Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجنائز
باب : اذخر اور سوکھی گھاس قبر میں بچھانا
حدیث نمبر : 1349
حدثنا محمد بن عبد الله بن حوشب، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " حرم الله مكة، فلم تحل لأحد قبلي ولا لأحد بعدي، أحلت لي ساعة من نهار، لا يختلى خلاها، ولا يعضد شجرها، ولا ينفر صيدها، ولا تلتقط لقطتها إلا لمعرف". فقال العباس ـ رضى الله عنه ـ إلا الإذخر لصاغتنا وقبورنا. فقال " إلا الإذخر". وقال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم " لقبورنا وبيوتنا". وقال أبان بن صالح، عن الحسن بن مسلم، عن صفية بنت شيبة: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم: مثله. وقال مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنهما: لقينهم وبيوتهم.
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا۔ کہا ہم سے خالد حذاءنے‘ ان سے عکرمہ نے‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم کیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے ( یہاں قتل وخون ) حلال تھا اور نہ میرے بعد ہوگا اور میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے لیے ( فتح مکہ کے دن ) حلال ہوا تھا۔ پس نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے نہ اس کے درخت قلم کئے جائیں۔ نہ یہاں کے جانوروں کو ( شکار کے لیے ) بھگایا جائے اور سوا اس شخص کے جو اعلان کرنا چاہتا ہو ( کہ یہ گری ہوئی چیز کس کی ہے ) کسی کے لیے وہاں سے کوئی گری ہوئی چیز اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا “ لیکن اس سے اذخر کا استثناءکردیجئے کہ یہ ہمارے سناروں کے اور ہماری قبروں میں کام آتی ہے ”۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مگر اذخر کی اجازت ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے۔ “ ہماری قبروں اور گھروں کے لیے۔ ” اور ابان بن صالح نے بیان کیا‘ ان سے حسن بن مسلم نے‘ ان سے صفیہ بنت شیبہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا تھا۔ اور مجاہد نے طاؤس کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ الفاظ بیان کئے۔ ہمارے قین ( لوہاروں ) اور گھروں کے لیے ( اذخراکھاڑنا حرم سے ) جائز کردیجئے۔
پس آپ نے اذخرنامی گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی۔
تشریح : اس حدیث سے جہاں قبر میں اذخر یا کسی سوکھی گھاس کا ڈالنا ثابت ہوا۔ وہاں حرم مکۃ المکرمہ کا بھی اثبات ہوا۔ اللہ نے شہر مکہ کو امن والا شہر فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اسے بلد امین کہا گیا ہے۔ یعنی وہ شہر جہاں امن ہی امن ہے‘ وہاں نہ کسی کا قتل جائز ہے نہ کسی جانور کا مارنا جائز حتیٰ کہ وہاں کی گھاس تک بھی اکھاڑنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ امن والا شہر ہے جسے خدا نے روز ازل ہی سے بلد الامین قرار دیا ہے۔
باب : اذخر اور سوکھی گھاس قبر میں بچھانا
حدیث نمبر : 1349
حدثنا محمد بن عبد الله بن حوشب، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " حرم الله مكة، فلم تحل لأحد قبلي ولا لأحد بعدي، أحلت لي ساعة من نهار، لا يختلى خلاها، ولا يعضد شجرها، ولا ينفر صيدها، ولا تلتقط لقطتها إلا لمعرف". فقال العباس ـ رضى الله عنه ـ إلا الإذخر لصاغتنا وقبورنا. فقال " إلا الإذخر". وقال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم " لقبورنا وبيوتنا". وقال أبان بن صالح، عن الحسن بن مسلم، عن صفية بنت شيبة: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم: مثله. وقال مجاهد، عن طاوس، عن ابن عباس رضي الله عنهما: لقينهم وبيوتهم.
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا‘ کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا۔ کہا ہم سے خالد حذاءنے‘ ان سے عکرمہ نے‘ ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرم کیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے ( یہاں قتل وخون ) حلال تھا اور نہ میرے بعد ہوگا اور میرے لیے بھی تھوڑی دیر کے لیے ( فتح مکہ کے دن ) حلال ہوا تھا۔ پس نہ اس کی گھاس اکھاڑی جائے نہ اس کے درخت قلم کئے جائیں۔ نہ یہاں کے جانوروں کو ( شکار کے لیے ) بھگایا جائے اور سوا اس شخص کے جو اعلان کرنا چاہتا ہو ( کہ یہ گری ہوئی چیز کس کی ہے ) کسی کے لیے وہاں سے کوئی گری ہوئی چیز اٹھانی جائز نہیں۔ اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کہا “ لیکن اس سے اذخر کا استثناءکردیجئے کہ یہ ہمارے سناروں کے اور ہماری قبروں میں کام آتی ہے ”۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مگر اذخر کی اجازت ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے۔ “ ہماری قبروں اور گھروں کے لیے۔ ” اور ابان بن صالح نے بیان کیا‘ ان سے حسن بن مسلم نے‘ ان سے صفیہ بنت شیبہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح سنا تھا۔ اور مجاہد نے طاؤس کے واسطہ سے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ الفاظ بیان کئے۔ ہمارے قین ( لوہاروں ) اور گھروں کے لیے ( اذخراکھاڑنا حرم سے ) جائز کردیجئے۔
پس آپ نے اذخرنامی گھاس اکھاڑنے کی اجازت دے دی۔
تشریح : اس حدیث سے جہاں قبر میں اذخر یا کسی سوکھی گھاس کا ڈالنا ثابت ہوا۔ وہاں حرم مکۃ المکرمہ کا بھی اثبات ہوا۔ اللہ نے شہر مکہ کو امن والا شہر فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں اسے بلد امین کہا گیا ہے۔ یعنی وہ شہر جہاں امن ہی امن ہے‘ وہاں نہ کسی کا قتل جائز ہے نہ کسی جانور کا مارنا جائز حتیٰ کہ وہاں کی گھاس تک بھی اکھاڑنے کی اجازت نہیں۔ یہ وہ امن والا شہر ہے جسے خدا نے روز ازل ہی سے بلد الامین قرار دیا ہے۔