صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : آدمی نماز میں کسی بات کا فکر کرے تو کیسا ہے؟
وقال عمر ـ رضى الله عنه ـ إني لأجهز جيشي وأنا في الصلاة.
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نماز پڑھتا رہتا ہوں اور نماز ہی میں جہاد کے لیے اپنی فوج کا سامان کیا کرتا ہوں۔
تشریح : باب کا مقصد یہ ہے کہ نماز میں کچھ سوچنے سے نماز باطل نہ ہوگی کیونکہ اس سے بچنا دشوار ہے پھر اگر سوچنا دین اور آخرت سے متعلق ہو تو خفیف بات ہے اور اگر دنیاوی کام ہو تو بہت بھاری ہے۔ علماءرحمہم اللہ نے اس نماز ی کو جس کا نماز میں دنیاوی امور پر دھیان ہواور اللہ سے غافل ہو ایسے شخص کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کسی بادشاہ کے سامنے بطور تحفہ ایک مری ہوئی لونڈی پیش کرے۔ ظاہر ہے کہ بادشاہ اس تحفہ سے انتہائی ناخوش ہوگا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ
برزبان تسبیح و دل در گاؤخر
ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر
یعنی جب زبان پر تسبیح جاری ہو اور دل گھر کے جانوروں گایوں اور گدھوں میں لگا ہوا ہو تو ایسی تسبیح کیا اثر پیدا کر سکتی ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے اثر مذکور کو ابن ابی شیبہ نے باسناد صحیح روایت کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ نے اپنے دین کی خدمت ونصرت کے لیے پیدا فرما یا تھا۔ ان کو نماز میں بھی وہی خیالات دامن گیر رہتے تھے،نماز میں جہاد کے لیے فوج کشی اور جنگی تدابیر سوچتے تھے چونکہ نماز نفس اور شیطان کے ساتھ جہاد ہے اور ان حربی تدابیر کو سوچنا بھی از قسم جہاد ہے لہذا مفسد نماز نہیں۔ ( حواشی سلفیہ پ :5ص:443 )
حدیث نمبر : 1221
حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا روح، حدثنا عمر ـ هو ابن سعيد ـ قال أخبرني ابن أبي مليكة، عن عقبة بن الحارث ـ رضى الله عنه ـ قال صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم العصر، فلما سلم قام سريعا دخل على بعض نسائه، ثم خرج ورأى ما في وجوه القوم من تعجبهم لسرعته فقال " ذكرت وأنا في الصلاة تبرا عندنا، فكرهت أن يمسي أو يبيت عندنا فأمرت بقسمته".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے روح بن عبادہ نے، کہا کہ ہم سے عمر نے جو سعید کے بیٹے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے، انہوںنے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے ہی بڑی تیزی سے اٹھے اور اپنی ایک بیوی کے حجرہ میں تشریف لے گئے، پھر باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جلدی پر اس تعجب و حیرت کو محسوس کیا جو صحابہ کے چہروں سے ظاہر ہو رہا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں مجھے سونے کا ایک ڈلا یا د آگیا جو ہمارے پاس تقسیم سے باقی رہ گیاتھا۔ مجھے بر امعلوم ہوا کہ ہمارے پاس وہ شام تک یا رات تک رہ جائے۔ اس لیے میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔
نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سونے کا وہ بقایا ڈلا تقسیم کے لیے یاد آگیا یہیں سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
حدیث نمبر : 1222
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن جعفر، عن الأعرج، قال قال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا أذن بالصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع التأذين، فإذا سكت المؤذن أقبل، فإذا ثوب أدبر فإذا سكت أقبل، فلا يزال بالمرء يقول له اذكر ما لم يكن يذكر حتى لا يدري كم صلى". قال أبو سلمة بن عبد الرحمن إذا فعل أحدكم ذلك فليسجد سجدتين وهو قاعد. وسمعه أبو سلمة من أبي هريرة ـ رضى الله عنه.
ہم سے یحی بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے، ان سے جعفربن ربیعہ نے اور ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کر ریاح خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے۔ جب مؤذن چپ ہو جاتا ہے تو مردود پھر آجاتا ہے اور جب جماعت کھڑی ہونے لگتی ہے ( اور تکبیر کہی جاتی ہے ) تو پھر بھاگ جاتا ہے۔ لیکن جب مؤذن چپ ہوجاتا ہے تو پھر آجاتا ہے۔ اور آدمی کے دل میں برابر وساوس پیدا کرتا رہتا ہے۔ کہتا ہے کہ ( فلاں فلاں بات ) یاد کر۔ کم بخت وہ باتیں یاددلاتا ہے جو اس نمازی کے ذہن میں بھی نہ تھیں۔ اس طرح نمازی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے کہا کہ جب کوئی یہ بھول جائے ( کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ) تو بیٹھے بیٹھے ( سہو کے ) دو سجدے کر لے۔ ابو سلمہ نے یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا۔
معلوم ہوا کہ نماز میں شیطان وساوس کے لیے پوری کوشش کرتا ہے۔ اس لیے اس بارے میں انسان مجبور ہے۔ پس جب نماز کے اندر شیطانی وساوس کی وجہ سے یہ نہ معلوم رہے کہ کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہوں تو یقین پر بنا رکھے، اگر اس کے فہم میں نماز پوری نہ ہو تو پوری کر کے سہو کے دو سجدے کر لے۔ ( قسطلانی )
حدیث نمبر : 1223
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عثمان بن عمر، قال أخبرني ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، قال قال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول الناس أكثر أبو هريرة، فلقيت رجلا فقلت بم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم البارحة في العتمة فقال لا أدري. فقلت لم تشهدها قال بلى. قلت لكن أنا أدري، قرأ سورة كذا وكذا.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے کہاکہ مجھے ابن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے ( اور حال یہ ہے کہ ) میں ایک شخص سے ایک مرتبہ ملا اور اس سے میں نے ( بطور امتحان ) دریافت کیا کہ گزشتہ رات نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاءمیں کون کون سی سورتیں پڑھی تھیں؟ اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم۔ میں نے پوچھا کہ تم نماز میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں شریک تھا۔ میں نے کہا لیکن مجھے تو یاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں سورتیں پڑھی تھیں۔
تشریح : اس روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ بتائی ہے کہ میں احادیث دوسرے بہت سے صحابہ کے مقابلے میں زیادہ کیوں بیان کرتا ہوں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو اور دوسرے اعمال کو یاد رکھنے کی کوشش دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کرتا تھا۔ ایک روایت میں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں ہر وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ رہتا تھا، میرے اہل وعیال نہیں تھے،کھانے کمانے کی فکر نہیں تھی، “صفہ” میں رہنے والے غریب صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں دن گزرتا تھا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔اس لیے میں نے احادیث آپ سے زیادہ سنیں اور چونکہ محفوظ بھی رکھیں اس لیے انہیں بیان کرتا ہوں۔ یہ حدیث کتاب العلم میں پہلے بھی آچکی ہے۔ وہیں اس کی بحث کا موقع بھی تھا۔ ان احادیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص عنوان کے تحت ا س لیے جمع کیا ہے کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ خیالات اورتفکرات ایسی چیزیں ہیں جن سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن حالات اور خیالات کی نوعیت کے فرق کا یہاں بھی لحاظ ضرور ہوگا۔ اگر امور آخرت کے متعلق خیالات نماز میں آئیں تو وہ دنیاوی امور کے بنسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہونگے ( تفہیم البخاری ) باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ وہ صحابی نماز اور خطرات میں مستغرق رہتا تھا۔پھر بھی وہ اعادہ صلوۃ کے ساتھ مامور نہیں ہوا۔