ہے لَمَسجِد اُسِّسَ عَلَی التَّقوٰی مِن اَوَّلِ یَومٍ اَحَقُّ اَن تَقُومَ فِیہِ فِیہِ رِجَال یُّحِبُّونَ اَن یَّتَطَھَّرُوا وَاللّٰہُ یُحِبُّ المُطَّھَّرِینَ ( التوبہ:108 ) یعنی یقینا اس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے۔ اس میں تیرا نماز کے لیے کھڑا ہونا انسب ہے۔ کیونکہ اس میں ایسے نیک دل لوگ ہیں جو پاکیزگی چاہتے ہیں۔ اور اللہ تعالی پاکی چاہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب فضل الصلوۃ فی مکۃ والمدینۃ
باب : مسجد قباء آنا کبھی سواری پر اور کبھی پیدل ( یہ سنت نبوی ہے )

حدیث نمبر : 1194
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال حدثني نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يأتي قباء راكبا وماشيا‏.‏ زاد ابن نمير حدثنا عبيد الله عن نافع فيصلي فيه ركعتين‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، اور ان سے عبیداللہ عمری نے بیان کیاکہ مجھ سے نافع نے ا بن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قباءآتے کبھی پیدل اور کبھی سواری پر۔ ا بن نمیر نے اس میں یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے عبید اللہ بن عمیر نے بیان کیا اور ان سے نافع نے کہ پھر آپ اس میں دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔

آج کل تو سواریوں کی اس قدر بہتات ہوگئی ہے کہ ہر ساعت سواری موجود ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر دو عمل کر کے دکھلائے۔ پھر بھی پیدل جانے میں زیادہ ثواب یقینی ہے۔ مسجد قباء میں حاضری مسجد نبوی ہی کی زیارت کا ایک حصہ سمجھنا چاہیے۔ لہذا اسے حدیث لا تشد الرحال کے تحت نہیں لایا جا سکتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب فضل الصلوۃ فی مکۃ والمدینۃ
باب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرشریف اور منبر مبارک کے درمیانی حصہ کی فضیلت کا بیان

حدیث نمبر : 1195
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد الله بن أبي بكر، عن عباد بن تميم، عن عبد الله بن زيد المازني ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک ؒ نے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن ابی بکر نے، انہیں عباد بن تمیم نے اور انہیں ( ان کے چچا ) عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے اس منبر کے درمیان کا حصہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔

نیز یہی مسجد نبوی ہے جس میں ایک رکعت ہزار رکعتوں کے برابر درجہ رکھتی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے میری مسجد میں چالیس نمازوں کو اس طرح با جماعت ادا کیا کہ تکبیر تحریمہ فوت نہ ہوسکی، اس کے لیے میری شفاعت واجب ہوگی۔

حدیث نمبر : 1196
حدثنا مسدد، عن يحيى، عن عبيد الله، قال حدثني خبيب بن عبد الرحمن، عن حفص بن عاصم، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ما بين بيتي ومنبري روضة من رياض الجنة، ومنبري على حوضي‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، ان سے یحی نے، ان سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا کہ مجھ سے خبیب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے حفص بن عاصم نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور میرا منبر قیامت کے دن میرے حوض پر ہوگا۔

تشریح : چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں مدفون ہیں، اس لیے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر “قبر اور منبر کے درمیان ”باب منعقد فرمایا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ایک روایت میں ( بیت ) گھر کے بجائے قبرہی کا لفظ ہے۔ گویا عالم تقدیر میں جو کچھ ہونا تھا، اس کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی خبر دی تھی، بلا شک وشبہ یہ حصہ جنت ہی کا ہے اور عالم آخرت میں یہ جنت ہی کا ایک حصہ بن جائے گا۔ “میرا منبر میرے حوض پر ہے۔”کامطلب یہ ہے کہ حوض یہیں پر ہوگا۔ یا یہ کہ جہاں بھی میرا حوض کوثر ہو گا وہاں ہی یہ منبر رکھا جائے گا۔ آپ اس پر تشریف فرما ہوں گے اور اپنے دست مبارک سے مسلمان کو جام کوثر پلائیں گے مگر اہل بدعت کو وہاں حاضری سے روک دیا جائے گا۔ جنہوں نے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا حلیہ بگاڑ دیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کا حال معلوم فرما کر فرمائیں گے۔ سحقا لمن بدل سحقا لمن غیر دوری ہو ان کو جنہوں نے میرے بعد میرے دین کو بدل دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب فضل الصلوۃ فی مکۃ والمدینۃ
باب : بیت المقدس کی مسجد کا بیان

حدیث نمبر : 1197
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن عبد الملك، سمعت قزعة، مولى زياد قال سمعت أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ يحدث بأربع عن النبي صلى الله عليه وسلم فأعجبنني وآنقنني قال ‏"‏ لا تسافر المرأة يومين إلا معها زوجها أو ذو محرم‏.‏ ولا صوم في يومين الفطر والأضحى، ولا صلاة بعد صلاتين بعد الصبح حتى تطلع الشمس، وبعد العصر حتى تغرب، ولا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجد الحرام ومسجد الأقصى ومسجدي‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، انہوں نے زیاد کے غلام قزعہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے چار حدیثیں بیان کر تے ہوئے سنا جو مجھے بہت پسند آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورت اپنے شوہر یا کسی ذی رحم محرم کے بغیر دو دن کا بھی سفرنہ کرے اور دوسری یہ کہ عید الفطر اور عید الضحی دونوں دن روزوے نہ رکھے جائیں۔ تیسری حدیث یہ کہ صبح کی نماز کے بعد سورج کے نکلنے تک اور عصر کے بعد سورج چھپنے تک کوئی نفل نماز نہ پڑھی جائے۔ چوتھی یہ کہ تین مسجدوں کے سوا کسی کے لیے کجاوے نہ باندھے جائیں۔ مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد ( یعنی مسجد نبوی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب العمل فی الصلوۃ


صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
(نماز میں کام کے بارے میں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم


باب : نماز میں ہاتھ سے نماز کا کوئی کام کرنا
وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يستعين الرجل في صلاته من جسده بما شاء‏.‏ ووضع أبو إسحاق قلنسوته في الصلاة ورفعها‏.‏ ووضع علي ـ رضى الله عنه ـ كفه على رصغه الأيسر، إلا أن يحك جلدا أو يصلح ثوبا

اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نماز میں آدمی اپنے جسم کے جس حصے سے بھی چاہے، مدد لے سکتا ہے۔ ابو اسحاق نے اپنی ٹوپی نماز پڑھتے ہوئے رکھی اور اٹھائی۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی ہتھیلی بائیں پہنچے پر رکھتے البتہ اگر کھجلانا یا کپڑا درست کرنا ہوتا ( تو کر لیتے تھے )

تشریح : مثلاًنمازی کے سامنے سے کوئی گزررہا ہو اس کو ہٹادینا یا سجدے کے مقام پر کوئی ایسی چیز آن پڑے جس پر سجدہ نہ ہو سکے تو اس کا سر کا دینا۔ آگے جاکر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی للہ عنہ کا جو اثر نقل کیا ہے، اس سے یہ نکالا کہ بدن کھجلانا یا کپڑا سنوارنا نماز کا کام نہیں مگر یہ مستثنیٰ ہے یعنی نماز میں جائز ہے۔ مگر ایسے کاموں کی نماز میں عادت بنا لینا خشوع اور خضوع کے منافی ہے۔

حدیث نمبر : 1198
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن مخرمة بن سليمان، عن كريب، مولى ابن عباس أنه أخبره عن عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أنه بات عند ميمونة أم المؤمنين ـ رضى الله عنها ـ وهى خالته ـ قال فاضطجعت على عرض الوسادة، واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأهله في طولها، فنام رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى انتصف الليل أو قبله بقليل أو بعده بقليل، ثم استيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم فجلس، فمسح النوم عن وجهه بيده، ثم قرأ العشر آيات خواتيم سورة آل عمران، ثم قام إلى شن معلقة فتوضأ منها، فأحسن وضوءه، ثم قام يصلي‏.‏ قال عبد الله بن عباس ـ رضى الله عنهما ـ فقمت فصنعت مثل ما صنع، ثم ذهبت فقمت إلى جنبه، فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده اليمنى على رأسي، وأخذ بأذني اليمنى يفتلها بيده، فصلى ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم ركعتين، ثم أوتر، ثم اضطجع حتى جاءه المؤذن، فقام فصلى ركعتين خفيفتين، ثم خرج فصلى الصبح‏.‏
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہیں امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں مخرمہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ابن عباس کے غلام کریب نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ آپ ایک رات ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے یہاں سوئے۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا آپ کی خالہ تھیں۔ آپ نے بیان کیا کہ میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی اس کے طول میں لیٹے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتی کہ آدھی رات ہوئی یا اس سے تھوڑی دیر پہلے یابعد۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوکر بیٹھ گئے اور چہرے پر نیند کے خمار کو اپنے دونوں ہاتھوں سے دور کر نے لگے۔ پھر سورہ¿ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں پڑھیں۔ اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں بھی اٹھا اور جس طرح آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا میں نے بھی کیا اور پھر جا کر آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرے داہنے کان کوپکڑ کر اسے اپنے ہاتھ سے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت پڑھی۔ اس کے بعد ( ایک رکعت ) وتر پڑھا اور لیٹ گئے۔ جب مؤذن آیا تو آپ دوبارہ اٹھے اور دو ہلکی رکعتیں پڑھ کر باہر نماز ( فجر ) کے لیے تشریف لے گئے۔

تشریح : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا کان مروڑنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض ان کی اصلاح کرنی تھی کہ وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو پھر جائیں۔ کیونکہ مقتدی کا مقام امام کے دائیں طرف ہے۔ یہیں سے امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمہ باب نکالا کیونکہ جب نمازی کو دوسرے کی نماز درست کرنے کے لیے ہاتھ سے کام لینا درست ہواتو اپنی نماز درست کرنے کے لیے تو بطریق اولیٰ ہاتھ سے کام لینا جائز ہوگا ( وحیدی ) اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ آپ کبھی تہجد کی نماز تیرہ رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔ نماز میں عمداًکام کرنا بالاتفاق مفسد صلوۃ ہے۔ بھول چوک کے لیے امید عفو ہے۔یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز تہجد کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ کر ساری نماز کا طاق کرلینا بھی ثابت ہوا۔ اس قدر وضاحت کے باوجود تعجب ہے کہ بہت سے ذی علم حضرات ایک رکعت وتر کا انکار کرتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : نماز میں بات کرنا منع ہے

حدیث نمبر : 1199
حدثنا ابن نمير، حدثنا ابن فضيل، حدثنا الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال كنا نسلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة فيرد علينا، فلما رجعنا من عند النجاشي سلمنا عليه فلم يرد علينا وقال ‏"‏ إن في الصلاة شغلا‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( پہلے ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے ہوتے اور ہم سلام کرتے تو آپ اس کا جواب دیتے تھے۔ جب ہم نجاشی کے یہاں سے واپس ہوئے تو ہم نے ( پہلے کی طرح نماز ہی میں ) سلام کیا۔ لیکن اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا بلکہ نماز سے فارغ ہو کر فرمایا کہ نماز میں آدمی کو فرصت کہاں۔

حدثنا ابن نمير، حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا هريم بن سفيان، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم نحوه‏.
ہم سے محمد بن عبد اللہ بن نمیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، ان سے ہریم بن سفیان نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے پھر ایسی ہی روایت بیان کی۔

تشریح : حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان بزرگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابتدائے اسلام میں حبشہ میں جا کر پناہ لی تھی اور نجاشی شاہ حبشہ نے جن کو بڑی عقیدت سے اپنے ہاں جگہ دی تھی۔ اسلام کا بالکل ابتدائی دورتھا، اس وقت نماز میں باہمی کلام جائز تھا بعد میں جب وہ حبشہ سے لوٹے تو نماز میں باہمی کلام کرنے کی ممانعت ہوچکی تھی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری جملہ کا مفہوم یہ کہ نماز میں تو آدمی حق تعالی کی یاد میں مشغول ہوتا ہے ادھر دل لگارہتا ہے اس لیے یہ لوگوں سے بات چیت کا موقع نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 1200
حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا عيسى ـ هو ابن يونس ـ عن إسماعيل، عن الحارث بن شبيل، عن أبي عمرو الشيباني، قال قال لي زيد بن أرقم إن كنا لنتكلم في الصلاة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم، يكلم أحدنا صاحبه بحاجته حتى نزلت ‏{‏حافظوا على الصلوات‏}‏ الآية، فأمرنا بالسكوت‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کوعیسی بن یونس نے خبر دی، انہیں اسماعیل بن ابی خالد نے، انہیں حارث بن شیل نے، انہیں ابوعمرو بن سعد بن ابی ایاس شیبانی نے بتایا کہ مجھ سے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نماز پڑھنے میں باتیں کرلیا کرتے تھے۔ کوئی بھی اپنے قریب کے نمازی سے اپنی ضرورت بیان کردیتا۔ پھر آیت ( حافظوا علی الصلوات ) الخ اتری اور ہمیں ( نماز میں ) خاموش رہنے کا حکم ہوا۔

آیت کا ترجمہ یہ ہے“نمازون کا خیال رکھو اوربیچ والی نماز کا اور اللہ کے سامنے ادب سے چپکے کھڑے رہو ( سورۃ بقرہ ) درمیانی نماز سے عصر کی نماز مراد ہے۔ آیت سے ظاہر ہوا کہ نماز میں کوئی بھی دنیاوی بات کرنا قطعا منع ہے۔
 
Top