• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے خطبہ میں بارش کے لیے دعا کرنا

حدیث نمبر : 933
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا الوليد، قال حدثنا أبو عمرو، قال حدثني إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، قال أصابت الناس سنة على عهد النبي صلى الله عليه وسلم فبينا النبي صلى الله عليه وسلم يخطب في يوم جمعة قام أعرابي فقال يا رسول الله هلك المال وجاع العيال، فادع الله لنا‏.‏ فرفع يديه، وما نرى في السماء قزعة، فوالذي نفسي بيده ما وضعها حتى ثار السحاب أمثال الجبال، ثم لم ينزل عن منبره حتى رأيت المطر يتحادر على لحيته صلى الله عليه وسلم فمطرنا يومنا ذلك، ومن الغد، وبعد الغد والذي يليه، حتى الجمعة الأخرى، وقام ذلك الأعرابي ـ أو قال غيره ـ فقال يا رسول الله، تهدم البناء وغرق المال، فادع الله لنا‏.‏ فرفع يديه، فقال ‏"‏ اللهم حوالينا، ولا علينا‏"‏‏. ‏ فما يشير بيده إلى ناحية من السحاب إلا انفرجت، وصارت المدينة مثل الجوبة، وسال الوادي قناة شهرا، ولم يجئ أحد من ناحية إلا حدث بالجود‏.
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام ابو عمرو اوزاعی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسحاق بن عبد اللہ بن ابی طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قحط پڑا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ ایک دیہاتی نے کہا یا رسول اللہ! جانور مر گئے اور اہل وعیال دانوں کو ترس گئے۔ آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اٹھائے، اس وقت بادل کا ایک ٹکڑا بھی آسمان پر نظر نہیں آرہا تھا۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میری جان ہے ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو نیچے بھی نہیں کیا تھا کہ پہاڑوں کی طرح گھٹا امڈ آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی منبر سے اترے بھی نہیں تھے کہ میں نے دیکھا کہ بارش کا پانی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ریش مبارک سے ٹپک رہا تھا۔ اس دن اس کے بعد اور متواتر اگلے جمعہ تک بارش ہوتی رہی۔ ( دوسرے جمعہ کو ) یہی دیہاتی پھر کھڑا ہوایا کہا کہ کوئی دوسرا شخص کھڑا ہوا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! عمارتیں منہدم ہوگئیں اور جانور ڈوب گئے۔ آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا کیجئے۔ آپ نے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کی کہ اے اللہ! اب دوسری طرف بارش برسا اور ہم سے روک دے۔ آپ ہاتھ سے بادل کے لیے جس طرف بھی اشارہ کرتے، ادھر مطلع صاف ہوجاتا۔ سارا مدینہ تالاب کی طرح بن گیا تھا اور قناة کا نالا مہینہ بھربہتا رہا اور ارد گرد سے آنے والے بھی اپنے یہاں بھر پور بارش کی خبر دیتے رہے۔

تشریح : باب اور نقل کردہ حدیث سے ظاہر ہے کہ امام بوقت ضرورت جمعہ کے خطبہ میں بھی بارش کے لیے دعا کر سکتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی ایسی عوامی ضرورت کے لیے دعا کرنے کی درخواست بحالت خطبہ امام سے کی جا سکتی ہے اور یہ بھی کہ امام ایسی درخواست پر خطبہ ہی میں توجہ کر سکتا ہے۔جن حضرات نے خطبہ کو نماز کا درجہ دے کر اس میں بوقت ضرورت تکلم کو بھی منع بتلایا ہے، اس حدیث سے ظاہر ہے کہ ان کا یہ خیال صحیح نہیں ہے۔

علامہ شوکانی اس واقعہ پر لکھتے ہیں: وفی الحدیث فوائد منھا جواز المکالمۃ من الخطیب حال الخطبۃ وتکرار الدعاءوادخال الاستسقاءفی خطبۃ والدعاءبہ علی المنبر وترک تحویل الرداءوالا ستقبال والاجتزاءبصلاۃ الجمعۃ عن صلوۃ الاستسقاءکما تقدم وفیہ علم من اعلام النبوۃ فیہ اجابۃ اللہ تعالی دعاءنبیہ وامتثال السحاب امرہ کما وقع کثیر من الروایات وغیر ذلک من الفوائد ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث سے بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلا حالت خطبہ میں خطیب سے بات کرنے کا جواز نیز دعا کرنا ( اور اس کے لیے ہاتھوں کو اٹھا کردعا کرنا ) اورخطبہ جمعہ میں استسقاءکی دعاءاور استسقاءکے لیے ایسے موقع پر چادر الٹنے پلٹنے کو چھوڑ دینا اور کعبہ رخ بھی نہ ہونا اور نماز جمعہ کو نماز استسقاءکے بدلے کافی سمجھنا اور اس میں آپ کی نبوت کی ایک اہم دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور بادلوں کو آپ کا فرمان تسلیم کرنے پر مامور فرما دیا اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ آپ نے کن لفظوں میں دعائے استسقاءکی۔ اس بارے میں بھی کئی روایات ہیں جن میں جامع دعائیں یہ ہیں: الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین لا الہ الا اللہ یفعل اللہ ما یرید اللھم انت اللہ لا الہ الا علامہ شوکانی اس واقعہ پر لکھتے ہیں: وفی الحدیث فوائد منھا جواز المکالمۃ من الخطیب حال الخطبۃ وتکرار الدعاءوادخال الاستسقاءفی خطبۃ والدعاءبہ علی المنبر وترک تحویل الرداءوالا ستقبال والاجتزاءبصلاۃ الجمعۃ عن صلوۃ الاستسقاءکما تقدم وفیہ علم من اعلام النبوۃ فیہ اجابۃ اللہ تعالی دعاءنبیہ وامتثال السحاب امرہ کما وقع کثیر من الروایات وغیر ذلک من الفوائد ( نیل الاوطار ) یعنی اس حدیث سے بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلا حالت خطبہ میں خطیب سے بات کرنے کا جواز نیز دعا کرنا ( اور اس کے لیے ہاتھوں کو اٹھا کردعا کرنا ) اورخطبہ جمعہ میں استسقاءکی دعاءاور استسقاءکے لیے ایسے موقع پر چادر الٹنے پلٹنے کو چھوڑ دینا اور کعبہ رخ بھی نہ ہونا اور نماز جمعہ کو نماز استسقاءکے بدلے کافی سمجھنا اور اس میں آپ کی نبوت کی ایک اہم دلیل بھی ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور بادلوں کو آپ کا فرمان تسلیم کرنے پر مامور فرما دیا اور بھی بہت سے فوائد ہیں۔ آپ نے کن لفظوں میں دعائے استسقاءکی۔ اس بارے میں بھی کئی روایات ہیں جن میں جامع دعائیں یہ ہیں: الحمد للہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین لا الہ الا اللہ یفعل اللہ ما یرید اللھم انت اللہ لا الہ الا انت الغنی ونحن الفقراءانزل علینا الغیث ما انزلت لنا قوۃ وبلاغا الی حین۔ اللھم اسقنا غیثا مغیثا مریئا مریعا طبقا غدقا عاجلا غیررائث اللھم اسق عبادت وبھا ئمک وانشر رحمتک واحی بلدک المیت یہ بھی امر مشروع ہے کہ ایسے مواقع پر اپنے میں سے کسی نیک بزرگ کو دعا کے لیے آگے بڑھا یا جائے اور وہ اللہ سے رو رو کر دعا کرے اور لوگ پیچھے سے آمین آمین کہہ کر تضرع وزاری کے ساتھ اللہ سے پانی کا سوال کریں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے دن خطبہ کے وقت چپ رہنا

وإذا قال لصاحبه أنصت‏.‏ فقد لغا‏.‏ وقال سلمان عن النبي صلى الله عليه وسلم ينصت إذا تكلم الإمام‏.‏

اور یہ بھی لغو حرکت ہے کہ اپنے پاس بیٹھے ہوئے شخص سے کوئی کہے کہ “چپ رہ” سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ امام جب خطبہ شروع کرے تو خاموش ہوجانا چاہیے۔

حدیث نمبر : 934
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني سعيد بن المسيب، أن أبا هريرة، أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا قلت لصاحبك يوم الجمعة أنصت‏.‏ والإمام يخطب فقد لغوت‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے عقیل سے بیان کیا، ان سے ا بن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے سعید بن مسیب نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام جمعہ کا خطبہ دے رہا ہو اور تو اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے کہے کہ “چپ رہ” تو تو نے خود ایک لغو حرکت کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے دن وہ گھڑی جس میں دعا قبول ہوتی ہے

حدیث نمبر : 935
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر يوم الجمعة فقال ‏"‏ فيه ساعة لا يوافقها عبد مسلم، وهو قائم يصلي، يسأل الله تعالى شيئا إلا أعطاه إياه‏"‏‏. ‏ وأشار بيده يقللها‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے امام مالک رحمہ اللہ سے بیان کیا، ان سے ابو الزناد نے، ان سے عبد الرحمن اعرج نے، ان سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے ذکر میں ایک دفعہ فرمایا کہ اس دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان بندہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو اور کوئی چیز اللہ پاک سے مانگے تو اللہ پاک اسے وہ چیز ضرور دیتا ہے۔ ہاتھ کے اشارے سے آپ نے بتلایا کہ وہ ساعت بہت تھوڑی سی ہے۔

تشریح : اس گھڑی کی تعیین میں اختلاف ہے کہ یہ گھڑی کس وقت آتی ہے بعض روایات میں اس کے لیے وہ وقت بتلایا گیاہے جب امام نماز جمعہ شروع کر تا ہے۔ گویا نماز ختم ہونے تک درمیان میں یہ گھڑی آتی ہے بعض روایات میں طلوع فجر سے اس کا وقت بتلایاگیا ہے۔ بعض روایات میں عصر سے مغرب تک کا وقت اس کے لیے بتلایا گیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں بہت تفصیل کے ساتھ ان جملہ روایات پر روشنی ڈالی ہے اور اس بارے میں علمائے اسلام وفقہاءعظام کے143قوال کیے ہیں۔ امام شوکانی نے علامہ ابن منیر کا خیال ان لفظوں میں نقل فرمایا ہے: قال ابن المنیر اذا علم ان فائدۃ الابھام لھذا الساعۃ وللیلۃ القدر بعث الدواعی علی الاکثار من الصلاۃ والدعاءولووقع البیان لا تکل الناس علی ذالک وترکوا ما عداھا فالعجب بعد ذالک ممن یتکل فی طلب تحدیدھا وقال فی موضع آخر یحسن جمع الاقوال فتکون ساعۃ الاجابۃ واحدۃ منھا لا بعینھا فیصاد فھا من اجتھد فی جمیعھا ( نیل الاوطار ) یعنی اس گھڑی کے پوشیدہ رکھنے میں اور اسی طرح لیلۃ القدر کے پوشیدہ ہونے میں فائدہ یہ ہے کہ ان کی تلاش کے لیے بکثرت نماز نفل ادا کی جائے اور دعائیں کی جائیں، اس صورت میں ضرورضرور وہ گھڑی کسی نہ کسی ساعت میں اسے حاصل ہوگی۔ اگر ان کو ظاہر کر دیا جاتا تو لوگ بھروسہ کر کے بیٹھ جاتے اور صرف اس گھڑی میں عبادت کرتے۔ پس تعجب ہے اس شخص پر جواسے محدود وقت میں پالینے پر بھروسہ کئے ہوئے ہے۔ بہتر ہے کہ مذکورہ بالا اقوال کو بایں صورت جمع کیا جائے کہ اجابت کی گھڑی وہ ایک ہی ساعت ہے جسے معین نہیں کیا جاسکتا پس جوتمام اوقات میں اس کے لیے کوشش کرے گا وہ ضرور اسے کسی نہ کسی وقت میں پالے گا۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے اپنا فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے والقول بانھا آخر ساعۃ من الیوم ھو ارجح الاقوال والیہ ذھب الجمھور ( من الصحابۃ والتابعین والائمۃ ) الخ یعنی اس بارے میں راجح قول یہی ہے کہ وہ گھڑی آخر دن میں بعد عصر آتی ہے اور جمہور صحابہ وتابعین وائمہ دین کا یہی خیال ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : اگر جمعہ کی نماز میں کچھ لوگ امام کو چھوڑ کر چلے جائیں تو امام اور باقی نمازیوں کی نماز صحیح ہو جائے گی

حدیث نمبر : 936
حدثنا معاوية بن عمرو، قال حدثنا زائدة، عن حصين، عن سالم بن أبي الجعد، قال حدثنا جابر بن عبد الله، قال بينما نحن نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم إذ أقبلت عير تحمل طعاما، فالتفتوا إليها حتى ما بقي مع النبي صلى الله عليه وسلم إلا اثنا عشر رجلا، فنزلت هذه الآية ‏{‏وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما‏}‏
ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ نے حصین سے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی جعد نے، انہوں نے کہا کہ ہم سے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں غلہ لادے ہوئے ایک تجارتی قافلہ ادھر سے گزرا۔ لوگ خطبہ چھوڑ کر ادھر چل دیئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کل بارہ آدمی رہ گئے۔ اس وقت سورۃ جمعہ کی یہ آیت اتری۔ ترجمہ “ اور جب یہ لوگ تجارت اور کھیل دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں ”

تشریح : ایک مرتبہ مدینہ میں غلہ کی سخت کمی تھی کہ ایک تجارتی قافلہ غلہ لے کر مدینہ آیا، اس کی خبر سن کر کچھ لوگ جمعہ کے دن عین خطبہ کی حالت میں باہر نکل گئے، اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔ حضرت امام نے اس واقعہ سے یہ ثابت فرمایا کہ احناف اور شوافع جمعہ کی صحت کے لیے جو خاص قید لگا تے ہیں وہ صحیح نہیں ہے، اتنی تعداد ضرور ہو جسے جماعت کہا جا سکے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سے اکثر لوگ چلے گئے پھر بھی آپ نے نمازجمعہ ادا فرمائی۔ یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ صحابہ کی شان خود قرآن میں یوں ہے رِجَال لَا تُلھِیھِم تِجَارَۃ الخ ( النور:37 ) یعنی میرے بندے تجارت وغیرہ میں غافل ہو کر میری یاد کبھی نہیں چھوڑدیتے۔ سوا س کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ اس آیت کے نزول سے پہلے کا ہے بعد میں وہ حضرات اپنے کاموں سے رک گئے اور صحیح معنوں میں اس آیت کے مصداق بن گئے تھے رضی اللہ عنہم وارضاہم ( آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کے بعد اور اس سے پہلے سنت پڑھنا

حدیث نمبر : 937
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي قبل الظهر ركعتين، وبعدها ركعتين، وبعد المغرب ركعتين في بيته، وبعد العشاء ركعتين وكان لا يصلي بعد الجمعة حتى ينصرف فيصلي ركعتين‏.
ہم سے عبد اللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک رحمہ اللہ نے نافع سے خبر دی، ان سے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے دو رکعت، اس کے بعد دو رکعت اور مغرب کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے اور عشاء کے بعد دو رکعتیں پڑھتے اور جمعہ کے بعد دو رکعتیں جب گھر واپس ہوتے تب پڑھا کرتے تھے۔

چونکہ ظہر کی جگہ جمعہ کی نماز ہے، اس لیے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جو سنتیں ظہر سے پہلے اور پیچھے مسنون ہیں، وہی جمعہ کے پہلے اور پیچھے بھی مسنون ہیں۔ بعض دوسری احادیث میں ان سنتوں کا ذکر بھی آیا ہے جمعہ کے بعد کی سنتیں اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں پڑھا کر تے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ

باب : اللہ عزوجل کا ( سورۃ جمعہ میں ) یہ فرمانا کہ جب جمعہ کی نماز ختم ہو جائے تو اپنے کام کاج کے لیے زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کے فضل ( روزی، رزق یا علم ) کو ڈھونڈو

حدیث نمبر : 938
حدثنا سعيد بن أبي مريم، قال حدثنا أبو غسان، قال حدثني أبو حازم، عن سهل، قال كانت فينا امرأة تجعل على أربعاء في مزرعة لها سلقا، فكانت إذا كان يوم جمعة تنزع أصول السلق فتجعله في قدر، ثم تجعل عليه قبضة من شعير تطحنها، فتكون أصول السلق عرقه، وكنا ننصرف من صلاة الجمعة فنسلم عليها، فتقرب ذلك الطعام إلينا فنلعقه، وكنا نتمنى يوم الجمعة لطعامها ذلك‏.‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوغسان محمد بن مطر مدنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوحاز م سلمہ بن دینار نے سہل بن سعد کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے بیان کیا کہ ہمارے یہاں ایک عورت تھی جو نالوں پر اپنے ایک کھیت میں چقندر بوتی۔ جمعہ کا دن آتا تو وہ چقندراکھاڑ لاتیں اور اسے ایک ہانڈی میں پکاتیں پھر اوپر سے ایک مٹھی جو کا آٹا چھڑک دیتیں۔ اس طرح یہ چقندر گوشت کی طرح ہو جاتے۔ جمعہ سے واپسی میں ہم انہیں سلام کرنے کے لیے حاضر ہوتے تو یہی پکوان ہمارے آگے کر دیتیں اور ہم اسے چاٹ جاتے۔ ہم لوگ ہر جمعہ کو ان کے اس کھانے کے آرزومند رہا کرتے تھے۔

تشریح : باب کی مناسبت اس طرح پر ہے کہ صحابہ جمعہ کی نماز کے بعد رزق کی تلاش میں نکلتے اور اس عورت کے گھر پر اس امید پر آتے کہ وہاں کھانا ملے گا۔ اللہ اکبر۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی صحابہ رضی اللہ عنہ نے کیسی تکلیف اٹھائی کہ چقندر کی جڑیں اور مٹھی بھر جو کا آٹا غنیمت سمجھتے اور اسی پر قناعت کرتے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔

حدیث نمبر : 939
حدثنا عبد الله بن مسلمة، قال حدثنا ابن أبي حازم، عن أبيه، عن سهل، بهذا وقال ما كنا نقيل ولا نتغدى إلا بعد الجمعة‏.
ہم سے عبد اللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد العزیز بن ابی حازم نے بیان کیا اپنے باپ سے اور ان سے سہل بن سعد نے یہی بیان کیا اور فرمایا کہ دوپہر کا سونا اور دوپہر کا کھانا جمعہ کی نماز کے بعد رکھتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الجمعہ
باب : جمعہ کی نماز کے بعد سونا

حدیث نمبر : 940
حدثنا محمد بن عقبة الشيباني، قال حدثنا أبو إسحاق الفزاري، عن حميد، قال سمعت أنسا، يقول كنا نبكر إلى الجمعة ثم نقيل‏.‏
ہم سے محمد بن عقبہ شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسحاق فزاری ابراہیم بن محمد نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا۔ آپ فرماتے تھے کہ ہم جمعہ سویرے پڑھتے، اس کے بعد دوپہر کی نیند لیتے تھے۔

حدیث نمبر : 941
حدثنا سعيد بن أبي مريم، قال حدثنا أبو غسان، قال حدثني أبو حازم، عن سهل، قال كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم الجمعة ثم تكون القائلة‏.‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو غسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابو حازم نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے بتلایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے، پھر دوپہر کی نیند لیا کرتے تھے۔

تشریح : حضرت امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وظاھر ذالک انھم کانوا یصلون الجمعۃ باکرالنھار قال الحافظ تکن طریق الجمع اولیٰ من دعوی التعارض وقد تقرر ان التبکیر یطلق علی جعل الشئی فی اول وقتہ وتقدیمہ علی غیرہ وھو المراد ھھنا انھم کانوا یبدون الصلوۃ قبل القیلولۃ بخلاف ما جرت بہ عادتھم فی صلوۃ الظھر فی الحر کانوا یقیلون ثم یصلون لمشروعیۃ الابراد والمراد بالقائلۃ المذکورۃ فی الحدیث نوم نصف النھار ( نیل الاوطار ) یعنی ظاہر یہ کہ وہ صحابی کرام جمعہ کی نماز چڑھتے ہوئے دن میں ادا کرلیتے تھے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تعارض پیدا کرنے سے بہتر ہے کہ ہردو قسم کی احادیث میں تطبیق دی جائے اور یہ مقرر ہو چکا ہے کہ تبکیر کا لفظ کسی کام کو اس کے اول وقت میں کرنے یا غیر پر اسے مقدم کرنے پو بولا جاتا ہے اور یہاں یہی مراد ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جمعہ کی نماز روزانہ کی عادت قیلولہ کے اول وقت میں پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ گرمیوں میں ان کی عادت تھی کہ وہ ٹھنڈا کرنے کے خیال سے پہلے قیلولہ کرتے بعد میں ظہر کی نماز پڑھتے مگر جمعہ کی نماز بعض دفعہ خلاف عادت قیلولہ سے پہلے ہی پڑھ لیا کرتے تھے، قیلولہ دوپہر کے سونے پر بولا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کو بعد زوال اول وقت پڑھنا ان روایات کا مطلب اور منشا ہے۔ اس طرح جمعہ اول وقت اورآخر وقت ہر دو میں پڑھا جا سکتا ہے بعض حضرات قبل زوال بھی جمعہ کے قائل ہیں۔ مگر ترجیح بعد زوال ہی کو ہے اور یہی امام بخاری رحمہ اللہ کا مسلک معلوم ہوتا ہے۔ ایک طویل تفصیل کے بعد حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: وقد ظھر بما ذکرنا انہ لیس فی صلوۃ الجمعۃ قبل الزوال حدیث صحیح صریح فالقول الراجح ھو ما قال بہ الجمھور قال شیخنا فی شرح التر مذی والظاھر المعول علیہ ھو ما ذھب الیہ الجمھور من انہ لا تجوز الجمعۃ الا بعد زوال الشمس واما ماذھب الیہ بعضھم من تجوز قبل زوال فلیس فیہ حدیث صحیح صریح انتھیٰ ( مرعاۃ ج:2 ص:203 ) خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ زوال سے پہلے درست نہیں اسی قول کو ترجیح حاصل ہے۔ زوال سے پہلے جمعہ کے صحیح ہونے میں کوئی حدیث صحیح صریح وارد نہیں ہوئی پس جمہور ہی کا مسلک صحیح ہے ( واللہ اعلم با لصواب
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الخوف


باب : خوف کی نماز کا بیان
وقول الله تعالى ‏{‏وإذا ضربتم في الأرض فليس عليكم جناح أن تقصروا من الصلاة إن خفتم أن يفتنكم الذين كفروا إن الكافرين كانوا لكم عدوا مبينا * وإذا كنت فيهم فأقمت لهم الصلاة فلتقم طائفة منهم معك وليأخذوا أسلحتهم فإذا سجدوا فليكونوا من ورائكم ولتأت طائفة أخرى لم يصلوا فليصلوا معك وليأخذوا حذرهم وأسلحتهم ود الذين كفروا لو تغفلون عن أسلحتكم وأمتعتكم فيميلون عليكم ميلة واحدة ولا جناح عليكم إن كان بكم أذى من مطر أو كنتم مرضى أن تضعوا أسلحتكم وخذوا حذركم إن الله أعد للكافرين عذابا مهينا‏}‏
اور اللہ پاک نے ( سورۃ نساء) میں فرمایا اور جب تم مسافر ہو تو تم پر گناہ نہیں اگر تم نماز کم کردو۔ فرمان الٰہی''عذابامھینا'' تک۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی روش کے مطابق صلوۃ الخوف کے اثبات کے لیے آیت قرآنی کو نقل فرما کر اشارہ کیا کہ آگے آنے والی احادیث کواس آیت کی تفسیر سمجھنا چاہیے۔

خوف کی نماز اس کو کہتے ہیں جو حالت جہاد میں ادا کی جاتی ہے جب اسلام اور دشمنان اسلام کی جنگ ہو رہی ہو اور فرض نماز کا وقت آجائے اور خوف ہو کہ اگر ہم نماز میں کھڑے ہوں گے تو دشمن پیچھے حملہ آور ہو جائے گا ایسی حالت میں خوف کی نماز ادا کرناجائز ہے اوراس کا جواز کتاب وسنت ہر دوسے ثابت ہے۔اگر مقابلہ کا وقت ہو تو اس کی صورت یہ ہے کہ فوج دوحصے ہو جائے مجاہدین کا ہر حصہ نماز میں امام کے ساتھ شریک ہو اور آدھی نماز جدا پڑھ لے۔ جب تک دوسری جماعت دشمن کے مقابلے پر رہے اور اس حالت نماز میں آمد ورفت معاف ہے اور ہتھیار اور زرہ اور سپر ساتھ رکھیں اور اگر اتنی بھی فرصت نہ ہو تو جماعت موقوف کریں تنہا پڑھ لیں، پیادہ پڑھیں یا سوار یا شدت جنگ ہو تو اشاروں سے پڑھ لیں اگر یہ بھی فرصت نہ ملے تو توقف کریں جب تک جنگ ختم ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:فرض اللہ الصلوۃ علی نبیکم فی الحضر اربعا وفی السفر رکعتین وفی الخوف رکعۃ ( رواہ احمد ومسلم وابوداؤد والنسائی ) یعنی اللہ نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حضر میں چار رکعت نماز فرض کی اور سفر میں دورکعت اور خوف میں صرف ایک رکعت۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے منعقدہ باب میں وارد پوری آیات یہ ہیں وَاِذَا ضَرَبتُم فِی الاَرضِ فَلَیسَ عَلَیکُم جُنَاح اَن تَقصُِرُوا مِنَ الصَّلٰوۃِ اِن خِفتُم اَن یَفتِنَکُم الَّذِینَ کَفَرُوا اِنَّ الکٰفِرِینَ کَانُوا لَکُم عَدُوًّا مُّبِیناً وَاِذَا کُنتَ فِیھِم فَاَقَمتَ لَھُم الصَّلوٰۃَ ( النساء:101-102 ) یعنی جب تم زمین میں سفر کرنے کو جاؤ تو تمہیں نماز کا قصر کرنا جائز ہے اگر تمہیں ڈر ہو کہ کافر تم کوستائیں گے۔ واقعی کافر لوگ تمہارے صریح دشمن ہیں اور جب تو اے نبی!ان میں ہو اور نماز خوف پڑھانے لگے تو چاہیے کہ ان حاضرین میں سے ایک جماعت تیرے ساتھ کھڑی ہو جائے اور اپنے ہتھیاربھی ساتھ لیے رہیں پھر جب پہلی رکعت کا دوسرا سجدہ کر چکیں تو تم سے پہلی جماعت پیچھے چلی جائے اور دوسری جماعت والے جنہوں نے ابھی نماز نہیں پڑھی وہ آجائیں اور تیرے ساتھ ایک نماز پڑھ لیں اور اپنا بچاؤ اور ہتھیار ساتھ ہی رکھیں۔ کافروں کی یہ دلی آرزو ہے کہ کسی طرح تم اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر وہ ایک ہی دفعہ ٹوٹ پڑیں۔ آخر آیت تک۔

نماز خوف حدیثوں میں پانچ چھ طرح سے آئی ہے جس وقت جیسا موقع ملے پڑھ لینی چاہیے۔ آگے حدیثوں میں ان صورتوں کا بیان آرہاہے۔ مولانا وحید الزماں فرماتے ہیں کہ اکثر علماءکے نزدیک یہ آیت قصر سفر کے بارے میں ہے بعضوں نے کہا خوف کی نماز کے باب میں ہے، امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کو اختیار کیا ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن عمر سے پوچھا گیا کہ ہم خوف کا قصر تو اللہ کی کتاب میں پاتے ہیں مگر سفر کا قصر نہیں پاتے۔ انہوں نے کہا ہم نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کرتے دیکھا ویسا ہی ہم بھی کرتے ہیں یعنی گویا یہ حکم اللہ کی کتاب میں نہ سہی پر حدیث میں تو ہے اور حدیث بھی قرآن شریف کی طرح واجب العمل ہے۔
حضرت ابن قیم نے زاد المعاد میں نماز خوف کی جملہ احادیث کا تجزیہ کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ان سے نماز چھ طریقہ کے ساتھ ادا کرنا معلوم ہوتا ہے۔ امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ جس طریق پر چاہیں اور جیسا موقع ہو یہ نماز اس طرح پڑھی جا سکتی ہے۔
کچھ حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ نماز خوف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد منسوخ ہو گئی مگر یہ غلط ہے۔ جمہور علماءاسلام کا اس کی مشروعیت پر اتفاق ہے۔آپ کے بعد بھی صحابہ مجاہدین نے کتنی مرتبہ میدان جنگ میں یہ نماز ادا کی ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مبارک پوری فرماتے ہیں: فان الصحابۃ اجمعوا علی صلوۃ الخوف فروی ان علیا صلی صلوۃ الخوف لیلۃ الھریر وصلاھا ابو موسیٰ الاشعری باصبھان باصحابہ روی ان سعید بن العاص کان امیرا علی الجیش بطبرستان فقال ایکم صلی مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلوۃ الخوف فقال حذیفۃ انا فقدمہ فصلی بھم قال الزیلعی دلیل الجمھور وجوب الاتباع والتاسی بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم وقولہ صلوا کما رایتمونی اصلی الخ ( مرعاۃ، ج:2ص:318 ) یعنی صلوۃ خوف پر صحابہ کا اجماع ہے جیسا کہ مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لیلۃ الہریر میں خوف کی نماز ادا کی اور ابو موسیٰ اشعری رحمہ اللہ نے اصفہان کی جنگ میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ خوف کی نماز پڑھی اور حضرت سعید بن عاص نے جو جنگ طبرستان میں امیر لشکر تھے، فوجیوں سے کہا کہ تم میں کوئی ایسا بزرگ ہے جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خوف کی نماز ادا کی ہو۔ چنانچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں میں موجود ہوں۔ پس ان ہی کو آگے بڑھا کر یہ نماز ادا کی گئی۔ زیلعی نے کہا کہ صلوۃ خوف پر جمہور کی دلیل یہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اور اقتداءواجب ہے۔ آپ نے فرمایا ہے کہ جیسے تم نے مجھ کو نماز ادا کرتے دیکھا ہے ویسے ہی تم بھی ادا کرو پس ان لوگوں کا قول غلط ہے جو صلوۃ خوف کو اب منسوخ کہتے ہیں۔

مطلب یہ ہے کہ اول سب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز کی نیت باندھی، دو صف ہو گئے۔ ایک صف تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متصل، دوسری صف ان کے پیچھے اور یہ اس حالت میں ہے جب دشمن قبلے کی جانب ہو اور سب کا منہ قبلے ہی کی جانب ہو۔ خیر اب پہلی صف والوں نے آپ کے ساتھ رکوع اور سجدہ کیا اور دوسری صف والے کھڑے کھڑے ان کی حفاظت کر تے رہے، اس کے بعد پہلی صف والے رکوع اور سجدہ کر کے دوسری صف والوں کی جگہ پر حفاظت کے لیے کھڑے رہے اور دوسری صف والے ان کی جگہ پر آکر رکوع اور سجدہ میں گئے۔ رکوع اور سجدہ کر کے قیام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہو گئے اور دوسری رکعت کا رکوع اور سجدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کیا جب آپ التحیات پڑھنے لگے تو پہلی صف والے رکوع اور سجدہ میں گئے پھر سب نے ایک ساتھ سلام پھیرا جیسے ایک ساتھ نیت باندھی تھی۔ ( شرح وحیدی )

حدیث نمبر : 942
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال سألته هل صلى النبي صلى الله عليه وسلم يعني صلاة الخوف قال أخبرني سالم أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل نجد، فوازينا العدو فصاففنا لهم فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي لنا فقامت طائفة معه تصلي، وأقبلت طائفة على العدو وركع رسول الله صلى الله عليه وسلم بمن معه، وسجد سجدتين، ثم انصرفوا مكان الطائفة التي لم تصل، فجاءوا، فركع رسول الله صلى الله عليه وسلم بهم ركعة، وسجد سجدتين ثم سلم، فقام كل واحد منهم فركع لنفسه ركعة وسجد سجدتين‏.‏
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے زہری سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صلوۃ خوف پڑھی تھی؟ اس پر انہوں نے فرمایا کہ ہمیں سالم نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ میں نجد کی طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ ( ذات الرقاع ) میں شریک تھا۔ دشمن سے مقابلہ کے وقت ہم نے صفیں باندھیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خوف کی نماز پڑھائی ( توہم میں سے ) ایک جماعت آپ کے ساتھ نماز پڑھنے میں شریک ہو گئی اور دوسرا گروہ دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اقتداء میں نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ایک رکوع اور دو سجدے کئے۔ پھر یہ لوگ لوٹ کر اس جماعت کی جگہ آ گئے جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی تھی۔ اب دوسری جماعت آئی۔ ان کے ساتھ بھی آپ نے ایک رکوع اور دو سجدے کئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیر دیا۔ اس گروہ میں سے ہر شخص کھڑا ہوا اور اس نے اکیلے اکیلے ایک رکوع اور دو سجدے ادا کئے۔

تشریح : نجد لغت میں بلندی کو کہتے ہیں اور عرب میں یہ علاقہ وہ ہے جو تہامہ اور یمن سے لے کر عراق اور شام تک پھیلا ہوا ہے۔جہاد مذکورہ 7 ھ میں بنی غطفان کے کافروں سے ہوا تھا۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج کے دوحصے کئے گئے اور ہر حصہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ایک رکعت باری باری ادا کی پھر دوسری رکعت انہوں نے اکیلے اکیلے ادا کی۔ بعض روایتوں میں یوں ہے کہ ہر حصہ ایک رکعت پڑھ کر چلا گیا اور جب دوسرا گروہ پوری نماز پڑھ گیا تو یہ گروہ دوبارہ آیا اور ایک رکعت اکیلے اکیلے پڑھ کر سلام پھیرا۔

فٹ پٹ ہو جائیں یعنی بھڑجائیں صف باندھنے کا موقع نہ ملے تو جو جہاں کھڑاہو وہیں نماز پڑھ لے۔ بعضوں نے کہا قیاماًکا لفظ یہاں ( راوی کی طرف سے ) غلط ہے صحیح قائماً ہے اور پوری عبارت یوں ہے اذا اختلطو قائما فانما ھو الذکر والاشارۃ بالراس یعنی جب کافر اور مسلمان لڑائی میں خلط ملط ہو جائیں توصرف زبان سے قرات اور رکوع سجدے کے بدل سر سے اشارہ کرنا کافی ہے ( شرح وحیدی )

قال ابن قدامۃ یجوز ان یصلی صلوۃ الخوف علی کل صفۃ صلاھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال احمد کل حدیث یروی فی ابواب صلوۃ الخوف فالعمل بہ جائز وقال ستۃ اوجہ اوسبعۃ یروی فیھا کلھا جائز۔ ( مرعاۃ المصابیح، ج:2ص:319 ) یعنی ابن قدامہ نے کہا کہ جن جن طریقوں سے خوف کی نماز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل ہوئی ہے ان سب کے مطابق جیسا موقع ہو خوف کی نماز ادا کرنا جائز ہے۔ امام احمد نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور فرمایاہے کہ یہ نماز چھ ساتھ طریقوں سے جائز ہے جو مختلف احادیث میں مروی ہیں قال ابن عباس والحسن البصری وعطاءوطاؤس ومجاھد والحکم بن عتبۃ وقتادہ واسحاق والضحاک والثوری انھا رکعۃ عند شدۃ القتال یومی ایماء ( حوالہ مذکور ) یعنی مذکورہ جملہ اکابر اسلام کہتے ہیں کہ شدت قتال کے وقت ایک رکعت بلکہ محض اشاروں سے بھی ادا کر لینا جائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخوف
باب : خوف کی نماز پیدل اور سوار رہ کر پڑھنا قرآن شریف میں رجالا راجل کی جمع ہے ( یعنی پاپیادہ )

تشریح : یعنی قرآنی آیت کریمہ فان خفتم فرجالا اورکبانا میں لفظ رجالا راجل کی جمع ہے نہ کہ رجل کی۔ راجل کے معنی پیدل چلنے والا اور رجل کے معنی مرد۔ اسی فرق کو ظاہر کرنے کے لیے حضرت امام نے بتلایا کہ آیت شریفہ میں رجالا راجل کی جمع ہے یعنی پیدل چلنے والے رجل بمعنی مرد کی جمع نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 943
حدثنا سعيد بن يحيى بن سعيد القرشي، قال حدثني أبي قال، حدثنا ابن جريج، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر، نحوا من قول مجاهد إذا اختلطوا قياما‏.‏ وزاد ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وإن كانوا أكثر من ذلك فليصلوا قياما وركبانا‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید قرشی نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے میرے باپ یحییٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ا بن جریج نے بیان کیا، ان سے موسی بن عقبہ نے، ان سے نافع نے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجاہد کے قول کی طرح بیان کیا کہ جب جنگ میں لوگ ایک دوسرے سے گٹھ جائیں تو کھڑے کھڑے نماز پڑھ لیں اور ا بن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی روایت میں اضافہ اور کیا ہے کہ اگر کافر بہت سارے ہوں کہ مسلمانوں کو دم نہ لینے دیں تو کھڑے کھڑے اور سوار رہ کر ( جس طور ممکن ہو ) اشاروں سے ہی سہی مگر نماز پڑھ لیں۔

تشریح : علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: قیل مقصودہ ان الصلوۃ لا تسقط عند العجز عن النزول عن العرابۃ ولا توخر عن وقتھا بل تصلی علی ای وجہ حصلت القدرۃ علیہ بدلیل الآیۃ ( فتح الباری ) یعنی مقصود یہ ہے کہ نماز اس وقت بھی ساقط نہیں ہوتی جب کہ نمازی سواری سے اترنے سے عاجز ہو اور نہ وہ وقت سے مؤخر کی جا سکتی ہے بلکہ ہر حالت میں اپنی قدرت کے مطابق اسے پڑھنا ہی ہوگا جیسا کہ آیت بالا اس پر دال ہے۔

زمانہ حاضرہ میں ریلوں، موٹروں، ہوائی جہازوں میں بہت سے ایسے ہی مواقع آجاتے ہیں کہ ان سے اترنا نا ممکن ہو جاتا ہے بہر حال نماز جس طور بھی ممکن ہو وقت مقررہ پر پڑھ ہی لینی چاہیے۔ ایسی ہی دشواریوں کے پیش نظر شارع علیہ السلام نے دو نمازوں کو ایک وقت میں جمع کر کے ادا کرنا جائز قرار دیا ہے اور سفر میں قصر اور بوقت جہاد اور بھی مزید رعایت دی گئی مگر نماز کو معاف نہیں کیا گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخوف
باب : خوف کی نماز میں نمازی ایک دوسرے کی حفاظت کرتے ہیں

یعنی اگر ایک گروہ نماز پڑھے اور دوسرا ان کی حفاظت کرے پھر وہ گروہ نماز پڑھے اور پہلا گروہ ان کی جگہ آجائے

حدیث نمبر : 944
حدثنا حيوة بن شريح، قال حدثنا محمد بن حرب، عن الزبيدي، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قام النبي صلى الله عليه وسلم وقام الناس معه، فكبر وكبروا معه، وركع وركع ناس منهم، ثم سجد وسجدوا معه، ثم قام للثانية فقام الذين سجدوا وحرسوا إخوانهم، وأتت الطائفة الأخرى فركعوا وسجدوا معه، والناس كلهم في صلاة، ولكن يحرس بعضهم بعضا‏.‏
ہم سے حیوہ بن شریح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن حرب نے زبیدی سے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہ بن مسعود نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دوسرے لوگ بھی آپ کی اقتداء میں کھڑے ہوئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی تو لوگوں نے بھی تکبیر کہی۔ آپ نے رکوع کیا تو لوگوں نے آپ کے ساتھ رکوع اور سجدہ کر لیا تھا وہ کھڑے کھڑے اپنے بھائیوں کی نگرانی کرتے رہے۔ اور دوسرا گروہ آیا۔ ( جواب تک حفاظت کے لیے دشمن کے مقابلہ میں کھڑا رہا بعد میں ) اس نے بھی رکوع اور سجدے کئے۔ سب لوگ نماز میں تھے لیکن لوگ ایک دوسرے کی حفاظت کر رہے تھے۔
 
Top