Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : کسی نے اپنے بھائی کو نفلی روزہ توڑنے کے لیے قسم دی
ولم ير عليه قضاء إذا كان أوفق له.
اور اس نے روزہ توڑ دیا تو توڑنے والے پر قضاء واجب نہیں ہے جب کہ روزہ نہ رکھنا اس کو مناسب ہو۔
اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر بلا وجہ نفل روزہ قصداً توڑ ڈالے تو اس پر قضا لازم ہوگی۔ اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں اگر نفل روزہ توڑ ڈالے تو اس کی قضا مستحب ہے عذر سے توڑے یا بے عذر۔ حنابلہ اور جمہور بھی اسی کے قائل ہیں۔ حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا واجب ہے اور مالکیہ کہتے ہیں کہ جب عمداً بلا عذر توڑ ڈالے تو قضا لازم ہوگی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ظاہرے ہے اور اسی کو ترجیح حاصل ہے۔
حدیث نمبر : 1968
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا جعفر بن عون، حدثنا أبو العميس، عن عون بن أبي جحيفة، عن أبيه، قال آخى النبي صلى الله عليه وسلم بين سلمان، وأبي الدرداء، فزار سلمان أبا الدرداء، فرأى أم الدرداء متبذلة. فقال لها ما شأنك قالت أخوك أبو الدرداء ليس له حاجة في الدنيا. فجاء أبو الدرداء، فصنع له طعاما. فقال كل. قال فإني صائم. قال ما أنا بآكل حتى تأكل. قال فأكل. فلما كان الليل ذهب أبو الدرداء يقوم. قال نم. فنام، ثم ذهب يقوم. فقال نم. فلما كان من آخر الليل قال سلمان قم الآن. فصليا، فقال له سلمان إن لربك عليك حقا، ولنفسك عليك حقا، ولأهلك عليك حقا، فأعط كل ذي حق حقه. فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم "صدق سلمان".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جعفر بن عون نے بیان کیا، ان سے ابوالعمیس عتبہ بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی حجیفہ نے او ران سے ان کے والد ( وہب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابوالدرداءرضی اللہ عنہ میں ( ہجرت کے بعد ) بھائی چارہ کرایا تھا۔ ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرادءرضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو ( ان کی عورت ) ام درداءرضی اللہ عنہا کو بہت پھٹے پرانے حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام درداءرضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداءرضی اللہ عنہ ہیں جن کی دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے پھر ابوالدرداءرضی اللہ عنہ بھی آگئے او ران کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں توروزے سے ہوں، اس پر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہوگے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہوگئے ( اور روزہ توڑ دیا ) رات ہوئی تو ابوالدرداءرضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہئے، پھر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا۔
تشریح : عبادت الٰہی کے متعلق کچھ غلط تصورات ادیان عالم میں پہلے ہی سے پائے جاتے رہے ہیں۔ ان ہی غلط تصورات کی اصلاح کے لیے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ابتدائے اسلام میں بعض صحابہ بھی ایسے تصورات رکھتے تھے۔ جن میں سے ایک حضرت ابودرادءرضی اللہ عنہ بھی تھے جو یہ تصور رکھتے کہ نفس کشی بایں طور کرنا کہ جائز حاجات بھی ترک کرکے حتی کہ رات کو آرام ترک کرنا، دن میں ہمیشہ روزہ سے رہنا ہی عبادت ہے اور یہی اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کے اس تصور کی عملاً اصلاح فرمائی اور بتلایا کہ ہر صاحب حق کاحق ادا کرنا یہ بھی عبادت الٰہی ہی میں داخل ہے، بیوی کے حقوق ادا کرنا، جس میں اس سے جماع کرنا بھی داخل ہے۔ اور رات میں آرام کی نیند سونا اور دن میں متواتر نفل روزوں کی جگہ کھانا پینا یہ سب امور داخل عبادت ہیں۔ ان ہر دو بزرگ صحابیوں کا جب یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے حضرت سلمان کی تائید فرمائی اور بتلایا کہ عبادت الٰہی کا حقیقی تصور یہی ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بلکہ حقوق النفس بھی ادا کئے جائیں۔
باب : کسی نے اپنے بھائی کو نفلی روزہ توڑنے کے لیے قسم دی
ولم ير عليه قضاء إذا كان أوفق له.
اور اس نے روزہ توڑ دیا تو توڑنے والے پر قضاء واجب نہیں ہے جب کہ روزہ نہ رکھنا اس کو مناسب ہو۔
اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر بلا وجہ نفل روزہ قصداً توڑ ڈالے تو اس پر قضا لازم ہوگی۔ اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں اگر نفل روزہ توڑ ڈالے تو اس کی قضا مستحب ہے عذر سے توڑے یا بے عذر۔ حنابلہ اور جمہور بھی اسی کے قائل ہیں۔ حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا واجب ہے اور مالکیہ کہتے ہیں کہ جب عمداً بلا عذر توڑ ڈالے تو قضا لازم ہوگی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ظاہرے ہے اور اسی کو ترجیح حاصل ہے۔
حدیث نمبر : 1968
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا جعفر بن عون، حدثنا أبو العميس، عن عون بن أبي جحيفة، عن أبيه، قال آخى النبي صلى الله عليه وسلم بين سلمان، وأبي الدرداء، فزار سلمان أبا الدرداء، فرأى أم الدرداء متبذلة. فقال لها ما شأنك قالت أخوك أبو الدرداء ليس له حاجة في الدنيا. فجاء أبو الدرداء، فصنع له طعاما. فقال كل. قال فإني صائم. قال ما أنا بآكل حتى تأكل. قال فأكل. فلما كان الليل ذهب أبو الدرداء يقوم. قال نم. فنام، ثم ذهب يقوم. فقال نم. فلما كان من آخر الليل قال سلمان قم الآن. فصليا، فقال له سلمان إن لربك عليك حقا، ولنفسك عليك حقا، ولأهلك عليك حقا، فأعط كل ذي حق حقه. فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم "صدق سلمان".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جعفر بن عون نے بیان کیا، ان سے ابوالعمیس عتبہ بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی حجیفہ نے او ران سے ان کے والد ( وہب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابوالدرداءرضی اللہ عنہ میں ( ہجرت کے بعد ) بھائی چارہ کرایا تھا۔ ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرادءرضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو ( ان کی عورت ) ام درداءرضی اللہ عنہا کو بہت پھٹے پرانے حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام درداءرضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداءرضی اللہ عنہ ہیں جن کی دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے پھر ابوالدرداءرضی اللہ عنہ بھی آگئے او ران کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں توروزے سے ہوں، اس پر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہوگے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہوگئے ( اور روزہ توڑ دیا ) رات ہوئی تو ابوالدرداءرضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہئے، پھر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا۔
تشریح : عبادت الٰہی کے متعلق کچھ غلط تصورات ادیان عالم میں پہلے ہی سے پائے جاتے رہے ہیں۔ ان ہی غلط تصورات کی اصلاح کے لیے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ابتدائے اسلام میں بعض صحابہ بھی ایسے تصورات رکھتے تھے۔ جن میں سے ایک حضرت ابودرادءرضی اللہ عنہ بھی تھے جو یہ تصور رکھتے کہ نفس کشی بایں طور کرنا کہ جائز حاجات بھی ترک کرکے حتی کہ رات کو آرام ترک کرنا، دن میں ہمیشہ روزہ سے رہنا ہی عبادت ہے اور یہی اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کے اس تصور کی عملاً اصلاح فرمائی اور بتلایا کہ ہر صاحب حق کاحق ادا کرنا یہ بھی عبادت الٰہی ہی میں داخل ہے، بیوی کے حقوق ادا کرنا، جس میں اس سے جماع کرنا بھی داخل ہے۔ اور رات میں آرام کی نیند سونا اور دن میں متواتر نفل روزوں کی جگہ کھانا پینا یہ سب امور داخل عبادت ہیں۔ ان ہر دو بزرگ صحابیوں کا جب یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے حضرت سلمان کی تائید فرمائی اور بتلایا کہ عبادت الٰہی کا حقیقی تصور یہی ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بلکہ حقوق النفس بھی ادا کئے جائیں۔