• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السہو
باب : سہو کے سجدوں میں تکبیر کہنا

اس میں اختلاف ہے کہ نماز سے سلام پھیر کر جب سہو کے سجدے کو جائے تو تکبیر تحریمہ کہے یا سجدے کی تکبیر کافی ہے۔ جمہور کے نزدیک یہی کافی ہے اور احادیث کا ظاہر بھی یہی ہے۔ ( فتح الباری )

حدیث نمبر : 1229
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا يزيد بن إبراهيم، عن محمد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم إحدى صلاتى العشي ـ قال محمد وأكثر ظني العصر ـ ركعتين ثم سلم ثم قام إلى خشبة في مقدم المسجد فوضع يده عليها وفيهم أبو بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ فهابا أن يكلماه وخرج سرعان الناس فقالوا أقصرت الصلاة ورجل يدعوه النبي صلى الله عليه وسلم ذو اليدين فقال أنسيت أم قصرت فقال ‏"‏ لم أنس ولم تقصر‏"‏‏. ‏ قال بلى قد نسيت‏.‏ فصلى ركعتين ثم سلم ثم كبر فسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه فكبر، ثم وضع رأسه فكبر فسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه وكبر‏.‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے پہر کی دونمازوں ( ظہر یا عصر ) میں سے کوئی نماز پڑھی۔ میراغالب گمان یہ ہے کہ وہ عصرہی کی نماز تھی۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ ایک درخت کے تنے سے جو مسجد کی اگلی صف میں تھا، ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ آپ اپنا ہاتھ اس پر رکھے ہوئے تھے۔ حاضرین میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے لیکن انہیں بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو ( جلد باز قسم کے ) لوگ نماز پڑھتے ہی مسجد سے نکل جانے کے عادی تھے۔ وہ باہر جا چکے تھے۔ لوگوں نے کہا کیا نمازکی رکعتیں کم ہو گئیں۔ ایک شخص جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کہتے تھے۔ وہ بولے یا رسول اللہ! آپ بھول گئے یا نماز میں کمی ہوگئی؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعتیں کم ہوئیں۔ ذو الیدین بولے کہ نہیں آپ بھول گئے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت اور پڑھی اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا۔ جب سجدہ سے سر اٹھا یا تو پھر تکبیر کہی اور پھرتکبیر کہہ کر سجدہ میں گئے۔ یہ سجدہ بھی معمول کی طرح یا اس سے طویل تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔

حدیث نمبر : 1230
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن ابن شهاب، عن الأعرج، عن عبد الله ابن بحينة الأسدي، حليف بني عبد المطلب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام في صلاة الظهر وعليه جلوس، فلما أتم صلاته سجد سجدتين فكبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم، وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس‏.‏ تابعه ابن جريج عن ابن شهاب في التكبير‏.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے، ان سے عبد اللہ بن بحینہ اسدی نے جو بنو عبد المطلب کے حلیف تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں قعدہ اولیٰ کئے بغیر کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ اس وقت آپ کوبیٹھنا چاہئے تھا۔ جب آپ نے نماز پوری کی تو آپ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے پہلے دو سجدے سہو کے کئے اور ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ کے ساتھ یہ دو سجدے کئے۔ آپ بیٹھنا بھول گئے تھے، اس لیے یہ سجدے اسی کے بدلہ میں کئے تھے۔ اس روایت کی مطابعت ابن جریج نے ابن شہاب سے تکبیر کے ذکر میں کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السہو
باب : اگر کسی نمازی کو یہ یاد نہ رہے کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار تو وہ سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے ہی دو سجدے کرلے

حدیث نمبر : 1231
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا هشام بن أبي عبد الله الدستوائي، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا نودي بالصلاة أدبر الشيطان وله ضراط حتى لا يسمع الأذان، فإذا قضي الأذان أقبل، فإذا ثوب بها أدبر فإذا قضي التثويب أقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه يقول اذكر كذا وكذا ما لم يكن يذكر حتى يظل الرجل إن يدري كم صلى، فإذا لم يدر أحدكم كم صلى ثلاثا أو أربعا فليسجد سجدتين وهو جالس‏"‏‏.
ہم سے معاذبن فضالہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن ابی عبداللہ دستوائی نے بیان کیا، ان سے یحیٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابو سلمہ نے اور ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے اذان ہوتی ہے تو شیطان ہوا خارج کرتا ہوابھاگتا ہے تاکہ اذان نہ سنے، جب اذان پوری ہو جاتی ہے تو پھر آجاتا ہے۔ پھرجب اقامت ہوتی ہے تو پھر بھاگ پڑتا ہے۔ لیکن اقامت ختم ہوتے ہی پھر آجاتا ہے اور نمازی کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے اور کہتا ہے کہ فلاں فلاں بات یاد کرو، اس طرح اسے وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو اس کے ذہن میں نہیں تھیں۔ لیکن دوسری طرف نماز ی کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں اس نے پڑھی ہیں۔ اس لیے اگر کسی کو یہ یاد نہ رہے کہ تین رکعت پڑھیں یا چار تو بیٹھے ہی بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لے۔

تشریح : یعنی جس کو اس قدر بے انداز وسوسے پڑتے ہوں اس کے لیے صرف سہو کے دو سجدے کافی ہیں۔ حسن بصری اور سلف کا ایک گروہ اسی طرف گئے ہیں کہ اس حدیث سے کثیر الوساوس آدمی مراد ہے اورامام بخاری رحمہ اللہ کے باب سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے ( للعلامہ الغزنوی ) اور امام مالک رحمہ اللہ، شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ اس حدیث کو مسلم وغیرہ کی حدیث پر حمل کرتے ہیں جو ابو سعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر شک دو یا تین میں ہے تو دو سمجھے اور اگر تین یاچار میں ہے تو تین سمجھے۔ بقیہ کو پڑھ کرسہو کے دو سجدے سلام سے پہلے دے دے۔ ( نصر الباری، ج:1ص:447
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السہو
باب : سجدہ سہو فرض اور نفل دونوں نمازوں میں کرنا چاہیے

وسجد ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ سجدتين بعد وتره‏.
اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے وتر کے بعد یہ دو سجدے کئے۔

حدیث نمبر : 1232
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن أحدكم إذا قام يصلي جاء الشيطان فلبس عليه حتى لا يدري كم صلى، فإذا وجد ذلك أحدكم فليسجد سجدتين وهو جالس‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ نے خبر دی، انھیں ابن شہاب نے، انھیں ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے اور انھیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو شیطان آکر اس کی نماز میں شبہ پیدا کر دیتا ہے پھر اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ کتنی رکعتیں پڑھیں۔ تم میں سے جب کسی کو ایسا اتفاق ہو تو بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔

تشریح : یعنی نفل نماز میں بھی فرض کی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیے یانہ۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے فعل اور حدیث مذکور سے ثابت کیا کہ سجدہ سہو کرنا چاہیے اس میں ان پر رد ہے جو اس بارے میں فرض اور نفل نمازوں کا امتیاز کرتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السہو
باب : اگر نمازی سے کوئی بات کرے اور وہ سن کر ہاتھ کے اشارے سے جواب دے تو نماز فاسد نہ ہوگی

حدیث نمبر : 1233
حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثني ابن وهب، قال أخبرني عمرو، عن بكير، عن كريب، أن ابن عباس، والمسور بن مخرمة، وعبد الرحمن بن أزهر ـ رضى الله عنهم ـ أرسلوه إلى عائشة ـ رضى الله عنها ـ فقالوا اقرأ عليها السلام منا جميعا وسلها عن الركعتين بعد صلاة العصر وقل لها إنا أخبرنا أنك تصلينهما وقد بلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم نهى عنها‏.‏ وقال ابن عباس وكنت أضرب الناس مع عمر بن الخطاب عنهما‏.‏ فقال كريب فدخلت على عائشة ـ رضى الله عنها ـ فبلغتها ما أرسلوني‏.‏ فقالت سل أم سلمة‏.‏ فخرجت إليهم فأخبرتهم بقولها فردوني إلى أم سلمة بمثل ما أرسلوني به إلى عائشة‏.‏ فقالت أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عنها ثم رأيته يصليهما حين صلى العصر، ثم دخل على وعندي نسوة من بني حرام من الأنصار فأرسلت إليه الجارية فقلت قومي بجنبه قولي له تقول لك أم سلمة يا رسول الله سمعتك تنهى عن هاتين وأراك تصليهما‏.‏ فإن أشار بيده فاستأخري عنه‏.‏ ففعلت الجارية فأشار بيده فاستأخرت عنه فلما انصرف قال ‏"‏ يا بنت أبي أمية سألت عن الركعتين بعد العصر وإنه أتاني ناس من عبد القيس فشغلوني عن الركعتين اللتين بعد الظهر فهما هاتان‏"‏‏.
ہم سے یحیٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدا للہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں کریب نے کہ ابن عباس، مسور بن مخرمہ اور عبد الرحمن بن ازہر رضی اللہ عنہم نے انھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا اور کہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہم سب کا سلام کہنا اور اس کے بعد عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے بارے میں دریافت کرنا۔ انھیں یہ بھی بتا دینا کہ ہمیں خبرہوئی ہے کہ آپ یہ دو رکعتیں پڑھتی ہیں۔ حالانکہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دو رکعتوں سے منع کیا ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان رکعتوں کے پڑھنے پر لوگوں کو مارا بھی تھا۔ کریب نے بیان کیاکہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور پیغام پہنچایا۔ اس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے اس کے متعلق دریافت کر۔ چنانچہ میں ان حضرات کی خدمت میں واپس ہوا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی گفتگو نقل کر دی، انہوں نے مجھے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا انہیں پیغامات کے ساتھ جن کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں بھیجا تھا۔ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے یہ جواب دیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ عصر کے بعد نماز پڑھنے سے روکتے تھے لیکن ایک دن میں نے دیکھا کہ عصر کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود یہ دو رکعتیں پڑھ رہے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے۔ میرے پاس انصار کے قبیلہ بنو حرام کی چند عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اس لیے میں نے ایک باندی کو آپ کی خدمت میں بھیجا۔ میں نے اس سے کہہ دیا تھا کہ وہ آپ کے بازو میں ہوکر یہ پوچھے کہ ام سلمہ کہتی ہیں کہ یا رسول اللہ! آپ تو ان دورکعتوں سے منع کیا کرتے تھے حالانکہ میں دیکھ رہی ہوں کہ آپ خود انھیں پڑھتے ہیں۔ اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ سے اشارہ کریں تو تم پیچھے ہٹ جانا۔ باندی نے پھر اسی طرح کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ کیا تو پیچھے ہٹ گئی۔ پھر جب آپ فارغ ہوئے تو ( آپ نے ام سلمہ رضی اللہ عنہاسے ) فرمایا کہ اے ابو امیہ کی بیٹی!تم نے عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے متعلق پوچھا، بات یہ ہے کہ میرے پاس عبد القیس کے کچھ لوگ آگئے تھے اور ان کے ساتھ بات کرنے میں میں ظہر کے بعد کی دو رکعتیں نہیں پڑھ سکا تھا سو یہ وہی دو رکعت ہیں۔

تشریح : نمازی سے کوئی بات کرے اور وہ سن کر اشارہ سے کچھ جواب دے دے تو نماز فاسد نہ ہوگی۔ جیسا کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جوابی اشارہ اس حدیث سے ثابت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فعل سے حسب موقع کسی خلاف شریعت کا م پر مناسب طورپر مارنا اور سختی سے منع کرنا بھی ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب السہو
باب : نماز میں اشارہ کرنا

قاله كريب عن أم سلمة ـ رضى الله عنها ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
یہ کریب نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

حدیث نمبر : 1234
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد الساعدي ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم بلغه أن بني عمرو بن عوف كان بينهم شىء فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلح بينهم في أناس معه، فحبس رسول الله صلى الله عليه وسلم وحانت الصلاة فجاء بلال إلى أبي بكر ـ رضى الله عنه ـ فقال يا أبا بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد حبس وقد حانت الصلاة فهل لك أن تؤم الناس قال نعم إن شئت‏.‏ فأقام بلال وتقدم أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ فكبر للناس وجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي في الصفوف حتى قام في الصف، فأخذ الناس في التصفيق، وكان أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ لا يلتفت في صلاته، فلما أكثر الناس التفت فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأشار إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمره أن يصلي، فرفع أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ يديه فحمد الله ورجع القهقرى وراءه حتى قام في الصف، فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى للناس فلما فرغ أقبل على الناس فقال ‏"‏ يا أيها الناس ما لكم حين نابكم شىء في الصلاة أخذتم في التصفيق، إنما التصفيق للنساء، من نابه شىء في صلاته فليقل سبحان الله‏.‏ فإنه لا يسمعه أحد حين يقول سبحان الله إلا التفت، يا أبا بكر ما منعك أن تصلي للناس حين أشرت إليك‏"‏‏. ‏ فقال أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ ما كان ينبغي لابن أبي قحافة أن يصلي بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبد الرحمن نے بیان کیا، ان سے ابو حازم سلمہ بن دینار نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبرپہنچی کہ بنی عمرو بن عوف کے لوگوں میں باہم کوئی جھگڑا پیداہوگیا ہے تو آپ چند صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ ملاپ کرانے کے لیے وہاں تشریف لے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مشغول ہی تھے کہ نماز کا وقت ہو گیا۔ اس لیے بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی تک تشریف نہیں لائے۔ ادھر نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ کیا آپ لوگوں کی امامت کریںگے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اگر تم چاہو۔ چنانچہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر تکبیر ( تحریمہ ) کہی۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی صفوں سے گزر تے ہوئے پہلی صف میں آکر کھڑے ہوگئے۔ لوگوں نے ( حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو آگاہ کرنے کے لیے ) ہاتھ پر ہاتھ بجانے شروع کر دیئے لیکن حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نماز میں کسی طرف دھیان نہیں دیاکرتے تھے۔ جب لوگوں نے بہت تالیاں بجائیں تو آپ متوجہ ہوئے اور کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ سے انھیں نمازپڑھاتے رہنے کے لیے کہا، اس پر ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہاتھ اٹھا کراللہ تعالی کا شکر ادا کیا اور الٹے پاؤں پیچھے کی طرف آکر صف میں کھڑے ہوگئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی۔ نماز کے بعد آپ نے فرمایا۔ لوگو!نماز میں ایک امر پیش آیاتو تم لوگ ہاتھ پر ہاتھ کیوں مارنے لگے تھے، یہ دستک دینا تو صرف عورتوں کے لیے ہے۔ جس کو نماز میں کوئی حادثہ پیش آئے تو سبحان اللہ کہے کیونکہ جب بھی کوئی سبحان اللہ سنے گا وہ ادھر خیال کرے گا اور اے ابو بکر!میرے اشارے کے باوجود تم لوگوں کو نماز کیوں نہیں پڑھا تے رہے؟ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ بھلا ابو قحافہ کے بیٹے کی کیا مجال تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نماز پڑھائے۔

باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اشارہ سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نماز پڑھاتے رہنے کا حکم فرمایا۔ اس سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مقدسہ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب مقرر فرمایا تو بعدوفات نبوی آپ کی خلافت بالکل حق بجانب تھی۔ صدافسوس ان لوگوں پر جوآنکھیں بند کر کے محض تعصب کی بنیاد پر خلافت صدیقی سے بغاوت کرتے ہیں۔ اور جمہورامت کا خلاف کرکے معصیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتکب ہوتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1235
حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثني ابن وهب، حدثنا الثوري، عن هشام، عن فاطمة، عن أسماء، قالت دخلت على عائشة ـ رضى الله عنها ـ وهي تصلي قائمة والناس قيام فقلت ما شأن الناس فأشارت برأسها إلى السماء‏.‏ فقلت آية‏.‏ فقالت برأسها أى نعم‏.‏
ہم سے یحیٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے اور ان سے اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہانے بیان کیا کہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے پاس گئی۔ اس وقت وہ کھڑی نماز پڑھ رہی تھیں۔ لوگ بھی کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ کیا بات ہوئی؟ تو انہوں نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا کوئی نشا نی ہے؟ تو انہوں نے اپنے سر کے اشارے سے کہا کہ ہاں۔

اس روایت سے بھی بحالت نماز اشارہ کرنا ثابت ہوا۔

حدیث نمبر : 1236
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيته وهو شاك جالسا، وصلى وراءه قوم قياما فأشار إليهم أن اجلسوا فلما انصرف قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا وإذا رفع فارفعوا‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے باپ عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمارتھے۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر ہی میں بیٹھ کر نماز پڑھی لوگوں نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نماز کے بعد فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔

تشریح : یعنی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحالت بیماری بیٹھ کر نماز پڑھی اور مقتدیوں کی طرف نماز میں ارشاد فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب امام بیٹھ کر نماز پڑھے تو مقتدی بھی بیٹھ کر نماز پڑھیں لیکن وفات کی بیماری میں آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور صحابہ نے آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھی، اس سے معلوم ہوا کہ پہلا امر منسوخ ہے ( کرمانی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الجنائز


صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
(جنازے کے احکام و مسائل)
بسم اللہ الرحمن الرحیم

تشریح : جنائز جنازۃ کی جمع ہے۔ جس کے معنی میت کے ہیں۔ لفظ جنائز کی وضاحت حضرت مولانا شیخ الحدیث عبید اللہ مبارک پوری رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے: کتاب الجنائز بفتح الجیم لا غیر جمع جنازۃ بالفتح والکسر والکسر افصح اسم للمیت فی النعش او بالفتح اسم لذلک وبالکسر اسم النعش وعلیہ المیت وقیل عکسہ وقیل ھمالغتان فیھما فان لم یکن علیہ یجنزہ فھو سریر ونعش وھی من جنزہ میت باب ضرب اذا سترہ ذکرہ ابن فارس وغیرہ اورد کتاب الجنائز بعد الصلوۃ کاکثر المصنفین من المحدثین والفقھاءلان الذی یفعل بالمیت من غسل وتکفین وغیرذلک لھمہ الصلوۃ علیہ لما فیھا من فائدۃ الدعا ءلہ بالنجاۃ من العذاب لاسیما عذاب القبر الذی سیدفن فیہ وقیل لان للانسان حالتین حالۃ الحیاۃ وحالۃ المماۃ ویتعلق بکل منھما احکام العبادات واحکام المعاملات واھم العبادات الصلوۃ فلما فرغوا من احکامھا المتعلقۃ بالاحیاءذکروا ما یتعلق بالموتی من الصلوۃ وغیرھا قیل شرعت صلوۃ الجنازۃ بالمدینۃ فی السنۃ الاولیٰ من الھجرۃ فمن مات بمکۃ قبل الھجرۃ لم یصل علیہ۔ ( مرعاۃ، جلد:2ص:402 )
خلاصہ یہ کہ لفظ جنائز جیم کے زبر کے ساتھ جنازہ کی جمع ہے اور لفظ جنازہ جیم کے زبر اور زیر دونوں کے ساتھ جائز ہے مگر زیر کے ساتھ لفظ جنازہ زیادہ فصیح ہے۔ میت جب چارپائی یا تختہ میں چھپادی جائے تو اس وقت لفظ جنازہ میت پر بولاجا تا ہے۔ یا خالی اس تختہ پر جس پر میت کو رکھا جائے۔ جب اس پر میت نہ ہو تو وہ تختہ یا چارپائی ہے۔ یہ باب ضرب یضرب سے ہے جب میت کو چھپا لے ( علامہ شوکانی نے بھی نیل الاوطار میں تقریبا ایسا ہی لکھا ہے ) محدثین اور فقہاءکی اکثریت نماز کے بعد ہی کتاب الجنائز لاتے ہیں،اس لیے کہ میت کی تجہیز وتکفین وغسل وغیرہ نماز جنازہ ہی کے پیش نظر کی جاتی ہے۔ اس لیے کہ اس نماز میں اس کے لیے نجات اخروی اور عذاب قبر سے بچنے کی دعا کی جاتی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انسان کے سامنے دو ہی حالتیں ہوتی ہیں ایک حالت زندگی سے متعلق ہے دوسری حالت موت سے متعلق ہے اور ہر حالت کے متعلق عبادات اور معاملات کے احکامات وابستہ ہیں اور عبادات میں اہم چیز نماز ہے۔ پس جب زندگی کے متعلقات سے فراغت ہوئی تو اب موت سے متعلق نماز وغیرہ کا بیان ضروری ہوا۔ کہا گیا ہے کہ نماز جنازہ ہجرت کے پہلے ہی سال مدینہ شریف میں مشروع ہوئی۔ جو لوگ ہجرت سے قبل مکہ ہی میں فوت ہوئے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔ انتھی واللہ اعلم بالصواب۔

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ والی حدیث باب کے ذیل میں محترم شیخ الحدیث فرماتے ہیں: قال الحافظ لیس فی قولہ الادخل الجنۃ من الاشکال ماتقدم فی السیاق الماضی ای فی حدیث انس المتقدم لانہ اعم من ان یکون قبل التعذیب او بعدہ انتھی ففیہ اشارۃ الی انہ مقطوع لہ بدخول الجنۃ لکن ان لم یکن صاحب کبیرۃ مات مصرا علیھا دخل الجنۃ اولا وان کان صاحب کبیرۃ مات مصرا علیھا فھو تحت المشیۃ فان عفی عنہ دخل اولا والا عذب بقدرھا ثم اخرج من النار وخلد فی الجنۃ کذا قرروا فی شرح الحدیث۔ ( مرعاۃ، ج:1ص:57 )
یعنی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں کوئی اشکال نہیں ہے۔اس میں اشارہ ہے کہ کلمہ طیبہ توحیدورسالت کا اقرار صحیح کرنے والا اور شرک جلی اور خفی سے پورے طور پر پر ہیز کرنے والا ضرور جنت میں جائے گا خواہ اس نے زنا اور چوری بھی کی ہو۔ اس کا یہ جنت میں جانایا تو گناہوں کا عذاب بھگتنے کے بعد ہوگا یا پہلے بھی ہو سکتا ہے۔ یہ اللہ کی مشیت پر موقوف ہے۔ اس کاجنت میں ایک نہ ایک دن داخل ہونا قطعی ہے اور اگر وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہیں ہوا اور کلمہ طیبہ ہی پر رہا تو وہ اول ہی میں جنت میں داخل ہو جائے گا۔

اس بارے میں جو مختلف احادیث وارد ہوئی ہیں۔ سب میں تطبیق یہی ہے کہ کسی حدیث میں اجمال ہے اور کسی میں تفصیل ہے سب کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ایک شرک ہی ایسا گناہ ہے جس کے لیے دوزخ میں ہمیشگی کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ خود قرآن مجید میں ہے اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَغفِرُ اَن یُّشرَکَ بِہ وَیَغفِرُ مَادُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَّشَائُ النساء:116 یعنی بے شک اللہ پاک ہرگز نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے اور اس گناہ کے علاوہ وہ جس بھی گناہ کو چاہے بخش سکتا ہے۔ اعاذنا اللہ من الشرک الجلی والخفی۔ آمین

باب : جنازوں کے باب میں جو حدیثیں آئی ہیں ان کا بیان اور جس شخص کا آخری کلام لاالہ الا اللہ ہو، اس کابیان وقيل لوهب بن منبه أليس لا إله إلا الله مفتاح الجنة قال بلى، ولكن ليس مفتاح إلا له أسنان، فإن جئت بمفتاح له أسنان فتح لك، وإلا لم يفتح لك‏.‏

اور وہب بن منبہ رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ کیا لاالہ الا اللہ جنت کی کنجی نہیں ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ضرور ہے لیکن کوئی کنجی ایسی نہیں ہوتی جس میں دندانے نہ ہوں۔ اس لیے اگر تم دندانے والی کنجی لاؤ گے تو تالا ( قفل ) کھلے گا ورنہ نہیں کھلے گا۔

باب ماجاءحدیث کی شرح اور تفسیر ہے۔ یعنی حدیث باب میں جو آیا ہے کہ میری امت میں سے جو شخص توحید پر مرےگا وہ بہشت میں داخل ہوگا۔ اگر چہ اس نے زنا چوری وغیرہ بھی کی ہو۔ اس سے یہ مراد ہے کہ اس کاآخری کلام جس پر اس کا خاتمہ ہو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ہو۔ یعنی اس کو دخول جنت تب ہی نصیب ہوگا کہ وہ خدا کے ساتھ شریک نہ بناتا ہو اوراس کی موت کلمے پر ہو اور لاالہ الا اللہ نام ہے سارے کلمے کا جس طرح قل ہواللہ نام ہے ساری سورۃ کا۔ کہتے ہیں کہ میں نے قل ہو اللہ پڑھی اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ سورت پڑھی جس کے اول میں قل ہو اللہ کے الفاظ ہیں۔ للعلامہ الغزنوی۔
اس کی وضاحت حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ یوں فرماتے ہیں: والتلقین ان یذکرہ عندہ ویقولہ بحضرتہ ویتلفظ بہ عندہ حتی یسمع لیتفطن فیقولہ لا ان یامرہ ویقول لاالہ الا اللہ الا ان یکون کافرا فیقول لہ قل کما قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لعمہ ابی طالب وللغلام الیھودی۔ ( مرعاۃ، ج:2 ص: 447 ) یعنی تلقین کا مطلب یہ کہ اس کے سامنے اس کلمہ کاذکر کرے اور اس کے سامنے اس کے لفظ ادا کرے تاکہ وہ خود ہی سمجھ کر اپنی زبان سے یہ کہنے لگ جائے۔ اسے حکم نہ کرے بلکہ اس کے سامنے لاالہ الا اللہ کہتا رہے اور اگر یہ تلقین کسی کافر کو کرنی ہے تو اس طرح تلقین کرے جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب اور ایک یہودی لڑکے کو تلقین کی تھی یعنی توحید ورسالت ہر دو کے اقرار کے لیے لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے ساتھ تلقین کرے۔ مسلمان کے لیے تلقین میں صرف لا الہ الا اللہ کافی ہے۔ اس لیے کہ وہ مسلمان ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر اس کا ایمان ہے۔ لہذا تلقین میں صرف کلمہ توحید ہی اس کے لیے منقول ہے۔ ونقل جماعۃ من الاصحاب انہ یضیف الیھا محمد رسول اللہ۔ ( مرعاۃ حوالہ مذکورہ ) یعنی بعض اصحاب سے یہ بھی منقول ہے کہ محمد رسول اللہ کا بھی اضافہ کیا جائے مگر جمہور سے صرف لاالہ الا اللہ ہی کے اوپر اقتصارکرنامنقول ہے۔مگر یہ حقیقت پیش نظر رکھنی ضروری ہے کہ کلمہ طیبہ توحید ورسالت کے ہر دو اجزاءیعنی لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ ہی کانام ہے۔ اگر کوئی شخص صرف پہلا جزءتسلیم کرے اور دوسرے جزءسے انکار کرے تو وہ بھی عند اللہ کافر مطلق ہی ہے۔


حدیث نمبر : 1237
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا مهدي بن ميمون، حدثنا واصل الأحدب، عن المعرور بن سويد، عن أبي ذر ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أتاني آت من ربي فأخبرني ـ أو قال بشرني ـ أنه من مات من أمتي لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة‏"‏‏. ‏ قلت وإن زنى وإن سرق قال ‏"‏ وإن زنى وإن سرق‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے مہدی بن میمون نے، کہا کہ ہم سے واصل بن حیان احدب ( کبڑے ) نے، ان سے معرور بن سوید نے بیان کیا اور ان سے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ خواب میں ) میرے پاس میرے رب کا ایک آنے والا ( فرشتہ ) آیا۔ اس نے مجھے خبر دی، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ اس نے مجھے خوش خبری دی کہ میری امت میں سے جو کوئی اس حال میں مرے کہ اللہ تعالی کے ساتھ اس نے کوئی شریک نہ ٹھہرایا ہو تو وہ جنت میں جائے گا۔ اس پر میں نے پوچھا اگرچہ اس نے زنا کیا ہو، اگر چہ اس نے چوری کی ہو؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اگر چہ زنا کیا ہواگر چہ چوری کی ہو۔

تشریح : ابن رشید نے کہا احتمال ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ مراد ہو کہ جو شخص اخلاص کے ساتھ یہ کلمہ توحید موت کے وقت پڑھ لے اس کے گزشتہ گناہ ساقط ہو کر معاف ہو جائیں گے اور اخلاص ملتزم توبہ اور ندامت ہے اور اس کلمے کا پڑھنا اس کے لیے نشانی ہو اور ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث اس واسطے لائے تاکہ ظاہر ہو کہ صرف کلمہ پڑھنا کافی نہیں بلکہ اعتقاد اور عمل ضروری ہے۔ اس واسطے کتاب اللباس میں ابو ذر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے آخر میں ہے کہ ابو عبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث موت کے وقت کے لیے ہے یااس سے پہلے جب توبہ کرے اور نادم ہو۔ وہیب کے اثر کو مؤلف نے اپنی تاریخ میں موصولاً روایت کیا ہے اور ابو نعیم نے حلیۃ میں ( فتح الباری )

حدیث نمبر : 1238
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا شقيق، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من مات يشرك بالله شيئا دخل النار‏"‏‏. ‏ وقلت أنا من مات لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة‏.‏
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے میرے باپ حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شقیق بن سلمہ نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اس حالت میں مرے کہ کسی کو اللہ کا شریک ٹھہراتا تھا تووہ جہنم میں جائے گا اور میں یہ کہتا ہوں کہ جو اس حال میں مرا کہ اللہ کا کوئی شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ جنت میں جائے گا۔

تشریح : اس کی مزید وضاحت حدیث انس رضی اللہ عنہ میں موجود ہے کہ اللہ پاک نے فرمایا اے ابن آدم! اگر تو دنیا بھر کے گناہ لے کر مجھ سے ملاقات کرے مگر تونے شرک نہ کیا ہو تو میں تیرے پاس دنیا بھر کی مغفرت لے کر آؤں گا ( رواہ الترمذی ) خلاصہ یہ کہ شرک بدترین گناہ ہے اور توحید اعظم ترین نیکی ہے۔ موحد گنہگار مشرک عبادت گزارسے بہر حال ہزار درجے بہتر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز

باب : جنازہ میں شریک ہونے کاحکم

حدیث نمبر : 1239
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن الأشعث، قال سمعت معاوية بن سويد بن مقرن، عن البراء ـ رضى الله عنه ـ قال أمرنا النبي صلى الله عليه وسلم بسبع، ونهانا عن سبع أمرنا باتباع الجنائز، وعيادة المريض، وإجابة الداعي، ونصر المظلوم، وإبرار القسم، ورد السلام، وتشميت العاطس‏.‏ ونهانا عن آنية الفضة، وخاتم الذهب، والحرير، والديباج، والقسي، والإستبرق‏.‏
ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اشعث بن ابی الثعثاءنے، انہوں نے کہا کہ میں نے معاویہ بن سوید مقرن سے سنا، وہ براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ کاموں کا حکم دیا اور سات کاموں سے روکا۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا جنازہ کے ساتھ چلنے، مریض کی مزاج پرسی، دعوت قبول کرنے، مظلوم کی مدد کرنے کا، قسم پوری کرنے کا، سلام کا جواب دینے کا، چھینک پر یرحمک اللہ کہنے کا اور آپ نے ہمیں منع کیا تھا چاندی کابرتن ( استعمال میں لانے ) سے، سونے کی انگوٹھی پہننے سے، ریشم اور دیباج ( کے کپڑون کے پہننے ) سے، قسی سے، استبرق سے۔

دیباج اور قسی اور استبرق یہ بھی ریشمی کپڑوں کی قس میں ہیں۔ قسی کپڑے شام سے یا مصر سے بن کر آتے اور استبرق موٹا ریشمی کپڑا۔ یہ سب چھ چیزیں ہوئیں۔ ساتویں چیز کا بیان اس روایت میں چھوٹ گیا ہے۔ وہ ریشمی چار جاموں پر سوار ہونا یا ریشمی گدیوں پر جوزین کے اوپر رکھی جاتی ہیں۔

حدیث نمبر : 1240
حدثنا محمد، حدثنا عمرو بن أبي سلمة، عن الأوزاعي، قال أخبرني ابن شهاب، قال أخبرني سعيد بن المسيب، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ حق المسلم على المسلم خمس رد السلام، وعيادة المريض، واتباع الجنائز، وإجابة الدعوة، وتشميت العاطس‏"‏‏. ‏ تابعه عبد الرزاق قال أخبرنا معمر‏.‏ ورواه سلامة عن عقيل‏.‏
ہم سے محمدنے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عمرو بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے امام اوزاعی نے، انہوںنے کہا کہ مجھے ابن شہاب نے خبر دی، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں سلام کا جواب دینا، مریض کا مزاج معلوم کرنا، جنازے کے ساتھ چلنا، دعوت قبول کرنا، اور چھینک پر ( اس کے الحمد للہ کے جواب میں ) یرحمک اللہ کہنا۔ اس روایت کی متابعت عبد الرزاق نے کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے معمر نے خبر دی تھی۔ اور اس کی روایت سلامہ نے بھی عقیل سے کی ہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے جنازہ میں شرکت کرنا بھی حقوق مسلمین میں داخل ہے۔ حافظ نے کہا کہ عبدا لرزاق کی روایت کو امام مسلم نے نکالا ہے اور سلامہ کی روایت کو ذہلی نے زہریات میں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : میت کو جب کفن میں لپیٹا جاچکا ہو تو اس کے پاس جانا ( جائز ہے )

حدیث نمبر : 1241
حدثنا بشر بن محمد، أخبرنا عبد الله، قال أخبرني معمر، ويونس، عن الزهري، قال أخبرني أبو سلمة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته قالت أقبل أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ على فرسه من مسكنه بالسنح حتى نزل، فدخل المسجد، فلم يكلم الناس، حتى نزل فدخل على عائشة ـ رضى الله عنها ـ فتيمم النبي صلى الله عليه وسلم وهو مسجى ببرد حبرة، فكشف عن وجهه، ثم أكب عليه فقبله ثم بكى فقال بأبي أنت يا نبي الله، لا يجمع الله عليك موتتين، أما الموتة التي كتبت عليك فقد متها‏.‏ قال أبو سلمة: فأخبرني ابن عباس رضي الله عنهما: أن أبا بكر رضي الله عنه خرج وعمر رضي الله عنه يكلم الناس، فقال: اجلس، فأبى، فقال: اجلس، فأبى، فتشهد أبو بكر رضي الله عنه، فمال إليه الناس وتركوا عمر، فقال: أما بعد، فمن كان منكم يعبد محمدا صلى الله عليه وسلم فإن محمدا صلى الله عليه وسلم قد مات، ومن كان يعبد الله فإن الله حي لا يموت، قال الله تعالى: {وما محمد إلا رسول - إلى - الشاكرين}. والله، لكأن الناس لم يكونوا يعلمون أن الله أنزلها حتى تلاها أبو بكر رضي الله عنه، فتلقاها منه الناس، فما يسمع بشر إلا يتلوها.
ہم سے بشر بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ مجھے معمر بن راشد اور یونس نے خبر دی، انہیںزہری نے، کہا کہ مجھے ابو سلمہ نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں خبر دی کہ ( جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی ) ابو بکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر سے جو سنح میں تھا گھوڑے پر سوار ہو کر آئے اور اتر تے ہی مسجد میں تشریف لے گئے۔ پھر آپ کسی سے گفتگو کئے بغیر عائشہ رضی اللہ عنہ کے حجرہ میں آئے ( جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعش مبارک رکھی ہوئی تھی ) اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو برد حبرہ ( یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر ) سے ڈھانک دیاگیا تھا۔ پھر آپ نے حضور کا چہرہ مبارک کھولا اور جھک کر اس کا بوسہ لیا اور رونے لگے۔ آپ نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اے اللہ کے نبی!اللہ تعالی دو موتیں آپ پر کبھی جمع نہیں کرےگا۔ سوا ایک موت کے جو آپ کے مقدر میں تھی سوآپ وفات پاچکے۔ ابو سلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب باہر تشریف لائے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت لوگوں سے کچھ باتیں کر رہے تھے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ بیٹھ جاؤ۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ پھر دوبارہ آپ نے بیٹھنے کے لیے کہا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہیں مانے۔ آخر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کلمہ شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کی طرف متوجہ ہوگیا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا امابعد!اگر کوئی شخص تم میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تواسے معلوم ہونا چاہےے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے تو اللہ تعالی باقی رہنے والاہے۔ کبھی وہ مرنے والا نہیں۔ اللہ پاک نے فرمایا ہے “ اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے ہیں ” الشاکرین تک ( آپ نے آیت تلاوت کی ) قسم اللہ کی ایسا معلوم ہوا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے آیت کی تلاوت سے پہلے جیسے لوگوں کو معلوم ہی نہ تھا کہ یہ آیت بھی اللہ پاک نے قرآن مجید میں اتاری ہے۔ اب تمام صحابہ نے یہ آیت آپ سے سیکھ لی پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کو بوسہ دیا۔ یہیں سے ترجمۃ الباب ثابت ہوا۔ وفات نبوی پر صحابہ کرام میں ایک تہلکہ مچ گیا تھا۔ مگر بر وقت حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے امت کو سنبھالا اور حقیقت حال کا اظہار فرمایا جس سے مسلمانوں میں ایک گونہ سکون ہوگیا اور سب کو اس بات پر اطمینان کلی حاصل ہوگیا کہ اسلام اللہ کاسچا دین ہے وہ اللہ جو ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے اسلام کی بقا پر کوئی اثر نہیں پڑسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی جماعت کے ایک فردفرید ہیں۔ اور دنیا میں جو بھی رسول آئے اپنے اپنے وقت پر سب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ایسے ہی آپ بھی اپنا مشن پورا کر کے ملاءاعلی سے جاملے۔ صلی اللہ علی حبیبہ وبارک وسلم۔ بعض صحابہ کا یہ خیال بھی ہو گیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ زندہ ہوں گے۔ اسی لیے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اللہ پاک آپ پر دو موت طاری نہیں کرے گا۔ اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم۔ آمین

حدیث نمبر : 1243
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني خارجة بن زيد بن ثابت، أن أم العلاء ـ امرأة من الأنصار ـ بايعت النبي صلى الله عليه وسلم أخبرته أنه اقتسم المهاجرون قرعة فطار لنا عثمان بن مظعون، فأنزلناه في أبياتنا، فوجع وجعه الذي توفي فيه، فلما توفي وغسل وكفن في أثوابه، دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت رحمة الله عليك أبا السائب، فشهادتي عليك لقد أكرمك الله‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وما يدريك أن الله قد أكرمه‏"‏‏. ‏ فقلت بأبي أنت يا رسول الله فمن يكرمه الله فقال ‏"‏ أما هو فقد جاءه اليقين، والله إني لأرجو له الخير، والله ما أدري ـ وأنا رسول الله ـ ما يفعل بي‏"‏‏. ‏ قالت فوالله لا أزكي أحدا بعده أبدا‏.‏
ہم سے یحی بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے کہا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہوں نے فرمایا کہ مجھے خارجہ بن زید بن ثابت نے خبر دی کہ ام العلاءانصار کی ایک عورت نے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، نے انھیں خبر دی کہ مہاجرین قرعہ ڈال کر انصار میں بانٹ دیئے گئے تو حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ہمارے حصہ میں آئے۔ چنانچہ ہم نے انھیں اپنے گھر میں رکھا۔ آخر وہ بیمار ہو ئے اور اسی میں وفات پا گئے۔ وفات کے بعد غسل دیا گیا اور کفن میں لپیٹ دیا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ میں نے کہا ابو سائب آپ پر اللہ کی رحمتیں ہوں میری آپ کے متعلق شہادت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی عزت فرمائی ہے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے ان کی عزت فرمائی ہے؟ میں نے کہا یا رسول اللہ!میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں پھر کس کی اللہ تعالی عزت افزائی کرے گا؟ آپ نے فرمایا اس میں شبہ نہیں کہ ان کی موت آچکی، قسم اللہ کی کہ میں بھی ان کے لیے خیر ہی کی امید رکھتا ہوں لیکن واللہ!مجھے خود اپنے متعلق بھی معلوم نہیں کہ میرے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ام العلاءنے کہا کہ خدا کی قسم! اب میں کبھی کسی کے متعلق ( اس طرح کی ) گواہی نہیں دوں گی۔

تشریح : اس روایت میں کئی امور کا بیان ہے۔ ایک تو اس کا کہ جب مہاجرین مدینہ میں آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پریشانی رفع کرنے کے لیے انصار سے ان کا بھائی چارہ قائم کرادیا۔ اس بارے میں قرعہ اندازی کی گئی اور جو مہاجر جس انصاری کے حصہ میں آیا وہ اس کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے سگے بھائیوں سے زیادہ ان کی خاطر تواضع کی۔ ترجمہ باب اس سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل وکفن کے بعد عثمان بن مظعون کو دیکھا۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ کسی بھی بندے کے متعلق حقیقت کاعلم اللہ ہی کو حاصل ہے۔ ہ میں اپنے ظن کے مطابق ان کے حق میں نیک گمان کرنا چاہیے۔ حقیقت حال کو اللہ کے حوالے کرنا چاہیے۔

کئی معاندین اسلام نے یہاں اعتراض کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود ہی اپنی بھی نجات کا یقین نہ تھا تو آپ اپنی امت کی کیا سفارش کریں گے۔
اس اعتراض کے جواب میں پہلی بات تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ابتدائے اسلام کا ہے، بعد میں اللہ نے آپ کو سورۃ فتح میں یہ بشارت دی کہ آپ کے اگلے اور پچھلے سب گناہ بخش دیئے گئے تو یہ اعتراض خود رفع ہو گیا اور ثابت ہوا کہ اس کے بعد آپ کو اپنی نجات سے متعلق یقین کامل حاصل ہوگیاتھا۔ پھر بھی شان بندگی اس کو مستلزم ہے کہ پروردگار کی شان صمدیت ہمیشہ ملحوظ خاطر رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کرنا برحق ہے۔ بلکہ شفاعت کبریٰ کا مقام محمود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔

حدثنا سعيد بن عفير، حدثنا الليث، مثله‏.‏ وقال نافع بن يزيد عن عقيل، ما يفعل به وتابعه شعيب وعمرو بن دينار ومعمر‏.‏
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا اور ان سے لیث نے سابقہ روایت کی طرح بیان کیا، نافع بن یزید نے عقیل سے ( ما یفعل بی کے بجائے ) ما یفعل بہ کے الفاظ نقل کئے ہیں اور اس روایت کی متابعت شعیب، عمرو بن دینار اور معمر نے کی ہے۔
اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ قسم اللہ کی میں نہیں جانتا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیاجائے گا۔ حالانکہ اس کے حق میں میرا گمان نیک ہی ہے۔

حدیث نمبر : 1244
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، قال سمعت محمد بن المنكدر، قال سمعت جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال لما قتل أبي جعلت أكشف الثوب عن وجهه أبكي، وينهوني عنه والنبي صلى الله عليه وسلم لا ينهاني، فجعلت عمتي فاطمة تبكي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تبكين أو لا تبكين، ما زالت الملائكة تظله بأجنحتها حتى رفعتموه‏"‏‏. ‏ تابعه ابن جريج أخبرني ابن المنكدر سمع جابرا ـ رضى الله عنه ـ‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہاہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے محمد بن منکدر سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ جب میرے والد شہید کر دیئے گئے تو میں ان کے چہرے پر پڑا ہو کپڑا کھولتا اور روتاتھا۔ دوسرے لوگ تومجھے اس سے روکتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔ آخر میری چچی فاطمہ رضی اللہ عنہابھی رونے لگیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ روؤ یا چپ رہو۔ جب تک تم لوگ میت کو اٹھا تے نہیں ملائکہ تو برابر اس پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں۔ اس روایت کی متابعت شعبہ کے ساتھ ابن جریج نے کی، انہیں ابن منکدر نے خبر دی اور انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا۔

منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کافروں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے والد کو قتل کر کے ان کے ناک کان بھی کاٹ ڈالے تھے۔ ایسی حالت میں صحابہ نے یہ مناسب جاناکہ جابر رضی اللہ عنہ ان کو نہ دیکھیں تو بہتر ہوگا تاکہ ان کو مزید صدمہ نہ ہو۔ حدیث سے نکلاکہ مردے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر کو منع نہیں فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : آدمی اپنی ذات سے موت کی خبر میت کے وارثوں کو سنا سکتا ہے

حدیث نمبر : 1245
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نعى النجاشي في اليوم الذي مات فيه، خرج إلى المصلى، فصف بهم وكبر أربعا‏.‏
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے سعید بن مسیب نے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر اسی دن دی جس دن اس کی وفات ہوئی تھی۔ پھر آپ نماز پڑھنے کی جگہ گئے۔ اور لوگوں کے ساتھ صف باندھ کر ( جنازہ کی نماز میں ) چار تکبیریں کہیں۔

تشریح : بعضوں نے اس کو برا سمجھا ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب لا کر ان کا رد کیا، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نجاشی اور زید اور جعفر اور عبد اللہ بن رواحہ کی موت کی خبریں ان کے لوگوں کو سنائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی پر نماز جنازہ پڑھی۔ حالانکہ وہ حبش کے ملک میں مراتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے تو میت غائب پر نماز پڑھنا جائز ہوا۔ اہلحدیث اور جمہور علماءکے نزدیک یہ جائز ہے اور حنفیہ نے اس میں خلاف کیا ہے۔یہ حدیث ان پر حجت ہے۔ اب یہ تاویل کہ اس کا جنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیا تھا فاسد ہے کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں۔ دوسرے اگر سامنے بھی لایا گیا ہو توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لایاگیاہوگا نہ کہ صحابہ کے، انہوں نے تو غائب پر نماز پڑھی۔ ( وحیدی )

نجاشی کے متعلق حدیث کو مسلم واحمد ونسائی وترمذی نے بھی روایت کیا ہے اور سب نے ہی اس کی تصحیح کی ہے۔ علامہ شوکانی فرماتے ہیں: وقد استدل بھذہ القصۃ القائلون بمشروعیۃ الصلوۃ علی الغائب عن البلد قال فی الفتح وبذلک قال الشافعی واحمدوجمہور السلف حتی قال ابن حزم لم یات عن احمد الصحابۃ منعہ قال الشافعی علی المیت دعاءفکیف لا یدعی لہ وھو غائب او فی القبر۔ ( نیل الاوطار ) یعنی جو حضرات نماز جنازہ غائبانہ کے قائل ہیں انہوں نے اسی واقعہ سے دلیل پکڑی ہے اور فتح الباری میں ہے کہ امام شافعی اور احمد اور جمہور سلف کا یہی مسلک ہے۔ بلکہ علامہ ابن حزم کا قول تو یہ ہے کہ کسی بھی صحابی سے اس کی ممانعت نقل نہیں ہوئی۔ امام شافعی کہتے ہیں کہ جنازہ کی نماز میت کے لئے دعا ہے۔ پس وہ غائب ہو یا قبر میں اتاردیا گیا ہو، اس کے لیے دعا کیوں نہ کی جائے گی۔

نجاشی کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ بن معاویہ لیثی کا جنازہ غائبانہ ادا فرمایا جن کا انتقال مدینہ میں ہوا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبوک میں تھے اور معاویہ بن مقرن اور معاویہ بن معاویہ مزنی کے متعلق بھی ایسے واقعات نقل ہوئے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جنازے غائبانہ ادا فرمائے۔ اگرچہ یہ روایات سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں۔پھر بھی واقعہ نجاشی سے ان کی تقویت ہوتی ہے۔
جو لوگ نماز جنازہ غائبانہ کے قائل نہیں ہیں وہ اس بارے میں مختلف اعتراض کرتے ہیں۔ علامہ شوکانی بحث کے آخر میں فرماتے ہیں: والحاصل انہ لم یات المانعون من الصلوۃ علی الغائب بشئی یعتد بہ الخ یعنی مانعین کوئی ایسی دلیل نہ لا سکے ہیں جسے گنتی شمار میں لایا جائے۔ پس ثابت ہوا کہ نماز جنازہ غائبانہ بلا کراہت جائز ودرست ہے تفصیل مزید کے لیے نیل الاوطار ( جلد:3ص55, 56 ) کا مطالعہ کیا جائے۔

حدیث نمبر : 1246
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا أيوب، عن حميد بن هلال، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أخذ الراية زيد فأصيب، ثم أخذها جعفر فأصيب، ثم أخذها عبد الله بن رواحة فأصيب ـ وإن عينى رسول الله صلى الله عليه وسلم لتذرفان ـ ثم أخذها خالد بن الوليد من غير إمرة ففتح له ‏"
ہم سے ابو معمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے حمیدبن بلال نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زید رضی اللہ عنہ نے جھنڈا سنبھالا لیکن وہ شہید ہو گئے۔ پھر جعفر رضی اللہ عنہ نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ پھر عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے سنبھالا اور وہ بھی شہید ہو گئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو بہ رہے تھے۔ ( آپ نے فرمایا ) ا ور پھر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے خود اپنے طور پر جھنڈا اٹھا لیا اور ان کو فتح حاصل ہوئی۔

یہ غزوہ موتہ کا واقعہ ہے جو 8ھ میںملک شام کے پاس بلقان کی سر زمین پر ہواتھا۔ مسلمان تین ہزار تھے اور کافر بے شمار، آپ نے زید بن حارثہ کو امیر لشکر بنایا تھا اور فرما دیا تھا کہ اگر زید شہید ہو جائیں تو ان کی جگہ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ قیادت کریں اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر عبد اللہ بن رواحہ۔ یہ تینوں سردارشہید ہوئے۔ پھر حضرت خالد بن ولید نے ( از خود ) کمان سنبھالی اور ( اللہ نے ان کے ہاتھ پر ) کافروں کو شکست فاش دی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لشکر کے لوٹنے سے پہلے ہی سب خبریں لوگوں کو سنادیں۔ اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی معجزات بھی مذکورہوئے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جنازہ تیار ہو تو لوگوں کو خبر دینا

وقال أبو رافع عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ألا آذنتموني‏"‏‏. ‏
اور ابو رافع نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے مجھے خبر کیوں نہ دی۔

حدیث نمبر : 1247
حدثنا محمد، أخبرنا أبو معاوية، عن أبي إسحاق الشيباني، عن الشعبي، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال مات إنسان كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعوده فمات بالليل فدفنوه ليلا، فلما أصبح أخبروه فقال ‏"‏ ما منعكم أن تعلموني‏"‏‏. ‏ قالوا كان الليل فكرهنا ـ وكانت ظلمة ـ أن نشق عليك‏.‏ فأتى قبره فصلى عليه‏.
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انہیں ابو معاویہ نے خبر دی، انہیں ابو اسحاق شیبانی نے، انہیں شعبی نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک شخص کی وفات ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کو جایا کرتے تھے۔ چونکہ ان کا انتقال رات میں ہوا تھا اس لیے رات ہی میں لوگوں نے انہیں دفن کر دیا اور جب صبح ہوئی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کہ جنازہ تیار ہوتے وقت ) مجھے بتانے میں ( کیا ) رکاوٹ تھی؟ لوگوں نے کہا کہ رات تھی اور اندھیرا بھی تھا۔ اس لیے ہم نے مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں آپ کو تکلیف ہو۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے اور نماز پڑھی۔

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مرنے والوں کے نماز جنازہ کے لیے سب کو اطلاع ہونی چاہیے اور اب بھی ایسے مواقع میں جنازہ قبر پر بھی پڑھا جا سکتا ہے۔
 
Top