• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : نماز میں مردوں کا سبحان اللہ اور الحمد للہ کہنا

حدیث نمبر : 1201
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا عبد العزيز بن أبي حازم، عن أبيه، عن سهل ـ رضى الله عنه ـ قال خرج النبي صلى الله عليه وسلم يصلح بين بني عمرو بن عوف، وحانت الصلاة، فجاء بلال أبا بكر ـ رضى الله عنهما ـ فقال حبس النبي صلى الله عليه وسلم فتؤم الناس قال نعم إن شئتم‏.‏ فأقام بلال الصلاة، فتقدم أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ فصلى، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف يشقها شقا حتى قام في الصف الأول، فأخذ الناس بالتصفيح‏.‏ قال سهل هل تدرون ما التصفيح هو التصفيق‏.‏ وكان أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ لا يلتفت في صلاته، فلما أكثروا التفت فإذا النبي صلى الله عليه وسلم في الصف، فأشار إليه مكانك‏.‏ فرفع أبو بكر يديه، فحمد الله، ثم رجع القهقرى وراءه وتقدم النبي صلى الله عليه وسلم فصلى‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ ابو حازم سلمہ بن دینار نے اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبو عمروبن عوف ( قبا ) کے لوگوں میں ملاپ کرنے تشریف لائے، اور جب نماز کا وقت ہوگیا تو بلال رضی اللہ عنہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو اب تک نہیں تشریف لائے اس لیے اب آپ نماز پڑھائیے۔ انہوں نے فرمایااچھا اگر تمہاری خواہش ہے تو میں پڑھا دیتا ہوں۔ خیر بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ آگے بڑھے اور نماز شروع کی۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے اور آپ صفوں سے گزرتے ہوئے پہلی صف تک پہنچ گئے۔ لوگوں نے ہاتھ پر ہاتھ بجانا شروع کیا۔ ( سہل نے ) کہا کہ جانتے ہو تصفیح کیا ہے یعنی تالیاں بجانا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف بھی دھیان نہیں کیا کرتے تھے، لیکن جب لوگوں نے زیادہ تالیاں بجائیں تو آپ متوجہ ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صف میں موجود ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انہیں اپنی جگہ رہنے کے لیے کہا۔ اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کر اللہ کاشکر کیا اور الٹے پاؤں پیچھے آگئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے۔

تشریح : اس روایت کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے کیونکہ اس میں سبحان اللہ کہنے کاذکر نہیں اور شاید حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جوا وپر گزر چکا ہے اور اس میں صاف یوں ہے کہ تم نے تالیاں بہت بجائیں نماز میں کوئی واقعہ ہو تو سبحان اللہ کہا کرو تالی بجانا عورتوں کے لیے ہے۔ اب رہا الحمد للہ کہنا تو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے اس فعل سے نکلتا ہے کہ انہوں نے نماز میں دونوں ہاتھ اٹھا کراللہ کا شکر کیا، بعضوں نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تسبیح کو تحمید پر قیاس کیا تو یہ روایت بھی ترجمہ باب کے مطابق ہوگئی ( وحیدی )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : نماز میں نام لے کر دعا یا بددعا کرنا یا کسی کو سلام کرنا بغیر اس کے مخاطب کئے اور نمازی کو معلوم نہ ہو کہ اس سے نماز میں خلل آتا ہے

تشریح : غرض امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ ہے کہ اس طرح سلام کرنے سے نماز فاسد نہ ہوگی۔ السلام علیک ایھا النبی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتا ہے لیکن نمازی آپ کو مخاطب نہیں کرتا اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ہوتی ہے، جب تک فرشتے آپ کو خبر نہیں دیتے تواس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔

حدیث نمبر : 1202
حدثنا عمرو بن عيسى، حدثنا أبو عبد الصمد عبد العزيز بن عبد الصمد، حدثنا حصين بن عبد الرحمن، عن أبي وائل، عن عبد الله بن مسعود ـ رضى الله عنه ـ قال كنا نقول التحية في الصلاة ونسمي، ويسلم بعضنا على بعض، فسمعه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ قولوا التحيات لله والصلوات والطيبات، السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله، فإنكم إذا فعلتم ذلك فقد سلمتم على كل عبد لله صالح في السماء والأرض‏"‏‏. ‏
ہم سے عمرو بن عیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعبد الصمد العمی عبد العزیز بن عبد الصمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حصین بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے ابو وائل نے بیان کیا، ان سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ہم پہلے نماز میں یوں کہاکرتے تھے فلاں پر سلام اور نام لیتے تھے۔ اور آپس میں ایک شخص دوسرے کو سلام کر لیتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا اس طرح کہا کرو۔ ( ترجمہ ) “ یعنی ساری تحیات، بندگیاں اور کوششیں اور اچھی باتیں خاص اللہ ہی کے لیے ہیں اور اے نبی!آپ پر سلام ہو، اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں نازل ہوں۔ ہم پر سلام ہو اور اللہ کے سب نیک بندوں پر، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ”۔ اگر تم نے یہ پڑھ لیا تو گویا اللہ کے ان تمام صالح بندوں پر سلام پہنچا دیا جو آسمان اور زمین میں ہیں۔

تشریح : باب اور حدیث میں مطابقت ہے لفظ التحیات سے مراد زبان سے کی جانے والی عبادات اورلفظ صلوات سے مراد بدن سے کی جانے والی عبادات اور طیبات سے مراد مال حلال سے کی جانے والی عبادات، یہ سب خاص اللہ ہی کے لیے ہیں۔ ان میں سے جو ذرہ برابر بھی کسی غیر کے لیے کرے گا وہ عند اللہ شرک ٹھہرے گا۔ لفظ نبوی قولوا الخ سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔ کیونکہ اس وقت تک عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ مسئلہ معلوم نہ تھا کہ نماز میں اس طرح سلام کرنے سے نماز فاسد ہو جاتی ہے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نماز لوٹانے کاحکم نہیں فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : تالی بجانا یعنی ہاتھ پر ہاتھ مارنا صرف عورتوں کے لیے ہے

حدیث نمبر : 1203
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ التسبيح للرجال والتصفيق للنساء‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابو سلمہ نے اور ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( نماز میں اگر کوئی بات پیش آجائے تو ) مردوں کو سبحان اللہ کہنا اور عورتوں کو ہاتھ پر ہاتھ مارکر یعنی تالی بجا کر امام کو اطلاع دینی چاہیے۔

تشریح : قسطلانی نے کہا کہ عورت اس طرح تالی بجائے کہ دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کو بائیں ہاتھ کی پشت پر مارے اگر کھیل کے طور پر بائیں ہاتھ پر مارے تو نماز فاسد ہو جائے گی اور اگر کسی مرد کو مسئلہ معلوم نہ ہو اور وہ بھی تالی بجا دے تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صحابہ کو جنہوں نے نادانستہ تالیاں بجائی تھیں نماز کے اعادہ کا حکم نہیں دیا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1204
حدثنا يحيى، أخبرنا وكيع، عن سفيان، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ التسبيح للرجال والتصفيح للنساء‏"‏‏.
ہم سے یحیٰ بلخی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں ابو حازم سلمہ بن دینار نے اور انہیں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ کہنا مردوں کے لیے ہے اور عورتوں کے لیے تالی بجانا۔

معلوم ہوا کہ امام بھول جائے اور اس کو ہوشیار کرنا ہو تو مرد سبحان اللہ بلند آواز سے کہیں اور اگر کسی عورت کو لقمہ دینا ہو تو وہ تالی بجائے، اس سے عورتوں کا باجماعت نماز پڑھنا بھی ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : جو شخص نماز میں الٹے پاؤں پیچھے سرک جائے یا آگے بڑھ جائے کسی حادثہ کی وجہ سے تو نماز فاسد نہ ہوگی

أو تقدم بأمر ينزل به‏.‏ رواه سهل بن سعد عن النبي صلى الله عليه وسلم
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے

حدیث نمبر : 1205
حدثنا بشر بن محمد، أخبرنا عبد الله، قال يونس قال الزهري أخبرني أنس بن مالك، أن المسلمين، بينا هم في الفجر يوم الاثنين، وأبو بكر ـ رضى الله عنه ـ يصلي بهم ففجأهم النبي صلى الله عليه وسلم قد كشف ستر حجرة عائشة ـ رضى الله عنها ـ فنظر إليهم، وهم صفوف، فتبسم يضحك، فنكص أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ على عقبيه، وظن أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد أن يخرج إلى الصلاة، وهم المسلمون أن يفتتنوا في صلاتهم فرحا بالنبي صلى الله عليه وسلم حين رأوه، فأشار بيده أن أتموا، ثم دخل الحجرة وأرخى الستر، وتوفي ذلك اليوم‏.‏
ہم سے بشربن محمد نے بیان کیا، انہیں امام عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ پیر کے روز مسلمان ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتداءمیں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے کا پردہ ہٹائے ہوئے دکھائی دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ صحابہ صف باندھے کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ دیکھ کر آپ کھل کر مسکرادیئے۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ انہوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لائیں گے اور مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ کر اس درجہ خوش ہوئے کہ نماز ہی توڑ ڈالنے کا ارادہ کر لیا۔ لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کے اشارہ سے ہدایت کی کہ نماز پوری کرو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ڈال دیا اور حجرے میں تشریف لے گئے۔ پھر اس دن آپ نے انتقال فرمایا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اب بھی کوئی خاص موقع اگر اس قسم کا آجائے کہ امام کو پیچھے کی طرف ہٹنا پڑے یا کوئی حادثہ ہی ایسا داعی ہو تو اس طرح سے نماز میں نقص نہ آئے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : اگر کوئی نماز پڑھ رہا ہو اور اس کی ماں اس کو بلائے تو کیا کرے؟

حدیث نمبر : 1206
وقال الليث حدثني جعفر، عن عبد الرحمن بن هرمز، قال قال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ نادت امرأة ابنها، وهو في صومعة قالت يا جريج‏.‏ قال اللهم أمي وصلاتي‏.‏ قالت يا جريج‏.‏ قال اللهم أمي وصلاتي‏.‏ قالت يا جريج‏.‏ قال اللهم أمي وصلاتي‏.‏ قالت اللهم لا يموت جريج حتى ينظر في وجه المياميس‏.‏ وكانت تأوي إلى صومعته راعية ترعى الغنم فولدت فقيل لها ممن هذا الولد قالت من جريج نزل من صومعته‏.‏ قال جريج أين هذه التي تزعم أن ولدها لي قال يا بابوس من أبوك قال راعي الغنم‏"‏‏. ‏
اور لیث بن سعد نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبد الرحمن بن ہرمز اعرج نے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بنی اسرائیل کی ) ایک عورت نے اپنے بیٹے کو پکارا، اس وقت وہ عبادت خانے میں تھا۔ ماں نے پکارا کہ اے جریج! جریج ( پس وپیش میں پڑگیا اور دل میں ) کہنے لگا کہ اے اللہ! میں اب ماں کو دیکھوں یا نماز کو۔ پھر ماں نے پکارا اے جریج! ( وہ اب بھی اس پس وپیش میں تھا ) کہ اے اللہ! میری ماں اور میری نماز! ماں نے پھر پکارا اے جریج! ( وہ اب بھی یہی ) سوچے جا رہا تھا۔ اے اللہ! میری ماں اور میری نماز! ( آخر ) ماں نے تنگ ہوکر بددعا کی اے اللہ! جریج کو موت نہ آئے جب تک وہ فاحشہ عورت کا چہرہ نہ دیکھ لے۔ جریج کی عبادت گاہ کے قریب ایک چرانے والی آیا کرتی تھی جو بکریاں چراتی تھی۔ اتفاق سے اس کے بچہ پیدا ہوا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ اس نے کہا کہ جریج کا ہے۔ وہ ایک مرتبہ اپنی عبادت گاہ سے نکل کر میرے پاس رہا تھا۔ جریج نے پوچھا کہ وہ عورت کون ہے؟ جس نے مجھ پر تہمت لگائی ہے کہ اس کا بچہ مجھ سے ہے۔ ( عورت بچے کو لے کر آئی تو ) انہوں نے بچے سے پوچھا کہ بچے! تمہارا باپ کون؟ بچہ بول پڑا کہ ایک بکری چرانے والا گڈریا میرا باپ ہے۔

تشریح : ماں کی اطاعت فرض ہے اور باپ سے زیادہ ماں کا حق ہے۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے بعضوں نے کہا جواب نہ دے، اگر دے گا تو نماز فاسد ہو جائے گی۔ بعضوں نے کہا جواب دے اور نماز فاسد نہ ہوگی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا کہ جب تو نماز میں ہو اور تیری ماں تجھ کو بلائے تو جواب دے اور اگر باپ بلائے تو جواب نہ دے۔ امام بخاری رحمہ اللہ جریج کی حدیث اس باب میں لائے کہ ماں کا جواب نہ دینے سے وہ ( تنگی میں ) مبتلاہوئے۔ بعضوں نے کہا جریج کی شریعت میں نماز میں بات کرنا مباح تھا تو ان کو جواب دینا لازم تھا۔ انہوں نے نہ دیا تو ماں کی بد دعا ان کو لگ گئی۔

ایک روایت میں ہے کہ اگر جریج کو معلوم ہوتا تو جواب دیتا کہ ماں کا جواب دینا بھی اپنے رب کی عبادت ہے۔ بابوس ہر شیرخوار بچے کو کہتے ہیں یا اس بچے کا نام ہوگا۔ اللہ نے اس کوبولنے کی طاقت دی۔ اس نے اپنا باپ بتلایا۔جریج اس طرح اس الزام سے بری ہوئے۔ معلوم ہوا کہ ماں کو ہر حال میں خوش رکھنا اولاد کے لیے ضروری ہے ورنہ ان کی بد دعا اولاد کی زندگی کو تباہ کر سکتی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : نماز میں کنکری اٹھانا کیساہے؟

حدیث نمبر : 1207
حدثنا أبو نعيم، حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، قال حدثني معيقيب، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال في الرجل يسوي التراب حيث يسجد قال ‏"‏ إن كنت فاعلا فواحدة‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن کثیر نے، ان سے ابو سلمہ نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے معیقیب بن ابی طلحہ صحابی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے جو ہر مرتبہ سجدہ کرتے ہوئے کنکریاں برابر کرتا تھا فرمایا اگر ایسا کرنا ہے تو صرف ایک ہی بار کر۔

کیونکہ باربار ایسا کرنا نماز میں خشوع وخضوع کے خلاف ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : نماز میں سجدہ کے لیے کپڑا بچھانا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 1208
حدثنا مسدد، حدثنا بشر، حدثنا غالب، عن بكر بن عبد الله، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم في شدة الحر، فإذا لم يستطع أحدنا أن يمكن وجهه من الأرض بسط ثوبه فسجد عليه‏.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غالب بن قطان نے بیان کیا، ان سے بکر بن عبد اللہ مزنی نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ہم سخت گرمیوں میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے اور چہرے کو زمین پر پوری طرح رکھنا مشکل ہوجاتا تو اپنا کپڑا بچھا کر اس پر سجدہ کیاکرتے تھے۔

تشریح : مسجد نبوی ابتداء میں ایک معمولی چھپر کی شکل میں تھی۔ جس میں بارش اور دھوپ کا پورا اثر ہو اکرتا تھا۔اس لیے شدت گرما میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ایسا کر لیا کرتے تھے۔ اب بھی کہیں ایسا ہی موقع ہو تو ایسا کر لینا درست ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : نماز میں کون کون سے کام درست ہیں؟

حدیث نمبر : 1209
حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن أبي النضر، عن أبي سلمة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كنت أمد رجلي في قبلة النبي صلى الله عليه وسلم وهو يصلي، فإذا سجد غمزني فرفعتها، فإذا قام مددتها‏.
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے ابو النضر سالم بن ابی امیہ نے، ان سے ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اپنا پاؤں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پھیلالیتی تھی اور آپ نماز پڑھتے ہوتے جب آپ سجدہ کرنے لگتے تو آپ مجھے ہاتھ لگاتے، میں پاؤں سمیٹ لیتی، پھر جب آپ کھڑے ہو جاتے تو میں پھر پھیلا لیتی۔


حدیث نمبر : 1210
حدثنا محمود، حدثنا شبابة، حدثنا شعبة، عن محمد بن زياد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه صلى صلاة قال ‏"‏ إن الشيطان عرض لي، فشد على ليقطع الصلاة على، فأمكنني الله منه، فذعته، ولقد هممت أن أوثقه إلى سارية حتى تصبحوا فتنظروا إليه فذكرت قول سليمان ـ عليه السلام ـ رب هب لي ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي‏.‏ فرده الله خاسيا‏"‏‏. ‏ ثم قال النضر بن شميل فذعته بالذال أى خنقته وفدعته من قول الله ‏{‏يوم يدعون‏}‏ أى يدفعون والصواب، فدعته إلا أنه كذا قال بتشديد العين والتاء‏.‏
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے ایک مرتبہ ایک نماز پڑھی پھر فرمایا کہ میرے سامنے ایک شیطان آگیا اور کوشش کرنے لگا کہ میری نماز توڑدے۔ لیکن اللہ تعالی نے اس کو میرے قابو میں کردیا میں نے اس کا گلا گھونٹایا اس کو دھکیل دیا۔ آخر میں میرا ارادہ ہواکہ اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دوں اور جب صبح ہو تو تم بھی دیکھو۔ لیکن مجھے سلیمان علیہ السلام کی دعا یاد آگئی “ اے اللہ! مجھے ایسی سلطنت عطا کیجیوجو میرے بعدکسی اور کو نہ ملے ” ( اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا ) اور اللہ تعالی نے اسے ذلت کے ساتھ بھگا دیا۔ اس کے بعد نضر بن شمیل نے کہا کہ ذعتہ ذال سے ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ میں نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور دعتہ اللہ تعالی کے اس قول سے لیا گیاہے۔ “ یوم یدعون ” جس کے معنی ہیں قیامت کے دن وہ دوزخ کی طرف دھکیلے جائیں گے۔ درست پہلا ہی لفظ ہے۔ البتہ شعبہ نے اسی طرح عین اور تاءکی تشدید کے ساتھ بیان کیا ہے۔

تشریح : یہاں یہ اعتراض نہ ہوگا کہ دوسری حدیث میں ہے کہ شیطان عمر کے سایہ سے بھی بھاگتا ہے۔جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے شیطان ڈرتا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیونکر آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم توحضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہیں افضل ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چورڈاکو بدمعاش کوتوال سے زیادہ ڈرتے ہیں بادشاہ سے اتنا نہیں ڈرتے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہ کو ہم پر رحم آجائے گا۔ تو اس سے یہ نہیں نکلتا کہ کوتوال بادشاہ سے افضل ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ دشمن کو دھکیلنا یا اس کو دھکا دینا اس سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الصلوۃ میں اہلحدیث کا مذہب قرار دیا کہ نماز میں کھنکارنا یا کوئی گھر میں نہ ہو تو دروازہ کھول دینا، سانپ بچھو نکلے تو اس کا مارنا، سلام کا جواب ہاتھ کے اشارے سے دینا، کسی ضرورت سے آگے پیچھے سرک جانا یہ سب کام درست ہیں۔ ان سے نمازفاسدنہیں ہوتی۔ ( وحیدی ) بعض نسخوں میں ثم قال النضر بن شمیل والی عبارت نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ

باب : اگر آدمی نماز میں ہو اور اس کا جانور بھاگ پڑے

وقال قتادة إن أخذ ثوبه يتبع السارق ويدع الصلاة‏.
اور قتادہ نے کہا کہ اگر کسی کا کپڑا چور لے بھاگے تو اس کے پیچھے دوڑے اور نماز چھوڑ دے

حدیث نمبر : 1211
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا الأزرق بن قيس، قال كنا بالأهواز نقاتل الحرورية، فبينا أنا على جرف نهر إذا رجل يصلي، وإذا لجام دابته بيده فجعلت الدابة تنازعه، وجعل يتبعها ـ قال شعبة ـ هو أبو برزة الأسلمي ـ فجعل رجل من الخوارج يقول اللهم افعل بهذا الشيخ‏.‏ فلما انصرف الشيخ قال إني سمعت قولكم، وإني غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ست غزوات أو سبع غزوات وثمانيا، وشهدت تيسيره، وإني أن كنت أن أراجع مع دابتي أحب إلى من أن أدعها ترجع إلى مألفها فيشق على‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ارزق بن قیس نے بیان کیا، کہا کہ ہم اہواز میں ( جو کئی بستیاں ہیں بصرہ اور ایران کے بیچ میں ) خارجیوں سے جنگ کر رہے تھے۔ ایک بار میں نہر کے کنارے بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک شخص ( ابو برزہ صحابی رضی اللہ عنہ ) آیا اور نماز پڑھنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ان کے گھوڑے کی لگام ان کے ہاتھ میں ہے۔ اچانک گھوڑا ان سے چھوٹ کر بھاگنے لگا۔ تو وہ بھی اس کا پیچھا کر نے لگے۔ شعبہ نے کہایہ ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ دیکھ کر خوارج میں سے ایک شخص کہنے لگا کہ اے اللہ!اس شیخ کا ناس کر۔ جب وہ شیخ واپس لوٹے تو فرمایا کہ میں نے تمہاری باتیں سن لی ہیں اور ( تم کیا چیز ہو؟ ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ یا سات یا آٹھ جہادوں میں شرکت کی ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آسانیوں کو دیکھا ہے۔ اس لیے مجھے یہ اچھا معلوم ہو اکہ اپنا گھوڑا ساتھ لے کر لوٹوں نہ کہ اس کوچھوڑدوں وہ جہاں چاہے چل دے اور میں تکلیف اٹھاؤں۔

حدیث نمبر : 1212
حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا يونس، عن الزهري، عن عروة، قال قالت عائشة خسفت الشمس، فقام النبي صلى الله عليه وسلم فقرأ سورة طويلة، ثم ركع فأطال، ثم رفع رأسه، ثم استفتح بسورة أخرى، ثم ركع حتى قضاها وسجد، ثم فعل ذلك في الثانية، ثم قال ‏"‏ إنهما آيتان من آيات الله، فإذا رأيتم ذلك فصلوا حتى يفرج عنكم، لقد رأيت في مقامي هذا كل شىء وعدته، حتى لقد رأيتني أريد أن آخذ قطفا من الجنة حين رأيتموني جعلت أتقدم، ولقد رأيت جهنم يحطم بعضها بعضا حين رأيتموني تأخرت، ورأيت فيها عمرو بن لحى وهو الذي سيب السوائب‏"‏‏.
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، ان سے عروہ نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ جب سورج گرہن لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( نماز کے لیے ) کھڑے ہوئے اور ایک لمبی سورت پڑھی۔ پھر رکوع کیا اور بہت لمبا رکوع کیا۔ پھر سر اٹھایا اس کے بعد دوسری سورت شروع کردی، پھر رکوع کیا اور رکوع پورا کر کے اس رکعت کو ختم کیا اور سجدے میں گئے۔ پھر دوسری رکعت میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا، نماز سے فارغ ہو کر آپ نے فرمایا کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ اس لیے جب تم ان میں گرہن دیکھو تو نماز شروع کر دو جب تک کہ یہ صاف ہو جائے اور دیکھو میں نے اپنی اسی جگہ سے ان تمام چیزوں کو دیکھ لیا ہے جن کا مجھ سے وعدہ ہے۔ یہاں تک کہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ میں جنت کا ایک خوشہ لینا چاہتا ہوں۔ ابھی تم لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ میں آگے بڑھنے لگا تھا اور میں نے دوزخ بھی دیکھی ( اس حالت میں کہ ) بعض آگ بعض آگ کو کھائے جا رہی تھی۔ تم لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ جہنم کے اس ہولناک منظر کو دیکھ کر میں پیچھے ہٹ گیا تھا۔ میں نے جہنم کے اندر عمرو بن لحی کو دیکھا۔ یہ وہ شخص ہے جس نے سانڈ کی رسم عرب میں جاری کی تھی۔

تشریح : سائبہ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جو جاہلیت میں بتوں کی نذرمان کر چھوڑ دی جاتی تھی۔ نہ اس پر سوارہوتے اور نہ اس کا دودھ پیتے۔ یہی عمرو بن لحی عرب میں بت پرستی اور دوسری بہت سی منکرات کا بانی ہوا ہے۔ حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے ظاہر ہے اس لیے کہ خوشہ لینے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آگے بڑھنا اور دوزخ کی ہیبت کھا کر پیچھے ہٹنا حدیث سے ثابت ہو گیا اور جس کا چار پایہ چھوٹ جاتا ہے وہ اس کے تھامنے کے واسطے بھی کبھی آگے بڑھتا ہے کبھی پیچھے ہٹتا ہے۔ ( فتح الباری ) خوارج ایک گروہ ہے جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا انکار کیا۔ ساتھ ہی حدیث کا انکار کر کے حسنبا اللہ کتاب اللہ کا نعرہ لگایا۔ یہ گروہ بھی افراط وتفریط میں مبتلا ہو کر گمراہ ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمل فی الصلوۃ
باب : اس بارے میں کہ نماز میں تھوکنا اور پھونک مارنا کہاں تک جائز ہے؟

ويذكر عن عبد الله بن عمرو نفخ النبي صلى الله عليه وسلم في سجوده في كسوف‏.‏
اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے گہن کی حدیث میں منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گہن کی نماز میں سجدے میں پھونک ماری

تشریح : یعنی ایسے صاف طور پر اف نکالی کہ جس سے ف پوری اور لمبی آواز سے ظاہر ہوئی۔ ابن بطال نے کہا کہ نماز میں تھوک ڈالنے کے جواز پر علماءنے اتفاق کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پھونک مارنا بھی جائز ہے کیونکہ ان دونوں میں فرق نہیں ہے۔ ابن دقیق نے کہا کہ نماز میں پھونک مارنے کو اس لیے مبطل نماز کہتے ہیں کہ وہ کلام کے مشابہ ہے اور یہ بات مردود ہے کیونکہ صحیح طور پر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں پھونک ماری ( فتح الباری )

حدیث نمبر : 1213
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى نخامة في قبلة المسجد، فتغيظ على أهل المسجد وقال ‏"‏ إن الله قبل أحدكم، فإذا كان في صلاته، فلا يبزقن ـ أو قال ـ لا يتنخمن‏"‏‏. ‏ ثم نزل فحتها بيده‏.‏ وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ إذا بزق أحدكم فليبزق على يساره‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے، ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مسجد میں قبلہ کی طرف رینٹ دیکھی۔ آپ مسجد میں موجود لوگوں پر بہت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اللہ تعالی تمہارے سامنے ہے اس لیے نماز میں تھوکانہ کرو، یا یہ فرمایا کہ رینٹ نہ نکالا کرو۔ پھرآپ اترے اور خودہی اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب کسی کو تھوکنا ہی ضروری ہو تو اپنی بائیں طرف تھوک لے۔

تشریح : اس سے یہ معلوم ہوا کہ برے کام کو دیکھ کر تمام جماعت پر ناراض ہونا جائز ہے تاکہ سب کو تنبیہ ہو اورآئندہ کے لیے اس کا لحاظ رکھیں۔ نما ز میں قبلہ کی طرف تھوکنے سے منع فرمایا۔ نہ کہ مطلق تھوک ڈالنے سے بلکہ اپنے پاؤں کے نیچے تھوکنے کی اجازت فرمائی جیسا کہ اگلی حدیث میں مذکور ہے۔ جب تھوک مسجد میں پختہ فرش ہونے کی وجہ سے دفن نہ ہو سکے تو رومال میں تھوکنا چاہیے۔ پھونک مارنا بھی کسی شدید ضرورت کے تحت جائز ہے بلا ضرورت پھونک مارنا نماز میں خشوع کے خلاف ہے۔

حدیث نمبر : 1214
حدثنا محمد، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، قال سمعت قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا كان في الصلاة فإنه يناجي ربه، فلا يبزقن بين يديه ولا عن يمينه، ولكن عن شماله تحت قدمه اليسرى‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، انہوں نے کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی نماز میں ہو تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ اس لیے اس کو سامنے نہ تھوکنا چاہیے اور نہ دائیں طرف البتہ بائیں طرف اپنے قدم کے نیچے تھوک لے۔
 
Top