• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جو شخص مالدار کو مہلت دے

حدیث نمبر : 2077
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا منصور، أن ربعي بن حراش، حدثه أن حذيفة ـ رضى الله عنه ـ حدثه قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏تلقت الملائكة روح رجل ممن كان قبلكم قالوا أعملت من الخير شيئا قال كنت آمر فتياني أن ينظروا ويتجاوزوا عن الموسر قال قال فتجاوزوا عنه‏"‏‏. ‏ وقال أبو مالك عن ربعي ‏"‏كنت أيسر على الموسر وأنظر المعسر‏"‏‏. ‏ وتابعه شعبة عن عبد الملك عن ربعي‏.‏ وقال أبو عوانة عن عبد الملك عن ربعي ‏"‏أنظر الموسر، وأتجاوز عن المعسر‏"‏‏. ‏ وقال نعيم بن أبي هند عن ربعي ‏"‏فأقبل من الموسر، وأتجاوز عن المعسر‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے منصور نے، ان سے ربعی بن حراش نے بیان کیا اور ان سے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم سے پہلے گذشتہ امتوں کے کسی شخص کی روح کے پاس ( موت کے وقت ) فرشتے آئے اور پوچھا کہ تو نے کچھ اچھے کام بھی کئے ہیں؟ روح نے جواب دیا کہ میں اپنے نوکروں سے کہا کرتا تھا کہ وہ مالدار لوگوں کو ( جو ان کے مقروض ہوں ) مہت دے دیا کریں اور ان پر سختی نہ کریں۔ اور محتاجوں کو معاف کر دیا کریں۔ روای نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر فرشتوں نے بھی اس سے درگزر کیا اور سختی نہیں کی اور ابومالک نے ربعی سے ( اپنی روایت میں یہ الفاظ ) بیان کئے ہیں ” کھاتے کماتے کے ساتھ ( اپنا حق لیتے وقت ) نرم معاملہ کرتا تھا اور تنگ حال مقروض کو مہلت دیے دیتا تھا۔ اس کی متابعت شعبہ نے کی ہے۔ ان سے عبدالملک نے اور ان سے ربعی نے بیان کیا، ابوعوانہ نے کہا کہ ان سے عبدالملک نے ربعی سے بیان کیا کہ ( اس روح نے یہ الفاظ کہے تھے ) میں کھاتے کماتے کو مہلت دے دیتا تھا اور تنگ حال والے مقروض سے درگزر کرتا تھا اور نعیم بن ابی ہند نے بیان کیا، ان سے ربعی نے ( کہ روح نے یہ الفاظ کہے تھے ) میں کھاتے کماتے لوگوں کے ( جن پر میرا کوئی حق واجب ہوتا ) عذر قبول کر لیا کرتا تھا اور تنگ حال والے سے درگزر کردیتا تھا۔

تشریح : یعنی گو قرض دار مالدار ہو مگر اس پر سختی نہ کرے، اگر وہ مہلت چاہے تو مہلت دے۔ مالدار کی تعریف میں اختلاف ہے بعض نے کہا جس کے پاس اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچہ موجود ہو۔ ثوری اور ابن مبارک اور امام احمد اور اسحاق نے کہا جس کے پاس پچاش درہم ہوں۔ اور امام شافعی نے کہا کہ اس کی کوئی حد مقرر نہیں کرسکتے۔ کبھی جس کے پاس ایک درہم ہو مالدار کہلا سکتاہے جب وہ اس کے خرچ سے فاضل ہو اور کبھی ہزار رکھ کر بھی آدمی مفلس ہوتا ہے جب کہ اس کا خرچہ زیادہ ہو اور عیال بہت ہوں اور وہ قرض دار رہتا ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جس نے تنگ دست کو مہلت دی اس کا ثواب

حدیث نمبر : 2078
حدثنا هشام بن عمار، حدثنا يحيى بن حمزة، حدثنا الزبيدي، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله، أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏كان تاجر يداين الناس، فإذا رأى معسرا قال لفتيانه تجاوزوا عنه، لعل الله أن يتجاوز عنا، فتجاوز الله عنه‏"‏‏.
ہم سے ہشام بن عمار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن حمزہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن ولید زبیدی نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عبید اللہ بن عبداللہ نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کسی تنگ دست کو دیکھتا تو اپنے نوکروں سے کہہ دیتا کہ اس سے درگزر کر جاؤ۔ شاید کہ اللہ تعالیٰ بھی ہم سے ( آخرت میں ) درگزر فرمائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ( اس کے مرنے کے بعد ) اس کو بخش دیا۔

تشریح : تنگ دست کو مہلت دینا اور اس پر سختی نہ کرنا عنداللہ محبوب ہے، مگر ایسے لوگوں کو بھی ناجائز فائدہ نہ اٹھانا چاہئیے کہ مال والے کا مال تلف ہو۔ دوسری روایت میں ہے کہ مقروض اگر دل میں ادائیگی قرض کی نیت رکھے گا تو اللہ پاک بھی ضرور اس کا قرض ادا کرا دے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جب خریدنے والے اور بیچنے والے دونوں صاف صاف بیا ن کردیں اور ایک دوسرے کی بہتری چاہیں

ويذكر عن العداء بن خالد قال كتب لي النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏هذا ما اشترى محمد رسول الله صلى الله عليه وسلم من العداء بن خالد، بيع المسلم المسلم، لا داء، ولا خبثة، ولا غائلة‏"‏‏. ‏ وقال قتادة الغائلة الزنا والسرقة والإباق‏.‏ وقيل لإبراهيم إن بعض النخاسين يسمي آري خراسان وسجستان فيقول جاء أمس من خراسان، جاء اليوم من سجستان‏.‏ فكرهه كراهية شديدة‏.‏ وقال عقبة بن عامر لا يحل لامرئ يبيع سلعة، يعلم أن بها داء، إلا أخبره‏.‏
اور عداءبن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسم نے ایک بیع نامہ لکھ دیا تھا کہ یہ کاغذ ہے جس میں محمد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا عداءبن خالد سے خریدنے کا بیان ہے۔ یہ بیع مسلمان کی ہے مسلمان کے ہاتھ، نہ اس میں کوئی عیب ہے نہ کوئی فریب نہ فسق و فجور، نہ کوئی بدباطنی ہے۔ اور قتادہ رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ غائلہ، زنا، چوری اور بھاگنے کی عادت کو کہتے ہیں۔ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ بعض دلال ( اپنے اصطبل کے ) نام ” آری خراسان اور سجستان “ ( خراسانی اصطبل اور سجستانی اصطبل ) رکھتے ہیں اور ( دھوکہ دینے کے لیے ) کہتے ہیں کہ فلاں جانور کل ہی خراسان سے آیا تھا۔ اور فلاں آج ہی سجستان سے آیا ہے۔ تو ابراہیم نخعی نے اس بات کو بہت زیادہ ناگواری کے ساتھ سنا۔ عقبہ بن عامر نے کہا کہ کسی شخص کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ کوئی سودا بیچے اور یہ جاننے کے باوجود کہ اس میں عیب ہے ” خریدنے والے کو اس کے متعلق کچھ نہ بتائے “

تشریح : قاضی عیاض نے کہا کہ صحیح یوں ہے کہ عداءکے خریدنے کا بیان ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، جیسے ترمذی اور نسائی اور ابن ماجہ نے اسے وصل کیا ہے۔ قسطلانی نے کہا ممکن ہے یہاں اشتریٰ باع کے معنی میں آیا ہو یا معاملہ کئی بار ہوا ہو۔ غلام کے عیب کا ذکر ہے یعنی وہ کانا، لولا، لنگڑا فریبی نہیں ہے۔ نہ بھاگنے والا بدکا رہے مقصد یہ ہے کہ بیچنے والے کا فرض ہے کہ معاملہ کی چیز کے عیب و صواب سے خریدار کو پورے طو رپر آگاہ کردے۔

حدیث نمبر : 2079
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن صالح أبي الخليل، عن عبد الله بن الحارث، رفعه إلى حكيم بن حزام ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏البيعان بالخيار ما لم يتفرقا ـ أو قال حتى يتفرقا ـ فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے ان سے صالح ابوخلیل نے، ان سے عبیداللہ بن حارث نے، انہوں نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خریدنے اور بیچنے والوں کو اس وقت تک اختیار ( بیع ختم کردینے کا ) ہے جب تک دونوں جدا نہ ہوں یا آپ نے ( مالم یتفرقا کے بجائے ) حتی یتفرقا فرمایا۔ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مزید ارشاد فرمایا ) پس اگر دونوں نے سچائی سے کام لیا اور ہر بات صاف صاف کھول دی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوتی ہے لیکن اگر کوئی بات چھپا رکھی یا جھوٹ کہی تو ان کی برکت ختم کر دی جاتی ہے۔

تشریح : مقصد باب ظاہر ہے کہ سوداگروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مال کا حسن و قبح سب ظاہر کردیں تاکہ خریدنے والے کو بعد میں شکایت کا موقع نہ مل سکے اور اس بارے میں کوئی جھوٹی قسم ہرگز نہ کھائیں۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خریدار کو جب تک وہ دکان سے جدا نہ ہو مال واپس کرنے کا اختیار ہے ہاں دکان سے چلے جانے کے بعد یہ اختیار ختم ہے مگر یہ کہ ہر دونے باہمی طور پر ایک مدت کے لیے اس اختیار کو طے کر لیا ہو تو یہ امر دیگر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : مختلف قسم کی کھجور ملا کر بیچنا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 2080
حدثنا أبو نعيم، حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن أبي سعيد ـ رضى الله عنه ـ قال كنا نرزق تمر الجمع، وهو الخلط من التمر، وكنا نبيع صاعين بصاع فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا صاعين بصاع، ولا درهمين بدرهم‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شیبان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے، ان سے ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہمیں ( نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ) مختلف قسم کی کھجوریں ایک ساتھ ملا کرتی تھیں اور ہم دو صاع کھجور ایک صاع کے بدلے میں بیچ دیا کرتے تھے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو صاع ایک صاع کے بدلہ میں نہ بیچی جائے اور نہ دو درہم ایک درہم کے بدلے بیچے جائیں۔

تشریح : حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ اس قسم کی مخلوط کھجوروں کی بیع جائز ہے کیوں کہ ان میں جو کچھ بھی عیب ہے وہ ظاہر ہے اور عمدگی ہے وہ بھی ظاہر ہے کوئی دھوکہ بازی نہیں ہے لہٰذا ایسی مخلوط کھجوریں بیچی جاسکتی ہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایت فرمائی وہ حدیث سے ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : گوشت بیچنے والے اور قصاب کا بیان

حدیث نمبر : 2081
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، قال حدثني شقيق، عن أبي مسعود، قال جاء رجل من الأنصار يكنى أبا شعيب فقال لغلام له قصاب اجعل لي طعاما يكفي خمسة، فإني أريد أن أدعو النبي صلى الله عليه وسلم خامس خمسة، فإني قد عرفت في وجهه الجوع‏.‏ فدعاهم، فجاء معهم رجل فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إن هذا قد تبعنا، فإن شئت أن تأذن له فأذن له، وإن شئت أن يرجع رجع‏"‏‏. ‏ فقال لا، بل قد أذنت له‏.‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہ کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا، اور ان سے ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہ انصار میں سے ایک صحابی جن کی کنیت ابوشعیب رضی اللہ عنہ تھی، تشریف لائے اور اپنے غلام سے جو قصاب تھا۔ فرمایا کہ میرے لیے اتنا کھانا تیار کر جو پانچ آدمی کے لیے کافی ہو۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے ساتھ اور چار آدمیوں کی دعوت کا ارادہ کیا، کیوں کہ میں نے آپ کے چہرہ مبارک پر بھوک کا اثر نمایاں دیکھا ہے۔ چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا۔ آپ کے ساتھ ایک اور صاحب بھی آگئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے ساتھ ایک اور صاحب زائد آگئے ہیں۔ مگر آپ چاہیں تو انہیں بھی اجازت دے سکتے ہیں، اور اگر چاہیں تو واپس کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نہیں، بلکہ میں انہیں بھی اجازت دیتا ہوں۔

تشریح : یعنی وہ طفیلی بن کر چلا آیا، اس شخص کا نام معلوم نہ ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب خانہ سے اجازت لی تاکہ اس کا دل خوش ہو اور ابوطلحہ کی دعوت میں آپ نے یہ اجازت نہ لی کیوں کی ابوطلحہ نے دعوتیوں کی تعداد مقرر نہیں کی تھی اور اس شخص نے پانچ کی تعداد مقرر کر دی تھی۔ اس لیے آپ نے اجازت کی ضرورت سمجھی۔ حدیث میں قصاب کا ذکر ہے اور گوشت بیچنے والوں کا۔ اسی سے اس پیشہ کا جواز ثابت ہوا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : بیچنے میں جھوٹ بولنے اور ( عیب ) کو چھپانے سے ( برکت ) ختم ہوجاتی ہے۔

حدیث نمبر : 2082
حدثنا بدل بن المحبر، حدثنا شعبة، عن قتادة، قال سمعت أبا الخليل، يحدث عن عبد الله بن الحارث، عن حكيم بن حزام ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏البيعان بالخيار ما لم يتفرقا ـ أو قال حتى يتفرقا ـ فإن صدقا وبينا بورك لهما في بيعهما، وإن كتما وكذبا محقت بركة بيعهما‏"‏‏. ‏
ہم سے بدل بن محبر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قتادہ نے، کہا کہ میں نے ابوخلیل سے سنا، وہ عبداللہ بن حارث سے نقل کرتے تھے اور وہ حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، خرید و فروخت کرنے والوں کو اختیار ہے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں ( کہ بیع فسخ کردیں یا رکھیں ) یا آپ نے ( مالم یتفرقا کے بجائے ) حتی یتفرقا فرمایا۔ پس اگر دونوں نے سچائی اختیار کی اور ہربات کھول کھول کر بیان کی تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ہوگی اور اگر انہوں نے کچھ چھپائے رکھا یا جھوٹ بولا تو ان کے خرید و فروخت کی برکت ختم کر دی جائے گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ

‏{‏يا أيها الذين آمنوا لا تأكلوا الربا أضعافا مضاعفة واتقوا الله لعلكم تفلحون‏}
اے ایمان والو ! سود در سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم فلاح پاسکو۔

تشریح : پہلے یہی آیت اتری، جاہلیت کا قاعدہ تھا کہ جب وعدہ آن پہنچتا تو قرض دار سے کہتے تو ادا کرتا ہے یا سود دینا پسند کرتا ہے اگر وہ نہ دیتا تو سود لگادیتے اور اصل میں شریک کرلیتے۔ اس طرح سود کی رقم جمع ہوکر دوگنی تگنی ہوجاتی۔ اللہ نے اس کا ذکر فرمایا اور منع کیا، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اصل سے کم یا ہلکا سود کھانا درست ہے ہماری شریعت میں سو دہلکا ہو یا بھاری مطلقاً حرام اور ناجائز ہے۔

حدیث نمبر : 2083
حدثنا آدم، حدثنا ابن أبي ذئب، حدثنا سعيد المقبري، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ليأتين على الناس زمان لا يبالي المرء بما أخذ المال، أمن حلال أم من حرام‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ مال اس نے کہاں سے لیا، حلال طریقہ سے یا حرام طریقہ سے۔

بلکہ ہر طرح سے پیسہ جوڑنے کی نیت ہوگی، کہیں سے بھی مل جائے اور کسی طرح سے خواہ شرعا وہ جائز ہو یا ناجائز۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ جو سو دنہ کھائے گا اس پر بھی سود کا غبار پڑ جائے گا۔ یعنی وہ سودی معاملات میں وکیل یا حاکم یا گواہ کی حیثیت سے شریک ہو کر رہے گا۔ آج کے نظامہائے باطل کے نفاذ سے یہ بلائیں جس قدر عام ہو رہی ہیں مزید تفصیل کی محتاج نہیں ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : سود کھانے والا اور اس پر گواہ ہونے والا اور سودی معاملات کا لکھنے والا، ان سب کی سزا کا بیان

وقوله تعالى ‏{‏الذين يأكلون الربا لا يقومون إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس ذلك بأنهم قالوا إنما البيع مثل الربا وأحل الله البيع وحرم الربا فمن جاءه موعظة من ربه فانتهى فله ما سلف وأمره إلى الله ومن عاد فأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون‏}‏
اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان کہ ” جو لوگ سود کھاتے ہیں، وہ قیامت میں بالکل اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے لپٹ کر دیوانہ بنا دیا ہو۔ یہ حالت ان کی اس وجہ سے ہوگی کہ انہوں نے کہا تھا کہ خرید و فروخت بھی سود ہی کی طرح ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خرید و فروخت کو حلا ل قرار دیا ہے اور سود کو حرام۔ پس جس کو اس کے رب کی نصیحت پہنچی اور وہ ( سود لینے سے ) باز آگیا تو وہ جوکچھ پہلے لے چکا ہے وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے لیکن اگر وہ پھر بھی سود لیتا رہا تو یہی لوگ جہنمی ہیں، یہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ “

کسی پر آسیب ہو یا شیطان تو وہ کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اگر مشکل سے کھڑا بھی ہوتا ہے تو کپکپا کر گرپڑتا ہے۔ یہی حال حشر میں سود خواروں کا ہوگا کہ وہ مخبوط الحواس ہو کر حشر میں عنداللہ حاضر کئے جائیں گے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے سود کو تجارت پر قیاس کرکے اس کو حلال قرار دیا۔ حالانکہ تجارت کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔ اور سودی معاملات کو حرام، مگر انہوں نے قانون الٰہی کا مقابلہ کیا، گویا چوری کی اور سینہ زوری کی، لہٰذا ان کی سزا یہ ہونی چاہئے۔ کہ وہ میدان محشر میں اس قدر ذلیل ہو کر اٹھیں کہ دیکھنے والے سب ہی ان کو ذلت اور خواری کی تصویر دیکھیں۔

حدیث نمبر : 2084
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن منصور، عن أبي الضحى، عن مسروق، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت لما نزلت آخر البقرة قرأهن النبي صلى الله عليه وسلم عليهم في المسجد، ثم حرم التجارة في الخمر‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب ( سورۃ ) بقرہ کی آخری آیتیں الذین یاکلون الربوا الخ نازل ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں صحابہ رضی اللہ عنہم کو مسجد میں پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد ان پر شراب کی تجارت حرام کر دیا۔

حدیث نمبر : 2085
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا جرير بن حازم، حدثنا أبو رجاء، عن سمرة بن جندب ـ رضى الله عنه ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏رأيت الليلة رجلين أتياني، فأخرجاني إلى أرض مقدسة، فانطلقنا حتى أتينا على نهر من دم فيه رجل قائم، وعلى وسط النهر رجل بين يديه حجارة، فأقبل الرجل الذي في النهر فإذا أراد الرجل أن يخرج رمى الرجل بحجر في فيه فرده حيث كان، فجعل كلما جاء ليخرج رمى في فيه بحجر، فيرجع كما كان، فقلت ما هذا فقال الذي رأيته في النهر آكل الربا‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر بن حازم نے، کہا کہ ہم سے ابورجاءبصری نے بیان کیا، ان سے سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، رات ( خواب میں ) میں نے دو آدمی دیکھے، وہ دونوں میرے پاس آئے اور مجھے بیت المقدس میں لے گئے، پھر ہم سب وہاں سے چلے یہاں تک کہ ہم ایک خون کی نہر پر آئے، وہاں ( نہر کے کنارے ) ایک شخص کھڑا ہوا تھا، اورنہر کے بیچ میں بھی ایک شخص کھڑا تھا۔ ( نہر کے کنارے پر ) کھڑے ہونے والے کے سامنے پتھر پڑے ہوئے تھے۔ بیچ نہر والا آدمی آتا اور جونہی وہ چاہتا کہ باہر نکل جائے فوراً ہی باہر والا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ کر مارتا جو اسے وہیں لوٹا دیتا تھا جہاں وہ پہلے تھا۔ اسی طرح جب بھی وہ نکلنا چاہتا کنارے پر کھڑا ہوا شخص اس کے منہ پر پتھر کھینچ مارتا اور وہ جہاں تھا وہیں پھر لوٹ جاتا۔ میں نے ( اپنے ساتھیوں سے جو فرشتے تھے ) پوچھا کہ یہ کیا ہے، تو انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ نہر میں تم نے جس شخص کو دیکھا وہ سود کھانے والا انسان ہے۔

تشریح : یہ طویل حدیث پارہ نمبر5 میں بھی گزر چکی ہے۔ اس میں سود خور کا عذاب دکھلایا گیا ہے کہ دنیا میں اس نے لوگوں کا خون چوس چوس کر دولت جمع کرلی، اسی خون کی وہ نہر ہے جس میں وہ غوطہ کھلایا جارہا ہے۔ بعض روایات میں وسط النہر کی جگہ شط النہر کا لفظ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : سود کھلانے والے کا گناہ

لقوله تعالى ‏{‏يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وذروا ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين * فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله ورسوله وإن تبتم فلكم رءوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون * وإن كان ذو عسرة فنظرة إلى ميسرة وأن تصدقوا خير لكم إن كنتم تعلمون * واتقوا يوما ترجعون فيه إلى الله ثم توفى كل نفس ما كسبت وهم لا يظلمون‏}‏ قال ابن عباس هذه آخر آية نزلت على النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ” اے ایمان والو ! ڈرو اللہ سے، اور چھوڑ دو وصولی ان رقموں کی جو باقی رہ گئی ہیں لوگوں پرسود سے، اگر تم ایمان والے ہو، اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھر تم کو اعلان جنگ ہے اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم سود لینے سے توبہ کرتے ہو تو صرف اپنی اصل رقم لے لو، نہ تم کسی پر زیادتی کرو اور نہ تم پر کوئی زیادتی ہو، اور اگر مقروض تنگ دست ہے تو اسے مہلت دے دو ادائیگی کی طاقت ہونے تک اور اگر تم اس سے اصل رقم بھی چھوڑ دو تو یہ تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے اگر تم سمجھو۔ اور اس دن سے ڈرو جس دن تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ پھر ہر شخص کو اس کے کیے ہوئے کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔ اور ان پر کسی قسم کی کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ “ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ یہ آخری آیت ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔

حدیث نمبر : 2086
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن عون بن أبي جحيفة، قال رأيت أبي اشترى عبدا حجاما، فسألته فقال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب، وثمن الدم، ونهى عن الواشمة والموشومة، وآكل الربا، وموكله، ولعن المصور‏.‏
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عون بن ابی جحیفہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کو ایک پچھنا لگانے والا غلام خریدتے دیکھا۔ میں نے یہ دیکھ کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت لینے اور خون کی قیمت لینے سے منع فرمایا ہے، آپ نے گودنے والی اور گدوانے والی کو ( گودنا لگوانے سے ) سود لینے والے اور سود دینے والے کو ( سود لینے یا دینے سے ) منع فرمایا اور تصویر بنانے والے پر لعنت بھیجی۔

تشریح : اکثر علماءکے نزدیک کتے کی بیع درست نہیں ہے مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کتے کا بیچنا اوراس کی قیمت کھانا جائز رکھا ہے اور اگر کوئی کسی کا کتا مار ڈالے تو اس پر تاوان لازم کیا گیا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ہذا کی رو سے کتے کی بیع مطلقاً ناجائز قرار دی ہے۔ پچھنا لگانے کی اجرت کے بارے میں ممانعت تنزیہی ہے کیوں کہ دوسری حدیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود پچھنا لگوایا اور پچھنا لگانے والے کو مزدوری دی، اگر حرام ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہ دیتے۔ گدوانا، گودنا حرام ہے اور جانداروں کی مورت بنانا بھی حرام ہے جیسا کہ یہاں ایسے سب پیشہ والوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت بھیجی ہے۔
 
Top