Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان
{فأقبره} أقبرت الرجل إذا جعلت له قبرا، وقبرته دفنته. {كفاتا} يكونون فيها أحياء، ويدفنون فيها أمواتا. اور سورئہ عبس میں جو آیا ہے فاقبرہ تو عرب لوگ کہتے ہیں اقبرت الرجل اقبرہ یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور قبرتہ کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورئہ مرسلات میں جو کفاتا کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔
حدیث نمبر : 1389
حدثنا إسماعيل، حدثني سليمان، عن هشام، وحدثني محمد بن حرب، حدثنا أبو مروان، يحيى بن أبي زكرياء عن هشام، عن عروة، عن عائشة، قالت إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليتعذر في مرضه " أين أنا اليوم أين أنا غدا " استبطاء ليوم عائشة، فلما كان يومي قبضه الله بين سحري ونحري، ودفن في بيتي.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا اور ان سے ہشام بن عروہ نے ( دوسری سند۔ امام بخاری نے کہا ) اور مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو مروان یحیٰی بن ابی زکریا نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں گویا اجازت لینا چاہتے تھے ( دریافت فرماتے ) آج میری باری کن کے یہاں ہے۔ کل کن کے یہاں ہوگی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن کے متعلق خیال فرماتے تھے کہ بہت دن بعد آئے گی۔ چنانچہ جب میری باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح اس حال میں قبض کی کہ آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میرے ہی گھر میں آپ دفن کئے گئے۔
تشریح : 29 صفر 11 ھ کا دن تھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف شروع ہوئی اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو رومال حضور کے سر مبارک پر تھا اور بخار کی وجہ سے ایسا گرم تھا کہ میرے ہاتھ کو برداشت نہ ہوسکی۔ آپ 13 دن یا 14 دن بیمار رہے۔ آخری ہفتہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر ہی پورا فرمایا۔ ان ایام میں بیشتر آپ مسجد میں جاکر نماز بھی پڑھاتے رہے مگر چار روز قبل حالت بہت دگر گوں ہوگئی۔ آخر 12 ربیع الاول 11 ھ یوم دو شنبہ بوقت چاشت آپ دنیائے فانی سے منہ موڑ کر ملاءاعلیٰ سے جاملے۔ عمر مبارک 63 سال قمری پر چار دن تھی اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد وفات پر صحابہ کرام نے آپ کے دفن کے متعلق سوچا تو آخری رائے یہی قرار پائی کہ حجرہ مبارکہ میں آپ کو دفن کیا جائے کیونکہ انبیاءجہاں انتقال کرتے ہیں اس جگہ دفن کئے جاتے ہیں۔ یہی حجرہ مبارکہ ہے جو آج گنبد خضراءکے نام سے دنیا کے کروڑہا انسانوں کا مرجع عقیدت ہے۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ ثابت فرمایا کہ مرنے والے کو اگر اس کے گھر ہی میں دفن کردیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
آپ کے اخلاق حسنہ میں سے ہے کہ آپ ایام بیماری میں دوسری بیویوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جانے کے لیے معذرت فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ جملہ ازواج مطہرات نے آپ کو حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے اجازت دے دی اور آخری ایام آپ نے وہیں بسر کئے۔ اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ تف ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جیسی مایہ ناز اسلامی خاتون کی فضیلت کا انکار کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔
حدیث نمبر : 1390
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبو عوانة، عن هلال، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي لم يقم منه " لعن الله اليهود والنصارى، اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد". لولا ذلك أبرز قبره، غير أنه خشي أو خشي أن يتخذ مسجدا. وعن هلال قال كناني عروة بن الزبير ولم يولد لي.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن حمیدنے‘ ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مرض کے موقع پر فرمایا تھا جس سے آپ جانبرنہ ہوسکے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی یہود ونصاریٰ پر لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو مساجد بنالیا۔ اگر یہ ڈرنہ ہوتاتو آپ کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن ڈر اس کا ہے کہ کہیں اسے بھی لوگ سجدہ گاہ نہ بنالیں۔ اور ہلال سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر نے میری کنیت ( ابوعوانہ یعنی عوانہ کے والد ) رکھ دی تھی ورنہ میرے کوئی اولاد نہ تھی۔
حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا أبو بكر بن عياش، عن سفيان التمار، أنه حدثه أنه، رأى قبر النبي صلى الله عليه وسلم مسنما. حدثنا فروة: حدثنا علي، عن هشام بن عروة، عن أبيه: لما سقط عليهم الحائط في زمان الوليد بن عبد الملك، أخذوا في بنائه، فبدت لهم قدم، ففزعوا، وظنوا أنها قدم النبي صلى الله عليه وسلم، فما وجدوا أحدا يعلم ذلك، حتى قال لهم عروة: لا والله، ما هي قدم النبي صلى الله عليه وسلم، ما هي إلا قدم عمر رضي الله عنه.
ہم سے محمد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔ ہم نے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے علی بن مسہرنے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے والد نے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں ( جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی ) دیوار گری اور لوگ اسے ( زیادہ اونچی ) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں خدا گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔
حدیث نمبر : 1391
وعن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها أوصت عبد الله بن الزبير ـ رضى الله عنهما ـ لا تدفني معهم وادفني مع صواحبي بالبقيع، لا أزكى به أبدا.
ہشام اپنے والد سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو وصیت کی تھی کہ مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ دفن نہ کرنا۔ بلکہ میری دوسری سوکنوں کے ساتھ بقیع غرقد میں مجھے دفن کرنا۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ ان کے ساتھ میری بھی تعریف ہوا کرے۔
تشریح : ہوا یہ کہ ولید کی خلافت کے زمانہ میں اس نے عمر بن عبدالعزیز کو جو اس کی طرف سے مدینہ شریف کے عامل تھے‘ یہ لکھا کہ ازواج مطہرات کے حجرے گرا کر مسجد نبوی کو وسیع کردو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی جانب دیوار بلند کردو کہ نماز میں ادھر منہ نہ ہو عمر بن عبدالعزیز نے یہ حجرے گرانے شروع کئے تو ایک پاؤں زمین سے نمودار ہوا جسے حضرت عروہ نے شناخت کیا اور بتلایا کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں ہے جسے یوں ہی احترام سے دفن کیا گیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی کسر نفسی کے طورپر فرمایا تھا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجرئہ مبارک میں دفن ہوں گی تو لوگ آپ کے ساتھ میرا بھی ذکر کریں گے اور دوسری بیویوں میں مجھ کو ترجیح دیں گے جسے میں پسند نہیں کرتی۔ لہٰذا مجھے بقیع غرقد میں دفن ہونا پسند ہے جہاں میری بہنیں ازواج مطہرات مدفون ہیں اور میں اپنی یہ جگہ جو خالی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دے دیتی ہوں۔ سبحان اللہ کتنا بڑا ایثار ہے۔ سلام اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
حجرئہ مبارک کی دیواریں بلند کرنے کے بارے میں حضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ ای حائط حجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفی روایۃ الحموی عنہم والسبب فی ذلک مارواہ ابوبکر الاجری من طبری شعیب بن اسحاق عن ہشام عن عروۃ قال اخبرنی ابی قال کان الناس یصلون الی القبر فامربہ عمر بن عبدالعزیز فرفع حتی لا یصلی الیہ احد فلما ہدم بدت قدم بساق ورکبۃ ففزع عمر بن عبدالعزیز فاتاہ عروۃ فقال ہذا ساق عمرو رکبتہ فسری عن عمر بن عبدالعزیز وروی الاجری من طریق مالک بن مغول عن رجاءبن حیوۃ قال کتب الولید بن عبدالملک الی عمر بن عبدالعزیز وکان قد اشتری حجر ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان اہدمہا ووسع بہا المسجد فقعد عمر فی ناحیۃ ثم امربہدمہا فما رایتہ باکیا اکثر من یومئذ ثم بناہ کما اراد فلما ان بنی البیت علی القبر وہدم البیت الاول ظہرت القبور الثلاثۃ وکان الرمل الذی علیہاقد انہار ففزع عمر بن عبدالعزیز واراد ان یقوم فیسویہا بنفسہ فقلت لہ اصلحک اللہ انک ان قمت قام الناس معک فلو امرت رجلا ان یصلحہا ورجوت انہ یامرنی بذالک فقال یا مزاحم یعنی مولاہ قم فاصلحہا قال فاصلحہا قال رجاءوکان قبرابی بکر عند وسط النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعمر خلف ابی بکر راسہ عند وسطہ اس عبارت کا خلاصہ وہی مضمون ہے جو گزر چکا ہے ) ( فتح الباری‘ج: 6 ص: 6 )
حدیث نمبر : 1392
حدثنا قتيبة، حدثنا جرير بن عبد الحميد، حدثنا حصين بن عبد الرحمن، عن عمرو بن ميمون الأودي، قال رأيت عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ قال يا عبد الله بن عمر، اذهب إلى أم المؤمنين عائشة ـ رضى الله عنها ـ فقل يقرأ عمر بن الخطاب عليك السلام، ثم سلها أن أدفن مع صاحبى. قالت كنت أريده لنفسي، فلأوثرنه اليوم على نفسي. فلما أقبل قال له ما لديك قال أذنت لك يا أمير المؤمنين. قال ما كان شىء أهم إلى من ذلك المضجع، فإذا قبضت فاحملوني ثم سلموا ثم قل يستأذن عمر بن الخطاب. فإن أذنت لي فادفنوني، وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين، إني لا أعلم أحدا أحق بهذا الأمر من هؤلاء النفر الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فمن استخلفوا بعدي فهو الخليفة، فاسمعوا له وأطيعوا. فسمى عثمان وعليا وطلحة والزبير وعبد الرحمن بن عوف وسعد بن أبي وقاص، وولج عليه شاب من الأنصار فقال أبشر يا أمير المؤمنين ببشرى الله، كان لك من القدم في الإسلام ما قد علمت، ثم استخلفت فعدلت، ثم الشهادة بعد هذا كله. فقال ليتني يا ابن أخي وذلك كفافا لا على ولا لي أوصي الخليفة من بعدي بالمهاجرين الأولين خيرا، أن يعرف لهم حقهم، وأن يحفظ لهم حرمتهم، وأوصيه بالأنصار خيرا الذين تبوءوا الدار والإيمان أن يقبل من محسنهم، ويعفى عن مسيئهم، وأوصيه بذمة الله وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم أن يوفى لهم بعهدهم، وأن يقاتل من ورائهم، وأن لا يكلفوا فوق طاقتهم.
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے جریربن عبدالحمید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے بیان کیا‘ ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہوجائے تو مجھے اٹھاکر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کردینا‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ میں اس امرخلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں‘ خلیفہ وہی ہوگا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر حضرت عثمان‘ علی‘ طلحہ‘ زبیر‘ عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو‘ اللہ عزوجل کی طرف سے‘ آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے‘ ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاؤ رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میںجگہ دی۔ ( میری وصیت ہے کہ ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے ( یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں ) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کرلڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔
تشریح : سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحفصہ ہے۔ عدوی قریشی ہیں۔ نبوت کے چھٹے سال اسلام میں داخل ہوئے بعضوں نے کہاں کہ پانچویں سال میں۔ ان سے پہلے چالیس مرد اور گیارہ عورتیں اسلام لاچکی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ چالیسویں مرد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے دن ہی سے اسلام نمایاں ہونا شروع ہوگیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب فاروق ہوا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ آپ کا لقب فاروق کیسے ہوا؟ فرمایا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ میرے اسلام سے تین دن پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے میرا سینہ بھی کھول دیا تو میں نے کہا اللہ لا الہ الا ہولہ الا سماءالحسنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اسی کے لیے سب اچھے نام ہیں۔ اس کے بعد کوئی جان مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے پیاری نہ تھی۔ اس کے بعد میں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف فرما ہیں تو میری بہن نے مجھ کو بتلایا کہ آپ دار ارقم بن ابی ارقم میں جو کوہ صفا کے پاس ہے‘ تشریف رکھتے ہیں۔ میں ابو ارقم کے مکان پر حاضر ہوا جب کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے صحابہ کے ساتھ مکان میں موجود تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دروازے کو پیٹا تو لوگوں نے نکلنا چاہا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کیاہوگیا؟ سب نے کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مجھے کپڑوں سے پکڑلیا۔ پھر خوب زور سے مجھ کو اپنی طرف کھینچا کہ میں رک نہ سکااور گھٹنے کے بل گرگیا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عمر اس کفر سے کب تک باز نہیں آؤ گے؟ تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا اشہدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہدان محمدا عبدہ ورسولہ اس پر تمام دارارقم کے لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ جس کی آواز حرم شریف میں سنی گئی۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم موت اور حیات میں دین حق پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سب حق پر ہو‘ اپنی موت میں بھی اور حیات میں بھی۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ پھر اس حق کو چھپانے کا کیا مطلب۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم ضرور حق کولے کر باہر نکلیں گے۔
چنانچہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو صفوں کے درمیان نکالا۔ ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسری صف میں میں تھا اور میرے اندر جوش ایمان کی وجہ سے ایک چکی جیسی گڑ گڑاہٹ تھی۔ یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں پہنچ گئے تو مجھ کو اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قریش نے دیکھا اور ان کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ایسا صدمہ انہیں اس سے پہلے کبھی نہ پہنچا تھا۔ اسی دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام فاروق رکھ دیا کہ اللہ نے میری وجہ سے حق اور باطل میں فرق کردیا۔ روایتوں میں ہے کہ آپ کے اسلام لانے پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آج عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے تمام آسمانوں والے بے حد خوش ہوئے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم خدا کی میں یقین رکھتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسری میں تمام زندہ انسانوں کاعلم تو یقینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم والا پلڑا جھک جائے گا۔
آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور یہ پہلے خلیفہ ہیں جو امیرالمؤمنین لقب سے پکارے گئے۔ حضرت عمر گورے رنگ والے لمبے قدوالے تھے۔ سر کے بال اکثر گر گئے تھے۔ آنکھوں میں سرخ جھلک رہا کرتی تھی۔ اپنی خلافت میں تمام امور حکومت کو احسن طریق پر انجام دیا۔
آخرمدینہ میں بدھ کے دن 26ذی الحجہ 23ھ میں مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولولوءنے آپ کو خنجر سے زخمی کیا اور یکم محرم الحرام کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ تریسٹھ سال کی عمر پائی۔ مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہے۔ آپ کے جنازہ کی نماز حضرت صہیب رومی نے پڑھائی۔ وفات سے قبل حجرئہ نبوی میں دفن ہونے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے باضابطہ اجازت حاصل کرلی۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وفیہ الحرص علی مجاورۃ الصالحین فی القبور طمعا فی اصابۃ الرحمۃ اذا نزلت علیہم وفی دعاءمن یزورہم من اہل الخیر یعنی آپ کے اس واقعہ میں یہ پہلو بھی ہے کہ صالحین بندوں کے پڑوس میں دفن ہونے کی حرص کرنا درست ہے۔ اس طمع میں کہ ان صالحین بندوں پر رحمت الٰہی کا نزول ہوگا تو اس میں ان کو بھی شرکت کا موقع ملے گا اور جواہل خیر ان کے لیے دعائے خیر کرنے آئیں گے وہ ان کی قبر پر بھی دعا کرتے جائیں گے۔ اس طرح دعاؤں میں بھی شرکت رہے گی۔
سبحان اللہ کیا مقام ہے! ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ شریف پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھتے ہیں۔ ساتھ ہی آپ کے جان نثاروں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر بھی سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے۔ سچ ہے
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی قبروں کا بیان
{فأقبره} أقبرت الرجل إذا جعلت له قبرا، وقبرته دفنته. {كفاتا} يكونون فيها أحياء، ويدفنون فيها أمواتا. اور سورئہ عبس میں جو آیا ہے فاقبرہ تو عرب لوگ کہتے ہیں اقبرت الرجل اقبرہ یعنی میں نے اس کے لیے قبر بنائی اور قبرتہ کے معنی میں نے اسے دفن کیا اور سورئہ مرسلات میں جو کفاتا کا لفظ ہے زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے۔
حدیث نمبر : 1389
حدثنا إسماعيل، حدثني سليمان، عن هشام، وحدثني محمد بن حرب، حدثنا أبو مروان، يحيى بن أبي زكرياء عن هشام، عن عروة، عن عائشة، قالت إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليتعذر في مرضه " أين أنا اليوم أين أنا غدا " استبطاء ليوم عائشة، فلما كان يومي قبضه الله بين سحري ونحري، ودفن في بيتي.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا‘ کہا کہ مجھ سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا اور ان سے ہشام بن عروہ نے ( دوسری سند۔ امام بخاری نے کہا ) اور مجھ سے محمد بن حرب نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو مروان یحیٰی بن ابی زکریا نے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الوفات میں گویا اجازت لینا چاہتے تھے ( دریافت فرماتے ) آج میری باری کن کے یہاں ہے۔ کل کن کے یہاں ہوگی؟ عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کے دن کے متعلق خیال فرماتے تھے کہ بہت دن بعد آئے گی۔ چنانچہ جب میری باری آئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی روح اس حال میں قبض کی کہ آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور میرے ہی گھر میں آپ دفن کئے گئے۔
تشریح : 29 صفر 11 ھ کا دن تھا کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف شروع ہوئی اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو رومال حضور کے سر مبارک پر تھا اور بخار کی وجہ سے ایسا گرم تھا کہ میرے ہاتھ کو برداشت نہ ہوسکی۔ آپ 13 دن یا 14 دن بیمار رہے۔ آخری ہفتہ آپ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر ہی پورا فرمایا۔ ان ایام میں بیشتر آپ مسجد میں جاکر نماز بھی پڑھاتے رہے مگر چار روز قبل حالت بہت دگر گوں ہوگئی۔ آخر 12 ربیع الاول 11 ھ یوم دو شنبہ بوقت چاشت آپ دنیائے فانی سے منہ موڑ کر ملاءاعلیٰ سے جاملے۔ عمر مبارک 63 سال قمری پر چار دن تھی اللہم صلی علی محمد وعلی آل محمد وفات پر صحابہ کرام نے آپ کے دفن کے متعلق سوچا تو آخری رائے یہی قرار پائی کہ حجرہ مبارکہ میں آپ کو دفن کیا جائے کیونکہ انبیاءجہاں انتقال کرتے ہیں اس جگہ دفن کئے جاتے ہیں۔ یہی حجرہ مبارکہ ہے جو آج گنبد خضراءکے نام سے دنیا کے کروڑہا انسانوں کا مرجع عقیدت ہے۔ حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر شریف کی نشان دہی کرتے ہوئے یہ ثابت فرمایا کہ مرنے والے کو اگر اس کے گھر ہی میں دفن کردیا جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
آپ کے اخلاق حسنہ میں سے ہے کہ آپ ایام بیماری میں دوسری بیویوں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جانے کے لیے معذرت فرماتے رہے۔ یہاں تک کہ جملہ ازواج مطہرات نے آپ کو حجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے لیے اجازت دے دی اور آخری ایام آپ نے وہیں بسر کئے۔ اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی کمال فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ تف ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جیسی مایہ ناز اسلامی خاتون کی فضیلت کا انکار کریں۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔
حدیث نمبر : 1390
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبو عوانة، عن هلال، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي لم يقم منه " لعن الله اليهود والنصارى، اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد". لولا ذلك أبرز قبره، غير أنه خشي أو خشي أن يتخذ مسجدا. وعن هلال قال كناني عروة بن الزبير ولم يولد لي.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا‘ ان سے ہلال بن حمیدنے‘ ان سے عروہ نے اور ان سے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس مرض کے موقع پر فرمایا تھا جس سے آپ جانبرنہ ہوسکے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی یہود ونصاریٰ پر لعنت ہو۔ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کو مساجد بنالیا۔ اگر یہ ڈرنہ ہوتاتو آپ کی قبر بھی کھلی رہنے دی جاتی۔ لیکن ڈر اس کا ہے کہ کہیں اسے بھی لوگ سجدہ گاہ نہ بنالیں۔ اور ہلال سے روایت ہے کہ عروہ بن زبیر نے میری کنیت ( ابوعوانہ یعنی عوانہ کے والد ) رکھ دی تھی ورنہ میرے کوئی اولاد نہ تھی۔
حدثنا محمد بن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا أبو بكر بن عياش، عن سفيان التمار، أنه حدثه أنه، رأى قبر النبي صلى الله عليه وسلم مسنما. حدثنا فروة: حدثنا علي، عن هشام بن عروة، عن أبيه: لما سقط عليهم الحائط في زمان الوليد بن عبد الملك، أخذوا في بنائه، فبدت لهم قدم، ففزعوا، وظنوا أنها قدم النبي صلى الله عليه وسلم، فما وجدوا أحدا يعلم ذلك، حتى قال لهم عروة: لا والله، ما هي قدم النبي صلى الله عليه وسلم، ما هي إلا قدم عمر رضي الله عنه.
ہم سے محمد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ کہا کہ ہمیں ابوبکر بن عیاش نے خبر دی اور ان سے سفیان تمار نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک دیکھی ہے جو کوہان نما ہے۔ ہم نے فروہ بن ابی المغراءنے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے علی بن مسہرنے بیان کیا‘ ان سے ہشام بن عروہ نے‘ ان سے ان کے والد نے کہ ولید بن عبدالملک بن مروان کے عہد حکومت میں ( جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک کی ) دیوار گری اور لوگ اسے ( زیادہ اونچی ) اٹھانے لگے تو وہاں ایک قدم ظاہر ہوا۔ لوگ یہ سمجھ کر گھبرا گئے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم مبارک ہے۔ کوئی شخص ایسا نہیں تھا جو قدم کو پہچان سکتا۔ آخر عروہ بن زبیر نے بتایا کہ نہیں خدا گواہ ہے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قدم نہیں ہے بلکہ یہ تو عمر رضی اللہ عنہ کا قدم ہے۔
حدیث نمبر : 1391
وعن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها أوصت عبد الله بن الزبير ـ رضى الله عنهما ـ لا تدفني معهم وادفني مع صواحبي بالبقيع، لا أزكى به أبدا.
ہشام اپنے والد سے اور وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو وصیت کی تھی کہ مجھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کے ساتھ دفن نہ کرنا۔ بلکہ میری دوسری سوکنوں کے ساتھ بقیع غرقد میں مجھے دفن کرنا۔ میں یہ نہیں چاہتی کہ ان کے ساتھ میری بھی تعریف ہوا کرے۔
تشریح : ہوا یہ کہ ولید کی خلافت کے زمانہ میں اس نے عمر بن عبدالعزیز کو جو اس کی طرف سے مدینہ شریف کے عامل تھے‘ یہ لکھا کہ ازواج مطہرات کے حجرے گرا کر مسجد نبوی کو وسیع کردو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی جانب دیوار بلند کردو کہ نماز میں ادھر منہ نہ ہو عمر بن عبدالعزیز نے یہ حجرے گرانے شروع کئے تو ایک پاؤں زمین سے نمودار ہوا جسے حضرت عروہ نے شناخت کیا اور بتلایا کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا پاؤں ہے جسے یوں ہی احترام سے دفن کیا گیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنی کسر نفسی کے طورپر فرمایا تھا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجرئہ مبارک میں دفن ہوں گی تو لوگ آپ کے ساتھ میرا بھی ذکر کریں گے اور دوسری بیویوں میں مجھ کو ترجیح دیں گے جسے میں پسند نہیں کرتی۔ لہٰذا مجھے بقیع غرقد میں دفن ہونا پسند ہے جہاں میری بہنیں ازواج مطہرات مدفون ہیں اور میں اپنی یہ جگہ جو خالی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے دے دیتی ہوں۔ سبحان اللہ کتنا بڑا ایثار ہے۔ سلام اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔
حجرئہ مبارک کی دیواریں بلند کرنے کے بارے میں حضرت حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ ای حائط حجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم وفی روایۃ الحموی عنہم والسبب فی ذلک مارواہ ابوبکر الاجری من طبری شعیب بن اسحاق عن ہشام عن عروۃ قال اخبرنی ابی قال کان الناس یصلون الی القبر فامربہ عمر بن عبدالعزیز فرفع حتی لا یصلی الیہ احد فلما ہدم بدت قدم بساق ورکبۃ ففزع عمر بن عبدالعزیز فاتاہ عروۃ فقال ہذا ساق عمرو رکبتہ فسری عن عمر بن عبدالعزیز وروی الاجری من طریق مالک بن مغول عن رجاءبن حیوۃ قال کتب الولید بن عبدالملک الی عمر بن عبدالعزیز وکان قد اشتری حجر ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان اہدمہا ووسع بہا المسجد فقعد عمر فی ناحیۃ ثم امربہدمہا فما رایتہ باکیا اکثر من یومئذ ثم بناہ کما اراد فلما ان بنی البیت علی القبر وہدم البیت الاول ظہرت القبور الثلاثۃ وکان الرمل الذی علیہاقد انہار ففزع عمر بن عبدالعزیز واراد ان یقوم فیسویہا بنفسہ فقلت لہ اصلحک اللہ انک ان قمت قام الناس معک فلو امرت رجلا ان یصلحہا ورجوت انہ یامرنی بذالک فقال یا مزاحم یعنی مولاہ قم فاصلحہا قال فاصلحہا قال رجاءوکان قبرابی بکر عند وسط النبی صلی اللہ علیہ وسلم وعمر خلف ابی بکر راسہ عند وسطہ اس عبارت کا خلاصہ وہی مضمون ہے جو گزر چکا ہے ) ( فتح الباری‘ج: 6 ص: 6 )
حدیث نمبر : 1392
حدثنا قتيبة، حدثنا جرير بن عبد الحميد، حدثنا حصين بن عبد الرحمن، عن عمرو بن ميمون الأودي، قال رأيت عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ قال يا عبد الله بن عمر، اذهب إلى أم المؤمنين عائشة ـ رضى الله عنها ـ فقل يقرأ عمر بن الخطاب عليك السلام، ثم سلها أن أدفن مع صاحبى. قالت كنت أريده لنفسي، فلأوثرنه اليوم على نفسي. فلما أقبل قال له ما لديك قال أذنت لك يا أمير المؤمنين. قال ما كان شىء أهم إلى من ذلك المضجع، فإذا قبضت فاحملوني ثم سلموا ثم قل يستأذن عمر بن الخطاب. فإن أذنت لي فادفنوني، وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين، إني لا أعلم أحدا أحق بهذا الأمر من هؤلاء النفر الذين توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو عنهم راض، فمن استخلفوا بعدي فهو الخليفة، فاسمعوا له وأطيعوا. فسمى عثمان وعليا وطلحة والزبير وعبد الرحمن بن عوف وسعد بن أبي وقاص، وولج عليه شاب من الأنصار فقال أبشر يا أمير المؤمنين ببشرى الله، كان لك من القدم في الإسلام ما قد علمت، ثم استخلفت فعدلت، ثم الشهادة بعد هذا كله. فقال ليتني يا ابن أخي وذلك كفافا لا على ولا لي أوصي الخليفة من بعدي بالمهاجرين الأولين خيرا، أن يعرف لهم حقهم، وأن يحفظ لهم حرمتهم، وأوصيه بالأنصار خيرا الذين تبوءوا الدار والإيمان أن يقبل من محسنهم، ويعفى عن مسيئهم، وأوصيه بذمة الله وذمة رسوله صلى الله عليه وسلم أن يوفى لهم بعهدهم، وأن يقاتل من ورائهم، وأن لا يكلفوا فوق طاقتهم.
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے جریربن عبدالحمید نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے حصین بن عبدالرحمن نے بیان کیا‘ ان سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا کہ میری موجودگی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ اے عبداللہ! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں جا اور کہہ کہ عمر بن خطاب نے آپ کو سلام کہا ہے اور پھر ان سے معلوم کرنا کہ کیا مجھے میرے دونوں ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے کی آپ کی طرف سے اجازت مل سکتی ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے اس جگہ کو اپنے لیے پسند کر رکھا تھا لیکن آج میں اپنے پر عمر رضی اللہ عنہ کو ترجیح دیتی ہوں۔ جب ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ کیا پیغام لائے ہو؟ کہا کہ امیرالمؤمنین انہوں نے آپ کو اجازت دے دی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر بولے کہ اس جگہ دفن ہونے سے زیادہ مجھے اور کوئی چیز عزیز نہیں تھی۔ لیکن جب میری روح قبض ہوجائے تو مجھے اٹھاکر لے جانا اور پھر دوبارہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو میرا سلام پہنچا کر ان سے کہنا کہ عمر نے آپ سے اجازت چاہی ہے۔ اگر اس وقت بھی وہ اجازت دے دیں تو مجھے وہیں دفن کردینا‘ ورنہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کردینا۔ میں اس امرخلافت کا ان چند صحابہ سے زیادہ اور کسی کو مستحق نہیں سمجھتا جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات کے وقت تک خوش اور راضی رہے۔ وہ حضرات میرے بعد جسے بھی خلیفہ بنائیں‘ خلیفہ وہی ہوگا اور تمہارے لیے ضروری ہے کہ تم اپنے خلیفہ کی باتیں توجہ سے سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ آپ نے اس موقع پر حضرت عثمان‘ علی‘ طلحہ‘ زبیر‘ عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے نام لیے۔ اتنے میں ایک انصاری نوجوان داخل ہوا اور کہا کہ اے امیرالمؤمنین آپ کو بشارت ہو‘ اللہ عزوجل کی طرف سے‘ آپ کا اسلام میں پہلے داخل ہونے کی وجہ سے جو مرتبہ تھا وہ آپ کو معلوم ہے۔ پھر جب آپ خلیفہ ہوئے تو آپ نے انصاف کیا۔ پھر آپ نے شہادت پائی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بولے میرے بھائی کے بیٹے! کاش ان کی وجہ سے میں برابر چھوٹ جاؤں۔ نہ مجھے کوئی عذاب ہو اور نہ کوئی ثواب۔ ہاں میں اپنے بعد آنے والے خلیفہ کو وصیت کرتا ہوں کہ وہ مہاجرین اولین کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے‘ ان کے حقوق پہچانے اور ان کی عزت کی حفاظت کرے اور میں اسے انصار کے بارے میں بھی اچھا برتاؤ رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان والوں کو اپنے گھروں میںجگہ دی۔ ( میری وصیت ہے کہ ) ان کے اچھے لوگوں کے ساتھ بھلائی کی جائے اور ان میں جو برے ہوں ان سے درگذر کیا جائے اور میں ہونے والے خلیفہ کو وصیت کرتاہوں اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی جو اللہ اور رسول کی ذمہ داری ہے ( یعنی غیر مسلموں کی جو اسلامی حکومت کے تحت زندگی گذارتے ہیں ) کہ ان سے کئے گئے وعدوں کو پورا کیا جائے۔ انہیں بچا کرلڑا جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔
تشریح : سیدنا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوحفصہ ہے۔ عدوی قریشی ہیں۔ نبوت کے چھٹے سال اسلام میں داخل ہوئے بعضوں نے کہاں کہ پانچویں سال میں۔ ان سے پہلے چالیس مرد اور گیارہ عورتیں اسلام لاچکی تھیں اور کہا جاتا ہے کہ چالیسویں مرد حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ان کے اسلام قبول کرنے کے دن ہی سے اسلام نمایاں ہونا شروع ہوگیا۔ اسی وجہ سے ان کا لقب فاروق ہوا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا تھا کہ آپ کا لقب فاروق کیسے ہوا؟ فرمایا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ میرے اسلام سے تین دن پہلے مسلمان ہوچکے تھے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے میرا سینہ بھی کھول دیا تو میں نے کہا اللہ لا الہ الا ہولہ الا سماءالحسنی اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اسی کے لیے سب اچھے نام ہیں۔ اس کے بعد کوئی جان مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان سے پیاری نہ تھی۔ اس کے بعد میں نے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف فرما ہیں تو میری بہن نے مجھ کو بتلایا کہ آپ دار ارقم بن ابی ارقم میں جو کوہ صفا کے پاس ہے‘ تشریف رکھتے ہیں۔ میں ابو ارقم کے مکان پر حاضر ہوا جب کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی آپ کے صحابہ کے ساتھ مکان میں موجود تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھر میں تشریف فرما تھے۔ میں نے دروازے کو پیٹا تو لوگوں نے نکلنا چاہا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگوں کو کیاہوگیا؟ سب نے کہا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ آئے ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور مجھے کپڑوں سے پکڑلیا۔ پھر خوب زور سے مجھ کو اپنی طرف کھینچا کہ میں رک نہ سکااور گھٹنے کے بل گرگیا۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عمر اس کفر سے کب تک باز نہیں آؤ گے؟ تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا اشہدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہدان محمدا عبدہ ورسولہ اس پر تمام دارارقم کے لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کیا کہ جس کی آواز حرم شریف میں سنی گئی۔ اس کے بعد میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا ہم موت اور حیات میں دین حق پر نہیں ہیں؟ آپ نے فرمایا کیوں نہیں قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم سب حق پر ہو‘ اپنی موت میں بھی اور حیات میں بھی۔ اس پر میں نے عرض کیاکہ پھر اس حق کو چھپانے کا کیا مطلب۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم ضرور حق کولے کر باہر نکلیں گے۔
چنانچہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دو صفوں کے درمیان نکالا۔ ایک صف میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دوسری صف میں میں تھا اور میرے اندر جوش ایمان کی وجہ سے ایک چکی جیسی گڑ گڑاہٹ تھی۔ یہاں تک کہ ہم مسجد حرام میں پہنچ گئے تو مجھ کو اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو قریش نے دیکھا اور ان کو اس قدر صدمہ پہنچا کہ ایسا صدمہ انہیں اس سے پہلے کبھی نہ پہنچا تھا۔ اسی دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام فاروق رکھ دیا کہ اللہ نے میری وجہ سے حق اور باطل میں فرق کردیا۔ روایتوں میں ہے کہ آپ کے اسلام لانے پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام تشریف لائے اور فرمایا کہ اے اللہ کے رسول! آج عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے سے تمام آسمانوں والے بے حد خوش ہوئے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قسم خدا کی میں یقین رکھتا ہوں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھا جائے اور دوسری میں تمام زندہ انسانوں کاعلم تو یقینا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم والا پلڑا جھک جائے گا۔
آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور یہ پہلے خلیفہ ہیں جو امیرالمؤمنین لقب سے پکارے گئے۔ حضرت عمر گورے رنگ والے لمبے قدوالے تھے۔ سر کے بال اکثر گر گئے تھے۔ آنکھوں میں سرخ جھلک رہا کرتی تھی۔ اپنی خلافت میں تمام امور حکومت کو احسن طریق پر انجام دیا۔
آخرمدینہ میں بدھ کے دن 26ذی الحجہ 23ھ میں مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابولولوءنے آپ کو خنجر سے زخمی کیا اور یکم محرم الحرام کو آپ نے جام شہادت نوش فرمایا۔ تریسٹھ سال کی عمر پائی۔ مدت خلافت دس سال چھ ماہ ہے۔ آپ کے جنازہ کی نماز حضرت صہیب رومی نے پڑھائی۔ وفات سے قبل حجرئہ نبوی میں دفن ہونے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے باضابطہ اجازت حاصل کرلی۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔ وفیہ الحرص علی مجاورۃ الصالحین فی القبور طمعا فی اصابۃ الرحمۃ اذا نزلت علیہم وفی دعاءمن یزورہم من اہل الخیر یعنی آپ کے اس واقعہ میں یہ پہلو بھی ہے کہ صالحین بندوں کے پڑوس میں دفن ہونے کی حرص کرنا درست ہے۔ اس طمع میں کہ ان صالحین بندوں پر رحمت الٰہی کا نزول ہوگا تو اس میں ان کو بھی شرکت کا موقع ملے گا اور جواہل خیر ان کے لیے دعائے خیر کرنے آئیں گے وہ ان کی قبر پر بھی دعا کرتے جائیں گے۔ اس طرح دعاؤں میں بھی شرکت رہے گی۔
سبحان اللہ کیا مقام ہے! ہر سال لاکھوں مسلمان مدینہ شریف پہنچ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام پڑھتے ہیں۔ ساتھ ہی آپ کے جان نثاروں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر بھی سلام بھیجنے کا موقع مل جاتا ہے۔ سچ ہے
نگاہ ناز جسے آشنائے راز کرے
وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے
عشرہ مبشرہ میں سے یہی لوگ موجود تھے جن کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خلیفہ بنانے والی کمیٹی کے لیے نام لیا۔ ابوعبیدہ بن جراح کا انتقال ہوچکا تھا اور سعید بن زید گوزندہ تھے مگر وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے رشہ دار یعنی چچا زاد بھائی ہوتے تھے‘ اس لیے ان کا بھی نام نہیں لیا۔ دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے بتاکید فرمایا کہ دیکھو میرے بیٹے عبداللہ کا خلافت میں کوئی حق نہیں ہے۔ یہ آپ کا وہ کارنامہ ہے جس پر آج کی نام نہاد جمہوریتیں ہزارہا بار قربان کی جاسکتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کسرنفسی کا یہ عالم ہے کہ ساری عمر خلافت کمال عدل کے ساتھ چلائی پھر بھی اب آخر وقت میں اسی کو غنیمت تصور فرمارہے ہیں کہ خلافت کا نہ ثواب ملے نہ عذاب ہو بلکہ برابر برابر میں اُتر جائے تو یہی غنیمت ہے۔ اخیر میں آپ نے مہاجرین وانصار کے لیے بہترین وصیتیں فرمائیں اور سب سے بڑا کارنامہ یہ کہ ان غیر مسلموں کے لیے جو خلافت اسلامی کے زیر نگین امن وامان کی زندگی گزارتے ہیں‘ خصوصی وصیت فرمائی کہ ہرگز ہرگز ان سے بد عہدی نہ کی جائے اور طاقت سے زیادہ ان پر کوئی بار نہ ڈالا جائے۔وہ اپنی خوبی قسمت پہ کیوں نہ ناز کرے