Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے خطبہ میں بارش کے لیے دعا کرنا
حدیث نمبر : 933
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا الوليد، قال حدثنا أبو عمرو، قال حدثني إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، قال أصابت الناس سنة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فبينا النبي صلى الله عليه وسلم يخطب في يوم جمعة قام أعرابي فقال يا رسول الله هلك المال وجاع العيال، فادع الله لنا. فرفع يديه، وما نرى في السماء قزعة، فوالذي نفسي بيده ما وضعها حتى ثار السحاب أمثال الجبال، ثم لم ينزل عن منبره حتى رأيت المطر يتحادر على لحيته صلى الله عليه وسلم فمطرنا يومنا ذلك، ومن الغد، وبعد الغد والذي يليه، حتى الجمعة الأخرى، وقام ذلك الأعرابي ـ أو قال غيره ـ فقال يا رسول الله، تهدم البناء وغرق المال، فادع الله لنا. فرفع يديه، فقال " اللهم حوالينا، ولا علينا". فما يشير بيده إلى ناحية من السحاب إلا انفرجت، وصارت المدينة مثل الجوبة، وسال الوادي قناة شهرا، ولم يجئ أحد من ناحية إلا حدث بالجود.
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام ابو عمرو اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قحط پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کہا یا رسول اللہ! جانور مر گئے اور اہل وعیال دانوں کو ترس گئے۔ آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے، اس وقت بادل کا ایک ٹکڑا بھی آسمان پر نظر نہیں آرہا تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح گھٹا امڈ آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ریش مبارک سے ٹپک رہا تھا۔ اس دن اس کے بعد اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ ( دوسرے جمعہ کو ) یہی دیہاتی پھر کھڑا ہوایا کہا کہ کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! عمارتیں منہدم ہوگئیں اور جانور ڈوب گئے۔ آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیجئے۔ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! اب دوسری طرف بارش برسا اور ہم سے روک دے۔ آپ ہاتھ سے بادل کے لیے جس طرف بھی اشارہ کرتے، ادھر مطلع صاف ہوجاتا۔ سارا مدینہ تالاب کی طرح بن گیا تھا اور قناة کا نالا مہینہ بھربہتا رہا اور ارد گرد سے آنے والے بھی اپنے یہاں بھر پور بارش کی خبر دیتے رہے۔
تشریح : باب اور نقل کردہ حدیث سے ظاہر ہے کہ امام بوقت ضرورت جمعہ کے خطبہ میں بھی بارش کے لیے دعا کر سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی ایسی عوامی ضرورت کے لیے دعا کرنے کی درخواست بحالت خطبہ امام سے کی جا سکتی ہے اور یہ بھی کہ امام ایسی درخواست پر خطبہ ہی میں توجہ کر سکتا ہے۔جن حضرات نے خطبہ کو نماز کا درجہ دے کر اس میں بوقت ضرورت تکلم کو بھی منع بتلایا ہے، اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے۔
علامہ شوکانی اس واقعہ پر لکھتے ہیں: وفی الحدیث فوائد منھا جواز المکالمۃ من الخطیب حال الخطبۃ وتکرار الدعاءوادخال الاستسقاءفی خطبۃ والدعاءبہ علی المنبر وترک تحویل الرداءوالا ستقبال والاجتزاءبصلاۃ الجمعۃ عن صلوۃ الاستسقاءکما تقدم وفیہ علم من اعلام النبوۃ فیہ اجابۃ اللہ تعالی دعاءنبیہ وامتثال السحاب امرہ کما وقع کثیر من الروایات وغیر ذلک من الفوائد ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث سے بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلا حالت خطبہ میں خطیب سے بات کرنے کا جواز نیز دعا کرنا ( اور اس کے لیے ہاتھوں کو اٹھا کردعا کرنا ) اورخطبہ جمعہ میں استسقاءکی دعاءاور استسقاءکے لیے ایسے موقع پر چادر الٹنے پلٹنے کو چھوڑ دینا اور کعبہ رخ بھی نہ ہونا اور نماز جمعہ کو نماز استسقاءکے بدلے کافی سمجھنا اور اس میں آپ کی نبوت کی ایک اہم دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور بادلوں کو آپ کا فرمان تسلیم کرنے پر مامور فرما دیا اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ آپ نے کن لفظوں میں دعائے استسقاءکی۔ اس بارے میں بھی کئی روایات ہیں جن میں جامع دعائیں یہ ہیں: الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین لا الہ الا اللہ یفعل اللہ ما یرید اللھم انت اللہ لا الہ الا علامہ شوکانی اس واقعہ پر لکھتے ہیں: وفی الحدیث فوائد منھا جواز المکالمۃ من الخطیب حال الخطبۃ وتکرار الدعاءوادخال الاستسقاءفی خطبۃ والدعاءبہ علی المنبر وترک تحویل الرداءوالا ستقبال والاجتزاءبصلاۃ الجمعۃ عن صلوۃ الاستسقاءکما تقدم وفیہ علم من اعلام النبوۃ فیہ اجابۃ اللہ تعالی دعاءنبیہ وامتثال السحاب امرہ کما وقع کثیر من الروایات وغیر ذلک من الفوائد ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث سے بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلا حالت خطبہ میں خطیب سے بات کرنے کا جواز نیز دعا کرنا ( اور اس کے لیے ہاتھوں کو اٹھا کردعا کرنا ) اورخطبہ جمعہ میں استسقاءکی دعاءاور استسقاءکے لیے ایسے موقع پر چادر الٹنے پلٹنے کو چھوڑ دینا اور کعبہ رخ بھی نہ ہونا اور نماز جمعہ کو نماز استسقاءکے بدلے کافی سمجھنا اور اس میں آپ کی نبوت کی ایک اہم دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور بادلوں کو آپ کا فرمان تسلیم کرنے پر مامور فرما دیا اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ آپ نے کن لفظوں میں دعائے استسقاءکی۔ اس بارے میں بھی کئی روایات ہیں جن میں جامع دعائیں یہ ہیں: الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین لا الہ الا اللہ یفعل اللہ ما یرید اللھم انت اللہ لا الہ الا انت الغنی ونحن الفقراءانزل علینا الغیث ما انزلت لنا قوۃ وبلاغا الی حین۔ اللھم اسقنا غیثا مغیثا مریئا مریعا طبقا غدقا عاجلا غیررائث اللھم اسق عبادت وبھا ئمک وانشر رحمتک واحی بلدک المیت یہ بھی امر مشروع ہے کہ ایسے مواقع پر اپنے میں سے کسی نیک بزرگ کو دعا کے لیے آگے بڑھا یا جائے اور وہ اللہ سے رو رو کر دعا کرے اور لوگ پیچھے سے آمین آمین کہہ کر تضرع وزاری کے ساتھ اللہ سے پانی کا سوال کریں۔
باب : جمعہ کے خطبہ میں بارش کے لیے دعا کرنا
حدیث نمبر : 933
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا الوليد، قال حدثنا أبو عمرو، قال حدثني إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، قال أصابت الناس سنة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فبينا النبي صلى الله عليه وسلم يخطب في يوم جمعة قام أعرابي فقال يا رسول الله هلك المال وجاع العيال، فادع الله لنا. فرفع يديه، وما نرى في السماء قزعة، فوالذي نفسي بيده ما وضعها حتى ثار السحاب أمثال الجبال، ثم لم ينزل عن منبره حتى رأيت المطر يتحادر على لحيته صلى الله عليه وسلم فمطرنا يومنا ذلك، ومن الغد، وبعد الغد والذي يليه، حتى الجمعة الأخرى، وقام ذلك الأعرابي ـ أو قال غيره ـ فقال يا رسول الله، تهدم البناء وغرق المال، فادع الله لنا. فرفع يديه، فقال " اللهم حوالينا، ولا علينا". فما يشير بيده إلى ناحية من السحاب إلا انفرجت، وصارت المدينة مثل الجوبة، وسال الوادي قناة شهرا، ولم يجئ أحد من ناحية إلا حدث بالجود.
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام ابو عمرو اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قحط پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کہا یا رسول اللہ! جانور مر گئے اور اہل وعیال دانوں کو ترس گئے۔ آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے، اس وقت بادل کا ایک ٹکڑا بھی آسمان پر نظر نہیں آرہا تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح گھٹا امڈ آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ریش مبارک سے ٹپک رہا تھا۔ اس دن اس کے بعد اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ ( دوسرے جمعہ کو ) یہی دیہاتی پھر کھڑا ہوایا کہا کہ کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! عمارتیں منہدم ہوگئیں اور جانور ڈوب گئے۔ آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیجئے۔ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! اب دوسری طرف بارش برسا اور ہم سے روک دے۔ آپ ہاتھ سے بادل کے لیے جس طرف بھی اشارہ کرتے، ادھر مطلع صاف ہوجاتا۔ سارا مدینہ تالاب کی طرح بن گیا تھا اور قناة کا نالا مہینہ بھربہتا رہا اور ارد گرد سے آنے والے بھی اپنے یہاں بھر پور بارش کی خبر دیتے رہے۔
تشریح : باب اور نقل کردہ حدیث سے ظاہر ہے کہ امام بوقت ضرورت جمعہ کے خطبہ میں بھی بارش کے لیے دعا کر سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی ایسی عوامی ضرورت کے لیے دعا کرنے کی درخواست بحالت خطبہ امام سے کی جا سکتی ہے اور یہ بھی کہ امام ایسی درخواست پر خطبہ ہی میں توجہ کر سکتا ہے۔جن حضرات نے خطبہ کو نماز کا درجہ دے کر اس میں بوقت ضرورت تکلم کو بھی منع بتلایا ہے، اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے۔
علامہ شوکانی اس واقعہ پر لکھتے ہیں: وفی الحدیث فوائد منھا جواز المکالمۃ من الخطیب حال الخطبۃ وتکرار الدعاءوادخال الاستسقاءفی خطبۃ والدعاءبہ علی المنبر وترک تحویل الرداءوالا ستقبال والاجتزاءبصلاۃ الجمعۃ عن صلوۃ الاستسقاءکما تقدم وفیہ علم من اعلام النبوۃ فیہ اجابۃ اللہ تعالی دعاءنبیہ وامتثال السحاب امرہ کما وقع کثیر من الروایات وغیر ذلک من الفوائد ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث سے بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلا حالت خطبہ میں خطیب سے بات کرنے کا جواز نیز دعا کرنا ( اور اس کے لیے ہاتھوں کو اٹھا کردعا کرنا ) اورخطبہ جمعہ میں استسقاءکی دعاءاور استسقاءکے لیے ایسے موقع پر چادر الٹنے پلٹنے کو چھوڑ دینا اور کعبہ رخ بھی نہ ہونا اور نماز جمعہ کو نماز استسقاءکے بدلے کافی سمجھنا اور اس میں آپ کی نبوت کی ایک اہم دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور بادلوں کو آپ کا فرمان تسلیم کرنے پر مامور فرما دیا اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ آپ نے کن لفظوں میں دعائے استسقاءکی۔ اس بارے میں بھی کئی روایات ہیں جن میں جامع دعائیں یہ ہیں: الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین لا الہ الا اللہ یفعل اللہ ما یرید اللھم انت اللہ لا الہ الا علامہ شوکانی اس واقعہ پر لکھتے ہیں: وفی الحدیث فوائد منھا جواز المکالمۃ من الخطیب حال الخطبۃ وتکرار الدعاءوادخال الاستسقاءفی خطبۃ والدعاءبہ علی المنبر وترک تحویل الرداءوالا ستقبال والاجتزاءبصلاۃ الجمعۃ عن صلوۃ الاستسقاءکما تقدم وفیہ علم من اعلام النبوۃ فیہ اجابۃ اللہ تعالی دعاءنبیہ وامتثال السحاب امرہ کما وقع کثیر من الروایات وغیر ذلک من الفوائد ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث سے بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلا حالت خطبہ میں خطیب سے بات کرنے کا جواز نیز دعا کرنا ( اور اس کے لیے ہاتھوں کو اٹھا کردعا کرنا ) اورخطبہ جمعہ میں استسقاءکی دعاءاور استسقاءکے لیے ایسے موقع پر چادر الٹنے پلٹنے کو چھوڑ دینا اور کعبہ رخ بھی نہ ہونا اور نماز جمعہ کو نماز استسقاءکے بدلے کافی سمجھنا اور اس میں آپ کی نبوت کی ایک اہم دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور بادلوں کو آپ کا فرمان تسلیم کرنے پر مامور فرما دیا اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ آپ نے کن لفظوں میں دعائے استسقاءکی۔ اس بارے میں بھی کئی روایات ہیں جن میں جامع دعائیں یہ ہیں: الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین لا الہ الا اللہ یفعل اللہ ما یرید اللھم انت اللہ لا الہ الا انت الغنی ونحن الفقراءانزل علینا الغیث ما انزلت لنا قوۃ وبلاغا الی حین۔ اللھم اسقنا غیثا مغیثا مریئا مریعا طبقا غدقا عاجلا غیررائث اللھم اسق عبادت وبھا ئمک وانشر رحمتک واحی بلدک المیت یہ بھی امر مشروع ہے کہ ایسے مواقع پر اپنے میں سے کسی نیک بزرگ کو دعا کے لیے آگے بڑھا یا جائے اور وہ اللہ سے رو رو کر دعا کرے اور لوگ پیچھے سے آمین آمین کہہ کر تضرع وزاری کے ساتھ اللہ سے پانی کا سوال کریں۔