• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جو روپیہ کمانے میں حلال یا حرام کی پرواہ نہ کرے

حدیث نمبر : 2059
حدثنا آدم، حدثنا ابن أبي ذئب، حدثنا سعيد المقبري، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏يأتي على الناس زمان، لا يبالي المرء ما أخذ منه أمن الحلال أم من الحرام‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سعید مقبری نے بیان کیا او ران سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان کوئی پرواہ نہیں کرے گا کہ جو اس نے حاصل کیا ہے وہ حلال سے ہے یا حرام سے ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : خشکی میں تجارت کرنے کا بیان

وقوله ‏{‏رجال لا تلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله‏}‏‏.‏ وقال قتادة كان القوم يتبايعون، ويتجرون، ولكنهم إذا نابهم حق من حقوق الله لم تلههم تجارة ولا بيع عن ذكر الله، حتى يؤدوه إلى الله‏.‏
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ( سورۃ نور میں ) کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔ قتادہ نے کہا کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو خرید و فروخت اور تجارت کرتے تھے لیکن اگر اللہ کے حقوق میں سے کوئی حق سامنے آجاتا تو ان کی تجارت اور خرید و فروخت انہیں اللہ کی یاد سے غافل نہیں رکھ سکتی تھی، جب تک وہ اللہ کے حق کو ادا نہ کرلیں۔ ( ان کو چین نہیں آتا تھا )

تشریح : بعض نے باب التجارۃ فی البر کو زا کے ساتھ پڑھا ہے تو ترجمہ یہ ہوگا کہ کپڑے کی تجارت کرنا مگر باب کی حدیث میں کپڑے کی تجارت کا ذکر نہیں ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آگے چل کر جو باب سمندر میں تجارت کرنے کا بیان کیا، اس کا جوڑ یہی ہے کہ یہاں خشکی کی تجارت مذکور ہو۔ بعض نے ضم با کے ساتھ فی البر پڑھا یعنی گندم کی تجارت تو اس کا باب کی حدیث میں کوئی ذکر نہیں ہے۔ بہرحال فی البر یعنی خشکی میں تجارت کرنا، یہی نسخہ زیادہ صحیح ہے، مراد یہ ہے کہ مسلمان کے لیے خشکی اور تری، صحرا اور سمندر سب کارگاہ عمل ہیں۔ اسی جوش عمل نے مسلمان کو شرق سے تاغرب دنیا کہ ہر حصہ میں پہنچا دیا۔

حدیث نمبر : 2060-2061
حدثنا أبو عاصم، عن ابن جريج، قال أخبرني عمرو بن دينار، عن أبي المنهال، قال كنت أتجر في الصرف، فسألت زيد بن أرقم ـ رضى الله عنه ـ فقال قال النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وحدثني الفضل بن يعقوب: حدثنا الحجاج بن محمد: قال ابن جريح: أخبرني عمرو بن دينار وعامر بن مصعب: أنهما سمعا أبا المنهال يقول: سألت البراء بن عازب وزيد بن أرقم عن الصرف، فقالا: كنا تاجرين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسألنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصرف، فقال: (إن كان يدا بيد فلا بأس، وإن كان نساء فلا يصلح).
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی او ران سے ابوالمنہال نے بیان کیا کہ میں سونے چاندی کی تجارت کیا کرتا تھا۔ اس لیے میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اور مجھ سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حجاج بن محمد نے بیان کیا کہ ابن جریج نے بیان کیا کہ مجھے عمرو بن دینار اور عامر بن مصعب نے خبر دی، ان دونوں حضرات نے ابوالمنہال سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے براءبن عازب اور زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے سونے چاندی کی تجارت کے متعلق پوچھا، تو ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں تاجر تھے، اس لیے ہم نے آپ سے سونے چاندی کے متعلق پوچھا تھا۔ آپ نے جواب یہ دیا تھا کہ ( لین دین ) ہاتھوں ہاتھ ہو توکوئی حرج نہیں لیکن ادھار کی صورت میں جائز نہیں ہے۔

مثلاً ایک شخص نقد روپیہ دے اور دوسرا کہے میں اس کے بدل کا روپیہ ایک مہینہ کے بعد دوں گا تو یہ درست نہیں ہے۔ بیع صرف میں سب کے نزدیک تقابض یعنی دونوں بدلوں کا نقدانقد دیا جانا شرط ہے اور میعاد کے ساتھ درست نہیں ہوتی اب اس میں اختلاف ہے کہ اگر جنس ایک ہی ہو مثلاً روپے کو روپے سے یا اشرفیوں کو اشرفیوں سے تو کمی یا زیادتی درست ہے یا نہیں؟ حنفیہ کے نزدیک کمی اور زیادتی جب جنس ایک ہو تو درست نہیں اور ان کے مذہب پر کلدار اور حالی سکہ کا بدلنا مشکل ہو جاتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ کچھ پیسے شریک کردے، تاکہ کمی اور زیادتی سب کے نزدیک جائز ہو جائے۔ ( وحیدی ) اس حدیث کے عموم سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا ہے کہ خشکی میں تجارت کرنا درست ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : تجارت کے لیے گھر سے باہر نکلنا ۔

حدیث نمبر : 2062
وقول الله تعالى: {فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل الله} /الجمعة: 10/.
اور (سورہ جمعہ میں) اللہ تعالٰی کا فرمان کہ جب نماز ہو جاءے تو زمیں میں پھل جاءو اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔

حدیث نمبر : 2062
حدثنا محمد بن سلام: أخبرنا مخلد بن يزيد: أخبرنا ابن جريج قال: أخبرني عطاء، عن عبيد الله بن عمير: أن أبا موسى الأشعري: استأذن على عمر بن الخطاب رضي الله عنه فلم يؤذن له، وكأنه كان مشغولا، فرجع أبو موسى، ففرغ عمر فقال: ألم أسمع صوت عبد الله بن قيس، ائذنوا له. قيل: قد رجع، فدعاه، فقال: كنا نؤمر بذلك. فقال: تأتيني على ذلك بالبينة، فانطلق إلى مجلس الأنصار فسألهم، فقالوا: لا يشهد على هذا إلا أصغرنا أبو سعيد الخدري، فذهب بأبي سعيد الخدري، فقال عمر: أخفي هذا علي من أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ ألهاني الصفق بالأسواق. يعني الخروج إلى تجارة.
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو مخلد بن یزید نے خبردی، کہا کہ ہمیں ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطا بن ابی رباح نے خبر دی، انہیں عبید بن عمیر نے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملنے کی اجازت چاہی لیکن اجازت نہیں ملی۔ غالباً آپ اس وقت کام میں مشغول تھے۔ اس لیے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ فارغ ہوئے تو فرمایا کیا میں نے عبداللہ بن قیس ( ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ) کی آوازنہیں سنی تھی۔ انہیں اندر آنے کی اجازت دے دو۔ کہا گیا وہ لوٹ کر چلے گئے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بلا لیا۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہمیں اسی کا حکم ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ) تھا ( کہ تین مرتبہ اجازت چاہنے پر اگر اندر جانے کی اجازت نہ ملے تو واپس لوٹ جانا چاہئے ) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، اس حدیث پر کوئی گواہ لاؤ۔ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ انصار کی مجلس میں گئے اور ان سے اس حدیث کے متعلق پوچھا ( کہ کیا کسی نے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ) ان لوگوں نے کہا کہ اس کی گواہی تو تمہارے ساتھ وہ دے گا جو ہم سب میں بہت ہی کم عمر ہے۔ وہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک حکم مجھ سے پوشیدہ رہ گیا۔ افسوس کہ مجھے بازاروں کی خرید و فروخت نے مشغول رکھا۔ آپ کی مردا تجارت سے تھی۔

تشریح : روایت میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بازار میں تجارت کرنا مذکور ہے۔ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ حدیث سے اور بھی بہت سے مسائل نکلتے ہیں مثلاً کوئی کسی کے گھر ملاقات کو جائے تو دورازے پر جاکر تین دفعہ سلام کے ساتھ اجازت طلب کرے، اگر جواب نہ ملے تو واپس لوٹ جائے۔ کسی حدیث کی تصدیق کے لیے گواہ طلب کرنا بھی ثابت ہوا۔ نیز یہ کہ صحیح بات میں کم سن بچوں کی گواہی بھی مانی جاسکتی ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ بھول چوک بڑے بڑے لوگوں سے بھی ممکن ہے وغیرہ وغیرہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : سمندر میں تجارت کرنے کا بیان

وقال مطر لا بأس به وما ذكره الله في القرآن إلا بحق ثم تلا ‏{‏وترى الفلك مواخر فيه ولتبتغوا من فضله‏}‏ والفلك السفن، الواحد والجمع سواء‏.‏ وقال مجاهد تمخر السفن الريح ولا تمخر الريح من السفن إلا الفلك العظام‏.‏
اور مطروراق نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور قرآن مجید میں اس کا ذکر ہے وہ بہرحال حق ہے۔ اس کے بعد انہوں نے ( سورہ نحل کی یہ ) آیت پڑھی ” اور تم دیکھتے ہو کشتیوں کو کہ اس میں چلتی ہیں پانی کو چیرتی ہوئی تاکہ تم تلاش کرو اس کے فضل سے۔ اس آیت میں لفظ فلک کشتی کے معنی میں ہے، واحد اور جمع دونوں کے لیے یہ لفظ اسی طرح استعمال ہوتا ہے۔ مجاہد رحمہ اللہ علیہ نے ( اس آیت کی تفسیر میں ) کہا کہ کشتیاں ہوا کو چیرتی چلتی ہیں اور ہوا کو وہی کشتیاں ( دیکھنے میں صاف طور پر ) چیرتی چلتی ہیں جو بڑی ہوتی ہیں۔

حدیث نمبر : 2063
وقال الليث حدثني جعفر بن ربيعة، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه ذكر رجلا من بني إسرائيل، خرج في البحر فقضى حاجته‏.‏ وساق الحديث‏.‏‏
لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرایئل کے ایک شخص کا ذکر کیا۔ جس نے سمندر کا سفر کیا تھا اور اپنی ضرورت پوری کی تھی۔ پھر پوری حدیث بیان کی ( جو کتاب الکفالۃ میں آئے گی )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : ( سورۃ جمعہ میں ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” جب سوداگری یا تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ “

وقوله جل ذكره ‏{‏رجال لا تلهيهم تجارة ولا بيع عن ذكر الله‏}‏ وقال قتادة كان القوم يتجرون، ولكنهم كانوا إذا نابهم حق من حقوق الله لم تلههم تجارة ولا بيع عن ذكر الله، حتى يؤدوه إلى الله‏.‏
اور سورۃ نور میں اللہ جل ذکرہ کا یہ فرمانا کہ ” وہ لوگ جنہیں تجارت اور خرید و فروخت اللہ کے ذکر سے غافل نہیں کرتی، قتادہ نے کہا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تجارت کیا کرتے تھے۔ لیکن جوں ہی اللہ تعالیٰ کا کوئی فرض سامنے آتا تو ان کی تجارت اور سوداگری اللہ کے ذکر سے انہیں غافل نہیں کرسکتی تھی تاآنکہ وہ اللہ تعالیٰ کے فرض کو ادا نہ کرلیں۔

تشریح : ابھی چند صفحات پیشتر اسی آیت شریفہ کے ساتھ یہ باب گزر چکا ہے اور یہاں دوبارہ پھر یہ درج ہوا ہے۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے اسے بعض ناقلین بخاری کے قلم کا سہو قرار دیا ہے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ بخاری شریف کا اصل نسخہ وہ تھا جو حضرت امام کے شاگرد فربری کے پاس تھا۔ اس میں حواشی میںکچھ الحاقات تھے۔ بعض نقالین نے ان الحاقات میں سے کچھ عبارتوں کو اپنے خیال کی بنا پر متن میں درج کردیا۔ اسی وجہ سے یہ باب بھی مکرر آگیا ہے۔

حدیث نمبر : 2064
حدثني محمد، قال حدثني محمد بن فضيل، عن حصين، عن سالم بن أبي الجعد، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ قال أقبلت عير، ونحن نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم الجمعة، فانفض الناس إلا اثنى عشر رجلا، فنزلت هذه الآية ‏{‏وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما ‏}‏
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن فضیل نے بیان کیا، ان سے حصین نے بیان کیا، ان سے سالم بن ابی الجعد نے بیان کیا اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( تجارتی ) اونٹوں ( کا قافلہ ) آیا۔ ہم اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ ( کے خطبہ ) میں شریک تھے۔ بارہ صحابہ کے سوا باقی تمام حضرات ادھر چلے گئے اس پر یہ آیت اتری کہ ” جب سوداگری یا تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور آپ کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اپنی پاک کمائی میں سے خرچ کرو ( البقرۃ : 267 )

حدیث نمبر : 2065
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن أبي وائل، عن مسروق، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إذا أنفقت المرأة من طعام بيتها، غير مفسدة، كان لها أجرها بما أنفقت، ولزوجها بما كسب، وللخازن مثل ذلك، لا ينقص بعضهم أجر بعض شيئا‏"‏‏. ‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابووائل نے، ان سے مسروق نے، اور ان سے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جب عورت اپنے گھر کا کھانا ( غلہ وغیرہ ) بشرطیکہ گھر بگاڑنے کی نیت نہ ہو خرچ کرے تو اسے خرچ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور اس کے شوہر کو کمانے کا اور خزانچی کو بھی ایسا ہی ثواب ملتا ہے ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب کو کم نہیں کرتا۔

حدیث نمبر : 2066
حدثني يحيى بن جعفر، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام، قال سمعت أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إذا أنفقت المرأة من كسب زوجها عن غير أمره، فله نصف أجره‏"‏‏. ‏
مجھ سے یحییٰ بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے ہمام نے بیان کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر عورت اپنے شوہر کی کمائی اس کی اجازت کے بغیر بھی ( اللہ کے راستے میں ) خرچ کرتی ہے تو اسے آدھا ثواب ملتا ہے۔

مطلب یہ ہے کہ ایسی معمولی خیرات کرے کہ جس کو خاوند دیکھ بھی لے تو ناپسند نہ کرے، جیسے کھانے میں سے کچھ کھانا فقیر کو دے یا پھٹا پرانا کپڑا اللہ کی راہ میں دے ڈالے اور عورت قرائن سے سمجھے کہ خاوند کی طرف سے ایسی خیرات کے لیے اجازت ہے مگر اس نے صریح اجاز ت نہ دی ہو، بعض نے کہا مراد یہ ہے کہ عورت اس مال میں سے خرچ کرے جو خاوند نے اس کے لیے مقرر کر دیا ہو۔ بعض نسخوں میں یوں ہے کہ خاوند کو عورت کا آدھا ثواب ملے گا۔ قسطلانی نے کہا کہ ان دونوں توجیہوں میں سے کوئی توجیہ ضرور کرنا چاہئے ورنہ عورت اگر خاوند کا مال اس کی اجازت کے بغیر خرچ کر ڈالے تو ثواب کجا گناہ لازم ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جو روزی میں کشادگی چاہتا ہو وہ کیا کرے؟

حدیث نمبر : 2067
حدثنا محمد بن أبي يعقوب الكرماني، حدثنا حسان، حدثنا يونس، حدثنا محمد، عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏من سره أن يبسط له رزقه أو ينسأ له في أثره فليصل رحمه‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن یعقوب کرمانی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حسان بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے یونس نے بیان کیا، ان سے محمد بن مسلم نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کیا کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ جو شخص اپنی روزی میں گشادگی چاہتا ہو یا عمر کی دارازی چاہتا ہو تو اسے چاہئے کہ صلہ رحمی کرے۔

نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے رشتہ دار اس کا حسن سلوک دیکھ کر دل سے اس کی عمر کی دارزی، مال کی فراخی کی دعائیں کریں گے۔ اور اللہ پاک ان کی دعاؤں کے نتیجہ میں اس کی روزی میں اور عمر میں برکت کرے گا۔ اس لیے کہ اللہ پاک ہر چیز کے گھٹانے بڑھانے پر قادر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ادھار خریدنا

حدیث نمبر : 2068
حدثنا معلى بن أسد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الأعمش، قال ذكرنا عند إبراهيم الرهن في السلم فقال حدثني الأسود عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم اشترى طعاما من يهودي إلى أجل، ورهنه درعا من حديد‏.‏
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا کہ ابراہیم نخعی کی مجلس میں ہم نے ادھار لین دین میں ( سامان ) گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے اسود نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے کچھ غلہ ایک مدت مقرر کرکے ادھا خریدا اور اپنی لوہے کی ایک زرہ اس کے پاس گروی رکھی۔

حدیث نمبر : 2069
حدثنا مسلم، حدثنا هشام، حدثنا قتادة، عن أنس، ح‏.‏ حدثني محمد بن عبد الله بن حوشب، حدثنا أسباط أبو اليسع البصري، حدثنا هشام الدستوائي، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أنه مشى إلى النبي صلى الله عليه وسلم بخبز شعير، وإهالة سنخة، ولقد رهن النبي صلى الله عليه وسلم درعا له بالمدينة عند يهودي، وأخذ منه شعيرا لأهله، ولقد سمعته يقول ‏"‏ما أمسى عند آل محمد صلى الله عليه وسلم صاع بر ولا صاع حب، وإن عنده لتسع نسوة‏"‏‏. ‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے ( دوسری سند ) اور مجھ سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسباط ابوالیسع بصری نے، کہا کہ ہم سے ہشام دستوائی نے، انہوں نے قتادہ سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جوکی روٹی اور بدبودار چربی ( سالن کے طور پر ) لے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت اپنی زرہ مدینہ میں ایک یہودی کے یہاں گروی رکھی تھی اور اس سے اپنے گھر والوں کے لیے قرض لیا تھا۔ میں نے خود آپ کو یہ فرماتے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے میں کوئی شام ایسی نہیں آئی جس میں ان کے پاس ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کوئی غلہ موجود رہا ہو، حالانکہ آپ کی گھر والیوں کی تعداد نو تھی۔

تشریح : اس حدیث سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتصادی زندگی پر روشنی پڑتی ہے۔ خدانخواستہ آپ دنیا دار ہوتے تو یہ نوبت نہ آتی کہ ایک یہودی کے یہاں اپنی زرہ گروی رکھ کر راشن حاصل کریں اور راشن بھی جو کی شکل میں، جس سے صاف ظاہر ہے کہ آپ نے آنے والے لوگوں کے لیے ایک عمدہ ترین نمونہ پیش فرما دیا کہ وہ دنیاوی عیش و آرام اور ناز نخروں کے وقت اسوہ محمدی کو یاد کر لیا کریں۔ مقصد باب یہ ہے کہ انسان کو زندگی میں کبھی ادھار بھی کوئی چیز خریدنی پڑتی ہے لہٰذا اس میں کوئی قباحت نہیں اور اس سے غیر مسلموں کے ساتھ لین دین کا تعلق بھی ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : انسان کا کمانا اور اپنے ہاتھوں سے محنت کرنا

اس باب کے تحت حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و قد اختلف العلماءفی افضل المکاسب قال الماوردی اصول المکاسب الزراعۃ و التجارۃ و الصنعۃ و الاشبہ بمذہب الشافعی ان اطیبہا التجارۃ قال و الارجح عندی ان اطیبہا الزراعۃ لانہ اقرب الی التوکل و تعقبہ النووی بحدیث المقدام الذی فی ہذا الباب و ان الصواب ان اطیب الکسب ما کان بعمل الید قال فان کان زراعاً فہو اطیب المکاسب لما یشتمل علیہ من کونہ عمل الید و لما فیہ من التوکل و لما فیہ من النفع العام للادمی و للدواب و لانہ لا بدفیہ فی العادۃ ان یوکل منہ بغیر عوض ( فتح )

یعنی علماءکا اس بارے میں اختلاف ہے کہ افضل کسب کو ن سا ہے۔ ماوردی نے کہا کہ کسب کے تین اصولی طریقے ہیں۔ زراعت، تجارت، اور صنعت و حرفت۔ اور امام شافعی کے قول میں افضل کسب تجار ت ہے۔ مگر ماوردی کہتے ہیں کہ میں زراعت کو ترجیح دیتا ہوں کہ یہ توکل سے قریب ہے۔ اور نووی نے اس پر تعاقب کیا ہے اور درست بات یہ ہے کہ بہترین پاکیزہ کسب وہ ہے جس میں اپنے ہاتھ کو دخل زیادہ ہو۔ اگر زراعت کو افضل کسب مانا جائے تو بجا ہے کیوں کہ اس میں انسان زیادہ تر اپنے ہاتھ سے محنت کرتا ہے اس میں توکل بھی ہے اور انسانوں اور حیوانوں کے لیے عام نفع بھی ہے۔ اس میں بغیر کسی معاوضہ کے حاصل ہوئے غلہ سے کھایا جاتا ہے۔ اس لیے زراعت بہترین کسب ہے بشرطیکہ کامیاب زراعت ہو ورنہ عام طور پر زراعت پیشہ لوگ مقروض، تنگ دست، پریشان حال ملتے ہیں۔ اس لیے کہ نہ تو ان کے پاس زراعت کے قابل کافی زمین ہوتی ہے نہ دیگر وسائل بفراخی مہیا ہوتے ہیں، نتیجہ یہ کہ ان کا افلاس دن بدن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے، ایسی حالت میں زراعت کو بہترین کسب نہیں کہا جاسکتا۔ ان حالات میں مزدوری بھی بہتر ہے۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب کے تحت تین حدیثیں ذکر کی ہیں۔ جن میں سے پہلی تجارت سے متعلق ہے دوسری زراعت سے اور تیسری صنعت سے متعلق ہے۔ پہلی حدیث میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کے پیشہ تجارت کا ذکر ہے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں لما مرض ابوبکر مرضہ الذی مات فیہ قال انظروا ما زاد فی مالی منذ دخلت الامارۃ فابعثوا بہ الی الخلیفہ بعدی الخ یعنی جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مرض الموت میں گرفتار ہوئے تو آپ نے اپنے گھر والوں کو وصیت فرمائی کہ میرے مال کی پڑتال کرنا اور خلیفہ بننے کے بعد جو کچھ بھی میرے مال میں زیادتی نظر آئے اسے بیت المال میں داخل کرنے کے لیے خلفیۃ المسلمین کے پاس بھیج دینا، چنانچہ آپ کے انتقال کے بعد جائزہ لیا گیا تو ایک غلام زائد پایا گیا جو بال بچوں کو کھلایا کرتا تھا اور ایک اونٹ جس سے مرحوم کے باغ کو پانی دیا جاتا تھا۔ ہر دو کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا گیا جن کو دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا رحمۃ اللہ علی ابی بکر لقد اتعب من بعدہ یعنی اللہ پاک حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے انہوں نے اپنے بعد والوں کو مشقت میں ڈال دیا۔

حدیث نمبر : 2070
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني ابن وهب، عن يونس، عن ابن شهاب، قال حدثني عروة بن الزبير، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت لما استخلف أبو بكر الصديق قال لقد علم قومي أن حرفتي لم تكن تعجز عن مئونة أهلي، وشغلت بأمر المسلمين، فسيأكل آل أبي بكر من هذا المال ويحترف للمسلمين فيه‏.
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلفیہ ہوئے تو فرمایا، میری قوم جانتی ہے کہ میرا ( تجارتی ) کاروبار میرے گھر والوں کی گذران کے لیے کافی رہا ہے، لیکن اب میں مسلمانوں کے کام میں مشغول ہو گیا ہوں، اس لیے آل ابوبکر اب بیت المال میں سے کھائے گی، اور ابوبکر مسلمانوں کا مال تجارت بڑھاتا رہے گا۔

یعنی اب خلافت کے کام میں مصروف رہوں گا تو مجھ کواپنا ذاتی پیشہ اور بازاروں میں پھرنے کا موقعہ نہ ملے گا اس لیے میں بیت المال سے اپنا اور اپنے گھر والوں کا خرچہ کیا کروں گا اور یہ خرچہ بھی میں اس طرح سے نکال دوں گا کہ بیت المال کے روپے پیسے میں تجارت اور سوداگری کرکے اس کو ترقی دوں گا اور مسلمانوں کا فائدہ کراؤں گا۔

حدیث نمبر : 2071
حدثني محمد، حدثنا عبد الله بن يزيد، حدثنا سعيد، قال حدثني أبو الأسود، عن عروة، قال قالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ كان أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم عمال أنفسهم، وكان يكون لهم أرواح فقيل لهم لو اغتسلتم‏.‏ رواه همام عن هشام عن أبيه عن عائشة‏.‏
مجھ سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن یزید نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوالاسود نے بیان کیا، ان سے عروہ نے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اپنے کام اپنے ہی ہاتھوں سے کیا کرتے تھے اور ( زیادہ محنت و مشقت کی وجہ سے ) ان کے جسم سے ( پسینے کی ) بو آجاتی تھی۔ اس لئے ان سے کہا گیا کہ اگر تم غسل کر لیا کرو تو بہتر ہوگا۔ اس کی روایت ہمام نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے باپ سے اور انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کی ہے۔

حدیث نمبر : 2072
حدثنا إبراهيم بن موسى، أخبرنا عيسى، عن ثور، عن خالد بن معدان، عن المقدام ـ رضى الله عنه ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ما أكل أحد طعاما قط خيرا من أن يأكل من عمل يده، وإن نبي الله داود ـ عليه السلام ـ كان يأكل من عمل يده‏"‏‏. ‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو عیسیٰ بن یونس نے خبر دی، انہیں ثور نے خبر دی، انہیں خالد بن معدان نے اور انہیں مقدام رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی انسان نے اس شخص سے بہتر روزی نہیں کھائی، جو خود اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتا ہے اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام بھی اپنے ہاتھ سے کام کرکے روزی کھایا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 2073
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن همام بن منبه، حدثنا أبو هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏أن داود ـ عليه السلام ـ كان لا يأكل إلا من عمل يده‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں معمر نے خبر دی، انہیں ہمام بن منبہ نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ داؤد علیہ السلام صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔

حضرت آدم علیہ السلام کھیتی کا کام اور حضرت داؤد علیہ السلام لوہار کا کام اور حضرت نوح علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے اور حضرت ادریس علیہ السلام کپڑے سیا کرتے تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چرایا کرتے تھے۔ اور ہمارے حضرت صلی اللہ علیہ وسلم تجارت پیشہ تھے، لہٰذا کسی بھی حلال اور جائز پیشہ کو حقیر جاننا اسلامی شریعت میں سخت ناروا ہے۔

حدیث نمبر : 2074
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن أبي عبيد، مولى عبد الرحمن بن عوف أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لأن يحتطب أحدكم حزمة على ظهره خير من أن يسأل أحدا، فيعطيه أو يمنعه‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے غلام ابی عبید نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص جو لکڑی کا گھٹا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، اس سے بہتر ہے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے چاہئیے وہ اسے کچھ دے دے یا نہ دے۔

حدیث نمبر : 2075
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا وكيع، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن الزبير بن العوام ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لأن يأخذ أحدكم أحبله خير له من أن يسأل الناس‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وکیع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی اپنی رسیوں کو سنبھال لے اور ان میں لکڑی باندھ کر لائے تو وہ اس سے بہتر ہے جو لوگوں سے مانگتا ہے پھرتا ہے۔

یعنی سوال سے بچنا اور خود محنت مزدوری کرکے گذران کرنا ایک سچے مسلمان کی زندگی یہی ہونی ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : خرید و فروخت کے وقت نرمی، وسعت اور فیاضی کرنا اور کسی سے اپنا حق پاکیزگی سے مانگنا

حدیث نمبر : 2076
حدثنا علي بن عياش، حدثنا أبو غسان، محمد بن مطرف قال حدثني محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏رحم الله رجلا سمحا إذا باع، وإذا اشترى، وإذا اقتضى‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عیاش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان محمد بن مطرف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے محمد بن منکدر نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ ایسے شخص پر رحم کرے جو بیچتے وقت اور خریدتے وقت اور تقاضا کرتے وقت فیاضی اور نرمی سے کام لیتا ہے۔
 
Top