• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٢ - حدیث نمبر٨١٤ تا ١٦٥٤

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عید میں نماز کے بعد خطبہ پڑھنا

حدیث نمبر : 962
حدثنا أبو عاصم، قال أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني الحسن بن مسلم، عن طاوس، عن ابن عباس، قال شهدت العيد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر وعثمان ـ رضى الله عنهم ـ فكلهم كانوا يصلون قبل الخطبة‏.‏
ہم سے ابو عاصم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں ا بن جریج نے خبر دی، انہوں نے کہا مجھے حسن بن مسلم نے خبر دی، انہیں طاؤس نے، انہیں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے آپ نے فرمایا کہ میں عید کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر اور عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم سب کے ساتھ گیا ہوں یہ لوگ پہلے نماز پڑھتے، پھر خطبہ دیا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 963
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثنا أبو أسامة، قال حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر وعمر ـ رضى الله عنهما ـ يصلون العيدين قبل الخطبة‏.‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ حماد بن ابواسامہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبید اللہ نے نافع سے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما عیدین کی نماز خطبہ سے پہلے پڑھا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 964
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى يوم الفطر ركعتين، لم يصل قبلها ولا بعدها، ثم أتى النساء ومعه بلال، فأمرهن بالصدقة، فجعلن يلقين، تلقي المرأة خرصها وسخابها‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، انہوں نے عدی بن ثابت سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے، انہوں نے ا بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر کے دن دو رکعتیں پڑھیں نہ ان سے پہلے کوئی نفل پڑھا نہ ان کے بعد۔ پھر ( خطبہ پڑھ کر ) آپ عورتوں کے پاس آئے اور بلال آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے عورتوں سے فرمایا خیرات کرو۔ وہ خیرات دینے لگیں کوئی اپنی بالی پیش کر نے لگی کوئی اپنا ہار دینے لگی۔

حدیث نمبر : 965
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا زبيد، قال سمعت الشعبي، عن البراء بن عازب، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن أول ما نبدأ في يومنا هذا أن نصلي، ثم نرجع فننحر، فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا، ومن نحر قبل الصلاة فإنما هو لحم قدمه لأهله، ليس من النسك في شىء‏"‏‏. ‏ فقال رجل من الأنصار يقال له أبو بردة بن نيار يا رسول الله، ذبحت وعندي جذعة خير من مسنة‏.‏ فقال ‏"‏ اجعله مكانه، ولن توفي أو تجزي عن أحد بعدك‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زبید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شعبی سے سنا، ان سے براء بن عازب نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم اس دن پہلے نماز پڑھیں گے پھر خطبہ کے بعد واپس ہو کر قربانی کریں گے۔ جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق عمل کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کی تو اس کا ذبیحہ گوشت کا جانور ہے جسے وہ گھر والوں کے لیے لایا ہے، قربانی سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں۔ ایک انصاری رضی اللہ عنہ جن کا نام ابوبردہ بن نیار تھا بولے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے تو ( نماز سے پہلے ہی ) قربانی کر دی لیکن میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے جو دوندی ہوئی بکری سے بھی اچھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اچھا اسی کو بکری کے بدلہ میں قربانی کرلو اور تمہارے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔

تشریح : روایت میں لفظ اول ما نبدا فی یومنا ھذا سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیونکہ جب پہلا کام نماز ہوا تو معلوم ہوا کہ نماز خطبے سے پہلے پڑھنی چاہیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عید کے دن اور حرم کے اند ر ہتھیار باندھنا مکروہ ہے

وقال الحسن نهوا أن يحملوا السلاح يوم عيد إلا أن يخافوا عدوا‏.‏
اور امام حسن بصری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ عید کے دن ہتھیار لے جانے کی ممانعت تھی مگر جب دشمن کا خوف ہوتا۔

حدیث نمبر : 966
حدثنا زكرياء بن يحيى أبو السكين، قال حدثنا المحاربي، قال حدثنا محمد بن سوقة، عن سعيد بن جبير، قال كنت مع ابن عمر حين أصابه سنان الرمح في أخمص قدمه، فلزقت قدمه بالركاب، فنزلت فنزعتها وذلك بمنى، فبلغ الحجاج فجعل يعوده فقال الحجاج لو نعلم من أصابك‏.‏ فقال ابن عمر أنت أصبتني‏.‏ قال وكيف قال حملت السلاح في يوم لم يكن يحمل فيه، وأدخلت السلاح الحرم ولم يكن السلاح يدخل الحرم‏.‏
ہم سے زکریا بن یحییٰ ابوالسکین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الرحمن محاربی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن سوقہ نے سعید بن جبیر سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں ( حج کے دن ) ا بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا جب نیزے کی انی آپ کے تلوے میں چبھ گئی جس کی وجہ سے آپ کاپاؤں رکاب سے چپک گیا۔ تب میں نے اتر کر اسے نکالا۔ یہ واقعہ منیٰ میں پیش آیا تھا۔ جب حجاج کو معلوم ہوا جو اس زمانہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے قتل کے بعد حجاج کا امیر تھا تووہ بیمار پرسی کے لیے آیا۔ حجاج نے کہا کہ کاش ہمیں معلوم ہوجاتا کہ کس نے آپ کو زخمی کیا ہے۔ اس پر ابن عمر نے فرمایا کہ تو نے مجھ کو نیزہ ماراہے۔ حجاج نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ آپ نے فرمایا کہ تم اس دن ہتھیار اپنے ساتھ لائے جس دن پہلے کبھی ہتھیار ساتھ نہیں لایا جاتا تھا ( عیدین کے دن ) تم ہتھیار حرم میں لائے حالانکہ حرم میں ہتھیار نہیں لایا جاتا تھا۔

حدیث نمبر : 967
حدثنا أحمد بن يعقوب، قال حدثني إسحاق بن سعيد بن عمرو بن سعيد بن العاص، عن أبيه، قال دخل الحجاج على ابن عمر وأنا عنده، فقال كيف هو فقال صالح‏.‏ فقال من أصابك قال أصابني من أمر بحمل السلاح في يوم لا يحل فيه حمله، يعني الحجاج‏.‏
ہم سے احمد بن یعقوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص نے اپنے باپ سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ حجاج عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا میں بھی آپ کی خدمت میں موجود تھا۔ حجاج نے مزاج پوچھا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا ہوں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کو یہ برچھا کس نے مارا؟ ابن عمر نے فرمایا کہ مجھے اس شخص نے مارا جس نے اس دن ہتھیار ساتھ لے جانے کی اجازت دی جس دن ہتھیار ساتھ نہیں لے جایا جاتا تھا۔ آپ کی مراد حجاج ہی سے تھی۔

تشریح : حجاج ظالم دل میں عبد اللہ بن عمر سے دشمنی رکھتا تھا۔ کیونکہ انہوں نے اس کو کعبہ پر منجنیق لگانے اور عبد اللہ بن زبیر کے قتل کرنے پر ملامت کی تھی۔ دوسرے عبد الملک بن مروان نے جو خلیفہ وقت تھا، حجاج کو یہ کہلا بھیجا تھا کہ عبد اللہ بن عمر کی اطاعت کرتا رہے، یہ امر اس مردود پر شاق گزرا اور اس نے چپکے سے ایک شخص کو اشارہ کر دیا اس نے زہر آلود برچھا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاؤں میں گھسیڑ دیا۔ خود ہی تو یہ شرارت کی اور خود ہی کیا مسکین بن کر عبد اللہ کی عیادت کو آیا۔ واہ رے مکار خدا کو کیا جواب دے گا۔ آخر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جو اللہ کے بڑے مقبول بندے اور بڑے عالم اور عابد اور زاہد اور صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے، ان کا مگر پہچان لیا اور فرمایا کہ تم نے ہی تو مارا ہے اور تو ہی کہتا ہے ہم مجرم کو پالیں تو اس کو سخت سزادیں۔

جفا کردی و خود کشتی بہ تیغ ظلم مارا
بہانہ میں برائے پرسش بیماری آئی


( مولانا وحید الزماں مرحوم )

اس سے اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ دنیا دار مسلمانوں نے کس کس طرح سے علماءاسلام کو تکالیف دی ہیں پھر بھی وہ مردان حق پرست امر حق کی دعوت دیتے رہے۔ آج بھی علماءکو ان بزرگوں کی اقتداءلازمی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عید کی نماز کے لیے سویرے جانا
وقال عبد الله بن بسر إن كنا فرغنا في هذه الساعة، وذلك حين التسبيح‏.‏
اور عبداللہ بن بسر صحابی نے ( ملک شام میں امام کے دیر سے نکلنے پر اعتراض کیا اور ) فرمایا کہ ہم تو نماز سے اس وقت فارغ ہو جایا کرتے تھے۔ یعنی جس وقت نفل نماز پڑھنا درست ہوتا ہے۔

تشریح : یعنی اشراق کی نماز۔ مطلب یہ ہے کہ سورج ایک نیزہ یا دونیزہ ہو جائے بس یہی عید کی نماز کا افضل وقت ہے اور جو لوگ عید کی نماز میں دیر کرتے ہیں وہ بدعتی ہیں خصوصا عید الاضحی کی نماز اورجلد پڑھنا چاہیے تاکہ لوگ قربانی وغیرہ سے جلدی فارغ ہو جائیں اور سنت کے موافق قربانی میں سے کھائیں۔ حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج دو نیزے بلندہوتا اور عید الاضحی کی نماز جب ایک نیزہ بلند ہو جاتا ( مولانا وحید الزماں رحمہ اللہ )

حدیث نمبر : 968
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن زبيد، عن الشعبي، عن البراء، قال خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر قال ‏"‏ إن أول ما نبدأ به في يومنا هذا أن نصلي ثم نرجع فننحر، فمن فعل ذلك فقد أصاب سنتنا، ومن ذبح قبل أن يصلي فإنما هو لحم عجله لأهله، ليس من النسك في شىء‏"‏‏. ‏ فقام خالي أبو بردة بن نيار فقال يا رسول الله، أنا ذبحت قبل أن أصلي وعندي جذعة خير من مسنة‏.‏ قال ‏"‏ اجعلها مكانها ـ أو قال اذبحها ـ ولن تجزي جذعة عن أحد بعدك‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے زبید سے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن خطبہ دیا اور آپ نے فرمایا کہ اس دن سب سے پہلے ہمیں نماز پڑھنی چاہیے پھر ( خطبہ کے بعد ) واپس آ کر قربانی کرنی چاہیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو یہ ایک ایسا گوشت ہوگا جسے اس نے اپنے گھر والوں کے لیے جلدی سے تیار کر لیا ہے، یہ قربانی قطعا نہیں۔ اس پر میرے ماموں ابوبردہ بن نیار نے کھڑے ہو کر کہا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو نماز کے پڑھنے سے پہلے ہی ذبح کر دیا۔ البتہ میرے پاس ایک سال کی ایک پٹھیا ہے جو دانت نکلی بکری سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کے بدلہ میں اسے سمجھ لویا یہ فرمایا کہ اسے ذبح کر لو اور تمہارے بعد یہ ایک سال کی پٹھیا کسی کے لیے کافی نہیں ہوگی۔

تشریح : اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ اس دن پہلے جو کام ہم کرتے ہیں وہ نماز ہے۔ اس سے یہ نکلا کہ عید کی نماز صبح سویرے پڑھنا چاہیے کیونکہ جو کوئی دیر کر کے پڑھے گا اور وہ نماز سے پہلے دوسرے کام کرے گا تو پہلا کام اس کا اس دن نماز نہ ہوگا۔ یہ استنباط حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی گہر ی بصیرت کی دلیل ہے۔ ( رحمہ اللہ )

اس صورت میں آپ نے خاص ان ہی ابو بردہ بن نیار نامی صحابی کے لیے جذعہ کی قربانی کی اجازت بخشی، ساتھ ہی یہ بھی فر مادیا کہ تیرے بعد یہ کسی اور کے لیے کافی نہ ہوگی۔یہاں جذعہ سے ایک سال کی بکری مراد ہے لفظ جذعہ ایک سال کی بھیڑ بکری پر بولا جاتا ہے۔حضرت علامہ شوکانی فرماتے ہیں الجذعۃ من الضان مالہ سنۃ تامۃ ھذا ھو الاشھر عن اھل اللغۃ وجمہور اھل العلم من غیر ھم یعنی جذعہ وہ ہے جس کی عمر پر پورا ایک سال گزر چکا ہو۔ اہل سنت اور جمہور اہل علم سے یہی منقول ہے۔ بعض چھ اور آٹھ اور دس ماہ کی بکری پر بھی لفظ جذعہ بولتے ہیں۔

دیوبندی تراجم بخاری میں اس مقام پر جگہ جگہ جذعہ کا ترجمہ چار مہینے کی بکری کا کیا گیا ہے۔ تفہیم البخاری میں ایک جگہ نہیں بلکہ متعدد مقامات پر چار مہینے کی بکری لکھا ہوا موجود ہے۔ علامہ شوکانی کی تصریح بالا کے مطابق یہ غلط ہے اسی لیے اہل حدیث تراجم بخاری میں ہر جگہ ایک سال کی بکری کے ساتھ ترجمہ کیا گیا ہے۔
لفظ جذعہ کا اطلاق مسلک حنفی میں بھی چھ ماہ کی بکری پر کیا گیاہے دیکھو تسہیل القاری، پ:4ص:400 مگر چار ماہ کی بکری پر لفظ جذعہ یہ خود مسلک حنفی کے بھی خلاف ہے۔ قسطلانی شرح بخاری، ص: 117 مطبوعہ نول کشور میں ہے ( جذعۃمن المعز ذات سنۃ ) یعنی جذعہ ایک سال کی بکری کو کہا جاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : ایام تشریق میں عمل کی فضیلت کا بیان

وقال ابن عباس واذكروا الله في أيام معلومات أيام العشر، والأيام المعدودات أيام التشريق‏.‏ وكان ابن عمر وأبو هريرة يخرجان إلى السوق في أيام العشر يكبران، ويكبر الناس بتكبيرهما‏.‏ وكبر محمد بن علي خلف النافلة‏.‏
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ( اس آیت ) “ اور اللہ تعالی کا ذکر معلوم دنوں میں کرو ” میں ایام معلومات سے مرادذی الحجہ کے دس دن ہیں اور ایام معدودات سے مراد ایام تشریق ہیں۔ ابن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ان دس دنوں میں بازار کی طرف نکل جاتے اور لوگ ان بزرگوں کی تکبیر سن کر تکبیر کہتے اور محمد بن باقر رحمہ اللہ نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر کہتے تھے۔

حدیث نمبر : 969
حدثنا محمد بن عرعرة، قال حدثنا شعبة، عن سليمان، عن مسلم البطين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال ‏"‏ ما العمل في أيام العشر أفضل من العمل في هذه‏"‏‏. ‏ قالوا ولا الجهاد قال ‏"‏ ولا الجهاد، إلا رجل خرج يخاطر بنفسه وماله فلم يرجع بشىء‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے سلیمان کے واسطے سے بیان کیا، ان سے مسلم بطین نے، ان سے سعید بن جبیر نے، ان سے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان دنوں کے عمل سے زیادہ کسی دن کے عمل میں فضیلت نہیں۔ لوگوں نے پوچھا اور جہاد میں بھی نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں جہاد میں بھی نہیں سوا اس شخص کے جو اپنی جان ومال خطرہ میں ڈال کر نکلا اور واپس آیا تو ساتھ کچھ بھی نہ لایا۔ (سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا)

تشریح : اور ایک حنفی فتوی!ذی الحجہ کے پہلے عشرہ میں عبادت سال کے تمام دنوں کی عبادت سے بہتر ہے۔ کہا گیا ہے کہ ذی الحجہ کے دن تمام دنوں میں سب سے زیادہ افضل ہیں اور رمضان کی راتوں میں سے سب سے افضل ہیں۔ ذی الحجہ کے ان دس دنوں کی خاص عبادت جس پر سلف کا عمل تھا تکبیر کہنا اور روزے رکھنا ہے۔ اس عنوان کی تشریحات میں ہے کہ ابو ہریرہ اور ابن عمر رضی اللہ عنہم جب تکبیر کہتے تو عام لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہتے تھے اور تکبیر میں مطلوب بھی یہی ہے کہ جب کسی کہتے ہوئے کو سنیں تو ارد گرد بھی آدمی ہو ں سب بلند آواز سے تکبیر کہیں ( تفہیم البخاری ) عام طور پر برادران احناف نویں تاریخ سے تکبیر شروع کرتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ خود ان کے علماءکی تحقیق کے مطابق ان کا یہ طرز عمل سلف کے عمل کے خلاف ہے جیسا کہ یہاں صاحب تفہیم البخاری دیوبندی حنفی نے صاف لکھا ہے کہ ذی الحجہ کے ان دس دنوں میں تکبیر کہنا سلف کا عمل تھا ( اللہ نیک توفیق دے ) آمین۔ بلکہ تکبیروں کا سلسلہ ایام تشریق میں بھی جاری ہی رہنا چاہیے جو گیارہ سے تیرہ تاریخ تک کے دن ہیں۔ تکبیر کے الفاظ یہ ہیں: اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد اور یوں بھی مروی ہیں اللہ اکبر کبیرا والحمد للہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : تکبیر منیٰ کے دنوں میں اور جب نویں تاریخ کو عرفات میں جائے

وكان عمر ـ رضى الله عنه ـ يكبر في قبته بمنى فيسمعه أهل المسجد، فيكبرون ويكبر أهل الأسواق، حتى ترتج منى تكبيرا‏.‏ وكان ابن عمر يكبر بمنى تلك الأيام وخلف الصلوات، وعلى فراشه وفي فسطاطه، ومجلسه وممشاه تلك الأيام جميعا‏.‏ وكانت ميمونة تكبر يوم النحر‏.‏ وكن النساء يكبرن خلف أبان بن عثمان وعمر بن عبد العزيز ليالي التشريق مع الرجال في المسجد‏.‏
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے ڈیرے کے اندر تکبیر کہتے تو مسجد میں موجود لوگ اسے سنتے اور وہ بھی تکبیر کہنے لگتے پھر بازار میں موجود لوگ بھی تکبیر کہنے لگتے اور سارا منیٰ تکبیر سے گونج اٹھتا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما منیٰ میں ان دنوں میں نماز وں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں، مجلس میں، راستے میں اور دن کے تمام ہی حصوں میں تکبیر کہتے تھے اور ام المؤمنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا دسویں تاریخ میں تکبیر کہتی تھیں اور عورتیں ابان بن عثمان اور عبد العزیز کے پیچھے مسجد میں مردوں کے ساتھ تکبیر کہا کرتی تھیں۔

حدیث نمبر : 970
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا مالك بن أنس، قال حدثني محمد بن أبي بكر الثقفي، قال سألت أنسا ونحن غاديان من منى إلى عرفات عن التلبية كيف كنتم تصنعون مع النبي صلى الله عليه وسلم قال كان يلبي الملبي لا ينكر عليه، ويكبر المكبر فلا ينكر عليه‏.‏
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن ابی بکر ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے تلبیہ کے متعلق دریافت کیا کہ آپ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اسے کس طرح کہتے تھے۔ اس وقت ہم منیٰ سے عرفات کی طرف جا رہے تھے، انہوں نے فرمایا کہ تلبیہ کہنے والے تلبیہ کہتے اور تکبیر کہنے والے تکبیر۔ اس پر کوئی اعتراض نہ کرتا۔

تشریح : لفظ منیٰ کی تحقیق حضرت علامہ قسطلانی شارح بخاری رحمہ اللہ کے لفظوں میں یہ ہے منا بکسر المیم یذکر ویونث فان قصد الموضع فمذکر ویکتب بالالف وینصرف وان قصد البقعۃ فمؤنث ولا ینصرف ویکتب بالیاءوالمختارتذکیرہ یعنی لفظ منا میم کے زیر کے ساتھ اگر اس سے منا موضع مراد لیا جائے تو یہ مذکر ہے اور منصرف ہے اور یہ الف کے ساتھ ( منا ) لکھا جائے گا اور اگر اس سے مراد بقعہ ( مقام خاص ) لیا جائے تو پھر یہ مؤنث ہے اور لفظ یاءکے ساتھ منی لکھا جائے گا مگر مختار یہی ہے کہ یہ مذکر ہے اور منا کے ساتھ اس کی کتابت بہتر ہے۔ پھر فرماتے ہیں وسمی منی لما یمنی فیہ ای یراق من الدماء یعنی یہ مقام لفظ منی سے اس لیے موسوم ہوا کہ یہاں خون بہانے کا قصد ہوتا ہے۔

حدیث نمبر : 971
حدثنا محمد، حدثنا عمر بن حفص، قال حدثنا أبي، عن عاصم، عن حفصة، عن أم عطية، قالت كنا نؤمر أن نخرج يوم العيد، حتى نخرج البكر من خدرها، حتى نخرج الحيض فيكن خلف الناس، فيكبرن بتكبيرهم، ويدعون بدعائهم يرجون بركة ذلك اليوم وطهرته‏.‏
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے عاصم بن سلیمان سے بیان کیا، ان سے حفصہ بنت سیرین نے، ان سے ام عطیہ نے، انہوں نے فرمایا کہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ) میں ہمیں عید کے دن عیدگاہ میں جانے کا حکم تھا۔ کنواری لڑکیاں اور حائضہ عورتیں بھی پردہ میں باہر آتی تھیں۔ یہ سب مردوں کے پیچھے پردہ میں رہتیں۔ جب مرد تکبیر کہتے تو یہ بھی کہتیں اور جب وہ دعا کرتے تو یہ بھی کرتیں۔ اس دن کی برکت اور پاکیزگی حاصل کرنے کی امید رکھتیں۔

تشریح : باب کی مطابقت اس سے ہوئی کہ عید کے دن عورتیں بھی تکبیریں کہتی تھیں اور مسلمانوں کے ساتھ دعاؤں میں بھی شریک ہوتی تھیں۔ درحقیقت عیدین کی روح ہی بلند آواز سے تکبیر کہنے میں مضمر ہے تاکہ دنیا والوں کو اللہ پاک کی بڑائی اور بزرگی سنائی جائے اور اس کی عظمت کا سکہ دل میں بٹھایا جائے۔ آج بھی ہر مسلمان کے لیے نعرہ تکبیر کی روح کو حاصل کرنا ضروری ہے۔ مردہ قلوب میں زندگی پیدا ہوگی۔ تکبیر کے لفظ یہ ہیں: اللہ اکبر کبیرا والحمدللہ کثیرا وسبحان اللہ بکرۃ واصیلا یا یوں کہیے اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عید کے دن برچھی کو سترہ بن ا کر نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 972
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا عبد الوهاب، قال حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان تركز الحربة قدامه يوم الفطر والنحر ثم يصلي‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدا لوہاب ثقفی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عید الفطر اور عید الاضحی کی نماز کے لیے برچھی آگے آگے اٹھائی جاتی اور وہ عید گاہ میں آپ کے سامنے گاڑدی جاتی آپ اسی کی آڑ میں نماز پڑھتے۔

تشریح : کیونکہ عید میدان میں پڑھی جاتی تھی اور میدان میں نماز پڑھنے کے لیے سترہ ضروری ہے، اس لیے چھوٹا سا نیزہ لے لیتے تھے جو سترہ کے لیے کافی ہو سکے اور اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گاڑ دیتے تھے نیزہ اس لیے لیتے تھے کہ اسے گاڑ نے میں آسانی ہوتی تھی۔ امام بخاری رحمہ اللہ اس سے پہلے لکھ آئے ہیں کہ عید گاہ میں ہتھیار نہ لے جانا چاہیے۔ یہاں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ضرورت ہو تو لے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سترہ کے لیے نیزہ لے جایا جاتا تھا ( تفہیم البخاری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : امام کے آگے آگے عید کے دن عنزہ یا حربہ لے کر چلنا

حدیث نمبر : 973
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا الوليد، قال حدثنا أبو عمرو، قال أخبرني نافع، عن ابن عمر، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يغدو إلى المصلى، والعنزة بين يديه، تحمل وتنصب بالمصلى بين يديه فيصلي إليها‏.
ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ولید بن مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابو عمرواوزاعی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ جاتے تو برچھا ( ڈنڈا جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا ہو ) آپ کے آگے آگے لے جایا جاتا تھا پھر یہ عید گاہ میں آپ کے سامنے گاڑ دیا جاتا اور آپ اس کی آڑ میں نماز پڑھتے۔

تشریح : اوپر گزر چکی ہے اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیدین کی نماز جنگل ( میدان ) میں پڑھا کرتے تھے پس مسنون یہی ہے جو لوگ بلا عذر بار ش وغیرہ مساجد میں عیدین کی نماز ادا کرتے ہیں وہ سنت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : عورتوں اور حیض والیوں کا عیدگاہ میں جانا

حدیث نمبر : 974
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال حدثنا حماد، عن أيوب، عن محمد، عن أم عطية، قالت أمرنا أن نخرج، العواتق وذوات الخدور‏.‏ وعن أيوب عن حفصة بنحوه‏.‏ وزاد في حديث حفصة قال أو قالت العواتق وذوات الخدور، ويعتزلن الحيض المصلى‏.‏
ہم سے عبد اللہ بن عبد الوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے محمد نے، ان سے ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں حکم تھا کہ پردہ والی دوشیزاؤں کو عیدگاہ کے لئے نکالیں اور ایوب سختیانی نے حفصہ رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح روایت کی ہے۔ حفصہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ زیادتی ہے کہ دوشیزائیں اور پردہ والیاں ضرور ( عیدگاہ جائیں ) اور حائضہ نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے عورتوں کے عیدین میں شرکت کرنے کے متعلق تفصیل سے صحیح احادیث کو نقل فرمایا ہے جن میں کچھ قیل وقال کی گنجائش ہی نہیں۔ متعدد روایات میں موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جملہ بیویوں اور صاحبزادیوں کو عیدین کے لیے نکالتے تھے۔ یہاں تک فرمادیا کہ حیض والی بھی نکلیں اور وہ نماز سے دور رہ کر مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کریں اور وہ بھی نکلیں جن کے پاس چادر نہ ہو، چاہئے کہ ان کی ہم جولیاں ان کو چادر یا دوپٹہ دے دیں۔ بہر حال عورتوں کا عیدگاہ میں شرکت کرنا ایک اہم ترین سنت اور اسلامی شعار ہے۔ جس سے شوکت اسلام کا مظاہرہ ہوتا ہے اور مرد عورت اور بچے میدان عید گاہ میں اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو کر دعائیں کرتے ہیں۔ جن میں سے کسی ایک کی بھی دعا اگر قبولیت کا درجہ حاصل کر لے تو تمام حاضرین کے لیے باعث صد برکت ہوسکتی ہے۔

اس بارے میں کچھ لوگوں نے فرضی شکوک وشبہات اور مفروضہ خطرات کی بنا پر عورتوں کا عیدگاہ میں جانا مکروہ قرار دیا ہے۔ مگر یہ جملہ مفروضہ باتیں ہیں جن کی شرعا کوئی اصل نہیں ہے۔ عیدگاہ کے منتظمین کا فرض ہے کہ وہ پردے کا انتظام کریں اور ہر فساد و خطرہ کے انسداد کے لیے پہلے ہی سے بندوبست کر رکھیں۔
حضرت علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے اس بارے میں مفصل مدلل بحث کے بعد فرمایا ہے اما فی معناہ من الاحادیث قاضیۃ بمشروعیۃ خروج النساءفی العیدین الی المصلی من غیر فرق بین البکروالثیب والشابۃ والعجوز والحائض وغیرھا مالم تکن معتدۃ او کان فی خروجھا فتنۃ اوکان لھا عذر یعنی احادیث اس میں فیصلہ دے رہی ہیں کہ عورتوں کو عیدین میں مردوں کے ساتھ عیدگاہ میں شرکت کرنا مشروع ہے اور اس بارے میں شادی شدہ اور کنواری اور بوڑھی اور جوان اور حائضہ وغیرہ کا کوئی امتیاز نہیں ہے جب تک ان میں سے کوئی عدت میں نہ ہو یا ان کے نکلنے میں کوئی فتنہ کاڈر نہ ہو یا کوئی اور عذر نہ ہو تو بلا شک جملہ عورتوں کو عیدگاہ میں جانا مشروع ہے پھر فرماتے ہیں والقول بکراھیۃ الخروج علی الاطلاق رد للاحادیث الصحیحۃ بالاراءالفاسدۃ یعنی مطلقا عورتوں کے لیے عید گاہ میں جانے کو مکروہ قرار دینا یہ اپنی فاسد رایوں کی بنا پر احادیث صحیحہ کو رد کرنا ہے۔

آج کل جو علماءعیدین میں عورتوں کی شرکت ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کو اتنا غور کرنے کی توفیق نہیں ہوتی کہ یہی مسلمان عورتیں بے تحاشا بازاروں میں آتی جاتی، میلوں عرسوں میں شریک ہوتیں اور بہت سی غریب عورتیں جو محنت مزدوری کرتی ہیں۔ جب ان سارے حالات میں یہ مفاسد مفروضہ سے بالاتر ہیں تو عید گاہ کی شرکت میں جبکہ وہاں جانے کے لیے باپردہ وباادب ہونا ضروری ہے کون سے فرضی خطرات کا تصور کر کے ان کے لیے عدم جواز کا فتوی لگایا جا سکتا ہے۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ مبارکپوری رحمہ اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں، عورتوں کا عید گاہ میں عید کی نماز کے لیے جاناسنت ہے، شادی شدہ ہوں،یا غیر شادی شدہ جوان ہوں یاادھیڑیا بوڑھی، عن ام عطیۃ ان رسول اللہ صلی علیہ وسلم کان یخرج الابکار والعواتق وذوات الخدور والحیض فی العیدین فاما الحیض لیعتزلن المصلی ویشھدن دعوۃ المسلمین قالت احداھن یا رسول اللہ ان لم یکن لھا جلباب قال فلتصرھا اختھا من جلبابھا ( صحیحین وغیرہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیدین میں دوشیزہ جوان کنواری حیض والی عورتوں کو عید گاہ جانے کا حکم دیتے تھے حیض والی عورتیں نماز سے الگ رہتیں اور مسلمانوں کی دعا میں شریک رہتیں۔ ایک عورت نے عرض کیا اگر کسی عورت کے پاس چادر نہ ہو تو آپ نے فرمایا کہ اس کی مسلمان بہن اپنی چادر میں لے جائے۔ جو لوگ کراہت کے قائل ہیں یا جوان یا بوڑھی کے درمیان فرق کر تے ہیں درحقیقت وہ صحیح حدیث کو اپنی فاسد اور باطل رایوں سے رد کر تے ہیں۔ حافظ نے فتح الباری میں اور ابن حزم نے اپنی محلیّ میں بالتفصیل مخالفین کے جوابات ذکر کئے ہیں عورتوں کو عید گاہ میں سخت پردہ کے ساتھ بغیر کسی قسم کی خوشبو لگائے اور بغیر بجنے والے زیوروں اور زینت کے لباس کے جانا چاہیے تاکہ فتنہ کا باعث نہ بنیں قال شیخنا فی شرح الترمذی لا دلیل علی منع الخروج الی العید للشواب مع الامن من المفاسد مما حدثن فی ھذا الزمان بل ھو مشروع لھن وھو القول الراجح انتھی یعنی امن کی حالت میں جوان عورتوں کو شرکت عیدین سے روکنا اس کے متعلق مانعین کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ وہ مشروع ہے اور قول راجح یہی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : بچوں کا عیدگاہ جانا

حدیث نمبر : 975
حدثنا عمرو بن عباس، قال حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن عبد الرحمن، قال سمعت ابن عباس، قال خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم فطر أو أضحى، فصلى ثم خطب، ثم أتى النساء فوعظهن وذكرهن، وأمرهن بالصدقة‏.‏
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبد الرحمن بن مہدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے عبد الرحمن بن عابس سے بیان کیا، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ میں نے عیدالفطر یا عید الاضحی کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ آپ نے نماز پڑھنے کے بعد خطبہ دیا پھر عورتوں کی طرف آئے اور انہیں نصیحت فرمائی اور صدقہ کے لیے حکم فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العیدین
باب : امام عید کے خطبے میں لوگوں کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو

حدیث نمبر : 976
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا محمد بن طلحة، عن زبيد، عن الشعبي، عن البراء، قال خرج النبي صلى الله عليه وسلم يوم أضحى إلى البقيع فصلى ركعتين، ثم أقبل علينا بوجهه وقال ‏"‏ إن أول نسكنا في يومنا هذا أن نبدأ بالصلاة، ثم نرجع فننحر، فمن فعل ذلك فقد وافق سنتنا، ومن ذبح قبل ذلك فإنما هو شىء عجله لأهله، ليس من النسك في شىء‏"‏‏. ‏ فقام رجل فقال يا رسول الله، إني ذبحت وعندي جذعة خير من مسنة‏.‏ قال ‏"‏ اذبحها، ولا تفي عن أحد بعدك‏"‏‏. ‏
ہم سے ابو نعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن طلحہ نے بیان کیا، ان سے زبید نے، ان سے شعبی نے، ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی کے دن بقیع کی طرف تشریف لے گئے اور دو رکعت عید کی نماز پڑھائیں۔ پھر ہماری طرف چہرہ مبارک کر کے فرمایا کہ سب سے مقدم عبادت ہمارے اس دن کی یہ ہے کہ پہلے ہم نماز پڑھیں پھر ( نماز اور خطبے سے ) لوٹ کر قربانی کریں۔ اس لیے جس نے اس طرح کیا اس نے ہماری سنت کے مطابق کیا اور جس نے نماز سے پہلے ذبح کر دیا تو وہ ایسی چیز ہے جسے اس نے اپنے گھر والوں کے کھلانے کے لیے جلدی سے مہیا کر دیا ہے اور اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس پر ایک شخص نے کھڑے ہوکر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے تو پہلے ہی ذبح کردیا۔ لیکن میرے پاس ایک سال کی پٹھیا ہے اور وہ دوندی بکری سے زیادہ بہتر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ خیر تم اسی کو ذبح کرلو لیکن تمہارے بعد کسی کی طرف سے ایسی پٹھیا جائز نہ ہوگی۔

سوال کرنے والے ابو بردہ بن نیار انصاری تھے۔ حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے۔
 
Top