• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : حیض والی عورت نہ نماز پڑھے اور نہ روزے رکھے

وقال أبو الزناد إن السنن ووجوه الحق لتأتي كثيرا على خلاف الرأى، فما يجد المسلمون بدا من اتباعها، من ذلك أن الحائض تقضي الصيام ولا تقضي الصلاة‏.‏
اور ابوالزناد نے کہا کہ دین کی باتیں اور شریعت کے احکام بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ رائے اور قیاس کے خلاف ہوتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کی پیروی کرنی ضروری ہوتی ہے ان ہی میں سے ایک یہ حکم بھی ہے کہ حائضہ روزے تو قضا کرلے لیکن نماز کی قضا نہ کرے۔

یعنی پاک ہونے پر اس کو روزہ کی قضا کرنا ضروری ہے مگر نماز کی نہیں۔

حدیث نمبر : 1951
حدثنا ابن أبي مريم، حدثنا محمد بن جعفر، قال حدثني زيد، عن عياض، عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏أليس إذا حاضت لم تصل، ولم تصم فذلك نقصان دينها‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے زید بن اسلم نے بیان کیا، ان سے عیاض نے او ران سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نماز اور روزے نہیں چھوڑ دیتی؟ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔

مقصد یہ ہے کہ معیار صداقت ہماری ناقص عقل نہیں بلکہ فرمان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ خواہ وہ بظاہر عقل کے خلاف بھی نظر آئے مگر حق و صداقت وہی ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا۔ اسی کو مقدم رکھنا اور عقل ناقص کو چھوڑ دینا ایمان کا تقاضا ہے ابوزناد کے قول کا بھی یہی مطلب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں

وقال الحسن إن صام عنه ثلاثون رجلا يوما واحدا جاز‏.
اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر اس کی طرف سے ( رمضان کے تیس روزوں کے بدلے ) تیس آدمی ایک دن روزہ رکھ لیں تو جائز ہے۔

حدیث نمبر : 1952
حدثنا محمد بن خالد، حدثنا محمد بن موسى بن أعين، حدثنا أبي، عن عمرو بن الحارث، عن عبيد الله بن أبي جعفر، أن محمد بن جعفر، حدثه عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من مات وعليه صيام صام عنه وليه‏"‏‏. ‏ تابعه ابن وهب عن عمرو‏.‏ ورواه يحيى بن أيوب عن ابن أبي جعفر‏.‏
ہم سے محمد بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن موسیٰ ابن اعین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے، ان سے محمد بن جعفر نے کہا، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ دے، موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو ابن وہب نے بھی عمرو سے روایت کیا او ریحییٰ بن ایوب سختیانی نے بھی ابن ابی جعفر سے۔

تشریح : اہل حدیث کا مذہب باب کی حدیث پر ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے اور شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے۔ امام شافعی سے بیہقی نے بہ سند صحیح روایت کیا کہ جب کوئی صحیح حدیث میرے قول کے خلا ف مل جائے تو اس پر عمل کرو اور میری تقلید نہ کرو، امام مالک اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہما نے اس حدیث صحیح کے برخلاف یہ اختیار کیا کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا۔ ( وحیدی )

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی :
مرنے والے کی طرف سے روزہ رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں دو بھید ہیں ایک میت کے اعتبار سے کیوں کہ بہت سے نفوس جو اپنے ابدان سے مفارقت کرتے ہیں ان کو اسی بات کا ادراک رہتا ہے کہ عبادت میں سے کوئی عبادت جو ان پر فرض تھی اور اس کے ترک کرنے سے ان سے مواخذہ کیا جائے گا اس سے فوت ہو گئی ہے اس لیے وہ نفوس رنج و الم کی حالت میں رہتے ہیں اور اس سبب سے ان پر وحشت کا دروازہ کھل جاتا ہے ایسے وقت میں ان پر بڑی شفقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ اس میت کا قریبی ہے اس کا سا عمل کرے اور اس بات کا قصد کرے کہ میں یہ عمل اس کی طرف سے کرتا ہوں اس شخص کی قرابتی کو مفید ثابت ہوتا ہے یا وہ شخص کوئی اور دوسرا کام مثل اسی کام کے کرتا ہے اور ایسا ہی اگر ایک شخص نے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ بغیر صدقہ کئے مر گیا تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہئے۔ ( حجۃ اللہ البالغہ )

حدیث نمبر : 1953
حدثنا محمد بن عبد الرحيم، حدثنا معاوية بن عمرو، حدثنا زائدة، عن الأعمش، عن مسلم البطين، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إن أمي ماتت، وعليها صوم شهر، أفأقضيه عنها قال ‏"‏نعم ـ قال ـ فدين الله أحق أن يقضى‏"‏‏. ‏ قال سليمان فقال الحكم وسلمة، ونحن جميعا جلوس حين حدث مسلم بهذا الحديث ـ قالا ـ سمعنا مجاهدا يذكر هذا عن ابن عباس‏.‏ ويذكر عن أبي خالد: حدثنا الأعمش، عن الحكم ومسلم البطين وسلمة بن كهيل، عن سعيد بن جبير وعطاء ومجاهد، عن ابن عباس: قالت امرأة للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أختي ماتت. وقال يحيى وأبو معاوية: حدثنا الأعمش، عن مسلم، عن سعيد، عن ابن عباس: قالت امرأة للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أمي ماتت. وقال عبيد الله، عن زيد بن أبي أنيسة، عن الحكم، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس: قالت امرأة للنبي صلى الله عليه وسلم: إن أمي ماتت وعليها صوم نذر. وقال أبو جرير: حدثنا عكرمة، عن ابن عباس: قالت امرأة للنبي صلى الله عليه وسلم: ماتت أمي وعليها صوم خمسة عشر يوما.
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ بن عمرو نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم بطین نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا او رعرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری ماں کا انتقال ہو گیا اور ان کے ذمے ایک مہینے کے روزے باقی رہ گئے ہیں۔ کیا میں ان کی طرف سے قضا رکھ سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ضرور، اللہ تعالیٰ کا قرض اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اسے ادا کر دیا جائے۔ سلیمان اعمش نے بیان کیا کہ حکم اور سلمہ نے کہا جب مسلم بطین نے یہ حدیث بیان کیا تو ہم سب وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ ان دونوں حضرات نے فرمایا کہ ہم نے مجاہد سے بھی سنا تھا کہ وہ یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے۔ ابوخالد سے روایت ہے کہ اعمش نے بیان کیا ان سے حکم، مسلم بطین اور سلمہ بن کہیل نے، ان سے سعید بن جبیر، عطاءاو رمجاہد نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ ایک خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری ” بہن “ کا انتقال ہو گیا ہے پھر یہی قصہ بیان کیا، یحییٰ اور سعید اور ابومعاویہ نے کہا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے مسلم نے، ان سے سعید نے او ران سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عر ض کی کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے اور عبید اللہ نے بیان کیا، ان سے زید ابن ابی انیسہ نے، ان سے حکم نے، ان سے سعید بن جبیر نے او ران سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا ہے او ران پر نذر کا ایک روزہ واجب تھا اور ابوحریز عبداللہ بن حسین نے بیان کیا، کہا ہم سے عکرمہ نے بیان کیا او ران سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہ ایک خاتون نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عر ض کی کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے او ران پر پندرہ دن کے روزے واجب تھے۔

تشریح : ان سندوں کے بیان کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اس حدیث میں بہت سے اختلافات ہیں، کوئی کہتا ہے پوچھنے والا مرد تھا، کوئی کہتا ہے کہ عورت نے پوچھا تھا، کوئی ایک مہینے کے کوئی پندرہ دن کے روزے کہتا ہے کوئی نذر کا روزہ کہتا ہے اسی لیے نذر کا روزہ امام احمد اور لیث نے میت کی طرف سے رکھنا درست کہا ہے اور رمضان کا روزہ رکھنا درست نہیں رکھا ( جب یہ قول صحیح نہیں۔ میت کی طرف سے باقی روزے رکھنے ضروری ہیں ) میں کہتا ہوں کہ ان اختلاف سے حدیث میں کوئی نقص نہیں آتا جب اس کے روای ثقہ ہیں ممکن ہے یہ مختلف واقعات ہوں اور پوچھنے والے متعدد ہوں۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ کس وقت افطا رکرے؟

وأفطر أبو سعيد الخدري حين غاب قرص الشمس‏.‏
اور جب سورج کا گردہ ڈوب گیا تو ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے روزہ افطار کر لیا ( اس اثر کو سعید بن منصور او رابن شیبہ نے وصل کیا ہے )

حدیث نمبر : 1954
حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا هشام بن عروة، قال سمعت أبي يقول، سمعت عاصم بن عمر بن الخطاب، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏إذا أقبل الليل من ها هنا، وأدبر النهار من ها هنا، وغربت الشمس، فقد أفطر الصائم‏"‏‏.
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے باپ سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ میں نے عاصم بن عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب سے سنا، ان سے ان کے باپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب رات اس طرف ( مشرق ) سے آئے اور دن ادھر مغرب میں چلا جائے کہ سورج ڈوب جائے تو روزہ کے افطار کا وقت آگیا۔

تشریح : حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے، حضرت سفیان بن عیینہ جو یہاں بھی سند میں آئے ہیں 107ھ میں ماہ شعبان میں کوفہ میں ان کی ولادت ہوئی۔ امام، عالم، زاہد، پرہیزگار تھے، ان پر جملہ محدثین کا اعتماد تھا۔ جن کا متفقہ قول ہے کہ اگر امام مالک اور سفیان بن عیینہ نہ ہوتے تو حجاز کا علم نابود ہو جاتا۔ 198ھ میں یکم رجب کو مکہ مکرمہ میں ان کا انتقال ہوا اور حجون میں دفن کئے گئے انہوں نے ستر حج کئے تھے۔ رحمہم اللہ اجمعین ( آمین )

حدیث نمبر : 1955
حدثنا إسحاق الواسطي، حدثنا خالد، عن الشيباني، عن عبد الله بن أبي أوفى ـ رضى الله عنه ـ قال كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، وهو صائم، فلما غربت الشمس قال لبعض القوم ‏"‏يا فلان قم، فاجدح لنا‏"‏‏. ‏ فقال يا رسول الله، لو أمسيت‏.‏ قال ‏"‏انزل، فاجدح لنا‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله فلو أمسيت‏.‏ قال ‏"‏انزل، فاجدح لنا‏"‏‏. ‏ قال إن عليك نهارا‏.‏ قال ‏"‏انزل، فاجدح لنا‏"‏‏. ‏ فنزل فجدح لهم، فشرب النبي صلى الله عليه وسلم ثم قال ‏"‏إذا رأيتم الليل قد أقبل من ها هنا، فقد أفطر الصائم‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق واسطی نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن شیبانی نے، ان سے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ( غزوہ فتح جو رمضان میں ہوا ) سفر میں تھے او رآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے تھے۔ جب سورج غروب ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی ( بلال رضی اللہ عنہ ) سے فرمایا کہ اے فلاں ! میرے لیے اٹھ کے ستو گھول، انہو نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آپ تھوڑی دیر اور ٹھہرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، اس پر انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ تھوڑی دیر اور ٹھہرتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی حکم دیا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول لیکن ان کا اب بھی خیال تھا کہ ابھی دن باقی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرتبہ پھر فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول چنانچہ اترے اور ستو انہوں نے گھول دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا۔ پھر فرمایا کہ جب تم یہ دیکھ لو کہ رات اس مشرق کی طرف سے آگئی تو روزہ دار کو افطار کرلینا چاہئے۔

تشریح : مخاطب حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے جن کا خیال تھا کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا ہے، حالانکہ وہ غروب ہو چکا تھا۔ بہرحال خیال کے مطابق یہ کہا۔ کیوں کہ عرب میں پہاڑوں کی کثرت ہے اور ایسے علاقوں میں غروب کے بعد بھی ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی سورج باقی ہے، مگر حقیقت میں افطار کا وقت ہو گیا تھا، اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو ستو گھولنے کے لیے حکم فرمایا اور روزہ کھولا گیا۔ حدیث سے ظا ہر ہوگیا کہ جب بھی غروب کا یقین ہو جائے تو روزہ کھول دینا چاہئے تاخیر کرنا جائز نہیں ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں وارد ہوا ہے۔ اس حدیث سے اظہار خیال کی بھی آزادی ثابت ہوئی اگرچہ وہ خیال درست بھی نہ ہو۔ مگر ہر شخص کو حق ہے کہ اپنا خیال ظاہر کرے، بعد میں وہ خیال غلط ثابت ہو تواس پر اس کا تسلیم حق کرنا بھی ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : پانی وغیرہ جو چیز بھی پاس ہو اس سے روزہ افطار کرلینا چاہئے

حدیث نمبر : 1956
حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الشيباني، قال سمعت عبد الله بن أبي أوفى ـ رضى الله عنه ـ قال سرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو صائم، فلما غربت الشمس قال ‏"‏انزل، فاجدح لنا‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله، لو أمسيت‏.‏ قال ‏"‏انزل، فاجدح لنا‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله، إن عليك نهارا‏.‏ قال ‏"‏انزل، فاجدح لنا‏"‏‏. ‏ فنزل، فجدح، ثم قال ‏"‏إذا رأيتم الليل أقبل من ها هنا فقد أفطر الصائم‏"‏‏. ‏ وأشار بإصبعه قبل المشرق‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں جا رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے، جب سورج غروب ہوا تو آپ نے ایک شخص سے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! تھوڑی دیر اور ٹھہرئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتر کر ہمارے لیے ستو گھول انہوں نے پھر یہی کہا کہ یا رسول اللہ ! ابھی تو دن باقی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اتر کر ستو ہمارے لیے گھول، چنانچہ انہوں نے اتر کر ستو گھولا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ جب تم دیکھو کہ رات کی تاریکی ادھر سے آگئی تو روزہ دار کو روزہ افطار کرلینا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔

حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے یوں ہے کہ ستو پانی سے گھولے گئے تھے اور اس وقت یہی حاضر تھا تو پانی وغیرہ ماحضر سے روزہ کھولنا ثابت ہوا۔ ترمذی نے مرفوعاً نکالا کہ کھجور سے روزہ افطار کرے اگر کھجور نہ ملے تو پانی سے۔ ( وحیدی )
حضرت مسدد بن مسرہد امام بخاری کے جلیل القدر اساتذہ میں سے ہیں اور جامع الصحیح میں ان سے بکثرت روایات ہیں۔ یہ بصرہ کے باشندے تھے۔ حماد بن زید اور ابوعوانہ وغیرہ سے حدیث کی سماعت فرمائی۔ ان سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ اور بھی بہت سے محدثین نے روایت کی ہے۔ 228ھ میں انتقال ہوا۔ رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ( آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : روزہ کھولنے میں جلدی کرنا

حدیث نمبر : 1957
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم سلمہ بن دینار نے، انہیں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میری امت کے لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی، جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔

تشریح : یعنی وقت ہو جانے کے بعد پھر افطار میں دیر نہ کرنا چاہئے۔ ابوداؤد نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نکالا یہود اور نصاریٰ دیر کرتے ہیں، حاکم کی روایت میں ہے کہ میری امت ہمیشہ میری سنت پر رہے گی جب تک روزہ کے افطار میں تارے نکلنے کا انتظار نہ کرگے گی۔ ابن عبدالر نے کہا روزہ جلد افطار کرنے اور سحری دیر میں کھانے کی حدیثیں صحیح اور متواتر ہیں۔ عبدالرزاق نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم سب لوگوں سے روزہ جلدی کھولتے اور سحری کھانے میں لوگوں سے دیر کرتے۔ مگر ہمارے زمانے میں عموماً لوگ روزہ تو دیر سے کھولتے ہی اور سحری جلدی کھالیتے ہیں اسی وجہ سے ان پر تباہی آرہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا درست تھا۔ جب سے مسلمانوں نے سنت پر چلنا چھوڑ دیا روز بروز ان کا تنزل ہوتا گیا۔ ( وحیدی )

حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قال ابن عبدالبر احادیث تعجیل الافطارو تاخیر السحور صحاح متواترۃ و عند عبدالرزاق و غیرہ باسناد صحیح عن عمرو بن میمون الازدی قال کان اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم اسرع الناس افطاراً و ابطاہم سحوراً ( فتح الباری ) یعنی روزہ کھولنے کے متعلق احادیث صحیح متواتر ہیں۔ و اتفق العلماءعلی ان محل ذلک اذا تحقق غروب الشمس بالرویۃ او باخبار عدلین و کذا عدل واحد فی الارجح قال ابن دقیق العید فی ہذا الحدیث رد علی الشیعۃ فی تاخیرہم الی ظہور النجوم ( فتح ) یعنی علماءکا اتفاق ہے کہ روزہ کھولنے کا وقت وہ ہے جب سورج کا غروب ہونا پختہ طو رپر ثابت ہو جائے یا دو عادل گواہ کہہ دیں، دو نہ ہوں تو ایک عادل گواہ بھی کافی ہے۔ اس حدیث میں شیعہ پر رد ہے جو روزہ کھولنے کے لیے تاروں کے ظاہر ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جو یہود و نصاری کا طریقہ ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسم نے اپنی سخت ترین ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔

حدیث نمبر : 1958
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا أبو بكر، عن سليمان، عن ابن أبي أوفى ـ رضى الله عنه ـ قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر، فصام حتى أمسى، قال لرجل ‏"‏انزل، فاجدح لي‏"‏‏. ‏ قال لو انتظرت حتى تمسي‏.‏ قال ‏"‏انزل، فاجدح لي، إذا رأيت الليل قد أقبل من ها هنا فقد أفطر الصائم‏"‏‏.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے سلیمان شیبانی نے اور ان سے ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے، جب شام ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا کہ ( اونٹ سے ) اتر کر میرے لیے ستو گھول، اس نے کہا ! حضور اگر شام ہونے کا کچھ اور انتظار فرمائیں تو بہتر ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اتر کر میرے لیے ستو گھول ( وقت ہو گیا ہے ) جب تم یہ دیکھ لو کہ رات ادھر مشرق سے آگئی تو روزہ دار کے روزہ کھولنے کا وقت ہو گیا۔

تشریح : یا روزہ کھل گیا۔ بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ جب افطار کا وقت آجائے تو خود بخود روزہ کھل جاتا ہے گو افطار نہ کرے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس حدیث سے ان کا رد ہوتا ہے کیوں کہ اگر وقت آنے سے روزہ خود بخود کھل جاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ستو گھولنے کے لیے کیوں جلدی فرماتے۔ اسی طرح دوسری حدیثوں میں روزہ جلدی کھولنے کی ترغیب کیوں دیتے۔ اور اگر وقت آنے سے روزہ خود بخود ختم ہوجاتا تو پھر طے کے روزے سے کیوں منع فرماتے۔ یہی حدیث پیچھے اسحاق واسطی کی سند سے بھی گذر چکی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کو ستو گھولنے کا حکم فرمایا تھا وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے۔ جنہوں نے روشنی دیکھ کر خیال کیا کہ ابھی سورج غروب ہونے میں کسر ہے، اسی لیے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسا عرض کیا۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و فیہ تذکرۃ العالم بما یخشی ان یکون نسیہ و ترک المراجعۃ لہ بعد ثلاث یعنی اس حدیث میں واقعہ مذکورہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی عالم کو ایک عامی بھی تین بار یاد دہانی کراسکتا ہے۔ اگر یہ گمان ہو کہ عالم سے بھول ہو گئی ہے، جیسا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے خیال کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تین مرتبہ یاد دہانی کرائی، مگر چوں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا خیال صحیح نہ تھا۔ لہٰذا آخر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مسئلہ کی حقیقت سے آگاہ فرمایا اور انہوں نے ارشاد گرامی کی تعمیل کی، معلوم ہوا کہ وقت ہو جانے پر روزہ کھولنے میں پس و پیش کرنا قطعاً مناسب نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : ایک شخص نے سورج غروب سمجھ کر روزہ کھول لیا اس کے بعد سورج نکل آیا !

حدیث نمبر : 1959
حدثني عبد الله بن أبي شيبة، حدثنا أبو أسامة، عن هشام بن عروة، عن فاطمة، عن أسماء بنت أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ قالت أفطرنا على عهد النبي صلى الله عليه وسلم يوم غيم، ثم طلعت الشمس‏.‏ قيل لهشام فأمروا بالقضاء قال بد من قضاء‏.‏ وقال معمر سمعت هشاما لا أدري أقضوا أم لا‏.‏
ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے او ران سے اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابر تھا۔ ہم نے جب افطار کر لیا تو سورج نکل آیا۔ اس پر ہشام ( راوی حدیث ) سے کہا گیا کہ پھر انہیں اس روزے کی قضا کا حکم ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتلایا کہ قضا کے سوا اور چارئہ کار ہی کیا تھا؟ اور معمر نے کہا کہ میں نے ہشام سے یوں سنا ” مجھے معلوم نہیں کہ ان لوگوں نے قضا کی تھی یا نہیں۔ “

تشریح : اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں قضا لازم ہوگی اور کفارہ نہ ہوگا اور اس کے سوا یہ بھی ضروری ہے کہ جب تک غروب نہ ہو امساک کرے یعنی کچھ کھائے پیے نہیں۔

قسطلانی نے بعض حنابلہ سے یہ نقل کیا کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھ کر کہ رات ہو گئی افطار کرلے پھر معلوم ہوا کہ دن تھا تو اس پر قضا نہیں ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں۔ میں کہتا ہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ ایسی صورت میں قضا بھی نہیں ہے، اور مجاہد اور حسن سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ حافظ نے کہا کہ ایک روایت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسی ہی ہے اور ابن خزیمہ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور معمر کی تعلیق کو عبد بن حمید نے وصل کیا۔ یہ روایت پہلی روایت کے خلاف ہے اور شاید پہلے ہشام کو اس میں شک رہا ہو پھر یقین ہو گیا ہو کہ انہوں نے قضا کی۔ اور ابواسامہ نے ان کو قضا کا یقین ہوجانے کے بعد روایت کی ہو، اس صورت میں تعارض نہ رہے گا۔ ابن خزیمہ نے کہا ہشام نے جو قضا کرنا بیان کیا اس کی سند ذکر نہیں کی، اس لیے میرے نزدیک قضا نہ ہونے کی ترجیح ہے اور ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ہم قضا نہیں کرنے کے نہ ہم کو گناہ ہوا اور عبدالرزاق اور سعید بن منصور نے ان سے یہ نقل کیا ہے کہ قضا کرنا چاہئے۔ حافظ نے کہا کہ حاصل کلام یہ ہوا کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ ( وحیدی ) ظاہر حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ قضا لازم ہے واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : بچوں کے روزہ رکھنے کا بیان

جمہور علماءکا یہ قول ہے کہ جب تک بچہ جوان نہ ہو اس پر روزہ واجب نہیں، لیکن ایک جماعت سلف نے ان کو عادت ڈالنے کے لیے یہ حکم دیا کہ بچوں کو روزہ رکھوائیں جیسے نماز پڑھنے کے لیے ان کو حکم دیا جاتا ہے، شافعی نے کہا سات سے لے کر دس برس تک جب عمر ہو تو ان سے روزہ رکھوائیں۔ اور اسحاق نے کہا جب بارہ برس کے ہوں، امام احمد نے کہا جب دس برس کے ہوں۔ اوزاعی نے کہا جب بچہ تین روزے متواتر رکھ سکے اور اس کو ضعف نہ ہو تو اس کو روزہ رکھائیں اور مالکیہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ بچوں کے حق میں روزہ مشروع نہیں ہے۔ ( وحیدی )

حافظ فرماتے ہیں ان الصحیح عند اہل الحدیث و اہل الاصول ان الصحابی اذا قال فعلنا کذا فی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی جب کوئی صحابی لفظ فعلنا فی عہد الخ بولے تو وہ مرفوع حدیث کے حکم میں ہے۔

وقال عمر ـ رضى الله عنه ـ لنشوان في رمضان ويلك، وصبياننا صيام‏.‏ فضربه
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک نشہ باز سے فرمایا تھا افسوس تجھ پر، تو نے رمضان میں بھی شراب پی رکھی ہے حالانکہ ہمارے بچے تک بھی روزے سے ہیں، پھر آپ نے اس پر حد قائم کی۔

حدیث نمبر : 1960
حدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل، حدثنا خالد بن ذكوان، عن الربيع بنت معوذ، قالت أرسل النبي صلى الله عليه وسلم غداة عاشوراء إلى قرى الأنصار ‏"‏من أصبح مفطرا فليتم بقية يومه، ومن أصبح صائما فليصم‏"‏‏. ‏ قالت فكنا نصومه بعد، ونصوم صبياننا، ونجعل لهم اللعبة من العهن، فإذا بكى أحدهم على الطعام أعطيناه ذاك، حتى يكون عند الإفطار‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے خالد بن ذکوان نے بیان کیا، ان سے ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ عاشورہ کی صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے محلوں میں کہلا بھیجا کہ صبح جس نے کھا پی لیا ہو وہ دن کا باقی حصہ ( روزہ دار کی طرح ) پورے کرے اور جس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ روزے سے رہے۔ ربیع نے کہا کہ پھر بعد میں بھی ( رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد ) ہم اس دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں سے بھی رکھواتے تھے۔ انہیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے۔ جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو وہی دے دیتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت آجاتا۔

تشریح : اس نشہ باز نے رمضان میں شراب پی رکھی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ معلوم کرکے فرمایا کہ ارے کم بخت ! تو نے یہ کیا حرکت کی ہمارے تو بچے بھی روزہ دار ہیں۔ پھر آپ نے اس کو اسی کوڑے مارے اور شام کے ملک میں جلاوطن کر دیا۔ اس کو سعید بن منصور اور بغوی نے جعدیات میں نکالا ہے۔ اس واقعہ کو نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد صرف بچوں کو روزہ رکھنے کی مشروعیت بیان کرنا ہے۔ جس کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا پس مناسب ہے کہ بچوں کو بھی روزہ کی عادت ڈلوائی جائے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و فی الحدیث حجۃ علی مشروعیۃ تمرین الصبیان علی الصیام کما تقدم لان من کان فی مثل السن الذی ذکر فی ہذا الحدیث فہو غیر مکلف یعنی اس حدیث میں دلیل ہے اس با ت پر کہ بطور مشق بچوں سے روزہ رکھوانا مشروع ہے، اگرچہ اس عمر میں وہ شرع کے مکلف نہیں ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : پے درپے ملا کر روزہ رکھنا اور جنہوں نے یہ کہا کہ رات میں روزہ نہیں ہو سکتا

لقوله تعالى: {ثم أتموا الصيام إلى الليل}. /البقرة: 187/. ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عنه رحمة لهم وإبقاء عليهم، وما يكره من التعمق.
( ابوالعالیہ ) تابعی سے ایسا منقول ہے انہوں نے کہا اللہ نے فرمایا روزہ رات تک پورا کرو ( جب رات آئی تو روزہ کھل گیا یہ ابن ابی شیبہ نے نکالا ) کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ( سورہ بقرہ میں ) فرمایا ” پھر تم روزہ رات تک پورا کرو۔ “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال سے ( بحکم خداوندی ) منع فرمایا، امت پر رحمت اور شفقت کے خیال سے تاکہ ان کی طاقت قائم رہے، او ریہ کہ عبادت میں سختی کرنا مکروہ ہے۔

اس حدیث کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آخر باب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وصل کیا اور ابوداؤد نے ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامت اور وصال سے منع فرمایا۔ اپنے اصحاب کی طاقت باقی رکھنے کے لیے، طے کا روزہ رکھنا منع ہے مگر سحر تک وصال جائز ہے جیسے دوسری حدیث میں وارد ہے۔ اب اختلاف ہے کہ یہ ممانعت تحریمی ہے یا کراہت کے طور پر۔ بعض نے کہا جس پر شاق ہو تو اس پر تو حرام ہے اور جس پر شاق نہ ہو اس کے لیے جائز ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1961
حدثنا مسدد، قال حدثني يحيى، عن شعبة، قال حدثني قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لا تواصلوا‏"‏‏. ‏ قالوا إنك تواصل‏.‏ قال ‏"‏لست كأحد منكم، إني أطعم وأسقى، أو إني أبيت أطعم وأسقى‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، کہا کہ مجھ سے قتادہ نے بیان کیا او ر ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( بلا سحر و افطار ) پے در پے روزے نہ رکھا کرو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو وصال کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ مجھے ( اللہ تعالیٰ کی طرف سے ) کھلایا اور پلایا جاتا ہے یا ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ) میں اس طرح رات گزارتا ہوں کہ مجھے کھلایا اور پلایا جاتا رہتا ہے۔

حدیث نمبر : 1962
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الوصال‏.‏ قالوا إنك تواصل‏.‏ قال ‏"‏إني لست مثلكم، إني أطعم وأسقى‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے خبر دی، انہیں نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صوم وصال سے منع فرمایا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ تو وصال کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں، مجھے تو کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔

حدیث نمبر : 1963
حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثني ابن الهاد، عن عبد الله بن خباب، عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏لا تواصلوا، فأيكم إذا أراد أن يواصل فليواصل حتى السحر‏"‏‏. ‏ قالوا فإنك تواصل يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏إني لست كهيئتكم، إني أبيت لي مطعم يطعمني وساق يسقين‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہاد نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلسل ( بلا سحری و افطاری ) روزے نہ رکھو، ہاں اگر کوئی ایسا کرنا ہی چاہے تو وہ سحری کے وقت تک ایسا کرسکتا ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو ایسا کرتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ میں تو رات اس طرح گزارتا ہوں کہ ایک کھلانے والا مجھے کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا مجھے پلاتا ہے۔

تشریح : ابن ابی حاتم نے سند صحیح کے ساتھ بشیر بن خصاصیہ کی عورت سے نقل کیا کہ میں نے ارادہ کیا تھا کہ دو دن و رات کا متواتر روزہ رکھوں مگر میرے خاوند بشیر نے مجھ کو اس سے منع فرمایا اور یہ حدیث سنائی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا اور اس کو فعل نصاریٰ بتلایا اور فرمایاہے کہ اسی طرح روزہ رکھو جس طرح تم کو اللہ نے اس کے لیے حکم فرمایا ہے۔ رات آنے تک روزہ رکھو رات ہونے پر فوراً روزہ افطار کرلو۔

احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صوم وصال کا ذکر ہے یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے۔ اسی تطبیق کو ترجیح حاصل ہے، اللہ پاک مجھے کھلاتا پلاتا ہے اس سے روحانی اکل و شرب مراد ہے۔ تفصیل مزید کے لیے اہل علم فتح الباری کا یہ مقام ملاحظہ فرمائیں۔

حدیث نمبر : 1964
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، ومحمد، قالا أخبرنا عبدة، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الوصال، رحمة لهم فقالوا إنك تواصل‏.‏ قال ‏"‏إني لست كهيئتكم، إني يطعمني ربي ويسقين‏"‏‏. ‏ قال أبو عبد الله لم يذكر عثمان رحمة لهم‏.‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ اور محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدہ نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پے در پے روزہ سے منع کیا تھا۔ امت پر رحمت و شفقت کے خیال سے، صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو وصال کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔ عثمان نے ( اپنی روایت میں ) ” امت پر رحمت و شفقت کے خیال سے “ کے الفاظ ذکر نہیں کئے ہیں۔

تشریح : اس سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو طے کا روزہ رکھنا حرام نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت پر شفقت کے خیال سے اس سے منع فرمایا جیسے قیام اللیل میں آپ چوتھی رات کو برآمد نہ ہوئے اس ڈر سے کہ کہیں یہ فرض نہ ہو جائے اور ابن ابی شبیہ نے باسناد صحیح عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے نکالا کہ وہ پندرہ پندرہ دن تک طے کے روزے رکھتے۔ اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کے ساتھ طے کے روزے رکھے۔ اگر حرام ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کو کبھی نہ رکھنے دیتے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : جو طے کے روزے بہت رکھے اس کو سزا دینے کا بیان

رواه أنس عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اس کو حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1965
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الوصال في الصوم فقال له رجل من المسلمين إنك تواصل يا رسول الله قال ‏"‏وأيكم مثلي إني أبيت يطعمني ربي ويسقين‏"‏‏. ‏ فلما أبوا أن ينتهوا عن الوصال واصل بهم يوما ثم يوما، ثم رأوا الهلال، فقال ‏"‏لو تأخر لزدتكم‏"‏‏. ‏ كالتنكيل لهم، حين أبوا أن ينتهوا‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھ سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل ( کئی دن تک سحری و افطاری کے بغیر ) روزہ رکھنے سے منع فرمایا تھا۔ اس پر ایک آدمی نے مسلمانوں میں سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ تو وصال کرتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری طرح تم میں سے کون ہے؟ مجھے تو رات میں میرا رب کھلاتا ہے، اور وہی مجھے سیراب کرتا ہے۔ لوگ اس پر بھی جب صوم وصال رکھنے سے نہ رکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دو دن تک وصال کیا۔ پھر عید کا چاند نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر چاند نہ دکھائی دیتا تو میں اور کئی دن وصال کرتا، گویا جب صوم و صال سے وہ لوگ نہ رکے تو ٓاپ نے ان کو سزا دینے کے لیے یہ کہا۔

تشریح : بعض روایتوں میں یوں ہے میں تو برابر اپنے مالک کے پاس رہتا ہوں وہ مجھ کو کھلاتا اور پلاتا ہے۔ یہ کھلا پلا دینا روزہ نہیں توڑتا کیوں کہ یہ بہشت کا طعام و شراب ہے، اس کا حکم دینا کے طعام اور شراب کا نہیں جیسے ایک حدیث میں ہے سونے کا طشت لایا گیا اور میرا سینہ دھویا گیا۔ حالانکہ دنیا میں سونا چاندی کے برتنوں کا استعمال منع ہے قطع نظر اس کے صحیح روایت یہی ہے کہ میں رات کو اپنے مالک کے پاس رہتا ہوں وہ مجھ کو کھلا پلا دیتا ہے۔ ( وحیدی )

حافظ فرماتے ہیں ای علی صفتکم فی ان من اکل منکم او شرب انقطع وصالہ بل انما یطعمنی ربی و یسقینی و لا تنقطع بذلک مواصلتی فطعامی و شرابی علی غیر طعامکم و شرابکم صورۃ و معنی یعنی تم میں سے کوئی روزے میں کھاپی لے تو اس کا وصال روزہ ٹوٹ گیا اور میرا حال یہ ہے کہ میرا رب مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے اور اس سے میرا وصال نہیں ٹوٹتا۔ میرا طعام و شراب ظاہر و باطن کے لحاظ سے تمہارے طعام وشراب سے بالکل مختلف ہے۔

حدیث نمبر : 1966
حدثنا يحيى، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام، أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إياكم والوصال‏"‏‏. ‏ مرتين قيل إنك تواصل‏.‏ قال ‏"‏إني أبيت يطعمني ربي ويسقين، فاكلفوا من العمل ما تطيقون‏"‏‏.
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، ان سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبار فرمایا، تم لوگ وصال سے بچو ! عرض کیا گیا کہ آپ تو وصال کرتے ہیں، اس پر آپ نے فرمایا کہ رات میں مجھے میرا رب کھلاتا اور وہی مجھے سیراب کرتا ہے۔ پس تم اتنی ہی مشقت اٹھاؤ جتنی تم طاقت رکھتے ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الصیام
باب : سحری تک وصال کا روزہ رکھنا

درحقیقت یہ طے کا روزہ نہیں مگر مجازاً اس کو وصال یعنی طے کا روزہ کہتے ہیں۔ کیوں کہ طے کا روزہ یہ ہے کہ دن کی طرح ساری رات نہ کچھ کھائے نہ پئے۔ باب کے ذیل میں حافظ صاحب فرماتے ہیں ای جوازہ و قد تقدم انہ قول احمد و طائفۃ من اصحاب الحدیث و تقدم توجیہہ و ان من الشافعیۃ من قال انہ لیس بوصال حقیقۃ عبارت کا مفہوم اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔

حدیث نمبر : 1967
حدثنا إبراهيم بن حمزة، حدثني ابن أبي حازم، عن يزيد، عن عبد الله بن خباب، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏لا تواصلوا، فأيكم أراد أن يواصل فليواصل حتى السحر‏"‏‏. ‏ قالوا فإنك تواصل، يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏لست كهيئتكم، إني أبيت لي مطعم يطعمني وساق يسقين‏"‏‏.
ہم سے ابراہیم بن حمزہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز ابن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے یزید بن ہاد نے، ان سے عبداللہ بن خباب نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے، صوم وصال نہ رکھو۔ اور اگر کسی کا ارادہ ہی وصال کا ہو تو سحری کے وقت تک وصال کرلے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی، یا رسول اللہ ! آپ تو وصال کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں۔ رات کے وقت ایک کھلانے والا مجھے کھلاتا ہے اور ایک پلانے والا مجھے پلاتا ہے۔
 
Top