• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخوف
باب : اس بارے میں کہ اس وقت ( جب دشمن کے ) قلعوں کی فتح کے امکانات روشن ہوں اور جب دشمن سے مڈبھیڑ ہو رہی ہو تو اس وقت نماز پڑھے یا نہیں

وقال الأوزاعي إن كان تهيأ الفتح، ولم يقدروا على الصلاة صلوا إيماء كل امرئ لنفسه، فإن لم يقدروا على الإيماء أخروا الصلاة، حتى ينكشف القتال أو يأمنوا، فيصلوا ركعتين، فإن لم يقدروا صلوا ركعة وسجدتين، لا يجزئهم التكبير ويؤخروها حتى يأمنوا وبه قال مكحول‏.‏ اور امام اوزاعی رحمۃ اللہ نے کہا کہ جب فتح سامنے ہو اور نماز پڑھنی ممکن نہ رہے تو اشارہ سے نماز پڑھ لیں۔ ہر شخص اکیلے اکیلے اگر اشارہ بھی نہ کر سکیں تو لڑائی کے ختم ہونے تک یا امن ہو نے تک نماز موقوف رکھیں، اس کے بعد دو رکعتیں پڑھ لیں۔ اگر دو رکعت نہ پڑھ سکیں تو ایک ہی رکوع اور دو سجدے کر لیں اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو صرف تکبیر تحریمہ کافی نہیں ہے، امن ہونے تک نماز میں دیر کریں۔ مکحول تابعی کا یہ قو ل ہے۔

وقال أنس حضرت عند مناهضة حصن تستر عند إضاءة الفجر، واشتد اشتعال القتال، فلم يقدروا على الصلاة، فلم نصل إلا بعد ارتفاع النهار، فصليناها ونحن مع أبي موسى، ففتح لنا‏.‏ وقال أنس وما يسرني بتلك الصلاة الدنيا وما فيها‏.‏ اور حضرت انس بن مالک نے کہا کہ صبح روشنی میں ''تستر'' کے قلعہ پر جب چڑھائی ہو رہی تھی اس وقت میں موجود تھا۔ لڑائی کی آگ خوب بھڑک رہی تھی تو لوگ نماز نہ پڑھ سکے۔ جب دن چڑھ گیا اس وقت صبح کی نماز پڑھی گئی۔ ابو موسیٰ اشعری بھی ساتھ تھے پھر قلعہ فتح ہو گیا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس دن جو نماز ہم نے پڑھی ( گو وہ سورج نکلنے کے بعد پڑھی ) اس سے اتنی خوشی ہوئی کہ ساری دنیا ملنے سے اتنی خوشی نہ ہوگی۔

تشریح : تستر اہواز کے شہروں میں سے ایک شہر ہے۔ وہاں کا قلعہ سخت جنگ کے بعد بعہد خلافت فاروقی 20ھ میں فتح ہوا۔ اس تعلیق کو ابن سعد اور ابن ابی شیبہ نے وصل کیا۔ ابو موسی اشعری اس فوج کے افسر تھے جس نے اس قلعہ پر چڑھائی کی تھی۔ اس نماز کی خوشی ہوئی تھی کہ یہ مجاہدوں کی نماز تھی نہ آجکل کے بزدل مسلمانوں کی نماز۔ بعضوں نے کہا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نماز فوت ہونے پر افسوس کیا یعنی اگر یہ نماز وقت پر پڑھ لیتے تو ساری دنیا کے ملنے سے زیادہ مجھ کو خوشی ہوتی مگر پہلے معنی کو ترجیح ہے۔

حدیث نمبر : 945
حدثنا يحيى، قال حدثنا وكيع، عن علي بن مبارك، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن جابر بن عبد الله، قال جاء عمر يوم الخندق، فجعل يسب كفار قريش ويقول يا رسول الله ما صليت العصر حتى كادت الشمس أن تغيب‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وأنا والله ما صليتها بعد‏"‏‏. ‏ قال فنزل إلى بطحان فتوضأ، وصلى العصر بعد ما غابت الشمس، ثم صلى المغرب بعدها‏.‏
ہم سے یحیی ابن جعفر نے بیان کیا کہ ہم سے وکیع نے علی بن مبارک سے بیان کیا، ان سے یحیی بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے جابر بن عبد اللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن کفار کو برا بھلا کہتے ہوئے آئے اور عرض کرنے لگے کہ یا رسول اللہ! سورج ڈوبنے ہی کو ہے اور میں نے تو اب تک عصر کی نماز نہیں پڑھی، اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخد ا میں نے بھی ابھی تک نہیں پڑھی انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ ''بطحان'' کی طرف گئے ( جو مدینہ میں ایک میدان تھا ) اور وضو کر کے آپ نے وہاں سورج غروب ہونے کے بعد عصر کی نماز پڑھی، پھر اس کے بعد نماز مغرب پڑھی۔

تشریح : باب کا ترجمہ اس حدیث سے نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑائی میں مصروف رہنے سے بالکل نماز کی فرصت نہ ملی تھی تو آپ نے نماز میں دیر کی۔ قسطلانی نے کہا ممکن ہے کہ اس وقت تک خوف کی نماز کا حکم نہیں اترا ہوگا۔ یا نماز کا آپ کو خیال نہ رہا ہو گا یا خیال ہو گا مگر طہارت کرنے کا موقع نہ ملا ہو گا۔

قیل اخرھا عمدالانہ کانت قبل نزول صلوۃ الخوف ذھب الیہ الجمھور کما قال ابن رشد وبہ جزم ابن القیم فی الھدیٰ والحافظ فی الفتح والقرطبی فی شرح مسلم وعیاض فی الشفاءوالزیلعی فی نصب الرایۃ وابن القصار وھذا ھو الراجح عندنا ( مرعاۃ المفاتیح، ج:2ص318 ) یعنی کہا گیا ( شدت جنگ کی وجہ سے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدا نماز عصر کو مؤخر فرمایا، اس لیے کہ اس وقت تک صلوۃ خوف کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ بقول ابن رشد جمہور کا یہی قول ہے اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے زاد المعاد میں اس خیال پر جزم کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اور قرطبی نے شرح مسلم میں اور قاضی عیاض نے شفاءمیں اور زیلعی نے نصب الرایہ میں اور ابن قصار نے اسی خیال کو ترجیح دی ہے اور حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مؤلف مرعاۃ المفاتیح فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک بھی اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخوف
باب : جو دشمن کے پیچھے لگا ہو یا دشمن اس کے پیچھے لگا ہووہ سوار رہ کر اشارے ہی سے نماز پڑھ لے

وقال الوليد: ذكرت للأوزعي صلاة شرحبيل بن السمط وأصحابه على ظهر الدابة، فقال: كذلك الأمر عندنا إذا تخوف الفوت. واحتج الوليد بقول النبي صلى الله عليه وسلم: (لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة).
اور ولید بن مسلم نے کہا میں نے امام اوزاعی سے شرحبیل بن سمط اور ان کے ساتھیوں کی نماز کا ذکر کیا کہ انہوں نے سواری پر ہی نماز پڑھ لی، تو انہوں نے کہا ہمارا بھی یہی مذہب ہے جب نماز قضا ہونے کا ڈر ہو۔ اور ولید نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اشارے سے دلیل لی کہ کوءی تم میں سے عصر کی نماز نہ پڑھے مگر بنی قریظہ کے پاس پہنچ کر۔

حدیث نمبر : 946
حدثنا عبد الله بن محمد بن أسماء، قال حدثنا جويرية، عن نافع، عن ابن عمر، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب ‏"‏ لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة‏"‏‏. ‏ فأدرك بعضهم العصر في الطريق فقال بعضهم لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم بل نصلي لم يرد منا ذلك‏.‏ فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فلم يعنف واحدا منهم‏.‏
ہم سے عبد اللہ بن محمد بن اسماء نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جویریہ بن اسماء نے نافع سے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خندق سے فارغ ہوئے ( ابوسفیان لوٹا ) تو ہم سے آپ نے فرمایا کوئی شخص بنو قریظہ کے محلہ میں پہنچنے سے پہلے نماز عصر نہ پڑھے لیکن جب عصر کا وقت آیا تو بعض صحابہ نے راستہ ہی میں نماز پڑھ لی اور بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم بنوقریظہ کے محلہ میں پہنچنے پر نماز عصر پڑھیں گے اور کچھ حضرات کا خیال یہ ہوا کہ ہمیں نماز پڑھ لینی چاہیے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ نہیں تھا کہ نماز قضا کر لیں۔ پھر جب آپ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ نے کسی پر بھی ملامت نہیں فرمائی۔

تشریح : طالب یعنی دشمن کی تلاش میں نکلنے والے، مطلوب یعنی جس کی تلاش میں دشمن لگا ہو۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب غزوہ احزاب ختم ہوگیا اور کفار ناکام چلے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا ہی مجاہدین کو حکم دیا کہ اسی حالت میں بنو قریظہ کے محلہ میں چلیں جہاں مدینہ کے یہودی رہتے تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ان یہودیوں نے ایک معاہدہ کے تحت ایک دوسرے کے خلاف کسی جنگی کاروائی میں حصہ نہ لینے کا عہد کیا تھا۔ مگر خفیہ طور پر یہودی پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہے اور اس موقع پر تو انہوں نے کھل کر کفار کا ساتھ دیا۔ یہود نے یہ سمجھ کر بھی اس میں شرکت کی تھی کہ یہ آخری اور فیصلہ کن لڑائی ہوگی اور مسلمانوں کی اس میں شکست یقینی ہے۔ معاہدہ کی رو سے یہودیوں کی اس جنگ میں شرکت ایک سنگین جرم تھا، اس لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ بغیر کسی مہلت کے ان پر حملہ کیا جائے اور اسی لیے آپ نے فرمایا تھا کہ نماز عصر بنو قریظہ میں جا کر پڑھی جائے کیونکہ راستے میں اگر کہیں نماز کے لیے ٹھہر تے تو دیر ہو جاتی چنانچہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے بھی اس سے یہی سمجھا کہ آپ کا مقصد صرف جلد تر بنو قریظہ پہنچنا تھا۔اس سے ثابت ہوا کہ بحالت مجبوری طالب اور مطلوب ہر دو سواری پر نماز اشارے سے پڑھ سکتے ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ کا یہی مذہب ہے اور امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک جس کے پیچھے دشمن لگا ہو وہ تو اپنے بچانے کے لیے سواری پر اشارے ہی سے نماز پڑھ سکتا ہے اور جوخود دشمن کے پیچھے لگا ہو تو اس کو درست نہیں اور امام مالک رحمہ اللہ نے کہاکہ اس کو اس وقت درست ہے جب دشمن کے نکل جانے کا ڈر ہو۔ ولید نے امام اوزاعی رحمہ اللہ کے مذہب پر حدیث لا یصلین احد العصر الخ سے دلیل لی کہ صحابہ بنو قریظہ کے طالب تھے یعنی ان کے پیچھے اور بنی قریظہ مطلوب تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز قضا ہوجانے کی ان کے لیے پروانہ کی۔ جب طالب کو نماز قضا کر دینا درست ہوا تو اشارہ سے سواری پر پڑھ لینا بطریق اولی درست ہوگا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال اسی لیے اس حدیث سے درست ہے۔ بنو قریظہ پہنچنے والے صحابہ میں سے ہر ایک نے اپنے اجتہاد اور رائے پر عمل کیا بعضوں نے یہ خیال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کا یہ مطلب ہے کہ جلد جاؤ بیچ میں ٹھہرو نہیں تو ہم نماز کیوں قضا کریں، انہوں نے سواری پر پڑھ لی بعضوں نے خیال کیا کہ حکم بجالانا ضروری ہے نماز بھی خدا اور اس کے رسول کی رضا مندی کے لیے پڑھتے ہیں تو اب آپ کے حکم کی تعمیل میں اگر نماز میں دیر ہو جائے گی تو ہم کچھ گنہگار نہ ہوں گے ( الغرض ) فریقین کی نیت بخیر تھی اس لیے کوئی ملامت کے لائق نہ ٹھہرا۔ معلوم ہوا کہ اگر مجتہد غور کرے اور پھر اس کے اجتہاد میں غلطی ہو جائے تو اس سے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ نووی نے کہا اس پر اتفاق ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہر مجتہد صواب پر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخوف
باب : حملہ کرنے سے پہلے صبح کی نماز اندھیرے میں جلدی پڑھ لینا اسی طرح لڑائی میں ( طلوع فجر کے بعد فوراً ادا کر لینا )

حدیث نمبر : 947
حدثنا مسدد، قال حدثنا حماد، عن عبد العزيز بن صهيب، وثابت البناني، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الصبح بغلس ثم ركب فقال ‏"‏ الله أكبر خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين‏"‏‏. ‏ فخرجوا يسعون في السكك ويقولون محمد والخميس ـ قال والخميس الجيش ـ فظهر عليهم رسول الله صلى الله عليه وسلم فقتل المقاتلة وسبى الذراري، فصارت صفية لدحية الكلبي، وصارت لرسول الله صلى الله عليه وسلم ثم تزوجها وجعل صداقها عتقها‏.‏ فقال عبد العزيز لثابت يا أبا محمد، أنت سألت أنسا ما أمهرها قال أمهرها نفسها‏.‏ فتبسم‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عبد العزیز بن صہیب اور ثابت بنانی نے، بیان کیا ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھا دی، پھر سوار ہوئے ( پھر آپ خیبر پہنچ گئے اور وہاں کے یہودیوں کو آپ کے آنے کی اطلاع ہو گئی ) اور فرمایا اللہ اکبر خیبر پر بربادی آگئی۔ ہم تو جب کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہوگی۔ اس وقت خیبر کے یہودی گلیوں میں یہ کہتے ہوئے بھاگ رہے تھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت آگئے۔ راوی نے کہا کہ ( روایت میں ) لفظ خمیس لشکر کے معنی میں ہے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوئی۔ اتفاق سے صفیہ دحیہ کلبی کے حصہ میں آئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں اور آپ نے ان سے نکاح کیا اور آزادی ان کا مہر قرار دیا۔ عبد العزیز نے ثابت سے پوچھا ابومحمد! کیا تم نے انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا تھا کہ حضرت صفیہ کا مہر آپ نے مقرر کیا تھا انہوں نے جواب دیا کہ خود انہیں کو ان کے مہر میں دے دیا تھا۔ کہا کہ ابو محمد اس پر مسکرا دیئے۔

تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز سویرے اندھیرے منہ پڑھ لی اورسوار ہوتے وقت نعرہ تکبیر بلند کیا۔ خمیس لشکر کو اس لیے کہتے ہیں کہ اس میں پانچ ٹکڑیاں ہوتی ہیں مقدمہ، ساقہ، میمنہ، میسرہ، قلب۔ صفیہ شاہزادی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلجوئی اور شرافت نسبی کی بنا پر انہیں اپنے حرم میں لے لیا اور آزاد فرما دیا ان ہی کو ان کے مہر میں دینے کا مطلب ان کوآزاد کر دینا ہے، بعد میں یہ خاتون ایک بہترین وفادار ثابت ہوئیں۔ امہا ت المومنین میں ان کا بھی بڑا مقام ہے۔ رضی اللہ عنہا وارضاھا۔ علامہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ حضرت صفیہ حی بن اخطب کی بیٹی ہیں جو بنی اسرائیل میں سے تھے اور ہارون ابن عمران علیہ السلام کے نواسہ تھے۔ یہ صفیہ کنانہ بن ابی الحقیق کی بیوی تھیں جو جنگ خیبر میں بماہ محرم 7 ھ قتل کیا گیا اور یہ قید ہو گئیں تو ان کی شرافت نسبی کی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے حرم میں داخل فرمالیا، پہلے دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصہ غنیمت میں لگا دی گئی تھیں۔ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا حال معلوم فرماکر سات غلاموں کے بدلے ان کو دحیہ کلبی سے حاصل فرمالیا اس کے بعد یہ برضا ورغبت اسلام لے آئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجیت سے ان کومشرف فرمایا اور ان کو آزاد کر دیا اور ان کی آزادی ہی کو ان کا مہر مقرر فرمایا۔ حضرت صفیہ نے 50 ھ میں وفات پائیں اور جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔ ان سے حضرت انس اور ابن عمر وغیرہ روایت کرتے ہیں حی میں یائے مہملہ کا پیش اور نیچے دو نقطوں والی یاءکا زبر اور دوسری یاءپر تشدید ہے۔

صلوۃالخو ف کے متعلق علامہ شوکانی نے بہت کافی تفصیلات پیش فرمائی ہیں اور چھ سات طریقوں سے اس کے پڑھنے کا ذکر کیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں وقد اختلف فی عدد الانواع الواردۃ فی صلوۃ الخوف فقال ابن قصار المالکی ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلاھا افی عشرۃ مواطن وقال النووی انہ یبلغ مجموع انواع صلوۃ الخوف ستۃ عشر وجھا کلھا جائزۃ وقال الخطابی صلوۃ الخوف انواع صلاھا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی ایام مختلفۃ واشکال متباینۃ یتحری فی کلھا ما ھو احوط للصلوۃ وابلغ فی الحراسۃ الخ ( نیل الاوطار )
یعنی صلوۃ خوف کی قسموں میں اختلاف ہے جو وارد ہوئی ہیں ابن قصار مالکی نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دس جگہ پڑھا ہے اور نووی کہتے ہیں کہ اس نماز کی تمام قسمیں سولہ تک پہنچی ہیں اور وہ سب جائز درست ہیں۔ خطابی نے کہا کہ صلوۃ الخوف کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام مختلفہ میں مختلف طریقوں سے ادا فرمایا ہے۔ اس میں زیادہ تر قابل غور چیز یہی رہی ہے کہ نماز کے لیے بھی ہر ممکن احتیاط سے کام لیا جائے اور اس کا بھی خیال رکھا جائے کہ حفاظت اور نگہبانی میں بھی فرق نہ آنے پائے۔ علامہ ابن حزم نے اس کے چودہ طریقے بتلائے ہیں اور ایک مستقل رسالہ میں ان سب کا ذکر فرمایا ہے۔

الحمد للہ کہ اواخر محرم 1389ھ میں کتاب صلوۃ الخوف کی تبیض سے فراغت حاصل ہوئی، اللہ پاک ان لغزشوں کو معاف فرمائے جو اس مبارک کتاب کا ترجمہ لکھنے اور تشریحات پیش کرنے میں مترجم سے ہوئی ہونگی۔ وہ غلطیاں یقینامیری طرف سے ہیں۔ اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین عالیہ کا مقام بلند وبرتر ہے، آپ کی شان اوتیت جوامع الکلم ہے۔ اللہ سے مکرر دعا ہے کہ وہ میری لغزشوں کو معاف فرما کر اپنے دامن رحمت میں ڈھانپ لے اور اس مبارک کتاب کے جملہ قدردانوں کو برکات دارین سے نوازے آمین یا رب العالمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب العیدین


صحیح بخاری -> کتاب العیدین
(کتاب عیدین کے مسائل کے بیان میں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم

تشریح : عید کی وجہ تسمیہ کے بارے میں حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واصل العید عود لانہ مشتق من عاد یعود عودا وھو الرجوع قلبت الواو یاءلسکونھا والکسار ما قبلھا کما فی المیزان والمیقات وجمعہ اعیاد لزوم الیاءفی الواحد او للفرق بینہ وبین اعواد الخشب وسمیا عیدین لکثرۃ عوائد اللہ تعالیٰ فیھما او لانھم یعودون الیھما مرۃ بعد اخریٰ او لتکررھما وعودھما لکل عام او لعود السرور بعودھما قال فی الازھار کل اجتماع للسرور فھو عند العرب عید یعود السرور بعودی وقیل ان اللہ تعالیٰ یعود علی العباد با لمغفرۃ والرحمۃ وقیل تفاولا بعودہ علی من ادرکہ کما سمیت القافلۃ تفاولا لرجوعھا وقیل لعودہ بعض المباحات فیھما واجبا کالفطر وقیل لانہ یعاد فیھما التکبیرات واللہ تعالی اعلم ( مرعاۃ، ج:2ص:327 )
یعنی عید کی اصل لفظ عود ہے جو عاد یعود سے مشتق ہے جس کے معنی رجوع کرنے کے ہیں، عود کا واؤ یاءسے بدل گیا ہے اس لیے کہ وہ ساکن ہے اور ماقبل اس کے کسرہ ہے جیسا کہ لفظ میزان اور میقات میں واؤ یاءسے بدل گیا ہے عید کی جمع اعیاد ہے۔ اس لیے کہ واحد میں لفظ“یائ” کا لزوم ہے یا لفظ عود بمعنی لکڑی کی جمع اعواد سے فرق ظاہر کرنا مقصود ہے۔ ان کا عیدین نام اس لیے رکھا گیا کہ ان دونوں میں عنایات الٰہی بے پایاں ہوتی ہیں یا اس لیے ان کو عیدین کہاگیا کہ مسلمان ہر سال ان دنوں کی طرف لوٹتے رہتے ہیں یا یہ کہ یہ دونوں دن ہر سال لوٹ لوٹ کر مکرر آتے رہتے ہیں یا یہ کہ ان کے لوٹنے سے مسرت لوٹتی ہے۔ عربوں کی اصطلاح میںہر وہ اجتماع جو خوشی اور مسرت کا اجتماع ہو عید کہلاتا تھا، اس لیے ان دنوں کو بھی جو مسلمان کے لیے انتہائی خوشی کے دن ہیں عیدین کہا گیا۔ یا یہ بھی کہ ان دنوں میں اپنے بندوں پر اللہ اپنی بے شمار رحمتوں کا اعادہ فرماتا ہے یا اس لیے کہ جس طرح بطور نیک فال جانے والے گروہ کو قافلہ کہا جاتا ہے جس کے لفظی معنی آنے والے کے ہیں یا اس لیے بھی کہ ان میں بعض مباح کام وجوب کی طرف لوٹ جاتے ہیں جیسے کہ اس دن عید الفطر میں روزہ رکھنا واجب طورپر نہ رکھنے کی طرف لوٹ گیا ہے یا اس لیے کہ ان دنوں میں تکبیرات کو باربار لوٹا لوٹا کر کہا جاتا ہے اس لیے ان کو لفظ عید ین سے تعبیر کیا گیا ہے ان دنوں کے مقرر کر نے میں کیا کیا فوائد اور مصالح ہیں اسی مضمون کو شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں بڑی تفصیل کے ساتھ احسن طور پر بیان فرمایا ہے۔ اس کو وہاں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے نماز عیدین کے متعلق تکبیرات کی بابت کچھ نہیں بتلایا اگر چہ اس بارے میں اکثر احادیث واقوال صحابہ موجود ہیں مگر وہ حضرت امام کی شرائط پر نہیں تھے۔ اس لیے آپ نے ان میں سے کسی کا بھی ذکر نہیں کیا۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں اس سلسلہ کے دس قول نقل کیے ہیں جن میں جسے ترجیح حاصل ہے وہ یہ ہے۔ احدھا انہ یکبر فی الاولیٰ سبعا قبل القراۃ وفی الثانیۃ خمسا قبل القراۃ قال العراقی وھو قو ل اکثر اھل العلم من الصحابۃ والتابعین والائمۃ قال وھو مروی عن عمر وعلی وابی ھریرہ وابی سعید الخ یعنی پہلا قول یہ ہے کہ پہلی رکعت میں قرات سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں کہی جائیں۔ صحابہ اور تابعین اور ائمہ کرام میں سے اکثر اہل علم کا یہی مسلک ہے، اس بارے میں جو احادیث مروی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

عن عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کبر فی عید ثنتی عشرۃ تکبیرۃ سبعا فی الاولیٰ وخمسا فی الاخرۃ ولم یصل قبلھا ولا بعدھا رواہ احمد وابن ماجۃ قال احمد انا اذھب الی ھذا۔ یعنی حضرت عمروبن شعیب نے اپنے باپ سے، انہوں نے اپنے داد سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید میں بارہ تکبیروں سے نماز پڑھائی پہلی رکعت میں آپ نے سات تکبیریں اوردوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں کہ میرا عمل بھی یہی ہے۔

وعن عمرو بن عوف المزنی رضی اللہ عنہ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کبر فی العیدین فی الاولیٰ سبعا قبل القراۃ وفی الثانیۃ خمسا قبل القراۃ رواہ الترمذی وقال ھو احسن شئی فی ھذا الباب عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔ یعنی عمرو بن عوف مزنی سے روایت ہے کہ بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کی پہلی رکعت میں قرات سے پہلے سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ کے بارے میں یہ بہترین حدیث ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔

علامہ شوکانی فرماتے ہیں کہ امام ترمذی نے کتاب العلل المفردۃ میں فرمایا سالت محمد بن اسماعیل ( البخاری ) عن ھذا الحدیث فقال لیس فی ھذا الباب شئی اصح منہ وبہ اقول انتھی۔ یعنی اس حدیث کے بارے میں میں نے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اس مسئلہ کے متعلق اس سے زیادہ کوئی حدیث صحیح نہیں ہے اور میرا بھی یہی مذہب ہے، اس بارے میں اور بھی کئی احادیث مروی ہیں۔

حنفیہ کا مسلک اس بارے میں یہ ہے کہ پہلی رکعت میں تکبیر تحریمہ کے بعد قرات سے پہلے تین تکبیریں کہی جائیں اور دوسری رکعت میں قرات کے بعد تین تکبیریں۔ بعض صحابہ سے یہ مسلک بھی نقل کیا گیا ہے جیسا کہ نیل الاوطار، ص:299 پر منقول ہے مگر اس بارے کی روایات ضعف سے خالی نہیں ہیں جیسا کہ علامہ شوکانی نے تصریح فرمائی ہے: فمن شاءفلیرجع الیہ حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: واما ما ذھب الیہ اھل الکوفۃ فلم یرد فیہ حدیث مرفوع غیر حدیث ابی موسیٰ الاشعری وقد عرفت انہ لا یصلح للاحتجاج ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی کوفہ والوں کے مسلک کے ثبوت میں کوئی حدیث مرفوع وارد نہیں ہوئی صرف حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی گئی ہے جو قابل حجت نہیں ہے۔

حجۃ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اسی بارے میں بہت ہی بہتر فیصلہ دیا ہے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ مبارک یہ ہیں یکبر فی الاولیٰ سبعا قبل القراۃ والثانیۃ خٰمسا قبل القراۃ وعمل الکوفین ان یکبر اربعا کتکبیر الجنائز فی الاولیٰ قبل القراۃ وفی الثانیۃ بعدھا وھما سنتان وعمل الحرمین ارجح ( حجۃ اللہ البالغۃ، ج:2ص:106 ) یعنی پہلی رکعت میں قرات سے پہلے سات تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرات سے پہلے پانچ تکبیریں کہنی چاہئیں مگر کوفہ والوں کا عمل یہ ہے کہ پہلی رکعت میں تکبیرات جنازہ کی طرح قرات سے پہلے چار تکبیر کہی جائیں اور دوسری رکعت میں قرات کے بعد یہ دونوں طریقے سنت ہیں۔مگر حرمین شریفین یعنی کہ مدینہ والوں کا عمل جو پہلے بیان ہوا ترجیح اس کو حاصل ہے ( کوفہ والوں کا عمل مرجوح ہے )

عید کی نماز فرض ہے یا سنت اس بارے میں علماءمختلف ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جن پر جمعہ فرض ہے ان پر عیدین کی نماز فرض ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ اسے سنت مؤکدہ قرار دیتے ہیں۔ اس پر حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث مبارکپوری فرماتے ہیں: والراجح عندی ما ذھب الیہ ابو حنیفۃ من انھا واجبۃ علی الاعیان لقولہ تعالیٰ فصل لربک وانحر والامر یقتضی الوجوب ولمداومۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم علی فعلھا من غیر ترک ولانھا من اعلام الدین الظاھر ۃ فکانت واجبۃ الخ ( مرعاۃ، ج :3ص327 ) یعنی میرے نزدیک اسی خیال کو ترجیح حاصل ہے جس کی طرف حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ گئے ہیں کہ یہ اعیان پر واجب ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن میں بصیغہ امر فرمایا فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانحَر ( الکوثر:2 ) اپنے رب کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔”صیغہ امر وجوب کو چاہتا ہے اور اس لیے بھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشگی فرمائی اور یہ دین کے ظاہر نشانوں میں سے ایک اہم ترین نشان ہے۔


باب : دونوں عیدوں اور ان میں زیب و زینت کرنے کا بیان

حدیث نمبر : 948
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سالم بن عبد الله، أن عبد الله بن عمر، قال أخذ عمر جبة من إستبرق تباع في السوق، فأخذها فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله ابتع هذه تجمل بها للعيد والوفود‏.‏ فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما هذه لباس من لا خلاق له‏"‏‏. ‏ فلبث عمر ما شاء الله أن يلبث، ثم أرسل إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بجبة ديباج، فأقبل بها عمر، فأتى بها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إنك قلت ‏"‏ إنما هذه لباس من لا خلاق له‏"‏‏. ‏ وأرسلت إلى بهذه الجبة فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ تبيعها أو تصيب بها حاجتك‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے سالم بن عبد اللہ نے خبر دی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک موٹے ریشمی کپڑے کا چغہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جو بازار میں بک رہا تھا کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ اسے خرید لیجئے اور عید اور وفود کی پذیرائی کے لیے اسے پہن کر زینت فرمایا کیجئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو وہ پہنے گا جس کا ( آخرت میں ) کوئی حصہ نہیں۔ اس کے بعد جب تک خدا نے چاہا عمر رہی پھر ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کے پاس ایک ریشمی چغہ تحفہ میں بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسے لیے ہوئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یا رسو ل اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا کہ اس کو وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں پھر آپ نے یہ میرے پاس کیوں بھیجا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تیرے پہننے کو نہیں بھیجا بلکہ ا س لیے کہ تم اسے بیچ کر اس کی قیمت اپنے کام میں لاؤ۔

تشریح : اس حدیث میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ جبہ آپ عید کے دن پہنا کیجئے اسی طرح وفود آتے رہتے ہیں ان سے ملاقات کے لیے بھی آپ اس کا استعمال کیجئے۔ لیکن وہ جبہ ریشمی تھا اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے انکار فرمایا کہ ریشم مردوں کے لیے حرام ہے۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ عید کے دن جائز لباسوں کے ساتھ آرائش کرنی چاہیے اس سلسلے میں دوسری احادیث بھی آئی ہیں۔

مولانا وحید الزماں اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں کہ سبحان اللہ! اسلام کی بھی کیا عمدہ تعلیم ہے کہ مردوں کو جھوٹا موٹا سوتی اونی کپڑا کافی ہے ریشمی اور باریک کپڑے یہ عورتوں کو سزاوار ہیں۔ اسلام نے مسلمانوں کو مضبوط محنتی جفا کش سپاہی بننے کی تعلیم دی نہ عورتوں کی طرح بناؤ سنگھار اور نازک بدن بننے کی۔ اسلام نے عیش وعشرت کا ناجائز اسباب مثلا نشہ شراب خوری وغیرہ بالکل بند کر دیا لیکن مسلمان اپنے پیغمبر کی تعلیم چھوڑ کر نشہ اور رنڈی بازی میں مشغول ہوئے اور عورتوں کی طرح چکن اور ململ اور گوٹا کناری کے کپڑے پہننے لگے۔ ہاتھوں میں کڑے اور پاؤں میں مہندی، آخر اللہ تعالیٰ نے ان سے حکومت چھین لی اور دوسری مردانہ قوم کو عطاءفرمائی ایسے زنانے مسلمانوں کو ڈوب مرنا چاہیے بے غیرت بے حیا کم بخت ( وحیدی ) مولانا کا اشارہ ان مغل شہزادوں کی طرف ہے جو عیش وآرام میں پڑ کر زوال کاسبب بنے، آج کل مسلمانوں کے کالج زدہ نوجوانوں کا کیا حال ہے جو زنانہ بننے میں شاید مغل شہزادوں سے بھی آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جن کا حال یہ ہے

نہ پڑھتے تو کھاتے سو طرح کما کر
وہ کھوئے گئے الٹے تعلیم پا کر

 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عید کے دن برچھیوں اور ڈھالوں سے کھیلنا

حدیث نمبر : 949
حدثنا أحمد، قال حدثنا ابن وهب، قال أخبرنا عمرو، أن محمد بن عبد الرحمن الأسدي، حدثه عن عروة، عن عائشة، قالت دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعندي جاريتان تغنيان بغناء بعاث، فاضطجع على الفراش وحول وجهه، ودخل أبو بكر فانتهرني وقال مزمارة الشيطان عند النبي صلى الله عليه وسلم فأقبل عليه رسول الله ـ عليه السلام ـ فقال ‏"‏ دعهما ‏"‏ فلما غفل غمزتهما فخرجتا‏.‏
ہم سے احمد بن عیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبد اللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی کہ محمد بن عبد الرحمن اسدی نے ان سے بیان کیا، ان سے عروہ نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے، انہوں نے بتلایا کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اس وقت میرے پاس ( انصار کی ) دو لڑکیاں جنگ بعاث کے قصوں کی نظمیں پڑھ رہی تھیں۔ آپ بستر پر لیٹ گئے اور اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس کے بعد حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ آئے اور مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ یہ شیطانی باجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں؟ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ جانے دو خاموش رہو پھر جب حضرت ابوبکر دوسرے کام میں لگ گئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا اور وہ چلی گئیں۔

حدیث نمبر : 950
وكان يوم عيد يلعب السودان بالدرق والحراب، فإما سألت النبي صلى الله عليه وسلم وإما قال ‏"‏ تشتهين تنظرين‏"‏‏. ‏ فقلت نعم‏.‏ فأقامني وراءه خدي على خده، وهو يقول ‏"‏ دونكم يا بني أرفدة‏"‏‏. ‏ حتى إذا مللت قال ‏"‏ حسبك‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏ فاذهبي‏"‏‏. ‏
اور یہ عید کا دن تھا۔ حبشہ سے کچھ لوگ ڈھالوں اور برچھوں سے کھیل رہے تھے۔ اب یا خود میں نے کہا یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم یہ کھیل دیکھو گی؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میرا رخسار آپ کے رخسار پر تھا اور آپ فرما رہے تھے کھیلو کھیلو اے بنی ( ارفدہ ) یہ حبشہ کے لوگوں کا لقب تھا پھر جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا “ بس! ” میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ جاؤ۔

تشریح : بعض لوگوں نے کہا کہ حدیث اور ترجمۃ الباب میں مطابقت نہیں واجاب ابن المنیر فی الحاشیۃ بان مراد البخاری رحمہ اللہ الاستدلال علی ان العید بنتضر فیہ من الانبساط مالا ینتضرفی غیرہ ولیس فی الترجمۃ ایضاً تقیید بحال الخروج الی العید بل الظاھر ان لعب الحبشۃ ان کان بعد رجوعہ صلی اللہ علیہ وسلم عن المصلی لانہ کان یخرج اول النھار ( فتح الباری ) یعنی ابن منیر نے یہ جواب دیا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا استدلال اس امر کے لیے ہے کہ عید میں اس قدر مسرت ہوتی ہے جو اس کے غیر میں نہیں ہوتی اور ترجمہ میں حبشیوں کے کھیل کا ذکر عید سے قبل کے لیے نہیں ہے بلکہ ظاہر ہے کہ حبشیوں کا یہ کھیل عیدگاہ سے واپسی پر تھا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شروع دن ہی میں نماز عید کے لیے نکل جایا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : اس بارے میں کہ مسلمانوں کے لیے عید کے دن پہلی سنت کیا ہے؟

حدیث نمبر : 951
حدثنا حجاج، قال حدثنا شعبة، قال أخبرني زبيد، قال سمعت الشعبي، عن البراء، قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب فقال ‏"‏ إن أول ما نبدأ من يومنا هذا أن نصلي، ثم نرجع فننحر، فمن فعل فقد أصاب سنتنا‏"‏‏. ‏
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں زبید بن حارث نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ پہلا کام جو ہم آج کے دن ( عید الاضحیٰ ) میں کرتے ہیں، یہ ہے کہ پہلے ہم نماز پڑھیں پھر واپس آ کر قربا نی کریں۔ جس نے اس طرح کیا وہ ہمارے طریق پر چلا۔

حدیث نمبر : 952
حدثنا عبيد بن إسماعيل، قال حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت دخل أبو بكر وعندي جاريتان من جواري الأنصار تغنيان بما تقاولت الأنصار يوم بعاث ـ قالت وليستا بمغنيتين ـ فقال أبو بكر أمزامير الشيطان في بيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وذلك في يوم عيد‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا أبا بكر إن لكل قوم عيدا، وهذا عيدنا‏"‏‏. ‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ ( عروہ بن زبیر ) نے، ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے بتلایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تو میرے پاس انصار کی دو لڑکیاں وہ اشعار گا رہی تھیں جو انصار نے بعاث کی جنگ کے موقع پر کہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ گانے والیاں نہیں تھیں، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں شیطانی باجے اور یہ عید کا دن تھا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر سے فرمایا اے ابو بکر ہر قوم کی عید ہوتی ہے اور آج یہ ہماری عید ہے۔

قال الخطابی یوم بعاث یو م مشھودمن ایام العرب کانت فیہ مقتلۃ عظیمۃ للاوس والخروج ولقیت الحربۃ قائمۃ مائۃ وعشرین سنۃ الی الاسلام علی ما ذکر ابن اسحاق وغیرہ یعنی خطابی نے کہا کہ یوم بعاث تاریخ عرب میں ایک عظیم لڑائی کے نام سے مشہور ہے جس میں اوس اور خزرج کے دو بڑے قبائل کی جنگ ہوئی تھی جس کا سلسلہ نسلا بعد نسل ایک سو بیس سال تک جاری رہا یہاں تک کہ اسلام کا دور آیا اور یہ قبائل مسلمان ہوئے۔ دوسری روایت میں ہے کہ یہ گانا دف کے ساتھ ہو رہا تھا۔ بعاث ایک قلعہ ہے جس پر اوس اور خزرج کی جنگ ایک سو بیس برس سے جاری تھی۔ اسلام کی برکت سے یہ جنگ موقوف ہوگئی اور دونوں قبیلوں میں الفت پیدا ہو گئی۔ اس جنگ کی مظلوم روداد تھی جو یہ بچیاں گا رہی تھیں جن میں ایک حضرت عبد اللہ بن سلام کی لڑکی اور دوسری حسان بن ثابت کی لڑکی تھی ( فتح الباری )
اس حدیث سے معلوم یہ ہوا کہ عید کے دن ایسے گانے میں مضائقہ نہیں کیونکہ یہ دن شرعاً خوشی کا دن ہے پھر اگر چھوٹی لڑکیاں کسی کی تعریف یا کسی کی بہادری کے اشعار خوش آواز سے پڑھیں تو جائز ہے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی رخصت دی۔ لیکن اس میں بھی شرط یہ ہے کہ گانے والی جواں عورت نہ ہو اور راگ کا مضمون شرع شریف کے خلاف نہ ہو اور صوفیوں نے جو اس بات میں خرافات اور بدعات نکالی ہیں ان کی حرمت میں بھی کسی کا اختلاف نہیں ہے اورنفوس شہوانیہ بہت صوفیوں پر غالب آگئے یہاں تک کہ بہت صوفی دیوانوں اور بچوں کی طرح ناچتے ہیں اور ان کو تقرب الی اللہ کا وسیلہ جانتے ہیں اور نیک کام سمجھتے ہیں اور یہ بلا شک وشبہ زنادقہ کی علامت ہے اور بیہودہ لوگوں کا قول۔ واللہ المستعان ( تسہیل القاری، پ:4ص39/326 )

بنو ارفدہ حبشیوں کا لقب ہے آپ نے برچھوں اور ڈھالوں سے ان کے جنگی کرتبوں کو ملاحظہ فرمایا اور ان پر خوشی کا اظہار کیا۔ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب یہی ہے کہ عید کے دن اگر ایسے جنگی کرتب دکھلائے جائیں تو جائز ہے۔ اس حدیث سے اور بھی بہت سی باتوں کا ثبوت ملتا ہے۔ مثلاً یہ کہ خاوند کی موجودگی میں باپ اپنی بیٹی کو ادب کی بات بتلاسکتا ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے بڑوں کے سامنے بات کرنے میں شرم کرنی مناسب ہے، یہ بھی ظاہر ہوا کہ شاگرد اگر استاد کے پاس کوئی امر مکروہ دیکھے تو وہ از راہ ادب نیک نیتی سے اصلاح کا مشورہ دے سکتا ہے، اور بھی کئی امور پر اس حدیث سے روشنی پڑتی ہے۔ جو معمولی غور وفکر سے واضح ہو سکتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عید الفطر میں نماز کے لیے جانے سے پہلے کچھ کھا لینا

حدیث نمبر : 953
حدثنا محمد بن عبد الرحيم، حدثنا سعيد بن سليمان، قال حدثنا هشيم، قال أخبرنا عبيد الله بن أبي بكر بن أنس، عن أنس، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يغدو يوم الفطر حتى يأكل تمرات‏.‏ وقال مرجى بن رجاء حدثني عبيد الله قال حدثني أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم ويأكلهن وترا‏.‏
ہم سے محمد بن عبد الرحیم نے بیان کیا کہ ہم کو سعید بن سلیمان نے خبر دی کہ ہمیں ہشیم بن بشیر نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبد اللہ بن ابی بکر بن انس نے خبر دی اور انہیں انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے، آپ نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطرکے دن نہ نکلتے جب تک کہ آپ چند کھجوریں نہ کھا لیتے اور مرجی بن رجاءنے کہا کہ مجھ سے عبید اللہ بن ابی بکر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر یہی حدیث بیان کی کہ آپ طاق عدد کھجوریں کھاتے تھے۔

معلوم ہوا کہ عید الفطر میں نماز کے لیے نکلنے سے پہلے چند کھجوریں اگر میسر ہوں تو کھا لینا سنت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : بقرہ عید کے دن کھانا

تشریح : اس باب میں حضرت امام بخاری رحمہ اللہ وہ صاف حدیث نہ لا سکے جوامام احمد اور ترمذی نے روایت کی ہے کہ بقر عید کے دن آپ لوٹ کر اپنی قربانی میں سے کھاتے۔ وہ حدیث بھی تھی مگر ان شرائط کے مطابق نہ تھی جو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی شرائط ہیں، اسی لیے آپ اس کو نہ لا سکے۔

حدیث نمبر : 954
حدثنا مسدد، قال حدثنا إسماعيل، عن أيوب، عن محمد، عن أنس، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من ذبح قبل الصلاة فليعد‏"‏‏. ‏ فقام رجل فقال هذا يوم يشتهى فيه اللحم‏.‏ وذكر من جيرانه فكأن النبي صلى الله عليه وسلم صدقه، قال وعندي جذعة أحب إلى من شاتى لحم، فرخص له النبي صلى الله عليه وسلم فلا أدري أبلغت الرخصة من سواه أم لا‏.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے ایوب سختیانی سے، انہوں نے محمد بن سیرین سے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص نماز سے پہلے قربانی کر دے اسے دوبارہ کر نی چاہیے۔ اس پر ایک شخص ( ابو بردہ ) نے کھڑے ہو کر کہا کہ یہ ایسا دن ہے جس میں گوشت کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور اس نے اپنے پڑوسیوں کی تنگی کا حال بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سچا سمجھا اس شخص نے کہا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو گوشت کی دو بکریوں سے بھی مجھے زیادہ پیاری ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اسے اجازت دے دی کہ وہی قربانی کرے۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ یہ اجازت دوسروں کے لیے بھی ہے یا نہیں۔

یہ اجازت خاص ابو بردہ کے لیے تھی جیسا کہ آگے آرہا ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ان کی خبر نہیں ہوئی، اس لیے انہوں نے ایسا کہا۔

حدیث نمبر : 955
حدثنا عثمان، قال حدثنا جرير، عن منصور، عن الشعبي، عن البراء بن عازب ـ رضى الله عنهما ـ قال خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم الأضحى بعد الصلاة فقال ‏"‏ من صلى صلاتنا ونسك نسكنا فقد أصاب النسك، ومن نسك قبل الصلاة فإنه قبل الصلاة، ولا نسك له‏"‏‏. ‏ فقال أبو بردة بن نيار خال البراء يا رسول الله، فإني نسكت شاتي قبل الصلاة، وعرفت أن اليوم يوم أكل وشرب، وأحببت أن تكون شاتي أول ما يذبح في بيتي، فذبحت شاتي وتغديت قبل أن آتي الصلاة‏.‏ قال ‏"‏ شاتك شاة لحم‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله، فإن عندنا عناقا لنا جذعة هي أحب إلى من شاتين، أفتجزي عني قال ‏"‏ نعم، ولن تجزي عن أحد بعدك‏"‏‏. ‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصورنے، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الاضحی کی نماز کے بعد خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ جس شخص نے ہماری نماز کی سی نماز پڑھی اور ہماری قربانی کی طرح قربانی کی اس کی قربانی صحیح ہوئی لیکن جو شخص نماز سے پہلے قربانی کرے وہ نماز سے پہلے ہی گوشت کھاتا ہے مگر وہ قربانی نہیں۔ براء کے ماموں ابوبردہ بن نیاریہ سن کر بولے کہ یا رسول اللہ! میں نے اپنی بکری کی قربانی نماز سے پہلے کر دی میں نے سوچا کہ یہ کھانے پینے کا دن ہے میری بکری اگر گھر کا پہلا ذبیحہ بنے تو بہت اچھا ہو۔ اس خیال سے میں نے بکری ذبح کر دی اور نماز سے پہلے ہی اس کا گوشت بھی کھا لیا۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر تمہاری بکری گوشت کی بکری ہوئی۔ ابو بردہ بن نیار نے عرض کیا کہ میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ مجھے گوشت کی دو بکریوں سے بھی عزیز ہے، کیا اس سے میری قربانی ہو جائے گی؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں لیکن تمہارے بعد کسی کی قربانی اس عمر کے بچے سے کافی نہ ہوگی۔

تشریح : کیونکہ قربانی میں مسنہ بکری ضروری ہے جو دوسرے سال میں ہو اور دانت نکال چکی ہو۔ بغیر دانت نکالے بکری قربانی کے لائق نہیں ہوتی۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نیل الاوطار میں اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: قولہ الامسنۃ قال العلماءالمسنۃ ھی الثنیۃ من کل شئی من الابل والبقر والغنم فما فوقھا الخ مسجد میں ہے۔ کہ الثنیۃ جمعہ ثنایا وھی اسنان مقدم الفم ثنتان من فوق وثنتان من اسفل یعنی ثنیہ سامنے کے اوپر نیچے کے دانت کو کہتے ہیں، اس لحاظ سے حدیث کے یہ معنی ہوئے کہ دانت والے جانوروں کو قربانی کرو اس سے لازم یہی نتیجہ نکلا کہ کھیرے کی قربانی نہ کرو اس لیے ایک روایت میں ہے ینفی من الضحایا التی لم تسن قربانی کے جانوروں میں سے وہ جانور نکال ڈالا جائے گا جس کے دانت نہ اگے ہوں گے اگر مجبوری کی حالت میں مسنہ نہ ملے مشکل ودشوار ہو تو جذعۃ من الضان بھی کر سکتے ہیں جیسا کہ اسی حدیث کے آخر میں آپ نے فرمایا: الاان یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضان لغات الحدیث میں لکھا ہے پانچویں برس میں جو اونٹ لگا ہواور دوسرے برس میں جو گائے بکری لگی ہو اور چوتھے برس میں جو گھوڑا لگا ہو۔ بعضوں نے کہا جو گائے تیسرے برس میں لگی ہو اور جو بھیڑ ایک برس کی ہو گئی جیسا کہ حدیث میں ہے۔

ضحینا من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالجذع من الضان والثنی من المعز ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک برس کی بھیڑ اور دو برس کی ( جو تیسرے میں لگی ہو ) بکری قربانی کی اور تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ بکری ثنی وہ ہے جو دو سال گزار چکی ہو اور جذعہ اسے کہتے ہیں جو سال بھر کا ہو گیا ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عیدگاہ میں خالی جانا منبر نہ لے جانا

حدیث نمبر : 956
حدثنا سعيد بن أبي مريم، قال حدثنا محمد بن جعفر، قال أخبرني زيد، عن عياض بن عبد الله بن أبي سرح، عن أبي سعيد الخدري، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخرج يوم الفطر والأضحى إلى المصلى، فأول شىء يبدأ به الصلاة ثم ينصرف، فيقوم مقابل الناس، والناس جلوس على صفوفهم، فيعظهم ويوصيهم ويأمرهم، فإن كان يريد أن يقطع بعثا قطعه، أو يأمر بشىء أمر به، ثم ينصرف‏.‏ قال أبو سعيد فلم يزل الناس على ذلك حتى خرجت مع مروان وهو أمير المدينة في أضحى أو فطر، فلما أتينا المصلى إذا منبر بناه كثير بن الصلت، فإذا مروان يريد أن يرتقيه قبل أن يصلي، فجبذت بثوبه فجبذني فارتفع، فخطب قبل الصلاة، فقلت له غيرتم والله‏.‏ فقال أبا سعيد، قد ذهب ما تعلم‏.‏ فقلت ما أعلم والله خير مما لا أعلم‏.‏ فقال إن الناس لم يكونوا يجلسون لنا بعد الصلاة فجعلتها قبل الصلاة‏.‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی، انہیں عیاض بن عبد اللہ بن ابی سرح نے، انہیں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے، آپ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن ( مدینہ کے باہر ) عید گاہ تشریف لے جاتے تو سب سے پہلے آپ نماز پڑھاتے، نمازسے فارغ ہو کر آپ لوگوں کے سامنے کھڑے ہوتے۔ تمام لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے رہتے، آپ انہیں وعظ ونصیحت فرماتے، اچھی باتوں کا حکم دیتے۔ اگر جہاد کے لیے کہیں لشکر بھیجنے کا ارادہ ہوتا تو اس کو الگ کرتے۔ کسی اور بات کا حکم دینا ہوتا تو وہ حکم دیتے۔ اس کے بعد شہر کو واپس تشریف لاتے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ لوگ برابر اسی سنت پر قائم رہے لیکن معاویہ کے زمانہ میں مروان جو مدینہ کا حاکم تھا پھر میں اس کے ساتھ عید الفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے نکلا ہم جب عید گاہ پہنچے تو وہاں میں نے کثیر بن صلت کا بنا ہوا ایک منبر دیکھا۔ جاتے ہی مروان نے چاہا کہ اس پر نماز سے پہلے ( خطبہ دینے کے لیے چڑھے ) اس لیے میں نے ان کا دامن پکڑ کر کھینچا اور لیکن وہ جھٹک کر اوپر چڑھ گیا اور نماز سے پہلے خطبہ دیا۔ میں نے اس سے کہا کہ واللہ تم نے ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ) بدل دیا۔ مروان نے کہا کہ اے ابوسعید! اب وہ زمانہ گزر گیا جس کو تم جانتے ہو۔ ابوسعید نے کہا کہ بخدا میں جس زمانہ کو جانتا ہوں اس زمانہ سے بہتر ہے جو میں نہیں جانتا۔ مروان نے کہا کہ ہمارے دور میں لوگ نماز کے بعد نہیں بیٹھتے، اس لیے میں نے نماز سے پہلے خطبہ کو کر دیا۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد باب سے یہ بتلانا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عید گاہ میں منبر نہیں رکھا جاتا تھا اور نماز کے لیے کوئی خاص عمارت نہ تھی۔ میدان میں عید الفطر اور بقرعید کی نماز یں پڑھی جاتی تھیں۔ مروان جب مدینہ کا حاکم ہوا تو اس نے عیدگاہ میں خطبہ کے لیے منبر بھجوایا اور عیدین میں خطبہ نماز کے بعد دینا چاہیے تھا۔ لیکن مروان نے سنت کے خلاف پہلے ہی خطبہ شروع کر دیا۔ صد افسوس کہ اسلام کی فطری سادگی جلد ہی بدل دی گئی پھر ان میں دن بدن اضافے ہوتے رہے۔ علماءاحناف نے آج کل نیا اضافہ کر ڈالا کہ نماز اورخطبہ سے قبل کچھ وعظ کرتے ہیں اور گھنٹہ آدھ گھنٹہ اس میں صرف کرکے بعد میں نماز اور خطبہ محض رسمی طور پر چند منٹوں میں ختم کر دیا جاتا ہے۔ آج کوئی کثیر بن صلت نہیں جو ان اختراعات پر نوٹس لے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : نماز عید کے لیے پیدل یا سوار ہو کر جانا اور نماز کا خطبہ سے پہلے اذان اور اقامت کے بغیر ہونا

حدیث نمبر : 957
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا أنس، عن عبيد الله، عن نافع، عن عبد الله بن عمر،‏.‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي في الأضحى والفطر، ثم يخطب بعد الصلاة‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، انہوں نے عبید اللہ بن عمر سے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الضحی یا عید الفطر کی نماز پہلے پڑھتے اور خطبہ نماز کے بعد دیتے تھے۔

تشریح : باب کی حدیثوں میں سے نہیں نکلتا کہ عید کی نماز کے لیے سواری پر جانا یا پیدل جانا مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے سواری پر جانے کی ممانعت مذکور نہ ہونے سے یہ نکالا کہ سواری پر بھی جانا منع نہیں ہے گو پیدل جانا افضل ہے۔ شافعی نے کہا ہمیں زہری سے پہنچا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید میں یا جنازے میں کبھی سوار ہو کر نہیں گئے اور ترمذی نے حضرت علی سے نکالا کہ عید کی نماز کے لیے پیدل جانا سنت ہے۔ ( وحیدی )

اس باب کی روایات میں نہ پیدل چلنے کا ذکر ہے نہ سوار ی پر چلنے کی ممانعت ہے جس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ ہر دو طرح سے عید گاہ جانا درست ہے، اگر چہ پیدل چلنا سنت ہے اور اسی میں زیادہ ثواب ہے کیونکہ زمین پر جس قدر بھی نقش قدم ہوں گے ہر قدم کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب ملے گا لیکن اگر کوئی معذور ہو یا عیدگاہ دور ہو تو سواری کا استعمال بھی جائز ہے۔ بعض شارحین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلال رضی اللہ عنہ پر تکیہ لگانے سے سواری کا جواز ثابت کیا ہے۔ واللہ اعلم

حدیث نمبر : 958
حدثنا إبراهيم بن موسى، قال أخبرنا هشام، أن ابن جريج، أخبرهم قال أخبرني عطاء، عن جابر بن عبد الله، قال سمعته يقول إن النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوم الفطر، فبدأ بالصلاة قبل الخطبة‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں ہشام نے خبر دی کہ ا بن جریج نے انہیں خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عطاء بن ابی رباح نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ آپ کو میں نے یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن عیدگاہ تشریف لے گئے اور پہلے نماز پڑھی پھر خطبہ سنایا۔

حدیث نمبر : 959
قال وأخبرني عطاء، أن ابن عباس، أرسل إلى ابن الزبير في أول ما بويع له إنه لم يكن يؤذن بالصلاة يوم الفطر، إنما الخطبة بعد الصلاة‏.‏
پھر ابن جریج نے کہا کہ مجھے عطاءنے خبر دی کہ ا بن عباس رضی اللہ عنہ نے ا بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس ایک شخص کو اس زمانہ میں بھیجا جب ( شروع شروع ان کی خلافت کا زمانہ تھا آپ نے کہلایا کہ ) عید الفطر کی نماز کے لیے اذان نہیں دی جاتی تھی اور خطبہ نماز کے بعد ہوتا تھا۔


حدیث نمبر : 960
وأخبرني عطاء، عن ابن عباس، وعن جابر بن عبد الله، قالا لم يكن يؤذن يوم الفطر ولا يوم الأضحى‏.
اور مجھے عطاءنے ابن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے خبر دی کہ عید الفطر یا عید الاضحی کی نماز کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے عہد میں اذان نہیں دی جاتی تھی۔

حدیث نمبر : 961
وعن جابر بن عبد الله، قال سمعته يقول إن النبي صلى الله عليه وسلم قام فبدأ بالصلاة، ثم خطب الناس بعد، فلما فرغ نبي الله صلى الله عليه وسلم نزل فأتى النساء، فذكرهن وهو يتوكأ على يد بلال، وبلال باسط ثوبه، يلقي فيه النساء صدقة‏.‏ قلت لعطاء أترى حقا على الإمام الآن أن يأتي النساء فيذكرهن حين يفرغ قال إن ذلك لحق عليهم، وما لهم أن لا يفعلوا
اور جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ( عید کے دن ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے، پہلے آپ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا، اس سے فارغ ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کی طرف گئے اور انہیں نصیحت کی۔ آپ بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے تھے اور بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا پھیلا رکھا تھا، عورتیں اس میں خیرات ڈال رہی تھیں۔ میں نے اس پر عطاء سے پوچھا کہ کیا اس زمانہ میں بھی آپ امام پر یہ حق سمجھتے ہیں کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ عورتوں کے پاس آ کر انہیں نصیحت کرے۔ انہوں نے فرمایا کہ بےشک یہ ان پر حق ہے اور سبب کیا جو وہ ایسا نہ کریں۔

تشریح : یزید بن معاویہ کی وفات کے بعد 62ھ میں عبد اللہ بن زبیر کی بیعت کی گئی۔ اس سے بعضوں نے یہ نکالا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا ترجمہ باب یوں ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال پر ٹیکا دیا معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت عید میں سوارہوکر بھی جانا درست ہے۔ روایت میں عورتوں کو الگ وعظ بھی مذکور ہے، لہذا امام کو چاہیے کہ عید میں مردوں کو وعظ سنا کر عورتوں کو بھی دین کی باتیں سمجھائے اور ان کو نیک کاموں کی رغبت دلائے۔
 
Top