Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخوف
باب : اس بارے میں کہ اس وقت ( جب دشمن کے ) قلعوں کی فتح کے امکانات روشن ہوں اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو رہی ہو تو اس وقت نماز پڑھے یا نہیں
وقال الأوزاعي إن كان تهيأ الفتح، ولم يقدروا على الصلاة صلوا إيماء كل امرئ لنفسه، فإن لم يقدروا على الإيماء أخروا الصلاة، حتى ينكشف القتال أو يأمنوا، فيصلوا ركعتين، فإن لم يقدروا صلوا ركعة وسجدتين، لا يجزئهم التكبير ويؤخروها حتى يأمنوا وبه قال مكحول. اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ نے کہا کہ جب فتح سامنے ہو اور نماز پڑھنی ممکن نہ رہے تو اشارہ سے نماز پڑھ لیں۔ ہر شخص اکیلے اکیلے اگر اشارہ بھی نہ کر سکیں تو لڑائی کے ختم ہونے تک یا امن ہو نے تک نماز موقوف رکھیں، اس کے بعد دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اگر دو رکعت نہ پڑھ سکیں تو ایک ہی رکوع اور دو سجدے کر لیں اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو صرف تکبیر تحریمہ کافی نہیں ہے، امن ہونے تک نماز میں دیر کریں۔ مکحول تابعی کا یہ قو ل ہے۔
وقال أنس حضرت عند مناهضة حصن تستر عند إضاءة الفجر، واشتد اشتعال القتال، فلم يقدروا على الصلاة، فلم نصل إلا بعد ارتفاع النهار، فصليناها ونحن مع أبي موسى، ففتح لنا. وقال أنس وما يسرني بتلك الصلاة الدنيا وما فيها. اور حضرت انس بن مالک نے کہا کہ صبح روشنی میں ''تستر'' کے قلعہ پر جب چڑھائی ہو رہی تھی اس وقت میں موجود تھا۔ لڑائی کی آگ خوب بھڑک رہی تھی تو لوگ نماز نہ پڑھ سکے۔ جب دن چڑھ گیا اس وقت صبح کی نماز پڑھی گئی۔ ابو موسیٰ اشعری بھی ساتھ تھے پھر قلعہ فتح ہو گیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس دن جو نماز ہم نے پڑھی ( گو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھی ) اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوگی۔
تشریح : تستر اہواز کے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ وہاں کا قلعہ سخت جنگ کے بعد بعہد خلافت فاروقی 20ھ میں فتح ہوا۔ اس تعلیق کو ابن سعد اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا۔ ابو موسی اشعری اس فوج کے افسر تھے جس نے اس قلعہ پر چڑھائی کی تھی۔ اس نماز کی خوشی ہوئی تھی کہ یہ مجاہدوں کی نماز تھی نہ آجکل کے بزدل مسلمانوں کی نماز۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نماز فوت ہونے پر افسوس کیا یعنی اگر یہ نماز وقت پر پڑھ لیتے تو ساری دنیا کے ملنے سے زیادہ مجھ کو خوشی ہوتی مگر پہلے معنی کو ترجیح ہے۔
حدیث نمبر : 945
حدثنا يحيى، قال حدثنا وكيع، عن علي بن مبارك، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن جابر بن عبد الله، قال جاء عمر يوم الخندق، فجعل يسب كفار قريش ويقول يا رسول الله ما صليت العصر حتى كادت الشمس أن تغيب. فقال النبي صلى الله عليه وسلم " وأنا والله ما صليتها بعد". قال فنزل إلى بطحان فتوضأ، وصلى العصر بعد ما غابت الشمس، ثم صلى المغرب بعدها.
ہم سے یحیی ابن جعفر نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے علی بن مبارک سے بیان کیا، ان سے یحیی بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! سورج ڈوبنے ہی کو ہے اور میں نے تو اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخد ا میں نے بھی ابھی تک نہیں پڑھی انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ ''بطحان'' کی طرف گئے ( جو مدینہ میں ایک میدان تھا ) اور وضو کر کے آپ نے وہاں سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔
تشریح : باب کا ترجمہ اس حدیث سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑائی میں مصروف رہنے سے بالکل نماز کی فرصت نہ ملی تھی تو آپ نے نماز میں دیر کی۔ قسطلانی نے کہا ممکن ہے کہ اس وقت تک خوف کی نماز کا حکم نہیں اترا ہوگا۔ یا نماز کا آپ کو خیال نہ رہا ہو گا یا خیال ہو گا مگر طہارت کرنے کا موقع نہ ملا ہو گا۔
قیل اخرھا عمدالانہ کانت قبل نزول صلوۃ الخوف ذھب الیہ الجمھور کما قال ابن رشد وبہ جزم ابن القیم فی الھدیٰ والحافظ فی الفتح والقرطبی فی شرح مسلم وعیاض فی الشفاءوالزیلعی فی نصب الرایۃ وابن القصار وھذا ھو الراجح عندنا ( مرعاۃ المفاتیح، ج:2ص318 ) یعنی کہا گیا ( شدت جنگ کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدا نماز عصر کو مؤخر فرمایا، اس لیے کہ اس وقت تک صلوۃ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بقول ابن رشد جمہور کا یہی قول ہے اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس خیال پر جزم کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور قرطبی نے شرح مسلم میں اور قاضی عیاض نے شفاءمیں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں اور ابن قصار نے اسی خیال کو ترجیح دی ہے اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مؤلف مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے۔
باب : اس بارے میں کہ اس وقت ( جب دشمن کے ) قلعوں کی فتح کے امکانات روشن ہوں اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو رہی ہو تو اس وقت نماز پڑھے یا نہیں
وقال الأوزاعي إن كان تهيأ الفتح، ولم يقدروا على الصلاة صلوا إيماء كل امرئ لنفسه، فإن لم يقدروا على الإيماء أخروا الصلاة، حتى ينكشف القتال أو يأمنوا، فيصلوا ركعتين، فإن لم يقدروا صلوا ركعة وسجدتين، لا يجزئهم التكبير ويؤخروها حتى يأمنوا وبه قال مكحول. اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ نے کہا کہ جب فتح سامنے ہو اور نماز پڑھنی ممکن نہ رہے تو اشارہ سے نماز پڑھ لیں۔ ہر شخص اکیلے اکیلے اگر اشارہ بھی نہ کر سکیں تو لڑائی کے ختم ہونے تک یا امن ہو نے تک نماز موقوف رکھیں، اس کے بعد دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اگر دو رکعت نہ پڑھ سکیں تو ایک ہی رکوع اور دو سجدے کر لیں اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو صرف تکبیر تحریمہ کافی نہیں ہے، امن ہونے تک نماز میں دیر کریں۔ مکحول تابعی کا یہ قو ل ہے۔
وقال أنس حضرت عند مناهضة حصن تستر عند إضاءة الفجر، واشتد اشتعال القتال، فلم يقدروا على الصلاة، فلم نصل إلا بعد ارتفاع النهار، فصليناها ونحن مع أبي موسى، ففتح لنا. وقال أنس وما يسرني بتلك الصلاة الدنيا وما فيها. اور حضرت انس بن مالک نے کہا کہ صبح روشنی میں ''تستر'' کے قلعہ پر جب چڑھائی ہو رہی تھی اس وقت میں موجود تھا۔ لڑائی کی آگ خوب بھڑک رہی تھی تو لوگ نماز نہ پڑھ سکے۔ جب دن چڑھ گیا اس وقت صبح کی نماز پڑھی گئی۔ ابو موسیٰ اشعری بھی ساتھ تھے پھر قلعہ فتح ہو گیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس دن جو نماز ہم نے پڑھی ( گو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھی ) اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوگی۔
تشریح : تستر اہواز کے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ وہاں کا قلعہ سخت جنگ کے بعد بعہد خلافت فاروقی 20ھ میں فتح ہوا۔ اس تعلیق کو ابن سعد اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا۔ ابو موسی اشعری اس فوج کے افسر تھے جس نے اس قلعہ پر چڑھائی کی تھی۔ اس نماز کی خوشی ہوئی تھی کہ یہ مجاہدوں کی نماز تھی نہ آجکل کے بزدل مسلمانوں کی نماز۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نماز فوت ہونے پر افسوس کیا یعنی اگر یہ نماز وقت پر پڑھ لیتے تو ساری دنیا کے ملنے سے زیادہ مجھ کو خوشی ہوتی مگر پہلے معنی کو ترجیح ہے۔
حدیث نمبر : 945
حدثنا يحيى، قال حدثنا وكيع، عن علي بن مبارك، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن جابر بن عبد الله، قال جاء عمر يوم الخندق، فجعل يسب كفار قريش ويقول يا رسول الله ما صليت العصر حتى كادت الشمس أن تغيب. فقال النبي صلى الله عليه وسلم " وأنا والله ما صليتها بعد". قال فنزل إلى بطحان فتوضأ، وصلى العصر بعد ما غابت الشمس، ثم صلى المغرب بعدها.
ہم سے یحیی ابن جعفر نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے علی بن مبارک سے بیان کیا، ان سے یحیی بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! سورج ڈوبنے ہی کو ہے اور میں نے تو اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخد ا میں نے بھی ابھی تک نہیں پڑھی انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ ''بطحان'' کی طرف گئے ( جو مدینہ میں ایک میدان تھا ) اور وضو کر کے آپ نے وہاں سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔
تشریح : باب کا ترجمہ اس حدیث سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑائی میں مصروف رہنے سے بالکل نماز کی فرصت نہ ملی تھی تو آپ نے نماز میں دیر کی۔ قسطلانی نے کہا ممکن ہے کہ اس وقت تک خوف کی نماز کا حکم نہیں اترا ہوگا۔ یا نماز کا آپ کو خیال نہ رہا ہو گا یا خیال ہو گا مگر طہارت کرنے کا موقع نہ ملا ہو گا۔
قیل اخرھا عمدالانہ کانت قبل نزول صلوۃ الخوف ذھب الیہ الجمھور کما قال ابن رشد وبہ جزم ابن القیم فی الھدیٰ والحافظ فی الفتح والقرطبی فی شرح مسلم وعیاض فی الشفاءوالزیلعی فی نصب الرایۃ وابن القصار وھذا ھو الراجح عندنا ( مرعاۃ المفاتیح، ج:2ص318 ) یعنی کہا گیا ( شدت جنگ کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدا نماز عصر کو مؤخر فرمایا، اس لیے کہ اس وقت تک صلوۃ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بقول ابن رشد جمہور کا یہی قول ہے اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس خیال پر جزم کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور قرطبی نے شرح مسلم میں اور قاضی عیاض نے شفاءمیں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں اور ابن قصار نے اسی خیال کو ترجیح دی ہے اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مؤلف مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے۔