• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کرنا

اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ اعتکاف کے لیے رمضان کا آخری عشرہ ضروری نہیں۔ گو آخری عشرے میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔

حدیث نمبر : 2044
حدثنا عبد الله بن أبي شيبة، حدثنا أبو بكر، عن أبي حصين، عن أبي صالح، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يعتكف في كل رمضان عشرة أيام، فلما كان العام الذي قبض فيه اعتكف عشرين يوما‏.‏
ہم سے عبد اللہ بن ابی شبیہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوبکر بن عیاش نے بیان کیا، ان سے ابوحصین عثمان بن عاصم نے، ان سے ابوصالح سمان نے او ران سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان میں دس دن کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ لیکن جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف کیا تھا۔

ابن بطال نے کہا اس سے یہ نکلتا ہے کہ اعتکاف سنت موکدہ ہے، اور ابن منذر نے ابن شہاب سے نکالا کہ مسلمانوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے اعتکاف کرنا چھوڑ دیا، حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب سے مدینہ میں تشریف لائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک اعتکاف تر ک نہیں فرمایا تھا۔ اس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف اس لیے کیا کہ آپ کو معلوم ہو گیا تھا کہ اب وفات قریب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : اعتکاف کا قصد کیا لیکن پھر مناسب یہ معلوم ہوا کہ اعتکاف نہ کریں تو یہ بھی درست ہے

حدیث نمبر : 2045
حدثنا محمد بن مقاتل أبو الحسن، أخبرنا عبد الله، أخبرنا الأوزاعي، قال حدثني يحيى بن سعيد، قال حدثتني عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكر أن يعتكف العشر الأواخر من رمضان، فاستأذنته عائشة فأذن لها، وسألت حفصة عائشة أن تستأذن لها ففعلت فلما رأت ذلك زينب ابنة جحش أمرت ببناء فبني لها قالت وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا صلى انصرف إلى بنائه فبصر بالأبنية فقال ‏"‏ما هذا‏"‏‏. ‏ قالوا بناء عائشة وحفصة وزينب‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏آلبر أردن بهذا ما أنا بمعتكف‏"‏‏. ‏ فرجع، فلما أفطر اعتكف عشرا من شوال‏.‏
ہم سے محمد بن مقاتل ابوالحسن نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں اوزاعی نے خبردی، کہا کہ مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمرو بنت عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کے لیے ذکر کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی۔ آپ نے انہیں اجازت دے دی، پھر حفصہ رضی اللہ عنہا نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ ان کے لیے بھی اجازت لے دیں چنانچہ انہوں نے ایسا کر دیا۔ جب زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو انہوں نے بھی خیمہ لگانے کے لیے کہا، اور ان کے لیے بھی خیمہ لگا دیا گیا۔ انہوں نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے بعد اپنے خیمہ میں تشرف لے جاتے آج آپ کو بہت خیمے دکھائی دیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرایا کہ یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ عائشہ، حفصہ، اور زینب رضی اللہ عنھن کے خیمے ہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ، بھلا کیا ان کی ثواب کی نیت ہے اب میں بھی اعتکاف نہیں کروں گا۔ پھر جب ماہ رمضان ختم ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال میں اعتکاف کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاعتکاف
باب : اعتکاف والا دھونے کے لیے اپنا سر گھر میں داخل کرتاہے

حدیث نمبر : 2046
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا هشام، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها كانت ترجل النبي صلى الله عليه وسلم وهي حائض وهو معتكف في المسجد وهى في حجرتها، يناولها رأسه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ وہ حائضہ ہوتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف میں ہوتے تھے، پھر بھی وہ آپ کے سر میں اپنے حجرہ ہی میں کنگھا کرتی تھیں۔ آپ اپنا سر مبارک ان کی طرف بڑھا دیتے۔

تشریح : امام بخاری رحمۃ اللہ نے بذیل مسائل تروایح، و لیلۃ القدر اور اعتکاف یہاں کل انتالیس حدیثوں کو نقل فرمایا۔ جن میں مرفوع، معلق، مکرر جملہ احادیث شامل ہیں۔ کچھ صحابہ کرام اور تابعین عظام کے آثار بھی آپ نے ذکر فرمائے، چونکہ ایمان اور ارکان خمسہ کے بعد اولین چیز جو ہر مسلمان کے لیے بے حد ضروری ہے وہ طلب رزق حلال ہے۔ جس کا بہترین ذریعہ تجارت ہے، اس لیے اب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب البیوع کو شروع فرمایا، رزق کی تلاش کے لیے تجارت کو اولین ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ تجارت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ قرآن مجید میں بھی لفظ تجارت مختلف مقاصد کے لیے بولا گیا ہے جو تاجر امانت و دیانت کے ساتھ تجارت کرتے ہیں ان کے لیے بہت کچھ بشارتیں وارد ہوئی ہیں جن میں کچھ یہاں بھی ملاحظہ میں آئیں گی۔ ان شاءاللہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب البیوع


صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : خر یدو فروخت کے مسائل کے بیان میں

وقول الله عز وجل ‏{‏وأحل الله البيع وحرم الربا‏}‏
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ ” اللہ نے تمہارے لیے خرید و فروخت حلال کی اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ “

وقوله ‏{‏إلا أن تكون تجارة حاضرة تديرونها بينكم‏}‏‏.‏
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ” مگر جب نقد سودا ہو تو اس ہاتھ سے دو اس ہاتھ لو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : حلال کھلا ہوا ہے او رحرام بھی کھلا ہوا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ شک و شبہ والی چیزیں بھی ہیں

مشتبہات وہ ہیں جن کی حلت یا حرمت کے بارے میں ہم کو قرآن و حدیث میں کوئی واضح ہدایت نہ ملے۔ کچھ وجوہ ان میں حلال ہونے کے نظر آئیں، کچھ حرام ہونے کے۔ ان حالات میں ایسی چیزوں سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے یہی باب کا مقصد ہے۔

حدیث نمبر : 2051
حدثني محمد بن المثنى، حدثنا ابن أبي عدي، عن ابن عون، عن الشعبي، سمعت النعمان بن بشير ـ رضى الله عنه ـ سمعت النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا ابن عيينة، عن أبي فروة، عن الشعبي، قال سمعت النعمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابن عيينة، عن أبي فروة، سمعت الشعبي، سمعت النعمان بن بشير ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن أبي فروة، عن الشعبي، عن النعمان بن بشير ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏الحلال بين، والحرام بين وبينهما أمور مشتبهة، فمن ترك ما شبه عليه من الإثم كان لما استبان أترك، ومن اجترأ على ما يشك فيه من الإثم أوشك أن يواقع ما استبان، والمعاصي حمى الله، من يرتع حول الحمى يوشك أن يواقعه‏"‏‏.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے، ان سے شعبی نے، انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ( دوسری سند امام بخاری نے کہا ) اور ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوفروہ نے، ان سے شعبی نے، کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا، اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( تیسری سند ) او رہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوفروہ نے، انہوں نے شعبی سے سنا، انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا او رانہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( چوتھی سند ) او رہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبردی، انہیں ابوفروہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال بھی کھلا ہوا ہے اورحرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ پس جو شخص ان چیزوں کو چھوڑے جن کے گناہ ہونے یا نہ ہونے میں شبہ ہے وہ ان چیزوں کو تو ضروری ہی چھوڑ دے گا جن کا گناہ ہونا ظاہر ہے لیکن جو شخص شبہ کی چیزوں کے کرنے کی جرات کرے گا تو قریب ہے کہ وہ ان گناہوں میں مبتلا ہو جائے جو بالکل واضح طو رپر گناہ ہیں ( لوگو یاد رکھو ) گناہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہ ہے جو ( جانور بھی ) چراگاہ کے ارد گرد چرے گا اس کا چراگاہ کے اندر چلا جانا غیر ممکن نہیں۔

تشریح : عہد جاہلیت میں عربی شیوخ و امراءاپنی چراگاہیں مخصوص رکھا کرتے تھے ان میں کوئی غیر آدمی اپنے جانوروں کو نہیں داخل کرسکتا تھا۔ اس لیے غریب لوگ ان چراگاہوں کے قریب بھی نہ جاتے کہ مبادا ان کے جانور اس میں داخل ہو جائیں اور وہ سخت ترین سزاؤں کے مستحق گردانے جائیں۔ حدود اللہ کو بھی ایسی ہی چراگاہوں سے تشبیہ دی گئی اور قرآن مجید کی متعدد آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ حدود اللہ کے قریب بھی نہ جاؤ کہ کہیں ان کے توڑنے کے مرتکب ہو کر عنداللہ مجرم ٹھہرو۔ حدیث ہذا میں معاصی کو اللہ کی چراگاہ بتلایا گیا ہے۔ جو معاصی سے دور رہنے کے لیے ایک انتہائی تنبیہ ہے۔ ان سے بچنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حلال اورحرام کے درمیان جو امور مشتبہات ہیں ان سے بھی پرہیز کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ ان کے ارتکاب سے فعل حرام ہی کا ارتکاب ہو جائے، اس لیے جو مشتبہات سے بچ گیا وہ سلامت رہا۔ حرمات اللہ کی چراگاہوں سے تشبیہ زجر وتوبیخ کے لیے ہے کہ جس طرح امراءو زمیندار لوگوں کی مخصوص چراگاہوں میں داخل ہوجانے والے اور اپنے جانوروں کو وہاں چگانے والوں کو انتہائی سنگین سزا دی جاسکتی ہے۔ ایسے ہی جو لوگ حدود اللہ کو توڑنے اور اللہ کی چراگاہ یعنی امور حرام میں واقع ہوجاتے ہیں۔ وہ آخرت میں سخت ترین سزا کے مستحق ہوں گے۔ اور افعال مشتبہات سے پرہیز بھی اسی بنا پر ضروری ہے کہ مبادا کوئی شخص امو رحرام کا مرتکب ہو کر عذاب الیم کا مستحق نہ ہو جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق احادیث کہ

قول الله تعالى ‏{‏فإذا قضيت الصلاة فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل الله واذكروا الله كثيرا لعلكم تفلحون * وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما قل ما عند الله خير من اللهو ومن التجارة والله خير الرازقين‏}‏
پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ ( یعنی رزق حلال کی تلاش میں اپنے کارو بار کو سنبھال لو ) اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو، اور اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرو، تاکہ تمہارا بھلا ہو۔ اور جب انہوں نے سودا بکتے دیکھا یا کوئی تماشا دیکھا تو اس کی طرف متفرق ہو گئے اور تجھ کو کھڑا چھوڑ دیا۔ تو کہہ دے کہ جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ تماشے اور سوداگری سے بہتر ہے اور اللہ ہی ہے بہتر روزی رز ق دینے والا۔ “

وقوله ‏{‏لا تأكلوا أموالكم بينكم بالباطل إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم‏}‏‏.‏
اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ” تم لوگ ایک دوسرے کا مال غلط طریقوں سے نہ کھاؤ، مگر یہ کہ تمہارے درمیان کوئی تجارت کا معاملہ ہو تو آپس کی رضامندی کے ساتھ ( معاملہ ٹھیک ہے )۔ “

تشریح : بیوع بیع کی جمع ہے جو باب ضرب یضرب سے معتل یائی ہے جس کے معنی خرید و فروخت کے ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی اللہ اور اس کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی پاکیزہ ہدایات دی ہیں۔ بیچنے والوں کو عام طور پر لفظ تاجر سے یاد کیا جاتا ہے۔ قیس بن ابی غزرہ سے روایت ہے قال خرج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و نحن نسمی السماسرۃ فقال یا معشر التجار و فی روایۃ ابی داود فمر بنا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فسمانا باسم ہو احسن منہ فقال یا معشر التجار ان الشیطان و الاثم یحضران البیع فشوبوا بیعکم بالصدقۃ ( رواہ الترمذی ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں پر گزرے جب کہ عام طور پر ہم کو لفظ سماسرہ ( سوداگران ) سے پکا رجاتا تھا۔ آپ نے ہم کو بہتر نئے نام سے موسوم فرمایا، اور یوں ارشاد ہوا کہ ”اے تاجروں کی جماعت بے شک شیطان اور گناہ خرید وفروخت میں حاضر ہوتے رہتے ہیں۔ اس لیے اپنے بیع کے ساتھ صدقہ خیرات کو بھی شامل کرلو، تاکہ ان اغلاط کا کچھ کفارہ بھی ساتھ ہی ساتھ ہوتا رہے !

تجارت کی فضیلت میں حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا التاجر الصدوق الامین مع النبیین و الصدیقین و الشہداء ( رواہ الترمذی ) امانت اور صداقت کے ساتھ تجارت کرنے والا مسلمان قیامت کے دن انبیاءاور صدیقین اور شہداءکے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ اس لیے کہ امانت اور دیانت کے ساتھ تجارت کرنا بھی اتنا ہی کٹھن کام ہے جتنا کہ انبیاءو صدیقین اور شہداءکا مشن کٹھن ہوتا ہے۔ عن اسماعیل بن عبید بن رفاعۃ عن ابیہ عن جدہ انہ خرج مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم الی المصلی فرای الناس یتبایعون فقال یا معشر التجار فاستجابوا لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و رفعوا اعناقہم و ابصارہم الیہ فقال ان التجار یبعثون یوم القیامۃ فجاراً الا من اتقی و بر و صدق ( رواہ الترمذی ) یعنی ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے نکلے کہ آپ نے راستے میں خرید و فروخت کرنے والوں کو دیکھا فرمایا کہ اے تاجروں کی جماعت ! ان سب نے آ پ کی طرف اپنی گردنوں اور آنکھوں کو اٹھایا۔ اور آپ کی آواز پر لبیک کہا۔ آپ نے فرمایا کے بے شک تاجر لوگ قیامت کے دن فاسق و فاجر لوگوں میں اٹھائے جائیں گے۔ مگر جس نے اس پیشہ کو اللہ کے خوف کے تحت سچائی اور نیک شعاری کے ساتھ انجام دیا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا تین آدمی ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا، نہ ان کو گناہ سے پاک کرے گا اور ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہوگا۔ ان میں اول نمبر احسان جتلانے والا، دوسرے نمبر پر اپنے پاجامہ تہبند کو فخریہ ٹخنوں سے نیچے گھیسٹنے والا، تیسرا اپنے مال کو جھوٹی قسمیں کاکھا کر فروخت کرنے والا۔

حضرت مولانا عبدالرحمن مبارکپوری مرحوم فرماتے ہیں قال القاضی لما کان من دیدن التجار التدلیس فی المعاملات و التہالک علی تزویج السلع بما تیسر لہم من الایمان الکاذبۃ و نحوہا حکم علیم بالفجور و استثنی منہم من اتقی المحارم و بر فی یمینہ و صدق فی حدیثہ و الی ہذا ذہب الشارحون و حملوا الفجور علی اللغو والحلف کذا فی المرقاۃ ( تحفۃ الاحوذی )

یعنی قاضی نے کہا کہ معاملات میں دھوکا دینا اور مال نکالنے کے لیے جھوٹی قسمیں کھا کھا کر ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرنا تاجروں کا عام شیوہ ہے۔ اسی لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر فاجر ہونے کا حکم فرمایا، مگر ان کو مستثنیٰ فرمایا جو حرام سے بچیں اور قسم میں سچائی کو سامنے رکھیں۔ اور اکثر شارح ادھر ہی گئے ہیں کہ فجور سے لغویات اور جھوٹی قسم کھانا مرا دہیں۔

حدیث نمبر : 2047
حدثنا أبو اليمان، حدثنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سعيد بن المسيب، وأبو سلمة بن عبد الرحمن أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال إنكم تقولون إن أبا هريرة يكثر الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ وتقولون ما بال المهاجرين والأنصار لا يحدثون عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثل حديث أبي هريرة وإن إخوتي من المهاجرين كان يشغلهم صفق بالأسواق، وكنت ألزم رسول الله صلى الله عليه وسلم على ملء بطني، فأشهد إذا غابوا وأحفظ إذا نسوا، وكان يشغل إخوتي من الأنصار عمل أموالهم، وكنت امرأ مسكينا من مساكين الصفة أعي حين ينسون، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في حديث يحدثه ‏"‏إنه لن يبسط أحد ثوبه حتى أقضي مقالتي هذه، ثم يجمع إليه ثوبه إلا وعى ما أقول‏"‏‏. ‏ فبسطت نمرة على، حتى إذا قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم مقالته جمعتها إلى صدري، فما نسيت من مقالة رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك من شىء‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، ان سے شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ ابوہریر رضی اللہ عنہ نے کہا، تم لوگ کہتے ہو کہ ابوہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بہت زیادہ بیان کرتا ہے، او ریہ بھی کہتے ہو کہ مہاجرین و انصار ابوہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) کی طرح کیوں حدیث نہیں بیان کرتے؟ اصل وجہ یہ ہے کہ میرے بھائی مہاجرین بازار کی خرید و فروخت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اور میں اپنا پیٹ بھرنے کے بعد پھر برابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا، اس لیے جب یہ بھائی غیر حاضر ہوتے تو میں اس وقت بھی حاضر رہتا اور میں ( وہ باتیں آپ سے سن کر ) یاد کر لیتا جسے ان حضرات کو ( اپنے کاروبار کی مشغولیت کی وجہ سے یا تو سننے کا موقعہ نہیں ملتا تھا یا ) وہ بھول جایا کرتے تھے۔ اسی طرح میرے بھائی انصار اپنے اموال ( کھیتوں اور باغوں ) میں مشغول رہتے، لیکن میں صفہ میں مقیم مسکینوں میں سے ایک مسکین آدمی تھا۔ جب یہ حضرات انصار بھولتے تو میں اسے یاد رکھتا۔ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو کوئی اپنا کپڑا پھیلائے اور اس وقت تک پھیلائے رکھے جب تک اپنی یہ گفتگو نہ پوری کرلوں، پھر ( جب میری گفتگو پوری ہوجائے تو ) اس کپڑے کو سمیٹ لے تو وہ میری باتوں کو ( اپنے دل و دماغ میں ہمیشہ ) یاد رکھے گا، چنانچہ میں نے اپنا کمبل اپنے سامنے پھیلا دیا، پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم نے اپنا مقالہ مبارک ختم فرمایا، تو میں نے اسے سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کے بعد پھر کبھی میں آپ کی کوئی حدیث نہیں بھولا۔

تشریح : قریش کا پیشہ تجارت تھا، اور اہل مدینہ کاشتکار تھے۔ جب مہاجرین مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے اپنا آبائی پیشہ تجارت ہی زیادہ پسند فرمایا اور کسب معاش کے سلسلہ میں انصار اور مہاجرین سب ہی اپنے دھندوں میں مشغول رہا کرتے تھے مگر اصحاب صفہ خالص تعلیم دین ہی کے لیے وقف تھے۔ جن کا کوئی دنیاوی مشغلہ نہ تھا۔ ان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ شوقین بلکہ علوم قرآن وحدیث پر اس درجہ فدا کہ اکثر اوقات اپنی شکم پری سے بھی غافل ہوجاتے اور فاقہ در فاقہ کرتے ہوئے جب غشی طاری ہونے لگتی تب ان کو بھوک یاد آتی۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو یہاں یہ بتلانے کے لیے لائے ہیں کہ تجارت بیع و شراء اور کھیتی باڑی بلکہ سب دنیاوی کاروبار ضروریات زندگی سے ہیں۔ جن کے لیے اسلام نے بہترین اصول اور ہدایات پیش کی ہیں اور اس سلسلہ میں ہر ممکن ترقی کے لیے رغبت دلائی ہے جس کا زندہ ثبوت وہ انصار اور مہاجرین ہیں جنہوں نے عہد رسالت میں تجارت اور زراعت میں قابل رشک ترقی حاصل کی اور تجارت و کھیتی و باغبانی میں بھی وہ دنیا کے لیے ایک مثال بن گئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ محض دینی طالب تم تھے اور دنیاوی کاروبار سے ان کو کچھ لگاؤ نہ تھا اس لیے یہ ہزارہا حدیث نبوی کے حافظ ہوئے۔ اس حدیث سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ بھی ثابت ہوا کہ حسب ہدایات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر دل پذیر کے وقت اپنا کمبل پھیلا دیا اور بعد میں وہ کمبل سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا، جس سے ان کا سینہ روشن ہو گیا اور بعد میں وہ حفاظ حدیث میں سب سے سبقت لے گئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ آمین

حدیث نمبر : 2048
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن أبيه، عن جده، قال قال عبد الرحمن بن عوف ـ رضى الله عنه ـ لما قدمنا المدينة آخى رسول الله صلى الله عليه وسلم بيني وبين سعد بن الربيع فقال سعد بن الربيع إني أكثر الأنصار مالا، فأقسم لك نصف مالي، وانظر أى زوجتى هويت نزلت لك عنها، فإذا حلت تزوجتها‏.‏ قال فقال عبد الرحمن لا حاجة لي في ذلك، هل من سوق فيه تجارة قال سوق قينقاع‏.‏ قال فغدا إليه عبد الرحمن، فأتى بأقط وسمن ـ قال ـ ثم تابع الغدو، فما لبث أن جاء عبد الرحمن عليه أثر صفرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏تزوجت‏"‏‏. ‏ قال نعم‏.‏ قال ‏"‏ومن‏"‏‏. ‏ قال امرأة من الأنصار‏.‏ قال ‏"‏كم سقت‏"‏‏. ‏ قال زنة نواة من ذهب أو نواة من ذهب‏.‏ فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏أولم ولو بشاة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، ان سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے دادا ( ابرہیم بن عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ) نے بیان کیا کہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب ہم مدینہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے اور سعد بن ربیع انصاری کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا۔ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں انصار کے سب سے زیادہ مالدار لوگوں میں سے ہوں۔ اس لیے اپنا آدھا مال میں آپ کو دیتا ہوں اور آپ خود دیکھ لیں کہ میری دو بیویوں میں سے آپ کو کون زیادہ پسند ہے۔ میں آپ کے لیے انہیں اپنے سے الگ کردوں گا ( یعنی طلاق دے دوں گا ) جب ان کی عدت پوری ہوجائے تو آپ ان سے نکاح کر لیں۔ بیان کیا کہ اس پر عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے ان کی ضرور ت نہیں۔ کیا یہاں کوئی بازار ہے جہاں کاروبار ہوتا ہو؟ سعد رضی اللہ عنہ نے ” سوق قینقاع “ کا نام لیا۔ بیان کیا کہ جب صبح ہوئی تو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ پنیر اور گھی لائے۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ تجارت کے لیے بازا ر آنے جانے لگے۔ کچھ دنوں کے بعدایک دن وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو زرد رنگ کا نشان ( کپڑے یا جسم پر ) تھا۔ رسول اللہ نے دریافت فرمایا کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کس سے؟ بولے کہ ایک انصاری خاتون سے۔ دریافت فرمایا اور مہر کتنا دیا ہے؟ عرض کیا کہ ایک گٹھلی برابر سونا دیا ہے یا ( یہ کہا کہ ) سونے کی ایک گٹھلی دی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اچھا تو ولیمہ کر خواہ ایک بکری ہی کا ہو۔

حدیث نمبر : 2049
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا حميد، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال قدم عبد الرحمن بن عوف المدينة فآخى النبي صلى الله عليه وسلم بينه وبين سعد بن الربيع الأنصاري، وكان سعد ذا غنى، فقال لعبد الرحمن أقاسمك مالي نصفين، وأزوجك‏.‏ قال بارك الله لك في أهلك ومالك، دلوني على السوق‏.‏ فما رجع حتى استفضل أقطا وسمنا، فأتى به أهل منزله، فمكثنا يسيرا ـ أو ما شاء الله ـ فجاء وعليه وضر من صفرة، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏مهيم‏"‏‏. ‏ قال يا رسول الله تزوجت امرأة من الأنصار‏.‏ قال ‏"‏ما سقت إليها‏"‏‏. ‏ قال نواة من ذهب، أو وزن نواة من ذهب‏.‏ قال ‏"‏أولم ولو بشاة‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، ان سے زہیر نے بیان کیا، ان سے حمید نے بیان کیا او ران سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھائی چارہ سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ سے کرا دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ مالدار آدمی تھے۔ انہوں نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے کہا میں اور آپ میرے مال سے آدھا آدھا لے لیں۔ اور میں ( اپنی ایک بیوی سے ) آپ کی شادی کرادوں۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں کہا اللہ تعالیٰ آپ کے اہل اور آپ کے مال میں برکت عطا فرمائے، مجھے تو آپ بازار کا راستہ بتادیجئے، پھر وہ بازار سے اس وقت تک واپس نہ ہوئے جب تک نفع میں کافی پنیر اور گھی نہ بچا لیا۔ اب وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئے کچھ دن گزرے ہوں گے یا اللہ نے جتنا چاہا۔ اس کے بعد وہ آئےے کہ ان پر زردی کا نشان تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ زردی کیسی ہے؟ عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ انہیں مہر میں کیا دیا ہے؟ عرض کیا ” سونے کی ایک گٹھلی “ یا ( یہ کہا کہ ) ” ایک گٹھلی برابر سونا “ آپ نے فرمایا کہ اچھا اب ولیمہ کر، اگرچہ ایک بکری ہی کا ہو۔

تشریح : حدث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہاں اس حدیث کے لانے سے یہ ہے کہ عہد نبوی میں مدینہ منورہ میں اہل اسلام تجارت کیا کرتے تھے۔ اور ان کا بہترین پیشہ تجارت ہی تھا۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو قریشی ہیں ہجرت فرما کر جب مدینہ آئے تو انہوں نے غور و فکر کے بعد اپنے قدیمی پیشہ تجارت ہی کو یہاں بھی اپنایا اور اپنے اسلامی بھائی سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنہوں نے اپنی آدھی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کی پیش کش کی تھی بازار کا راستہ لیا۔ اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر آپ نے تیل اور گھی کا کاروبار شروع کیا، اللہ نے آپ کو تھوڑی ہی مدت میں ایسی کشادگی عطا فرمائی کہ آپ نے ایک انصاری عورت سے اپنا عقد بھی کر لیا۔

حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میںسے ہیں۔ یہ شروع دور میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبت سے داخل اسلام ہوئے اور دو مربتہ حبش کی طرف ہجرت بھی کی۔ تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ طویل القامت گورے رنگ والے تھے۔ غزوہ احد میں ان کے بدن پر بیس سے زائد زخم لگے تھے۔ جن کی وجہ سے پیروں میں لنگ پیدا ہو گئی تھی۔ یہ مدینہ میں بہت ہی بڑے مالدار مسلمان تھے اور رئیس التجار کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی سخاوت کے بھی کتنے ہی واقعات مذکو رہیں۔ 72 سال کی عمر میں32ھ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔
انہوں نے مہر میں اپنی بیوی کو نواۃ من الذہب یعنی سونے کی ایک گٹھلی دی جس کا وزن 5 درہم سے زائد بھی ممکن ہے۔ اس حدیث سے ولیمہ کرنے کی تاکید بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ولیمہ میں بکرے یا بکری کا ذبیحہ بہتر ہے۔ زرد رنگ شاید کسی عطر کا ہو یا کسی ایسی مخلوط چیز کا جس میں کوئی زرد قسم کی چیز بھی شامل ہو اور آپ نے اس سے غسل وغیرہ کیا ہو۔

حدیث نمبر : 2052
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كانت عكاظ ومجنة وذو المجاز أسواقا في الجاهلية، فلما كان الإسلام فكأنهم تأثموا فيه فنزلت ‏{‏ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم ‏}‏ في مواسم الحج، قرأها ابن عباس‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عکاظ مجنہ، اور ذو المجاز عہد جاہلیت کے بازار تھے۔ جب اسلام آیا تو ایسا ہوا کہ مسلمان لوگ ( خرید و فروخت کے لیے ان بازاروں میں جانا ) گناہ سمجھنے لگے۔ اس لیے یہ آیت نازل ہوئی ” تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں اگر تم اپنے رب کے فضل ( یعنی رزق حلال ) کی تلاش کرو حج کے موسم میں “ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرات ہے۔

تشریح : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرات میں آیت کریمہ لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم سے آگے فی موسم الحج کے لفظ زائد ہیں۔ مگر عام قراتوں میں یہ زائد لفظ نہیں ہیں یا شاید یہ منسوخ ہو گئے ہوں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نسخ کا علم نہ ہو سکا ہو۔ حدیث میں زمانہ جاہلیت کی منڈیوں کا ذکرہے۔ اسلام نے اپنے عہد میں تجارتی منڈیوں کو ترقی دی، اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مگر خرافات اور مکر و فریب والوں کے لیے بازار سے بدتر کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : ملتی جلتی چیزیں یعنی شبہ والے امور کیا ہیں؟

وقال حسان بن أبي سنان ما رأيت شيئا أهون من الورع، دع ما يريبك إلى ما لا يريبك‏.‏
اور حسان بن ابی سنان نے کہا کہ ” ورع “ ( پرہیزگاری ) سے زیادہ آسان کوئی چیز میں نے نہیں دیکھی، بس شبہ کی چیزوں کو چھوڑ اور وہ راستہ اختیار کر جس میں کوئی شبہ نہ ہو۔

حدیث نمبر : 2052
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، أخبرنا عبد الله بن عبد الرحمن بن أبي حسين، حدثنا عبد الله بن أبي مليكة، عن عقبة بن الحارث ـ رضى الله عنه ـ أن امرأة، سوداء جاءت، فزعمت أنها أرضعتهما، فذكر للنبي فأعرض عنه، وتبسم النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ قال ‏"‏كيف وقد قيل‏"‏‏. ‏ وقد كانت تحته ابنة أبي إهاب التميمي‏.‏
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ ایک سیاہ فام خاتون آئیں اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے ان دونوں ( عقبہ او ران کی بیوی ) کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے اس امر کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا او رمسکرا کر فرمایا۔ اب جب کہ ایک بات کہہ دی گئی تو تم دونوں ایک ساتھ کس طرح رہ سکتے ہو۔ ان کے نکاح میں ابواہاب تمیمی کی صاحب زادی تھیں۔

تشریح : ترمذی کی روایت میں ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ جھوٹی ہے، آپ نے منہ پھیر لیا، پھر آپ کے منہ کے سامنے آیا اور عرض کی یا رسول اللہ ! وہ جھوٹی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اب تو اس عورت کو کیسے رکھ سکتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ یہ حدیث اوپر کتاب العلم میں گزر چکی ہے۔ یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس لیے لائے کہ گو اکثر علماءکے نزدیک رضاع ایک عورت کی شہادت سے ثابت نہیں ہوسکتا مگر شبہ تو ہو جاتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شبہ کی بنا پر عقبہ رضی اللہ عنہ کو یہ صلاح دی کہ اس عورت کو چھوڑ دے۔ معلوم ہوا کہ اگر شہادت کامل نہ ہو یا شہاد ت کے شرائط میں نقص ہو تو معاملہ مشتبہ رہتا ہے لیکن مشتبہ سے بچے رہنا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ ہمارے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تو رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔ ( وحیدی )

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
و وجہ الدلالۃ منہ قولہ کیف و قد قیل یشعر بان امرہ بفراق امراتہ انما کان لاجل قول المراۃ انہا رضعتہما فاحتمل ان یکون صحیحاً فیرتکب الحرام فامرہ بفراقہا احتیاطا علی قول الاکثر و قیل بل قبل شہادۃ المراۃ وحدہا علی ذلک یعنی ارشاد نبوی کیف قیل سے مقصد باب ثابت ہوتاہے جس سے ظاہرہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ رضی اللہ عنہ کو اس عورت سے جدائی کا حکم صادر فرمایا۔ دودھ پلانے کی دعوے دار عورت کے اس بیان پر کہ میں نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ احتمال ہے کہ اس عورت کا بیان صحیح ہو اور عقبہ حرام کا مرتکب ہو۔ اس لیے احتیاطاً جدائی کا حکم دے دیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس عورت کی شہادت کو قبول فرما لیا، اور اس بارے میں ایک ہی شہادت کو کافی سمجھا۔ حضرت امام نے اس واقعہ سے بھی یہ ثابت فرمایا ہے کہ مشتبہ امور میں ان سے پرہیز ہی کا راستہ سلامتی اور احتیاط کا راستہ ہے۔

حدیث نمبر : 2053
حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت كان عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبي وقاص أن ابن وليدة زمعة مني فاقبضه‏.‏ قالت فلما كان عام الفتح أخذه سعد بن أبي وقاص وقال ابن أخي، قد عهد إلى فيه‏.‏ فقام عبد بن زمعة، فقال أخي، وابن وليدة أبي، ولد على فراشه‏.‏ فتساوقا إلى النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال سعد يا رسول الله، ابن أخي، كان قد عهد إلى فيه‏.‏ فقال عبد بن زمعة أخي وابن وليدة أبي، ولد على فراشه‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏هو لك يا عبد بن زمعة‏"‏‏. ‏ ثم قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏الولد للفراش، وللعاهر الحجر‏"‏‏. ‏ ثم قال لسودة بنت زمعة زوج النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏احتجبي منه‏"‏‏. ‏ لما رأى من شبهه بعتبة، فما رآها حتى لقي الله‏.‏
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص ( کافر ) نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ( مسلمان ) کو ( مرتے وقت ) وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے۔ اس لیے اسے تم اپنے قبضہ میں لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ فتح مکہ کے سال سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے اسے لے لیا، اور کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور وہ اس کے متعلق مجھے وصیت کر گئے ہیں، لیکن عبد بن زمعہ نے اٹھ کر کہا کہ میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے، میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر دونوں یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور مجھے اس کی انہوں نے وصیت کی تھی۔ اور عبد بن زمعہ نے عرض کیا، یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے۔ انہیں کے بستر پر اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبد بن زمعہ ! لڑکا تو تمہارے ہی ساتھ رہے گا۔ اس کے بعد فرمایا، بچہ اسی کا ہوتا ہے جو جائز شوہر یا مالک ہو جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہو۔ اور حرام کار کے حصہ میں پتھر وں کی سزا ہے۔ پھر سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کیا کر، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی شباہت اس لڑکے میں محسوس کر لی تھی۔ اس کے بعد اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہ کو کبھی نہ دیکھا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملا۔

تشریح : روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی تفصیل یہ کہ عتبہ بن ابی وقاص حضرت سعد بن ابی وقاص مشہور صحابی کا بھائی تھا۔ عتبہ اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے تھا اور کفر ہی پر اس کی موت ہوئی، زمعہ نامی ایک شخص کی لونڈی سے اسی عتبہ نے زنا کیا اور وہ حاملہ ہو گئی۔ عتبہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بھائی حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل مجھ سے ہے۔ لہٰذا اس کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہو اس کو تم اپنی تحویل میں لے لینا، چنانچہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے لڑکا پیدا ہوا۔ اور وہ ان ہی کے ہاں پرورش پاتا رہا۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے چاہا کہ اپنے بھائی کی وصیت کے تحت اس بچہ کو اپنی پرورش میں لے لیں۔ مگر زمعہ کا بیٹا عبد بن زمعہ کہنے لگا کہ یہ میرے والد کی لونڈی کا بچہ ہے۔ اس لیے اس کا وارث میں ہوں جب یہ مقدمہ عدالت نبوی میں پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قانون پیش فرمایا کہ ”الولد للفراش و للعاہر الحجر“ بچہ اسی کا گردانا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے فرد کے زنا کا نتیجہ ہے۔ اس فرد کے حصہ میں شرعی سنگساری ہے۔ اس قانون کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ عبد بن زمعہ ہی کو دے دیا، مگر بچہ کی مشابہت عتبہ بن ابی وقاص ہی سے تھی، اس لیے اس شبہ کی بناءپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ وہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناطے بظاہر اس لڑکے کی بہن تھیں۔ مگر لڑکا مشتبہ ہو گیا لہٰذا مناسب ہوا کہ وہ اس سے غیروں کی طرح پردہ کریں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سودہ رضی اللہ عنہا کو پردہ کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطا دیا گیا تھا کہ باندی کے ناجائز تعلقات عتبہ سے تھے اور بچے میں اسی کی شباہت تھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد مشتبہات کی تفسیر اور ان سے بچنے کا حکم ثابت فرمانا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و وجہ الدلالۃ منہ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم احتجبی منہ یا سودۃ مع حکمہ بانہ اخوہا لابیہا لکن لما رای الشبہ البین فیہ من غیر زمعہ امر سودۃ بالاحتجاب منہ احتیاطا فی قول الاکثر ( فتح الباری ) یعنی یہاں مشتبہات کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد مبارک ہے جو آپ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا کہ بظاہر تمہارا بھائی ہے اور اسلامی قانون بھی اسی کو ثابت کرتا ہے مگر شبہ یقینا ہے کہ یہ عتبہ کا ہی لڑکا ہو جیسا کہ اس میں اس سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ پس بہتر ہے کہ تم اس سے پردہ کرو۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اس ارشاد نبوی پر عمل کیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔

الولد للفراش کا مطلب الوالد لصاحب الفراش یعنی بچہ قانوناً اسی کا تسلیم کیا جائے گا جو اس بستر کا مالک ہے جس پر بچہ پیدا ہوا ہے یعنی جو اس کا شرعی و قانونی مالک یا خاوند ہے۔ بچہ اسی کا مانا جائے گا اگرچہ وہ کسی دوسرے کے نطفہ ہی سے کیوں نہ ہو اگر ایسا مقدمہ ثابت ہو جائے تو پھر زانی کے لیے محض سنگساری ہے۔

حدیث نمبر : 2054
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، قال أخبرني عبد الله بن أبي السفر، عن الشعبي، عن عدي بن حاتم ـ رضى الله عنه ـ قال سألت النبي صلى الله عليه وسلم عن المعراض فقال ‏"‏إذا أصاب بحده فكل، وإذا أصاب بعرضه فلا تأكل، فإنه وقيذ‏"‏‏. ‏ قلت يا رسول الله أرسل كلبي وأسمي، فأجد معه على الصيد كلبا آخر لم أسم عليه، ولا أدري أيهما أخذ‏.‏ قال ‏"‏لا تأكل، إنما سميت على كلبك ولم تسم على الآخر‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ابی سفر نے خبر دی، انہیں شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ” معراض “ ( تیر کے شکار ) کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس کے دھار کی طرف سے لگے تو کھا۔ اگر چوڑائی سے لگے تو مت کھا۔ کیوں کہ وہ مردار ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اپنا کتا ( شکار کے لیے ) چھوڑتا ہوں اور بسم اللہ پڑھ لیتا ہوں، پھر اس کے ساتھ مجھے ایک ایسا کتا او رملتا ہے جس پر میں نے بسم اللہ نہیں پڑھی ہے۔ میں یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ دونوں میں کون سے کتے نے شکار پکڑا۔ آپ نے فرمایا، ایسے شکار کا گوشت نہ کھا۔ کیوں کہ تو نے بسم اللہ تو اپنے کتے کے لیے پڑھی ہے۔ دوسرے کے لیے تو نہیں پڑھی۔

تشریح : چوڑائی سے لگنے کا مطلب یہ ہے کہ تیر کی لکڑی آڑی ہو کر شکار کے جانور پر لگے۔ اور بوجھ اور صدمے سے وہ مر جائے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اس حدیث کو مشتبہات کی تفسیر میں لائے کہ دوسرے کتے کی موجودگی میں شبہ ہو گیا کہ شکار کون سے کتے نے پکڑا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شبہ کو رفع کرنے کے لیے ایسے شکار کے کھانے سے منع فرمادیا۔ عربوں میں شکاری کتوں کو سدھانے کے دستور تھا۔ شریعت اسلامیہ نے اجازت دی کہ ایسا سدھایا ہوا کتا اگر بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا جائے اور وہ شکار کر پکڑ لے اور مالک کے پہنچنے سے پہلے شکار مرجائے تو گویا ایسا شکار حلال ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جس جانور پر بسم اللہ نہ پڑھاجائے وہ حرام اور مردار ہے، اہل حدیث اور اہل ظاہر کا یہی قول ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مسلمان کا ذبیحہ ہر حال میں حلال ہے گو وہ عمداً یا سہواً بسم اللہ چھوڑ دے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ اس جانور میں شبہ پڑ گیا کہ کس کتے نے اس کو مارا۔ اور آپ نے اس کے کھانے سے منع فرمایا تو معلوم ہوا کہ شبہ کی چیزوں سے بچنا چاہئے۔ ( وحیدی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : مشتبہ چیزوں سے پرہیز کرنا

حدیث نمبر : 2055
حدثنا قبيصة، حدثنا سفيان، عن منصور، عن طلحة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال مر النبي صلى الله عليه وسلم بتمرة مسقوطة فقال ‏"‏لولا أن تكون صدقة لأكلتها‏"‏‏. ‏ وقال همام عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏أجد تمرة ساقطة على فراشي‏"‏‏. ‏
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گری ہوئی کھجور پر گزرے، تو آپ نے فرمایا کہ اگر اس کے صدقہ ہونے کا شبہ نہ ہوتا تو میں اسے کھا لیتا۔ او رہمام بن منبہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں اپنے بستر پر پڑی ہوئی ایک کھجور پاتا ہوں۔

یہ کھجور آپ کو اپنے بچھونے پر ملی تھی جیسے اس کے بعد کی روایت میں اس کی تصریح ہے۔ شاید آپ صدقہ کی کھجور بانٹ کر آئے ہوں اور کوئی ان ہی میں سے آپ کے کپڑوں میں لگ گئی ہو اور بچھونے پر گرپڑی ہو یہ شبہ آپ کو معلوم ہوا، اور آپ نے محض اس شبہ کی بنا پر اس کے کھانے سے پرہیز کیا، معلوم ہوا کہ مشتبہ چیز کے کھانے سے پرہیز کرنا کمال تقویٰ اور ورع ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر اپنے منعقدہ باب کے تحت حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث لائے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : دل میں وسوسہ آنے سے شبہ نہ کرنا چاہئیے

یعنی مشتبہ اس چیز کو کہتے ہیں جس کی حلت اور حرمت یا طہارت یا نجاست کے دلائل متعارض ہوں، تو ایسی چیز سے باز رہنا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے اور ایک وسواس ہے کہ خواہ مخواہ بے دلیل ہر چیز میں شبہ کرنا۔ جیسے ایک فرش بچھاہوا ہے تو یہی سمجھیں گے کہ وہ پاک ہے یا ایک شخص نے کچھ خریدا، تو یہی سمجھیں گے کہ حلال طور سے اس کے پاس آیا ہوگا۔ اب خواہ مخواہ اس کے نجس ہونے کا گمان کرنا، یا اس مال کے حرام ہونے کا، یہ وسوسہ ہے، اس سے پرہیز کرنا چاہئے البتہ اگر دلیل سے نجاست یا حرمت معلوم ہوجائے تو اس سے باز رہنا چاہئے۔

حدیث نمبر : 2056
حدثنا أبو نعيم، حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن عباد بن تميم، عن عمه، قال شكي إلى النبي صلى الله عليه وسلم الرجل يجد في الصلاة شيئا، أيقطع الصلاة قال ‏"‏لا، حتى يسمع صوتا أو يجد ريحا‏"‏‏. ‏ وقال ابن أبي حفصة عن الزهري لا وضوء إلا فيما وجدت الريح أو سمعت الصوت‏.‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر آیا جسے نماز میں کچھ شبہ ہوا نکلنے کا ہو جاتا ہے۔ آیا اسے نماز توڑ دینی چاہئے؟ فرمایا کہ نہیں۔ جب تک وہ آواز نہ سن لے یا بدبو نہ محسوس کرلے ( اس وقت تک نماز نہ توڑے ) ابن ابی حفصہ نے زہری سے بیان کیا ( ایسے شخص پر ) وضو واجب نہیں جب تک حدث کی بدبو نہ محسوس کرے یا آواز نہ سن لے۔

تشریح : اس حدیث کے تحت علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قال الغزالی الورع اقسام ورع الصدیقین وہو ترک مالا یتناول بغیر نیۃ القوۃ علی العبادۃ وورع المتقین وہو ترک مالا شبہۃ فیہ ولکن یخشی ان یجر الی الحرام و ورع الصالحین و ہو ترک ما یتطرق الیہ احتمال التحریم بشرط ان یکون لذلک الاحتمال موقع فان لم یکن فہو ورع الموسوسین قال ووراءذلک ورع الشہود و ہو ترک ما یسقط الشہادۃ ای اعم من ان یکون ذلک المتروک حراما ام لا انتہی و غرض المصنف ہنا بیان ورع الموسوسین کمن یمتنع من اکل الصید کان لانسان ثم افلت منہ وکمن یترک شراءما یحتاج الیہ من المجہول لا یدری اما لہ حلال ام حرام و لیست ہناک علامۃ تدل علی الثانی و کمن یترک تناول الشئی لخبر ورد فیہ متفق علی ضعفہ و عدم الاحتجاج بہ و یکون دلیل اباحتہ قویا و تاویلہ ممتنع او مستبعد ( فتح الباری )

یعنی امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ورع کو چار قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک ورع صدیقین کا ہے وہ یہ کہ ان تمام کاموں کو چھوڑ دینا جن کا بطور نیت عبادت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ متقین کا ورع یہ کہ ایسی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا جن کی حلت میں کوئی شبہ نہیں مگر خطرہ ہے کہ ان کو عمل میں لانے سے کہیں حرام تک نوبت نہ پہنچ جائے، اور صالحین کا ورع یہ کہ ایسی چیزوں سے دور رہنا جن میں حرمت کے احتمال کے لیے کوئی بھی موقع نکل سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ وسواسیوں کا ورع ہے اور ان کے علاوہ ایک ورع الشہود ہے جس کے ارتکاب سے انسان شہادت میں ناقابل اعتبا رہو جائے عام ہے کہ وہ حرام ہو یا نہ ہو۔ یہاں مصنف رحمۃ اللہ علیہ کی غرض وسوسہ والوں کے ورع کا بیان ہے جیسا کہ کسی شکار کا گوشت محض اس لیے نہ کھائے کہ شاید وہ شکار کسی اور آدمی نے بھی کیا ہو اور اس سے وہ جانور بھاگ گیا ہو۔ یا جیسا کہ ایسے آدمی کے ہاتھ سے خرید و فروخت چھوڑ دے جو مجہول ہو اور جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس کا مال حرام کا ہے یا حلا ل کا۔ اور کوئی ظاہری دلیل بھی نہ ہو کہ اس کی حلت ہی پر یقین کیا جاسکے۔ اور جیسا کہ کوئی شخص ایسے آدمی کی روایت ترک کردے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہو اور جس کے ساتھ حجت نہ پکڑی جاسکتی ہو، ایسے جملہ مشکوک حالات میں پرہیزگاری کا نام ورع ہے۔ مگر حد سے زیادہ گزر کر کسی مسلمان بھائی کے متعلق بلا تحقیق کوئی غلط گمان قائم کر لینا یہ بھی ورع کے سخت خلاف ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے کسی جگہ لکھا ہے کہ کچھ لوگ نماز کے لیے اپنا لوٹا مصلی اس خیال سے ساتھ رکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں دنیا کے سارے مسلمان کے لوٹے اور مصلے استعمال کے لائق نہیں ہیں۔ اور ان سب میں شبہ داخل ہے۔ صرف انہی کا لوٹا اور مصلی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے پرہیزگاروں کو ”خود گندے“ قرار دیا ہے۔ اللہم احفظنا من جمیع الشبہات و الافات۔ آمین

حدیث نمبر : 2057
حدثني أحمد بن المقدام العجلي، حدثنا محمد بن عبد الرحمن الطفاوي، حدثنا هشام بن عروة،، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن قوما، قالوا يا رسول الله، إن قوما يأتوننا باللحم لا ندري أذكروا اسم الله عليه أم لا فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏سموا الله عليه وكلوه‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن مقدام عجلی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن عبدالرحمن طفاوی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد ( عروہ بن زبیر ) نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ کچھ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بہت سے لوگ ہمارے یہاں گوشت لاتے ہیں۔ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ کا نام انہوں نے ذبح کے وقت لیا تھا یا نہیں؟ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بسم اللہ پڑھ کے اسے کھا لیا کرو۔

مطلب یہ ہے کہ مسلمان سے نیک گمان رکھنا چاہئے اور جب تک دلیل سے معلوم نہ ہو کہ مسلمان نے ذبح کے وقت بسم اللہ نہیں کہی تھی یا اللہ کے سوا اور کسی کا نام لیا تھا تو اس کا لایا ہوا یا پکایا ہوا گوشت حلال ہی سمجھا جائے گا۔ حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ مشرکوں کا لایا ہوا یا پکایا ہوا گوشت حلال سمجھ لو، اور فقہاءنے اس کی تصریح کی ہے کہ اگر مشرک قصاب بھی کہے کہ اس جانور کو مسلمان نے کاٹا ہے تو اس کا قول مقبول نہ ہوگا۔ اس لیے مشرک کافر قصائی سے گوشت لینے میں بہت احتیاط اور پرہیز چاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اللہ تعالیٰ کا سورہ جمعہ میں یہ فرمانا کہ

{وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها}. /الجمعة: 11/.
جب وہ مال تجارت آتا ہوا یا کوءی اور تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔

حدیث نمبر : 2058
حدثنا طلق بن غنام، حدثنا زائدة، عن حصين، عن سالم، قال حدثني جابر ـ رضى الله عنه ـ قال بينما نحن نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم إذ أقبلت من الشأم عير، تحمل طعاما، فالتفتوا إليها، حتى ما بقي مع النبي صلى الله عليه وسلم إلا اثنا عشر رجلا فنزلت ‏{‏وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها‏}‏
ہم سے طلق بن غنام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے سالم بن ابی الجعد نے کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ( یعنی خطبہ سن رہے تھے ) کہ ملک شام سے کچھ اونٹ کھانے کا سامان تجارت لے کر آئے۔ ( سب نمازی ) لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ” جب وہ مال تجارت یا کوئی تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ “

تشریح : ہوا یہ تھا کہ اس زمانہ میں مدینہ میں غلہ کا قحط تھا۔ لوگ بہت بھوکے اور پریشان تھے۔ شام سے جو غلہ کا قافلہ آیا تو لوگ بے اختیار ہو کر اس کو دیکھنے چل دیئے، صرف بارہ صحابہ یعنی عشرہ مبشرہ اور بلال اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرے رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کچھ معصوم نہ تھے بشر تھے۔ ان سے یہ خطا ہو گئی جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عتاب فرمایا۔ شاید اس وقت تک ان کو یہ معلوم نہ رہاہوگا کہ خطبہ میں سے اٹھ کر جانا منع ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب کو اس لیے یہاں لائے کہ بیع اور شراء، تجارت اور سوداگری گو عمدہ اور مباح چیز یں ہیں مگر جب عبادت میں ان کی وجہ سے خلل ہو تو ان کو چھوڑ دینا چاہئے۔ یہ مقصد بھی ہے کہ جس تجارت سے یا دالٰہی میں فرق آئے مسلمان کے لیے وہ تجارت بھی مناسب نہیں ہے کیوں کہ مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد یاد الٰہی ہے۔ اس کے علاوہ جملہ مشغولیات عارضی ہیں۔ جن کا محض بقائے حیات ک لیے انجام دینا ضروری ہے ورنہ مقصد وحید صرف یاد الٰہی ہے۔
 
Top