• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : اگر کوئی مرد مسئلہ نہ جاننے کی وجہ سے نماز میں دستک دے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی

فيه سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.
اس باب میں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ ( جو اوپر گزر چکی ہے اور آگے بھی آئے گی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : اس بارے میں کہ اگرنماز ی سے کوئی کہے کہ آگے بڑھ جایا ٹھہر جا اور وہ آگے بڑھ جائے یا ٹھہر جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے

حدیث نمبر : 1215
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ قال كان الناس يصلون مع النبي صلى الله عليه وسلم وهم عاقدو أزرهم من الصغر على رقابهم، فقيل للنساء ‏"‏ لا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا‏"‏‏.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں ابو حازم نے، ان کو سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز اس طرح پڑھتے کہ تہبند چھوٹے ہونے کی وجہ سے انہیں اپنی گردنوں سے باندھے رکھتے اور عورتوں کو ( جو مردوں کے پیچھے جماعت میں شریک رہتی تھیں ) کہہ دیا جاتا کہ جب تک مرد پوری طرح سمٹ کرنہ بیٹھ جائیں تم اپنے سر ( سجدے سے ) نہ اٹھانا۔

تشریح : امام نماز میں بھول جائے یا کسی دیگرضروری امر پر اما م کو آگاہ کرنا ہوتو مرد سبحان اللہ کہیں اور عورت تالیاں بجائیں اگر کسی مرد نے نادانی کی وجہ سے تالیاں بجائیں تو اس کی نماز نہیں ٹوٹے گی۔ چنانچہ سہل رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جو دو بابوں کے بعد آرہی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے نادانی کی وجہ سے ایسا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا۔ حدیث اور باب میں یوں مطابقت ہوئی کہ یہ بات عورتوں کو حالت نماز میں کہی گئی یا نماز سے پہلے۔ شق اول میں معلوم ہو اکہ نمازی کو مخاطب کرنا اور نمازی کے لیے کسی کا انتظار کرنا جائز ہے اور شق ثانی میں معلوم ہوا کہ نماز میں انتظار کرنا جائز ہے۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے کلام کا حاصل یہ ہے کہ کسی کا انتظار اگر شرعی ہے تو جائزہے ورنہ نہیں ( فتح الباری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : نماز میں سلام کا جواب ( زبان سے ) نہ دے

حدیث نمبر : 1216
حدثنا عبد الله بن أبي شيبة، حدثنا ابن فضيل، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال كنت أسلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة فيرد على، فلما رجعنا سلمت عليه فلم يرد على وقال ‏"‏ إن في الصلاة شغلا‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ( ابتداءاسلام میں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں ہوتے تو میں آپ کو سلام کر تا تو آپ جواب دیتے تھے۔ مگر جب ہم ( حبشہ سے جہاں ہجرت کی تھی ) واپس آئے تو میں نے ( پہلے کی طرح نماز میں ) سلام کیا۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا ( کیونکہ اب نماز میں بات چیت وغیرہ کی ممانعت نازل ہوگئی تھی ) اور فرمایا کہ نماز میں اس سے مشغولیت ہوتی ہے۔

تشریح : علماءکا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ واپسی مکہ شریف کوتھی یا مدینہ منورہ کو۔ حافظ نے فتح الباری میں اسے ترجیح دی ہے کہ مدینہ منورہ کو تھی جس طرح پہلے گزر چکا ہے اور جب یہ واپس ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی لڑائی کے لیے تیاری فرمارہے تھے۔ اگلی حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے کہ نماز کے اندر کلام کرنا مدینہ میں حرام ہوا۔ کیونکہ حضرت جابر انصاری مدینہ کے باشندے تھے۔

حدیث نمبر : 1217
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا كثير بن شنظير، عن عطاء بن أبي رباح، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة له فانطلقت، ثم رجعت وقد قضيتها، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فسلمت عليه، فلم يرد على، فوقع في قلبي ما الله أعلم به فقلت في نفسي لعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وجد على أني أبطأت عليه، ثم سلمت عليه فلم يرد على، فوقع في قلبي أشد من المرة الأولى، ثم سلمت عليه فرد على فقال ‏"‏ إنما منعني أن أرد عليك أني كنت أصلي‏"‏‏. ‏ وكان على راحلته متوجها إلى غير القبلة‏.‏
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے کثیر بن شنظیر نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے ان سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی ایک ضرورت کے لیے ( غزوہ¿ بنی مصطلق میں ) بھیجا۔ میں جاکر واپس آیا، میں نے کام پورا کر دیاتھا۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر ہوکر آپ کو سلام کیا۔ لیکن آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میرے دل میںاللہ جانے کیا بات آئی اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر اس لیے خفا ہیں کہ میں دیر سے آیا ہوں۔ میں نے پھر دوبارہ سلام کیا اور جب اس مرتبہ بھی آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو اب میرے دل میںپہلے سے بھی زیادہ خیال آیا۔ پھر میں نے ( تیسری مرتبہ ) سلام کیا، اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا اور فرمایا کہ پہلے جو دوبارمیں نے جواب نہ دیا تو اس وجہ سے تھا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر تھے اور اس کا رخ قبلہ کی طرف نہ تھا بلکہ دوسری طرف تھا۔

تشریح : مسلم کی روایت میں ہے کہ یہ غزوہ بنی المصطلق میں تھا۔ اور مسلم ہی کی روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ آپ نے ہاتھ کے اشارے سے جواب دیا اور جابر رضی اللہ عنہ کا مفہوم ومتفکر ہونا اس لیے تھا کہ انہوں نے یہ نہ سمجھا کہ یہ اشارہ سلام کا جواب ہے۔ کیونکہ پہلے زبان سے سلام کا جواب دیتے تھے نہ کہ اشارہ سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ

باب : نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا

حدیث نمبر : 1218
حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ قال بلغ رسول الله صلى الله عليه وسلم أن بني عمرو بن عوف بقباء كان بينهم شىء، فخرج يصلح بينهم في أناس من أصحابه، فحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت الصلاة، فجاء بلال إلى أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ فقال يا أبا بكر، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حبس وقد حانت الصلاة، فهل لك أن تؤم الناس قال نعم إن شئت‏.‏ فأقام بلال الصلاة، وتقدم أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ فكبر للناس، وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف يشقها شقا، حتى قام في الصف، فأخذ الناس في التصفيح‏.‏ قال سهل التصفيح هو التصفيق‏.‏ قال وكان أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ لا يلتفت في صلاته، فلما أكثر الناس التفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأشار إليه، يأمره أن يصلي، فرفع أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ يده، فحمد الله، ثم رجع القهقرى وراءه حتى قام في الصف، وتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى للناس، فلما فرغ أقبل على الناس فقال ‏"‏ يا أيها الناس ما لكم حين نابكم شىء في الصلاة أخذتم بالتصفيح إنما التصفيح للنساء، من نابه شىء في صلاته فليقل سبحان الله‏"‏‏. ‏ ثم التفت إلى أبي بكر ـ رضى الله عنه ـ فقال ‏"‏ يا أبا بكر، ما منعك أن تصلي للناس حين أشرت إليك‏"‏‏. ‏ قال أبو بكر ما كان ينبغي لابن أبي قحافة أن يصلي بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدا لعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ابو حازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی کہ قباءکے قبیلہ بنو عمروبن عوف میں کوئی جھگڑا ہوگیا ہے۔ اس لیے آپ کئی اصحاب کو ساتھ لے کر ان میں ملاپ کرانے کے لیے تشریف لے گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلح صفائی کے لیے ٹھہر گئے۔ ادھر نماز کا وقت ہوگیا تو بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیں آئے اور نماز کا وقت ہو گیا، تو کیا آپ لوگوں کو نماز پڑھائیں گے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہاں اگر تم چاہتے ہوتوپڑھا دوں گا۔ چنانچہ بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور ابو بکر نے آگے بڑھ کر نیت باندھ لی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے آئے اور صفوں سے گزر تے ہوئے آپ پہلی صف میں آکھڑے ہوئے، لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ مارنے شروع کر دیئے۔ ( سہل نے کہا کہ تصفیح کے معنی تصفیق کے ہیں ) آپ نے بیان کیا کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نما زمیں کسی طرف متوجہ نہیںہوتے تھے۔ لیکن جب لوگوں نے بہت دستکیںدیں تو انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے ابو بکر کو نماز پڑھانے کے لیے کہا۔ اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور پھر الٹے پاؤں پیچھے کی طرف چلے آئے اور صف میں کھڑے ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز سے فارغ ہوکر آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ لوگو! یہ کیا بات ہے کہ جب نماز میں کوئی بات پیش آتی ہے تو تم تالیاں بجانے لگتے ہو۔ یہ مسئلہ تو عورتوں کے لیے ہے۔ تمہیں اگر نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو سبحان اللہ کہا کرو۔ اس کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرما یا کہ ابوبکر!میرے کہنے کے باوجود تم نے نمازکیوں نہیں پڑھائی؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ ابو قحافہ کے بیٹے کو زیب نہیں دیتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز پڑھائے۔

تشریح : حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے رب کے سامنے ہاتھوں کو اٹھا کر الحمد للہ کہا۔ اس میں کچھ ہرج ہوتا تو آپ ضرور منع فرمادیتے اور اس سے حدیث کی مناسبت باب سے ظاہر ہوئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : نماز میں کمرپر ہاتھ رکھنا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 1219
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد، عن أيوب، عن محمد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال نهي عن الخصر، في الصلاة‏.‏ وقال هشام وأبو هلال عن ابن سيرين، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد بن سیرین نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنے سے منع کیا گیا تھا۔ ہشام اور ابو ہلال محمد بن سلیم نے، ابن سیرین سے اس حدیث کو روایت کیا، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔

حدیث نمبر : 1220
حدثنا عمرو بن علي، حدثنا يحيى، حدثنا هشام، حدثنا محمد، عن أبي هريرة، رضى الله عنه قال نهي أن يصلي الرجل مختصرا‏.‏
ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحیٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان فردوسی نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کمر پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔

تشریح : یعنی کوکھ پر ہاتھ رکھنے سے منع فرمایا۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ ابلیس اسی حالت میں آسمان سے اتاراگیا اور یہود اکثر ایسا کیا کرتے تھے یا دوزخی اسی طرح راحت لیں گے۔ اس لیے اس سے منع کیا گیا، یہ متکبروں کی بھی علامت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : آدمی نماز میں کسی بات کا فکر کرے تو کیسا ہے؟

وقال عمر ـ رضى الله عنه ـ إني لأجهز جيشي وأنا في الصلاة‏.
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نماز پڑھتا رہتا ہوں اور نماز ہی میں جہاد کے لیے اپنی فوج کا سامان کیا کرتا ہوں۔

تشریح : باب کا مقصد یہ ہے کہ نماز میں کچھ سوچنے سے نماز باطل نہ ہوگی کیونکہ اس سے بچنا دشوار ہے پھر اگر سوچنا دین اور آخرت سے متعلق ہو تو خفیف بات ہے اور اگر دنیاوی کام ہو تو بہت بھاری ہے۔ علماءرحمہم اللہ نے اس نماز ی کو جس کا نماز میں دنیاوی امور پر دھیان ہواور اللہ سے غافل ہو ایسے شخص کے ساتھ تشبیہ دی ہے جو کسی بادشاہ کے سامنے بطور تحفہ ایک مری ہوئی لونڈی پیش کرے۔ ظاہر ہے کہ بادشاہ اس تحفہ سے انتہائی ناخوش ہوگا۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ

برزبان تسبیح و دل در گاؤخر
ایں چنیں تسبیح کے دارد اثر

یعنی جب زبان پر تسبیح جاری ہو اور دل گھر کے جانوروں گایوں اور گدھوں میں لگا ہوا ہو تو ایسی تسبیح کیا اثر پیدا کر سکتی ہے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ کے اثر مذکور کو ابن ابی شیبہ نے باسناد صحیح روایت کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ نے اپنے دین کی خدمت ونصرت کے لیے پیدا فرما یا تھا۔ ان کو نماز میں بھی وہی خیالات دامن گیر رہتے تھے،نماز میں جہاد کے لیے فوج کشی اور جنگی تدابیر سوچتے تھے چونکہ نماز نفس اور شیطان کے ساتھ جہاد ہے اور ان حربی تدابیر کو سوچنا بھی از قسم جہاد ہے لہذا مفسد نماز نہیں۔ ( حواشی سلفیہ پ :5ص:443 )

حدیث نمبر : 1221
حدثنا إسحاق بن منصور، حدثنا روح، حدثنا عمر ـ هو ابن سعيد ـ قال أخبرني ابن أبي مليكة، عن عقبة بن الحارث ـ رضى الله عنه ـ قال صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم العصر، فلما سلم قام سريعا دخل على بعض نسائه، ثم خرج ورأى ما في وجوه القوم من تعجبهم لسرعته فقال ‏"‏ ذكرت وأنا في الصلاة تبرا عندنا، فكرهت أن يمسي أو يبيت عندنا فأمرت بقسمته‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے روح بن عبادہ نے، کہا کہ ہم سے عمر نے جو سعید کے بیٹے ہیں، انہوں نے کہا کہ مجھے ابن ابی ملیکہ نے خبر دی عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے، انہوںنے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے ہی بڑی تیزی سے اٹھے اور اپنی ایک بیوی کے حجرہ میں تشریف لے گئے، پھر باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جلدی پر اس تعجب و حیرت کو محسوس کیا جو صحابہ کے چہروں سے ظاہر ہو رہا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں مجھے سونے کا ایک ڈلا یا د آگیا جو ہمارے پاس تقسیم سے باقی رہ گیاتھا۔ مجھے بر امعلوم ہوا کہ ہمارے پاس وہ شام تک یا رات تک رہ جائے۔ اس لیے میں نے اسے تقسیم کرنے کا حکم دے دیا۔

نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سونے کا وہ بقایا ڈلا تقسیم کے لیے یاد آگیا یہیں سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔

حدیث نمبر : 1222
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن جعفر، عن الأعرج، قال قال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أذن بالصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لا يسمع التأذين، فإذا سكت المؤذن أقبل، فإذا ثوب أدبر فإذا سكت أقبل، فلا يزال بالمرء يقول له اذكر ما لم يكن يذكر حتى لا يدري كم صلى‏"‏‏. ‏ قال أبو سلمة بن عبد الرحمن إذا فعل أحدكم ذلك فليسجد سجدتين وهو قاعد‏.‏ وسمعه أبو سلمة من أبي هريرة ـ رضى الله عنه‏.‏
ہم سے یحی بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے، ان سے جعفربن ربیعہ نے اور ان سے اعرج نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کر ریاح خارج کرتا ہوا بھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے۔ جب مؤذن چپ ہو جاتا ہے تو مردود پھر آجاتا ہے اور جب جماعت کھڑی ہونے لگتی ہے ( اور تکبیر کہی جاتی ہے ) تو پھر بھاگ جاتا ہے۔ لیکن جب مؤذن چپ ہوجاتا ہے تو پھر آجاتا ہے۔ اور آدمی کے دل میں برابر وساوس پیدا کرتا رہتا ہے۔ کہتا ہے کہ ( فلاں فلاں بات ) یاد کر۔ کم بخت وہ باتیں یاددلاتا ہے جو اس نمازی کے ذہن میں بھی نہ تھیں۔ اس طرح نمازی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے کہا کہ جب کوئی یہ بھول جائے ( کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں ) تو بیٹھے بیٹھے ( سہو کے ) دو سجدے کر لے۔ ابو سلمہ نے یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا تھا۔

معلوم ہوا کہ نماز میں شیطان وساوس کے لیے پوری کوشش کرتا ہے۔ اس لیے اس بارے میں انسان مجبور ہے۔ پس جب نماز کے اندر شیطانی وساوس کی وجہ سے یہ نہ معلوم رہے کہ کتنی رکعتیں پڑھ چکا ہوں تو یقین پر بنا رکھے، اگر اس کے فہم میں نماز پوری نہ ہو تو پوری کر کے سہو کے دو سجدے کر لے۔ ( قسطلانی )

حدیث نمبر : 1223
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عثمان بن عمر، قال أخبرني ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، قال قال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول الناس أكثر أبو هريرة، فلقيت رجلا فقلت بم قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم البارحة في العتمة فقال لا أدري‏.‏ فقلت لم تشهدها قال بلى‏.‏ قلت لكن أنا أدري، قرأ سورة كذا وكذا‏.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے کہاکہ مجھے ابن ابی ذئب نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ بہت زیادہ حدیثیں بیان کرتا ہے ( اور حال یہ ہے کہ ) میں ایک شخص سے ایک مرتبہ ملا اور اس سے میں نے ( بطور امتحان ) دریافت کیا کہ گزشتہ رات نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عشاءمیں کون کون سی سورتیں پڑھی تھیں؟ اس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم۔ میں نے پوچھا کہ تم نماز میں شریک تھے؟ کہا کہ ہاں شریک تھا۔ میں نے کہا لیکن مجھے تو یاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں فلاں سورتیں پڑھی تھیں۔

تشریح : اس روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کی وجہ بتائی ہے کہ میں احادیث دوسرے بہت سے صحابہ کے مقابلے میں زیادہ کیوں بیان کرتا ہوں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو اور دوسرے اعمال کو یاد رکھنے کی کوشش دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کرتا تھا۔ ایک روایت میں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میں ہر وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ رہتا تھا، میرے اہل وعیال نہیں تھے،کھانے کمانے کی فکر نہیں تھی، “صفہ” میں رہنے والے غریب صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں دن گزرتا تھا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑتا تھا۔اس لیے میں نے احادیث آپ سے زیادہ سنیں اور چونکہ محفوظ بھی رکھیں اس لیے انہیں بیان کرتا ہوں۔ یہ حدیث کتاب العلم میں پہلے بھی آچکی ہے۔ وہیں اس کی بحث کا موقع بھی تھا۔ ان احادیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک خاص عنوان کے تحت ا س لیے جمع کیا ہے کہ وہ بتانا چاہتے ہیں کہ نماز پڑھتے ہوئے کسی چیز کا خیال آنے یا کچھ سوچنے سے نماز نہیں ٹوٹتی۔ خیالات اورتفکرات ایسی چیزیں ہیں جن سے بچنا ممکن نہیں ہوتا۔ لیکن حالات اور خیالات کی نوعیت کے فرق کا یہاں بھی لحاظ ضرور ہوگا۔ اگر امور آخرت کے متعلق خیالات نماز میں آئیں تو وہ دنیاوی امور کے بنسبت نماز کی خوبیوں پر کم اثر انداز ہونگے ( تفہیم البخاری ) باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ وہ صحابی نماز اور خطرات میں مستغرق رہتا تھا۔پھر بھی وہ اعادہ صلوۃ کے ساتھ مامور نہیں ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب السہو


صحیح بخاری -> کتاب السہو

(سہو کا بیان)
بسم اللہ الرحمن الرحیم


باب : اگر چار رکعت نماز میں پہلا قعدہ نہ کرے اور بھولے سے اٹھ کھڑا ہو تو سجدہ سہو کرے
تشریح : سہو بھول چوک سے ہونے والی غفلتوں کو کہتے ہیں۔ اس کے بارے میں علمائے مذاہب کا اختلاف ہے۔ شافعیہ کے نزدیک سہوکے سارے سجدے مسنون ہیں اور مالکیہ خاص نقصان کے سجود سہو کو واجب کہتے ہیں اور حنابلہ ارکان کے سوا اور واجبات کے ترک پر واجب کہتے ہیں۔ اور سنن قولیہ کے ترک پر غیر واجب نیز ایسے قول یا فعل کے زیادہ پر واجب جانتے ہیں جس کے عمداً کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے اور حنفیہ کے ہاں سہو کے سب سجدے واجب ہیں ( فتح الباری ) بھول چوک انسانی فطرت میں داخل ہے اس لیے نماز میں سہو کے مسائل کا بیان کرنا ضروری ہوا۔

حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وسن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فیما اذا قصر الانسان فی صلوتہ ان یسجد سجدتین تدار کا لما فرط ففیہ شبہ القضاءوشبہ الکفارۃ والمواضع التی ظھر فیھا النص اربعۃ الاول قولہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا شک احدکم فی صلوتہ ولم یدرکم صلی ثلثااو اربعا فلیطرح الشک ولیبن علی ما استیقن ثم یسجد سجدتین قبل ان یسلم الخ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صورت میں کہ انسان اپنی نماز میں کوئی قصور کرے دو سجدے کرنے کاحکم دیا تاکہ اس کوتاہی کی تلافی ہوجائے۔ پس اس کو قضا کے ساتھ بھی مناسبت ہے اور کفارہ کے ساتھ بھی اور وہ مواضع جن میں نص حدیث سے سجدہ کرنا ثابت ہے چار ہیں۔ اول یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں کوئی نماز میں شک کرے اور نہ جانے تین یا چار کتنی رکعات پڑھی ہیں تو وہ شک دور کر کے، جس مقدار پر یقین ہو سکے اس پر نماز کی بنا کر لے۔ پھر سلام پھیرنے سے پیشتر دو سجدے کر لے۔ پس اگر اس نے پانچ رکعات پڑھی ہیں تو وہ ان دو سجدوں سے اس کو شفع کر لے گا اور اس نے پڑھ کر چار کو پورا کیا ہے تو یہ دونوں سجدے شیطان کے لیے سرزنش ہوں گے اور نیکی میں زیادتی ہوگی اور رکوع وسجود میں شک کرنا بھی اسی قسم سے ہے۔ ( حجۃ اللہ البالغہ )

حدیث نمبر : 1224
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك بن أنس، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن الأعرج، عن عبد الله ابن بحينة ـ رضى الله عنه ـ أنه قال صلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين من بعض الصلوات ثم قام فلم يجلس، فقام الناس معه، فلما قضى صلاته ونظرنا تسليمه كبر قبل التسليم فسجد سجدتين وهو جالس ثم سلم‏.
ہم سے عبد اللہ یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبد الرحمن اعرج نے اور ان سے عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ( چار رکعت ) نماز کی دو رکعت پڑھانے کے بعد ( قعدہ تشہد کے بغیر ) کھڑے ہوگئے، پہلا قعدہ نہیں کیا۔ اس لیے لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ جب آپ نماز پوری کر چکے تو ہم سلام پھیرنے کا انتظار کر نے لگے۔ لیکن آپ نے سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے اللہ اکبر کہا اور سلام ہی سے پہلے دوسجدے بیٹھے بیٹھے کیے پھر سلام پھیرا۔

حدیث نمبر : 1225
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن يحيى بن سعيد، عن عبد الرحمن الأعرج، عن عبد الله ابن بحينة ـ رضى الله عنه ـ أنه قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام من اثنتين من الظهر لم يجلس بينهما، فلما قضى صلاته سجد سجدتين ثم سلم بعد ذلك‏.‏
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انہیں یحی بن سعید انصاری نے خبر دی، انہیں عبد الرحمن اعرج نے خبر دی اور ان سے عبداللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی دو رکعت پڑھنے کے بعد بیٹھے بغیر کھڑے ہوگئے اور قعدہ اولیٰ نہیں کیا۔ جب نماز پوری کر چکے تو دو سجدے کئے۔ پھر ان کے بعد سلام پھیرا۔

اس میں ان پر رد ہے جو کہتے ہیں کہ سہو کے سب سجدے سلام کے بعد ہیں۔ ( فتح الباری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السہو
باب : اگر کسی نے پانچ رکعت نماز پڑھ لی تو کیا کرے؟

تشریح : شاید مقصود امام بخاری کا یہ ہے کہ اگر نماز میں کوئی بات رہ جائے تو سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے جس طرح کہ پورا اوپر گزرا اور اگر نماز میں کچھ زےادتی ہو جائے جس طرح کہ اس باب کی حدیث میں ہے تو سلام کے بعد سجدہ سہو کرے۔ مزنی،مالک،ابوثور اسی کے قائل ہیں۔ابن عبدالبر نے بھی اس قول کو اولیٰ بتلایا ہے اور حنفیہ اگرچہ سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنا اولیٰ نہیں کہتے لیکن جوازکے وہ بھی قائل ہیں۔ صاحب ہدایہ نے اس کی تصریح کی ہے۔خطابی نے کہا کہ زیادت اور نقصان کا فرق کرنا یہ چنداں صحیح نہیں کیونکہ ذو الیدین کی حدیث میں باوجود نقصان کے سجدے سلام کے بعد کئے۔بعض علماءنے کہا کہ امام احمد کا طریقہ سب سے اقویٰ ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہر ایک حدیث کو اس کے محل میں استعمال کرنا چاہیے اور جس صورت میں کوئی حدیث وارد نہیں ہوئی اس میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کرے۔ اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیثیں مروی نہ ہوتیں تو میرے نزدیک سب سجدے سلام سے پہلے ہوتے۔ کیونکہ یہ بھی شان نماز سے ہیں۔ پس ان کا بجالانا سلام سے پہلے ٹھیک ہے۔ ( فتح )

حدیث نمبر : 1226
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الظهر خمسا فقيل له أزيد في الصلاة فقال ‏"‏ وما ذاك‏"‏‏. ‏ قال صليت خمسا‏.‏ فسجد سجدتين بعد ما سلم‏.
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے علقمہ نے اور ان سے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر میں پانچ رکعت پڑھ لیں۔ اس لیے آپ سے پوچھا گیا کہ کیا نماز کی رکعتیں زیادہ ہوگئی ہیں؟ اپ نے فرمایا کہ کیا بات ہے؟ کہنے والے نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعتیں پڑھی ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کے بعد دو سجدے کئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السہو
باب : دو رکعتیں یا تین رکعتیں پڑھ کر سلام پھیردے تو نماز کے سجدوں کی طرح یا ان سے لمبے سہو کے دو سجدے کرے

حدیث نمبر : 1227
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم الظهر أو العصر فسلم، فقال له ذو اليدين الصلاة يا رسول الله أنقصت فقال النبي صلى الله عليه وسلم لأصحابه ‏"‏ أحق ما يقول‏"‏‏. ‏ قالوا نعم‏.‏ فصلى ركعتين أخريين ثم سجد سجدتين‏.‏ قال سعد ورأيت عروة بن الزبير صلى من المغرب ركعتين فسلم وتكلم ثم صلى ما بقي وسجد سجدتين وقال هكذا فعل النبي صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے ابو سلمہ نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر یا عصر کی نماز پڑھائی جب آپ نے سلام پھیرا تو ذوالیدین کہنے لگا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا نماز کی رکعتیں گھٹ گئی ہیں؟ ( کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھول کر صرف دو رکعتوں پر سلام پھیر دیا تھا ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے دریافت کیا کہ کیا یہ سچ کہتے ہیں؟ صحابہ نے کہا جی ہاں، اس نے صحیح کہا ہے۔ تب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت اور پڑھائیں پھر دوسجدے کئے۔ سعد نے بیان کیا کہ عروہ بن زبیر کو میں نے دیکھا کہ آپ نے مغرب کی دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیا اور باتیں بھی کیں۔ پھر باقی ایک رکعت پڑھی اور دو سجدے کئے اور فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السہو
باب : سہو کے سجدوں کے بعد پھر تشہد نہ پڑھے

وسلم أنس والحسن ولم يتشهدا‏.‏ وقال قتادة لا يتشهد‏.
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حسن بصری رحمہ اللہ نے سلام پھیرا ( یعنی سجدہ سہو کے بعد ) اور تشہد نہیں پڑھا اور قتادہ نے کہا کہ تشہد نہ پڑھے۔

حدیث نمبر : 1228
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك بن أنس، عن أيوب بن أبي تميمة السختياني، عن محمد بن سيرين، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ‏.‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم انصرف من اثنتين فقال له ذو اليدين أقصرت الصلاة أم نسيت يا رسول الله فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أصدق ذو اليدين‏"‏‏. ‏ فقال الناس نعم‏.‏ فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى اثنتين أخريين ثم سلم ثم كبر فسجد مثل سجوده أو أطول ثم رفع‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کوا مام مالک بن انس نے خبر دی، انہیں ایوب بن ابی تمیمہ سختیانی نے خبر دی، انہیں محمد بن سیرین نے اور انہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت پڑھ کر اٹھ کھڑے ہوئے تو ذوالیدین نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!کیا نماز کم کر دی گئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا ذوالیدین سچ کہتے ہیں۔ لوگوں نے کہاجی ہاں! یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دورکعت جورہ گئی تھیں ان کو پڑھا، پھر سلام پھیرا، پھر اللہ اکبرکہا اور اپنے سجدے کی طرح ( یعنی نماز کے معمولی سجدے کی طرح ) سجدہ کیا یا اس سے لمبا پھر سرا ٹھایا۔

تشریح : دوسرے مقام پر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے دوسرا طریق ذکر کیا ہے۔ جس میں دوسرا سجدہ بھی مذکور ہے لیکن تشہد مذکورنہیں تو معلوم ہوا کہ سجدہ سہو کے بعد تشہد نہیں ہے۔ چنانچہ محمد بن سیرین سے محفوظ ہے اور جس حدیث میں تشہد مذکور ہے اس کو بیہقی اور ابن عبد الرؤف اور ابن عبد البر وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ ( خلاصہ فتح الباری )

حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن سلمة بن علقمة، قال قلت لمحمد في سجدتى السهو تشهد قال ليس في حديث أبي هريرة‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن علقمہ نے، انہوں کہا کہ میں نے محمد بن سیرین سے پوچھا کہ کیا سجدہ سہو میں تشہد ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں تو اس کاذکر نہیں ہے۔
 
Top