• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اذخر اور سوکھی گھاس قبر میں بچھانا

حدیث نمبر : 1349
حدثنا محمد بن عبد الله بن حوشب، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ حرم الله مكة، فلم تحل لأحد قبلي ولا لأحد بعدي، أحلت لي ساعة من نهار، لا يختلى خلاها، ولا يعضد شجرها، ولا ينفر صيدها، ولا تلتقط لقطتها إلا لمعرف‏"‏‏. ‏ فقال العباس ـ رضى الله عنه ـ إلا الإذخر لصاغتنا وقبورنا‏.‏ فقال ‏"‏ إلا الإذخر‏"‏‏. ‏ وقال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لقبورنا وبيوتنا‏"‏‏. ‏وقال أبان بن صالح، عن الحسن بن مسلم، عن صفية بنت شيبة: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم: مثله. وقال مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنهما: لقينهم وبيوتهم.
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا۔ کہا ہم سے خالد حذاءنے‘ ان سے عکرمہ نے‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم کیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے ( یہاں قتل وخون ) حلال تھا اور نہ میرے بعد ہوگا اور میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے لیے ( فتح مکہ کے دن ) حلال ہوا تھا۔ پس نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے نہ اس کے درخت قلم کئے جائیں۔ نہ یہاں کے جانوروں کو ( شکار کے لیے ) بھگایا جائے اور سوا اس شخص کے جو اعلان کرنا چاہتا ہو ( کہ یہ گری ہوئی چیز کس کی ہے ) کسی کے لیے وہاں سے کوئی گری ہوئی چیز اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا “ لیکن اس سے اذخر کا استثناءکردیجئے کہ یہ ہمارے سناروں کے اور ہماری قبروں میں کام آتی ہے ”۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مگر اذخر کی اجازت ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے۔ “ ہماری قبروں اور گھروں کے لیے۔ ” اور ابان بن صالح نے بیان کیا‘ ان سے حسن بن مسلم نے‘ ان سے صفیہ بنت شیبہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا تھا۔ اور مجاہد نے طاؤس کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ الفاظ بیان کئے۔ ہمارے قین ( لوہاروں ) اور گھروں کے لیے ( اذخراکھاڑنا حرم سے ) جائز کردیجئے۔

پس آپ نے اذخرنامی گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی۔
تشریح : اس حدیث سے جہاں قبر میں اذخر یا کسی سوکھی گھاس کا ڈالنا ثابت ہوا۔ وہاں حرم مکۃ المکرمہ کا بھی اثبات ہوا۔ اللہ نے شہر مکہ کو امن والا شہر فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اسے بلد امین کہا گیا ہے۔ یعنی وہ شہر جہاں امن ہی امن ہے‘ وہاں نہ کسی کا قتل جائز ہے نہ کسی جانور کا مارنا جائز حتیٰ کہ وہاں کی گھاس تک بھی اکھاڑنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ امن والا شہر ہے جسے خدا نے روز ازل ہی سے بلد الامین قرار دیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : باب کہ میت کو کسی خاص وجہ سے قبر یا لحد سے باہر نکالا جاسکتا ہے؟

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب میں اس کا جواز ثابت کیا اگر کسی پر زہر کھلانے یا ضرب لگانے سے موت کا گمان ہو تو اس کی لاش بھی قبر سے نکال کر دیکھ سکتے ہیں۔ البتہ مسلمان کی لاش کا چیرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 1350
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو سمعت جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله بن أبى بعد ما أدخل حفرته فأمر به فأخرج، فوضعه على ركبتيه، ونفث عليه من ريقه، وألبسه قميصه، فالله أعلم، وكان كسا عباسا قميصا‏.‏ قال سفيان وقال أبو هارون وكان على رسول الله صلى الله عليه وسلم قميصان، فقال له ابن عبد الله يا رسول الله، ألبس أبي قميصك الذي يلي جلدك‏.‏ قال سفيان فيرون أن النبي صلى الله عليه وسلم ألبس عبد الله قميصه مكافأة لما صنع‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا‘ عمرو نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی ( منافق ) کو اس کی قبر میں ڈالا جاچکا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر اسے قبر سے نکال لیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا کرتہ اسے پہنایا۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ( غالباً مرنے کے بعد ایک منافق کے ساتھ اس احسان کی وجہ یہ تھی کہ ) انہوں نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو ایک قمیص پہنائی تھی ( غزوئہ بدر میں جب حضرت عباس رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے قیدی بن کر آئے تھے ) سفیان نے بیان کیا کہ ابوہارون موسیٰ بن ابی عیسیٰ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال میں دو کرتے تھے۔ عبداللہ کے لڑکے ( جو مومن مخلص تھے رضی اللہ عنہ ) نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے والد کو آپ وہ قمیص پہنا دیجئے جو آپ کے جسداطہر کے قریب رہتی ہے۔ سفیان نے کہا لوگ سمجھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتہ اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو پہنایا تھا۔

حدیث نمبر : 1351
حدثنا مسدد، أخبرنا بشر بن المفضل، حدثنا حسين المعلم، عن عطاء، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ قال لما حضر أحد دعاني أبي من الليل فقال ما أراني إلا مقتولا في أول من يقتل من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وإني لا أترك بعدي أعز على منك، غير نفس رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن على دينا فاقض، واستوص بأخواتك خيرا‏.‏ فأصبحنا فكان أول قتيل، ودفن معه آخر في قبر، ثم لم تطب نفسي أن أتركه مع الآخر فاستخرجته بعد ستة أشهر، فإذا هو كيوم وضعته هنية غير أذنه‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو بشربن مفضل نے خبر دی‘ کہا کہ ہم سے حسین معلم نے بیان کیا‘ ان سے عطاءبن ابی رباح نے‘ ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب جنگ احد کا وقت قریب آگیا تو مجھے میرے باپ عبداللہ نے رات کو بلاکر کہا کہ مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سب سے پہلا مقتول میں ہی ہوں گا اور دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا دوسرا کوئی مجھے ( اپنے عزیزوں اور وارثوں میں ) تم سے زیادہ عزیز نہیں ہے‘ میں مقروض ہوں اس لیے تم میرا قرض ادا کردینا اور اپنی ( نو ) بہنوں سے اچھا سلوک کرنا۔ چنانچہ جب صبح ہوئی تو سب سے پہلے میرے والد ہی شہید ہوئے۔ قبر میں آپ کے ساتھ میں نے ایک دوسرے شخص کو بھی دفن کیا تھا۔ پر میرا دل نہیں مانا کہ انہیں دوسرے صاحب کے ساتھ یوں ہی قبر میں رہنے دوں۔ چنانچہ چھ مہینے کے بعد میں نے ان کی لاش کو قبر سے نکالا دیکھا تو صرف کان تھوڑا سا گلنے کے سوا باقی سارا جسم اسی طرح تھا جیسے دفن کیا گیا تھا۔

تشریح : جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار تھے اور ان کے دل میں جنگ کا جوش بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے یہ ٹھان لی کہ میں کافروں کو ماروں گا اور مروں گا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک خواب بھی دیکھا تھا کہ مبشربن عبداللہ جو جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے وہ ان کو کہہ رہے تھے کہ تم ہمارے پاس ان ہی دنوں میں آنا چاہتے ہو۔ انہوں نے یہ خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری قسمت میں شہادت لکھی ہوئی ہے۔ چنانچہ یہ خواب سچا ثابت ہوا۔ اس حدیث سے ایک مومن کی شان بھی معلوم ہوئی کہ اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ عزیز ہوں۔

حدیث نمبر : 1352
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن ابن أبي نجيح، عن عطاء، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ قال دفن مع أبي رجل فلم تطب نفسي حتى أخرجته فجعلته في قبر على حدة‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سعید بن عامر نے بیان کیا‘ ان سے شعبہ نے‘ ان سے ابن ابی نجیح نے‘ ان سے عطاءبن ابی رباح اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے باپ کے ساتھ ایک ہی قبر میں ایک اور صحابی ( حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے چچا ) دفن تھے۔ لیکن میرا دل اس پر راضی نہیں ہورہا تھا۔ اس لیے میں نے ان کی لاش نکال کر دوسری قبر میں دفن کردی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : بغلی یا صندوقی قبر بنانا

حدیث نمبر : 1353
حدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، أخبرنا الليث بن سعد، قال حدثني ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يجمع بين رجلين من قتلى أحد ثم يقول ‏"‏ أيهم أكثر أخذا للقرآن‏"‏‏. ‏ فإذا أشير له إلى أحدهما قدمه في اللحد فقال ‏"‏ أنا شهيد على هؤلاء يوم القيامة‏"‏‏. ‏ فأمر بدفنهم بدمائهم ولم يغسلهم‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا ہمیں لیث بن سعد نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا۔ ان سے عبدالرحمن بن کعب بن مالک نے‘ اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ احد کے شہداء کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک کفن میں دو دو کو ایک ساتھ کرکے پوچھتے تھے کہ قرآن کس کو زیادہ یاد تھا۔ پھر جب کسی ایک کی طرف اشارہ کردیا جاتا تو بغلی قبر میں اسے آگے کردیا جاتا۔ پھر آپ فرماتے کہ میں قیامت کو ان ( کے ایمان ) پر گواہ بنوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بغیر غسل دئیے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال ہوگیا‘ تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ اور کیا بچے کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جاسکتی ہے؟

وقال الحسن وشريح وإبراهيم وقتادة إذا أسلم أحدهما فالولد مع المسلم‏.‏ وكان ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ مع أمه من المستضعفين، ولم يكن مع أبيه على دين قومه‏.‏ وقال الإسلام يعلو ولا يعلى‏.‏
حسن‘ شریح‘ ابراہیم اور قتادہ رحمہم اللہ نے کہا کہ والدین میں سے جب کوئی اسلام لائے تو ان کا بچہ بھی مسلمان سمجھا جائے گا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی اپنی والدہ کے ساتھ ( مسلمان سمجھے گئے تھے اور مکہ کے ) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ آپ اپنے والد کے ساتھ نہیں تھے جو ابھی تک اپنی قوم کے دین پر قائم تھے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوسکتا۔

حدیث نمبر : 1354
حدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، عن يونس، عن الزهري، قال أخبرني سالم بن عبد الله، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن عمر انطلق مع النبي صلى الله عليه وسلم في رهط قبل ابن صياد، حتى وجدوه يلعب مع الصبيان عند أطم بني مغالة، وقد قارب ابن صياد الحلم فلم يشعر حتى ضرب النبي صلى الله عليه وسلم بيده ثم قال لابن صياد ‏"‏ تشهد أني رسول الله‏"‏‏. ‏ فنظر إليه ابن صياد فقال أشهد أنك رسول الأميين‏.‏ فقال ابن صياد للنبي صلى الله عليه وسلم أتشهد أني رسول الله فرفضه وقال آمنت بالله وبرسله‏.‏ فقال له ‏"‏ ماذا ترى‏"‏‏. ‏ قال ابن صياد يأتيني صادق وكاذب‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ خلط عليك الأمر ‏"‏ ثم قال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إني قد خبأت لك خبيئا‏"‏‏. ‏ فقال ابن صياد هو الدخ‏.‏ فقال ‏"‏ اخسأ، فلن تعدو قدرك‏"‏‏. ‏ فقال عمر ـ رضى الله عنه ـ دعني يا رسول الله أضرب عنقه‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن يكنه فلن تسلط عليه، وإن لم يكنه فلا خير لك في قتله‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی ‘ انہیں یونس نے‘ انہیں زہری نے‘ کہا کہ مجھے سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کچھ دوسرے اصحاب کی معیت میں ابن صیاد کے پاس گئے۔ آپ کو وہ بنو مغالہ کے مکانوں کے پاس بچوں کے ساتھ کھیلتا ہوا ملا۔ ان دنوں ابن صیاد جوانی کے قریب تھا۔ اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی کوئی خبر ہی نہیں ہوئی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا تو اسے معلوم ہوا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابن صیاد! کیا تم گواہی دیتے ہو کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ ابن صیاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ کر بولا ہاں میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان پڑھوں کے رسول ہیں۔ پھر اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا۔ کیا آپ اس کی گواہی دیتے ہیں کہ میں بھی اللہ کا رسول ہوں؟ یہ بات سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور فرمایا میں اللہ اور اس کے پیغمبروں پر ایمان لایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تجھے کیا دکھائی دیتا ہے؟ ابن صیاد بولا کہ میرے پاس سچی اور جھوٹی دونوں خبریں آتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تو تیرا سب کام گڈمڈ ہوگیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( اللہ تعالیٰ کے لیے ) اس سے فرمایا اچھا میں نے ایک بات دل میں رکھی ہے وہ بتلا۔ ( آپ نے سورہ دخان کی آیت کا تصور کیا۔ ﴿ فارتقب یوم تاتی السماءبدخان مبین ﴾ ابن صیاد نے کہا وہ دخ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چل دور ہو تو اپنی بساط سے آگے کبھی نہ بڑھ سکے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یا رسول اللہ! مجھ کو چھوڑ دیجئے میں اس کی گردن ماردیتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ اگر یہ دجال ہے تو تو اس پر غالب نہ ہوگا اور اگر دجال نہیں ہے تو اس کا مارڈالنا تیرے لیے بہتر نہ ہوگا۔

حدیث نمبر : 1355
وقال سالم سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول انطلق بعد ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبى بن كعب إلى النخل التي فيها ابن صياد وهو يختل أن يسمع من ابن صياد شيئا قبل أن يراه ابن صياد فرآه النبي صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع، يعني في قطيفة له فيها رمزة أو زمرة، فرأت أم ابن صياد رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يتقي بجذوع النخل فقالت لابن صياد يا صاف ـ وهو اسم ابن صياد ـ هذا محمد صلى الله عليه وسلم‏.‏ فثار ابن صياد فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لو تركته بين‏"‏‏. ‏ وقال شعيب في حديثه فرفصه رمرمة، أو زمزمة‏.‏ وقال إسحاق الكلبي وعقيل رمرمة‏.‏ وقال معمر رمزة‏.‏
اور سالم نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہتے تھے پھر ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں مل کر ان کھجور کے درختوں میں گئے۔ جہاں ابن صیاد تھا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو نہ دیکھے اور ) اس سے پہلے کہ وہ آپ کو دیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غفلت میں اس سے کچھ باتیں سن لیں۔ آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ پایا۔ وہ ایک چادر اوڑھے پڑا تھا۔ کچھ گن گن یا پھن پھن کر رہا تھا۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابن صیاد کی ماں نے دور ہی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں میں چھپ چھپ کر جارہے تھے۔ اس نے پکار کر ابن صیاد سے کہہ دیا صاف! یہ نام ابن صیاد کا تھا۔ دیکھو محمد آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش اس کی ماں ابن صیاد کو باتیں کرنے دیتی تو وہ اپنا حال کھولتا۔ شعیب نے اپنی روایت میں زمزمة فرفصہ اور عقیل رمرمة نقل کیا ہے اور معمر نے رمزة کہا ہے۔

تشریح : ابن صیاد ایک یہودی لڑکا تھا جو مدینہ میں دجل وفریب کی باتیں کرکرکے عوام کو بہکایا کرتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسلام پیش فرمایا۔ اس وقت وہ نابالغ تھا۔ اسی سے امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب ثابت ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف سے مایوس ہوگئے کہ وہ ایمان لانے والا نہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں اس کو چھوڑ دیا یعنی اس کی نسبت لاونعم کچھ نہیں کہا صرف اتنا فرمادیا کہ میں اللہ کے سب پیغمبروں پر ایمان لایا۔

بعض روایتوں میں فرفصہ صاد مہملہ سے ہے کہ یعنی ایک لات اس کو جمائی۔ بعضوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دبا کر بھینچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اس سے پوچھا اس سے آپ کی غرض محض یہ تھی کہ اس کا جھوٹ کھل جائے اور اس کا پیغمبری کا دعویٰ غلط ہو۔ ابن صیاد نے جواب میں کہا کہ میں کبھی سچا کبھی جھوٹا خواب دیکھتا ہوں‘ یہ شخص کاہن تھا اس کو جھوٹی سچی خبریں شیطان دیا کرتے تھے۔ دخان کی جگہ صرف لفظ دخ کہا۔ شیطانوں کی اتنی ہی طاقت ہوتی ہے کہ ایک آدھ کلمہ اچک لیتے ہیں‘ اسی میں جھوٹ ملاکر مشہور کرتے ہیں ( خلاصہ وحیدی ) مزید تفصیل دوسری جگہ آئے گی۔

حدیث نمبر : 1356
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد ـ وهو ابن زيد ـ عن ثابت، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال كان غلام يهودي يخدم النبي صلى الله عليه وسلم فمرض، فأتاه النبي صلى الله عليه وسلم يعوده، فقعد عند رأسه فقال له ‏"‏ أسلم‏"‏‏. ‏ فنظر إلى أبيه وهو عنده فقال له أطع أبا القاسم صلى الله عليه وسلم‏.‏ فأسلم، فخرج النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول ‏"‏ الحمد لله الذي أنقذه من النار‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا‘ ان سے ثابت نے‘ ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی لڑکا ( عبدالقدوس ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا‘ ایک دن وہ بیمار ہوگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا مزاج معلوم کرنے کے لیے تشریف لائے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے اور فرمایا کہ مسلمان ہوجا۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا‘ باپ وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا کہ ( کیا مضائقہ ہے ) ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں مان لے۔ چنانچہ وہ بچہ اسلام لے آیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ نے فرمایا کہ شکر ہے اللہ پاک کا جس نے اس بچے کو جہنم سے بچالیا۔

حدیث نمبر : 1357
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال قال عبيد الله سمعت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يقول كنت أنا وأمي، من المستضعفين أنا من الولدان، وأمي، من النساء‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ عبیداللہ بن زیاد نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے سنا تھا کہ میں اور میری والدہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد مکہ میں ) کمزور مسلمانوں میں سے تھے۔ میں بچوں میں اور میری والدہ عورتوں میں۔

جن کا ذکر سورۃ نساءکی آیتوں میں ہے والمستضعفین من الرجال والنساءوالولدان اور الا المستضعفین من الرجال والنساءوالولدان الخ

حدیث نمبر : 1358
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، قال ابن شهاب يصلى على كل مولود متوفى وإن كان لغية، من أجل أنه ولد على فطرة الإسلام، يدعي أبواه الإسلام أو أبوه خاصة، وإن كانت أمه على غير الإسلام، إذا استهل صارخا صلي عليه، ولا يصلى على من لا يستهل من أجل أنه سقط، فإن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ كان يحدث قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه، كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء هل تحسون فيها من جدعاء‏"‏‏. ‏ ثم يقول أبو هريرة ـ رضى الله عنه – ‏{‏فطرة الله التي فطر الناس عليها‏}‏ الآية‏.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی‘ انہوں نے بیان کیا کہ ابن شہاب ہر اس بچے کی جو وفات پاگیا ہو نماز جنازہ پڑھتے تھے۔ اگرچہ وہ حرام ہی کا بچہ کیوں نہ ہو کیونکہ اس کی پیدائش اسلام کی فطرت پر ہوئی۔ یعنی اس صورت میں جب کہ اس کے والدین مسلمان ہونے کے دعویدار ہوں۔ اگر صرف باپ مسلمان ہو اور ماں کا مذہب اسلام کے سوا کوئی اور ہو جب بھی بچہ کے رونے کی پیدائش کے وقت اگر آواز سنائی دیتی تو اس پر نماز پڑھی جاتی۔ لیکن اگر پیدائش کے وقت کوئی آواز نہ آتی تو اس کی نماز نہیں پڑھی جاتی تھی۔ بلکہ ایسے بچے کو کچا حمل گرجانے کے درجہ میں سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت ( اسلام ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں جس طرح تم دیکھتے ہو کہ جانور صحیح سالم بچہ جنتا ہے۔ کیا تم نے کوئی کان کٹا ہوا بچہ بھی دیکھا ہے؟ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کو تلاوت کیا۔ “ یہ اللہ کی فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ الآیة۔

تشریح : قسطلانی نے کہا اگر وہ چار مہینے کا بچہ ہوتو اس کو غسل اور کفن دینا واجب ہے‘ اسی طرح دفن کرنالیکن نماز واجب نہیں کیونکہ اس نے آواز نہیں کی اور اگر چار مہینے سے کم کاہوتو ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیں۔

حدیث نمبر : 1359
حدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، أخبرنا يونس، عن الزهري، أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ما من مولود إلا يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه، كما تنتج البهيمة بهيمة جمعاء، هل تحسون فيها من جدعاء‏"‏‏. ‏ ثم يقول أبو هريرة ـ رضى الله عنه ‏{‏فطرة الله التي فطر الناس عليها لا تبديل لخلق الله ذلك الدين القيم‏}‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ نے خبر دی ‘ انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے‘ انہیںابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جانور ایک صحیح سالم جانور جنتا ہے۔ کیا تم اس کاکوئی عضو ( پیدائشی طورپر ) کٹا ہوا دیکھتے ہو؟ پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے جس پر لوگوں کو اس نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خلقت میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں‘ یہی دین قیم ہے۔

باب کامطلب اس حدیث سے یوں نکلتاہے کہ جب ہر ایک آدمی کی فطرت اسلام پر ہوئی ہے تو بچے پر بھی اسلام پیش کرنا اور اس کا اسلام لانا صحیح ہوگا۔ ابن شہاب نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ہر بچے پر نماز جنازہ پڑھی جائے کیونکہ وہ اسلام کی فطرت پر پیدا ہوا ہے۔ اس یہودی بچے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا گویا اس سے اجازت چاہی جب اس نے اجازت دی تو وہ شوق سے مسلمان ہوگیا۔ باب اور حدیث میں مطابقت یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے سے مسلمان ہونے کے لیے فرمایا۔ اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آپ ازراہ ہمدردی مسلمان اور غیر مسلمان سب کے ساتھ محبت کا برتاؤ فرماتے اور جب بھی کوئی بیمار ہوتا اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے جاتے ( صلی اللہ علیہ وسلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جب ایک مشرک موت کے وقت لا الٰہ الا اللہ کہہ لے

تشریح : یعنی جب تک موت کا یقین نہ ہوا ہو اور موت کی نشانیاں ظاہر نہ ہوئی ہوں کیونکہ ان کے ظاہر ہونے کے بعد پھر ایمان لانا فائدہ نہیں کرتا۔ ابوطالب کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نزع سے پہلے ایمان لانے کو فرمایا ہوگا یااگر نزع کی حالت شروع ہوگئی تھی تو یہ ابو طالب کی خصوصیت ہوگی جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اس کے عذاب میں تخفیف ہوجائے گی۔

حدیث نمبر : 1360
حدثنا إسحاق، أخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثني أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، قال أخبرني سعيد بن المسيب، عن أبيه، أنه أخبره أنه، لما حضرت أبا طالب الوفاة جاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد عنده أبا جهل بن هشام، وعبد الله بن أبي أمية بن المغيرة، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لأبي طالب ‏"‏ يا عم، قل لا إله إلا الله، كلمة أشهد لك بها عند الله‏"‏‏. ‏ فقال أبو جهل وعبد الله بن أبي أمية يا أبا طالب، أترغب عن ملة عبد المطلب فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرضها عليه، ويعودان بتلك المقالة، حتى قال أبو طالب آخر ما كلمهم هو على ملة عبد المطلب، وأبى أن يقول لا إله إلا الله‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أما والله لأستغفرن لك، ما لم أنه عنك‏"‏‏. ‏ فأنزل الله تعالى فيه ‏{‏ما كان للنبي‏}‏ الآية‏.
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھے میرے باپ ( ابراہیم بن سعد ) نے صالح بن کیسان سے خبر دی ‘ انہیں ابن شہاب نے‘ انہوں نے بیان کیا کہ مجھے سعید بن مسیب نے اپنے باپ ( مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ ) سے خبر دی ‘ ان کے باپ نے انہیںیہ خبر دی کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ “ لا الٰہ الا اللہ ” ( اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں کوئی معبود نہیں ) کہہ دیجئے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ مغیرہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤگے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے لا الہ الا اللہ کہنے سے انکار کردیا پھر بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ تا آنکہ مجھے منع نہ کردیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ﴿ وماکان للنبی ﴾ نازل فرمائی۔ ( التوبہ : ۳۱۱ )

تشریح : جس میں کفار ومشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت کردی گئی تھی۔ ابوطالب کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑے احسانات تھے۔ انہوں نے اپنے بچوں سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پالا اور پرورش کی اور کافروں کی ایذادہی سے آپ کو بچاتے رہے۔ اس لیے آپ نے محبت کی وجہ سے یہ فرمایا کہ خیر میں تمہارے لیے دعا کرتا رہوں گا اور آپ نے ان کے لیے دعا شروع کی۔ جب سورۃ توبہ کی آیت وماکان للنبی نازل ہوئی کہ پیغمبر اور ایمان والوں کے لیے نہیں چاہئے کہ مشرکوں کے لیے دعاکریں‘ اس وقت آپ رک گئے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ مرتے وقت بھی اگر مشرک شرک سے توبہ کرلے تو اس کا ایمان صحیح ہوگا۔ باب کا یہی مطلب ہے۔ مگر یہ توبہ سکرات سے پہلے ہونی چاہیے۔ سکرات کی توبہ قبول نہیں جیسا کہ قرآنی آیت فَلَم یَکُ یَنفَعُہُم اِیمَانُہُم لَمَّا رَاَوبَاسُنَا ( غافر: 85 ) میں مذکور ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگانا

وأوصى بريدة الأسلمي أن يجعل في قبره جريدان‏.‏ ورأى ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ فسطاطا على قبر عبد الرحمن فقال انزعه يا غلام، فإنما يظله عمله‏.‏ وقال خارجة بن زيد رأيتني ونحن شبان في زمن عثمان ـ رضى الله عنه ـ وإن أشدنا وثبة الذي يثب قبر عثمان بن مظعون حتى يجاوزه‏.‏ وقال عثمان بن حكيم أخذ بيدي خارجة فأجلسني على قبر، وأخبرني عن عمه يزيد بن ثابت قال إنما كره ذلك لمن أحدث عليه‏.‏ وقال نافع كان ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يجلس على القبور‏.‏
اور بریدہ اسلمی صحابی رضی اللہ عنہ نے وصیت کی تھی کہ ان کی قبر پر دو شاخیں لگادی جائیں اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی قبر پر ایک خیمہ تناہوا دیکھا تو کہنے لگے کہ اے غلام! اسے اکھاڑ ڈال اب ان پر ان کا عمل سایہ کرے گا اور خارجہ بن زید نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں میں جوان تھا اور چھلانگ لگانے میں سب سے زیادہ وہ سمجھا جاتا جو عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر چھلانگ لگاکر اس پار کود جاتا اور عثمان بن حکیم نے بیان کیا کہ خارجہ بن زید نے میرا ہاتھ پکڑکر ایک قبر پر مجھ کو بٹھایا اور اپنے چچا یزید بن ثابت سے روایت کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو منع ہے جو پیشاب یا پاخانہ کے لیے اس پر بیٹھے۔ اور نافع نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قبروں پر بیٹھا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 1361
حدثنا يحيى، حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه مر بقبرين يعذبان فقال ‏"‏ إنهما ليعذبان وما يعذبان في كبير أما أحدهما فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر فكان يمشي بالنميمة‏"‏‏. ‏ ثم أخذ جريدة رطبة فشقها بنصفين، ثم غرز في كل قبر واحدة‏.‏ فقالوا يا رسول الله، لم صنعت هذا فقال ‏"‏ لعله أن يخفف عنهما ما لم ييبسا‏"‏‏. ‏
ہم سے یحیٰی بن جعفر بیکندی نے بیان کیا‘ کہا ہم سے ابو معاویہ نے بیان کیا‘ ان سے اعمش نے‘ ان سے مجاہد نے‘ ان سے طاؤس نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایسی دو قبروں پر ہوا جن پر عذاب ہورہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر عذاب کسی بہت بڑی بات پر نہیں ہورہا ہے صرف یہ کہ ان میں ایک شخص پیشاب سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی ایک ہری ڈالی لی اور اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبر پر ایک ایک ٹکڑا گاڑدیا۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ شاید اس وقت تک کے لیے ان پر عذاب کچھ ہلکا ہوجائے جب تک یہ خشک نہ ہوں۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر کھجور کی ڈالیاں لگادی تھیں۔ بعضوں نے یہ سمجھا کہ یہ مسنون ہے۔ بعضے کہتے ہیں کہ یہ آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا اور کسی کو ڈالیاں لگانے میں کوئی فائدہ نہیں۔ چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر اسی بات کو ثابت کرنے کے لیے لائے۔ ابن عمر اور بریدہ رضی اللہ عنہم کے اثر کو ابن سعد نے وصل کیا۔ خارجہ بن زید کے اثر کو امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ صغیر میں وصل کیا۔ اس اثر اور اس کے بعد کے اثر کو بیان کرنے سے امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ قبروالے کو اس کے عمل ہی فائدہ دیتے ہیں۔ اونچی چیز لگانا جیسے شاخیں وغیرہ یا قبر کی عمارت اونچی بنانا یا قبر پر بیٹھنا یہ چیزیں ظاہر میں کوئی فائدہ یا نقصان دینے والی نہیں ہیں۔ یہ خارجہ بن زید اہل مدینہ کے سات فقہاءمیں سے ہیں۔ انہوں نے اپنے چچا یزید بن ثابت سے نقل کیا کہ قبر پر بیٹھنا اس کو مکروہ ہے جو اس پر پاخانہ یا پیشاب کرے۔ ( وحیدی )

علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قال ابن رشید ویظہر من تصرف البخاری ان ذلک خاص بہما فلذلک عقبہ بقول ابن عمر انما یظلہ عملہ ( فتح الباری ) یعنی ابن رشید نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کے تصرف سے یہی ظاہر ہے کہ شاخوں کے گاڑنے کا عمل ان ہی دونوں قبروں کے ساتھ خاص تھا۔ اس لیے امام بخاری رحمہ اللہ اس ذکر کے بعد ہی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا قول لائے ہیں کہ اس مرنے والے کا عمل ہی اس کو سایہ کرسکے گا۔ جن کی قبر پر خیمہ دیکھا گیا تھا وہ عبدالرحمن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما تھے اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ خیمہ دور کرادیا تھا۔ قبروں پر بیٹھنے کے بارے میں جمہور کا قول یہی ہے کہ ناجائز ہے۔ اس بارے میں کئی ایک احادیث بھی وارد ہیں چند حدیث ملاحظہ ہوں۔

عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لان یجلس احدکم علی جمرۃ فتحرق ثیابہ فتخلص الی جلدہ خیرلہ من ان یجلس علی قبر رواہ الجماعۃ الا البخاری والترمذی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی اگر کسی انگارے پر بیٹھے کہ وہ اس کے کپڑے اور جسم کو جلادے تو اس سے بہتر ہے کہ قبر پر بیٹھے۔ دوسری حدیث عمروبن حزم سے مروی ہے کہ رانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم متکئا علی قبرفقال لاتوذصاحب ہذا القبراولاتوذوہ رواہ احمد یعنی مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک قبر پر تکیہ لگائے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا کہ اس قبر والے کو تکلیف نہ دے۔ ان ہی احادیث کی بناپر قبروں پر بیٹھنا منع ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمر صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل جو مذکور ہوا کہ آپ قبروں پر بیٹھا کرتے تھے سو شاید ان کا خیال یہ ہوکہ بیٹھنا اس کے لیے منع ہے جو اس پر پاخانہ پیشاب کرے۔ مگر دیگر احادیث کی بناپر مطلق بیٹھنا بھی منع ہے جیسا کہ مذکور ہوا یا ان کا قبر پر بیٹھنے سے مراد صرف ٹیک لگانا ہے نہ کہ اوپر بیٹھنا۔
حدیث مذکور سے قبر کا عذاب بھی ثابت ہوا جو برحق ہے جو کئی آیات قرآنی واحادیث نبوی سے ثابت ہے۔ جو لوگ عذاب قبر کا انکار کرتے اور اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں۔ وہ قرآن وحدیث سے بے بہرہ اور گمراہ ہیں۔ ہداہم اللہ۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : قبر کے پاس عالم کا بیٹھنا اور لوگوں کو نصیحت کرنا اور لوگوں کا اس کے اردگرد بیٹھنا

حدیث نمبر : 1361
‏{‏يخرجون من الأجداث‏}‏ الأجداث القبور‏.‏ ‏{‏بعثرت‏}‏ أثيرت‏.‏ بعثرت حوضي أى جعلت أسفله أعلاه، الإيفاض الإسراع‏.‏ وقرأ الأعمش ‏{‏إلى نصب‏}‏ إلى شىء منصوب يستبقون إليه، والنصب واحد والنصب مصدر يوم الخروج من القبور‏.‏ ‏{‏ينسلون‏}‏ يخرجون‏.‏
سورئہ قمر میں آیت ﴿ یخرجون من الا جداث ﴾ میں اجداث سے قبریں مراد ہیں۔ اور سورئہ انفطار میں بعثرت کے معنے اٹھائے جانے کے ہیں۔ عربوں کے قول میں ﴿ بعثرت حوضی ﴾ کا مطلب یہ کہ حوض کا نچلا حصہ اوپر کردیا۔ ایفاض کے معنے جلدی کرنا۔ اور اعمش کی قرات میں الی نصب ( بفتح نون ) ہے یعنی ایک شئی منصوب کی طرف تیزی سے دوڑے جارہے ہیں تاکہ اس سے آگے بڑھ جائیں۔ نصب ( بضم نون ) واحد ہے اور نصیب ( بفتح نون ) مصدر ہے اور سورئہ ق میں یوم الخروج سے مراد مردوں کا قبروں سے نکلنا ہے۔ اور سورئہ انبیاءمیں ینسلون یخرجون کے معنے میں ہے۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق یہاں بھی کئی ایک قرآنی الفاظ کی تشریح فرمادی ہے۔ قبروں کی مناسبت سے اجداث کے معنی اور بعثرت کے معنے بیان کردئیے۔ آیت میں ہے کہ قبروں سے اس طرح نکل کر بھاگیں گے جیسے تھانوں کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ اس مناسبت سے ایفاض اور نصب کے معنے بیان کئے۔ اور ذلک یوم الخروج میں خروج سے قبروں سے نکلنا مراد ہے۔ اس لیے ینسلون کا معنی بیان کردیا۔ کیونکہ وہ بھی یخرجون کے معنے میں ہے۔

حضرت مجتہد مطلق امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ ثابت فرمایا کہ قبرستان میں اگر فرصت نظر آئے تو امام عالم محدث وہاں لوگوں کو آخرت یاد دلانے اور ثواب وعذاب قبر پر مطلع کرنے کے لیے قرآن وحدیث کی روشنی میں وعظ سنا سکتا ہے۔ جیسا کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ سنایا۔
مگر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ بیشتر لوگ جو قبرستان جاتے ہیں وہ محض تفریحاً وہاں وقت گزار دیتے ہیں اور بہت سے حقہ و سگریٹ نوشی میں مصروف رہتے ہیں۔ اور بہت سے مٹی لگنے تک ادھر ادھر مٹرگشت کرتے رہتے ہیں۔ اس لیے ایسے حضرات کو سوچنا چاہئے کہ آخر ان کو بھی اسی جگہ آنا ہے اور قبر میں داخل ہونا ہے۔ کسی نہ کسی دن تو قبروں کو یاد کرلیا کریں یا قبرستان میں جاکر تو موت اور آخرت کی یاد سے اپنے دلوں کو پگھلایا کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو نیک سمجھ عطا کرے۔ آمین۔
اہل بدعت نے بجائے مسنون طریقہ کے قبرستانوں میں اور نت نئے طریقے ایجاد کرلیے ہیں اور اب تو نئی بدعت یہ نکالی گئی ہے کہ دفن کرنے کے بعد قبرپر اذان دیتے ہیں۔ خدا جانے اہل بدعت کو ایسی نئی نئی بدعات کہاں سے سوجھتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ بدعت سے بچاکر سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق بخشے۔ آمین

حدیث نمبر : 1362
حدثنا عثمان، قال حدثني جرير، عن منصور، عن سعد بن عبيدة، عن أبي عبد الرحمن، عن علي ـ رضى الله عنه ـ قال كنا في جنازة في بقيع الغرقد، فأتانا النبي صلى الله عليه وسلم فقعد وقعدنا حوله، ومعه مخصرة فنكس، فجعل ينكت بمخصرته ثم قال ‏"‏ ما منكم من أحد، ما من نفس منفوسة إلا كتب مكانها من الجنة والنار، وإلا قد كتب شقية أو سعيدة‏"‏‏. ‏ فقال رجل يا رسول الله، أفلا نتكل على كتابنا وندع العمل، فمن كان منا من أهل السعادة فسيصير إلى عمل أهل السعادة، وأما من كان منا من أهل الشقاوة فسيصير إلى عمل أهل الشقاوة قال ‏"‏ أما أهل السعادة فييسرون لعمل السعادة، وأما أهل الشقاوة فييسرون لعمل الشقاوة ‏"‏، ثم قرأ ‏{‏فأما من أعطى واتقى‏}‏ الآية‏.‏
ہم سے عثمان ابن ابی شیبہ نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے جریر نے بیان کیا‘ ان سے منصور بن معتمر نے بیان کیا‘ ان سے سعد بن عبیدہ نے‘ ان سے ابوعبدالرحمن عبداللہ بن حبیب نے اور ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم بقیع غرقد میں ایک جنازہ کے ساتھ تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے۔ ہم بھی آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔ آپ کے پاس ایک چھڑی تھی جس سے آپ زمین کرید نے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہیں یا کوئی جان ایسی نہیں جس کا ٹھکانا جنت اور دوزخ دونوں جگہ نہ لکھا گیا ہو اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہوگی یا بدبخت۔ اس پر ایک صحابی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! پھر کیوں نہ ہم اپنی تقدیر پر بھروسہ کرلیں اور عمل چھوڑ دیں کیونکہ جس کا نام نیک دفتر میں لکھا ہے وہ ضرور نیک کام کی طرف رجوع ہوگا اور جس کا نام بدبختوں میں لکھا ہے وہ ضرور بدی کی طرف جائے گا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بات یہ ہے کہ جن کا نام نیک بختوں میں ہے ان کو اچھے کام کرنے میں ہی آسانی معلوم ہوتی ہے اور بدبختوں کو بُرے کاموں میں آسانی نظرآتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی ﴿ فامامن اعطی واتقی الخ ﴾

یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیا اور پرہیز گاری اختیارکی اور اچھے دین کو سچا مانا اس کو ہم آسانی کے گھر یعنی بہشت میں پہنچنے کی توفیق دیں گے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی شرح واللیل میں آئے گی۔ اور یہ حدیث تقدیر کے اثبات میں ایک اصل عظیم ہے۔ آپ کے فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ عمل کرنا اور محنت اٹھانا ضروری ہے۔ جیسے حکیم کہتا ہے کہ دوا کھائے جاؤ حالانکہ شفا دینا اللہ کا کام ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : جو شخص خود کشی کرے اس کی سزا کے بیان میں

تشریح : اس باب کے لانے سے حضرت امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ جو شخص خود کشی کرے جب وہ جہنمی ہوا تو اس پر جنازے کی نماز نہ پڑھنا چاہئے اور شاید امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا جسے اصحاب سنن نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک جنازہ لایا گیا۔ اس نے اپنے تئیں تیروں سے مار ڈالا تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھائی۔ مگر نسائی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ نے پڑھ لی تو معلوم ہوا کہ اور لوگوں کی عبرت کے لیے جو امام اور مقتدیٰ ہو وہ اس پر نماز نہ پڑھے لیکن عوام لوگ پڑھ لیں۔ اور امام مالک رحمہ اللہ اور شافعی رحمہ اللہ اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور جمہور علماءیہ کہتے ہیں کہ فاسق پر نماز پڑھی جائے گی۔ یہ بھی فاسق ہے اور عترت اور عمر بن عبدالعزیز اور اوزاعی کے نزدیک فاسق پر نمازنہ پڑھیں، اسی طرح باغی اور ڈاکو پر ( وحیدی )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ابن منیر کا قول یوں نقل فرماتے ہیں۔ عادۃ البخاری اذا توقف فی شئی ترجم علیہ ترجمۃ مبہمۃ کانہ ینبہ علی طریق الا جتہاد وقد نقل عن مالک ان قاتل النفس لا تقبل توبتہ و مقتضاہ ان لا یصلی علیہ وہو نفس قول البخاری۔ یعنی امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کی عادت یہ ہے کہ جب ان کو کسی امر میں توقف ہوتا ہے تو اس پر مبہم باب منعقد فرماتے ہیں۔ گویا وہ طریق اجتہاد پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں اور امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ قاتل نفس کی توبہ قبول نہیں ہوتی اور اسی کا مقتضٰی ہے کہ اس پر نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی منشا ہے۔

حدیث نمبر : 1363
حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا خالد، عن أبي قلابة، عن ثابت بن الضحاك ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من حلف بملة غير الإسلام كاذبا متعمدا فهو كما قال، ومن قتل نفسه بحديدة عذب به في نار جهنم‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے خالد حذاءنے بیان کیا‘ ان سے ابوقلابہ نے اور ان سے ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین پر ہونے کی جھوٹی قسم قصداً کھائے تو وہ ویسا ہی ہوجائے گا جیسا کہ اس نے اپنے لیے کہا ہے اور جو شخص اپنے کو دھار دار چیز سے ذبح کرلے اسے جہنم میں اسی ہتھیارسے عذاب ہوتا رہے گا۔

حدیث نمبر : 1364
وقال حجاج بن منهال حدثنا جرير بن حازم، عن الحسن، حدثنا جندب ـ رضى الله عنه ـ في هذا المسجد فما نسينا، وما نخاف أن يكذب جندب عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ كان برجل جراح فقتل نفسه فقال الله بدرني عبدي بنفسه حرمت عليه الجنة‏"‏‏. ‏
اور حجاج بن منہال نے کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے بیان کیا‘ ان سے امام حسن بصری نے کہا کہ ہم سے جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے اسی ( بصرے کی ) مسجد میں حدیث بیان کی تھی نہ ہم اس حدیث کو بھولے ہیں اور نہ یہ ڈر ہے کہ جندب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹ باندھا ہوگا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص کو زخم لگا‘ اس نے ( زخم کی تکلیف کی وجہ سے ) خود کو مار ڈالا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے بندے نے جان نکالنے میں مجھ پر جلدی کی۔ اس کی سزا میں جنت حرام کرتا ہوں۔

حدیث نمبر : 1365
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، حدثنا أبو الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الذي يخنق نفسه يخنقها في النار، والذي يطعنها يطعنها في النار‏"‏‏. ‏
ہم سے ابولیمان نے بیان کیا‘ کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی‘ کہا کہ ہم کو ابو الزناد نے خبر دی ‘ ان سے اعرج نے‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص خود اپناگلا گھونٹ کر جان دے ڈالتا ہے وہ جہنم میںبھی اپنا گلا گھونٹتا رہے گا اور جو برچھے یا تیرسے اپنے تئیں مارے وہ دوزخ میں بھی اس طرح اپنے تئیں مارتا رہے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنا اور مشرکوں کے لیے طلب مغفرت کرنا ناپسند ہے

رواه ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اس کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1366
حدثنا يحيى بن بكير، حدثني الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، عن عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنهم ـ أنه قال لما مات عبد الله بن أبى ابن سلول دعي له رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه، فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم وثبت إليه فقلت يا رسول الله، أتصلي على ابن أبى وقد قال يوم كذا وكذا كذا وكذا ـ أعدد عليه قوله ـ فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم وقال ‏"‏ أخر عني يا عمر‏"‏‏. ‏ فلما أكثرت عليه قال ‏"‏ إني خيرت فاخترت، لو أعلم أني إن زدت على السبعين فغفر له لزدت عليها‏"‏‏. ‏ قال فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم انصرف، فلم يمكث إلا يسيرا حتى نزلت الآيتان من ‏{‏براءة‏}‏ ‏{‏ولا تصل على أحد منهم مات أبدا‏}‏ إلى ‏{‏وهم فاسقون‏}‏ قال فعجبت بعد من جرأتي على رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ، والله ورسوله أعلم‏.‏
ہم سے یحیٰی بن بکیر نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا‘ ان سے عقیل نے‘ ان سے ابن شہاب نے‘ ان سے عبید اللہ بن عبداللہ نے‘ ان سے ابن عباس نے اور ان سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مراتو رول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر نماز جنازہ کے لیے کہا گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس ارادے سے کھڑے ہوئے تو میں نے آپ کی طرف بڑھ کر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھاتے ہیں حالانکہ اس نے فلاں دن فلاں بات کہی تھی اور فلاں دن فلاں بات۔ میں اس کی کفر کی باتیں گننے لگا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر مسکرا دئیے اور فرمایا عمر! اس وقت پیچھے ہٹ جاؤ۔ لیکن جب میں بار بار اپنی بات دہراتا رہا تو آپ نے مجھے فرمایا کہ مجھے اللہ کی طرف سے اختیار دے دیا گیا ہے‘ میں نے نماز پڑھانی پسند کی اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ مرتبہ اس کے لیے مغفرت مانگنے پر اسے مغفرت مل جائے گی تو اس کے لیے اتنی ہی زیادہ مغفرت مانگوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور واپس ہونے کے تھوڑی دیر بعد آپ پر سورئہ براءة کی دو آیتیں نازل ہوئیں۔ “ کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ آپ ہرگز نہ پڑھائیے۔ ” آیت وہم فاسقون تک اور اس کی قبر پر بھی مت کھڑا ہو‘ ان لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کو نہیںمانا اور مرے بھی تونا فرمان رہ کر۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور اپنی اسی دن کی دلیری پر تعجب ہوتا ہے۔ حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ( ہر مصلحت کو ) زیادہ جانتے ہیں۔

تشریح : عبداللہ بن ابی مدینہ کا مشہور ترین منافق تھا۔ جو عمر بھر اسلام کے خلاف سازشیں کرتا رہا اور اس نے ہرنازک موقع پر مسلمانوں کو اور اسلام کو دھوکا دیا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمتہ للعالمین تھے۔ انتقال کے وقت اس کے لڑکے کی درخواست پر جو سچا مسلمان تھا‘ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے تیار ہوگئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مخالفت کی اور یاد دلایا کہ فلاں فلاں مواقع پر اس نے ایسے ایسے گستاخانہ الفاظ استعمال کئے تھے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فطری محبت وشفقت کی بناپر اس پر نماز پڑھی۔ اس کے بعد وضاحت کے ساتھ ارشاد باری نازل ہوا کہ وَلاَ تُصَلِّ عَلیٰ اَحَدٍ مِّنہُم مَّاتَ اَبَدًا ( التوبہ: 84 ) یعنی کسی منافق کی آپ کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھیں۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رک گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں اس دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسی جرات نہ کرتا۔ بہرحال اللہ پاک نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کی موافقت فرمائی اور منافقین اور مشرکین کے بارے میں کھلے لفظوں میں جنازہ پڑھانے سے روک دیا گیا۔

آج کل نفاق اعتقادی کا علم نا ممکن ہے۔ کیونکہ وحی والہام کا سلسلہ بند ہے۔ لہٰذا کسی کلمہ گو مسلمان کو جو بظاہر ارکان اسلام کا پابند ہو‘ اعتقادی منافق نہیں کہا جاسکتا۔ اور عملی منافق فاسق کے درجہ میں ہے۔ جس پر نماز جنازہ ادا کی جائے گی۔ واللہ اعلم بالصواب۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : لوگوں کی زبان پر میت کی تعریف ہوتو بہتر ہے

حدیث نمبر : 1367
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا عبد العزيز بن صهيب، قال سمعت أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ يقول مروا بجنازة فأثنوا عليها خيرا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وجبت‏"‏‏. ‏ ثم مروا بأخرى فأثنوا عليها شرا فقال ‏"‏ وجبت‏"‏‏. ‏ فقال عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ ما وجبت قال ‏"‏ هذا أثنيتم عليه خيرا فوجبت له الجنة، وهذا أثنيتم عليه شرا فوجبت له النار، أنتم شهداء الله في الأرض‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا‘ کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا‘ آپ نے فرمایا کہ صحابہ کا گزر ایک جنازہ پر ہوا‘ لوگ اس کی تعریف کرنے لگے ( کہ کیا اچھا آدمی تھا ) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر دوسرے جنازے کا گزر ہوا تو لوگ اس کی برائی کرنے لگے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ اس پر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہوگئی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس میت کی تم لوگوں نے تعریف کی ہے اس کے لیے تو جنت واجب ہوگئی اور جس کی تم نے برائی کی ہے اس کے لیے دوزخ واجب ہوگئی۔ تم لوگ زمین میں اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔

حدیث نمبر : 1368
حدثنا عفان بن مسلم، حدثنا داود بن أبي الفرات، عن عبد الله بن بريدة، عن أبي الأسود، قال قدمت المدينة وقد وقع بها مرض، فجلست إلى عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ فمرت بهم جنازة فأثني على صاحبها خيرا فقال عمر ـ رضى الله عنه ـ وجبت‏.‏ ثم مر بأخرى فأثني على صاحبها خيرا، فقال عمر ـ رضى الله عنه ـ وجبت‏.‏ ثم مر بالثالثة، فأثني على صاحبها شرا فقال وجبت‏.‏ فقال أبو الأسود فقلت وما وجبت يا أمير المؤمنين قال قلت كما قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أيما مسلم شهد له أربعة بخير أدخله الله الجنة‏"‏‏. ‏ فقلنا وثلاثة قال ‏"‏ وثلاثة‏"‏‏. ‏ فقلنا واثنان قال ‏"‏ واثنان‏"‏‏. ‏ ثم لم نسأله عن الواحد‏.‏
ہم سے عفان بن مسلم صفار نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے داؤد بن ابی الفرات نے‘ ان سے عبداللہ بن بریدہ نے‘ ان سے ابوالاسود دئلی نے کہ میں مدینہ حاضر ہوا۔ ان دنوں وہاں ایک بیماری پھیل رہی تھی۔ میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تھا کہ ایک جنازہ سامنے سے گزرا۔ لوگ اس میت کی تعریف کرنے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واجب ہوگئی پھر ایک اور جنازہ گزرا، لوگ اس کی بھی تعریف کرنے لگے۔ اس مرتبہ بھی آپ نے ایسا ہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ پھر تیسرا جنازہ نکلا‘ لوگ اس کی برائی کرنے لگے‘ اور اس مرتبہ بھی آپ نے یہی فرمایا کہ واجب ہوگئی۔ ابوالاسود دئلی نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ امیرالمؤمنین کیا چیز واجب ہوگئی؟ آپ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت وہی کہا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جس مسلمان کی اچھائی پر چار شخص گواہی دے دیں اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا۔ ہم نے کہا اور اگر تین گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ تین پر بھی‘ پھر ہم نے پوچھا اور اگر دو مسلمان گواہی دیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو پر بھی۔ پھر ہم نے یہ نہیں پوچھا کہ اگر ایک مسلمان گواہی دے تو کیا؟

تشریح : باب کا مقصد یہ ہے کہ مرنے والوں نیکیوں کا ذکر خیر کرنا اور اسے نیک لفظوں سے یاد کرنا بہتر ہے۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: فی روایۃ النضربن انس عن ابیہ عند الحاکم کنت قاعدا عندالنبی صلی اللہ علیہ وسلم فمر بجنازۃ فقال ما ہذہ الجنازۃ قالوا جنازۃ فلان الفلانی کان یحب اللہ ورسولہ ویعمل بطاعۃ اللہ ویسعی فیہا وقال ضد ذلک فی التی اثنوا علیہا شرا ففیہ تفسیر ماابہم من الخیر والشر فی روایۃ عبدالعزیز والحاکم ایضا من حدیث جابر فقال بعضہم لنعم المرالقد کان عفیفا مسلما وفیہ ایضا فقال بعضہم بئس المرا کان ان کان لفظا غلیظا ( فتح الباری ) یعنی مسند حاکم میں نضربن انس عن ابیہ کی روایت میں یوں ہے کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ وہاں سے گزارا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلان بن فلان کا ہے جو اللہ اور رسول سے محبت رکھتا اور طاعت الٰہی میں عمل کرتا اور کوشاں رہتا تھا اور جس پر برائی کی گئی اس کا ذکر اس کے برعکس کیا گیا۔ پس اس روایت میں ابہام خیرو شر کی تفصیل مذکور ہے اور حاکم میں حدیث جابر بھی یوں ہے کہ بعض لوگوں نے کہا کہ یہ شخص بہت اچھا پاک دامن مسلمان تھا اور دوسرے کے لیے کہا گیا کہ وہ برا آدمی اور بداخلاق سخت کلامی کرنے والا تھا۔

خلاصہ یہ کہ مرنے والے کے متعلق اہل ایمان نیک لوگوں کی شہادت جس طور بھی ہو وہ بڑا وزن رکھتی ہے لفظ انتم شہداءاللہ فی الارض میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ خود قرآن مجید میں بھی یہ مضمون ان لفظوں میں مذکور ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلنٰکُم اُمَّۃً وَّسَطاً لِّتَکُونُوا شُہَدَائَ عَلَی النَّاسِ ( البقرۃ:143 ) ہم نے تم کو درمیانی امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بن جاؤ۔ شہادت کی ایک صورت یہ بھی ہے جو یہاں حدیث میں مذکور ہے۔
 
Top