• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب :۔۔۔

حدیث نمبر : 882
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، أن عمر ـ رضى الله عنه ـ بينما هو يخطب يوم الجمعة إذ دخل رجل فقال عمر لم تحتبسون عن الصلاة فقال الرجل ما هو إلا سمعت النداء توضأت‏.‏ فقال ألم تسمعوا النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا راح أحدكم إلى الجمعة فليغتسل‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہاکہ ہم سے شیبان بن عبد الرحمن نے یحیٰ بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک بزرگ ( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) داخل ہوئے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ لوگ نماز کے لیے آنے میں کیوں دیر کرتے ہیں۔ ( اول وقت کیوں نہیں آتے ) آنے والے بزرگ نے فرمایا کہ دیر صرف اتنی ہوئی کہ اذان سنتے ہی میں نے وضو کیا ( اور پھر حاضر ہوا ) آپ نے فرمایا کہ کیا آپ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث نہیں سنی ہے کہ جب کوئی جمعہ کے لیے جائے تو غسل کر لینا چاہیے۔

تشریح : اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عثمان ایسے جلیل الشان صحابی پر خفا ہوئے اگر جمعہ کی نماز فضیلت والی نہ ہوتی تو خفگی کی ضرورت کیا تھی، پس جمعہ کی نماز کی فضیلت ثابت ہوئی اور یہی ترجمہ باب ہے۔ بعضوں نے کہا کہ اور نمازوں کے لیے قرآن شریف میں یہ حکم ہوا اِذَاقُمتُم اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغسِلُوا وَجُوھَکُم ( المائدۃ:6 ) یعنی وضو کرو اور جمعہ کی نماز کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کرنے کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز کا درجہ اور نمازوں سے بڑھ کرہے اور دوسری نمازوں پر اس کی فضیلت ثابت ہوئی اور یہی ترجمہ باب ہے ( وحیدی )

یہاں ادنی تامل سے معلوم ہوسکتاہے کہ حضرت سید المحدثین امام بخاری رحمہ اللہ کو اللہ پاک نے حدیث نبوی کے مطالب پر کس قدر گہری نظر عطا فرمائی تھی۔ اسی لیے حضرت علامہ عبدالقدوس بن ہمام اپنے چند مشائخ سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی کتاب کے فقہی تراجم وابواب بھی مسجد نبوی کے اس حصہ میں بیٹھ کر لکھے ہیں جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی ایک کیاری بتلایا ہے۔ اس جانکاہی اور ریاضت کے ساتھ سولہ سال کی مدت میں یہ عدیم النظیر کتاب مکمل ہوئی جس کا لقب بغیر کسی تردد کے اصح الکتب بعد کتاب اللہ قرارپایا امت کے لاکھوں کروڑوں محدثین اور علماءنے سخت سے سخت کسوٹی پر اسے کسا مگر جو لقب اس تصنیف کا مشہور ہو چکا تھا وہ پتھر کی لکیر تھا نہ مٹناتھا نہ مٹا۔ اس حقیقت باہرہ کے باوجود ان سطحی ناقدین زمانہ پر سخت افسوس ہے جو آج قلم ہاتھ میں لے کر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کی عدیم المثال کتاب پر تنقید کرنے کے لیے جسارت کرتے اور اپنی کم عقلی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ایسے حضرات دیوبند سے متعلق ہوں یا کسی اور جگہ سے، ان پر واضح ہونا چاہیے کہ ان کی یہ سعی لا حاصل حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اور ان کی جلیل القدر کتاب کی ذرہ برابر بھی شان نہ گھٹاسکے گی۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو کوئی آسمان کی طرف تھوکے اس کا تھوک الٹا اس کے منہ پر آئے گا کہ قانون قدرت یہی ہے۔ بخاری شریف کی علمی خصوصیات لکھنے کے لیے ایک مستقل تصنیف اور ایک روشن ترین فاضلانہ دماغ کی ضرورت ہے۔ یہ کتاب صرف احادیث صحیحہ ہی کا مجموعہ نہیں بلکہ اصول وعقائد، عبادات ومعاملات، غزوات وسیر، اسلامی معاشرت وتمدن، مسائل سیاست وسلطنت کی ایک جامع انسائیکلوپیڈیا ہے۔ آج کے نوجوان روشن دماغ مسلمانوں کو اس کتاب سے جو کچھ تشفی حاصل ہو سکتی ہے وہ کسی دوسری جگہ نہ ملے گی۔ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بڑے لوگوں کو چا ہیے کہ نیک کاموں کا حکم فرماتے رہیں اور اس بارے میں کسی کا لحاظ نہ کریں۔ جن کو نصیحت کی جائے ان کا بھی فرض ہے کہ تسلیم کرنے میں کسی قسم کا دریغ نہ کریں اور بلاچوں وچرانیک کاموں کے لیے سرتسلیم خم کردیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دانائی دیکھئے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا جواب سنتے ہی تاڑ گئے کہ آپ بغیر غسل کے جمعہ کے لیے آگئے ہیں۔اس سے غسل جمعہ کی اہمیت بھی ثابت ہوئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کی نماز کے لیے بالوں میں تیل کا استعمال

حدیث نمبر : 883
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، عن سعيد المقبري، قال أخبرني أبي، عن ابن وديعة، عن سلمان الفارسي، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يغتسل رجل يوم الجمعة، ويتطهر ما استطاع من طهر، ويدهن من دهنه، أو يمس من طيب بيته ثم يخرج، فلا يفرق بين اثنين، ثم يصلي ما كتب له، ثم ينصت إذا تكلم الإمام، إلا غفر له ما بينه وبين الجمعة الأخرى‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے سعید مقبری سے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ ابو سعید مقبری نے عبد اللہ بن ودیعہ سے خبر دی، ان سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور خوب اچھی طرح سے پاکی حاصل کرے اور تیل استعمال کرے یا گھر میں جو خوشبو میسر ہو استعمال کرے پھر نماز جمعہ کے لیے نکلے اور مسجد میں پہنچ کر دو آدمیوں کے درمیان نہ گھسے، پھر جتنی ہو سکے نفل نماز پڑھے اور جب امام خطبہ شروع کرے تو خاموش سنتا رہے تو اس کے اس جمعہ سے لیکر دوسرے جمعہ تک سارے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔

معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن ایک سچے مسلمان کے لیے ظاہری وباطنی ہر قسم کی مکمل پاکی حاصل کرنے کا دن ہے۔

حدیث نمبر : 884
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال طاوس قلت لابن عباس ذكروا أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ اغتسلوا يوم الجمعة واغسلوا رءوسكم وإن لم تكونوا جنبا، وأصيبوا من الطيب‏"‏‏. ‏ قال ابن عباس أما الغسل فنعم، وأما الطيب فلا أدري‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی کہ طاؤس بن کیسان نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن اگرچہ جنابت نہ لیکن غسل کرو اور اپنے سر دھویا کر و اور خوشبو لگایا کرو۔ ا بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ غسل کا حکم تو ٹھیک ہے لیکن خوشبو کے متعلق مجھے علم نہیں۔

حدیث نمبر : 885
حدثنا إبراهيم بن موسى، قال أخبرنا هشام، أن ابن جريج، أخبرهم قال أخبرني إبراهيم بن ميسرة، عن طاوس، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أنه ذكر قول النبي صلى الله عليه وسلم في الغسل يوم الجمعة فقلت لابن عباس أيمس طيبا أو دهنا إن كان عند أهله فقال لا أعلمه‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ہشام بن یوسف نے خبر دی، کہ انہیں ا بن جریج نے خبر دی انہوں نے کہا کہ مجھے ابراہیم بن میسرہ نے طاؤس سے خبر دی اور انہیں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، آپ نے جمعہ کے دن غسل کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ کیا تیل اور خوشبو کا استعمال بھی ضروری ہے؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔

تیل اور خوشبو کے متعلق حضرت سلمان فارسی کی حدیث اوپر ذکر ہوئی ہے غالباًحضرت ابن عباس کو اس کا علم نہ ہوسکا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے دن عمدہ سے عمدہ کپڑے پہنے جو اس کو مل سکے

حدیث نمبر : 886
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، أن عمر بن الخطاب، رأى حلة سيراء عند باب المسجد فقال يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما يلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة‏"‏‏. ‏ ثم جاءت رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل، فأعطى عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ منها حلة فقال عمر يا رسول الله، كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إني لم أكسكها لتلبسها‏"‏‏. ‏ فكساها عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ أخا له بمكة مشركا‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے نافع سے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ( ریشم کا ) دھاری دار جوڑا مسجد نبوی کے دروازے پر بکتا دیکھا تو کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! بہتر ہو اگر آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور وفود جب آپ کے پاس آئیں تو ان کی ملاقات کے لیے آپ اسے پہنا کریں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے کچھ جوڑے آئے تو اس میں سے ایک جوڑا آپ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا۔ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ مجھے یہ جوڑا پہنا رہے ہیں حالانکہ اس سے پہلے عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے کچھ ایسا فرمایا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں خود پہننے کے لیے نہیں دیا ہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو پہنا دیا جو مکے میں رہتا تھا۔

تشریح : عطارد بن حاجب بن زرارہ تمیمی رضی اللہ عنہ کپڑے کے بیوپاری یہ چادریں فروخت کر رہے تھے، اس لیے اس کو ان کی طرف منسوب کیاگیا یہ وفد بنی تمیم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ ترجمہ باب یہاں سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن عمدہ کپڑے پہننے کی درخواست پیش کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جوڑے کو اس لیے ناپسندفرمایا کہ وہ ریشمی تھا اور مرد کے لیے خالص ریشم کا استعمال کرنا حرام ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشرک بھائی کو اسے بطور ہدیہ دے دیا اس سے معلوم ہوا کہ کافر مشرک جب تک اسلام قبول نہ کریں وہ فروعات اسلام کے مکلف نہیں ہوتے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے مشرک کافروں رشتہ داروں کے ساتھ احسان سلوک کرنا منع نہیں ہے بلکہ ممکن ہو تو زیادہ سے زیادہ کرنا چاہیے تاکہ ان کو اسلام میں رغبت پیدا ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے دن مسواک کرنا

وقال أبو سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم يستن‏.
اور ابوسعید رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے کہ مسواک کرنی چاہیے۔

حدیث نمبر : 887
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لولا أن أشق على أمتي ـ أو على الناس ـ لأمرتهم بالسواك مع كل صلاة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے ابو الزناد سے خبر دی، ان سے اعرج نے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مجھے اپنی امت یا لوگوں کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے لیے ان کو مسواک کا حکم دے دیتا۔

تشریح : حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں بذیل احادیث مرویہ متعلق مسواک فرماتے ہیں: اقول معناہ لولا خوف الحرج لجعلت السواک شرطا للصلوۃ کالوضوءوقد ورد بھذا الا سلوب احادیث کثیرۃ جدا وھی دلائل واضحۃ علی ان اجتھاد النبی صلی اللہ علیہوسلم مدخلا فی الحدود الشرعیۃ وانھا منوطۃ بالمقاصد وان رفع الحرج من الاصول التی بنی علیہ الشرائع قول الراوی فی صفۃ تسوکہ صلی اللہ علیہ وسلم اع اع کانہ یتھوع اقول ینبغی للانسان ان یبلغ بالسواک اقاصی الفم فیخرج الحلق والصدر ولاستقصاءفی السواک یذھب بالقلاع ویصفی الصوت ویطیب النکھۃ الخ۔ ( حجۃ اللہ البالغۃ ص:449,450 )
یعنی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ جانتا تو ان کو ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا، اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ اگر تنگی کا ڈر نہ ہوتا تو مسواک کر نے کو وضو کی طرح نماز کی صحت کے لیے شرط قرار دے دیتا اور اس طرح کی بہت سی احادیث وارد ہیں جو اس امر پر صاف دلالت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اجتہاد کو حدود شرعیہ میں دخل ہے اور حدود شرعیہ مقاصد پر مبنی ہیں اور امت سے تنگی کا رفع کرنا من جملہ ان اصول کے ہے جن پر احکام شرعیہ مبنی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسواک کرنے کی کیفیت کے متعلق جو راوی کا بیان ہے کہ آپ مسواک کرتے وقت اع اع کی آواز نکالتے جیسے کوئی قے کرتے وقت کرتا ہے، اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ انسان کو مناسب ہے کہ اچھی طرح سے منہ کے اندر، مسواک کرے اور حلق اور سینہ کا بلغم نکالے اور منہ میں خوب اندرتک مسواک کرنے سے مرض قلاع دور ہو جاتا ہے اور آواز صاف ہو جاتی ہے اورمنہ خوشبو دار ہو جاتا ہے۔ قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم عشر من الفطرۃ قص الشوارب واعفاءاللحیۃ والسواک الخ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دس باتیں فطرت میں سے ہیں مونچھوں کا ترشوانا اور داڑھی کا بڑھانا اور مسواک کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا اور ناخن کتروانا اور انگلیوں کے جوڑوں کا دھونا اور بغل کے بال اکھاڑنا اور زیر ناف کے بال صاف کرنا اور پانی سے استنجا کرنا۔ راوی کہتا ہے کہ دسویں بات مجھ کو یاد نہیں رہی وہ غالباً کلی کرنا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ طہارتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے منقول ہیں اور تمام امم حنیفیہ میں برابرجارہی ہیں اور ان کے دلوں میں پیوست ہیں اسی وجہ سے ان کا نام فطرت رکھا گیا ہے ( حجۃ اللہ البالغہ، ج:1ص: 447 )

حدیث نمبر : 888
حدثنا أبو معمر، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا شعيب بن الحبحاب، حدثنا أنس، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أكثرت عليكم في السواك‏"‏‏. ‏
ہم سے ابومعمر عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد الوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعیب بن حبحاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سے مسواک کے بارے میں بہت کچھ کہہ چکا ہوں۔

حدیث نمبر : 889
حدثنا محمد بن كثير، قال أخبرنا سفيان، عن منصور، وحصين، عن أبي وائل، عن حذيفة، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا قام من الليل يشوص فاه‏.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہ ہمیں سفیان ثوری نے منصو بن معمر اور حصین بن عبد الرحمن سے خبر دی، انہیں ابووائل نے، انہیں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو منہ کو مسواک سے خوب صاف کر تے۔

تشریح : ان جملہ احادیث سے حضرت امام رحمہ اللہ نے یہ نکالا کہ جمعہ کی نماز کے لیے بھی مسواک کرنا چاہیے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر نماز کے لیے مسواک کی تاکید فرمائی تو جمعہ کی نماز کے لیے بھی اس کی تاکید ثابت ہوئی۔ اس لیے بھی کہ جمعہ میں زیادہ لوگوں کا اجتماع ہوتا ہے، اس لیے منہ کا صاف کرنا ضروری ہے تاکہ منہ کی بدبو سے لوگوں کو تکلیف نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جو شخص دوسرے کی مسواک استعمال کرے

حدیث نمبر : 890
حدثنا إسماعيل، قال حدثني سليمان بن بلال، قال قال هشام بن عروة أخبرني أبي، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت دخل عبد الرحمن بن أبي بكر، ومعه سواك يستن به، فنظر إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت له أعطني هذا السواك يا عبد الرحمن‏.‏ فأعطانيه فقصمته ثم مضغته، فأعطيته رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستن به وهو مستسند إلى صدري‏.‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سلیمان بن ہلال نے بیان کیا کہ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میرے باپ عروہ بن زبیر نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے خبر دی، انہوں نے کہا کہ عبد الرحمن بن ابی بکر ( ایک مرتبہ ) آئے۔ ان کے ہاتھ میں مسواک تھی جسے وہ استعمال کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری کی حالت میں ان سے کہا عبدالرحمن یہ مسواک مجھے دے دے۔ انہوں نے دے دی۔ میں نے اس کے سرے کو پہلے توڑا یعنی اتنی لکڑی نکال دی جو عبدالرحمن اپنے منہ سے لگایا کرتے تھے، پھر اسے چبا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دانت صاف کئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے سینے پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔

تشریح : اس حدیث سے ثابت ہوا کہ دوسرے کی مسواک اس سے لے کر استعمال کی جاسکتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دوسرا آدمی مسواک کو اپنے منہ سے چبا کر اپنے بھائی کو دے سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ بوقت ضرورت اپنے کسی بھائی سے جن پر ہم کو بھروسہ واعتماد ہو کوئی ضرورت کی چیز اس سے طلب کر سکتے ہیں۔ تعاون باہمی کا یہی مفہوم ہے۔ اس حدیث سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت بھی ثابت ہوئی کہ مرض الموت میں ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی خدمات کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ خدا کی مار ان بدشعاروں پر جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان اقدس میں کلمات گستاخی استعمال کر کے اپنی عاقبت خراب کرتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے دن نماز فجر میں کون سی سورہ پڑھی جائے

حدیث نمبر : 891
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا سفيان، عن سعد بن إبراهيم، عن عبد الرحمن ـ هو ابن هرمز ـ عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يقرأ في الجمعة في صلاة الفجر ‏{‏الم * تنزيل‏}‏ السجدة و‏{‏هل أتى على الإنسان‏}‏
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے سعد بن ابراہیم کے واسطے سے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے، ان سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں الٓم تنزیل اور ھل اتی علی الانسان پڑھا کرتے تھے۔

تشریح : طبرانی کی روایت ہے کہ آپ ہمیشہ ایسا کیا کرتے تھے۔ ان سورتوں میں انسان کی پیدائش اور قیامت وغیرہ کا ذکر ہے اور یہ جمعہ کے دن ہی واقع ہوگی۔ اس حدیث سے مالکیہ کا رد ہوا جو نماز میں سجدہ والی سورت پڑھنا مکروہ جانتے ہیں۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ آپ نے ظہر کی نماز میں سجدے کی سورت پڑھی اور سجدہ کیا ( وحید ی ) علامہ شوکانی اس بارے میں کئی احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ وھذا الاحادیث فیھا مشروعیۃ قراۃ تنزیل السجدۃ وھل اتی علی الانسان قال العراقی وممن کان یفعلہ من الصحابۃ عبد اللہ بن عباس ومن التابعین ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف وھو مذھب الشافعی واحمد واصحاب الاحادیث ( نیل الاوطار ) یعنی ان احادیث سے ثابت ہوا کہ جمعہ کے دن فجر کی نمازکی پہلی رکعت میں الم تنزیل سجدہ اور دوسری میں ھل اتی علی الانسان پڑھنا مشروع ہے، صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ بن عباس اور تابعین میں سے ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف کا یہی عمل تھا اور امام شافعی اور امام احمد اور اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔

علامہ قسطلانی فرماتے ہیں والتعبیر بکان یشعر بمواظبتہ علیہ الصلوۃ والسلام علی القراۃ بھما فیھا یعنی حدیث مذکور میں لفظ کان بتلا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن فجر کی نماز میں ان سورتوں پر مواظبت یعنی ہمیشگی فرمائی ہے۔ اگر چہ کچھ علماءمواظبت کو نہیں مانتے مگر طبرانی میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے یدیم بذلک لفظ موجود ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عمل پر مداومت فرمائی ( قسطلانی ) کچھ لوگوں نے دعوی کیا تھا کہ اہل مدینہ نے یہ عمل ترک کر دیا تھا، اس کا جواب علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان لفظوں میں دیا ہے واما دعواہ ان الناس ترکوا العمل بہ فباطلۃ لان اکثر اہل العلم من الصحابۃ والتابعین قد قالوا بہ کما نقلہ ابن المنذر وغیرہ حتی انہ ثابت عن ابراہیم ابن عرف والاسعد وھو من کبار التابعین من اہل المدینۃ انہ ام الناس بالمدینۃ بھما فی الفجر یوم الجمعۃ اخرجہ ابن ابی شیبۃباسناد صحیح الخ ( فتح الباری ) یعنی یہ دعوی کہ لوگوں نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تھا باطل ہے۔ اس لیے کہ اکثر اہل علم صحابہ وتابعین اس کے قائل ہیں جیسا کہ ابن منذر وغیرہ نے نقل کیا ہے حتی کہ ابراہیم ابن عوف سے بھی یہ ثابت ہے جو مدینہ کے کبار تابعین سے ہیں کہ انہوں نے جمعہ کے دن لوگوں کو فجر کی نماز پڑھائی اور ان ہی دو سورتوں کو پڑھا۔ ابن ابی شیبہ نے اسے صحیح سند سے روایت کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : گاؤں اور شہر دونوں جگہ جمعہ درست ہے

حدیث نمبر : 892
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا أبو عامر العقدي، قال حدثنا إبراهيم بن طهمان، عن أبي جمرة الضبعي، عن ابن عباس، أنه قال إن أول جمعة جمعت بعد جمعة في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسجد عبد القيس بجواثى من البحرين‏.‏
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے ابو جمرہ نضر بن عبد الرحمن ضبعی نے، ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ بن و عبدالقیس کی مسجد میں ہوا جو بحرین کے ملک جواثی میں تھی۔

حدیث نمبر : 893
حدثنا بشر بن محمد، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا يونس، عن الزهري، قال أخبرنا سالم بن عبد الله، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ كلكم راع‏"‏‏. ‏ وزاد الليث قال يونس كتب رزيق بن حكيم إلى ابن شهاب ـ وأنا معه يومئذ بوادي القرى ـ هل ترى أن أجمع‏.‏ ورزيق عامل على أرض يعملها، وفيها جماعة من السودان وغيرهم، ورزيق يومئذ على أيلة، فكتب ابن شهاب ـ وأنا أسمع ـ يأمره أن يجمع، يخبره أن سالما حدثه أن عبد الله بن عمر يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ كلكم راع، وكلكم مسئول عن رعيته، الإمام راع ومسئول عن رعيته، والرجل راع في أهله وهو مسئول عن رعيته، والمرأة راعية في بيت زوجها ومسئولة عن رعيتها، والخادم راع في مال سيده ومسئول عن رعيته ـ قال وحسبت أن قد قال ـ والرجل راع في مال أبيه ومسئول عن رعيته وكلكم راع ومسئول عن رعيته‏"‏‏. ‏
ہم سے بشر بن محمد مروزی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا کہ ہمیں یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہیں سالم بن عبداللہ نے ا بن عمر سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم میں سے ہرشخص نگہبان ہے اور لیث نے اس میں یہ زیادتی کی کہ یونس نے بیان کیا کہ رزیق بن حکیم نے ا بن شہاب کو لکھا، ان دنوں میں بھی وادی القریٰ میں ا بن شہاب کے پاس تھا کہ کیا میں جمعہ پڑھا سکتا ہوں۔ رزیق ( ایلہ کے اطراف میں ) ایک زمین کاشت کروا رہے تھے۔ وہاں حبشہ وغیرہ کے کچھ لوگ موجود تھے۔ اس زمانہ میں رزیق ایلہ میں ( حضرت عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے ) حاکم تھے۔ ا بن شہاب رحمہ اللہ نے انہیں لکھوایا، میں وہیں سن رہا تھا کہ رزیق جمعہ پڑھائیں۔ ا بن شہاب رزیق کو یہ خبر دے رہے تھے کہ سالم نے ان سے حدیث بیان کی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں سے ہر ایک نگراں ہے اور اس کے ماتحتوں کے متعلق اس سے سوال ہوگا۔ امام نگراں ہے اور اس سے سوال اس کی رعایا کے بارے میں ہوگا۔ انسان اپنے گھر کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ انسان اپنے باپ کے مال کا نگراں ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا اور تم میں سے ہر شخص نگراں ہے اور سب سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔

تشریح : مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کا رد فرمایا ہے جو جمعہ کی صحت کے لیے شہر اور حاکم وغیرہ وغیرہ کی قیود لگاتے ہیں اور گاؤں میں جمعہ کے لیے انکار کرتے ہیں۔ حضرت مولانا وحید الزماں صاحب شارح بخاری فرماتے ہیں کہ اس سے امام بخاری نے ان لوگوں کا رد کیا جو جمعہ کے لیے شہر کی قید کرتے ہیں۔ اہل حدیث کا مذہب یہ ہے کہ جمعہ کی شرطیں جو حنفیوں نے لگائی ہیں وہ سب بے دلیل ہیں اور جمعہ دوسری نمازوں کی طرح ہے صرف جماعت اس میں شرط ہے یعنی امام کے سوا ایک آدمی اور ہونا اور نماز سے پہلے دو خطبے پڑھنا سنت ہے باقی کوئی شرط نہیں ہے۔ دارالحرب اور کافروں کے ملک میں بھی حضرت امام نے باب میں لفظ قریٰ اور مدن استعمال فرمایا ہے قریٰ قریۃ کی جمع ہے جو عموماً گاؤں ہی پربولا جاتا ہے اور مدن مدینہ کی جمع ہے جس کا اطلاق شہر پر ہوتا ہے۔

علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں فی ھذہ الترجمۃ اشارۃ الی خلاف من خص الجمعۃ بالمدن دون القریٰ یعنی باب میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ان لوگوں کے خلاف اشارہ فرمایا ہے جو جمعہ کو شہروں کے ساتھ خاص کر کے دیہات میں اقامت جمعہ کا انکار کرتے ہیں۔ آپ نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ عبد القیس نامی قبیلہ کی مسجد میں قائم کیا گیا جو جواثی نامی گاؤں میں تھی اور وہ گاؤں علاقہ بحرین میں واقع تھا۔ ظاہر ہے کہ یہ جمعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت ہی سے قائم کیا گیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کی مجال نہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیروہ کوئی کام کر سکیں۔ جواثی اس وقت ایک گاؤں تھا۔ مگر حنفی حضرات فرماتے ہیں کہ وہ شہر تھا حالانکہ حدیث مذکورسے اس کا گاؤں ہونا ظاہر ہے جیسا کہ وکیع کی روایت میں صاف موجود ہے۔ انھا قریۃ من قریٰ البحرین یعنی جواثی بحرین کے دیہا ت میں ایک گاؤں تھا۔ بعض روایتوں میں قریٰ عبدالقیس بھی آیا ہے کہ وہ قبیلہ عبد القیس کا ایک گاؤں تھا ( قسطلانی )

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ممکن ہے بعد میں اس کی آبادی بڑھ گئی ہو اوروہ شہر ہوگیا ہو مگر اقامت جمعہ کے وقت وہ گاؤں ہی تھا۔ حضرت امام رحمہ اللہ نے مزید وضاحت کے لیے حضرت ابن شہاب کا فرمان ذکر فرمایا کہ انہوں نے رزیق نامی ایک بزرگ کو جو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی طرف سے ایلہ کے گورنر تھے اور ایک گاؤں میں جہاں ان کی زمینداری تھی، سکونت پذیر تھے ان کو اس گاؤں میں جمعہ قائم کرنے کے لیے اجازت نامہ تحریر فرمایا۔
امام قسطلانی فرماتے ہیں واملاہ ابن شھاب من کاتبہ فسمعہ یونس منہ یعنی ابن شہاب زہری نے اپنے کاتب سے اس اجازت نامے کو لکھوایا اور یونس نے ان سے اس وقت اسے سنا۔ اور ابن شہاب نے یہ حدیث پیش کر کے ان کو بتلایا کہ وہ گاؤں اور دیہات ہی میں ہے لیکن ان کو جمعہ پڑھنا چاہیے کیونکہ وہ اپنی رعایا کے جو وہاں رہتی ہے، اس طرح اپنے نوکر چاکروں کے نگہبان ہیں جیسے بادشاہ نگہبان ہوتا ہے تو بادشاہ کی طرح ان کو بھی احکام شرعیہ قائم کرناچاہیے جن میں سے ایک اقامت جمعہ بھی ہے۔ ابن شہاب زہری وادی قری میں تھے جو مدینہ منورہ کے قریب ایک گاؤں ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 7 ھ بماہ جمادی الاخریٰ میں فتح کیاتھا۔ فتح الباری میں ہے کہ زین بن منیر نے کہا کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعہ بادشاہ کی اجازت کے بغیر بھی منعقد ہوجاتا ہے۔ جب کوئی جمعہ قائم کے نے کے قابل امام خطیب وہاں ہو اور موجود ہو اور اس سے گاؤں میں بھی جمعہ کا صحیح ہونا ثابت ہوا۔

گاؤں میں جمعہ کی صحت کے لیے سب سے بڑی دلیل قرآن پاک کی آیت کریمہ ہے جس میں فرمایا یٰا ٓیُّھَا الَّذِینَ اٰٰمَنُوا اِذَا نُودِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِن یَومِ الجُمُعَۃِ فَاسعَوا اِلیٰ ذِکرِ اللّٰہِ وَذَرُوا البَیعَ الآیہ ( الجمعہ: 9 ) یعنی اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز جمعہ کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کو یاد کرنے کے لیے چلو اور خرید وفروخت چھوڑ دو۔ اس آیت کریمہ میں “ایمان والے” عام ہیں وہ شہری ہوں یا دیہاتی سب اس میں داخل ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الجمعۃ حق واجب علی کل مسلم فی جماعۃ الااربعۃ عبد مملوک اوامراۃ اوصبی او مریض ( رواہ ابو داؤد والحاکم ) یعنی جمعہ ہر مسلمان پر حق اور واجب ہے کہ وہ جماعت کے ساتھ ادا کرے مگر غلام، عورت،بچے اور مریض پر جمعہ فرض نہیں۔ ایک اور حدیث میں ہے :من کان یومن باللہ والیوم الاخر فعلیہ الجمعۃ الامریض اومسافر او امراۃ اوصبی او مملوک فمن استغنی بلھو او تجارۃ اسغنی اللہ عنہ واللہ غنی حمید ( رواہ الدارقطنی ) یعنی جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے اس پر جمعہ فرض ہے مگر مریض مسافر غلام اوربچے اور عورت پر جمعہ فرض نہیں ہے پس جو کوئی کھیل تماشہ یا تجارت کی وجہ سے بے پروائی کرے تو اللہ پاک بھی اس سے بے پروائی کرے گا کیونکہ اللہ بے نیاز اور محمود ہے۔

آیت شریفہ میں خرید وفروخت کے ذکر سے بعض دماغوں نے جمعہ کے لیے شہر ہونا نکالا ہے حالانکہ یہ استدلال بالکل غلط ہے۔ آیت شریفہ میں خرید وفروخت کا اس لیے ذکر آیا کہ نزول آیت کے وقت ایسا واقعہ پیش آیا تھا کہ مسلمان ایک تجارتی قافلہ کے آ جانے سے جمعہ چھوڑ کر خرید وفروخت کے لیے دوڑ پڑے تھے۔ اس لیے آیت میں خرید وفروخت چھوڑ نے کا ذکر آ گیا اور اگر اس کو اسی طرح مان لیا جائے تو کون سا گاؤں آج ایسا ہے جہاں کم وبیش خرید وفروخت کا سلسلہ جاری نہ رہتا ہو پس اس آیت سے جمعہ کے لیے شہر کا خاص کرنا بالکل ایسا ہے جیسا کہ کوئی ڈوبنے والا تنکے کا سہارا حاصل کرے۔
ایک حدیث میں صاف گاؤں کا لفظ موجود ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ فیھا امام وان لم یکونوا الاربعۃ رواہ الدارقطنی ص: 26 یعنی ہر ایسے گاؤں والوں پر جس میں نماز پڑھا نے والا امام موجود ہو جمعہ واجب ہے اگرچہ چار ہی آدمی ہوں۔ یہ روایت گو قدرے کمزور ہے مگر پہلی روایتوں کی تائید وتقویت اسے حاصل ہے۔ لہذا اس سے بھی استدلال درست ہے اس میں ان لوگوں کا بھی رد ہے جو صحت جمعہ کے لیے کم از کم چالیس آدمیوں کا ہونا شرط قرار دیتے ہیں۔

اکابرصحابہ سے بھی گاؤں میں جمعہ پڑھنا ثابت ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ “تم جہاں کہیں ہو جمعہ پڑھ لیا کرو” عطاءبن میمون ابو رافع سے روایت کرتے ہیں کہ ان ابا ھریرۃ کتب الی عمر یسالہ عن الجمعۃ وھو بالبحرین فکتب الیھم ان جمعوا حیث ما کنتم اخرجہ ابن خزیمۃ وصححہ وابن ابی شیبۃ والبیھقی وقال ھذا الا ثر اسنادہ حسن فتح الباری، ص: 486 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بحرین سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس خط لکھ کر دریافت فرمایا تھا کہ بحرین میں جمعہ پڑھیں یا نہیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو جمعہ پڑھ لیا کرو۔

اس کا مطلب حضرت امام شافعی رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں قال الشافعی معناہ فی ای قریۃ کنتم لان مقامھم بالبحرین انما کان فی القریٰ ( التعلیق المغنی علی الدارقطنی ) یعنی حیث ماکنتم کے یہ معنی ہیں کہ تم جس گاؤں میں بھی موجود ہو ( جمعہ پڑھ لیا کرو ) کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ( سوال کرنے والے ) گاؤں میں ہی مقیم تھے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں وھذا ما یشتمل المدن والقریٰ ( فتح الباری، ص: 486 ) فاروقی حکم شہروں اور دیہاتوں کو برابر شامل ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود گاؤں میں جمعہ پڑھنے کے نہ صرف قائل تھے بلکہ سب کو حکم دیتے تھے چنانچہ لیث بن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ ان اھل الاسکندریۃ ومدآئن مصر سواحلھا کانوا یجمعون الجمعۃ علی عھد عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان بامرھما وفیھا رجال من الصحابۃ ( التعلیق المغنی علی الدار قطنی، جلد:1ص:166 ) اسکندریہ اور مصر کے آس پاس والے حضرت عمر وعثمان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں ان دونوں کے ارشاد سے جمعہ پڑھا کرتے تھے حالانکہ وہاں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی ایک جماعت بھی موجود تھی اور ولید بن مسلم فرماتے ہیں کہ: سالت اللیث بن سعد ( ای عن التجمیع فی القریٰ ) فقال کل مدینۃ او قریۃ فیھا جماعۃ امروا بالجمعۃ فان اھل مصر وسواحلھا کانوایجمعون الجمعۃ علی عھد عمر وعثمان بامرھما وفیھما رجال من الصحابۃ ( بیہقی والتعلیق المغنی علی الدارقطنی1ص:166وفتح الباری، ص:486 )

نیز حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گاؤں اور شہر کے باہر رہنے والوں پر جمعہ کی نماز فرض ہونے کے قائل تھے چنانچہ عبد الرزاق رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہ کان یری اھل المیاہ بین مکۃ والمدینۃ یجمعون فلا یعیب علیھم ( فتح الباری، ج1ص:486 والتعلیق المغنی علی الدارقطنی، ص:166 ) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مکہ ومدینہ کے درمیان پانی کے پاس اترتے ہوئے وہاں کے دیہاتی لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو بھی ان کو نہ منع کرتے اور نہ ان کو بر ا کہتے اور ولید بن مسلم روایت کر تے ہیں کہ یروی عن شیبان عن مولی لال سعید بن العاص انہ سال ابن عمر عن القریٰ التی بین مکۃ والمدینۃ ما تری فی الجمعۃ قال نعم اذاکان علیھم امیر فلیجمع ( رواہ البیھقی والتعلیق،ص166 )

سعید بن عاص کے مولیٰ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ان کے گاؤں کے بارے میں دریافت کیا جو مکہ ومدینہ کے درمیان میں ہیں کہ ان گاؤں میں جمعہ ہے یا نہیں؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہاں جب کوئی امیر ( امام نماز پڑھانے والا ) ہو تو جمعہ ان کو پڑھائے۔
نیز حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم صادر فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ جعفر بن برقان رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ کتب عمربن عبد العزیز الی عدی بن عدی الکندی انظر کل قریۃ اھل قرار لیسو ھم باھل عمود ینتقلون فامر علیھم امیرا ثم مرہ فلیجمع بھم ( رواہ البیہقی فی المعرفۃ والتعلیق المغنی علی الدار قطنی، ص:166 ) حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے عدی ابن عدی الکندی کے پاس لکھ کر بھیجا کہ ہر ایسے گاؤں کو دیکھو جہاں کے لوگ اسی جگہ مستقل طور پر رہتے ہیں۔ ستون والوں ( خانہ بدوشوں ) کی طرح ادھر ادھر پھرتے ومنتقل نہیں ہوتے۔ اس گاؤں والوں پر ایک امیر ( امام ) مقرر کردو کہ ان کو جمعہ پڑھاتا رہے۔

اور حضرت ابوذر ( صحابی ) رضی اللہ عنہ ربذہ گاؤں میں رہنے کے باوجود وہیں چند صحابہ کے ساتھ برابر جمعہ پڑھتے تھے۔ چنانچہ ابن حزم رحمہ اللہ محلیٰ میں فرماتے ہیں کہ صح انہ کان لعثمان عبد اسود امیر لہ علی الربد یصلی خلفہ ابو ذر رضی اللہ عنہ من الصحابۃ الجمعۃ وغیرھا ( کبیری شرح منیہ ص:512 ) صحیح سند سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک سیاہ فام غلام ربذہ میں حکومت کی طرف سے امیر ( امام ) تھا۔ حضرت ابو ذر ودیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس کے پیچھے جمعہ وغیرہ پڑھا کرتے تھے۔
نیز حضرت انس رضی اللہ عنہ شہربصرہ کے قریب موضع“زاویہ” میں رہتے تھے۔ کبھی تو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے بصرہ آتے اور کبھی جمعہ کی نماز موضع زاویہ ہی میں پڑھ لیتے تھے۔ بخاری شریف، ج:1 ص: 123 میں ہے وکان انس فی قصر احیانا یجمع واحیانا لا یجمع وھو بالزاویۃ علی فرسخین اس عبارت کا مختصر مطلب یہ ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز کبھی زاویہ ہی میں پڑھ لیتے اور کبھی زاویہ میں نہیں پڑھتے تھے بلکہ بصرہ میں آکر جمعہ پڑھتے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں یہی مطلب بیان فرماتے ہیں قولہ یجمع ای یصلی الجمعۃ بمن معہ او یشھد الجمعۃ البصرۃ یعنی کبھی جمعہ کی نماز ( مقام زاویہ میں ) اپنے ساتھیوں کو پڑھاتے یا جمعہ کے لیے بصرہ تشریف لاتے۔ اور یہی مطلب علامہ عینی رحمہ اللہ نے عمدۃ القاری، ص: 274 جلد: 3 میں بیان فرمایاہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ عید کی نماز بھی اسی زاویہ میں پڑھ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ بخاری شریف، ص:134 میں ہے کہ وامر انس بن مالک مولاہ ابن ابی عتبۃ بالزاویۃ فجمع اھلہ وبنیہ وصلی کصلوۃ المصر وتکبیرھم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے آزاد کردہ غلام ابن ابی عتبہ کو زاویہ میں حکم دیا اور اپنے تمام گھر والوں بیٹوں وغیرہ کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح عید کی نماز پڑھی۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی عمدۃ القاری،ص:400جلد: 3 میں اسی طرح بیان فرمایا ہے۔ ان آثار سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ اور عیدین کی نماز شہر والوں کی طرح گاؤں میں بھی پڑھا کرتے تھے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خودگاؤں میں جمعہ پڑھا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے گئے تھے تو بنی مالک کے گاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھی تھی۔ ابن حزم رحمہ اللہ محلیٰ میں فرماتے ہیں کہ ومن اعظم البرھان علی صحتھا فی القری ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتی المدینۃ وانما ھی قریۃ صغار متفرقۃ فبنی مسجدہ فی بنی مالک بن نجار وجمع فیہ فی قریۃ لیست بالکبیرۃ ولا مصرھنالک ( عون المعبود شرح ابی داؤد، ج:1ص:414 ) دیہات وگاؤں میں جمعہ پڑھنے کی صحت پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کے چھوٹے چھوٹے الگ الگ گاؤں بسے ہوئے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مالک بن نجار میں مسجد بنائی اور اسی گاؤں میں جمعہ پڑھا جو نہ تو شہر تھا اور نہ بڑا گاؤں ہی تھا۔

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص الحبیر،ص: 132 میں فرماتے ہیں کہ وروی البیھقی فی المعرفۃ عن مغازی ابن اسحاق وموسیٰ ابن عقبۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین رکب من بنی عمرو بن عوف فی ھجرتہ الی المدینۃ فمر علی بنی سالم وھی قریۃ بین قباوالمدینۃ فادرکتہ الجمعۃ فصلی بھم الجمعۃ وکانت اول جمعۃ صلاھا حین قدم امام بیہقی رحمہ اللہ نے المعرفہ میں ابن اسحاق وموسی بن عقبہ رحمہ اللہ کے مغازی سے روایت کیا ہے کہ ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت بنی عمروبن عوف ( قبا ) سے سوار ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو بنی سالم کے پاس سے آپ کا گزر ہوا وہ قبا ومدینہ کے درمیان ایک گاؤں تھا تو اسی جگہ جمعہ نے آپ کو پالیا یعنی جمعہ کا وقت ہو گیا تو سب کے ساتھ ( اسی گاؤں میں ) جمعہ کی نماز پڑھی۔ مدینہ تشریف لانے کے وقت سب سے پہلا یہی جمعہ آپ نے پڑھا ہے۔

خلاصۃ الوفاءص196 میں ہے ولابن اسحاق فادرکتہ الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلا ھا فی بطن الوادی وادی ذی رانونا فکانت اول جمعۃ صلاھا با لمدینۃ اور سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ فادرکت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الجمعۃ فی بنی سالم بن عوف فصلاھا فی المسجد الذی فی بطن الوادی وادی رانونا یعنی وادی ( میدان ) رانونا کی مسجد میں آپ نے جمعہ کی نماز پڑھی۔

اورآپ کے ہجرت کرنے سے پہلے بعض وہ صحابہ کرام جو پہلے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لا چکے تھے وہ اپنے اجتہاد سے بعض گاؤں میں جمعہ پڑھتے تھے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا جیسے اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے ہزم النبیت ( گاؤں ) میں جمعہ پڑھایا۔ ابوداؤد شریف میں ہے۔ لانہ اول من جمع بنا فی ھزم النبیت من حرہ بنی بیاضۃ فی نقیع یقال نقیع الخضمات ( الحدیث ) حرہ بنی بیاضہ ایک گاؤں کا نام تھا جو مدینہ طیبہ سے ایک میل کے فاصلہ پر آباد تھا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تلخیص الحبیر، ص:133 میں فرماتے ہیں۔ حرۃ بنی بیاضۃ قریۃ علی میل من المدینۃ اور خلاصۃ الوفاءمیں ہے والصواب انہ بھزم النبیت من حرۃبنی بیاضۃ وھی الحرۃ الغربیۃ التی بھا قریۃ بنی بیاضۃ قبل بنی سلمۃ ولذاقال النووی انہ قریۃ بقرب المدینۃ علی میل من منازل بنی سلمۃ قالہ الامام احمد کما نقلہ الشیخ ابو حامد اس عبارت کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ حرہ بنی بیاضہ مدینہ کے قریب ایک میل کے فاصلہ پر گاؤں ہے۔ اسی گاؤں میں اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے جمعہ کی نماز پڑھائی تھی۔

اسی لیے امام خطابی رحمہ اللہ شرح ابی داؤد میں فرماتے ہیں وفی الحدیث من الفقہ ان الجمعۃ جوازھا فی القریٰ کجوازھا فی المدن والامصار اس حدیث سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ دیہات میں جمعہ پڑھنا جائز ہے جیسے کہ شہروں میں جائز ہے۔

ان احادیث وآثار سے صاف طور پر معلوم ہو گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ دیہات میں ہمیشہ جمعہ پڑھا کر تے تھے اور از خودحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایااورپڑھنے کا حکم دیاہے کہ الجمعۃ واجبۃ علی کل قریۃ ( دارقطنی،ص:165 ) ہر گاؤں والوں پر جمعہ فرض ہے۔

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت کے زمانہ میں دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم گاؤں میں جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما اور حضرت عمربن عبد العزیز رحمہ اللہ نے بھی دیہات میں جمعہ پڑھنے کا حکم دیا۔
ان تمام احادیث وآثار کے ہوتے ہوئے بعض لوگ دیہات میں جمعہ بندکرانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں حالانکہ جمعہ تمام مسلمانوں کے لیے عید ہے خواہ شہری ہوں یا دیہاتی۔ ترغیب ترہیب، ص:195ج :1 میں ہے کہ عن انس بن مالک رضی اللہ عنہ قال عرضت الجمعۃ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاءبھا جبرئیل علیہ السلام فی کفۃ کالمراۃ البیضاءفی وسطھا کالنکتۃ السوداءفقال ما ھذا یا جبرئیل قال ھذہ الجمعۃ یعرضھا علیک ربک لتکون لک عیدا ولقومک من بعدک ( الحدیث رواہ الطبرانی فی الاوسط باسناد جید ترغیب، ص195ج:1 ) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمعہ کو سفید آئینہ کی طرح ایک پلہ میں لاکر پیش فرمایا۔ اس کے درمیان میں ایک سیاہ نکتہ سا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اے جبرائیل! یہ کیا ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا کہ یہ وہ جمعہ ہے جس کو آپ کا رب آپ کے سامنے پیش کرتا ہے تاکہ آپ کے اور آپ کی امت کے واسطے یہ عید ہوکر رہے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ تمام امت محمدیہ کے لیے عید ہے، اس میں شہری ودیہاتی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اب دیہاتیوں کو اس عید ( جمعہ ) سے محروم رکھنا انصاف کے خلاف ہے۔ ایمان، نماز، روزہ، حج، زکوۃ وغیرہ جیسے دیہاتی پر برابر فرض ہیں اسی طرح جمعہ بھی دیہاتی وغیر دیہاتی پر برابر فرض ہے۔ اگر گاؤں والوں پر جمعہ فرض نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیحدہ کر کے خارج کر دیتے۔ جیسے مسافر ومریض وغیرہ کو خارج کیا گیا ہے حالانکہ کسی آیت یا حدیث مرفوع صحیح میں اس کا استثناءنہیں کیا گیا۔

مانعین جمعہ کی دلیل!
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر ( قول ) لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع مانعین کی سب سے بڑی دلیل ہے مگر یہ قول مذکورہ بالااحادیث وآثار کے معارض ومخالف ہونے کے علاوہ ان کا ذاتی اجتہاد ہے اور حرمت ووجوب اجتہاد سے ثابت نہیں ہوتے کیونکہ اس کے لیے نص قطعی ہونا شرط ہے۔ چنانچہ مجمع الانہار، ص:109میں اس اثر کے بعد لکھا ہے۔لکن ھذا مشکل جدا لان الشرط ھو فرض لا یثبت الا بقطعی۔

پھر مصرجامع کی تعریف میں اس قدر اختلاف ہے کہ اگر اس کو معتبر سمجھا جائے تو دیہات تو دیہات ہی ہے آج کل ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں میں بھی جمعہ پڑھا جانانا جائز ہو جائے گا۔ کیونکہ مصر جامع کی تعریف میں امیر و قاضی واحکام شرعی کا نفاذ اور حدود کا جاری ہونا شرط ہے حالانکہ اس وقت ہندوستان میں نہ کوئی شرعی حاکم وقاضی ہے نہ حدود ہی کا اجراءہے اور نہ ہو سکتا ہے۔ بلکہ اکثر اسلامی ملکوں میں بھی حدود کا نفاذ نہیں ہے تو اس قول کے مطابق شہروں میں بھی جمعہ نہ ہونا چاہیے اور ان شرطوں کاثبوت نہ قرآن مجید سے ہے نہ صحیح حدیثوں سے ہے۔
اور لا جمعۃ الخ میں لا نفی کمال کا بھی ہو سکتا ہے یعنی کامل جمعہ شہر ہی میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں جماعت زیادہ ہوتی ہے اور شہر کے اعتبار سے دیہات میں جماعت کم ہوتی ہے۔ اس لیے شہر کی حیثیت سے دیہات میں ثواب کم ملے گا۔ جیسے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے 27 درجے زیادہ ثواب ملتا ہے اور تنہا پڑھنے سے اتنا ثواب نہیں ملتا تو لا جمعۃ الخ میں کمال اور زیادتی ثواب کی نفی ہے فرضیت کی نفی نہیں ہے۔

اگر بالفرض اس توجیہ کو تسلیم نہ کیاجائے تو دیہاتیوں کے لیے قربانی اور بقرعید کے دنوں کی تکبیر یں وغیرہ بھی ناجائز ہونی چاہئیں کیونکہ قربانی نماز عید کے تابع وماتحت ہے اور جب متبوع ( نماز عید ) ہی نہیں تو تابع ( قربانی ) کیسے جائز ہو سکتی ہے؟ جو لوگ دیہات میں جمعہ پڑھنے سے روکتے ہیں ان کو چاہیے کہ دیہاتیوں کو قربانی سے بھی روک دیں۔
اور اثر مذکور پر ان کا خود بھی عمل نہیں کیونکہ تمام فقہاءکا اس پر اتفاق ہے کہ اگر امام کے حکم سے گاؤں میں مسجد بنائی جائے تو اسی کے حکم سے گاؤں میں جمعہ بھی پڑھ سکتے ہیں چنانچہ رد المختار، جلد:اول ص :537 میں ہے۔ اذا بنی مسجد فی الرستاق بامر الامام فھو امر بالجمعۃ اتفاقا علی ما قالہ السرخسی والرستاق القران کما فی القاموس جب گاؤں میں امام کے حکم سے مسجد بنائی جائے تو وہاں باتفاق فقہاءجمعہ کی نماز پڑھی جائے گی۔

اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جمعہ کے لیے مصر ( شہر ) ہونا ضروری نہیں بلکہ دیہات میں بھی جمعہ ہو سکتا ہے۔امام محمد رحمہ اللہ بھی اسی طرح فرماتے ہیں۔ حتی لو بعث الی قریۃ نائبا لا قامۃ الحدود والقصاص تصیر مصرا فاذا عزلہ تلحق بالقریٰ ( عینی شرح بخاری، ص:26 وکبیری شرح منیہ، ص: 514 ) اگر کسی نائب کو حدود وقصاص جاری کرنے کے لیے کسی گاؤں میں بھیجے تو وہ گاؤں مصر ( شہر ) ہو جائے گا۔جب نائب کو معزول ( علیحدہ ) کر دے گا تو وہ گاؤں کے ساتھ مل جائے گا یعنی پھر گاؤں ہو جائے گا۔

بہر کیف جمعہ کے لیے مصر ہونا ( شرعاً ) شرط نہیں ہے۔ بلکہ آبادی وبستی وجماعت ہونا ضروری ہے اور ہو سکتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول فی مصر جامع سے بستی ہی مراد ہو کیونکہ بستی شہر ودیہات دونوں کو شامل ہے اس لیے لفظ قریہ سے کبھی شہر اور کبھی گاؤں مراد لیتے ہیں۔ لیکن اس کے اصل معنی وہی بستی کے ہیں۔
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ شرح بخاری ، جلد: دوم ص: 138میں لکھتے ہیں والقریۃ واحدۃ القریٰ کل مکان اتصلت فیہ الابنیۃ واتخذ قرارا ویقع ذلک علی المدن وغیرھا اور لسان العرب ، ص: 637 ج 1 میں ہے۔ والقریۃ من المساکن والابنیۃ والضیاع وقد تطلق علی المدن وفی الحدیث امرت بقریۃ تاکل القریٰ وھی مدینۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم اہ ایضا وجاءفی کل قار وبادی الذی ینزل القریۃ والبادی۔

ان عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قریہ کے معنی مطلق بستی کے ہیں اور مصر جامع کے معنی بھی بستی کے ہیں۔ کیونکہ اہل لغت نے قریہ کی تفسیر میں لفظ مصر جامع اختیار کیا ہے۔
چنانچہ اسی لسان العرب میں ہے قال ابن سیدہ القریۃ والقریۃ لغتان المصر الجامع التھذیب الملسکورۃ یمانیۃ ومن ثم اجتمعوا فی جمعھا علی القری اور قاموس ، ص :285میں ہے القریۃ المصر الجامع اور المنجد، ص:661 میں ہے القریۃ والقریۃ الضیعۃ المصرالجامع۔

ان عبارتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قریہ اور مصر جامع دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ اور قریہ کے معنی بستی کے تو مصر جامع کے معنی بھی بستی کے ہیں اور بستی شہروگاؤں دونوں کا شامل ہے۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثر کا مطلب یہ ہوا کہ جمعہ بستی میں ہونا چاہیے۔ یعنی شہرو دیہات دونوں جگہ ہونا چاہیے۔
مناسب ہوگا : اس بحث کو ختم کرتے ہوئے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری رحمہ اللہ کا فاضلانہ تبصرہ ( آپ کی قابل قدر کتاب مرعاۃ، جلد:2ص:288سے ) شائقین کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ حضرت موصوف فرماتے ہیں: واختلفوا ایضا فی محل اقامۃ الجمعۃ فقال ابو حنیفۃ واصحابہ لا تصح الا فی مصر جامع وذھب الائمۃ الثلاثۃ الی جوازھا وصحتھا فی المدن والقری ٰ جمیعا واستدل لابی حنیفۃ بماروی عن علی مرفوعا لا جمعۃ ولا تشریق الا فی مصر جامع وقد ضعف احمد وغیرہ رفعہ وصحح ابن حزم وغیرہ وفقہ وللاجتہاد فیہ مسرح فلا ینتھض للاحتجاج بہ فضلا عن ان یخصص بہ عموم الا یۃ او یقید بہ اطلاقھا مع ان الحنفیۃ قد تخبطوا فی تحدید المصر الجامع وضبطہ الی اقوال کثیرۃ متباینہ متناقضۃ متخالفۃ جدا کما لا یخفی علی من طالع کتب فروعھم وھذا یدل علی انہ لم یتعین عندھم معنی الحدیث والراجح عندنا ماذھب الیہ الائمۃ الثلاثۃ من عدم اشتراط المصر وجوازھا فی القریٰ لعموم الایۃ واطلاقھا وعدم وجود ما یدل علی تخصیصھا ولا بدل لمن یقید ذالک بالمصر الجامع ان یاتی بدلیل قاطع من کتاب او سنۃ متواترۃ او خبر مشھور بالمعنی المصطلح عند المحدثین وعلی التنزیل بخبر واحد مرفوع صریح صحیح یدل علی التخصیص بالمصر الجامع۔
خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ علماءنے محل اقامت جمعہ میں اختلاف کیا ہے چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے اصحاب کا قول ہے کہ جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے اور ائمہ ثلاثہ حضرت امام شافعی، امام مالک،امام احمد حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شہروں کے علاوہ گاؤں بستیوں میں بھی جمعہ ہر جگہ صحیح اور جائز ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے اس حدیث سے دلیل لی ہے جو مرفوعاً حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جمعہ اور عید صحیح نہیں مگر مصر جامع میں ۔ا مام احمد وغیرہ نے اس روایت کے مرفوع ہونے کو ضعیف کہا ہے اور علامہ ابن حزم وغیرہ نے اس کا موقوف ہونا صحیح تسلیم کیا ہے چونکہ یہ موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کے لیے کافی گنجائش ہے لہذا یہ احتجاج کے قابل نہیں ہے اور اس وجہ سے بھی کہ اس سے قرآن پاک کی آیت اذا نودی للصلوۃ من یو م الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ جو مطلق ہے اس کا مقید ہونا لازم آتا ہے۔ پھر حنفیہ خود مصر کی تعریف میں بھی مختلف ہیں۔ جبکہ ان کے ہاں بہ سلسلہ تعریف مصر جامع اقوال بے حد متضاد اور متناقض نیز متبائن ہیں جیسا کہ ان کی کتب فروع کے مطالعہ کرنے والے حضرات پر مخفی نہیں ہے۔ یہ دلیل ہے کہ فی الحقیقت اس حدیث کے کوئی صحیح معنی ان کے ہاں بھی متعین نہیں ہیں پس ہمارے نزدیک یہی راجح ہے کہ تینوں امام جدھر گئے ہیں کہ جمعہ کے لیے مصر کی شرط نہیں ہے اور جمعہ شہر کی طرح گاؤں بستیوں میں بھی جائز ہے یہی فتوی صحیح ہے۔ کیونکہ قرآن مجید کی آیت مذکور جس سے جمعہ کی فرضیت ہر مسلمان پر ثابت ہوتی ہے ( سوا ان کے جن کو شارع نے مستثنی کر دیا ہے ) یہ آیت عام ہے جو شہری اور دیہاتی جملہ مسلمانوں کو شامل ہے اور مصر جامع کی شرط کے لیے جو آیت کے عموم کو خاص کرے کوئی دلیل قاطع قرآن یا حدیث متواتر یا خبر مشہور جو محدثین کے نزدیک قابل قبول اور لائق استدلال ہو، نہیں ہے نیز کوئی خبر واحد مرفوع صریح صحیح بھی ایسی نہیں ہے جو آیت کو مصر جامع کے ساتھ خاص کر سکے۔

تعداد کے بارے میں حضرت مولانا شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:والراجح عندی ما ذھب الیہ اھل الظاھر انہ تصح الجمعۃ باثنین لانہ لم یقم دلیل علی اشتراط عدد مخصوص وقد صحت الجماعۃ فی سائر الصلوات باثنین ولا فرق بینھما وبین الجمعۃ فی ذلک ولم یات نص من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بان الجمعۃ لا تنعقد الا بکذا الخ ( مرعاۃ، ج:2ص:288 ) یعنی اس بارے میں کہ جمعہ کے لیے نمازیوں کی کتنی تعداد ضروری ہے، میرے نزدیک اس کو ترجیح حاصل ہے جو اہل ظاہر کا فتوی ہے کہ بلا شک جمعہ دو نمازیوں کے ساتھ بھی صحیح ہے اس لیے کہ عدد مخصوص کے شرط ہونے کے بارے میں کوئی دلیل قائم نہیں ہو سکتی اور دوسری نمازوں کی جماعت بھی دو نمازیوں کے ساتھ صحیح ہے اور پنج وقتہ نماز اور جمعہ میں اس بارے میں کوئی فرق نہیں ہے اور نہ کوئی نص صریح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں وارد ہوئی ہے کہ جمعہ کا انعقاد اتنی تعداد کے بغیر صحیح نہیں۔ اس بارے میں کوئی حدیث صحیح مرفوع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔

اس مقالہ کو اس لیے طول دیا گیا ہے کہ حالات موجودہ میں علماءکرام غور کریں اور جہاں بھی مسلمانوں کی جماعت موجود ہو وہ قصبہ ہو یا شہر یا گاؤں ہر جگہ جمعہ قائم کرائیں کیونکہ شان اسلام اس کے قائم کرنے میں ہے اور جمعہ ترک کرانے میں بہت سے نقصانات ہیں جبکہ امامان ہدایت میں سے تینوں امام امام شافعی وامام مالک وامام احمد بن حنبل بھی گاؤں میں جمعہ کے حق میں ہیں پھر اس کے ترک کرانے پر زور دیکر اپنی تقلید جامد کا ثبوت دینا کوئی عقلمندی نہیں ہے۔
واللہ یھدی من یشاءالی صراط مستقیم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ

باب : جو لوگ جمعہ کی نماز کے لیے نہ آئیں جیسے عورتیں بچے، مسافر اور معذور وغیرہ ان پر غسل واجب نہیں ہے۔

وغيرهم وقال ابن عمر إنما الغسل على من تجب عليه الجمعة‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا غسل اسی کو واجب ہے جس پر جمعہ واجب ہے۔



حدیث نمبر : 894
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني سالم بن عبد الله، أنه سمع عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ يقول سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ من جاء منكم الجمعة فليغتسل‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے ( اپنے والد ) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ تم میں سے جو شخص جمعہ پڑھنے آئے تو غسل کرے۔

حدیث نمبر : 895
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن صفوان بن سليم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ غسل يوم الجمعة واجب على كل محتلم‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے صفوان بن سلیم نے، ان سے عطاء بن یسار نے، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بالغ کے اوپر جمعہ کے دن غسل واجب ہے۔

حدیث نمبر : 896
حدثنا مسلم بن إبراهيم، قال حدثنا وهيب، قال حدثنا ابن طاوس، عن أبيه، عن أبي هريرة، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ نحن الآخرون السابقون يوم القيامة، أوتوا الكتاب من قبلنا، وأوتيناه من بعدهم، فهذا اليوم الذي اختلفوا فيه فهدانا الله، فغدا لليهود وبعد غد للنصارى‏"‏‏. ‏ فسكت‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ طاؤس نے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم ( دنیا میں ) تو بعد میں آئے لیکن قیامت کے دن سب سے آگے ہونگے، فرق صرف یہ ہے کہ یہود ونصاریٰ کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں بعد میں۔ تو یہ دن ( جمعہ ) وہ ہے جس کے بارے میں اہل کتاب نے اختلاف کیا، اللہ تعالی نے ہمیں یہ دن بتلا دیا ( اس کے بعد ) دوسرا دن ( ہفتہ ) یہود کا دن ہے اور تیسرا دن ( اتوار ) نصاری کا۔ آپ پھر خاموش ہو گئے۔

حدیث نمبر : 897
ثم قال ‏"‏ حق على كل مسلم أن يغتسل في كل سبعة أيام يوما يغسل فيه رأسه وجسده‏"‏‏. ‏ اس کے بعد فرمایا کہ ہر مسلمان پر حق ہے ( اللہ تعالی کا ) ہر سات دن میں ایک دن جمعہ میں غسل کرے جس میں اپنے سر اور بدن کو دھوئے۔

حدیث نمبر : 898
رواه أبان بن صالح عن مجاهد، عن طاوس، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لله تعالى على كل مسلم حق أن يغتسل في كل سبعة أيام يوما‏"‏‏. ‏
اس حدیث کی روایت ابان بن صالح نے مجاہد سے کی ہے، ان سے طاؤس نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر مسلمان پر حق ہے کہ ہر سات دن میں ایک دن ( جمعہ ) غسل کرے۔

تشریح : یعنی یہ دن جمعہ کا وہ دن ہے جس کی تعظیم عبادت الٰہی کے لیے فرض کی گئی تھی۔ قسطلانی نے چند آثار ذکر کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے اپنی امت کو خاص دن اللہ کی عبادت کے لیے مقرر کیا تھا اور وہ جمعہ کا دن تھا۔ لیکن بہ سبب نا فرمانی کے اپنے اجتہاد کو دخل دے کر اسے ترک کر دیا اور کہنے لگے کہ ہفتہ کا دن ایسا ہے کہ اس میں اللہ نے بعد پیدائش تمام کائنات کے آرام فرمایا تھا۔ پس ہم کو بھی مناسب ہے کہ ہم ہفتہ کو عبادت کا دن مقرر کریں اور نصاری کہنے لگے کہ اتوار کے دن اللہ نے مخلوق کی پیدائش شروع کی۔ مناسب ہے کہ اس کو ہم اپنی عبادت کا دن ٹھہر الیں۔ پس ان لوگوں نے اس میں اختلاف کیا اور ہم کواللہ نے صراحتاً بتلادیا کہ جمعہ کا ہی دن بہتر دن ہے۔ ابن سیرین سے مروی ہے کہ مدینہ کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے جبکہ ابھی سورۃ جمعہ بھی نازل نہیں ہوئی تھی، ایک دن جمع ہوئے اور کہنے لگے کہ یہود ونصاریٰ نے ایک ایک دن جمع ہوکر عبادت کے لیے مقرر کئے ہوئے ہیں، کیوں نہ ہم بھی ایک دن مقرر کر کے اللہ کی عبادت کیا کریں۔ سو انہوں نے عروبہ کا دن مقرر کیا اور اسعد بن زرارہ کو امام بنایا اور جمعہ ادا کیا۔ اس روز یہ آیت نازل ہوئی۔ یٰآیُّھَا الَّذِینَ اٰٰمَنُو ااِذَا نُودِیَ لَلصَّلٰوۃِ مِن یَومِ الجُمُعَۃِ فَاسعَوا اِلیٰ ذِکرِ اللّٰہِ ( الجمعۃ: 9 ) اس کو علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح سند کے ساتھ عبد الرزاق سے نقل فرمایا ہے اور کہا ہے کہ اس کا شاہد اسناد حسن کے ساتھ احمد، ابو داؤدو ابن ماجہ نے نکالا۔

استاذنا مولانا حضرت محدث عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سمیت الجمعۃ لاجتماع الناس فیھا وکان یوم الجمعۃ یسمی العروبۃ یعنی جمعہ اس لیے نام ہوا کہ لوگ اس میں جمع ہوتے ہیں اور عہد جاہلیت میں اس کا نام یوم العروبہ تھا اس فضیلت کے بارے میں امام ترمذی یہ حدیث لائے ہیں۔ عن ابی ھریرۃ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال خیر یوم طلعت فیہ الشمس یوم الجمعۃ فیہ خلق ادم وفیہ ادخل الجنۃ وفیہ اخرج منھا ولا تقوم الساعۃ الا فی یوم الجمعۃ یعنی تمام دنوں میں بہتر دن جس میں سورج طلوع ہوتا ہے وہ جمعہ کا دن ہے۔ اس میں آدم پیدا ہوئے اور اس دن میں جنت میں داخل کئے گئے اور اس دن ان کا جنت سے خروج ہوا اور قیامت بھی اس دن قائم ہوگی۔

فضائل جمعہ پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں، یہ امت ہفتہ واری عید ہے۔ مگر صد افسوس کہ جن حضرات نے دیہات میں جمعہ بند کرانے کی تحریک چلائی اس سے کتنے ہی دیہات کے مسلمان جمعہ سے اس درجہ غافل ہو گئے کہ ان کو یہ بھی خبر نہیں کہ آج جمعہ کا دن ہے۔ اس کی ذمہ داری ان علماءپر عائد ہوتی ہے۔ کاش یہ لوگ حالات موجودہ کا جائزہ لے کر مفادامت پر غور کر سکتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب :۔۔۔

حدیث نمبر : 899
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا شبابة، حدثنا ورقاء، عن عمرو بن دينار، عن مجاهد، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ائذنوا للنساء بالليل إلى المساجد‏"‏‏. ‏
ہم سے عبد اللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شبابہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ورقاء بن عمرو نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینارنے، ان سے مجاہد نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں آنے کی اجازت دے دیا کرو۔

حدیث نمبر : 900
حدثنا يوسف بن موسى، حدثنا أبو أسامة، حدثنا عبيد الله بن عمر، عن نافع، عن ابن عمر، قال كانت امرأة لعمر تشهد صلاة الصبح والعشاء في الجماعة في المسجد، فقيل لها لم تخرجين وقد تعلمين أن عمر يكره ذلك ويغار قالت وما يمنعه أن ينهاني قال يمنعه قول رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تمنعوا إماء الله مساجد الله‏"‏‏. ‏
ہم سے یوسف بن موسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبید اللہ ا بن عمرنے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک بیوی تھیں جو صبح اور عشاء کی نماز جماعت سے پڑھنے کے لیے مسجد میں آیا کرتی تھیں۔ ان سے کہا گیا کہ باوجوداس علم کے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس بات کو مکروہ جانتے ہیں اور وہ غیرت محسوس کرتے ہیں پھر آپ مسجد میں کیوں جاتی ہیں۔ اس پر انہوں نے جواب دیا کہ پھر وہ مجھے منع کیوں نہیں کر دیتے۔ لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی وجہ سے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں آنے سے مت روکو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : اگر بارش ہو رہی ہو تو جمعہ میں حاضر ہونا واجب نہیں

حدیث نمبر : 901
حدثنا مسدد، قال حدثنا إسماعيل، قال أخبرني عبد الحميد، صاحب الزيادي قال حدثنا عبد الله بن الحارث ابن عم، محمد بن سيرين قال ابن عباس لمؤذنه في يوم مطير إذا قلت أشهد أن محمدا رسول الله‏.‏ فلا تقل حى على الصلاة‏.‏ قل صلوا في بيوتكم‏.‏ فكأن الناس استنكروا، قال فعله من هو خير مني، إن الجمعة عزمة، وإني كرهت أن أخرجكم، فتمشون في الطين والدحض‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیا ن کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں صاحب الزیادی عبدالحمید نے خبر دی، کہا کہ ہم سے محمد بن سیرین کے چچازاد بھائی عبد اللہ بن حارث نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہمااپنے مؤذن سے ایک دفعہ بارش کے دن کہا کہ اشھد ان محمدا رسول اللہ کے بعد حی علی الصلوۃ ( نماز کی طرف آؤ ) نہ کہنا بلکہ یہ کہنا کہ صلوا فی بیوتکم ( اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو ) لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا تو آپ نے فرمایا کہ اسی طرح مجھ سے بہتر انسان ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے کیا تھا۔ بے شک جمعہ فرض ہے اور میں مکروہ جانتا ہوں کہ تمہیں گھروں سے باہر نکال کر مٹی اور کیچڑ پھسلوان میں چلاؤں۔

تشریح : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا کہ بے شک جمعہ فرض ہے۔ مگر حالت بارش میں یہ عزیمت رخصت سے بدل جاتی ہے لہذا کیوں نہ اس رخصت سے تم کو فائدہ پہنچاؤں کہ تم کیچڑ میں پھسلنے اور بارش میں بھیگنے سے بچ جاؤ۔
 
Top