• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : کسی نے اپنے بھائی کو نفلی روزہ توڑنے کے لیے قسم دی

ولم ير عليه قضاء إذا كان أوفق له.
اور اس نے روزہ توڑ دیا تو توڑنے والے پر قضاء واجب نہیں ہے جب کہ روزہ نہ رکھنا اس کو مناسب ہو۔
اس سے یہ نکلتا ہے کہ اگر بلا وجہ نفل روزہ قصداً توڑ ڈالے تو اس پر قضا لازم ہوگی۔ اس مسئلہ میں علماءکا اختلاف ہے۔ شافعیہ کہتے ہیں اگر نفل روزہ توڑ ڈالے تو اس کی قضا مستحب ہے عذر سے توڑے یا بے عذر۔ حنابلہ اور جمہور بھی اسی کے قائل ہیں۔ حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا واجب ہے اور مالکیہ کہتے ہیں کہ جب عمداً بلا عذر توڑ ڈالے تو قضا لازم ہوگی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک ظاہرے ہے اور اسی کو ترجیح حاصل ہے۔

حدیث نمبر : 1968
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا جعفر بن عون، حدثنا أبو العميس، عن عون بن أبي جحيفة، عن أبيه، قال آخى النبي صلى الله عليه وسلم بين سلمان، وأبي الدرداء، فزار سلمان أبا الدرداء، فرأى أم الدرداء متبذلة‏.‏ فقال لها ما شأنك قالت أخوك أبو الدرداء ليس له حاجة في الدنيا‏.‏ فجاء أبو الدرداء، فصنع له طعاما‏.‏ فقال كل‏.‏ قال فإني صائم‏.‏ قال ما أنا بآكل حتى تأكل‏.‏ قال فأكل‏.‏ فلما كان الليل ذهب أبو الدرداء يقوم‏.‏ قال نم‏.‏ فنام، ثم ذهب يقوم‏.‏ فقال نم‏.‏ فلما كان من آخر الليل قال سلمان قم الآن‏.‏ فصليا، فقال له سلمان إن لربك عليك حقا، ولنفسك عليك حقا، ولأهلك عليك حقا، فأعط كل ذي حق حقه‏.‏ فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏صدق سلمان‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جعفر بن عون نے بیان کیا، ان سے ابوالعمیس عتبہ بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی حجیفہ نے او ران سے ان کے والد ( وہب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان اور ابوالدرداءرضی اللہ عنہ میں ( ہجرت کے بعد ) بھائی چارہ کرایا تھا۔ ایک مرتبہ سلمان رضی اللہ عنہ، ابودرادءرضی اللہ عنہ سے ملاقات کے لیے گئے۔ تو ( ان کی عورت ) ام درداءرضی اللہ عنہا کو بہت پھٹے پرانے حال میں دیکھا۔ ان سے پوچھا کہ یہ حالت کیوں بنا رکھی ہے؟ ام درداءرضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تمہارے بھائی ابوالدرداءرضی اللہ عنہ ہیں جن کی دنیا کی کوئی حاجت ہی نہیں ہے پھر ابوالدرداءرضی اللہ عنہ بھی آگئے او ران کے سامنے کھانا حاضر کیا اور کہا کہ کھانا کھاؤ، انہوں نے کہا کہ میں توروزے سے ہوں، اس پر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بھی اس وقت تک کھانا نہیں کھاؤں گا جب تک تم خود بھی شریک نہ ہوگے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ کھانے میں شریک ہوگئے ( اور روزہ توڑ دیا ) رات ہوئی تو ابوالدرداءرضی اللہ عنہ عبادت کے لیے اٹھے اور اس مرتبہ بھی سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ابھی سو جاؤ۔ پھر جب رات کا آخری حصہ ہوا تو سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اچھا اب اٹھ جاؤ۔ چنانچہ دونوں نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے رب کا بھی تم پر حق ہے۔ جان کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے، اس لیے ہر حق والے کے حق کو ادا کرنا چاہئے، پھر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان نے سچ کہا۔

تشریح : عبادت الٰہی کے متعلق کچھ غلط تصورات ادیان عالم میں پہلے ہی سے پائے جاتے رہے ہیں۔ ان ہی غلط تصورات کی اصلاح کے لیے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ ابتدائے اسلام میں بعض صحابہ بھی ایسے تصورات رکھتے تھے۔ جن میں سے ایک حضرت ابودرادءرضی اللہ عنہ بھی تھے جو یہ تصور رکھتے کہ نفس کشی بایں طور کرنا کہ جائز حاجات بھی ترک کرکے حتی کہ رات کو آرام ترک کرنا، دن میں ہمیشہ روزہ سے رہنا ہی عبادت ہے اور یہی اللہ کی رضا کا ذریعہ ہے۔ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے ان کے اس تصور کی عملاً اصلاح فرمائی اور بتلایا کہ ہر صاحب حق کاحق ادا کرنا یہ بھی عبادت الٰہی ہی میں داخل ہے، بیوی کے حقوق ادا کرنا، جس میں اس سے جماع کرنا بھی داخل ہے۔ اور رات میں آرام کی نیند سونا اور دن میں متواتر نفل روزوں کی جگہ کھانا پینا یہ سب امور داخل عبادت ہیں۔ ان ہر دو بزرگ صحابیوں کا جب یہ واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے حضرت سلمان کی تائید فرمائی اور بتلایا کہ عبادت الٰہی کا حقیقی تصور یہی ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بلکہ حقوق النفس بھی ادا کئے جائیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : ماہ شعبان میں روزے رکھنے کا بیان

حدیث نمبر : 1969
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي النضر، عن أبي سلمة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصوم حتى نقول لا يفطر، ويفطر حتى نقول لا يصوم‏.‏ فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم استكمل صيام شهر إلا رمضان، وما رأيته أكثر صياما منه في شعبان‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کوامام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبری دی، انہیں ابوالنضر نے، انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نفل روزہ رکھنے لگتے تو ہم ( آپس میں ) کہتے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھنا چھوڑیں گے ہی نہیں۔ اور جب روزہ چھوڑ دیتے تو ہم کہتے کہ اب آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ میں نے رمضان کو چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی پورے مہینے کا نفلی روزہ رکھتے نہیں دیکھتا اور جتنے روزے آپ شعبان میں رکھتے میں نے کسی مہینہ میں اس سے زیادہ روزے رکھتے آپ کو نہیں دیکھا۔

شعبان کی وجہ تسمیہ حافظ صاحب کے لفظوں میں یہ ہے لتشعبہم فی طلب المیاہ او فی الغارات بعد ان یخرج شہر رجب الحرام ( فتح ) یعنی اہل عرب اس مہینے میں پانی کی تلاش میں متفرق ہو جایا کرتے تھے، یا ماہ رجب کے خاتمہ پر جس میں اہل عرب قتل و غارت وغیرہ سے بالکل رک جایا کرتے تھے، اس ماہ میں وہ ایسے مواقع کی پھر تلاش کرتے۔ اسی لیے اس ماہ کو انہوں نے شعبان سے موسوم کیا۔

حدیث نمبر : 1970
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ حدثته قالت، لم يكن النبي صلى الله عليه وسلم يصوم شهرا أكثر من شعبان، فإنه كان يصوم شعبان كله، وكان يقول ‏"‏خذوا من العمل ما تطيقون، فإن الله لا يمل حتى تملوا، وأحب الصلاة إلى النبي صلى الله عليه وسلم ما دووم عليه، وإن قلت ‏"‏وكان إذا صلى صلاة داوم عليها‏.‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان سے زیادہ اور کسی مہینہ میں روزے نہیں رکھتے تھے، شعبان کے پورے دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے رہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ عمل وہی اختیار کرو جس کی تم میں طاقت ہو کیوں کہ اللہ تعالیٰ ( ثواب دینے سے ) نہیں تھکتا۔ تم خود ہی اکتا جاؤ گے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو سب سے زیادہ پسند فرماتے جس پر ہمیشگی اختیار کی جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نماز شروع کرتے تو اسے ہمیشہ پڑھتے تھے۔

تشریح : اگرچہ اورمہینوں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفل روزے رکھا کرتے تھے مگر شعبان میں زیادہ روزے رکھتے کیوں کہ شعبان میں بندوں کے اعمال اللہ کی طرف اٹھائے جاتے ہیں۔ نسائی کی روایت میں یہ مضمون موجود ہے۔ ( وحیدی ) واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کا بیان

حدیث نمبر : 1971
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا أبو عوانة، عن أبي بشر، عن سعيد، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال ما صام النبي صلى الله عليه وسلم شهرا كاملا قط غير رمضان، ويصوم حتى يقول القائل لا والله لا يفطر، ويفطر حتى يقول القائل لا والله لا يصوم‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے، ان سے سعید بن جبیر نے او ران سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رمضان کے سوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پورے مہینے کا روزہ نہیں رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نفل روزہ رکھنے لگتے تو دیکھنے والا کہہ اٹھتا کہ بخدا، اب آپ بے روزہ نہیں رہیں گے اور اسی طرح جب نفل روزہ چھوڑ دیتے تو کہنے والا کہتا کہ واللہ ! اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہیں رکھیں گے۔

حدیث نمبر : 1972
حدثني عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني محمد بن جعفر، عن حميد، أنه سمع أنسا ـ رضى الله عنه ـ يقول كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفطر من الشهر، حتى نظن أن لا يصوم منه، ويصوم حتى نظن أن لا يفطر منه شيئا، وكان لا تشاء تراه من الليل مصليا إلا رأيته، ولا نائما إلا رأيته‏.‏ وقال سليمان عن حميد أنه سأل أنسا في الصوم‏.‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینہ میں بے روزہ کے رہتے تو ہمیں خیال ہوتا کہ اس مہینہ میں آپ روزہ رکھیں گے ہی نہیں۔ اسی طرح کسی مہینہ میں نفل روزہ رکھنے لگتے تو ہم خیال کرتے کہ اب اس مہینہ کا ایک دن بھی بے روزے کے نہیں گزرے گا۔ جو جب بھی چاہتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رات میں نماز پڑھتے دیکھ سکتا تھا اور جب بھی چاہتا ہوسوتا ہوا بھی دیکھ سکتا تھا۔ سلیمان نے حمید طویل سے یوں بیان کیا کہ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے روزہ کے متعلق پوچھا تھا۔

حدیث نمبر : 1973
حدثني محمد، أخبرنا أبو خالد الأحمر، أخبرنا حميد، قال سألت أنسا رضى الله عنه عن صيام النبي صلى الله عليه وسلم فقال ما كنت أحب أن أراه من الشهر صائما إلا رأيته ولا مفطرا إلا رأيته، ولا من الليل قائما إلا رأيته، ولا نائما إلا رأيته، ولا مسست خزة ولا حريرة ألين من كف رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا شممت مسكة ولا عبيرة أطيب رائحة من رائحة رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابوخالد احمر نے خبر دی، کہا کہ ہم کو حمید نے خبر دی، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کے متعلق پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ جب بھی میرا دل چاہتا کہ آپ کو روزے سے دیکھوں تو میں آپ کو روزے سے ہی دیکھتا۔ او ربغیر روزے کے چاہتا تو بغیر روزے سے ہی دیکھتا۔ رات میں کھڑے ( نماز پڑھتے ) دیکھنا چاہتا تو اسی طرح نماز پڑھتے دیکھتا۔ اور سوتے ہوئے دیکھنا چاہتا تو اسی طرح دیکھتا۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے زیادہ نرم و نازک ریشم کے کپڑوں کو بھی نہیں دیکھا۔ اور نہ مشک و عنبر کو آپ کی خوشبو سے زیادہ خوشبودار پایا۔

مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اول رات میں عبادت کرتے، کبھی بیچ شب میں، کبھی آخر رات میں، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا آرام فرمانا بھی مختلف وقتوں میں ہوتا رہتا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نفل روزہ بھی تھا۔ شروع اور بیچ اور آخر مہینے میں ہر دنوں میں رکھتے۔ تو ہر شخص جو آپ کو روزہ دار یا رات کو عبادت کرتے یا سوتے دیکھنا چاہتا بلا دقت دیکھ لیتا۔ یہ سب کچھ امت کی تعلیم کے لیے تھا۔ تاکہ مسلمان ہر حال میں اپنے اللہ پاک کو یاد رکھیں۔ اور حقو ق اللہ اور حقوق العباد ہردو کی ادائیگی کو اپنے لیے لازم قرار دے لیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : مہمان کی خاطر سے نفل روزہ نہ رکھنا یا توڑ ڈالنا

حدیث نمبر : 1974
حدثنا إسحاق، أخبرنا هارون بن إسماعيل، حدثنا علي، حدثنا يحيى، قال حدثني أبو سلمة، قال حدثني عبد الله بن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنهما ـ قال دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكر الحديث يعني ‏"‏إن لزورك عليك حقا، وإن لزوجك عليك حقا‏"‏‏. ‏ فقلت وما صوم داود قال ‏"‏نصف الدهر‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ہارون بن اسماعیل نے خبر دی، کہا کہ ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے۔ پھر انہوں نے پوری حدیث بیان کی، یعنی تمہارے ملاقاتیوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے۔ اس پر میں نے پوچھا اور داؤد علیہ السلام کا روزہ کیسا تھا؟ تو آپ نے فرمایا کہ ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن بے روزہ رہنا صوم داؤدی ہے۔

معلوم ہوا کہ نفل روزہ سے زیادہ موجب ثواب یہ امر ہے کہ مہمان کے ساتھ کھائے پئیے، اس کی تواضع کرنے کے خیال سے خود نفل روزہ ترک کردے کہ مہمان کا ایک خصوصی حق ہے۔ دوسری حدیث میں فرمایا کہ جو شخص اللہ اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کا یہ فرض ہے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزے میں جسم کا حق

حدیث نمبر : 1975
حدثنا ابن مقاتل، أخبرنا عبد الله، أخبرنا الأوزاعي، قال حدثني يحيى بن أبي كثير، قال حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، قال حدثني عبد الله بن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنهما ـ قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏يا عبد الله ألم أخبر أنك تصوم النهار وتقوم الليل‏"‏‏. ‏ فقلت بلى يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏فلا تفعل، صم وأفطر، وقم ونم، فإن لجسدك عليك حقا، وإن لعينك عليك حقا، وإن لزوجك عليك حقا، وإن لزورك عليك حقا، وإن بحسبك أن تصوم كل شهر ثلاثة أيام، فإن لك بكل حسنة عشر أمثالها، فإن ذلك صيام الدهر كله‏"‏‏. ‏ فشددت، فشدد على، قلت يا رسول الله، إني أجد قوة‏.‏ قال ‏"‏فصم صيام نبي الله داود عليه السلام ولا تزد عليه‏"‏‏. ‏ قلت وما كان صيام نبي الله داود ـ عليه السلام ـ قال ‏"‏نصف الدهر‏"‏‏. ‏ فكان عبد الله يقول بعد ما كبر يا ليتني قبلت رخصة النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے ابن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم کو اوزاعی نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے بیان کیا، کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبداللہ ! کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تم دن میں تو روزہ رکھتے ہو اور ساری رات نماز پڑھتے ہو؟ میں نے عرض کی صحیح ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا، کہ ایسا نہ کر، روزہ بھی رکھ اور بے روزہ کے بھی رہ۔ نماز بھی پڑھ اور سوؤ بھی۔ کیوں کہ تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے اور تم سے ملاقات کرنے والوں کا بھی تم پر حق ہے بس یہی کافی ہے کہ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو، کیوں کہ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ملے گا اور اس طرح یہ ساری عمر کا روزہ ہو جائے گا، لیکن میں نے اپنے پر سختی چاہی تو مجھ پر سختی کر دی گئی۔ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! میں اپنے میں قوت پاتا ہوں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھ اور اس سے آگے نہ بڑھ، میں نے پوچھا اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن بے روزہ رہا کرتے تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ بعد میں جب ضعیف ہو گئے تو کہا کرتے تھے کاش ! میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی رخصت مان لیتا۔

تشریح : اس حدیث میں پچھلے مضمون کی مزید وضاحت ہے۔ پھر ان لوگوں کے لیے جو عبادت میں زیادہ سے زیادہ انہماک کے خواہش مند ہوں ان کے لیے داؤد علیہ السلام کے روزے کو بطور مثال بیان فرمایا اور ترغیب دلائی کہ ایسے لوگوں کے لیے مناسب ہے کہ صوم داؤدی کی اقتداءکریں اور اس میانہ راوی سے ثواب عبادت حاصل کریں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : ہمیشہ روزہ رکھنا ( جس کو صوم الدہر کہتے ہیں )

شافعیہ کے نزدیک یہ مستحب ہے ایک حدیث میں ہے جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس پر دوزخ تنگ ہو جائے گی یعنی وہ اس میں جا ہی نہ سکے گا۔ اس کو امام احمد اور نسائی اور ابن خزیمہ اور ابن حبان اور بیہقی نے نکالا۔ بعض نے ہمیشہ روزہ رکھنا مکروہ جانا ہے کیوں کہ ایسا کرنے سے نفس عادی ہو جاتا ہے اور روزے کی تکلیف باقی نہیں رہتی۔ بعض علماءنے حدیث مذکور کو وعید کے معنی میں سمجھا ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنے والا دوزخی ہوگا۔ فتح الباری میں ایک ایسے شخص کا ذکر بھی ہے جو ہمیشہ روزہ رکھتا تھا۔ دیکھنے والوں نے کہا کہ اگر اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہوتا اور وہ اسے دیکھتے تو اسے سنگسار کردیتے کیوں کہ اس نے صراحتاً فرمان نبوی کی مخالفت کی ہے۔

حدیث نمبر : 1976
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سعيد بن المسيب، وأبو سلمة بن عبد الرحمن أن عبد الله بن عمرو، قال أخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أقول والله لأصومن النهار، ولأقومن الليل، ما عشت‏.‏ فقلت له قد قلته بأبي أنت وأمي‏.‏ قال ‏"‏فإنك لا تستطيع ذلك، فصم وأفطر، وقم ونم، وصم من الشهر ثلاثة أيام، فإن الحسنة بعشر أمثالها، وذلك مثل صيام الدهر‏"‏‏. ‏ قلت إني أطيق أفضل من ذلك‏.‏ قال ‏"‏فصم يوما وأفطر يومين‏"‏‏. ‏ قلت إني أطيق أفضل من ذلك‏.‏ قال ‏"‏فصم يوما وأفطر يوما، فذلك صيام داود ـ عليه السلام ـ وهو أفضل الصيام‏"‏‏. ‏ فقلت إني أطيق أفضل من ذلك‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا أفضل من ذلك‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک میری یہ بات پہنچا گئی کہ ” خدا کی قسم ! زندگی بھر میں دن میں تو روزے رکھوں گا۔ اور ساری رات عبادت کروں گا “ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں، ہاں میں نے یہ کہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لیکن تیرے اندر اس کی طاقت نہیں، اس لیے روزہ بھی رکھ او ربے روزہ بھی رہ۔ عبادت بھی کر لیکن سوؤ بھی اور مہینے میں تین دن کے روزے رکھا کر۔ نیکیوں کا بدلہ دس گنا ملتا ہے، اس طرح یہ ساری عمر کا روزہ ہوجائے گا، میں نے کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتاہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایک دن روزہ رکھا کر اور دو دن کے لیے روزے چھوڑ دیا کر۔ میں نے پھر کہا کہ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا ایک دن روزہ رکھ اور ایک دن بے روزہ کے رہ کہ داؤد علیہ السلام کا روزہ ایسا ہی تھا۔ اور روزہ کا یہ سب سے افضل طریقہ ہے۔ میں نے اب بھی وہی کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے لیکن اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ میں بیوی اور بال بچوں کا حق

رواه أبو جحيفة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.
اس کو ابو حجیفہ وہب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1977
حدثنا عمرو بن علي، أخبرنا أبو عاصم، عن ابن جريج، سمعت عطاء، أن أبا العباس الشاعر، أخبره أنه، سمع عبد الله بن عمرو ـ رضى الله عنهما ـ بلغ النبي صلى الله عليه وسلم أني أسرد الصوم وأصلي الليل، فإما أرسل إلى، وإما لقيته، فقال ‏"‏ألم أخبر أنك تصوم ولا تفطر، وتصلي ولا تنام، فصم وأفطر، وقم ونم، فإن لعينك عليك حظا، وإن لنفسك وأهلك عليك حظا‏"‏‏. ‏ قال إني لأقوى لذلك‏.‏ قال ‏"‏فصم صيام داود ـ عليه السلام ـ‏"‏‏. ‏ قال وكيف قال ‏"‏كان يصوم يوما ويفطر يوما، ولا يفر إذا لاقى‏"‏‏. ‏ قال من لي بهذه يا نبي الله قال عطاء لا أدري كيف ذكر صيام الأبد، قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا صام من صام الأبد‏"‏‏. ‏ مرتين‏.‏
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابوعاصم نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہوں نے عطاءسے سنا، انہیں ابوعباس شاعر نے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں اور ساری رات عبادت کرتا ہوں۔ اب یا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو میرے پاس بھیجا یا خود میں نے آپ سے ملاقات کی۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ کیا یہ خبر صحیح ہے کہ تو متواتر روزے رکھتا ہے او رایک بھی نہیں چھوڑتا اور ( رات بھر ) نماز پڑھتا رہتا ہے؟ روزہ بھی رکھ اور بے روزہ کے بھی رہ، عبادت بھی کر اور سوؤ بھی کیوں کہ تیری آنکھ کا بھی تجھ پر حق ہے، تیری جان کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ کی طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر داؤد علیہ السلام کی طرح روزہ رکھا کر۔ انہوں نے کہا اور وہ کس طرح؟ فرمایا کہ داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے اورایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کرتے تھے۔ اورجب دشمن سے مقابلہ ہوتا تو پیٹھ نہیں پھیرتے تھے۔ اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے عر ض کی، اے اللہ کے نبی ! میرے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ میں پیٹھ پھیرجاؤں۔ عطاءنے کہا کہ مجھے یاد نہیں ( اس حدیث میں ) صوم دہر کا کس طرح ذکر ہوا ! ( البتہ انہیں اتنا دیا تھا کہ ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو صوم دہر رکھتا ہے اس کا روزہ ہی نہیں، دو مرتبہ ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا )

تشریح : اس سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جنہوں نے سدا روزہ رکھنا مکروہ جانا ہے، ابن عربی نے کہا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سدا روزہ رکھنے والے کی نسبت یہ فرمایا کہ اس نے روزہ نہیں رکھا تو اب اس کو ثواب کی کیا توقع ہے۔ بعض نے کہا اس حدیث میں سدا روزہ رکھنے سے یہ مراد ہے کہ عیدین اور ایام تشریق میں بھی افطار نہ کرے۔ اس کی کراہیت اور حرمت میں تو کسی کا اختلاف نہیں۔ اگر ان دنوں میں کوئی افطار کرے اور باقی دنوں میں روزہ رکھا کرے بشرطیکہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کے حقوق میں کوئی خلل واقع نہ ہو تو ظاہر ہے کہ مکروہ نہ ہوگا۔ مگر ہر حال میں بہتر یہی ہے کہ صوم داؤد علیہ السلام رکھے یعنی ایک دن روزہ اور ایک دن افطار تفصیل مزید کے لیے فتح الباری کا مطالعہ کیا جائے۔

ایک روایت میں لا صام و لا فطر کے لفظ آئے ہیں کہ جس نے ہمیشہ روزہ رکھا گویا اس کو نہ روزے کا ثواب ملا نہ اس پر گناہ ہوا کیوں کہ اس طرح روزہ رکھنے سے اس کا نفس عادی ہو گیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : ایک دن روزہ اور ایک دن افطار کا بیان

حدیث نمبر : 1978
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن مغيرة، قال سمعت مجاهدا، عن عبد الله بن عمرو ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏صم من الشهر ثلاثة أيام‏"‏‏. ‏ قال أطيق أكثر من ذلك‏.‏ فما زال حتى قال ‏"‏صم يوما وأفطر يوما ‏"‏فقال ‏"‏اقرإ القرآن في شهر‏"‏‏. ‏ قال إني أطيق أكثر‏.‏ فما زال حتى قال في ثلاث‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے بیان کیا کہ میں نے مجاہد سے سنا او رانہوں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مہینہ میں صرف تین دن کے روزے رکھا کر۔ انہوں نے کہا کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے۔ اسی طرح وہ برابر کہتے رہے ( کہ مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے ) یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ بھی فرمایا کہ مہینہ میں ایک قرآن مجید ختم کیا کر۔ انہوں نے اس پر بھی کہا کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ اور برابر یہی کہتے رہے۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین دن میں ( ایک قرآن ختم کیا کر )

تشریح : امام مسلم کی روایت میں یوں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مہینے میں ایک ختم قرآن کا کیا کر۔ میں نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا بیس دن میں ختم کیا کر، میں نے کہا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا دس دن میں ختم کیا کر۔ میں نے کہا، مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا سات دن میں ختم کیا کر۔ اور اس سے زیادہ مت پڑھ۔ ( یعنی سات دن سے کم میں ختم نہ کر ) اسی لیے اکثر علماءنے سات دن سے کم میں قرآن کا ختم کرنا مکروہ رکھا ہے۔ قسطلانی نے کہا میں نے بیت المقدس میں ایک بوڑھے کو دیکھا جس کو ابوالطاہر کہتے تھے وہ رات میں قرآن کے آٹھ ختم کیا کرتے تھے وغیرہ وغیرہ۔ مترجم کہتا ہے یہ خلافت سنت ہے۔ عمدہ یہی ہے کہ قرآن مجید کو سمجھ سمجھ کر چالیس دن میں ختم کیا جائے انتہاءیہ ہے کہ تین دن میں ختم ہو۔ اس سے کم میں جو قرآن ختم کرے گا گویا اس نے گھاس کاٹی ہے الا ماشاءاللہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ

حدیث نمبر : 1979
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا حبيب بن أبي ثابت، قال سمعت أبا العباس المكي ـ وكان شاعرا وكان لا يتهم في حديثه ـ قال سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنهما ـ قال قال لي النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إنك لتصوم الدهر، وتقوم الليل‏"‏‏. ‏ فقلت نعم‏.‏ قال ‏"‏إنك إذا فعلت ذلك هجمت له العين ونفهت له النفس، لا صام من صام الدهر، صوم ثلاثة أيام صوم الدهر كله‏"‏‏. ‏ قلت فإني أطيق أكثر من ذلك‏.‏ قال ‏"‏فصم صوم داود عليه السلام كان يصوم يوما ويفطر يوما، ولا يفر إذا لاقى‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوعباس مکی سے سنا، وہ شاعر تھے لیکن روایت حدیث میں ان پر کسی قسم کا اتہام نہیں تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تو متواتر روزے رکھتا ہے اور رات بھر عبادت کرتا ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تو یونہی کرتا رہا تو آنکھیں دھنس جائیں گی، اور تو بے حد کمزور ہو جائے گا یہ کوئی روزہ نہیں کہ کوئی زندگی بھر ( بلاناغہ ہر روز ) روزہ رکھے۔ تین دن کا ( ہر مہینہ میں ) روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے۔ میں نے اس پر کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھا کر۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ چھوڑ دیتے تھے او رجب دشمن کا سامنا ہوتا تو پیٹھ نہیں دکھلایا کرتے تھے۔

تشریح : شاعر مبالغہ کے عادی ہوتے ہیں جو احتیاط ثقاہت کے منافی ہے، اس لیے ابوعباس مکی کے متعلق یہ توضیح کی گئی کہ وہ شاعر ہونے کے باوجود انتہائی ثقہ تھے اور ان کے متعلق کوئی اتہام نہ تھا، لہٰذا ان کی روایات سب قابل قبول ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و نقل الترمذی عن بعض اہل العلم انہ اشق الصیام و یامن مع ذلک غالبا من تفویت الحقوق کما تقدمت الاشارۃ الیہ فیما تقدم قریبا فی حق داود و لا یفر اذا لاقی لان من اسباب الفرار ضعف الجسد و لا شک ان سرد الصوم ینہکہ و علی ذلک یحمل قول ابن مسعود فیما رواہ سعید بن منصور باسناد صحیح عنہ ان قیل لہ انک لتقل الصیام فقال انی اخاف ان یضعفنی عن القراۃ و القراۃ احب الی من الصیام الخ یعنی ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض سے نقل کیا ہے کہ صیام داؤد علیہ السلام اگرچہ مشکل ترین روز ہ ہے مگر اس میں حقوق واجب کے فوت ہونے کا ڈر نہیں جیسا کہ پیچھے داؤد علیہ السلام کے متعلق اشارہ گزر چکا ہے ان کی شان یہ بتلائی گئی کہ اس قدر روزہ رکھنے کے باوجود وہ جہاد میں دشمن سے مقابلہ کے وقت بھاگتے نہیں تھے۔ یعنی اس قدر روزہ رکھنے کے باوجود ان کے جسم میں کوئی کمزروی نہ تھی حالانکہ اس طرح روزے رکھنا جسم کو کمزور کردیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کا بھی یہی مطلب ہے۔ ان سے کہا گیا تھا کہ آپ نفل روزہ کم رکھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں میں کثرت صوم سے اس قدر کمزور نہ ہو جاؤں کہ میری قرات کا سلسلہ رک جائے حالانکہ قرات میرے لیے روزہ سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ صوم داؤد علیہ السلام بہترین روزہ ہے۔ جو لوگ بکثرت روزہ رکھنے کے خواہش مند ہوں ان کے لیے ان ہی کی اتباع مناسب ہے۔

حدیث نمبر : 1980
حدثنا إسحاق الواسطي، حدثنا خالد، عن خالد، عن أبي قلابة، قال أخبرني أبو المليح، قال دخلت مع أبيك على عبد الله بن عمرو فحدثنا أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر له صومي فدخل على، فألقيت له وسادة من أدم، حشوها ليف، فجلس على الأرض، وصارت الوسادة بيني وبينه‏.‏ فقال ‏"‏أما يكفيك من كل شهر ثلاثة أيام‏"‏‏. ‏ قال قلت يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏خمسا‏"‏‏. ‏ قلت يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏سبعا‏"‏‏. ‏ قلت يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏تسعا‏"‏‏. ‏ قلت يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏إحدى عشرة‏"‏‏. ‏ ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا صوم فوق صوم داود ـ عليه السلام ـ شطر الدهر، صم يوما، وأفطر يوما‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے خالد حذاءنے اور ان سے ابوقلابہ نے کہ مجھے ابوملیح نے خبر دی، کہا کہ میں آپ کے والد کے ساتھ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے روزے کے متعلق خبر ہوگئی۔ ( کہ میں مسلسل روزے رکھتا ہوں ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اور میں نے ایک گدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بچھا دیا۔ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے۔ اور تکیہ میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تمہارے لیے ہر مہینہ میں تین دن کے روزے کافی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! ( کچھ اور بڑھا دیجئے ) آپ نے فرمایا، اچھا پانچ دن کے روزے ( رکھ لے ) میں نے عرض کی، یا رسول اللہ کچھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چلو چھ دن، میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ( کچھ اور بڑھائیے، مجھ میں اس سے بھی زیادہ کی طاقت ہے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! اچھا نو دن، میں نے عرض کی، یا رسول اللہ ! کچھ اور فرمایا، اچھا گیارہ دن۔ آخر آپ نے فرمایا کہ داؤد علیہ السلام کے روزے کے طریقے کے سوا اورکوئی طریقہ ( شریعت میں ) جائز نہیں۔ یعنی زندگی کے آدھے دنوں میں ایک دن کا روزہ رکھ او رایک دن کا روزہ چھوڑ دیا کر۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : ایام بیض کے روزے یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخوں کے روزے رکھنا

حدیث نمبر : 1981
حدثنا أبو معمر، حدثنا عبد الوارث، حدثنا أبو التياح، قال حدثني أبو عثمان، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال أوصاني خليلي صلى الله عليه وسلم بثلاث صيام ثلاثة أيام من كل شهر، وركعتى الضحى، وأن أوتر قبل أن أنام‏.‏
ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے ابوالتیاح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوعثمان نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہر مہینے کی تین تاریخوں میں روزہ رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ اسی طرح چاشت کی دو رکعتوں کی بھی وصیت فرمائی تھی اور اس کی بھی کہ سونے سے پہلے ہی میں وتر پڑھ لیا کروں۔

تشریح : یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حدیث ترجمہ باب کے موافق نہیں ہے کیوں کہ حدیث میں ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کا ذکر ہے۔ ایام بیض کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ اور اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی عادت کے موافق اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر دیا جسے امام احمد اور نسائی اور ابن حبان نے موسیٰ بن طلحہ سے نکالا۔ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔ اس میں یوں ہے کہ آپ نے ایک اعرابی سے فرمایا جو بھنا ہوا خرگوش لایا تھا۔ تو بھی کھا۔ اس نے کہا میں ہر مہینے تین دن روزے رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا اگر تو یہ روزے رکھتا ہے تو سفید دنوں میں یعنی ایام بیض میں رکھا کر۔ نسائی کی ایک روایت میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے یوں ہے ہر دس دن میں ایک روزہ رکھا کر اور ترمذی نے نکالا کہ آپ ہفتہ اور اتوار اور پیر کو روزہ رکھا کرتے اور ایک روایت میں منگل، بدھ، جمعرات کا ذکر ہے غرض آپ کا نفلی روزہ ہمیشہ کے لیے کسی خاص دن میں معین نہ تھا۔ مگر ایام بیض کے روزے مسنون ہیں۔
 
Top