Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب السہو
باب : سہو کے سجدوں میں تکبیر کہنا
اس میں اختلاف ہے کہ نماز سے سلام پھیر کر جب سہو کے سجدے کو جائے تو تکبیر تحریمہ کہے یا سجدے کی تکبیر کافی ہے۔ جمہور کے نزدیک یہی کافی ہے اور احادیث کا ظاہر بھی یہی ہے۔ ( فتح الباری )
حدیث نمبر : 1229
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا يزيد بن إبراهيم، عن محمد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم إحدى صلاتى العشي ـ قال محمد وأكثر ظني العصر ـ ركعتين ثم سلم ثم قام إلى خشبة في مقدم المسجد فوضع يده عليها وفيهم أبو بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ فهابا أن يكلماه وخرج سرعان الناس فقالوا أقصرت الصلاة ورجل يدعوه النبي صلى الله عليه وسلم ذو اليدين فقال أنسيت أم قصرت فقال " لم أنس ولم تقصر". قال بلى قد نسيت. فصلى ركعتين ثم سلم ثم كبر فسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه فكبر، ثم وضع رأسه فكبر فسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه وكبر.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے پہر کی دونمازوں ( ظہر یا عصر ) میں سے کوئی نماز پڑھی۔ میراغالب گمان یہ ہے کہ وہ عصرہی کی نماز تھی۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ ایک درخت کے تنے سے جو مسجد کی اگلی صف میں تھا، ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ آپ اپنا ہاتھ اس پر رکھے ہوئے تھے۔ حاضرین میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے لیکن انہیں بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو ( جلد باز قسم کے ) لوگ نماز پڑھتے ہی مسجد سے نکل جانے کے عادی تھے۔ وہ باہر جا چکے تھے۔ لوگوں نے کہا کیا نمازکی رکعتیں کم ہو گئیں۔ ایک شخص جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کہتے تھے۔ وہ بولے یا رسول اللہ! آپ بھول گئے یا نماز میں کمی ہوگئی؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعتیں کم ہوئیں۔ ذو الیدین بولے کہ نہیں آپ بھول گئے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت اور پڑھی اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا۔ جب سجدہ سے سر اٹھا یا تو پھر تکبیر کہی اور پھرتکبیر کہہ کر سجدہ میں گئے۔ یہ سجدہ بھی معمول کی طرح یا اس سے طویل تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔
حدیث نمبر : 1230
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن ابن شهاب، عن الأعرج، عن عبد الله ابن بحينة الأسدي، حليف بني عبد المطلب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام في صلاة الظهر وعليه جلوس، فلما أتم صلاته سجد سجدتين فكبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم، وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس. تابعه ابن جريج عن ابن شهاب في التكبير.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے، ان سے عبد اللہ بن بحینہ اسدی نے جو بنو عبد المطلب کے حلیف تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں قعدہ اولیٰ کئے بغیر کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ اس وقت آپ کوبیٹھنا چاہئے تھا۔ جب آپ نے نماز پوری کی تو آپ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے پہلے دو سجدے سہو کے کئے اور ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ کے ساتھ یہ دو سجدے کئے۔ آپ بیٹھنا بھول گئے تھے، اس لیے یہ سجدے اسی کے بدلہ میں کئے تھے۔ اس روایت کی مطابعت ابن جریج نے ابن شہاب سے تکبیر کے ذکر میں کی ہے۔
باب : سہو کے سجدوں میں تکبیر کہنا
اس میں اختلاف ہے کہ نماز سے سلام پھیر کر جب سہو کے سجدے کو جائے تو تکبیر تحریمہ کہے یا سجدے کی تکبیر کافی ہے۔ جمہور کے نزدیک یہی کافی ہے اور احادیث کا ظاہر بھی یہی ہے۔ ( فتح الباری )
حدیث نمبر : 1229
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا يزيد بن إبراهيم، عن محمد، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم إحدى صلاتى العشي ـ قال محمد وأكثر ظني العصر ـ ركعتين ثم سلم ثم قام إلى خشبة في مقدم المسجد فوضع يده عليها وفيهم أبو بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ فهابا أن يكلماه وخرج سرعان الناس فقالوا أقصرت الصلاة ورجل يدعوه النبي صلى الله عليه وسلم ذو اليدين فقال أنسيت أم قصرت فقال " لم أنس ولم تقصر". قال بلى قد نسيت. فصلى ركعتين ثم سلم ثم كبر فسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه فكبر، ثم وضع رأسه فكبر فسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه وكبر.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے پہر کی دونمازوں ( ظہر یا عصر ) میں سے کوئی نماز پڑھی۔ میراغالب گمان یہ ہے کہ وہ عصرہی کی نماز تھی۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو ہی رکعت پر سلام پھیر دیا۔ پھر آپ ایک درخت کے تنے سے جو مسجد کی اگلی صف میں تھا، ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ آپ اپنا ہاتھ اس پر رکھے ہوئے تھے۔ حاضرین میں ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما بھی تھے لیکن انہیں بھی کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ جو ( جلد باز قسم کے ) لوگ نماز پڑھتے ہی مسجد سے نکل جانے کے عادی تھے۔ وہ باہر جا چکے تھے۔ لوگوں نے کہا کیا نمازکی رکعتیں کم ہو گئیں۔ ایک شخص جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالیدین کہتے تھے۔ وہ بولے یا رسول اللہ! آپ بھول گئے یا نماز میں کمی ہوگئی؟ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایانہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز کی رکعتیں کم ہوئیں۔ ذو الیدین بولے کہ نہیں آپ بھول گئے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورکعت اور پڑھی اور سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل سجدہ کیا۔ جب سجدہ سے سر اٹھا یا تو پھر تکبیر کہی اور پھرتکبیر کہہ کر سجدہ میں گئے۔ یہ سجدہ بھی معمول کی طرح یا اس سے طویل تھا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔
حدیث نمبر : 1230
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن ابن شهاب، عن الأعرج، عن عبد الله ابن بحينة الأسدي، حليف بني عبد المطلب أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام في صلاة الظهر وعليه جلوس، فلما أتم صلاته سجد سجدتين فكبر في كل سجدة وهو جالس قبل أن يسلم، وسجدهما الناس معه مكان ما نسي من الجلوس. تابعه ابن جريج عن ابن شهاب في التكبير.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے اعرج نے، ان سے عبد اللہ بن بحینہ اسدی نے جو بنو عبد المطلب کے حلیف تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں قعدہ اولیٰ کئے بغیر کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ اس وقت آپ کوبیٹھنا چاہئے تھا۔ جب آپ نے نماز پوری کی تو آپ نے بیٹھے بیٹھے ہی سلام سے پہلے دو سجدے سہو کے کئے اور ہر سجدے میں اللہ اکبر کہا۔ مقتدیوں نے بھی آپ کے ساتھ یہ دو سجدے کئے۔ آپ بیٹھنا بھول گئے تھے، اس لیے یہ سجدے اسی کے بدلہ میں کئے تھے۔ اس روایت کی مطابعت ابن جریج نے ابن شہاب سے تکبیر کے ذکر میں کی ہے۔