کتاب الاعتکاف
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا او ر اعتکاف ہر ایک مسجد میں درست ہے۔
لقوله تعالى {ولا تباشروهن وأنتم عاكفون في المساجد تلك حدود الله فلا تقربوها كذلك يبين الله آياته للناس لعلهم يتقون }.
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
” جب تم مساجد میں اعتکاف کئے ہوئے ہو تو اپنی بیویوں سے ہم بستری نہ کرو، یہ اللہ کے حدود ہیں، اس لیے انہیں ( توڑنے کے ) قریب بھی نہ جاؤ، اللہ تعالیٰ اپنے احکامات لوگوں کے لیے اسی طرح بیان فرماتا ہے تاکہ وہ ( گناہ سے ) بچ سکیں۔
تشریح : حافظ فرماتے ہیں
الاعتکاف لغۃ لزوم الشئی و حبس النفس علیہ و شرعا المقام فی المسجد من شخص مخصوص علی صفۃ مخصوصۃ و لیس بواجب اجماعاً الا علی من نذرہ و کذا من شرع فیہ فقطعہ عامدا عند قوم و اختلف فی اشتراط الصوم لہ الخ ( فتح الباری ) یعنی اعتکاف کے لغوی معنی کسی چیز کو اپنے لیے لازم کر لینا اور اپنے نفس کو اس پر مقید کرلینا اور یہ اعتکاف اجماعی طور پر واجب نہیں ہے ہاں کوئی اگر نذر مانے یا کوئی شروع کرے مگر درمیان میں قصداً چھوڑ دے تو ان پر ادائیگی واجب ہے۔ اور روزہ کی شرط کے بارے میں اختلاف ہے جیسا کہ آگے آئے گا۔
اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا شرط ہے جو آیت قرآنی
و انتم عاکفون فی المسٰجد ( البقرۃ : 187 ) سے ثابت ہے۔
و اجاز الحنفیۃ للمراۃ ان تعتکف فی مسجد بیتہا و ہوا المکان المعد للصلوۃ فیہ ( فتح ) یعنی حنفیہ نے عورتوں کے لیے اعتکاف جائز رکھا ہے اس صورت میں کہ وہ اپنے گھروں کی ان جگہوں میں اعتکاف کریں جو جگہیں نماز کے لیے مخصوص کی ہوتی ہیں۔ امام زہری اور سلف کی ایک جماعت نے اعتکاف کو جامع مسجد کے ساتھ خاص کیا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی تقریباً ایسا ہی اشارہ ہے۔ اور یہ مناسب بھی ہے تاکہ معتکف بآسانی ادائیگی جمعہ کرسکے۔ رمضان شریف کے پورے آخری عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھنامسنون ہے یوں ایک دن ایک رات یا اور بھی کوئی کم مدت کے لیے بیٹھنے کی نیت کرے تو اسے بھی بقدر عمل ثواب ملے گا۔
سنن ابو داؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ
السنۃ علی المعتکف ان لا یعود مریضاً و لا یشہد جنازۃ و لا یمس امراۃ ولا یباشرہا و لا یخرج لحاجۃ الا لما لا بدمنہ یعنی معتکف کے لیے سنت ہے کہ وہ کسی مریض کی عیادت کے لیے نہ جائے اور نہ کسی جنازہ پر حاضر ہو اور نہ اپنی عورت کو چھوئے، نہ اس سے مباشرت کرے اور کسی حاجت کے لیے اپنی جگہ سے باہر نہ نکلے مگر جس کے لیے نکلنا بے حد ضروری ہے جیسا کہ کھانا، پینا یا قضائے حاجات کے لیے جانا۔ اگر معتکف ایسے کاموں کے لیے نکلا اور مسجد سے خارج ہی وضوءکرکے واپس آگیا تو اس کے اعتکاف میں کوئی خلل نہ ہوگا۔ باقی امور جائز و ناجائز امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ابواب متفرقہ میں ذکر فرما دیئے ہیں۔ المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کو مختار قرار دیا ہے۔ ( تحفۃ الاحوذی جلد : 2ص72 )
حدیث نمبر : 2025
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني ابن وهب، عن يونس، أن نافعا، أخبره عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الأواخر من رمضان.
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے یونس نے، انہیں نافع نے خبر دی، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرتے تھے۔
حدیث نمبر : 2026
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يعتكف العشر الأواخر من رمضان حتى توفاه الله، ثم اعتكف أزواجه من بعده.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر نے او ران سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی وفات تک برابر رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اعتکاف کرتی رہیں۔
حدیث نمبر : 2027
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن يزيد بن عبد الله بن الهاد، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث التيمي، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يعتكف في العشر الأوسط من رمضان، فاعتكف عاما حتى إذا كان ليلة إحدى وعشرين، وهي الليلة التي يخرج من صبيحتها من اعتكافه قال "من كان اعتكف معي فليعتكف العشر الأواخر، وقد أريت هذه الليلة ثم أنسيتها، وقد رأيتني أسجد في ماء وطين من صبيحتها، فالتمسوها في العشر الأواخر، والتمسوها في كل وتر". فمطرت السماء تلك الليلة، وكان المسجد على عريش فوكف المسجد، فبصرت عيناى رسول الله صلى الله عليه وسلم على جبهته أثر الماء والطين، من صبح إحدى وعشرين.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ بن ہاد نے بیان کیا، ان سے محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے دوسرے عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی دنوں میں اعتکاف کیا اور جب اکیسویں تاریخ کی رات آئی۔ یہ وہ رات ہے جس کی صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف سے باہر آجاتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ اب آخری عشرے میں بھی اعتکاف کرے۔ مجھے یہ رات ( خواب میں ) دکھائی گئی، لیکن پھر بھلا دی گئی۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اسی کی صبح کو میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں، اس لیے تم لوگ اسے آخری عشرہ کی طاق رات میں تلاش کرو، چنانچہ اسی رات بارش ہوئی، مسجد کی چھت چوں کہ کھجور کی شاخ سے بنی تھی اس لیے ٹپکنے لگی اور خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اکیسویں کی صبح کو رسول اللہ صلی الل علیہ وسلم کی پیشانی مبارک پر کیچڑ لگی ہوئی تھی۔