• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : جو شخص کسی کے ہاں بطور مہمان ملاقات کے لیے گیا او ران کے یہاں جاکر اس نے اپنا نفلی روزہ نہیں توڑا

حدیث نمبر : 1982
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثني خالد ـ هو ابن الحارث ـ حدثنا حميد، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ دخل النبي صلى الله عليه وسلم على أم سليم، فأتته بتمر وسمن، قال ‏"‏أعيدوا سمنكم في سقائه، وتمركم في وعائه، فإني صائم‏"‏‏. ‏ ثم قام إلى ناحية من البيت، فصلى غير المكتوبة، فدعا لأم سليم، وأهل بيتها، فقالت أم سليم يا رسول الله، إن لي خويصة، قال ‏"‏ما هي‏"‏‏. ‏ قالت خادمك أنس‏.‏ فما ترك خير آخرة ولا دنيا إلا دعا لي به قال ‏"‏اللهم ارزقه مالا وولدا وبارك له‏"‏‏. ‏ فإني لمن أكثر الأنصار مالا‏.‏ وحدثتني ابنتي أمينة أنه دفن لصلبي مقدم حجاج البصرة بضع وعشرون ومائة‏.‏ حدثنا ابن أبي مريم أخبرنا يحيى قال: حدثني حميد: سمع أنسا رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے خالد نے ( جو حارث کے بیٹے ہیں ) بیان کیا، ان سے حمید نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا نامی ایک عورت کے یہاں تشریف لے گئے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجور اور گھی پیش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ گھی اس کے برتن میں رکھ دو او ریہ کھجوریں بھی اس کے برتن میں رکھ دو کیوں کہ میں توروزے سے ہوں، پھر آپ نے گھر کے ایک کنارے میں کھڑے ہو کر نفل نماز پڑھی اور ام سلیم رضی اللہ عنہا اور ان کے گھر والوں کے لیے دعا کی، ام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ میرا ایک بچہ لاڈلا بھی تو ہے ( اس کے لیے بھی تو دعا فرما دیجئے ) فرمایا کون ہے انہوں نے کہا آپ کا خادم انس ( رضی اللہ عنہ ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا او رآخرت کی کوئی خیر و بھلائی نہ چھوڑی جس کی ان کے لیے دعا نہ کی ہو۔ آپ نے دعا میں یہ بھی فرمایا اے اللہ ! اسے مال اور اولاد عطا فرما او راس کے لیے برکت عطا کر ( انس رضی اللہ عنہ کا بیان تھا کہ ) چنانچہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں۔ او رمجھ سے میری بیٹی امینہ نے بیان کیا حجاج کے بصرہ آنے تک میری صلبی اولاد میں سے تقریباً ایک سو بیس دفن ہو چکے تھے۔ ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہیں یحییٰ نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے حمید نے بیان کیا، او رانہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ کے ساتھ۔

تشریح : پچھلی حدیث میں حجاج کا ذکر ہے جو بصرہ میں75ھ میں آیا تھا۔ اس وقت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی عمر کچھ اوپر اسی برس کی تھی، 93ھ کے قریب آپ کا انتقال ہوا۔ ایک سو سال کے قریب ان کی عمر ہوئی۔ یہ سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت تھی۔ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے خاص اپنی صلب کے 125بچے دفن کئے پھر دیگر لواحقین کا اندازہ کرنا چاہئے۔ اس حدیث سے مقصد باب یوں ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم رضی اللہ عنہا کے گھر روزہ کی حالت میں تشریف لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاں کھانا واپس فرما دیا۔ اور روزہ نہیں توڑا۔ ثابت ہوا کہ کوئی شخص ایسا بھی کرے تو جائز درست بلکہ سنت نبوی کے مطابق ہے۔ یہ سب حالات پر منحصر ہے۔ بعض مواقع ایسے بھی آسکتے ہیں کہ وہاں روزہ کھول دینا جائز ہے۔ بعض ایسے کہ رکھنا بھی جائز ہے۔ یہ ہر شخص کے خود دل میں فیصلہ کرنے اور حالت کو سمجھنے کی باتیں ہیں۔ انما الاعمال بالنیات
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : مہینے کے آخر میں روزہ رکھنا

حدیث نمبر : 1983
حدثنا الصلت بن محمد، حدثنا مهدي، عن غيلان،‏.‏ وحدثنا أبو النعمان، حدثنا مهدي بن ميمون، حدثنا غيلان بن جرير، عن مطرف، عن عمران بن حصين ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ أنه سأله ـ أو سأل رجلا وعمران يسمع ـ فقال ‏"‏يا أبا فلان أما صمت سرر هذا الشهر‏"‏‏. ‏ قال أظنه قال يعني رمضان‏.‏ قال الرجل لا يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏فإذا أفطرت فصم يومين‏"‏‏. ‏ لم يقل الصلت أظنه يعني رمضان‏.‏ قال أبو عبد الله وقال ثابث عن مطرف عن عمران عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من سرر شعبان‏"‏‏. ‏
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مہدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غیلان نے ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا اور ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مہدی بن میمون نے، ان سے غیلان بن جریر نے، ان سے مطرف نے، ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا ( مطرف نے یہ کہا کہ ) سوال تو کسی اور نے کیا تھا لیکن وہ سن رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوفلاں ! کیا تم نے اس مہینے کے آخر کے روزے رکھے؟ ابونعمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ راوی نے کہا کہ آپ کی مراد رمضان سے تھی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) کہتے ہیں کہ ثابت نے بیان کیا، ان سے مطرف نے، ان سے عمران رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( رمضان کے آخر کے بجائے ) شعبان کے آخر میں کا لفظ بیان کیا ( یہی صحیح ہے )

تشریح : کیوں کہ رمضان میں تو سارے مہینے ہر کوئی روزے رکھتا ہے، بعض نے سرر کا ترجمہ مہینے کا شروع کیا ہے، بعض نے مہینے کا بیچ، بعض نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے ڈانٹ کے طور پر ایسا فرمایا کہ تو نے شعبان کے اخیر میں تو روزے نہیں رکھے۔ کیوں کہ دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا استقبال کرنے سے منع فرمایا ہے، مگر اس میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ اگر یہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضا کا حکم کیوں دیتے۔ خطابی نے کہا شاید اس وجہ سے قضا کا حکم دیا کہ اس شخص نے منت مانی ہوگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منت پوری کرنے کا حکم دیا اس طرح کہ شوال میں اس کی قضا کرلے۔ بعض نے کہا اگر کوئی شعبان کے آخر میں رمضان کے استقبال کی نیت سے روزہ رکھے تو یہ مکروہ ہے۔ لیکن اگر استقبال کی نیت نہ ہو تو کچھ قباحت نہیں ہے مگر ایک حدیث میں شعبان کے نصف آخری میں روزہ رکھنے کی ممانعت بھی وارد ہے تاکہ رمضان کے لیے ضعف لاحق نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : جمعہ کے دن روزہ رکھنا اگر کسی نے خالی ایک جمعہ کے دن کے روزہ کی نیت کر لی تو اسے توڑ ڈالے

حدیث نمبر : 1984
حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريج، عن عبد الحميد بن جبير، عن محمد بن عباد، قال سألت جابرا ـ رضى الله عنه ـ نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن صوم يوم الجمعة قال نعم‏.‏ زاد غير أبي عاصم أن ينفرد بصوم‏.‏
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عبدالحمید بن جبیر نے اور ان سے محمد بن عباد نے کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ! ابوعاصم کے علاوہ راویوں نے یہ اضافہ کیا ہے کہ خالی ( ایک جمعہ ہی کے دن ) روزہ رکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔

تشریح : اس باب میں حضرت امام نے تین حدیثیں نقل کی ہیں۔ پہلی دو حدیثوں میں کچھ کچھ اجمال ہے مگر تیسری حدیث میں تفصیل موجود ہے، جس سے ظاہر ہے کہ جمعہ کے روزہ کے لیے ضروری ہے کہ اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزے رکھا جائے۔ مسلم شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مزید تفصیل یوں ہے۔ لا تخصوا لیلۃ الجمعۃ بقیام من بین اللیالی و لا تخصوا یوم الجمعۃ بصوم من بین الایام الا این یکون فی صوم بصومہ احدکم یعنی جمعہ کی رات کو عبادت کے لیے خاص نہ کر واور نہ جمعہ کے دن کو روزہ کے لیے۔ ہاں اگر کسی کا کوئی نذر وغیرہ کا روزہ جمعہ کے دن آجائے، جس کا رکھنا اس کے لیے ضروری ہو تو یہ امر دیگر ہے۔ وہ روزہ رکھا جاسکتا ہے کمن یصوم ایام البیض او من لہ عادۃ بصوم یوم معین کیوم عرفۃ فوافق یوم الجمعۃ، و یوخد منہ جواز صومہ لمن نذر یوم قدوم زید مثلاً او شفاءفلان ( فتح ) یعنی کسی کا کوئی روزہ ایام بیض کا ہو یا عرفہ کا یا کسی نذر کا جمعہ میں پڑ جائے تو پھر جمعہ کا روزہ جائز ہے۔

حدیث نمبر : 1985
حدثنا عمر بن حفص بن غياث، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثنا أبو صالح، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏لا يصومن أحدكم يوم الجمعة، إلا يوما قبله أو بعده‏"‏‏. ‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص جمعہ کے دن اس وقت تک روزہ نہ رکھے جب تک اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک بعد روزہ نہ رکھتا ہو۔

تشریح : مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں کی جو عادت ہوتی ہے کہ ہفتے میں ایک دو دن خاص کرکے اس میں روزہ رکھتے ہیں۔ جیسے کوئی پیر جمعرات کو روزہ رکھتا ہے، کوئی پیر منگل کو، کوئی جمعرات جمعہ کو تو یہ تخصیص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ ابن تین نے کہا بعض نے اسی وجہ سے ایسی تخصیص کو مکروہ رکھا ہے۔ لیکن عرفہ کے دن اور عاشور اور ایام بیض کی تخصیص تو خود حدیث سے ثابت ہے۔ حافظ نے کہا کئی ایک احادیث میں یہ وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ مگر شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں حالانکہ ابوداؤد اور ترمذی اور نسائی نے نکالا۔ اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم قصد کرکے پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے اور نسائی ا ور ابوداؤد نے نکالا۔ ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا، اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا اس دن اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت اٹھایا جائے جب میں روزہ سے ہوں۔

حدیث نمبر : 1986
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، ح‏.‏ وحدثني محمد، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن أبي أيوب، عن جويرية بنت الحارث ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها يوم الجمعة وهى صائمة فقال ‏"‏أصمت أمس‏"‏‏. ‏ قالت لا‏.‏ قال ‏"‏تريدين أن تصومي غدا‏"‏‏. ‏ قالت لا‏.‏ قال ‏"‏فأفطري‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ( دوسری سند ) اور امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوایوب نے اور ان سے جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے یہاں جمعہ کے دن تشریف لے گئے، ( اتفاق سے ) وہ روزہ سے تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر دریافت فرمایا کے کل کے دن بھی تو نے روزہ رکھا تھا؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا آئندہ کل روزہ رکھنے کا ارادہ ہے؟ جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر روزہ توڑ دو۔ حماد بن جعد نے بیان کیا کہ انہوں نے قتادہ سے سنا، ان سے ابوایوب نے بیان کیا او ران سے جویریہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور انہوں نے روزہ توڑ دیا۔

حاکم وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے یوم الجمعۃ یوم عید فلا تجعلوا یوم عید کم یوم صیامکم الا ان تصوموا قبلہ او بعدہ یعنی جمعہ کا دن تمہارے لیے عید کا دن ہے، پس اپنے عید کے دن کو روزہ رکھنے کا دن نہ بناؤ، مگر یہ کہ تم اس سے آگے یا پیچھے ایک روزہ اور رکھ لو۔ ابن ابی شیبہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ جمعہ کے دن روزہ نہ رکھو یہ دن تمہارے لیے عبادت الٰہی اور کھانے پینے کا دن ہے۔ و ذہب الجمہور الی ان النہی للتنزیہ ( فتح ) یعنی جمہو رکا قول ہے کہ جمعہ کے دن روزہ کی نہی تنزیہ کے لیے ہے، حرمت کے لیے نہیں ہے، یعنی بہتر ہے کہ روزہ نہ رکھا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزے کے لیے کوئی دن مقرر کرنا

حدیث نمبر : 1987
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، قلت لعائشة ـ رضى الله عنها ـ هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يختص من الأيام شيئا قالت لا، كان عمله ديمة، وأيكم يطيق ما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يطيق
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نے، ان سے علقمہ نے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( روزہ وغیرہ عبادات کے لیے ) کچھ دن خاص طور پر مقرر کر رکھے تھے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ بلکہ آپ کے ہر عمل میں ہمیشگی ہوتی تھی اور دوسرا کون ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جتنی طاقت رکھتا ہو؟

جن ایام کے روزوں کے متعلق احادیث وارد ہوئی ہیں جیسے یوم عرفہ، یوم عاشورہ وغیرہ وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : عرفہ کے دن روزہ رکھنا

حدیث نمبر : 1988
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن مالك، قال حدثني سالم، قال حدثني عمير، مولى أم الفضل أن أم، الفضل حدثته ح وحدثنا عبد الله بن يوسف أخبرنا مالك عن أبي النضر مولى عمر بن عبيد الله عن عمير مولى عبد الله بن العباس عن أم الفضل بنت الحارث أن ناسا تماروا عندها يوم عرفة في صوم النبي صلى الله عليه وسلم فقال بعضهم هو صائم‏.‏ وقال بعضهم ليس بصائم‏.‏ فأرسلت إليه بقدح لبن وهو واقف على بعيره فشربه‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا کہ مجھ سے سالم نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ام فصل رضی اللہ عنہا کے مولی عمیر نے بیان کیا اور ان سے ام فضل رضی اللہ عنہا نے بیان کیا۔ ( دوسری سند ) امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے کہا اور ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں عمر بن عبداللہ کے غلام ابونصر نے، انہیں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عمیر نے او رانہیں ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے کہ ان کے یہاں کچھ لوگ عرفات کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ کے بارے میں جھگڑ رہے تھے۔ بعض نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہیں۔ اور بعض نے کہا کہ روزہ سے نہیں ہیں۔ اس پر ام فضل رضی اللہ عنہا نے آپ کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا تاکہ حقیقت ظاہر ہو جائے ) آپ اپنے اونٹ پر سوار تھے، آپ نے دودھ پی لیا۔

ابو نعیم کی راویت میں اتنا زیادہ ہے کہ آپ خطبہ سنا رہے تھے اور یہ حجۃ الوداع کا واقعہ تھا جیسا کہ اگلی حدیث میں مذکو رہے۔

حدیث نمبر : 1989
حدثنا يحيى بن سليمان، حدثنا ابن وهب ـ أو قرئ عليه ـ قال أخبرني عمرو، عن بكير، عن كريب، عن ميمونة ـ رضى الله عنها ـ أن الناس، شكوا في صيام النبي صلى الله عليه وسلم يوم عرفة، فأرسلت إليه بحلاب وهو واقف في الموقف، فشرب منه، والناس ينظرون‏.‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، ( یا ان کے سامنے حدیث کی قرات کی گئی )۔ کہا کہ مجھ کو عمرو نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں کریب نے اور انہیں میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہ عرفہ کے دن کچھ لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک ہوا۔ اس لیے انہوں نے آپ کی خدمت میں دودھ بھیجا۔ آپ اس وقت عرفات میں وقوف فرما تھے۔ آپ نے دودھ پی لیا اور سب لوگ دیکھ رہے تھے۔

تشریح : عبداللہ بن وہب نے خود یہ حدیث یحییٰ کو سنائی یا عبداللہ بن وہب کے شاگردوں نے ان کو سنائی، دونوں طرح حدیث کی روایت صحیح ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں ان حدیثوں کو ذکر نہیں کیا جن میں عرفہ کے روزہ کی ترغیب ہے، جب کہ وہ حدیث بیان کی جس سے عرفہ میں آپ کا افطار کرنا ثابت ہے۔ کیوں کہ وہ حدیثیں ان کی شرط کے موافق صحیح نہ ہوں گی۔ حالانکہ امام مسلم نے ابوقتادہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عرفہ کا روزہ ایک برس آگے اور ایک برس پیچھے کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور بعض نے کہا عرفہ کا روزہ حاجی کو نہ رکھنا چاہئے۔ اس خیال سے کہ کہیں ضعف نہ ہوجائے اور حج کے اعمال بجالانے میں خلل واقع ہو۔ اور اس طرح باب کی احادیث اور ان احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : عید الفطر کے دن روزہ رکھنا

یہ بالاتفاق منع ہے مگر اختلاف اس میں ہے کہ اگر کسی نے ایک روزہ کی منت مانی اور اتفاق سے وہ منت عید کے دن آن پڑی مثلاً کسی نے کہا جس دن زید آئے اس دن میں ایک روزہ کی منت اللہ کے لیے مان رہا ہوں اور زید عید کے دن آیا تو یہ نذر صحیح ہوگی یا نہیں۔ حنفیہ نے کہا کہ صحیح ہوگی اور اس پرقضاءلازم ہوگی اور جمہور علماءکے نزدیک یہ نذر صحیح ہی نہ ہوگی۔

حدیث نمبر : 1990
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن أبي عبيد، مولى ابن أزهر قال شهدت العيد مع عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ فقال هذان يومان نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صيامهما يوم فطركم من صيامكم، واليوم الآخر تأكلون فيه من نسككم‏.‏
سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہوںنے کہا کہ ہم سے ابن ازہر کے غلام ابوعبید نے بیان کیا کہ عید کے دن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے خدمت میں حاضر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دو دن ایسے ہیں جن کے روزوں کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے۔ ( رمضان کے ) روزوں کے بعد افطار کا دن ( عید الفطر ) اور دوسرا وہ دن جس میں تم اپنی قربانی کا گوشت کھاتے ہو ( یعنی عید الاضحی کا دن )

تشریح : بعض نسخوں میں اس کے بعد اتنی عبارت زائد ہے قال ابوعبداللہ قال ابن عیینہ من قال مولی ابن ازہر فقد اصاب ومن قال مولی عبدالرحمن بن عوف فقد اصاب یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کہاکہ سفیان بن عیینہ نے کہا جس نے ابوعبداللہ کو ازہر کا غلام کہا اس نے بھی ٹھیک کہا، اور جس نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا غلام کہا اس نے بھی ٹھیک کہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ابن ازہر اور عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ دونوں اس غلام میں شریک تھے۔ بعض نے کہا درحقیقت وہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام تھے۔ مگر ابن ازہر کی خدمت میں رہا کرتے تھے تو ایک کے حقیقتاً غلام ہوئے دوسرے کے مجازاً۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1991
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا عمرو بن يحيى، عن أبيه، عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن صوم يوم الفطر والنحر، وعن الصماء، وأن يحتبي الرجل في ثوب واحد‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عید الفطر اور قربانی کے دنوں کے روزوں کی ممانعت کی تھی او رایک کپڑا سارے بدن پر لپیٹ لینے سے اور ایک کپڑے میں گوٹ ما کر بیٹھنے سے۔

حدیث نمبر : 1992
وعن صلاة، بعد الصبح والعصر‏.‏
اور صبح اور عصر کے بعد نماز پڑھنے سے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : عید الاضحی کے دن کا روزہ رکھنا

حدیث نمبر : 1993
حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا هشام، عن ابن جريج، قال أخبرني عمرو بن دينار، عن عطاء بن مينا، قال سمعته يحدث، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال ينهى عن صيامين، وبيعتين الفطر، والنحر،، والملامسة، والمنابذة،‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہشام نے خبر دی، ان سے ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، انہوں نے عطاءبن میناءسے سنا، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث نقل کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دو روزے اور دو قسم کی خرید و فروخت سے منع فرمایا ہے۔ عید الفطر اور عید الاضحی کے روزے سے۔ اور ملامست اور منابذت کے ساتھ خرید و فروخت کرنے سے۔

یعنی بائع مشتری کا یا مشتری بائع کا کپڑا یابدن چھوئے تو بیع لازم ہو جائے، اس شرط پر بیع کرنا، یا بائع یا مشتری کوئی چیز دوسرے کی طرف پھینک مارے تو بیع لازم ہوجائے یہ بیع منابذہ ہے جو منع ہے۔

حدیث نمبر : 1994
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا معاذ، أخبرنا ابن عون، عن زياد بن جبير، قال جاء رجل إلى ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ فقال رجل نذر أن يصوم يوما، قال أظنه قال الاثنين، فوافق يوم عيد‏.‏ فقال ابن عمر أمر الله بوفاء النذر، ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن صوم هذا اليوم‏.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معاذ بن معاذ عنبری نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن عون نے خبر دی، ان سے زیاد بن جبیر نے بیان کیا کہ ایک شخص ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک شخص نے ایک دن کے روزے کے نذر مانی۔ پھر کہا کہ میرا خیال ہے کہ وہ پیر کا دن ہے اور اتفاق سے وہی عید کا دن پڑگیا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تو نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے سے ( اللہ کے حکم سے ) منع فرمایا ہے۔ ( گویا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کوئی قطعی فیصلہ نہیں دیا۔

تشریح : علامہ ابن حجر فرماتے ہیں : لم یفسر العید فی ہذہ الروایۃ و مقتضی ادخالہ ہذا الحدیث فی ترجمۃ صوم یوم النحر ان یکون المسؤل عنہ یوم النحر و ہو مصرح بہ فی روایۃ یزید بن زریع المذکورۃ و لفظہ فوافق یوم النحر یعنی اس روایت میں عید کی وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون سی عید تھی اور یہاں باب کا اقتضاءعیدالاضحی ہے سو اس کی تصریح یزید بن زریع کی روایت میں موجود ہے جس میں یہ ہے کہ اتفاق سے اس دن قربانی کا دن پڑگیا تھا۔ یزید بن زریع کی روایت میں یہ لفظ وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ اور ایسا ہی احمد کی روایت میں ہے جسے انہوں نے اسماعیل بن علیہ سے، انہوں نے یونس سے نقل کیا ہے، پس ثابت ہو گیا کہ روایت میں یوم عید سے عید الاضحی یوم النحر مراد ہے۔

حدیث نمبر : 1995
حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا شعبة، حدثنا عبد الملك بن عمير، قال سمعت قزعة، قال سمعت أبا سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ وكان غزا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثنتى عشرة غزوة قال سمعت أربعا من النبي صلى الله عليه وسلم فأعجبنني قال ‏"‏لا تسافر المرأة مسيرة يومين إلا ومعها زوجها أو ذو محرم، ولا صوم في يومين الفطر والأضحى، ولا صلاة بعد الصبح حتى تطلع الشمس، ولا بعد العصر حتى تغرب، ولا تشد الرحال إلا إلى ثلاثة مساجد مسجد الحرام، ومسجد الأقصى، ومسجدي هذا‏"‏‏. ‏
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قزعہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہادوں میں شریک رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چار باتیں سنی ہیں جو مجھے بہت ہی پسند آئیں۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی عورت دو دن ( یا اس سے زیادہ ) کے اندازے کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی اورمحرم نہ ہو۔ اور عید الفطر اور عید الاضحی کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور صبح کی نماز کے بعد رسوج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز جائز نہیں اور چوتھی بات یہ کہ تین مساجد کے سوا اور کسی جگہ کے لیے شد رحال ( سفر ) نہ کیا جائے، ” مسجد حرام، مسجد اقصی او رمیری یہ مسجد۰

تشریح : بیان کردہ تینوں چیزیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا خطرہ سے خالی نہیں اور عیدین کے دن کھانے پینے کے دن ہیں، ان میں روزہ بالکل غیر مناسب ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعد یا نماز عصر کے بعد کوئی نماز پڑھنا ناجائز ہے اور تین مساجد کے سوا کسی بھی جگہ کے لیے تقرب حاصل کرنے کی غرض سے سفر کرنا شریعت میں قطعاً ناجائز ہے۔ خاص طور پر آج کل قبروں، مزاروں کی زیارت کے لیے نذر و نیاز کے طور پر سفر کئے جاتے ہیں، جو ہو بہو بت پرست قوموں کی نقل ہے۔ شریعت محمدیہ میں اس قسم کے کاموں کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ حدیث لاتشد الرحال کی مفصل تشریح پیچھے لکھی جاچکی ہے۔

حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں : فیہ بیان عظم فضیلۃ ہذہ المساجد الثلثۃ و مزیتہا علی غیرہا لکونہا مساجد الانبیاءصلٰوۃ اللہ و سلامہ علیہم وافضل الصلوۃ فیہا ولو نذر الذہاب الی المسجد الحرام لزمہ قصدہ لحج او عمرۃ و لو نذر الی المسجدین الاخرین فقولان للشافعی اصحہما عند اصحابہ یستحب قصدہما و لا یجب والثانی یجب و بہ قال کثیرون من العلماءو اما باقی المساجد سوی الثلاثۃ فلا یجب قصدہا بالنذر و لا ینعقد نذر قصدہا۔ ہذا مذہبنا و مذہب العلماءکافۃ الا محمد بن المسلمۃ المالکی فقال اذا نذر قصد مسجد قباءلزمہ قصدہ لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یاتیہ کل سبت راکبئا و ما شیئا و قال اللیث بن سعد یلزمہ قصد ذلک المسجد ای مسجد کان و علی مذہب الجماہیر لا ینعقد نذرہ و لا یلزمہ شئی و قال احمد یلزمہ کفارۃ یمین۔

واختلف العلماءفی شد الرحال و اعمال المطی الی غیر المساجد الثلاثۃ کالذہاب الی قبور الصالحین الی المواضع الفاضلۃ و نحو ذلک فقال الشیخ ابومحمد الجونبی من اصحابنا ہو حرام و ہو الذی اشار القاضی عیاض الی اختیارہ۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ صحیح مسلم شریف کی شرح لکھنے والے بزرگ ہیں۔ اپنے دور کے بہت ہی بڑے عالم فاضل، حدیث و قرآن کے ماہر اور متدین اہل اللہ شمار کئے گئے ہیں۔ آپ کی مذکورہ عبارت کا خلاصہ مطلب یہ کہ ان تینوں مساجد کی فضیلت اور بزرگی دیگر مساجد پر اس وجہ سے ہے کہ ان مساجد کی نسبت کئی بڑے بڑے انبیاءعلیہم السلام سے ہے یا اس لیے کہ ان میں نماز پڑھنا بہت فضیلت رکھتا ہے اگر کوئی حج یا عمرہ کے لیے مسجد حرام میں جانے کی نذر مانے تو اس کا پورا کرنا اس کے لیے لازم ہوگا۔ اور اگر دوسری مساجد کی طرف جانے کی نذر مانے تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب اس نذر کا پورا کرنا مستحب جانتے ہیں نہ کہ واجب اور دوسرے علماءاس نذر کا پورا کرنا بھی واجب جانتے ہیں اور اکثر علماءکا یہی قول ہے۔ ان تین کے سوا باقی مساجد کا نذر وغیرہ کے طور پر قصد کرنا واجب نہیں بلکہ ایسے قصد کی نذر ہی منقعد نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا اور بیشتر علماءکا مذہب ہے۔ مگر محمد بن مسلمہ مالکی کہتے ہیں کہ مسجد قباءمیں جانے کی نذر واجب ہو جاتی ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ پیدل و سوار وہاں جایا کرتے تھے۔ اور لیث بن سعد نے ہر مسجد کے لیے ایسی نذر اور اس کا پورا کرنا ضروری کہا ہے، لیکن جمہو رکے نزدیک ایسی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی اور نہ اس پر کوئی کفارہ لازم ہے۔ مگر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے قسم جیسا کفار لازم قرار دیا ہے۔
اور مساجد ثلاثہ کے علاوہ قبور صالحین یا ایسے مقامات کی طرف پالان سفر باندھنا اس بارے میں علماءنے اختلاف کیا ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے شیخ ابومحمد جوینی نے اسے حرام قرار دیا ہے اور قاضی عیاض کا بھی اشارہ اسی طرف ہے اور حدیث نبوی جو یہاں مذکور ہوئی ہے وہ بھی اپنے معنی میں ظاہر ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین مذکورہ مساجد کے علاوہ ہر جگہ کے لیے بغرض تقرب الی اللہ پالان سفر باندھنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث کے ہوتے ہوئے کسی کا قول قابل اعتبار نہیں۔ خواہ وہ قائل کسے باشد۔
مذہب محقق یہی ہے کہ شد رحال صرف ان ہی تین مساجد کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی جگہ کے لیے یہ جائز نہیں۔ شد رحال کی تشریح میں یہ داخل ہے کہ وہ قصد تقرب الٰہی کے خیال سے کیا جائے۔
قبور صالحین کے لیے شد رحال کرنا اور وہاں جا کر تقرب الٰہی کا عقیدہ رکھنا یہ بالکل ہی بے دلیل عمل ہے اور آج کل قبور اولیاءکی طرف شدر حال تو بالکل ہی بت پرستی کا چربہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : ایام تشریق کے روزے رکھنا

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک راجح یہی ہے کہ متمتع کو ایام تشریق میں روزہ رکھنا جائز ہے اور ابن منذر نے زبیر اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے مطلقاً جواز نقل کیا ہے اور حضرت علی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے مطلقاً منع منقول ہے اور امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے اور ایک قول امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ہے کہ اس متمتع کے لیے درست ہے جس کو قربان کی مقدور نہ ہو۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی قول ہے۔

حدیث نمبر : 1996
وقال لي محمد بن المثنى حدثنا يحيى، عن هشام، قال أخبرني أبي كانت، عائشة ـ رضى الله عنها ـ تصوم أيام منى، وكان أبوها يصومها‏.‏
ابوعبداللہ امام بخاری فرماتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا کہ مجھے میرے باپ عروہ نے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایام منی ( ایام تشریق ) کے روزے رکھتی تھیں او رہشام کے باپ ( عروہ ) بھی ان دنوں میں روزہ رکھتے تھے۔

منیٰ میں رہنے کے دن وہی ہیں جن کو ایام تشریق کہتے ہیں یعنی 11,12,13ذی الحجہ کے ایام۔

حدیث نمبر : 1997-1998
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، سمعت عبد الله بن عيسى، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة،‏. وعن سالم، عن ابن عمر رضي الله عنهم قالا: لم يرخص في أيام التشريق أن يصمن، إلا لمن لم يجد الهدي.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عیسیٰ سے سنا، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ( نیز زہری نے اس حدیث کو ) سالم سے بھی سنا، اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ( عائشہ او رابن عمر رضی اللہ عنہم ) دونوں نے بیان کیا کہ کسی کو ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں مگر اس کے لیے جسے قربانی کا مقدور نہ ہو۔

تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایام التشریق ای الایام التی بعد یوم النحر و قد اختلف فی کونہا یومین او ثلاثۃ و سمیت ایام التشریق لان لحوم الاضاحی تشرق فیہا ای تنشر فی الشمس الخ یعنی ایام تشریق یوم النحر دس ذی الحجہ کے بعد والے دنوں کو کہتے ہیں جو دو ہیں یا تین اس بارے میں اختلاف ہے ( مگر تین ہونے کو ترجیح حاصل ہے ) اور ان کا نام ایام تشریق اس لیے رکھا گیا کہ ان میں قربانیوں کا گوشت سکھانے کے لیے دھوپ میں پھیلا دیا جاتا تھا۔ والراجع عند البخاری جوازہ للمتمتع فانہ ذکر فی الباب حدیث عائشہ و ابن عمر فی جواز ذلک و لم یورد غیرہ یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج تمتع والے کے لیے ( جس کو قربانی کا مقدور نہ ہو ) ان ایام میں روزہ رکھنا جائز ہے، آپ نے باب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی احادیث ذکر کی ہیں اور کوئی ان کے غیر حدیث نہیں لائے۔ جن احادیث میں ممانعت آئی ہے وہ غیر متمتع کے حق میں قرار دی جاسکتی ہیں۔ اور جواز والی احادیث متمتع کے حق میں جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ اس طرح ہر دو احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ یہ ہے یترجح القول بالجواز و الی ہذا جنح البخاری ( فتح ) یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جواز کے قائل ہیں اور اسی قوال کو ترجیح حاصل ہے۔

ابراہیم بن سعد عن ابن شہاب کے اثر کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے وصل کیا قال اخبرنی ابراہیم بن سعد عن ابن شہاب عن عروۃ عن عائشۃ فی المتمتع اذا لم یجد ہدیاولم یصم قبل عرفۃ فلیصم ایام منی یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ متمتع ایام تشریق میں روزہ رکھے جس کو قربانی کا مقدور نہ ہو۔

المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و حمل المطلق علی المقید واجب و کذا بناءالعام علی الخاص قال الشوکانی و ہذا اقوی المذاہب و اما القائل بالجواز مطلقاً فاحادیث جمیعہا ترد علیہ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے اور اسی طرح عام کو خاص پر بنا کرنا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں اور یہ قوی تر مذہب ہے اور جو لوگ مطلق جواز کے قائل ہیں پس جملہ احادیث ان کی تردید کرتی ہیں۔

حدیث نمبر : 1999
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال الصيام لمن تمتع بالعمرة إلى الحج، إلى يوم عرفة، فإن لم يجد هديا ولم يصم صام أيام منى‏.‏ وعن ابن شهاب عن عروة عن عائشة مثله‏.‏ تابعه إبراهيم بن سعد عن ابن شهاب‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے او ران سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جو حاجی حج اور عمرہ کے درمیان تمتع کرے اسی کو یوم عرفہ تک روزہ رکھنے کی اجازت ہے، لیکن اگر قربانی کا مقدور نہ ہو او رنہ اس نے روزہ رکھا تو ایام منی ( ایام تشریق ) میں بھی روزہ رکھے۔ اور ابن شہاب نے عروہ سے او رانہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی طرح روایت کی ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے ساتھ اس حدیث کو ابراہیم بن سعد نے بھی ابن شہاب سے روایت کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : اس بارے میں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ کیسا ہے؟

عاشورہ محرم کی دسویں تاریخ کو کہا جاتا ہے اوائل اسلام میں یہ روزہ فرض تھا، جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو اس کی فرضیت جاتی رہی صرف سنیت باقی رہ گئی۔

حدیث نمبر : 2000
حدثنا أبو عاصم، عن عمر بن محمد، عن سالم، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء ‏"‏إن شاء صام‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، ان سے عمر بن محمد نے، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عاشورءکے دن اگر کوئی چاہے تو روزہ رکھ لے۔

حدیث نمبر : 2001
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بصيام يوم عاشوراء، فلما فرض رمضان كان من شاء صام، ومن شاء أفطر‏.‏
سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ( شروع اسلام میں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراءکے دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ پھر جب رمضان کے روزے فرض ہو گئے تو جس کا دل چاہتا اس دن روزہ رکھتا اور جو نہ چاہتا نہیں رکھا کرتا تھا۔

حدیث نمبر : 2002
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه، فلما قدم المدينة صامه، وأمر بصيامه، فلما فرض رمضان ترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه، ومن شاء تركه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے اور ان سے ان کے والد نے او ران سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عاشوراءکے دن زمانہ جاہلیت میں قریش روزہ رکھا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی رکھتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھا اور اس کا لوگوں کو بھی حکم دیا۔ لیکن رمضان کی فرضیت کے بعد آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جس کا چاہے نہ رکھے۔

حدیث نمبر : 2003
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، أنه سمع معاوية بن أبي سفيان ـ رضى الله عنهما ـ يوم عاشوراء عام حج على المنبر يقول يا أهل المدينة، أين علماؤكم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏هذا يوم عاشوراء، ولم يكتب عليكم صيامه، وأنا صائم، فمن شاء فليصم ومن شاء فليفطر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے حمید بن عبدالرحمن بن بیان کیا کہ انہوں نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے عاشوراءکے دن منبر پر سنا، انہوں نے کہا کہ اے اہل مدینہ ! تمہارے علماءکدھر گئے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ یہ عاشوراءکا دن ہے۔ اس کا روزہ تم پر فرض نہیں ہے لیکن میں روزہ سے ہوں اور اب جس کا جی چاہے روزہ سے رہے ( اور میری سنت پر عمل کرے ) اور جس کا جی چاہے نہ رہے۔

شاید معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ خبر پہنچی ہو کہ مدینہ والے عاشوراءکا روزہ مکروہ جانتے ہیں یا اس کا اہتمام نہیں کرتے یا اس کو فرض سمجھتے ہیں، تو آپ نے منبر پر یہ تقریر کی، آپ نے یہ حج 44ھ میں کیا تھا۔ یہ ان کی خلافت کا پہلا حج تھا۔ اور اخیر حج ان کا 57ھ میں ہوا تھا۔ حافظ کے خیال کے مطابق یہ تقریر ان کے آخری حج میں تھی۔

حدیث نمبر : 2004
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا أيوب، حدثنا عبد الله بن سعيد بن جبير، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة، فرأى اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال ‏"‏ما هذا‏"‏‏. ‏ قالوا هذا يوم صالح، هذا يوم نجى الله بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسى‏.‏ قال ‏"‏فأنا أحق بموسى منكم‏"‏‏. ‏ فصامه وأمر بصيامه‏.‏
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن سعید بن جبیر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ ( دوسرے سال ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراءکے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم فرمایا تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن ( فرعون ) سے نجات دلائی تھی۔ اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ نے فرمایا پھر موسیٰ علیہ السلام کے ( شریک مسرت ہونے میں ) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔

مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے اللہ کا شکر کرنے کے لیے ہم بھی روزہ رکھتے ہیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یوں ہے اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری تھی تو حضرت نوح علیہ السلام نے اس کے شکریہ میں اس دن روزہ رکھا تھا۔

حدیث نمبر : 2005
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا أبو أسامة، عن أبي عميس، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن أبي موسى ـ رضى الله عنه ـ قال كان يوم عاشوراء تعده اليهود عيدا، قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏فصوموه أنتم‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمیس نے، ان سے قیس بن مسلم نے، ان سے طارق نے، ان سے ابن شہاب نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عاشوراءکے دن کو یہودی عید کا دن سمجھتے تھے اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی اس دن روزہ رکھا کرو۔

تشریح : مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت ہے کہ صوموا یوم عاشوراءو خالفوا الیہود صوموا یوما قبلہ او یوما بعدہ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عاشوراءکے دن روزہ رکھو اور اس میں یہود کی مخالفت کے لیے ایک دن پہلے یا بعد کا روزہ اور ملا لو۔ قال القرطبی عاشوراءمعدول عن عشرۃ للمبالغۃ و التعظیم و ہو فی الاصل صفۃ اللیلۃ العاشرۃ لانہ ماخوذ من العشر الذی ہو اسم العقد و الیوم مضاف الیہا فاذا قیل یوم عاشوراءفکانہ قیل یوم لیلۃ العاشرۃ لانہم کانوا لما عدلوا بہ عن الصفۃ غلبت علیہ الاسمیۃ فاستغنوا عن الموصوف فحذفوا اللیلۃ فصار ہذا اللفظ علما علی الیوم العاشر ( فتح ) یعنی قرطبی نے کہا کہ لفظ عاشورا مبالغہ اور تعظیم کے لیے ہے جو لفظ عاشرہ سے معدول ہے جب بھی لفظ عاشوراءبولا جائے اس سے محرم کی دسویں تاریخ کی رات مراد ہوتی ہے۔

حدیث نمبر : 2006
حدثنا عبيد الله بن موسى، عن ابن عيينة، عن عبيد الله بن أبي يزيد، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يتحرى صيام يوم فضله على غيره، إلا هذا اليوم يوم عاشوراء وهذا الشهر‏.‏ يعني شهر رمضان‏.
ہم سے عبید اللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے، ان سے عبید اللہ بن ابی یزید نے، او ران سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سوا عاشوراءکے دن کے اور اس رمضان کے مہینے کے اور کسی دن کو دوسرے دنوں سے افضل جان کر خاص طور سے قصد کرکے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔

حدیث نمبر : 2007
حدثنا المكي بن إبراهيم، حدثنا يزيد، عن سلمة بن الأكوع ـ رضى الله عنه ـ قال أمر النبي صلى الله عليه وسلم رجلا من أسلم أن أذن في الناس ‏"‏أن من كان أكل فليصم بقية يومه، ومن لم يكن أكل فليصم، فإن اليوم يوم عاشوراء‏"‏‏. ‏
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسلم کے ایک شخص کو لوگوں میں اس بات کے اعلان کا حکم دیا تھا کہ جو کھا چکا ہو وہ دن کے باقی حصے میں بھی کھانے پینے سے رکا رہے اور جس نے نہ کھایا ہو اسے روزہ رکھ لینا چاہئے کیوں کہ یہ عاشوراءکا دن ہے۔

تشریح : یہاں کتاب الصیام ختم ہوئی جس میں حضر ت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ایک سو ستاون احادیث لائے ہیں جن میں معلق اور موصول اور مکرر سب شامل ہیں اور صحابہ اور تابعین کے ساٹھ اثر لائے ہیں۔ جن میں اکثر معلق ہیں اور باقی موصول ہیں۔ الحمد للہ کہ آج 5 شعبان 1389ھ کو جنوبی ہند کے سفر میں ریلوے پر چلتے ہوئے اس کے ترجمہ وتشریحات سے فارغ ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصلوۃ التراویح
باب : رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت

حدیث نمبر : 2008
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني أبو سلمة، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لرمضان ‏"‏من قامه إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہ مجھے ابوسلمہ نے خبر دی، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے فضائل بیان فرما رہے تھے کہ جو شخص بھی اس میں ایمان اور نیت اجر و ثواب کے ساتھ ( رات میں ) نماز کے لیے کھڑا ہو اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

حدیث نمبر : 2009
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏. ‏ قال ابن شهاب فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والأمر على ذلك، ثم كان الأمر على ذلك في خلافة أبي بكر وصدرا من خلافة عمر ـ رضى الله عنهما ـ‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں حمید بن عبدالرحمن نے او رانہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کی راتوں میں ( بیدار رہ کر ) نماز تراویح پڑھی، ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ، اس کے اگلے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی او رلوگوں کا یہی حال رہا ( الگ الگ اکیلے اور جماعتوں سے تراویح پڑھتے تھے ) اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اور عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دور خلافت میں بھی ایسا ہی رہا۔

حدیث نمبر : 2010
وعن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عبد الرحمن بن عبد القاري، أنه قال خرجت مع عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ ليلة في رمضان، إلى المسجد، فإذا الناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه، ويصلي الرجل فيصلي بصلاته الرهط فقال عمر إني أرى لو جمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان أمثل‏.‏ ثم عزم فجمعهم على أبى بن كعب، ثم خرجت معه ليلة أخرى، والناس يصلون بصلاة قارئهم، قال عمر نعم البدعة هذه، والتي ينامون عنها أفضل من التي يقومون‏.‏ يريد آخر الليل، وكان الناس يقومون أوله‏.‏
اور ابن شہاب سے ( امام مالک رحمہ اللہ علیہ ) کی روایت ہے، انہوں نے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے عبدالرحمن بن عبدالقاری سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا ، میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ رمضان کی ایک رات کو مسجد میں گیا۔ سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا، اور کچھ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میرا خیال ہے کہ اگر میں تمام لوگوں کو ایک قاری کے پیچھے جمع کر دوں تو زیادہ اچھا ہوگا، چنانچہ آپ نے یہی ٹھان کر ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام بنادیا۔ پھر ایک رات جو میں ان کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز ( تراویح ) پڑھ رہے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ نیا طریقہ بہتر اور مناسب ہے اور ( رات کا ) وہ حصہ جس میں یہ لوگ سو جاتے ہیں اس حصہ سے بہتر اور افضل ہے جس میں یہ نماز پڑھتے ہیں۔ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ ( کی فضیلت ) سے تھی کیوں کہ لوگ یہ نماز رات کے شروع ہی میں پڑھ لیتے تھے۔

حدیث نمبر : 2011
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة، رضى الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى وذلك في رمضان‏.
ہم سے اسماعیل بن اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار نماز ( تراویح ) پڑھی اور یہ رمضان میں ہوا تھا۔

حدیث نمبر : 2012
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، أخبرني عروة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج ليلة من جوف الليل، فصلى في المسجد، وصلى رجال بصلاته، فأصبح الناس فتحدثوا، فاجتمع أكثر منهم، فصلوا معه، فأصبح الناس فتحدثوا، فكثر أهل المسجد من الليلة الثالثة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى، فصلوا بصلاته، فلما كانت الليلة الرابعة عجز المسجد عن أهله، حتى خرج لصلاة الصبح، فلما قضى الفجر أقبل على الناس، فتشهد ثم قال ‏"‏أما بعد، فإنه لم يخف على مكانكم، ولكني خشيت أن تفترض عليكم فتعجزوا عنها‏"‏‏. ‏ فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم والأمر على ذلك
او رہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں عروہ نے خبردی او رانہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ( رمضان کی ) نصف شب میں مسجد تشریف لے گئے اور وہاں تراویح کی نماز پڑھی۔ کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔ صبح ہوئی تو انہوں نے اس کا چرچا کیا۔ چنانچہ دوسری رات میں لوگ پہلے سے بھی زیادہ جمع ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ دوسری صبح کو اور زیادہ چرچا ہوا اور تیسری رات اس سے بھی زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ آپ نے ( اس رات بھی ) نماز پڑھی اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداءکی۔ چوتھی رات کو یہ عالم تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنے آنے والوں کے لیے جگہ بھی باقی نہیں رہی تھیں۔ ( لیکن اس رات آپ برآمد ہی نہیں ہوئے ) بلکہ صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ جب نماز پڑھ لی تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر شہادت کے بعد فرمایا۔ اما بعد ! تمہارے یہاں جمع ہونے کا مجھے علم تھا، لیکن مجھے خوف اس کا ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ، چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو یہی کیفیت قائم رہی۔

حدیث نمبر : 2013
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن سعيد المقبري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه سأل عائشة ـ رضى الله عنها ـ كيف كانت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان فقالت ما كان يزيد في رمضان، ولا في غيرها على إحدى عشرة ركعة، يصلي أربعا فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي أربعا فلا تسل عن حسنهن وطولهن، ثم يصلي ثلاثا‏.‏ فقلت يا رسول الله، أتنام قبل أن توتر قال ‏"‏يا عائشة إن عينى تنامان ولا ينام قلبي‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( تراویح یا تہجد کی نماز ) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ ! کیا اپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ ! میری آنکھیںسوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔

تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : والتراویح جمع ترویحۃ و ہی المرۃ الواحدۃ من الراحۃ کالتسلیمۃ من السلام سمیت الصلوۃ فی الجماعۃ فی لیالی رمضان التراویح لانہم اول ما اجتمعوا علیہا کانوا یستریحون بین کل تسلیمتین و قد عقد محمد بن نصر فی قیام اللیل بابین لمن استحب التطوع لنفسہ بین کل ترویحتین و لمن کرہ ذلک و حکی فیہ عن یحییٰ بن بکیر عن اللیث انہم کانوا یسترحون قدرمایصلی الرجل کذا کذا رکعۃ۔ ( فتح )

خلاصہ مطلب یہ ہے کہ تراویح ترویحۃ کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔ رمضان کی راتوں میں جماعت سے نفل نماز پڑھنے کو تراویح کہا گیا، اس لیے کہ وہ شروع میں ہردورکعتوں کے درمیان تھوڑا سا آرام کیا کرتے تھے۔ علامہ محمدبن نصر نے قیام اللیل میں دوباب منعقد کئے ہیں۔ ایک ان کے متعلق جو اس راحت کو مستحب گردانتے ہیں۔ اورایک ان کے متعلق جو اس راحت کو اچھا نہیں جانتے۔ اور اس بارے میں یحییٰ بن بکیر نے لیث سے نقل کیا ہے کہ وہ اتنی اتنی رکعات کی ادائیگی کے بعد تھوڑی دیرآرام کیا کرتے تھے۔ اسی لیے اسے نمازتراویح سے موسوم کیا گیا۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اس بارے میں پہلے اس نماز کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت لائے، پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت کے ساتھ حضرت ابن شہاب کی تشریح لائے جس میں اس نماز کا باجماعت ادا کیا جانا اوراس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اقدام مذکور ہے۔ پھر حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث سے یہ ثابت فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس نماز کو تین راتوں تک باجماعت ادا فرماکر اس امت کے لیے مسنون قرار دیا۔ اس کے بعد اس کی تعداد کے بارے میں خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان مبارک سے یہ نقل فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیررمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعتوں کی تعداد میں پڑھا کرتے تھے۔ رمضان میں یہی نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیررمضان میں تہجد کے نام سے، اور اس میں آٹھ رکعت سنت اور تین وتر۔ اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوا کرتی تھیں۔ حضرت حائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان مبارک سے یہ ایسی قطعی وضاحت ہے جس کی کوئی بھی تاویل یاتردید نہیں کی جاسکتی، اسی کی بناپر جماعت اہل حدیث کے نزدیک تراویح کی آٹھ رکعات سنت تسلیم کی گئی ہیں، جس کی تفصیل پارہ سوم میں ملاحظہ ہو۔

عجیب دلیری : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث اورموطا امام مالک میں یہ وضاحت کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتدا ءمیں مسلمانوں کی جماعت قائم فرمائی اورانھوں نے سنت نبوی کے مطابق یہ نماز گیارہ رکعتوں میں ادا فرمائی تھی۔ اس کے باوجود علمائے احناف کی دلیری اورجرات قابل دادا ہے، جوآٹھ رکعات تراویح کے نہ صرف منکر بلکہ اسے ناجائز اوربدعت قراردینے سے بھی نہیں چوکتے۔ اورتقریباً ہرسال ان کی طرف سے آٹھ رکعات تراویح والوں کے خلاف اشتہارات، پوسٹر، کتابچے شائع ہوتے رہتے ہیں۔
ہمارے سامنے دیوبند سے شائع شدہ بخاری شریف کا ترجمہ تفہیم البخاری کے نام سے رکھا ہواہے۔ اس کے مترجم وشارح صاحب بڑی دلیری کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں :
”جولوگ صرف آٹھ رکعات تراویح پراکتفا کرتے اور سنت پرعمل کا دعویٰ کرتے ہیں وہ درحقیقت سواداعظم سے شذوذ اختیار کرتے ہیں اور ساری امت پر بدعت کا الزام لگاکر خود اپنے پر ظلم کرتے ہیں۔ “ ( تفہیم البخاری، پ8ص : 30 )
یہاں علامہ مترجم صاحب دعویٰ فرمارہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح سواداعظم کا عمل ہے۔ آٹھ رکعات پر اکتفا کرنے والوں کا دعویٰ سنت غلط ہے۔ جذبہ حمایت میں انسان کتنا بہک سکتاہے یہاں یہ نمونہ نظر آرہاہے۔ یہی حضرت آگے خود اپنی اسی کتاب میں خود اپنے ہی قلم سے خود اپنی ہی تردید فرمارہے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں :
”ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات پڑھتے تھے، اوروتر اس کے علاوہ ہوتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس سے مختلف ہے بہرحال دونوں احادیث پر ائمہ کا عمل ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک بیس رکعات تراویح کا ہے اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا گیارہ رکعات والی روایت پر عمل ہے۔ “ ( تفہیم البخاری، پ8، ص : 31 )
اس بیان سے موصوف کے پیچھے کے بیان کی تردید جن واضح لفظوں میں ہورہی ہے وہ سورج کی طرح عیاں ہے جس سے معلوم ہوا کہ آٹھ رکعات پڑھنے والے بھی حق بجانب ہیں اور بیس رکعات پر سواداعظم کے عمل کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔
حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما جس کی طرف مترجم صاحب نے اشارہ فرمایاہے یہ حدیث سنن کبریٰ بیہقی ص496، جلد2 پر بایں الفاظ مروی ہے : عن ابن عباس قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی شہررمضان فی غیرجماعۃ بعشرین رکعۃ والوتر تفردبہ ابوشبیۃ ابراہیم بن عثمان العبسی الکوفی وہوضعیف۔ یعنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعات اوروتر پڑھا کرتے تھے۔ اس بیان میں راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی تنہا ہے اوروہ ضعیف ہے۔ لہٰذا یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مقابلہ پر ہرگز قابل حجت نہیں ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی بابت فرماتے ہیں : ہذا الحدیث ضعیف جدا لاتقوم بہ الحجۃ۔ ( المصابیح للسیوطی )

آگے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ابوشیبہ مذکورپر محدثین کبار کی جرحیں نقل فرماکر لکھتے ہیں : ومن اتفق ہولاءالائمۃ علی تضعیفہ لایحل الاحتجاج بحدیثہ یعنی جس شخص کی تضعیف پر یہ تمام ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے۔ علامہ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا ہی لکھاہے۔ علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں : وہومعلول بابی شیبۃ ابراہیم بن عثمان جدا لامام ابی بکر بن ابی شیبۃ و ہومتفق علی ضعفہ ولینہ ابن عدی فی الکامل ثم انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن انہ سال عائشۃ الحدیث ( نصب الرایہ، ص493 ) یعنی ابوشیبہ کی وجہ سے یہ حدیث معلول ضعیف ہے ۔ اوراس کے ضعف پر سب محدثین کرام کا اتفاق ہے۔ اورابن عدی نے اسے لین کہاہے۔ اوریہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جو صحیح ہے، اس کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا یہ قابل قبول نہیں ہے۔ علامہ ابن ہمام حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القدیر جلداول، ص333 طبع مصر پر بھی ایسا ہی لکھاہے۔ اورعلامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ حنفی نے عمدۃ القاری، طبع مصر، ص359، جلد5 پر بھی یہی لکھاہے۔

علامہ سندھی حنفی نے بھی اپنی شرح ترمذی، ص : 423، جلداوّل میں یہی لکھاہے۔ اسی لیے مولانا انورشاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واما النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصح عنہ ثمان رکعات واماعشرون رکعۃ فہوعنہ بسند ضعیف وعلی ضعفہ اتفاق۔ ( العرف الشذی ) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی آٹھ ہی رکعات صحیح سند سے ثابت ہیں۔ بیس رکعات والی روایت کی سند ضعیف ہے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔

اوجزالمسالک، جلداول، ص : 3 پر حضرت مولانا زکریا کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں : لاشک فی ان تحدیدالتراویح فی عشرین رکعۃ لم یثبت مرفوعاً عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق صحیح علی اصول المحدثین وماورد فیہ من روایۃ ابن عباس فمتکلم فیہا علی اصولہم انتہی۔ یعنی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تراویح کی بیس رکعتوں کی تحدید تعیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اصول محدثین کے طریق پر ثابت نہیں ہے۔ اورجو روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیس رکعات کے متعلق مروی ہے وہ باصول محدثین مجروح اورضعیف ہے۔

یہ تفصیل اس لیے دی گئی تاکہ علمائے احناف کے دعویٰ بیس رکعات تراویح کی سنّیت کی حقیقت خود علمائے محققین احناف ہی کی قلم سے ظاہر ہوجائے۔ باقی تفصیل مزید کے لیے ہمارے استاذ العلماءحضرت مولانانذیراحمد صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مستطاب ”انوارالمصابیح“ کا مطالعہ کیا جائے جو اس موضوع کے مالہ وماعلیہ پر اس قدر جامع مدلل کتاب ہے کہ اب اس کی نظیر ممکن نہیں۔ جزی اللہ عناخیرالجزاءوغفراللہ لہ آمین۔

مزیدتفصیلات پ3 میں دی جاچکی ہیں وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔
 
Top