• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب لیلۃ القدر

صحیح بخاری -> کتاب لیلۃ القدر
باب : شب قدر کی فضیلت

وقول الله تعالى ‏{‏إنا أنزلناه في ليلة القدر * وما أدراك ما ليلة القدر * ليلة القدر خير من ألف شهر * تنزل الملائكة والروح فيها بإذن ربهم من كل أمر * سلام هي حتى مطلع الفجر‏}‏‏.‏ قال ابن عيينة ما كان في القرآن ‏{‏ما أدراك‏}‏ فقد أعلمه، وما قال ‏{‏وما يدريك‏}‏ فإنه لم يعلمه‏.‏
اور ( سورۃ قدر میں ) اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ہم نے اس ( قرآن مجید ) کو شب قدر میں اتارا۔ اور تو نے کیا سمجھا کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس میں فرشتے، روح القدس ( جبریل علیہ السلام ) کے ساتھ اپنے رب کے حکم سے ہر بات کا انتظام کرنے کو اترتے ہیں۔ اور صبح تک یہ سلامتی کی رات قائم رہتی ہے۔ سفیان بن عیینہ نے کہا کہ قرآن میں جس موقعہ کے لیے ” ماادرٰک “ آیا ہے تو اسے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا ہے اور جس کے لیے ” ما یدریک “ فرمایا اسے نہیں بتایا ہے۔

حدیث نمبر : 2014
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال حفظناه وإنما حفظ من الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه‏"‏‏. ‏ تابعه سليمان بن كثير عن الزهري‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے اس روایت کو یاد کیاتھا او ریہ روایت انہوں نے زہری سے ( سن کر ) یاد کی تھی۔ ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص رمضان کے روزے ایمان اور احتساب ( حصول اجر و ثواب کی نیت ) کے ساتھ رکھے، اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ او رجو لیلۃ القدر میں ایمان و احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے بھی اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، سفیان کے ساتھ سلیمان بن کثیر نے بھی اس حدیث کو زہری سے روایت کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب لیلۃ القدر

باب : شب قدر کو رمضان کی آخری طاق راتوں میں تلاش کرنا

حدیث نمبر : 2015
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رجالا، من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم أروا ليلة القدر في المنام في السبع الأواخر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏أرى رؤياكم قد تواطأت في السبع الأواخر، فمن كان متحريها فليتحرها في السبع الأواخر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبردی، انہیں نافع نے، او رانہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو شب قدر خواب میں ( رمضان کی ) سات آخری تاریخوں میں دکھائی گئی تھی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے سب کے خواب سات آخری تاریخوں پر متفق ہو گئے ہیں۔ اس لیے جسے اس کی تلاش ہو وہ اسی ہفتہ کی آخری ( طاق ) راتوں میں تلاش کرے۔

آخری عشرہ کی طاق راتیں 21-23-25-27-29 مراد ہیں۔
تشریح : اس حدیث کے تحت حافظ صاحب فرماتے ہیں۔ و فی ہذا الحدیث دلالۃ علی عظم قدر الرویاءوجواز الاستناد الیہا فی الاستدلال علی الامور الوجودیۃ بشرط ان لا یخالف القواعد الشرعیۃ ( فتح ) یعنی اس حدیث سے خوابوں کی قدر و منزلت ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی کہ ان میں امور وجودیہ کے لیے استناد کے جواز کی دلیل ہے بشرطیکہ وہ شرعی قواعد کے خلاف نہ ہو، فی الواقع مطابق حدیث دیگر مومن کا خواب نبوت کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ قرآن مجید کی آیت شریفہ الا ان اولیاءللہ الخ میں بشریٰ سے مراد نیک خواب بھی ہیں، جو وہ خود دیکھے یا اس کے لیے دوسرے لوگ دیکھیں۔

حدیث نمبر : 2016
حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، قال سألت أبا سعيد وكان لي صديقا فقال اعتكفنا مع النبي صلى الله عليه وسلم العشر الأوسط من رمضان، فخرج صبيحة عشرين، فخطبنا وقال ‏"‏إني أريت ليلة القدر، ثم أنسيتها أو نسيتها، فالتمسوها في العشر الأواخر في الوتر، وإني رأيت أني أسجد في ماء وطين، فمن كان اعتكف مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فليرجع‏"‏‏. ‏ فرجعنا وما نرى في السماء قزعة، فجاءت سحابة فمطرت حتى سال سقف المسجد وكان من جريد النخل، وأقيمت الصلاة، فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسجد في الماء والطين، حتى رأيت أثر الطين في جبهته‏.‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے پوچھا، وہ میرے دوست تھے، انہوں نے جواب دیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھے۔ پھر بیس تاریخ کی صبح کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف سے نکلے اور ہمیں خطبہ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی، لیکن بھلا دلی گئی یا ( آپ نے یہ فرمایا کہ ) میں خود بھول گیا۔ اس لیے تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے ( خواب میں ) کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ پھر لوٹ آئے اور اعتکاف میں بیٹھے۔ خیر ہم نے پھر اعتکاف کیا۔ اس وقت آسمان پر بادلوں کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل آیا اور بارش اتنی ہوئی کہ مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا جو کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کی تکبیر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیچڑ میں سجدہ کرر ہے تھے۔ یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر دیکھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب لیلۃ القدر
باب : شب قدر کا رمضان کی آخری دس طاق راتوں میں تلاش کرنا۔ اس باب میں عبادہ بن صامت سے روایت ہے۔

تشریح : لیلۃ القدر کا وجود، اس کے فضائل اور اس کا رمضان شریف میں واقع ہونا یہ چیزیں نصوص قرآنی سے ثابت ہیں، جیسا کہ سورۃ قدر میں مذکور ہے۔ اور اس بارے میں احادیث صحیحہ بھی بکثرت وارد ہیں۔ پھر بھی آج کل کے بعض منکرین حدیث نے لیلۃ القدر کا انکار کیا ہے جن کا قول ہرگز توجہ کے قابل نہیں ہے۔

علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں واختلف فی المراد الذی اضیفت الیہ اللیلۃ فقیل المراد بہ التعظیم کقولہ تعالیٰ و ما قدروا اللہ حق قدرہ و المعنی انہا ذات قدر لنزول القرآن فیہا یعنی یہاں قدر سے کیا مراد ہے، اس بارے میں اختلاف ہے، پس کہا گیا ہے کہ قدر سے تعظیم مراد ہے جیسا کہ آیت قرآنی میں ہے یعنی ان کافروں نے پورے طور پر اللہ کی عظمت کو نہیں پہچانا۔ آیت شریفہ میں جس طرح قدر سے تعظیم مراد ہے۔ یہاں بھی اس رات کے لیے تعظیم مراد ہے۔ اس لیے کہ یہ رات وہ ہے جس میں قرآن کریم کا نزول شروع ہوا۔ قال العلماءسمیت لیلۃ القدر لما تکتب فیہا الملئکۃ من الاقدار لقولہ تعالیٰ فیہا یفرق کل امر حکیم ( فتح ) یعنی علماءکا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس کا نام لیلۃ القدر اس لیے رکھا گیا کہ اس میں اللہ کے حکم سے فرشتے آنے والے سال کی کل تقدیریں لکھتے ہیں۔ جیسا کہ آیت قرآنی میں مذکور کہ اس میں ہر محکم امر لکھا جاتا ہے۔

اس رات کے بارے میں علماءکے بہت سے اقوال ہیں جن کو حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔ جنہیں46 اقوال کی تعداد تک پہنچا دیا ہے۔ آخر میں آپ نے اپنا فاضلانہ فیصلہ ان لفظوں میں دیا ہے۔ وارجحہا کلہا انہا فی و ترمن العشر الاخیر و انہا تنتقل کما یفہم من احادیث ہذا الباب یعنی ان سب میں ترجیح اس قول کو حاصل ہے کہ یہ مبارک رات رمضان شریف کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ اور یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے جیسا کہ اس باب کی احادیث سے سمجھا جاتا ہے۔ شافعیہ نے اکیسویں رات کو ترجیح دی ہے اور جمہو رنے ستائیسویں رات کو مگر صحیح تر یہی ہے کہ اسے ہر سال کے لیے کسی خاص تاریخ کے ساتھ متعین نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ ہر سال منتقل ہوتی رہتی ہے اور یہ ایک پوشیدہ رات ہے۔ قال العلماءالحکمۃ فی اخفاءالقدر لیحصل الاجتہاد فی التماسہا بخلاف ما لوعینت لہا لیلۃ لاقتصر علیہا کما تقدم نحوہ فی ساعۃ الجمعۃ یعنی علماءنے کہا کہ اس رات کے مخفی ہونے میں یہ حکمت ہے تاکہ اس کی تلاش کے لیے کوشش کی جائے۔ اگر اسے معین کر دیا جاتا تو پھر اس رات پر اقتصار کر لیا جاتا۔ جیسا کہ جمعہ کی گھڑی کی تفصیل میں پیچھے مفصل بیان کیا جا چکا ہے۔ مترجم کہتا ہے کہ اس سے ان لوگوں کے خیال کی بھی تغلیط ہوتی ہے جو اسے ہر سال اکیسویں یا ستائیسویں شب کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔

مختلف آثار میں اس رات کی کچھ نشانیاں بھی بتلائی گئی ہیں، جن کو علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے مفصل لکھا ہے۔ مگر وہ آثار بطور امکان ہیں۔ بطور شرط کے نہیں، جیسا کہ بعض روایات میں اس کی ایک علامت بارش کاہونا بھی بتلایا گیا ہے۔ مگر کتنے ہی رمضان ایسے گزر جاتے ہیں کہ ان میں بارش نہیں ہوتی، حالانکہ ان میں لیلۃ القدر کا ہونا برحق ہے۔ پس بہت دفعہ ایسا ہونا ممکن ہے کہ ایک شخص نے عشرہ آخر کی طاق راتوں میں قیام کیا اور اسے لیلۃ القدر حاصل بھی ہو گئی، مگر اس نے اس رات میں کوئی امر بطور خوارق عادت نہیں دیکھا۔ اس لیے حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں فلا نعتقد ان لیلۃ القدر لا ینالہا الا من رای الخوارق بل فضل اللہ واسع یعنی ہم یہ اعتقاد نہیں رکھتے کہ لیلۃ القدر کو وہی پہنچ سکتا ہے جو کوئی امر خارق عادت دیکھے، ایسا نہیں ہے بلکہ اللہ کا فضل بہت فراخ ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تھا، حضور ! میں لیلۃ القدر میں کیا دعا پڑھو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتلایا کہ یہ دعا بکثرت پڑھا کرو اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی ) یا اللہ ! تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے پس تو میری خطائیں معاف کردے۔

امید ہے کہ لیلۃ القدر کی شب بیداری کرنے میں بخاری شریف کا مطالعہ فرمانے والے معزز بھائی مترجم و معاونین سب کو اپنی پاکیزوں دعاؤں میں شامل کر لیا کریں۔
شنیدم کہ در روز امید و بیم بداں رابہ نیکاں بہ بخشد کریم
آمین
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبید اللہ صاحب مدظلہ فرماتے ہیں :
ثم الجمہور علی انہا مختصۃ بہذہ الامۃ و لم تکن لمن قبلہم قال الحافظ و جزم بہ ابن حبیب وغیرہ من المالکیۃ کالباجی و ابن عبدالبر و نقلہ عن الجمہور صاحب العدۃ من الشافعیۃ و رجحہ و قال النووی انہ الصحیح المشہور الذی قطع بہ اصحابنا کلہم و جماہیر العلماءقال الحافظ وہو معترض بحدیث ابی ذر عند النسائی حیث قال فیہ قلت یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتکون مع الانبیاءفاذا ماتوا رفعت قال لا بل ہی باقیۃ و عمدتہم قول مالک فی الموطا بلغنی ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقاصر اعمار امتہ عن اعمار الامم الماضیۃ فاعطاہ اللہ لیلۃ القدر و ہذا یحتمل التاویل بل یدفع الصریح فی حدیث ابی ذر انتہی۔ قلت حدیث ابی ذر ذکرہ ابن قدامہ 179/3 من غیر ان یعزوہ لاحد بلفظ قلت یا نبی اللہ اتکون مع الانبیاءما کانوا فاذا قبضت الانبیاءو رفعوا رفعت معہم او ہی الی یوم القیامۃ قال بل ہی الی یوم القیامۃ و اما اثر الموطا فقال مالک فیہ انہ سمع من یثق بہ من اہل العلم یقول ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اری اعمار الناس قبلہ او ماشاءاللہ من ذلک فکانہ تقاصر اعمار امتہ ان لا یبلغوا من العمل مثل الذی بلغ غیرہم فی طول العمر فاعطاہ اللہ لیلۃ القدر خیر من الف شہر.... قلت و اثر الموطا المذکور یدل علی ان اعطاءلیلۃ القدر کان تسلیۃ لہذہ الامۃ القصیرہ الاعمار و یشہد لذلک روایۃ اخری مرسلۃ ذکرہا العینی فی العمدۃ ( ص : 129، ص : 130 ج11 )
جمہور کا قول یہی ہے کہ یہ بات اسی امت کے ساتھ خاص ہے اور پہلی امتوں کے لیے یہ نہیں تھی۔ حافظ نے کہا اسی عقیدہ پر ابن حبیب اور باجی اور ابن عبدالبر علماءمالکیہ نے جزم کیا ہے۔ اور شافعیہ میں سے صاحب العدہ نے بھی اسے جمہور سے نقل کیا ہے۔ حافظ نے کہا کہ یہ حدیث ابوذر رضی اللہ عنہ کے خلاف ہے جسے نسائی نے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہے میں نے کہا یا رسول اللہ یہ رات پہلے انبیا کے ساتھ بھی ہوا کرتی تھی کہ جب وہ انتقال کرجاتے تو وہ رات اٹھا دی جاتی۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، بلکہ وہ رات باقی ہے اور بہترین قول امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جو انہوں نے موطا میں نقل کیا ہے کہ مجھے پہنچا ہے کہ رسو ل اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کی عمریں کم ہونے کا احساس ہوا جب کہ پہلی امتوں کی عمریں بہت طویل ہوا کرتی تھیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو تسلی دینا مقصود تھا جن کی عمریں بہت چھوٹی ہیں اور یہ رات ایک ہزار مہینے سے بہتر ان کو دی گئی۔ ( ملخص )

سورۃ شریفہ انا انزلناہ فی الیلۃ القدر کے شان نزول میں واحدی نے اپنی سند کے ساتھ مجاہد سے نقل کیا ہے کہ ذکر النبی صلی اللہ علیہ وسلم رجلا من بنی اسرائیل لبس السلاح فی سبیل اللہ الف شہر فعجب المسلمون من ذلک فانزل اللہ تعالیٰ عزوجل انا انزلناہ الخ قال خیر من الذی لبس السلاح فیہا ذلک الرجل انتہی۔ و ذکر المفسرون انہ کان فی الزمن الاول نبی یقال لہ شمسون علیہ السلام قاتل الکفرۃ فی دین اللہ الف شہر و لم ینزع الثیاب و السلاح فقالت الصحابۃ یا لیت لنا عمراً طویلا حتی نقاتل مثلہ فنزلت ہذہ الایۃ و اخبر صلی اللہ علیہ وسلم ان لیلۃ القدر خیر من الف شہر الذی لبس السلاح فیہا شمسون فی سبیل اللہ الی آخرہ ذکر العینی یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل میں سے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہنے تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا تھا۔ اس کو سن کر مسلمانوں کو بے حد تعجب ہوا، اس پر یہ سورۃ شریفہ نازل ہوئی۔ مفسرین نے کہا ہے کہ پہلے زمانے میں ایک شمسون نامی نبی تھے۔ جو ایک ہزار ماہ تک اللہ کے دین کے لیے جہاد فرماتے رہے اور اس تمام مدت میں انہوں نے اپنے ہتھیار جسم سے نہیں اتارے، یہ سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اس طویل عمر کے لیے تمنا ظاہر کی تاکہ وہ بھی اس طرح خدمت اسلام کریں۔ اس پر یہ سورۃ نازل ہوئی، اور بتلایا گیا کہ تم کو صرف ایک رات ایسی دی گئی ہے جو عبادت کے لیے ایک ہزار سے بہتر و افضل ہے۔


حدیث نمبر : 2017
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا إسماعيل بن جعفر، حدثنا أبو سهيل، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏تحروا ليلة القدر في الوتر من العشر الأواخر من رمضان‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوسہیل نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ مالک بن عامر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کورمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں ڈھونڈو۔

حدیث نمبر : 2018
حدثنا إبراهيم بن حمزة، قال حدثني ابن أبي حازم، والدراوردي، عن يزيد، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ‏.‏ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاور في رمضان العشر التي في وسط الشهر، فإذا كان حين يمسي من عشرين ليلة تمضي، ويستقبل إحدى وعشرين، رجع إلى مسكنه ورجع من كان يجاور معه‏.‏ وأنه أقام في شهر جاور فيه الليلة التي كان يرجع فيها، فخطب الناس، فأمرهم ما شاء الله، ثم قال ‏"‏كنت أجاور هذه العشر، ثم قد بدا لي أن أجاور هذه العشر الأواخر، فمن كان اعتكف معي فليثبت في معتكفه، وقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها فابتغوها في العشر الأواخر وابتغوها في كل وتر، وقد رأيتني أسجد في ماء وطين‏"‏‏. ‏ فاستهلت السماء في تلك الليلة، فأمطرت، فوكف المسجد في مصلى النبي صلى الله عليه وسلم ليلة إحدى وعشرين، فبصرت عيني رسول الله صلى الله عليه وسلم ونظرت إليه انصرف من الصبح، ووجهه ممتلئ طينا وماء‏.‏
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبدالعزیز بن ابی حازم اور عبدالعزیز دراوردی نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہاد نے، ان سے محمد بن ابراہیم نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے اس عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے جو مہینے کے بیج میں پڑتا ہے۔ بیس راتوں کے گزر جانے کے بعد جب اکیسویں تاریخ کی رات آتی تو شام کو آپ گھر واپس آجاتے۔ جو لوگ آپ کے ساتھ اعتکاف میں ہوتے وہ بھی اپنے گھروں میں واپس آجاتے۔ ایک رمضان میں آپ جب اعتکاف کئے ہوئے تھے تو اس رات میں بھی ( مسجد ہی میں ) مقیم رہے جس میں آپ کی عادت گھر آجانے کی تھی، پھر آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا اور جو کچھ اللہ پاک نے چاہا، آپ نے لوگوں کو اس کا حکم دیا، پھر فرمایا کہ میں اس ( دوسرے ) عشرہ میں اعتکاف کیا کرتا تھا، لیکن اب مجھ پر یہ ظاہرا ہوا کہ اب اس آخری عشرہ میں مجھے اعتکاف کرنا چاہئے۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ اپنے معتکف ہی میں ٹھہرا رہے او رمجھے یہ رات ( شب قدر ) دکھائی گئی لیکن پھر بھلوادی گئی۔ اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ ( کی طاق راتوں ) میں تلاش کرو۔ میں نے ( خواب میں ) اپنے کو دیکھا کہ اس رات کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر اس رات آسمان پر ابر ہوا اور بارش برسی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ ( چھت سے ) پانی ٹپکنے لگا۔ یہ اکیسویں کی رات کا ذکر ہے۔ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے بعد واپس ہو رہے تھے۔ اور آپ کے چہرہ مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔

حدیث نمبر : 2019
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن هشام، قال أخبرني أبي، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏التمسوا‏"‏‏.
مجھ سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( شب قدر کو ) تلاش کرو۔

جس کی صورت یہ کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں جاگو اور عبادت کرو۔

حدیث نمبر : 2020
حدثني محمد، أخبرنا عبدة، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجاور في العشر الأواخر من رمضان، ويقول ‏"‏تحروا ليلة القدر في العشر الأواخر من رمضان‏"‏‏. ‏
مجھ سے محمد بن سلام نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا ہمیں عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد ( عروہ بن زبیر ) نے او رانہیں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے اور فرماتے کہ رمضان کے آخری عشرہ میں شب قدر کو تلاش کرو۔

حدیث نمبر : 2021
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا أيوب، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏التمسوها في العشر الأواخر من رمضان ليلة القدر في تاسعة تبقى، في سابعة تبقى، في خامسة تبقى‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو، جب نو راتیں باقی رہ جائیں یا پانچ راتیں باقی رہ جائیں۔ ( یعنی ۱۲ یا ۳۲ یا ۵۲ ویں راتوں میں شب قدر کو تلاش کرو )

حدیث نمبر : 2022
حدثنا عبد الله بن أبي الأسود، حدثنا عبد الواحد، حدثنا عاصم، عن أبي مجلز، وعكرمة، قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏هي في العشر، هي في تسع يمضين أو في سبع يبقين‏"‏‏. ‏ يعني ليلة القدر‏.‏ قال عبد الوهاب عن أيوب‏.‏ وعن خالد عن عكرمة عن ابن عباس التمسوا في أربع وعشرين‏.‏
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ابومجلز اور عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شب قدر رمضان کے ( آخری ) عشرہ میں پڑتی ہے۔ جب نور اتیں گزر جائیں یا سات باقی رہ جائیں۔ آپ کی مراد شب قدر سے تھی۔عبدالوہاب نے ایوب اور خالد سے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ شب قدر کو چوبیس تاریخ ( کی رات ) میں تلاش کرو۔

تشریح : اس حدیث پر قسطلانی وغیرہ کی مختصر تشریح یہ ہے : فی اربع و عشرین من رمضان وہی لیلۃ انزال القرآن و استشکل ایراد ہذا الحدیث ہنا لان الترجمۃ لاوتار و ہذا شفع واجیب بان المراد التمسوہا فی تمام اربعۃ و عشرین وہی لیلۃ الخامس و العشرین علی ان البخاری رحمہ اللہ کثیرا ما یذکر ترجمۃ و یسوق فیہا ما یکون بینہ و بین الترجمۃ ادنی ملابسۃ الخ یعنی رمضان شریف کی چوبیسویں رات جس میں قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ اور یہاں اس حدیث کو لانے سے یہ مشکل پیدا ہوئی کہ ترجمۃ الباب طاق راتوں کے لیے ہے اور یہ چوبیسویں رات طاق نہیں بلکہ شفع ہے اور اس مشکل کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ مراد یہ ہے چوبیسویں تاریخ رمضان کو پورا کرکے آنے والی رات لیلۃ القدر کو تلاش کر اور وہ پچیسویں رات ہوتی ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ عادت شریفہ ہے کہ وہ اکثر اپنے تراجم کے تحت ایسی احادیث لے آتے ہیں جن میں کسی نہ کسی طرح باب سے ادنی سے ادنی مناسبت بھی نکل سکتی ہے۔

مترجم کہتا ہے کہ یہاں بھی حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے باب میں فی الوتر من العشر کا اشارہ اسی جانب فرمایا کہ اگرچہ روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما میں چوبیسویں تاریخ کا ذکر ہے مگر اس سے مراد یہی ہے کہ اسے پورا کرکے پچیسویں شب میں جو وتر ہے شب قدر کو اسی میںتلاش کرو۔ واللہ اعلم بالصواب۔

حدیث نمبر : 2023
حدثنا محمد بن المثنى: حدثنا خالد بن الحارث: حدثنا حميد: حدثنا أنس، عن عبادة بن الصامت قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم ليخبرنا بليلة القدر، فتلاحى رجلان من المسلمين، فقال: (خرجت لأخبركم بليلة القدر، فتلاحى فلان وفلان فرفعت، وعسى أن يكون خيرا لكم، فالتمسوها في التاسعة والسابعة والخامسة).‏
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، ان سے خالد بن حارث نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں شب قدر کی خبر دینے کے لیے تشریف لا رہے تھے کہ دو مسلمان آپس میں جھگڑا کرنے لگے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آیاتھا کہ تمہیں شب قدر بتادوں لیکن فلاں فلاں نے آپس میں جھگڑا کر لیا۔ پس اس کا علم اٹھا لیا گیا اور امید یہی ہے کہ تمہارے حق میں یہی بہتر ہوگا۔ اب تم اس کی تلاش ( آخری عشرہ کی ) نو یا سات یا پانچ ( کی راتوں ) میں کیا کرو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب لیلۃ القدر
باب : رمضان کے آخری عشر میں زیادہ محنت کرنا

حدیث نمبر : 2024
حدثنا علي بن عبد الله: حدثنا سفيان، عن أبي يعفور، عن أبي الضحى، عن مسروق، عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا دخل العشر شد مئزره، وأحيا ليله، وأيقظ أهله.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابویعفور نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ( رمضان کا ) آخری عشرہ آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تہبند مضبوط باندھتے ( یعنی اپنی کمر پوری طرح کس لیتے ) اور ان راتوں میں آپ خود بھی جاگتے اور اپنے گھر والوں کو بھی جگایا کرتے تھے۔

تشریح : کمر کس لینے کا مطلب یہ کہ آپ اس عشرہ میں عبادت الٰہی کے لیے خاص محنت کرتے، خود جاگتے گھر والوں کو جگاتے اور رات بھر عبادت الٰہی میں مشغول رہتے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ سارا عمل تعلیم امت کے لیے تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ( الاحزاب : 21 ) اے ایمان والو ! اللہ کے رسول تمہارے لیے بہترین نمونہ ہیں ان کی اقتداءکرنا تمہاری سعادت مندی ہے۔ یوں تو ہمیشہ ہی عبادت الٰہی کرنا بڑا کار ثواب ہے لیکن رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت الٰہی کرنا بہت ہی بڑا کار ثواب ہے۔ لہٰذا ان ایام میں جس قدر بھی عبادت ہو سکے غنیمت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الاعتکاف


صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا او ر اعتکاف ہر ایک مسجد میں درست ہے۔

لقوله تعالى ‏{‏ولا تباشروهن وأنتم عاكفون في المساجد تلك حدود الله فلا تقربوها كذلك يبين الله آياته للناس لعلهم يتقون ‏}‏‏.‏
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ” جب تم مساجد میں اعتکاف کئے ہوئے ہو تو اپنی بیویوں سے ہم بستری نہ کرو، یہ اللہ کے حدود ہیں، اس لیے انہیں ( توڑنے کے ) قریب بھی نہ جاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے احکامات لوگوں کے لیے اسی طرح بیان فرماتا ہے تاکہ وہ ( گناہ سے ) بچ سکیں۔

تشریح : حافظ فرماتے ہیں الاعتکاف لغۃ لزوم الشئی و حبس النفس علیہ و شرعا المقام فی المسجد من شخص مخصوص علی صفۃ مخصوصۃ و لیس بواجب اجماعاً الا علی من نذرہ و کذا من شرع فیہ فقطعہ عامدا عند قوم و اختلف فی اشتراط الصوم لہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اعتکاف کے لغوی معنی کسی چیز کو اپنے لیے لازم کر لینا اور اپنے نفس کو اس پر مقید کرلینا اور یہ اعتکاف اجماعی طور پر واجب نہیں ہے ہاں کوئی اگر نذر مانے یا کوئی شروع کرے مگر درمیان میں قصداً چھوڑ دے تو ان پر ادائیگی واجب ہے۔ اور روزہ کی شرط کے بارے میں اختلاف ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔

اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا شرط ہے جو آیت قرآنی و انتم عاکفون فی المسٰجد ( البقرۃ : 187 ) سے ثابت ہے۔ و اجاز الحنفیۃ للمراۃ ان تعتکف فی مسجد بیتہا و ہوا المکان المعد للصلوۃ فیہ ( فتح ) یعنی حنفیہ نے عورتوں کے لیے اعتکاف جائز رکھا ہے اس صورت میں کہ وہ اپنے گھروں کی ان جگہوں میں اعتکاف کریں جو جگہیں نماز کے لیے مخصوص کی ہوتی ہیں۔ امام زہری اور سلف کی ایک جماعت نے اعتکاف کو جامع مسجد کے ساتھ خاص کیا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تقریباً ایسا ہی اشارہ ہے۔ اور یہ مناسب بھی ہے تاکہ معتکف بآسانی ادائیگی جمعہ کرسکے۔ رمضان شریف کے پورے آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھنامسنون ہے یوں ایک دن ایک رات یا اور بھی کوئی کم مدت کے لیے بیٹھنے کی نیت کرے تو اسے بھی بقدر عمل ثواب ملے گا۔

سنن ابو داؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ السنۃ علی المعتکف ان لا یعود مریضاً و لا یشہد جنازۃ و لا یمس امراۃ ولا یباشرہا و لا یخرج لحاجۃ الا لما لا بدمنہ یعنی معتکف کے لیے سنت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت کے لیے نہ جائے اور نہ کسی جنازہ پر حاضر ہو اور نہ اپنی عورت کو چھوئے، نہ اس سے مباشرت کرے اور کسی حاجت کے لیے اپنی جگہ سے باہر نہ نکلے مگر جس کے لیے نکلنا بے حد ضروری ہے جیسا کہ کھانا، پینا یا قضائے حاجات کے لیے جانا۔ اگر معتکف ایسے کاموں کے لیے نکلا اور مسجد سے خارج ہی وضوءکرکے واپس آگیا تو اس کے اعتکاف میں کوئی خلل نہ ہوگا۔ باقی امور جائز و ناجائز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ابواب متفرقہ میں ذکر فرما دیئے ہیں۔ المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کو مختار قرار دیا ہے۔ ( تحفۃ الاحوذی جلد : 2ص72 )

حدیث نمبر : 2025
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني ابن وهب، عن يونس، أن نافعا، أخبره عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من رمضان‏.‏
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یونس نے، انہیں نافع نے خبر دی، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 2026
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الأواخر من رمضان حتى توفاه الله، ثم اعتكف أزواجه من بعده‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے او ران سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔

حدیث نمبر : 2027
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن يزيد بن عبد الله بن الهاد، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعتكف في العشر الأوسط من رمضان، فاعتكف عاما حتى إذا كان ليلة إحدى وعشرين، وهي الليلة التي يخرج من صبيحتها من اعتكافه قال ‏"‏من كان اعتكف معي فليعتكف العشر الأواخر، وقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها، وقد رأيتني أسجد في ماء وطين من صبيحتها، فالتمسوها في العشر الأواخر، والتمسوها في كل وتر‏"‏‏. ‏ فمطرت السماء تلك الليلة، وكان المسجد على عريش فوكف المسجد، فبصرت عيناى رسول الله صلى الله عليه وسلم على جبهته أثر الماء والطين، من صبح إحدى وعشرين‏.‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی دنوں میں اعتکاف کیا اور جب اکیسویں تاریخ کی رات آئی۔ یہ وہ رات ہے جس کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف سے باہر آجاتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ اب آخری عشرے میں بھی اعتکاف کرے۔ مجھے یہ رات ( خواب میں ) دکھائی گئی، لیکن پھر بھلا دی گئی۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اسی کی صبح کو میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں، اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ کی طاق رات میں تلاش کرو، چنانچہ اسی رات بارش ہوئی، مسجد کی چھت چوں کہ کھجور کی شاخ سے بنی تھی اس لیے ٹپکنے لگی اور خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اکیسویں کی صبح کو رسول اللہ صلی الل علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : اگر حیض والی عورت اس مرد کے سر میں کنگھی کرے جو اعتکاف میں ہو

حدیث نمبر : 2028
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن هشام، قال أخبرني أبي، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يصغي إلى رأسه وهو مجاور في المسجد، فأرجله وأنا حائض‏.‏
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف ہوتے اور سر مبارک میری طرف جھکا دیتے پھر میں اس میں کنگھا کردیتی، حالانکہ میں اس وقت حیض سے ہوا کرتی تھی۔ ( باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : اعتکاف والا بے ضرورت گھر میں نہ جائے

حدیث نمبر : 2029
حدثنا قتيبة، حدثنا ليث، عن ابن شهاب، عن عروة، وعمرة بنت عبد الرحمن، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت وإن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليدخل على رأسه وهو في المسجد فأرجله، وكان لا يدخل البيت إلا لحاجة، إذا كان معتكفا
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ اور عمرہ بنت عبدالرحمن نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہر رضی اللہ عنہا نے بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے ( اعتکاف کی حالت میں ) سر مبارک میری طرف حجرہ کے اندر کر دیتے، اور میں اس میں کنگھا کردیتی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب معتکف ہوتے تو بلا حاجت گھر میں تشریف نہیں لاتے تھے۔

تشریح : علامہ عبدالرحمن مبارکپوری مرحوم فرماتے ہیں فسرہا الزہری بالبول و الغائط و قد اتفقوا علی استثناءہما ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی امام زہری نے حاجات کی تفسیر پیشاب اور پاخانہ سے کی ہے۔ اور اس پر لوگوں کا اتفاق ہے کہ ان حاجات کے لیے گھر جانا مستثنیٰ ہے اور معتکف ان حاجات کو رفع کرنے کے لیے جاسکتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : اعتکاف کرنے والا سر یا بدن دھو سکتا ہے

حدیث نمبر : 2030
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يباشرني وأنا حائض‏.‏
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں حائضہ ہوتی پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنے بدن سے لگا لیتے۔

حدیث نمبر : 2031
وكان يخرج رأسه من المسجد وهو معتكف فأغسله وأنا حائض‏.
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم معتکف ہوتے اور میں حائضہ ہوتی۔ اس کے باوجود آپ سر مبارک ( مسجد سے ) باہر کردیتے اور میں اسے دھوتی تھی۔

مقام اعتکاف میں بوقت ضرورت معتکف کے لیے سر یا بدن کا دھونا جائز ہے۔ اس حدیث سے حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ مسئلہ ثابت فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : صرف رات بھر کے لیے اعتکاف کرنا

حدیث نمبر : 2032
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبيد الله، أخبرني نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن عمر، سأل النبي صلى الله عليه وسلم قال كنت نذرت في الجاهلية أن أعتكف ليلة في المسجد الحرام، قال ‏"‏فأوف بنذرك‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ عمری نے، انہیں نافع نے خبر دی اور انہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، میں نے جاہلیت میں یہ نذر مانی تھی کہ مسجد حرام میں ایک رات کا اعتکاف کروں گا۔ آپ نے فرمایا کہ اپنی نذر پوری کر۔

نذر نیاز جوخالصاً للہ ہو اور امر جائز کے لیے جائز طور پر مانی گئی ہواور اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ اعتکاف بھی ایسے امور میں داخل ہے اگر کوئی غلط نذر مانے جیسا کہ ایک شخص نے پیدل چل کر حج کرنے کی نذ رمانی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باطل قرار دیا۔ اس طرح دیگر غلط نذر منت بھی توڑی جانی ضروری ہے۔ غیر اللہ کے لیے کوئی نذر منت ماننا شرک میں داخل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : عورتوں کا اعتکاف کرنا

حدیث نمبر : 2033
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا يحيى، عن عمرة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يعتكف في العشر الأواخر من رمضان، فكنت أضرب له خباء فيصلي الصبح ثم يدخله، فاستأذنت حفصة عائشة أن تضرب خباء فأذنت لها، فضربت خباء، فلما رأته زينب ابنة جحش ضربت خباء آخر، فلما أصبح النبي صلى الله عليه وسلم رأى الأخبية فقال ‏"‏ما هذا‏"‏‏. ‏ فأخبر فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏آلبر ترون بهن‏"‏‏. ‏ فترك الاعتكاف ذلك الشهر، ثم اعتكف عشرا من شوال‏.
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل دوسی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے، ان سے عمرہ نے او ران سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ میں آپ کے لیے ( مسجد میں ) ایک خیمہ لگا دیتی۔ اور آپ صبح کی نماز پڑھ کے اس میں چلے جاتے تھے۔ پھر حفصہ رضی اللہ عنہا نے بھی عائشہ رضی اللہ عنہا سے خیمہ کھڑا کرنے کی ( اپنے اعتکاف کے لیے ) اجازت چاہی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اجازت دے دی او رانہوں نے ایک خیمہ کھڑا کر لیا جب زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی ( اپنے لیے ) ایک خیمہ کھڑا کر لیا۔ صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی خیمے دیکھے تو فرمایا، یہ کیا ہے؟ آپ کو ان کی حقیقت کی خبر دی گئی۔ آپ نے فرمایا، کیا تم سمجھتے ہو یہ خیمے ثواب کی نیت سے کھڑے کئے گئے ہیں۔ پس آپ نے اس مہینہ ( رمضان ) کا اعتکاف چھوڑ دیا اورشوال کے عشرہ کا اعتکاف کیا۔

تشریح : قال الاسماعیلی فیہ دلیل علی جواز الاعتکاف بغیر صوم لان اول شوال یوم الفطر و صومہ حرام یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ بغیر روزہ کے بھی اعتکاف درست ہے اس لیے کہ آپ نے اول عشرہ شوال میں اعتکاف کیا۔ جس میں یوم الفطربھی داخل ہے۔ جس میں روزہ رکھنا منع ہے۔ حافظ فرماتے ہیں : ان المراۃ لا تعتکف حتی تستاذن زوجہا و انہا اذا اعتکفت بغیر اذنہ کان لہ ان یخرجہا و فیہ جواز ضرب الاخبیۃ فی السمجد و ان الافضل للنساءان لا یعتکفن فی المسجد و فیہ ان اول الوقت الذی یدخل فیہ المعتکف بعد صلوۃ الصبح و ہو قول الاوزاعی و قال الائمۃ الاربعۃ و طائفۃ یدخل قبیل غروب الشمس و اولوا الحدیث علی انہ دخل من اول اللیل و لکن انما تخلی بنفسہ فی المکان الذی اعدہ لنفسہ بعد صلاۃ الصبح الخ یعنی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف نہ کرے اور بغیر اجازت اعتکاف کی صورت خاوند کو حق ہے کہ وہ عورت کا اعتکاف ختم کرادے۔ اور اعتکاف کے لیے مساجد میں خیمہ لگانا درست ہے اور عورتوں کے لیے افضل یہی ہے کہ وہ مساجد میں اعتکاف نہ کریں اور معتکف کے لیے اپنی جگہ میں داخل ہونے کا وقت نماز فجر کے بعد کا وقت ہے۔ یہ اوزاعی کا قول ہے لیکن ائمہ اربعہ اور ایک جماعت علماءکا قول یہ ہے کہ سورج غروب ہونے سے قبل اپنے مقام میں داخل ہو اور حدیث مذکورہ کا مطلب انہوں نے یوں بیان کیا کہ آپ اول را ت ہی میں داخل ہو گئے تھے مگر جو جگہ آپ نے اعتکاف کے لیے مخصوص فرمائی تھی اس میں فجر کے بعد داخل ہوئے۔
 
Top