• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کی اذان خطبہ کے وقت دینا

حدیث نمبر : 916
حدثنا محمد بن مقاتل، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا يونس، عن الزهري، قال سمعت السائب بن يزيد، يقول إن الأذان يوم الجمعة كان أوله حين يجلس الإمام يوم الجمعة على المنبر في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ فلما كان في خلافة عثمان ـ رضى الله عنه ـ وكثروا، أمر عثمان يوم الجمعة بالأذان الثالث، فأذن به على الزوراء، فثبت الأمر على ذلك‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس بن یزید نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے یہ سنا تھا کہ جمعہ کی پہلی اذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اس وقت دی جاتی تھی جب امام منبر پر بیٹھتا۔ جب حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا دور آیا اور نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپ نے جمعہ کے دن ایک تیسری اذان کا حکم دیا، یہ اذان مقام زوراء پر دی گئی اور بعد میں یہی دستور قائم رہا۔

تشریح : تیسری اس کو اس لیے کہا کہ تکبیر بھی اذان ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد سے پھر یہی طریقہ جاری ہو گیا کہ جمعہ میں ایک پہلی اذان ہوتی ہے پھر جب امام منبر پر جاتا ہے تو دوسری اذان دیتے ہیں پھر نماز شروع کرتے وقت تیسری اذان یعنی تکبیر کہتے ہیں گوحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا فعل بدعت نہیں ہو سکتا اس لیے کہ وہ خلفاءراشدین میں سے ہیں۔مگر انہوں نے یہ اذان ایک ضرورت سے بڑھائی کہ مدینہ کی آبادی دور دور تک پہنچ گئی تھی اور خطبہ کی اذان سب کے جمع ہونے کے لیے کافی نہ تھی،آتے آتے ہی نماز ختم ہو جاتی۔ مگر جہاں یہ ضرورت نہ ہو وہاں بموجب سنت نبوی صرف خطبہ ہی کی اذان دینا چاہیے اورخوب بلند آواز سے نہ کہ جیسا جاہل لوگ خطبہ کے وقت آہستہ آہستہ اذان دیتے ہیں۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ابن ابی شیبہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نکالا تیسری اذان بدعت ہے۔ یعنی ایک نئی بات ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نہ تھی اب اس سنت نبوی کو سوائے اہل حدیث کے اور کوئی بجا نہیں لاتے۔ جہاں دیکھو سنت عثمانی کا رواج ہے ( مولانا وحید الزماں ) حضرت عبد اللہ بن عمر نے جو اسے بدعت کہا اس کی توجیہ میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں: فیحتمل ان یکون ذالک علی سبیل الانکار ویحتمل ان یرید انہ لم یکن فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم وکل مالم یکن فی زمنہ یسمی بدعۃ۔ ( نیل الاوطار )

یعنی احتمال ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے انکار کے طور پر ایسا کہا ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ ان کی مراد یہ ہو کہ یہ اذان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نہ تھی اور جو آپ کے زمانہ میں نہ ہو اس کو ( لغوی حیثیت سے ) بدعت یعنی نئی چیز کہا جاتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بلغنی ان اھل المغرب الادنی الان لاتاذین عندھم سوی مرۃ یعنی مجھے خبر پہنچی ہے کہ مغرب والوں کا عمل اب بھی صرف سنت نبوی یعنی ایک ہی اذان پر ہے۔

جمہورعلماءاہل حدیث کا مسلک بھی یہی ہے کہ سنت نبوی پر عمل بہتر ہے اور اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے جیسی ضرورت محسوس ہو تو مسجد سے باہر کسی مناسب جگہ پر یہ اذان کہہ دی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
جن لوگوں نے اذان عثمانی کو بھی مسنون قرار دیا ان کا قول محل نظر ہے۔چنانچہ حضرت مولانا عبد الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ نے بڑی تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالی ہے۔ آخر میں آپ فرماتے ہیں:ان الاستدلال علی کون الاذان الثالث ھو من مجتھدات عثمان امرا مسنونا لیس بتام الاتری ان ابن عمر قال الاذان الاول یوم الجمعۃ بدعۃ فلو کان ھذا الاستدلال تاما وکان الاذان الثالث امرا مسنونا لم یطلق علیہ لفظ البدعۃ لا علی سبیل الانکار ولا علی سبیل غیرالانکار فان الامر المسنون لا یجوز ان یطلق علیہ لفظ البدعۃ بای معنی کان فتفکر۔ ( تحفۃ الاحوذی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : خطبہ منبر پر پڑھنا

حدیث نمبر : 916
وقال أنس ـ رضى الله عنه ـ خطب النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر‏.‏
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر خظبہ پڑھا۔

حدیث نمبر : 917
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن بن محمد بن عبد الله بن عبد القاري القرشي الإسكندراني، قال حدثنا أبو حازم بن دينار، أن رجالا، أتوا سهل بن سعد الساعدي، وقد امتروا في المنبر مم عوده فسألوه عن ذلك فقال والله إني لأعرف مما هو، ولقد رأيته أول يوم وضع، وأول يوم جلس عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم أرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى فلانة ـ امرأة قد سماها سهل ـ ‏"‏ مري غلامك النجار أن يعمل لي أعوادا أجلس عليهن إذا كلمت الناس‏"‏‏. ‏ فأمرته فعملها من طرفاء الغابة ثم جاء بها، فأرسلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأمر بها فوضعت ها هنا، ثم رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى عليها، وكبر وهو عليها، ثم ركع وهو عليها، ثم نزل القهقرى فسجد في أصل المنبر ثم عاد، فلما فرغ أقبل على الناس فقال ‏"‏ أيها الناس إنما صنعت هذا لتأتموا ولتعلموا صلاتي‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبد الرحمن بن محمد بن عبداللہ بن عبد القاری قرشی اسکندرانی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوحازم بن دینار نے بیان کیا کہ کچھ لوگ حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ ان کا آپس میں اس پراختلاف تھا کہ منبر نبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی لکڑی کس درخت کی تھی۔ اس لیے سعد رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا آپ نے فرمایا خدا گواہ ہے میں جانتا ہوں کہ منبر نبوی کس لکڑی کا تھا۔ پہلے دن جب وہ رکھا گیا اور سب سے پہلے جب اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تو میں اس کو بھی جانتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی فلاں عورت کے پاس جن کا حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے نام بھی بتا یا تھا۔ آدمی بھیجا کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے میرے لیے لکڑی جوڑ دینے کے لیے کہیں۔ تاکہ جب مجھے لوگوں سے کچھ کہنا ہوتو اس پر بیٹھا کروں چنانچہ انہوں نے اپنے غلام سے کہا اور وہ غابہ کے جھاؤ کی لکڑی سے اسے بنا کر لایا۔ انصاری خاتون نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے یہاں رکھوایا میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پر ( کھڑے ہو کر ) نماز پڑھائی۔ اسی پر کھڑے کھڑے تکبیر کہی۔ اسی پر رکوع کیا۔ پھر الٹے پاؤں لوٹے اور منبر کی جڑ میں سجدہ کیا اور پھر دوبارہ اسی طرح کیا جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کو خطاب فرمایا۔ لوگو! میں نے یہ اس لیے کیا کہ تم میری پیروی کرو اور میری طرح نماز پڑھنی سیکھ لو۔

تشریح : یعنی کھڑے کھڑے ان لکڑیوں پر وعظ کہا کروں جب بیٹھنے کی ضرورت ہو تو ان پر بیٹھ جاؤں۔ پس ترجمہ باب نکل آیا بعضوں نے کہا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث لا کر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو طبرانی نے نکالا کہ آپ نے اس منبر پر خطبہ پڑھا۔ غابہ نامی ایک گاؤں مدینہ کے قریب تھا وہاں جھاؤ کے درخت بہت تھے۔ آپ اس لیے الٹے پاؤں اترے تاکہ منہ قبلہ ہی کی طرف رہے۔

حدیث نمبر : 918
حدثنا سعيد بن أبي مريم، قال حدثنا محمد بن جعفر، قال أخبرني يحيى بن سعيد، قال أخبرني ابن أنس، أنه سمع جابر بن عبد الله، قال كان جذع يقوم إليه النبي صلى الله عليه وسلم فلما وضع له المنبر سمعنا للجذع مثل أصوات العشار حتى نزل النبي صلى الله عليه وسلم فوضع يده عليه‏.‏ قال سليمان عن يحيى أخبرني حفص بن عبيد الله بن أنس أنه سمع جابرا‏.‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر بن ابی کثیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یحیٰ بن سعید نے خبر دی، کہا کہ مجھے حفص بن عبد اللہ بن انس نے خبر دی، انہوں نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ایک کھجور کا تنا تھا جس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ جب آپ کے لیے منبر بن گیا ( آپ نے اس تنے پر ٹیک نہیں لگایا ) تو ہم نے اس سے رونے کی آواز سنی جیسے دس مہینے کی گابھن اونٹنی آواز کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اتر کر اپنا ہاتھ اس پر رکھا ( تب وہ آواز موقوف ہو ئی ) اور سلیمان نے یحییٰ سے یوں حدیث بیان کی کہ مجھے حفص بن عبید اللہ بن انس نے خبر دی اور انہوں نے جابر سے سنا۔

تشریح : سلیمان کی روایت کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے علامات النبوۃ میں نکالا اس حدیث میں انس کے بیٹے کا نام مذکور ہے۔ یہ لکڑی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں رونے لگی جب آپ نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو اس کو تسلی ہو گئی کیا مومنوں کو اس لکڑی کے برابر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں۔ جو آپ کے کلام پر دوسروں کی رائے اور قیاس کو مقدم سمجھتے ہیں ( مولانا وحید الزماں مرحوم ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں اس لکڑی کا رونا یہ معجزات نبوی میں سے ہے۔

حدیث نمبر : 919
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن سالم، عن أبيه، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب على المنبر فقال ‏"‏ من جاء إلى الجمعة فليغتسل‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے سالم نے، ان سے ان کے باپ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی الہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جو جمعہ کے لیے آئے وہ پہلے غسل کر لیا کرے۔

( اس حدیث سے منبر ثابت ہوا
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : خطبہ کھڑے ہوکر پڑھنا

وقال أنس بينا النبي صلى الله عليه وسلم يخطب قائما‏.‏
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر خطبہ دے رہے تھے۔
حدیث نمبر : 920
حدثنا عبيد الله بن عمر القواريري، قال حدثنا خالد بن الحارث، قال حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يخطب قائما ثم يقعد ثم يقوم، كما تفعلون الآن‏.‏
ہم سے عبید اللہ بن عمر قواریری نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبید اللہ بن عمر نے نافع سے بیان کیا، ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر خطبہ دیتے تھے۔ پھر بیٹھ جاتے اور پھر کھڑے ہوتے جیسے تم لوگ بھی آج کل کرتے ہو۔

شافعیہ نے کہا کہ قیام خطبہ کی شرط ہے کیونکہ قرآن شریف ( وَتَرَکُوکَ قَائِمًا ) ( الجمعۃ:11 ) اور حدیثوں سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے ہمیشہ کھڑے ہو کر خطبہ پڑھا۔ عبد الرحمن بن ابی الحکم بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا تھا تو کعب بن عجرہ صحابی رضی اللہ عنہ نے اس پر اعتراض کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : امام جب خطبہ دے تو لوگ امام کی طرف رخ کریں

واستقبل ابن عمر وأنس رضى الله عنهم الإمام‏.‏
امام کی طرف منہ کر لیں اور عبد اللہ بن عمر اور انس رضی اللہ عنہم نے خطبہ میں امام کی طرف منہ کیا۔

حدیث نمبر : 921
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن هلال بن أبي ميمونة، حدثنا عطاء بن يسار، أنه سمع أبا سعيد الخدري، قال إن النبي صلى الله عليه وسلم جلس ذات يوم على المنبر وجلسنا حوله‏.‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے یحی بن ابی کثیر سے بیان کیا، ان سے ہلال بن ابی میمونہ نے، انہوں نے کہا ہم سے عطاء بن یسار نے بیان کیا، انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن منبر پر تشریف فرما ہوئے اور ہم سب آپ کے ارد گرد بیٹھ گئے۔

اور سب نے آپ کی طرف منہ کیا۔ باب کا یہی مطلب ہے۔ خطبہ کا اولین مقصد امام کے خطاب کو پوری توجہ سے سننا اور دل میں جگہ دینا اور اس پر عمل کرنے کا عزم کرنا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ امام کا خطاب اس طور پر ہو کہ سامعین اسے سمجھ لیں۔ اسی سے سامعین کی مادری زبان میں خطبہ ہونا ثابت ہوتا ہے یعنی آیات واحادیث پڑھ پڑھ کر سامعین کی مادری زبان میں سمجھائی جائیں اور سامعین امام کی طرف منہ کر کے پوری توجہ سے سنیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : خطبہ میں اللہ کی حمد وثنا کے بعد اما بعد کہنا اس کو عکرمہ نے ا بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے

حدیث نمبر : 922
وقال محمود حدثنا أبو أسامة، قال حدثنا هشام بن عروة، قال أخبرتني فاطمة بنت المنذر، عن أسماء بنت أبي بكر، قالت دخلت على عائشة ـ رضى الله عنها ـ والناس يصلون قلت ما شأن الناس فأشارت برأسها إلى السماء‏.‏ فقلت آية فأشارت برأسها أى نعم‏.‏ قالت فأطال رسول الله صلى الله عليه وسلم جدا حتى تجلاني الغشى وإلى جنبي قربة فيها ماء ففتحتها فجعلت أصب منها على رأسي، فانصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم وقد تجلت الشمس، فخطب الناس، وحمد الله بما هو أهله ثم قال ‏"‏ أما بعد‏"‏‏. ‏ قالت ولغط نسوة من الأنصار، فانكفأت إليهن لأسكتهن فقلت لعائشة ما قال قالت قال ‏"‏ ما من شىء لم أكن أريته إلا قد رأيته في مقامي هذا حتى الجنة والنار، وإنه قد أوحي إلى أنكم تفتنون في القبور مثل ـ أو قريب من ـ فتنة المسيح الدجال، يؤتى أحدكم، فيقال له ما علمك بهذا الرجل فأما المؤمن ـ أو قال الموقن شك هشام ـ فيقول هو رسول الله، هو محمد صلى الله عليه وسلم جاءنا بالبينات والهدى فآمنا وأجبنا واتبعنا وصدقنا‏.‏ فيقال له نم صالحا، قد كنا نعلم إن كنت لتؤمن به‏.‏ وأما المنافق ـ أو قال المرتاب شك هشام ـ فيقال له ما علمك بهذا الرجل فيقول لا أدري، سمعت الناس يقولون شيئا فقلته‏"‏‏. ‏ قال هشام فلقد قالت لي فاطمة فأوعيته، غير أنها ذكرت ما يغلظ عليه‏.‏
اور محمود بن غیلان ( امام بخاری رحمہ اللہ کے استاذ ) نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہ مجھے فاطمہ بن ت منذر نے خبر دی، ان سے اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ میں عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئی۔ لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے ( اس بے وقت نماز پر تعجب سے پوچھا کہ ) یہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے سر سے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے پوچھا کیا کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے سر کے اشارہ سے ہاں کہا ( کیونکہ سورج گہن ہو گیا تھا ) اسماء نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیر تک نماز پڑھتے رہے۔ یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی۔ قریب ہی ایک مشک میں پانی بھرا رکھا تھا۔ میں اسے کھول کر اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر جب سورج صاف ہوگیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ختم کر دی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا۔ پہلے اللہ تعالیٰ کی اس کی شان کے مناسب تعریف بیان کی۔ اس کے بعد فرمایا اما بعد! اتنا فرمانا تھا کہ کچھ انصاری عورتیں شور کرنے لگیں۔ اس لیے میں ان کی طرف بڑھی کہ انہیں چپ کراؤں ( تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اچھی طرح سن سکوں مگرمیں آپ کا کلام نہ سن سکی ) تو پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ انہوں نے بتایا کہ آپ نے فرمایا کہ بہت سی چیزیں جو میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھیں، آج اپنی اس جگہ سے میں نے انہیں دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ تک میں نے آج دیکھی۔ مجھے وحی کے ذریعہ یہ بھی بتایاگیا کہ قبروں میں تمہاری ایسی آزمائش ہوگی جیسے کانے دجال کے سامنے یا اس کے قریب قریب۔ تم میں سے ہر ایک کے پاس فرشتہ آئے گا اور پوچھے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا اعتقاد رکھتا تھا؟ مومن یا یہ کہا کہ یقین والا ( ہشام کو شک تھا ) کہے گا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، ہمارے پاس ہدایت اور واضح دلائل لے کر آئے، اس لیے ہم ان پر ایمان لائے، ان کی دعوت قبول کی، ان کی اتباع کی اور ان کی تصدیق کی۔ اب اس سے کہا جائے گا کہ تو تو صالح ہے، آرام سے سو جا۔ ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ تیرا ان پر ایمان ہے۔ ہشام نے شک کے اظہار کے ساتھ کہا کہ رہا منافق یا شک کرنے والا تو جب اس سے پوچھا جائے گا کہ تو اس شخص کے بارے میں کیا کہتا ہے تو وہ جواب دے گا کہ مجھے نہیں معلوم میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا اسی کے مطابق میں نے بھی کہا۔ ہشام نے بیان کیا کہ فاطمہ بنت منذر نے جو کچھ کہاتھا۔ میں نے وہ سب یاد رکھا۔ لیکن انہوں نے قبر میں منافقوں پر سخت عذاب کے بارے میں جو کچھ کہا وہ مجھے یاد نہیں رہا۔

یہ حدیث یہاں اس لیے لائی گئی ہے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبہ میں اما بعد کا لفظ استعمال فرمایا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ بتانا چاہتے ہیں کہ خطبہ میں اما بعد کہنا سنت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام نے یہ کہا تھا۔ آپ کا “فصل خطاب”بھی یہی ہے پہلے خداوند قدوس کی حمد وتعریف پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوۃ وسلام بھیجا گیا اور اما بعد نے اس تمہید کو اصل خطاب سے جدا کر دیا۔ اما بعد کا مطلب یہ ہے کہ حمد وصلوۃ کے بعد اب اصل خطبہ شروع ہوگا۔

حدیث نمبر : 923
حدثنا محمد بن معمر، قال حدثنا أبو عاصم، عن جرير بن حازم، قال سمعت الحسن، يقول حدثنا عمرو بن تغلب، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتي بمال أو سبى فقسمه، فأعطى رجالا وترك رجالا فبلغه أن الذين ترك عتبوا، فحمد الله ثم أثنى عليه، ثم قال ‏"‏ أما بعد، فوالله إني لأعطي الرجل، وأدع الرجل، والذي أدع أحب إلى من الذي أعطي ولكن أعطي أقواما لما أرى في قلوبهم من الجزع والهلع، وأكل أقواما إلى ما جعل الله في قلوبهم من الغنى والخير، فيهم عمرو بن تغلب‏"‏‏. ‏ فوالله ما أحب أن لي بكلمة رسول الله صلى الله عليه وسلم حمر النعم‏.‏ تابعه يونس‏.
ہم سے محمد بن معمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عاصم نے جریر بن حازم سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے امام حسن بصری سے سنا، انہوں نے بیان کیاکہ ہم نے عمرو بن تغلب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مال آیا یا کوئی چیز آئی۔ آپ نے بعض صحابہ کو اس میں سے عطا کیا اور بعض کو کچھ نہیں دیا۔ پھر آپ کو معلوم ہوا کہ جن لوگوں کو آپ نے نہیں دیا تھا انہیں اس کا رنج ہوا، اس لیے آپ نے اللہ کی حمد وتعریف کی پھر فرمایا اما بعد! خدا کی قسم میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور بعض کو نہیں دیتا لیکن میں جس کو نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان سے زیادہ محبوب ہیں جن کو میں دیتا ہوں۔ میں تو ان لوگوں کو دیتا ہوں جن کے دلوں میں بے صبری اور لالچ پاتا ہوں لیکن جن کے دل اللہ تعالی نے خیر اور بے نیاز بنائے ہیں، میں ان پر بھروسہ کر تاہوں۔ عمرو بن تغلب بھی ان ہی لوگوں میں سے ہیں۔ خدا کی قسم میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ایک کلمہ سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب ہے۔

تشریح : سبحان اللہ صحابہ کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم فرمانا، جس سے آپ کی رضامندی ہو، ساری دنیا کا مال ودولت ملنے سے زیادہ پسند تھا، اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کمال خلق ثابت ہوا کہ آپ کسی کی ناراضگی پسند نہیں فرماتے تھے نہ کسی کی دل شکنی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا خطبہ سنایا کہ جن لوگوں کو نہیں دیا تھا وہ ان سے بھی زیادہ خوش ہوئے جن کو دیا تھا ( وحیدی ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی لفظ اما بعد! استعمال فرمایا۔ یہی مقصود باب ہے۔

حدیث نمبر : 924
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة، أن عائشة، أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ذات ليلة من جوف الليل، فصلى في المسجد، فصلى رجال بصلاته فأصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع أكثر منهم فصلوا معه، فأصبح الناس فتحدثوا فكثر أهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن أهله حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر أقبل على الناس، فتشهد ثم قال ‏"‏ أما بعد فإنه لم يخف على مكانكم، لكني خشيت أن تفرض عليكم فتعجزوا عنها‏"‏‏. ‏ تابعه يونس‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے عقیل سے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت اٹھ کر مسجد میں نماز پڑھی اور چند صحابہ بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھنے کھڑے ہوگئے۔ صبح کو ان صحابہ ( رضوان اللہ علہیم اجمعین ) نے دوسرے لوگوں سے اس کا ذکر کیا چنانچہ ( دوسرے دن ) اس سے بھی زیادہ جمع ہوگئے اور آپ کے پیچھے نماز پرھی۔ دوسری صبح کو اس کا چرچا اور زیادہ ہوا پھر کیا تھا تیسری رات بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوگئے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو صحابہ رضی اللہ عنہ نے آپ کے پیچھے نماز شروع کر دی۔ چوتھی رات جو آئی تو مسجد میں نمازیوں کی کثرت سے تل رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ لیکن آج رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز نہ پڑھائی اور فجر کی نماز کے بعد لوگوں سے فرمایا، پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا۔ اما بعد! مجھے تمہاری اس حاضری سے کوئی ڈر نہیں لیکن میں اس بات سے ڈرا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے، پھر تم سے یہ ادا نہ ہو سکے۔ اس روایت کی متابعت یونس نے کی ہے۔

یہ حدیث کئی جگہ آئی ہے یہاں اس مقصد کے تحت لائی گئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وعظ میں لفظ اما بعد استعمال فرمایا۔

حدیث نمبر : 925
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة، عن أبي حميد الساعدي، أنه أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام عشية بعد الصلاة، فتشهد وأثنى على الله بما هو أهله ثم قال ‏"‏ أما بعد‏"‏‏. ‏ تابعه أبو معاوية وأبو أسامة عن هشام عن أبيه عن أبي حميد عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أما بعد‏"‏‏. ‏ تابعه العدني عن سفيان في أما بعد‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ نے ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد کھڑے ہوئے۔ پہلے آپ نے کلمہ شہادت پڑھا، پھر اللہ تعالیٰ کے لائق اس کی تعریف کی، پھر فرمایا اما بعد! زہری کے ساتھ اس روایت کی متابعت ابو معاویہ اور ابو اسامہ نے ہشام سے کی، انہوں نے اپنے والد عروہ سے اس کی روایت کی، انہوں نے ابوحمید سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ نے فرمایا امابعد! اور ابوالیمان کے ساتھ اس حدیث کو محمد بن یحییٰ نے بھی سفیان سے روایت کیا۔ اس میں صرف امابعد ہے۔

یہ ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے جسے خود حضرت امام رحمہ اللہ نے ایمان اور نذور میں نکالا ہے۔ ہوا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن البتیہ نامی ایک صحابی کو زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا جب وہ زکوۃ کا مال لایا تو بعض چیزوں کی نسبت کہنے لگا کہ یہ مجھ کو بطور تحفہ ملی ہیں، اس وقت آپ نے عشاءکے بعد یہ خطبہ سنایا اور بتایا کہ اس طرح سرکاری سفر میں تم کو ذاتی تحائف لینے کا حق نہیں ہے جو بھی ملا ہے وہ سب بیت المال میں داخل کرنا ہوگا۔

حدیث نمبر : 926
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني علي بن حسين، عن المسور بن مخرمة، قال قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمعته حين تشهد يقول ‏"‏ أما بعد‏"‏‏. ‏ تابعه الزبيدي عن الزهري‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھ سے علی بن حسین نے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے حدیث بیان کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے۔ میں نے سنا کہ کلمہ شہادت کے بعد آپ نے فرمایا امابعد! شعیب کے ساتھ اس روایت کی متابعت محمد بن ولید زبیدی نے زہری سے کی ہے۔

زبیدی کی روایت کو طبرانی نے شامیوں کی سند میں وصل کیا ہے۔

حدیث نمبر : 927
حدثنا إسماعيل بن أبان، قال حدثنا ابن الغسيل، قال حدثنا عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال صعد النبي صلى الله عليه وسلم المنبر وكان آخر مجلس جلسه متعطفا ملحفة على منكبيه، قد عصب رأسه بعصابة دسمة، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ أيها الناس إلى‏"‏‏. ‏ فثابوا إليه ثم قال ‏"‏ أما بعد، فإن هذا الحى من الأنصار يقلون، ويكثر الناس، فمن ولي شيئا من أمة محمد صلى الله عليه وسلم فاستطاع أن يضر فيه أحدا أو ينفع فيه أحدا، فليقبل من محسنهم، ويتجاوز عن مسيهم‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن ابان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن غسیل عبد الرحمن بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عکرمہ نے ا بن عباس رضی اللہ عنہما کے واسطے سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے۔ منبر پر یہ آپ کی آخری بیٹھک تھی۔ آپ دونوں شانوں سے چادر لپیٹے ہوئے تھے اور سر مبارک پر ایک پٹی باندھ رکھی تھی۔ آپ نے حمد وثنا کے بعد فرمایا لوگو! میری بات سنو۔ چنانچہ لوگ آپ کی طرف کلام مبارک سننے کے لیے متوجہ ہو گئے۔ پھر آپ نے فرمایا امابعد! یہ قبیلہ انصار کے لوگ ( آنے والے دور میں ) تعداد میں بہت کم ہو جائیں گے پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کاجو شخص بھی حاکم ہو اور اسے نفع ونقصان پہنچانے کی طاقت ہو تو انصار کے نیک لوگوں کی نیکی قبول کرے اور ان کے برے کی برائی سے در گزر کرے۔

تشریح : یہ آپ کا مسجد نبوی میں آخری خطبہ تھا۔ آپ کی اس پیشین گوئی کے مطابق انصار اب دنیا میں کمی میں ہی ملتے ہیں۔ دوسرے شیوخ عرب کی نسلیں تمام عالم اسلامی میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اس شان کریمی پر قربان جائیے۔ اس احسان کے بدلے میں کہ انصار نے آپ کی اور اسلام کی کسمپرسی اور مصیبت کے وقت مدد کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام امت کو اس کی تلقین فرمارہے ہیں کہ انصار کو اپنا محسن سمجھو۔ ان میں جو اچھے ہوں ان کے ساتھ حسن معاملت بڑھ چڑھ کر کرو اور بروں سے در گزر کرو کہ ان کے آباءنے اسلام کی بڑی کسمپرسی کے عالم میں مدد کی تھی۔ اس باب میں جتنی حدیثیں آئی ہیں یہاں ان کا ذکر صر ف اسی وجہ سے ہوا ہے کہ کسی خطبہ وغیرہ کے موقع پر اما بعد کا اس میں ذکر ہے۔ قسطلانی نے کہا کہ حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انصارپر سے حدود شرعیہ اٹھادی جائیں حدود توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر امیر غریب سب پر قائم کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ یہاں انصار کی خفیف غلطیاں مراد ہیں کہ ان سے در گزر کیاجائے۔

حضرت امام الائمہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب کے تحت یہ مختلف احادیث روایت فرمائی ہیں۔ ان سب میں ترجمہ باب لفظ اما بعد سے نکالا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہر خطبہ میں اللہ کی حمد وثنا کے بعد لفظ اما بعد کا استعمال فرمایا کرتے تھے۔ گزشتہ سے پیوستہ حدیث میں عشاءکے بعد آپ کے ایک خطاب عام کا ذکر ہے جس میں آپ نے لفظ امابعد استعمال فرمایا۔ آپ نے ابن لبتیہ کو زکوۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا جب وہ اموال زکوۃ لے کر واپس ہوئے تو بعض چیزوں کے بارے میں وہ کہنے لگے کہ یہ مجھ کو بطور تحائف ملی ہیں اس وقت آپ نے عشاءکے بعد یہ وعظ فرمایا اور اس پر سخت اظہار ناراضگی فرمایا کہ کوئی شخص سر کاری طورپرتحصیل زکوۃ کے لیے جائے تو اس کا کیا حق ہے کہ وہ اس سفر میں اپنی ذات کے لیے تحائف قبول کرے حالانکہ اس کو جو بھی ملے گا وہ سب اسلامی بیت المال کا حق ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ نے ایمان ونذور میں پورے طور پر نقل فرمایا ہے۔
گزشتہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک آخری اور بالکل آخری خطاب عام کاتذکرہ ہے جو آپ نے مرض الموت کی حالت میں پیش فرمایا اور جس میں آپ نے حمد وثنا کے بعد لفظ امابعد استعمال فرمایا۔ پھر انصار کے بارے میں وصیت فرمائی کہ مستقبل میں مسلمان ذی اقتدار لوگوں کا فرض ہوگا کہ وہ انصار کے حقوق کا خاص خیال رکھیں۔ان میں اچھے لوگوں کو نگاہ احترام سے دیکھیں اور برے لوگوں سے درگزر کریں۔ فی الواقع انصار قیامت تک کے لیے امت مسلمہ میں اپنی خاص تاریخ کے مالک ہیں جس کو اسلام کا سنہری دور کہا جا سکتا ہے۔ یہ انصار ہی کی تاریخ ہے پس انصار کی عزت واحترام ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے دن دونوں خطبوں کے بیچ میں بیٹھنا

حدیث نمبر : 928
حدثنا مسدد، قال حدثنا بشر بن المفضل، قال حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن عبد الله، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يخطب خطبتين يقعد بينهما‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے بیا ن کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے نافع سے بیان کیا، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( جمعہ میں ) دو خطبے دیتے اور دونوں کے بیچ میں بیٹھتے تھے۔ ( خطبہ جمعہ کے بیچ میں یہ بیٹھنا بھی مسنون طریقہ ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے روز خطبہ کان لگا کر سننا

]حدیث نمبر : 929
حدثنا آدم، قال حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن أبي عبد الله الأغر، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا كان يوم الجمعة، وقفت الملائكة على باب المسجد يكتبون الأول فالأول، ومثل المهجر كمثل الذي يهدي بدنة، ثم كالذي يهدي بقرة، ثم كبشا، ثم دجاجة، ثم بيضة، فإذا خرج الإمام طووا صحفهم، ويستمعون الذكر‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عبد الرحمن بن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے ابوعبداللہ سلیمان اغرنے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے جامع مسجد کے دروازے پر آنے والوں کے نام لکھتے ہیں، سب سے پہلے آنے والا اونٹ کی قربانی دینے والے کی طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد آنے والا گائے کی قربانی دینے والے کی طرح پھر مینڈھے کی قربانی کا ثواب رہتا ہے۔ اس کے بعد مرغی کا، اس کے بعد انڈے کا۔ لیکن جب امام ( خطبہ دینے کے لیے ) باہر آجاتا ہے تو یہ فرشتے اپنے دفاتر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سننے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

تشریح : اس حدیث میں بہ سلسلہ ذکر ثواب مختلف جانوروں کے ساتھ مرغی اور انڈے کا بھی ذکر ہے۔ اس کے متعلق حضرت مولانا شیخ الحدیث عبید اللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں: والمشکل ذکر الدجاجۃ والبیضۃ لان الھدی لا یکون منھما واجیب بانہ من باب المشاکلۃ ای من تسمیۃ الشئی باسم قرینۃ والمراد با لاھداءھنا التصدق لما دل علیہ لفظ قرب فی روایۃ اخریٰ وھو یجوز بھما۔ ( مرعاۃ ج:2ص293 ) یعنی مرغی اور انڈے کا بھی ذکر آیا حالانکہ ان کی قربانی نہیں ہوتی، اس کا جواب دیا گیا کہ یہاں یہ ذکر باب مشاکلہ میں ہے یعنی کسی چیز کا ایسا نام رکھ دینا جو اس کے قرین کا نام ہو یہاں قربانی سے مراد صدقہ کرنا ہے جس پر بعض روایات میں آمدہ لفظ قرب دلالت کرتا ہے اور قربت میں رضائے الہی حاصل کرنے کے لیے ان ہر دو چیزوں کو بھی خیرات میں دیا جا سکتا ہے۔ حضرت امام المحدثین نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا کہ نمازیوں کو خطبہ کان لگا کر سننا چاہیے کیونکہ فرشتے بھی کان لگا کرخطبہ سنتے ہیں۔ شافعیہ کے نزدیک خطبہ کی حالت میں کلام کرنا مکروہ ہے لیکن حرام نہیں ہے۔ حنفیہ کے نزدیک خطبے کے وقت نماز اور کلام دونوں منع ہیں۔ بعضوں نے کہا کہ دنیا کا بے کار کلام منع ہے مگر ذکر یا دعا منع نہیں ہے اور امام احمد کا یہ قول ہے کہ جو خطبہ سنتا ہو یعنی خطبہ کی آواز اس کو پہنچتی ہو اس کو منع ہے جو نہ سنتا ہو اس کو منع نہیں۔ شوکانی نے اہلحدیث کا مذہب یہ لکھا ہے کہ خطبے کے وقت خاموش رہے۔ سید علامہ نے کہا تحیۃ المسجد مستثنیٰ ہے جو شخص مسجد میں آئے اور خطبہ ہو رہا ہو تو دو رکعت تحیۃ المسجد کی پڑھ لے۔ اسی طرح امام کا کسی ضرورت سے بات کرنا جیسے صحیح احادیث میں وارد ہے۔ مسلم کی روایت میں یہ زیادہ ہے کہ ( تحیۃ المسجد ) کی ہلکی پھلکی دو رکعتیں پڑھ لے۔ یہی اہلحدیث اور امام احمد کی دلیل ہے کہ خطبہ کی حالت میں تحیۃ المسجد پڑھ لینا چاہیے۔ حدیث سے یہ نکلا کہ امام خطبہ کی حالت میں ضرورت سے بات کر سکتا ہے اور یہی ترجمہ باب ہے۔ ہلکی پھلکی کا مطلب یہ کہ قرات کو طول نہ دے۔ یہ مطلب نہیں کہ جلدی جلدی پڑھ لے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : امام خطبہ کی حالت میں کسی شخص کو جو آئے دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھنے کا حکم دے سکتا ہے

حدیث نمبر : 930
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار، عن جابر بن عبد الله، قال جاء رجل والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب الناس يوم الجمعة فقال ‏"‏ أصليت يا فلان‏"‏‏. ‏ قال لا‏.‏ قال ‏"‏ قم فاركع‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے پوچھا کہ اے فلاں! کیا تم نے ( تحیۃ المسجدکی ) نماز پڑھ لی۔ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا اٹھ اور دو رکعت نماز پڑھ لے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جب امام خطبہ دے رہا ہو اور کوئی مسجد میں آئے تو ہلکی سی دورکعت نمازپڑھ لے

حدیث نمبر : 931
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، عن عمرو، سمع جابرا، قال دخل رجل يوم الجمعة والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب فقال ‏"‏ أصليت‏"‏‏. ‏ قال لا‏.‏ قال ‏"‏ فصل ركعتين‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبد اللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو سے بیان کیا، انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں آیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تم نے ( تحیۃ المسجد کی ) نماز پڑھ لی ہے؟ آنے والے نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اٹھو اور دو رکعت نماز ( تحیۃ المسجد ) پڑھ لو۔

تشریح : جمعہ کے دن حالت خطبہ میں کوئی شخص آئے تو اسے خطبہ ہی کی حالت میں دو رکعت تحیۃ المسجد پڑھے بغیر نہیں بیٹھنا چاہیے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو حدیث جابر بن عبد اللہ سے جسے حضرت امام المحدثین نے یہاں نقل فرمایا ہےروز روشن کی طرح ثابت ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نےباب فی الرکعتین اذا جاءالرجل والامام یخطب کے تحت اسی حدیث کو نقل فرمایا ہے، آخر میں فرماتے ہیں کہ ھذا حدیث حسن صحیح یہ حدیث بالکل حسن صحیح ہے، اس میں صاف بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ کی ہی حالت میں ایک آنے والے شخص ( سلیک نامی ) کو دو رکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا۔ بعض ضعیف روایتوں میں مذکور ہے کہ جس حالت میں اس شخص نے دو رکعت ادا کیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خطبہ بند کر دیا تھا۔ یہ روایت سند کے اعتبار سے لائق حجت نہیں ہے اور بخاری شریف کی مذکورہ حدیث حسن صحیح ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت خطبہ ہی میں اس کے دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے۔ لہذا اس کے مقابلے پر یہ روایت قابل حجت نہیں۔

دیوبندی حضرات فرماتے ہیں کہ آنے والے شخص کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت نماز کا حکم بے شک فرمایا مگر ابھی آپ نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ حدیث کے راوی حضرت جابر بن عبداللہ جو صاف لفظوں میں النبی صص یخطب الناس یوم الجمعۃ ( یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو خطبہ سنا رہے تھے ) نقل فرمارہے ہیں نعوذباللہ ان کا یہ بیان غلط ہے اور ابھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ شروع ہی نہیں فرمایا تھا۔ یہ کس قدر جرات ہے کہ ایک صحابی رسول کو غلط بیانی کامرتکب گردانا جائے اور بعض ضعیف روایات کا سہارا لے کر محدثین کرام کی فقاہت حدیث اور حضرت جابر بن عبداللہ کے بیان کی نہایت بے باکی کے ساتھ تغلیط کی جائے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس سلسلہ کی دوسری حدیث عبد اللہ بن ابی مسرح سے یوں نقل فرمائی ہے: ان ابا سعید الخدری دخل یوم الجمعۃ ومروان یخطب فقام یصلی فجاءالحرس لیجلسوہ فابی حتی صلی فلما انصرف اتیناہ فقلنا رحمک اللہ ان کادوا لیقعو بک فقال ماکنت لا ترکھما بعد شئی رایتہ من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثم ذکر ان رجلا جاءیوم الجمعۃ فی ھیئۃ بذۃ والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یوم الجمعۃ فامرہ فصلی رکعتین والنبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یعنی ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن مسجد میں اس حالت میں آئے کہ مروان خطبہ دے رہا تھا یہ نماز ( تحیۃ المسجد ) پڑھنے کھڑے ہوگئے۔یہ دیکھ کر سپاہی آئے اور ان کو زبردستی نماز سے باز رکھنا چاہا مگر یہ نہ مانے اور پڑھ کر ہی سلام پھیرا، عبد اللہ بن ابی مسرح کہتے ہیں کہ نماز کے بعد ہم نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ملا قات کی اور کہا کہ وہ سپاہی آپ پر حملہ آور ہونا ہی چاہتے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ میں بھی ان دو رکعتوں کو چھوڑنے والاہی نہیں تھا۔ خواہ سپاہی لوگ کچھ بھی کرتے کیونکہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے آپ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی پریشان شکل میں داخل مسجد ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اسی حالت میں دو رکعت پڑھ لینے کا حکم فرمایا۔ وہ نماز پڑھتا رہا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔

دو عادل گواہ!حضرت جابر بن عبد اللہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ہر دو عادل گواہوں کا بیان قارئین کے سامنے ہے۔ اس کے بعد مختلف تاویلات یا کمزور روایات کا سہارا لے کر ان ہر دو صحابیوں کی تغلیط کے درپے ہونا کسی بھی اہل علم کی شان کے خلاف ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ آگے فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عیینہ اور حضرت عبد الرحمن مقری ہر دو بزرگوں کا یہی معمول تھا کہ وہ اس حالت مذکورہ میں ان ہر دو رکعتوں کو ترک نہیں کیاکرتے تھے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس سلسلے کی دیگر روایات کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جن میں حضرت جابر کی ایک اور روایت طبرانی میں یوں مذکور ہے :عن جابر قال دخل النعمان بن نوفل ورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی المنبر یخطب یوم الجمعۃ فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم رکعتین وتجوز فیھما فاذا اتی احدکم یوم الجمعۃ والامام یخطب فلیصل رکعتین ولیخففھما کذا فی قوت المعتذی وتحفۃ الاحوذی، ج:2ص:264 یعنی ایک بزرگ نعمان بن نوفل نامی مسجد میں داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ آپ نے ان کو حکم فرمایا کہ اٹھ کر دو رکعت پڑھ کر بیٹھیں اور ان کو ہلکا کر کے پڑھیں اور جب بھی کوئی تمہارا اس حالت میں مسجد میں آئے کہ امام خطبہ دے رہاہو تو وہ ہلکی دو رکعتیں پڑھ کر ہی بیٹھے اور ان کو ہلکا پڑھے۔ حضرت علامہ نووی شارح مسلم شریف فرماتے ہیں:ھذہ الاحادیث کلھا یعنی التی رواھا مسلم صریحۃ فی الدلالۃ لمذھب الشافعی واحمد واسحاق فقھاءالمحدثین انہ اذا دخل الجامع یوم الجمعۃ والامام یخطب یستحب لہ ان یصلی رکعتین تحیۃ المسجد ویکرہ الجلوس قبل ان یصلیھما وانہ یستحب ان یتجوز فیھما یسمع بعد ھما الخطبۃ وحکی ھذا المذھب عن الحسن البصری وغیرہ من المتقدمین ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی ان جملہ احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے کہ امام جب خطبہ جمعہ دے رہا ہو اور کوئی آنے والا آئے تو اسے چاہیے کہ دو رکعتیں تحیۃ المسجد ادا کر کے ہی بیٹھے۔ بغیر ان دو رکعتوں کے اس کا بیٹھنا مکروہ ہے اور مستحب ہے کہ ہلکا پڑھے تاکہ پھرخطبہ سنے۔ یہی مسلک امام حسن بصری وغیرہ متقدمین کا ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے دوسرے حضرات کا مسلک بھی ذکر فرمایا ہے جو ان دو رکعتوں کے قائل نہیں ہیں پھر حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے والقول الاول اصح یعنی ان ہی حضرات کا مسلک صحیح ہے جو ان دو رکعتوں کے پڑھنے کے قائل ہیں۔ اس تفصیل کے بعد بھی اگر کوئی شخص ان دورکعتوں کو ناجائز تصور کرے تو یہ خود اس کی ذمہ داری ہے۔

آخر میں حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کا ارشاد گرامی بھی سن لیجیے آپ فرماتے ہیں: فاذا جاءوالامام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیھما رعایۃ لسنۃ الراتبۃ وادب الخطبۃ جمیعا بقدر الامکان ولا تغتر فی ھذہ المسالۃ بما یلھج بہ اھل بلدک فان الحدیث صحیح واجب اتباعہ ( حجۃ اللہ البالغۃ، جلد:دومص:101 ) یعنی جب کوئی نماز ی ایسے حال میں مسجد میں داخل ہو کہ امام خطبہ دے رہا ہو تو دو رکعت ہلکی خفیف پڑھ لے تاکہ سنت راتبہ اور ادب خطبہ ہر دو کی رعایت ہو سکے اور اس مسئلہ کے بارے میں تمہارے شہر کے لوگ جو شور کرتے ہیں اور ان رکعتوں کے پڑھنے سے روکتے ہیں؟ ان کے دھوکا میں نہ آنا کیونکہ اس مسئلہ کے حق میں حدیث صحیح وارد ہے جس کا اتباع واجب ہے وبا للّٰہ التوفیق۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : خطبہ میں دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

حدیث نمبر : 932
حدثنا مسدد، قال حدثنا حماد بن زيد، عن عبد العزيز، عن أنس،‏.‏ وعن يونس، عن ثابت، عن أنس، قال بينما النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة إذ قام رجل فقال يا رسول الله، هلك الكراع، وهلك الشاء، فادع الله أن يسقينا‏.‏ فمد يديه ودعا‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبد العزیز بن انس نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ( دوسری سند ) اور حماد بن یونس سے بھی روایت کی عبد العزیز اور یونس دونوں نے ثابت سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مویشی اور بکریاں ہلاک ہو گئیں ( بارش نہ ہونے کی وجہ سے ) آپ دعا فرمائیں کہ اللہ تعالی بارش برسائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور دعا کی۔
 
Top