• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : ( سورۃ بقرہ میں ) اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وہ سود کو مٹا دیتا ہے اور صدقات کو دو چند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ نہیں پسند کرتا ہر منکر گنہگار کو

حدیث نمبر : 2087
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، قال ابن المسيب إن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏الحلف منفقة للسلعة ممحقة للبركة‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے کہ سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ( سامان بیچتے وقت دکاندار کے ) قسم کھانے سے سامان تو جلدی بک جاتا ہے لیکن وہ قسم برکت کو مٹا دینے والی ہوتی ہے۔

گو چند روز تک ایسی جھوٹی قسمیں کھانے سے مال تو کچھ نکل جاتا ہے لیکن آخر میں اس کا جھوٹ اور فریب کھل جاتا ہے اور برکت اس لیے ختم ہو جاتی ہے کہ لو گ اسے جھوٹا جان کر اس کی دکان پر آنا چھوڑ دیتے ہیں صدق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : خرید و فروخت میں قسم کھانا مکروہ ہے

حدیث نمبر : 2088
حدثنا عمرو بن محمد، حدثنا هشيم، أخبرنا العوام، عن إبراهيم بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن أبي أوفى ـ رضى الله عنه ـ أن رجلا، أقام سلعة، وهو في السوق، فحلف بالله لقد أعطى بها ما لم يعط، ليوقع فيها رجلا من المسلمين، فنزلت ‏{‏إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا ‏}‏
ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عوام بن حوشب نے خبر دی، انہیں ابراہیم بن عبدالرحمن نے اور انہیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے کہ بازار میں ایک شخص نے ایک سامان دکھا کر قسم کھائی کہ اس کی اتنی قیمت لگ چکی ہے۔ حالانکہ اس کی اتنی قیمت نہیں لگی تھی اس قسم سے اس کا مقصد ایک مسلمان کو دھوکہ دینا تھا۔ اس پر یہ آیت اتری ” جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے بدلہ میں بیچتے ہیں۔ “

آخرت میں ان کے لیے کچھ حصہ نہیں ہے اور نہ ان سے اللہ کلام کرے گا اور نہ ان پر نظر رحمت ہوگی۔ اور نہ ان کو پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نام کی جھوٹی قسم کھانا بدترین گناہ ہے۔ علمائے کرام نے کسی سچے معاملہ میں بھی بطور تنزیہ اللہ کے نام کی قسم کھانا پسند نہیں کیا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنی ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور جھوٹی قسموں سے اپنا مال فروخت کرنے والا اور احسان جتلانے والا یہ وہ مجرم ہیں جن پر حشر میں اللہ کی نظر رحمت نہیں ہوگی۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ تجارت میں ہر وقت سچائی کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ جھوٹ بولنے والا تاجر عنداللہ سخت مجرم قرار پاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : سناروں کا بیان

وقال طاوس عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا يختلى خلاها‏"‏‏. ‏ وقال العباس إلا الإذخر، فإنه لقينهم وبيوتهم‏.‏ فقال ‏"‏إلا الإذخر‏"‏‏. ‏
اور طاؤس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( حجۃ الوداع کے موقع پر حرم کی حرمت بیان کرتے ہوئے ) فرمایا تھا کہ حرم کی گھاس نہ کاٹی جائے، اس پر عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ اذخر ( ایک خاص قسم کی گھاس ) کی اجازت دے دیجئے۔ کیوں کہ یہ یہاں کے سوناروں اور لوہاروں اور گھروں کے کام آتی ہے، تو آپ نے فرمایا، اچھا اذخر کاٹ لیا کرو۔

اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ سناری کا پیشہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ تو یہ پیشہ جائز ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب لاکر اس حدیث کے ضعف کی طرف اشادہ فرمایا ہے جسے امام احمد نے نکالا ہے جس میں مذکور ہے کہ سب سے زیادہ جھوٹے سنار اور رنگریز ہوا کرتے ہیں اس کی سند میں اضطراب ہے۔

حدیث نمبر : 2089
حدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، أخبرنا يونس، عن ابن شهاب، قال أخبرني علي بن حسين، أن حسين بن علي ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن عليا ـ عليه السلام ـ قال كانت لي شارف من نصيبي من المغنم، وكان النبي صلى الله عليه وسلم أعطاني شارفا من الخمس، فلما أردت أن أبتني بفاطمة ـ عليها السلام ـ بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم واعدت رجلا صواغا من بني قينقاع أن يرتحل معي فنأتي بإذخر أردت أن أبيعه من الصواغين، وأستعين به في وليمة عرسي‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہمیں یونس نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے، انہوں نے کہا کہ ہمیں زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے خبر دی، انہیں حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غنیمت کے مال میں سے میرے حصے میں ایک اونٹ آیا تھا اور ایک دوسرا اونٹ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ” خمس “ میں سے دیا تھا۔ پھر جب میرا ارادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہاکی رخصتی کراکے لانے کا ہوا تو میں نے بنی قینقاع کے ایک سنار سے طے کیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں مل کر اذخر گھاس ( جمع کرکے ) لائیں کیوں کہ میرا ارادہ تھا کہ اسے سناروں کے ہاتھ بیچ کر اپنی شادمی کے ولیمہ میں اس کی قیمت کو لگاؤں۔

تشریح : اس حدیث میں بھی سناروں کا ذکر ہے۔ جس سے عہد رسالت میں اس پیشہ کا ثبوت ملتا ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ رزق حلال تلاش کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہئے۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خود جاکر جنگل سے اذخر گھاس جمع کرکے فروخت کی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ولیمہ دولہا کی طرف سے ہوتا ہے۔

بنی قینقاع مدینہ میں یہودیوں کے ایک خاندان کا نام تھا۔ علی بن حسین امام زین العابدین کا نام ہے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بیٹے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پوتے ہیں۔ کنیت ابوالحسن ہے۔ اکابر سادات میں سے تھے۔ تابعین میں جلیل القدر اور شہرت یافتہ تھے۔ امام زہری نے فرمایا کہ قریش میں کسی کو میں نے ان سے بہتر نہیں پایا۔ 94ھ میں اتنقال فرمایا۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ائمہ اثنا عشرہ کی روایتیں نہیں لی ہیں۔ ان معترضین کے جواب میں امام زین العابدین کی یہ روایت موجو دہے جو ائمہ اثنا عشر میں بڑا مقام رکھتے ہیں۔

حدیث نمبر : 2090
حدثنا إسحاق، حدثنا خالد بن عبد الله، عن خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏إن الله حرم مكة، ولم تحل لأحد قبلي، ولا لأحد بعدي، وإنما حلت لي ساعة من نهار، ولا يختلى خلاها، ولا يعضد شجرها، ولا ينفر صيدها ولا يلتقط لقطتها إلا لمعرف‏"‏‏. ‏ وقال عباس بن عبد المطلب إلا الإذخر لصاغتنا ولسقف بيوتنا‏.‏ فقال ‏"‏إلا الإذخر‏"‏‏. ‏ فقال عكرمة هل تدري ما ينفر صيدها هو أن تنحيه من الظل، وتنزل مكانه‏.‏ قال عبد الوهاب عن خالد لصاغتنا وقبورنا‏.‏
ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا،، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت ولا شہر قرار دیا ہے۔ یہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی ایک دن چند لمحات کے لیے لیے حلال ہوا تھا۔ سوا اب اس کی نہ گھاس کاٹی جائے، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں، نہ اس کے شکار بھگائے جائیں، اور نہ اس میں کوئی گری ہوئی چیز اٹھائی جائے۔ صرف معرف ( یعنی گمشدہ چیز کو اصل مالک تک اعلان کے ذریعہ پہنچانے والے ) کو اس کی اجازت ہے۔ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اذخر کے لیے اجازت دے دیجئے، کہ یہ ہمارے سناروں اور ہمارے گھروں کی چھتوں کے کام میں آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذخر کی اجازت دے دی۔ عکرمہ نے کہا، یہ بھی معلوم ہے کہ حرم کے شکار کو بھگانے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ( کسی درخت کے سائے تلے اگر وہ بیٹھا ہوا ہو تو ) تم سائے سے اسے ہٹا کر خود وہاں بیٹھ جاؤ۔ عبدالوہاب نے خالد سے ( اپنی روایت میں یہ الفاظ ) بیان کئے کہ ( اذخر ) ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے کام میں آتی ہے۔

یعنی بجائے چھتوں کے عبدالوہاب کی روایت میں قبروں کا ذکر ہے۔ عرب لوگ اذخر کو قبروں میں بھی ڈالتے اور چھت بھی اس سے پاٹتے وہ ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔ عبدالوہاب کی روایت کو خو دامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الحج میں نکالا ہے۔ روایت میں سناروں کا ذکر ہے، اسی سے اس پیشہ کا درست ہونا ثابت ہوا۔ سنار جو سونا چاندی وغیرہ سے عورتوں کے زیور بنانے کا دھندا کرتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کاریگروں اور لوہاروں کا بیان

حدیث نمبر : 2091
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابن أبي عدي، عن شعبة، عن سليمان، عن أبي الضحى، عن مسروق، عن خباب، قال كنت قينا في الجاهلية، وكان لي على العاص بن وائل دين، فأتيته أتقاضاه قال لا أعطيك حتى تكفر بمحمد صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقلت لا أكفر حتى يميتك الله، ثم تبعث‏.‏ قال دعني حتى أموت وأبعث، فسأوتى مالا وولدا فأقضيك فنزلت ‏{‏أفرأيت الذي كفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا * أطلع الغيب أم اتخذ عند الرحمن عهدا ‏}‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلیمان نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے خباب بن ارت رضی اللہ عنہ نے کہ جاہلیت کے زمانہ میں لوہار کا کام کیا کرتا تھا۔ عاص بن وائل ( کافر ) پر میرا کچھ قرض تھا میں ایک دن اس پر تقاضا کرنے گیا۔ اس نے کہا کہ جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار نہیں کرے گا میں تیرا قرض نہیں دوں گا۔ میں نے جواب دیا کہ میں آپ کا انکار اس وقت تک نہیں کروں گا جب تک اللہ تعالیٰ تیری جان نہ لے لے، پھر تو دوبارہ اٹھایا جائے، اس نے کہا کہ پھر مجھے بھی مہلت دے کہ میں مرجاؤں، پھر دوبارہ اٹھایا جاؤں اور مجھے مال اور اولاد ملے اس وقت میں بھی تمہارا قرض ادا کردوں گا۔ اس پر آیت نازل ہوئی ” کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیات کو نہ مانا اور کہا ( آخرت میں ) مجھے مال اور دولت دی جائے گی، کیا اسے غیب کی خبر ہے؟ یا اس نے اللہ تعالیٰ کے ہاں سے کوئی اقرار لے لیا ہے۔ “

خباب بن ارت رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں، ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے، ان کو زمانہ جاہلیت میں ظالموں نے قید کر لیا تھا۔ ایک خزاعیہ عورت نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دار ارقم میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہ اسلام لا چکے تھے۔ کفار نے ان کو سخت تکالیف میں مبتلا کیا۔ مگر انہوں نے صبر کیا۔ کوفہ میں اقامت گزیں ہو گئے تھے اور 73 سال کی عمر میں 37ھ میں وہیں ان کا انتقال ہوا۔ اس حدیث سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لوہار کا کام کرنا ثابت فرمایا، قرآن مجید سے ثابت ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام بھی لوہے کے بہترین ہتھیار بنایا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : درزی کا بیان

حدیث نمبر : 2092
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، أنه سمع أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ يقول إن خياطا دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعام صنعه، قال أنس بن مالك فذهبت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى ذلك الطعام، فقرب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم خبزا ومرقا فيه دباء وقديد، فرأيت النبي صلى الله عليه وسلم يتتبع الدباء من حوالى القصعة ـ قال ـ فلم أزل أحب الدباء من يومئذ‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں اسحاق بن عبداللہ نے ابی طلحہ نے خبر دی، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ ایک درزی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے پر بلایا۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا میں بھی اس دعوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گیا۔ اس درزی نے روٹی اور شوربا جس میں کدو اور بھنا ہوا گوشت تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کر دیا۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کدو کے قتلے پیالے میں تلاش کر رہے تھے۔ اسی دن سے میں بھی برابر کدو کو پسند کرتا ہوں۔

کیوں کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھا۔ کدو نہایت عمدہ ترکاری ہے یعنی لمبا کدو سرد تر اور دافع تپ و خفقان و دافع حرارت و خشکی بدن ہوتا ہے اور قبض بواسیری کو دفع کرتا ہے۔ پیٹھے کی بھی یہی خاصیت ہے۔ گو کدو کھانا دین کا تو کوئی کام نہیں ہے کہ اس کی پیروی لازم ہو، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ا سکی مقتضی ہے کہ ہر مسلمان کدو سے رغبت رکھے جیسے انس رضی اللہ عنہ نے کیا۔ ( وحیدی )
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کرنے والے صحابی خیاط تھے۔ درزی کا کام کیا کرتے تھے۔ اس سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے درزی کا کام ثابت فرمایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : کپڑا بننے والے کا بیان

حدیث نمبر : 2093
حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن أبي حازم، قال سمعت سهل بن سعد ـ رضى الله عنه ـ قال جاءت امرأة ببردة ـ قال أتدرون ما البردة فقيل له نعم، هي الشملة، منسوج في حاشيتها ـ قالت يا رسول الله، إني نسجت هذه بيدي أكسوكها‏.‏ فأخذها النبي صلى الله عليه وسلم محتاجا إليها‏.‏ فخرج إلينا وإنها إزاره‏.‏ فقال رجل من القوم يا رسول الله، اكسنيها، فقال ‏"‏نعم‏"‏‏. ‏ فجلس النبي صلى الله عليه وسلم في المجلس، ثم رجع فطواها، ثم أرسل بها إليه‏.‏ فقال له القوم ما أحسنت، سألتها إياه، لقد علمت أنه لا يرد سائلا‏.‏ فقال الرجل والله ما سألته إلا لتكون كفني يوم أموت‏.‏ قال سهل فكانت كفنه‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے کہا کہ میں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ ایک عورت ” بردہ “ لے کر آئی۔ سہل رضی اللہ عنہ نے پوچھا، تمہیں معلوم بھی ہے کہ بردہ کسے کہتے ہیں۔ کہا گیا جی ہاں ! بردہ حاشیہ دار چادر کو کہتے ہیں۔ تو اس عورت نے کہا، یا رسول اللہ ! میں نے خاص آپ کو پہنانے کے لیے یہ چادر اپنے ہاتھ سے بنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی ضرورت بھی تھی۔ پھر آپ باہر تشریف لائے تو آپ اسی چادر کو بطور ازار کے پہنے ہوئے تھے، حاضرین میں سے ایک صاحب بولے، یا رسول اللہ ! یہ تو مجھے دے دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا لے لینا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں تھوڑی دیر تک بیٹھے رہے پھر واپس تشریف لے گئے پھر ازار کو تہ کرکے ان صاحب کے پاس بھجوا دیا۔ لوگوں نے کہا تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ازار مانگ کر اچھا نہیں کیا کیوں کہ تمہیں معلوم ہے کہ آپ کسی سائل کے سوال کو رد نہیں کیا کرتے ہیں۔ اس پر ان صحابی نے کہا کہ واللہ ! میں نے تو صرف اس لیے یہ چادر مانگی ہے کہ جب میں مروں تو یہ میرا کفن بنے۔ سہل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ چادر ہی ان کا کفن بنی۔

تشریح : روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کے ہاں کرگھا تھا اور وہ کپڑا بنانے کا کام کرنے میں ماہر تھی۔ جو بہترین حاشیہ دار چادر بن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرنے لائی۔ آپ نے اسے بخوشی قبول کر لیا، مگر ایک صحابی ( عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ) تھے جنہوں نے اسے آپ کے جسم پر زیب تن دیکھ کر بطور تبرک اپنے کفن کے لیے اسے آپ سے مانگ لیا۔ اور آپ نے ان کو یہ دے دی، اور ان کے کفن ہی میں وہ استعمال کی گئی۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں نوربافی کا فن مروج تھا اور اس میں عورتیں تک مہارت رکھتی تھیں، اور اس پیشہ کو کوئی بھی معیوب نہیں جانتا تھا۔ یہی ثابت کرنا حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : بڑھئی کا بیان

حدیث نمبر : 2094
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا عبد العزيز، عن أبي حازم، قال أتى رجال إلى سهل بن سعد يسألونه عن المنبر، فقال بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى فلانة ـ امرأة قد سماها سهل ـ ‏"‏أن مري غلامك النجار، يعمل لي أعوادا أجلس عليهن إذا كلمت الناس‏"‏‏. ‏ فأمرته يعملها من طرفاء الغابة ثم جاء بها، فأرسلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بها، فأمر بها فوضعت، فجلس عليه‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا ان سے ابوحازم نے بیان کیا کہ کچھ لوگ سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کے یہاں منبر نبوی کے متعلق پوچھنے آئے۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں عورت کے یہاں جن کا نام بھی سہل رضی اللہ عنہ نے لیا تھا، اپنا آدمی بھیجا کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے کہیں کہ میرے لیے کچھ لکڑیوں کو جوڑ کر منبر تیار کردے، تاکہ لوگوں کو وعظ کرنے کے لیے میں اس پر بیٹھ جایا کروں۔ چنانچہ اس عورت نے اپنے غلام سے غابہ کے جھاؤ کی لکڑی کا منبر بنانے کے لیے کہا۔ پھر ( جب منبر تیار ہو گیا تو ) انہوں نے اسے آپ کی خدمت میں بھیجا۔ وہ منبر آپ کے حکم سے ( مسجد میں ) رکھا گیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھے۔

غابہ مدینہ سے شام کی جانب ایک مقام ہے، جہاں جھاؤ کے بڑے بڑے درخت تھے۔ اس عورت کا نام معلوم نہیں ہو سکا البتہ غلام کا نام باقوم بتلایا گیا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ منبر تمیم داری نے بنایا تھا۔

حدیث نمبر : 2095
حدثنا خلاد بن يحيى، حدثنا عبد الواحد بن أيمن، عن أبيه، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أن امرأة من الأنصار قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم يا رسول الله، ألا أجعل لك شيئا تقعد عليه فإن لي غلاما نجارا‏.‏ قال ‏"‏إن شئت‏"‏‏. ‏ قال فعملت له المنبر، فلما كان يوم الجمعة قعد النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر الذي صنع، فصاحت النخلة التي كان يخطب عندها حتى كادت أن تنشق، فنزل النبي صلى الله عليه وسلم حتى أخذها فضمها إليه، فجعلت تئن أنين الصبي الذي يسكت حتى استقرت‏.‏ قال ‏"‏بكت على ما كانت تسمع من الذكر‏"‏‏. ‏
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک انصاری عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز کیوں نہ بنوا دوں جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ کے وقت بیٹھا کریں۔ کیونکہ میرے پاس ایک غلام بڑھئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تمہاری مرضی۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر جب منبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس نے تیار کیا۔ تو جمعہ کے دن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس منبر پر بیٹھے تو اس کھجور کی لکڑی سے رونے کی آواز آنے لگی۔ جس پر ٹیک دے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خطبہ دیا کرتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ لپٹ جائے گی۔ یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر سے اترے اور اسے پکڑ کر اپنے سینے سے سے لگا لیا۔ اس وقت بھی وہ لکڑی اس چھوٹے بچے کی طرح سسکیاں بھر رہی تھی جسے چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ چپ ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ اس کے رونے کی وجہ یہ تھی کہ یہ لکڑی خطبہ سنا کرتی تھی اس لیے روئی۔

تشریح : کیونکہ آپ نے اس کو چھوڑ دیا اور منبر پر خطبہ پڑھنے لگے۔ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا غم ایک لکڑی سے بھی ظاہر ہوا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لکڑی کو سینہ سے لگایا تب جا کر اس کا رونا بند ہوا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث ہذا سے ثابت فرمایا کہ بڑھئی کا پیشہ بھی کوئی مذموم پیشہ نہیں ہے۔ ایک مسلمان ان میں سے جو پیشہ بھی اس کے لیے آسان ہو اختیار کرکے رزق حلال تلاش کرسکتا ہے۔ ان احادیث سے اس امر پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ صنعت و حرفت کے متعلق بھی اسلام کی نگاہوں میں ایک ترقی یافتہ پلان ہے۔ بعد کے زمانوں میں جو بھی ترقیات اس سلسلہ میں ہوئی ہیں خصوصاً آج اس مشینی دور میں یہ جملہ فنون کس تیزی کے ساتھ منازل طے کر رہے ہیں بنیادی طور پر یہ سب کچھ اسلامی تعلیمات کے مقدس نتائج ہیں۔ اس لحاظ سے اسلام کا یہ پوری دنیائے انسانیت پر احسان عظیم ہے کہ اس نے دین اور دنیا ہر دو کی ترقی کا پیغام دے کر مذہب کی سچی تصوریر کو بنی نوع انسان کے سامنے آشکارا کیا ہے۔ سچ ہے ان الدین عند اللہ الاسلام ( آل عمران : 19 )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : اپنی ضرورت کی چیزیں ہر آدمی خود بھی خرید سکتا ہے

وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ اشترى النبي صلى الله عليه وسلم جملا من عمر‏.‏ وقال عبد الرحمن بن أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ جاء مشرك بغنم، فاشترى النبي صلى الله عليه وسلم منه شاة‏.‏ واشترى من جابر بعيرا‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک اونٹ خریدا، اور عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک مشرک بکریاں ( بیچنے ) لایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی۔ آپ نے جابر رضی اللہ عنہ سے بھی ایک اونٹ خریدا تھا۔

حدیث نمبر : 2096
حدثنا يوسف بن عيسى، حدثنا أبو معاوية، حدثنا الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت اشترى رسول الله صلى الله عليه وسلم من يهودي طعاما بنسيئة، ورهنه درعه‏.‏
ہم سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود بن یزید نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے کچھ غلہ ادھار خریدا۔ اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھوائی۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود ایک یہودی سے ادھار خریدا۔ بلکہ اپنی زرہ اس کے ہاں گروی رکھ دی۔ سو یہ امر مروت کے خلاف نہیں ہے، کوئی امام ہو یا بادشاہ نبی سے کسی کا درجہ بڑا نہیں ہے۔ اپنا سودا بازار سے خود خریدنا اور خو دہی اس کو اٹھا کر لے آنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ اور جو اس کو برا یا عزت کے خلاف سمجھے وہ مردود و شقی ہے۔ بلکہ بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے انسان اپنا ہر کام خود ہی انجام دے تو اس کی زندگی پرسکون زندگی ہوگی۔ اسوہ حسنہ اسی کا نام ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : چوپایہ جانوروں اور گھوڑوں، گدھوں کی خریداری کابیان

حدیث نمبر : 2096
وإذا اشترى دابة أو جملا وهو عليه، هل يكون ذلك قبضا قبل أن ينزل وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال النبي صلى الله عليه وسلم لعمر ‏"‏بعنيه‏"‏‏. ‏ يعني جملا صعبا‏.‏
اگر کوئی سواری کا جانور یا گدھا خریدے اور بیچنے والا اس پر سوار ہو تو اس کے اترنے سے پہلے خریدار کا قبضہ پورا ہوگا یا نہیں؟ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا، اسے مجھ سے بیچ دے۔ آپ مراد ایک سرکش اونٹ سے تھی۔

حدیث نمبر : 2097
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الوهاب، حدثنا عبيد الله، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في غزاة، فأبطأ بي جملي وأعيا، فأتى على النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏جابر‏"‏‏. ‏ فقلت نعم‏.‏ قال ‏"‏ما شأنك‏"‏‏. ‏ قلت أبطأ على جملي وأعيا، فتخلفت‏.‏ فنزل يحجنه بمحجنه، ثم قال ‏"‏اركب‏"‏‏. ‏ فركبت، فلقد رأيته أكفه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏تزوجت‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏بكرا أم ثيبا‏"‏‏. ‏ قلت بل ثيبا‏.‏ قال ‏"‏أفلا جارية تلاعبها وتلاعبك‏"‏‏. ‏ قلت إن لي أخوات، فأحببت أن أتزوج امرأة تجمعهن، وتمشطهن، وتقوم عليهن‏.‏ قال ‏"‏أما إنك قادم، فإذا قدمت فالكيس الكيس‏"‏‏. ‏ ثم قال ‏"‏أتبيع جملك‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ فاشتراه مني بأوقية، ثم قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم قبلي، وقدمت بالغداة، فجئنا إلى المسجد، فوجدته على باب المسجد، قال ‏"‏الآن قدمت‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏فدع جملك، فادخل فصل ركعتين‏"‏‏. ‏ فدخلت فصليت، فأمر بلالا أن يزن له أوقية‏.‏ فوزن لي بلال، فأرجح في الميزان، فانطلقت حتى وليت فقال ‏"‏ادع لي جابرا‏"‏‏. ‏ قلت الآن يرد على الجمل، ولم يكن شىء أبغض إلى منه‏.‏ قال ‏"‏خذ جملك ولك ثمنه‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ نے بیان کیا، ان سے وہب بن کیسان نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ ( ذات الرقاع یا تبوک ) میں تھا۔ میرا اونٹ تھک کرسست ہو گیا۔ اتنے میں میرے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور فرمایا جابر ! میں نے عرض کیا، حضور حاضر ہوں۔ فرمایا کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کہ میرا اونٹ تھک کر سست ہوگیا ہے، چلتا ہی نہیں اس لیے میں پیچھے رہ گیا ہوں۔ پھر آپ اپنی سواری سے اترے اور میرے اسی اونٹ کو ایک ٹیرھے منہ کی لکڑی سے کھینچنے لگے ( یعنی ہانکنے لگے ) اور فرمایا کہ اب سوار ہو جا۔ چنانچہ میں سوار ہو گیا۔ اب تو یہ حال ہوا کہ مجھے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر پہنچنے سے روکنا پڑ جاتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، جابر تو نے شادی بھی کرلی ہے؟ میں نے عرض کی جی ہاں ! دریافت فرمایا کسی کنواری لڑکی سے کی ہے یا بیوہ سے۔ میں نے عرض کیا کہ میں نے تو ایک بیوہ سے کر لی ہے۔ فرمایا، کسی کنواری لڑکی سے کیوں نہ کی کہ تم بھی اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ بھی تمہارے ساتھ کھیلتی۔ ( حضرت جابر بھی کنورے تھے ) میں نے عرض کیا کہ میری کئی بہنیں ہیں۔ ( اور میری ماں کا انتقال ہو چکا ہے ) اس لیے میں نے یہی پسند کیا کہ ایسی عورت سے شادی کروں، جو انہیں جمع رکھے۔ ان کے کنگھا کرے اور ان کی نگرانی کرے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ اچھا اب تم گھر پہنچ کر خیر و عافیت کے ساتھ خوب مزے اڑانا۔ اس کے بعد فرمایا، کیا تم اپنا اونٹ بیچو گے؟ میں نے کہا جی ہاں ! چنانچہ آپ نے ایک اوقیہ چاندی میں خرید لیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پہلے ہی مدینہ پہنچ گئے تھے۔ اور میں دوسرے دن صبح کو پہنچا۔ پھر ہم مسجد آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد کے دروازہ پر ملے۔ آپ نے دریافت فرمایا، کیا ابھی آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں ! فرمایا، پھر اپنا اونٹ چھوڑ دے اور مسجد میں جاکے دو رکعت نماز پڑھ۔ میں اندر گیا اور نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ نے بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ میرے لیے ایک اوقیہ چاندی تول دے۔ انہوں نے ایک اوقیہ چاندی جھکتی ہوئی تول دی۔ میں پیٹھ موڑ کر چلا تو آپ نے فرمایا کہ جابر کو ذرا بلاؤ۔ میں نے سوچا کہ شاید اب میرا اونٹ پھر مجھے واپس کریں گے۔ حالانکہ اس سے زیادہ ناگوار میرے لیے کوئی چیز نہیں تھی۔ چنانچہ آپ نے یہی فرمایاکہ یہ اپنا اونٹ لے جا اور اس کی قیمت بھی تمہاری ہے۔

تشریح : باب کی دونوں حدیثوں میں کہیں گدھے کا ذکرنہیں جس کا بیان ترجمہ باب میں ہے اور شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے گدھے کو اونٹ پر قیاس کیا۔ دونوں چوپائے اور سواری کے جانو رہیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیچتے وقت یہ شرط کر لی تھی کہ مدینہ پہنچنے تک میں اس پر سوار ہوں گا۔ امام احمد اور اہل حدیث نے بیع میں یہ شرط اسی حدیث سے درست رکھی ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب میں بیس جگہوں کے قریب بیان کیا ہے۔ گویا اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب البیوع
باب : جاہلیت کے بازاروں کا بیان جن میں اسلام کے زمانہ میں بھی لوگوں نے خرید و فروخت کی

حدیث نمبر : 2098
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كانت عكاظ ومجنة وذو المجاز أسواقا في الجاهلية، فلما كان الإسلام تأثموا من التجارة فيها، فأنزل الله ‏{‏ليس عليكم جناح‏}‏ في مواسم الحج، قرأ ابن عباس كذا‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عکاظ، مجنہ اور ذو المجاز یہ سب زمانہ جاہلیت کے بازار تھے۔ جب اسلام آیا تو لوگوں نے ان میں تجارت کو گناہ سمجھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی ﴾لیس علیکم جناح﴿ فی مواسم الحج، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسی طرح قرات کی ہے۔

یعنی تم پر گناہ نہیں کہ ایام حج میں ان بازاروں میں تجارت کرو۔
 
Top