• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : کسی نے شام تک رمی نہ کی یا قربانی سے پہلے بھول کر یا مسئلہ نہ جان کر سر منڈا لیا تو کیا حکم ہے؟

حدیث نمبر : 1734
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قيل له في الذبح والحلق والرمى والتقديم والتأخير فقال ‏"‏لا حرج‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کرنے، سر منڈانے، رمی جمار کرنے اور ان سے آگے پیچھے کرنے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔

حدیث نمبر : 1735
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يسأل يوم النحر بمنى، فيقول ‏"‏لا حرج‏"‏‏. ‏ فسأله رجل، فقال حلقت قبل أن أذبح‏.‏ قال ‏"‏اذبح، ولا حرج‏"‏‏. ‏ وقال رميت بعد ما أمسيت‏.‏ فقال ‏"‏لا حرج‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہمانے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوم نحر میں منیٰ میں مسائل پوچھے جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جاتے کہ کوئی حرج نہیں، ایک شخص نے پوچھا تھا کہ میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈا لیا ہے تو آپ نے اس کے جواب میں بھی یہی فرمایا کہ جاؤ قربانی کرلو کوئی حرج نہیں اور اس نے یہ بھی پوچھا کہ میں نے کنکریاں شام ہونے کے بعد ہی مار لی ہیں، تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی حرج نہیں۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان صورتوں میں نہ کوئی گناہ لازم کیا نہ فدیہ۔ اہل حدیث کا یہی مذہب ہے اور شافعیہ اور حنابلہ کا یہی مذہب ہے اور مالکیہ اور حنفیہ کا قول ہے کہ ان میں ترتیب واجب ہے اور اس کا خلاف کرنے والوں پر دم لازم ہوگا، ظاہر ہے کہ ان حضرات کا یہ قول حدیث ہذا کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل توجہ نہیں کیوں کہ
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار مت دیکھ کسی کا قول و کردار
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : جمرہ کے پاس سوار رہ کر لوگوں کو مسئلہ بتانا

حدیث نمبر : 1736
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عيسى بن طلحة، عن عبد الله بن عمرو، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم وقف في حجة الوداع، فجعلوا يسألونه، فقال رجل لم أشعر فحلقت قبل أن أذبح‏.‏ قال ‏"‏اذبح ولا حرج‏"‏‏. ‏ فجاء آخر فقال لم أشعر فنحرت قبل أن أرمي‏.‏ قال ‏"‏ارم ولا حرج‏"‏‏. ‏ فما سئل يومئذ عن شىء قدم ولا أخر إلا قال افعل ولا حرج‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عیسیٰ بن طلحہ نے، انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر (اپنی سواری ) پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسائل معلوم کئے جا رہے تھے۔ ایک شخص نے کہا حضور مجھ کو معلوم نہ تھا اور میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب قربانی کر لو کوئی حرج نہیں، دوسرا شخص آیا اور بولا حضور مجھے خیال نہ رہا اور رمی جمار سے پہلے ہی میں نے قربانی کردی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب رمی کرلو کوئی حرج نہیں، اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کے آگے پیچھے کرنے کے متعلق سوال ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا اب کرلو کوئی حرج نہیں۔

حدیث اور باب میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف فرما تھے اور مسائل بتلا رہے تھے۔

حدیث نمبر : 1737
حدثنا سعيد بن يحيى بن سعيد، حدثنا أبي، حدثنا ابن جريج، حدثني الزهري، عن عيسى بن طلحة، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنه ـ حدثه أنه، شهد النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يوم النحر، فقام إليه رجل، فقال كنت أحسب أن كذا قبل كذا‏.‏ ثم قام آخر فقال كنت أحسب أن كذا قبل كذا حلقت قبل أن أنحر، نحرت قبل أن أرمي‏.‏ وأشباه ذلك‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏افعل ولا حرج‏"‏‏. ‏ لهن كلهن، فما سئل يومئذ عن شىء إلا قال افعل ولا حرج‏.‏
ہم سے سعید بن یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے عیسیٰ بن طلحہ نے او ران سے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دسویں تاریخ کو منیٰ میں خطبہ دے رہے تھے تو وہ وہاں موجود تھے۔ ایک شخص نے اس وقت کھڑے ہو کر پوچھا کہ میںاس خیال میں تھا کہ فلاں کام فلاں سے پہلے ہے پھر دوسرا کھڑا ہوا او رکہا کہ میرا خیال تھا کہ فلاں کام فلاں سے پہلے ہے، چنانچہ میں نے قربانی سے پہلے سر منڈالیا، رمی جمار سے پہلے قربانی کرلی، او رمجھے اس میں شک ہوا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب کرلو۔ ان سب میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح کے دوسرے سوالات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کئے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کے جواب میں یہی فرمایا کہ کوئی حرج نہیں اب کرلو۔

حدیث نمبر : 1738
حدثنا إسحاق، قال أخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا أبي، عن صالح، عن ابن شهاب، حدثني عيسى بن طلحة بن عبيد الله، أنه سمع عبد الله بن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنهما ـ قال وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم على ناقته‏.‏ فذكر الحديث‏.‏ تابعه معمر عن الزهري‏.‏
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، ان سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے او ران سے عیسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سنا انہوں نے بتلایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سواری پر سوا رہو کر ٹھہرے رہے پھر پوری حدیث بیان کی۔ اس کی متابعت معمر نے زہری سے روایت کرکے کی ہے۔

تشریح : شریعت کی اس سادگی اور آسانی کا اظہار مقصود ہے جو اس نے تعلیم، تعلم، افتاءو ارشاد کے سلسلہ میں سامنے رکھی ہے۔ بعض روایتوں میں ایسا بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سواری پر نہ تھے بلکہ بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کے مسائل بتلا رہے تھے۔ سو تطبیق یہ ہے کہ کچھ وقت سواری پر بیٹھ کر ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسائل بتلائے ہوں، بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتر کر نیچے بیٹھ گئے ہوں۔ جس راوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جس حال میں دیکھا بیان کر دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : منیٰ کے دنوں میں خطبہ سنانا

حدیث نمبر : 1739
حدثنا علي بن عبد الله، حدثني يحيى بن سعيد، حدثنا فضيل بن غزوان، حدثنا عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب الناس يوم النحر فقال ‏"‏يا أيها الناس‏.‏ أى يوم هذا‏"‏‏. ‏ قالوا يوم حرام‏.‏ قال ‏"‏فأى بلد هذا‏"‏‏. ‏ قالوا بلد حرام‏.‏ قال ‏"‏فأى شهر هذا‏"‏‏. ‏ قالوا شهر حرام‏.‏ قال ‏"‏فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في بلدكم هذا في شهركم هذا‏"‏‏. ‏ فأعادها مرارا، ثم رفع رأسه فقال ‏"‏اللهم هل بلغت اللهم هل بلغت‏"‏‏. ‏ قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ فوالذي نفسي بيده إنها لوصيته إلى أمته ـ ‏"‏فليبلغ الشاهد الغائب، لا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض‏"‏‏. ‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، ان سے فضل بن غزوان نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے بیان کیا اور ان سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ دسویں تاریخ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں خطبہ دیا، خطبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لوگو ! آج کونسا دن ہے؟ لوگ بولے یہ حرمت کا دن ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا اور یہ شہر کونسا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حرمت کا شہر ہے، آپ صلی اللہ عیہ وسلم نے پوچھا یہ مہینہ کونسا ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حرمت کا مہینہ ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس تمہارا خون تمہارے مال اور تمہاری عزت ایک دوسرے پر اسی طرح حرام لیے جیسے اس دن کی حرمت، اس شہر اور اس مہینہ کی حرمت ہے، اس کلمہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی بار دہرایا اور پھر آسمان کی طرف سر اٹھا کر کہا اے اللہ ! کیا میں نے (تیرا پیغام ) پہنچا دیا اے اللہ ! کیا میں نے پہنچا دیا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ اس ذا ت کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ وصیت اپنی تمام امت کے لیے ہے، لہٰذا حاضر (اور جاننے والے ) غائب (اور ناواقف لوگوں کو اللہ کا پیغام ) پہنچا دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا دیکھو میرے بعد ایک دوسرے کی گردن مار کر کافر نہ بن جانا۔

یہ خطبہ یوم النحر کو سنانا سنت ہے اس میں رمی وغیرہ کے احکام بیان کرنا چاہئے اور یہ حج کے چار خطبوں میں سے تیسرا خطبہ ہے اور سب نماز عید کے بعد ہیں مگر عرفہ کا خطبہ نماز سے پہلے ہے اس دن دو خطبے پڑھنے چاہئیں۔ قسطلانی ( وحیدی )
حج کا مقصد عظیم دنیائے اسلام کو خدا ترسی اور اتفاق باہمی کی دعوت دینا ہے اور اس کا بہترین موقع یہی خطبات ہیں، لہٰذا خطیب کا فرض ہے کہ مسائل حج کے ساتھ ساتھ وہ دنیائے اسلام کے مسائل پر بھی روشنی ڈالے اور مسلمانوں کو خدا ترسی، کتاب و سنت کی پابندی اور باہمی اتفاق کی دعوت دے کہ حج کا یہی مقصود اعظم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطبہ میں اللہ کو پکارنے کے لیے آسمان کی طرف سر اٹھایا، اس سے اللہ پاک کے لیے جہت فوق اور استوی علی العرش ثابت ہوا۔ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو یوم النحر/ آٹھویں کو یوم الترویہ، نویں کو یوم عرفہ اور گیارہویں کو یوم القرا اور بارہویں کو یوم النفر اول اور تیرہویں کو یوم النفر الثانی کہتے ہیں۔ اور دسویں گیارہویں بارہویں تیرہویں کو ایام تشریق کہتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1740
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، قال أخبرني عمرو، قال سمعت جابر بن زيد، قال سمعت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب بعرفات‏.‏ تابعه ابن عيينة عن عمرو‏.‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو نے خبر دی، کہا کہ میں نے جابر بن زید سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ میدان عرفات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ میں نے خود سنا تھا۔ اس کی متابعت ابن عیینہ نے عمرو سے کی ہے۔

تشریح : یہ یوم عرفہ کا خطبہ ہے اور منیٰ کا خطبہ بعد والا ہے، جو دسویں تاریخ کو دیا تھا اس میں صاف یوم النحر کی وضاحت موجود ہے۔ فہذا الحدیث الذی وقع فی الصحیح انہ صلی اللہ علیہ وسلم خطب بہ یوم النحر و قد ثبت انہ خطب بہ قبل ذلک یوم عرفۃ ( فتح الباری ) یعنی صحیح بخاری کی حدیث میں صاف مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر میں خطبہ دیا اور یہ بھی ثابت ہے کہ اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی خطبہ یوم عرفا ت میں بھی پیش فرمایا تھا۔

حدیث نمبر : 1741
حدثني عبد الله بن محمد، حدثنا أبو عامر، حدثنا قرة، عن محمد بن سيرين، قال أخبرني عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبي بكرة،، ورجل، أفضل في نفسي من عبد الرحمن حميد بن عبد الرحمن عن أبي بكرة ـ رضى الله عنه ـ قال خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر، قال ‏"‏أتدرون أى يوم هذا‏"‏‏. ‏ قلنا الله ورسوله أعلم‏.‏ فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه‏.‏ قال ‏"‏أليس يوم النحر‏"‏‏. ‏ قلنا بلى‏.‏ قال ‏"‏أى شهر هذا‏"‏‏. ‏ قلنا الله ورسوله أعلم‏.‏ فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه‏.‏ فقال ‏"‏أليس ذو الحجة‏"‏‏. ‏ قلنا بلى‏.‏ قال ‏"‏أى بلد هذا‏"‏‏. ‏ قلنا الله ورسوله أعلم‏.‏ فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه‏.‏ قال ‏"‏أليست بالبلدة الحرام‏"‏‏. ‏ قلنا بلى‏.‏ قال ‏"‏فإن دماءكم وأموالكم عليكم حرام، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا، إلى يوم تلقون ربكم‏.‏ ألا هل بلغت‏"‏‏. ‏ قالوا نعم‏.‏ قال ‏"‏اللهم اشهد، فليبلغ الشاهد الغائب، فرب مبلغ أوعى من سامع، فلا ترجعوا بعدي كفارا يضرب بعضكم رقاب بعض‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے قرہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن سیرین نے کہا کہ مجھے عبدالرحمن بن ابی بکرہ نے اور ایک اور شخص نے جو میرے نزدیک عبدالرحمن سے بھی افضل ہے یعنی حمید بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں تاریخ کو منیٰ میں خطبہ سنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لوگو ! معلوم ہے آج یہ کونسا دن ہے؟ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہو گئے اور ہم نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا کوئی اور نام رکھیں گے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا یہ قربانی کا دن نہیں۔ ہم بولے ہاں ضرور ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ مہینہ کون سا ہے؟ ہم نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے لیے۔ آپ اس مرتبہ بھی خاموش ہو گئے او رہمیں خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینہ کا نام کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ نے فرمایا کیا یہ ذی الحجہ کا مہینہ نہیں ہے؟ ہم بولے کیوں نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ شہر کون سا ہے؟ ہم نے عرض کی اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، اس مرتبہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح خاموش ہو گئے کہ ہم نے سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کوئی اور نام رکھیں گے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حرمت کا شہر نہیں ہے؟ ہم نے عر ض کی کیوں نہیں ضرور ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بس تمہارا خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے، تاآنکہ تم اپنے رب سے جاملو۔ کہو کیا میں نے تم کو اللہ کا پیغام پہنچا دیا؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ ! تو گواہ رہنا اور ہاں ! یہاں موجود غائب کو پہنچا دیں کیوں کہ بہت سے لوگ جن تک یہ پیغام پہنچے گا سننے والوں سے زیادہ (پیغام کو ) یاد رکھنے والے ثابت ہوں گے اور میرے بعد کافر نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی (ناحق ) گردنیں مارنے لگو۔

تشریح : یہ حجۃ الوداع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ عظیم الشان خطبہ ہے جسے اساس الاسلام ہونے کی سند حاصل ہے اور یہ کافی طویل ہے جسے مختلف راویوں نے مختلف الفاظ میں نقل کیا ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمۃ الباب کے تحت یہ روایات یہاں نقل کی ہیں، پورے خطبے کا احصار مقصد نہیں ہے۔ و اراد البخاری الرد علی من زعم ان یوم النحر لا خطبۃ فیہ للحاج و ان المذکور فی ہذا الحدیث من قبیل الوصایا العامۃ لا علی انہ من شعار الحج فاراد البخاری ان یبین ان الراوی سماہا خطبۃ کما سمی التی وقعت فی عرفات خطبۃ ( فتح ) یعنی کچھ لوگ یوم نحر کے خطبہ کے قائل نہیں ہیں اور اس خطبہ کووصایا سے تعبیر کرتے ہیں، امام بخاری نے ان کا رد کیا اور بتلایا کہ راوی نے اسے لفظ خطبہ سے ذکر کیا ہے جیسے عرفات کے خطبہ کو خطبہ کہا ایسا ہی اسے بھی، لہٰذا یوم النحر کو بھی خطبہ سنت نبوی ہے۔

حدیث نمبر : 1742
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا عاصم بن محمد بن زيد، عن أبيه، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قال النبي صلى الله عليه وسلم بمنى ‏"‏أتدرون أى يوم هذا‏"‏‏. ‏ قالوا الله ورسوله أعلم‏.‏ فقال ‏"‏فإن هذا يوم حرام، أفتدرون أى بلد هذا‏"‏‏. ‏ قالوا الله ورسوله أعلم‏.‏ قال ‏"‏بلد حرام، أفتدرون أى شهر هذا‏"‏‏. ‏ قالوا الله ورسوله أعلم‏.‏ قال ‏"‏شهر حرام ـ قال ـ فإن الله حرم عليكم دماءكم وأموالكم وأعراضكم، كحرمة يومكم هذا، في شهركم هذا، في بلدكم هذا‏"‏‏. ‏ وقال هشام بن الغاز أخبرني نافع عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ وقف النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر بين الجمرات في الحجة التي حج بهذا، وقال ‏"‏هذا يوم الحج الأكبر ‏"‏، فطفق النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏اللهم اشهد‏"‏‏. ‏ وودع الناس‏.‏ فقالوا هذه حجة الوداع‏.‏
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ہارون نے بیان کیا، کہا ہم کو عاصم بن محمد بن زید نے خبر دی، انہیں ان کے باپ نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں فرمایا کہ تم کو معلوم ہے ! آج کونسا دن ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حرمت کا دن ہے او ریہ بھی تم کو معلوم ہے کہ یہ کونسا شہر ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حرمت کا شہر ہے اور تم کو یہ بھی معلوم ہے کہ یہ کونسا مہینہ ہے، لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حرمت کا مہینہ ہے پھر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا خون ! تمہارا مال اور عزت ایک دوسرے پر (ناحق ) اس طرح حرام کر دی ہیں جیسے اس دن کی حرمت اس مہینہ اور اس شہر میں ہے۔ ہشام بن غاز نے کہا کہ مجھے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالے سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں دسویں تاریخ کو جمرات کے درمیان کھڑے ہوئے تھے اور فرمایا تھا کہ دیکھو ! یہ (یوم النحر ) حج اکبر کا دن ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے کہ اے اللہ ! گواہ رہنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر چونکہ لوگوں کو رخصت کیا تھا۔ (آپ سمجھ گئے کہ وفات کا زمانہ آن پہنچا ) جب سے لوگ اس کوحج کو حجۃ الودا ع کہنے لگے۔

تشریح : حج اکبر حج کو کہتے ہیں اور حج اصغر عمرہ کو کہتے ہیں اور عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ نویں تاریخ جمعہ کو آجائے تو وہ حج اکبر ہے، اس کی سند صحیح حدیث سے کچھ نہیں، البتہ چند ضعیف حدیثیں اس حج کی زیادہ فضیلت میں وارد ہیں جس میں نویں تاریخ جمعہ کو آن پڑے۔ بعضوں نے کہا یوم الحج الاصغر نویں تاریخ کو اور یوم الحج الاکبر دسویں تاریخ کو کہتے ہیں کہ ان ہی دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ” اذا جاءنصر اللّٰہ“ نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ اب دنیا سے روانگی قریب ہے، اب ایسے اجتماع کا موقع نہ مل سکے گا اور بعد میں ایسا ہی ہوا فیہ دلیل لمن یقول ان یوم الحج الاکبر ہو یوم النحر یعنی اس حدیث میں اس شخص کی دلیل موجود ہے جو کہتا ہے کہ حج اکبر کے دن سے مراد دسویں تاریخ ہے بس عوام میں جو مشہور ہے کہ اگر جمعہ کے دن حج واقع ہو تو اسے حج اکبر کہا جاتا ہے، یہ خیال قوی نہیں انہ نبہ صلی اللہ علیہ وسلم فی الخطبۃ المذکورۃ علی تعظیم یوم النحر و علی تعظیم شہر ذی الحجۃ و علی تعظیم البلد الحرام یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس خطبہ میں یوم النحر اور ماہ ذی الحجہ اور مکۃ المکرمہ کی عظمتوں پر تنبیہ فرمائی کہ امت ان اشیاءمقدسہ کو یاد رکھے اور جو نصائح و وصایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم دئیے جارہے ہیں امت ان کو تاابد فراموش نہ کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : منی کی راتوں میں جو لوگ مکہ میں پانی پلاتے ہیں یا اور کچھ کام کرتے ہیں وہ مکہ میں رہ سکتے ہیں

حدیث نمبر : 1743
حدثنا محمد بن عبيد بن ميمون، حدثنا عيسى بن يونس، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ رخص النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے محمد بن عبید بن میمون نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عیسیٰ بن یونس نے، ان سے عبید اللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ (دوسری سند )

حدیث نمبر : 1744
حدثنا يحيى بن موسى، حدثنا محمد بن بكر، أخبرنا ابن جريج، أخبرني عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أذن‏.‏
اور ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن بکر نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، انہیں عبید اللہ نے، انہیں نافع نے او رانہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔

حدیث نمبر : 1745
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا أبي، حدثنا عبيد الله، قال حدثني نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن العباس ـ رضى الله عنه ـ استأذن النبي صلى الله عليه وسلم ليبيت بمكة ليالي منى، من أجل سقايته، فأذن له‏.‏ تابعه أبو أسامة وعقبة بن خالد وأبو ضمرة‏.‏
اور ہم سے محمد بن عبداللہ بن نمیر نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا او ران سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کی راتوں میں (حاجیوں ) کو پانی پلانے کے لیے مکہ میں رہنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی۔ اس روایت کی متابعت محمد بن عبداللہ کے ساتھ ابواسامہ عقبہ بن خالد اور ابوضمرہ نے کی ہے۔

تشریح : معلوم ہوا کہ جس کو کوئی عذر نہ ہو اس کا منیٰ کی راتوں میں منی میں رہنا واجب ہے، شافعیہ اور حنابلہ اور اہل حدیث کا یہی قول ہے اور بعض کے نزدیک یہ واجب نہیں سنت ہے۔ ( وحیدی ) و فی الحدیث دلیل علی وجوب المبیت بمنی و انہ من مناسک الحج لان التعبیر بالرخصۃ یقتضی ان مقابلہاواجب وان الاذن وقع للعلۃ المذکورۃ و اذا لم توجد او ما فی معناہا لم یحصل الاذن و بالوجوب قال الجمہور ( فتح ) یعنی منی میں رات گزارنا واجب اور مناسک ِحج سے ہے، جمہور کا یہی قول ہے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو علت مذکورہ کی وجہ سے مکہ میں رات گزارنے کی اجازت ہی دلیل ہے کہ جب ایسی کوئی علت نہ ہو تو منیٰ میں رات گزارنا واجب ہے اور جمہور کا یہی قول ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : کنکریاں مارنے کا بیان

وقال جابر رمى النبي صلى الله عليه وسلم يوم النحر ضحى، ورمى بعد ذلك بعد الزوال‏.‏
اور جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں ذی الحجہ کو چاشت کے وقت کنکریاں ماری تھیں اور اس کے بعد کی تاریخوں میں سورج ڈھل جانے پر۔

حدیث نمبر : 1746
حدثنا أبو نعيم، حدثنا مسعر، عن وبرة، قال سألت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ متى أرمي الجمار قال إذا رمى إمامك فارمه‏.‏ فأعدت عليه المسألة، قال كنا نتحين، فإذا زالت الشمس رمينا‏.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مسعر نے بیان کیا، ان سے وبرہ نے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ میں کنکریاں کس وقت ماروں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارا امام مارے تو تم بھی مارو، لیکن دوبارہ میں نے ان سے یہی مسئلہ پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم انتظار کرتے رہتے اور جب سورج ڈھل جاتا تو کنکریاں مارتے۔

تشریح : افضل وقت کنکریاں مارنے کا یہی ہے کہ یوم النحر کو چاشت کے وقت مارے، اور جائز ہے دسویں شب کی آدھی رات کے بعد سے، اور غروب آفتاب تک دسویں تاریخ کو اس کا آخری وقت ہے اور گیارہویں یا بارہویں کو زوال کے بعدظہر کی نماز سے پہلے مارنا افضل ہے، کنکریاں سات سے کم نہ ہوں، جمہور علماءکا یہی قول ہے و فیہ دلیل علی ان السنۃ ان یرمی الجمار فی غیر یوم الاضحیٰ بعد الزوال و بہ قال الجمہور ( فتح الباری ) یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ دسویں تاریخ کے بعد سنت یہ ہے کہ رمی جمار زوال کے بعد ہو اور جمہور کا یہی فتویٰ ہے۔ جب امام مارے تم بھی مارو، یہ ہدایت اس لیے فرمائی تاکہ امرائے وقت کی مخالفت کی وجہ سے کوئی تکلیف نہ پہنچ سکے، اگر امرائے جور ہوں تو ایسے احکام میں مجبوراً ان کی اطاعت کرنی ہے جیسا کہ نماز کے لیے فرمایا کہ ظالم امیر اگر دیر سے پڑھیں تو ان کے ساتھ بھی ادا کرلو اور ان کو نفل قرار دے لو، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے اس دور میں حجاج بن یوسف جیسے سفاک ظالم کا زمانہ تھا اس بنا پر آپ رضی اللہ عنہ نے ایسا فرمایا، نیک عادل امراءکی اطاعت نیک کاموں میں بہرحال فرض ہے اور موجب ثواب ہے اور یہ چیز امراءہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ نیک امر میں ادنی سے ادنی آدمی کی بھی اطاعت لازم ہے۔ و ان کان عبداً حبشیا کا یہی مطلب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : رمی جمار وادی کے نشیب سے کرنے کا بیان

حدیث نمبر : 1747
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن الأعمش، عن إبراهيم، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال رمى عبد الله من بطن الوادي، فقلت يا أبا عبد الرحمن، إن ناسا يرمونها من فوقها، فقال والذي لا إله غيره هذا مقام الذي أنزلت عليه سورة البقرة صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال عبد الله بن الوليد حدثنا سفيان حدثنا الأعمش بهذا‏.‏
محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابراہیم نے اور ان سے عبدالرحمن بن زید نے بیان کیا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وادی کے نشیب (بطن وادی ) میں کھڑے ہو کر کنکری ماری تو میں نے کہا، اے ابوعبدالرحمن ! کچھ لوگ تو وادی کے بالائی علاقہ سے کنکریاں مارتے ہیں، اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اس ذات کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں یہی (بطن وادی ) ان کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے (رمی کرتے وقت ) جن پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی تھی صلی اللہ علیہ وسلم۔ عبداللہ بن ولید نے بیان کیا کہ ان سے سفیان ثوری نے اور ان سے اعمش نے یہی حدیث بیان کی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : رمی جمار سات کنکریوں سے کرنا۔

ذكره ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اس کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے

حدیث نمبر : 1748
حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ أنه انتهى إلى الجمرة الكبرى جعل البيت عن يساره، ومنى عن يمينه، ورمى بسبع، وقال هكذا رمى الذي أنزلت عليه سورة البقرة صلى الله عليه وسلم‏.
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے ابراہیم نحعی نے، ان سے عبدالرحمن بن یزید نے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمرہ کبریٰ کے پاس پہنچے تو کعبہ کو اپنے بائیں طرف کیا او رمنیٰ کو دائیں طرف، پھر سات کنکریوں سے رمی کی اور فرمایا کہ جن پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی تھی صلی اللہ علیہ وسلم انہوں نے بھی اسی طرح رمی کی تھی۔ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔

تشریح : حافظ صاحب فرماتے ہیں و استدل بہذا الحدیث علی اشراط رمی الجمارات واحدۃ واحدۃ لقولہ یکبر مع کل حصاۃ و قد قال صلی اللہ علیہ وسلم خذوا عنی مناسککم و خالف فی ذلک عطاءو صاحبہ ابوحنیفۃ فقالا لو رمی السبع دفعۃ واحدۃ اجزاہ الخ ( فتح ) یعنی اس حدیث سے دلیل لی گئی ہے کہ رمی جمرات میں شرط یہ ہے کہ ایک ایک کنکری الگ الگ پھینکی جانے کے بعد ہر کنکری پر تکبیر کہی جائے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے مناسک حج سیکھو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریقہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کنکری پر تکبیر کہا کرتے تھے۔ مگر عطا اور آپ کے صاحب امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے خلاف کہا ہے وہ کہتے ہیں کہ سب کنکریوں کا ایک دفعہ ہی مار دینا کافی ہے۔ ( مگر یہ قول درست نہیں ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس شخص کے متعلق جس نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو بیت اللہ کو اپنی بائیں طرف کیا

حدیث نمبر : 1749
حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا الحكم، عن إبراهيم، عن عبد الرحمن بن يزيد، أنه حج مع ابن مسعود ـ رضى الله عنه ـ فرآه يرمي الجمرة الكبرى بسبع حصيات، فجعل البيت عن يساره، ومنى عن يمينه، ثم قال هذا مقام الذي أنزلت عليه سورة البقرة‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے عبدالرحمن بن یزید نے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا انہوں نے دیکھا جمرہ عقبہ کی سات کنکریوں کے ساتھ رمی کے وقت آپ نے بیت اللہ کو تو اپنی بائیں طرف اور منی کو دائیں طرف کر لیا پھر فرمایا کہ یہی ان کا بھی مقام تھا جن پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی تھی یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔

تشریح : قسطلانی نے کہا کہ یہ دسویں تاریخ کی رمی ہے گیارہویں بارہویں تاریخ کو اوپر سے مارنا چاہئے اور جمرہ عقبہ جس کو آج کل عوام بڑا شیطان کہتے ہیں چار باتوں میں اور جمرات سے بہتر ہے، ایک تو یہ کہ یوم النحر کو فقط اسی کی رمی ہے دوسرے یہ کہ اس کی رمی چاشت کے وقت ہے، تیسرے یہ کہ نشیب میں اس کو مارنا ہے، چوتھے یہ کہ دعا وغیرہ کے لیے اس کے پاس نہیں ٹھہرنا چاہئے اور دوسرے جمروں کے پاس رمی کے بعد ٹھہر کر دعا کرنا مستحب ہے۔ جمرات کی رمی کرنا یہ اس وقت کی یادگار ہے جب کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بہکانے کے لیے ان مقامات پر شیطان ظاہر ہوا تھا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ارشاد الٰہی کی تعمیل سے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ان تینوں مقامات پر بطور نشان پتھروں کے مینارے سے بنا دئے گئے ہیں اور ان ہی پرمقررہ شرائط کے ساتھ کنکریاں مار کر گویا شیطان مردود کو رجم کیا جاتا ہے اور حاجی گویا اس بات کا عہد کرتا ہے کہ وہ شیطان مردود کی مخالفت اور ارشاد الٰہی کی اطاعت میں پیش پیش رہے گا اور تاعمر اس یادگار کو فراموش نہ کرکے اپنے آپ کو ملت ابراہیمی کا سچا پیرو کار ثابت کرنے کی کوشش کرے گا۔ جمرہ عقبہ کو جمرہ کبریٰ بھی کہتے ہیں اور یہ جہت مکہ میں منی کی آخری حد پر واقع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے لیے انصار سے اسی جگہ بیعت لی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو کر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ اللہم اجعلہ حجا مبروراً و ذنبا مغفوراً۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس بیان میں کہ (حاجی کو ) کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہئے

قاله ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اس کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے

حدیث نمبر : 1750
حدثنا مسدد، عن عبد الواحد، حدثنا الأعمش، قال سمعت الحجاج، يقول على المنبر السورة التي يذكر فيها البقرة، والسورة التي يذكر فيها آل عمران، والسورة التي يذكر فيها النساء‏.‏ قال فذكرت ذلك لإبراهيم، فقال حدثني عبد الرحمن بن يزيد أنه كان مع ابن مسعود ـ رضى الله عنه ـ حين رمى جمرة العقبة، فاستبطن الوادي، حتى إذا حاذى بالشجرة اعترضها، فرمى بسبع حصيات، يكبر مع كل حصاة، ثم قال من ها هنا والذي لا إله غيره قام الذي أنزلت عليه سورة البقرة صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد مصری نے بیان کیا، ان سے سلیمان اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے حجاج سے سنا، وہ منبر پر سورتوں کا یوں نام لے رہا تھا وہ سورہ جس میں بقرہ (گائے ) کا ذکر آیا ہے، وہ سورہ جس میں آل عمران کا ذکر آیا ہے، وہ سورہ جس میں نساء(عورتوں ) کا ذکر آیا ہے، اعمش نے کہا میں نے اس کا ذکر حضرت ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے کیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھ سے عبدالرحمن بن یزید نے بیان کیا کہ جب حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمرہ عقبہ کی رمی کی تو وہ ان کے ساتھ تھے، اس وقت وہ وادی کے نشیب میں اتر گئے اور جب درخت کے (جو اس وقت وہاں پر تھا ) برابر نیچے اس کے سامنے ہو کر سات کنکریوں سے رمی کی ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے جاتے تھے۔ پھر فرمایا قسم ہے اس کی کہ جس ذات کے سوا کوئی معبود نہیں یہیں وہ ذات بھی کھڑی ہوئی تھی جس پر سورۃ بقرہ نازل ہوئی صلی اللہ علیہ وسلم۔

تشریح : معلوم ہواکہ کنکری جداجدا مارنی چاہئے اور ہر ایک کے مارتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہئے۔ روایت میں حجاج بن یوسف کا ذکر ہے کہ وہ سورتوں کے مجوزہ ناموں کا استعمال چھوڑ کر اضافی ناموں سے ان کا ذکر کرتا تھا جیسا کہ روایت مذکور ہے۔ اس پر حضرت ابراہیم نخعی نے حضرت عبداللہ بن مسعود کی اس روایت کا ذکر کیا کہ وہ سورتوں کے مجوزہ نام ہی لیتے تھے اور یہی ہونا چاہئے اس بارے میں حجاج کا خیال درست نہ تھا، امت اسلامیہ میں یہ شخص سفاک بے رحم ظالم کے نام سے مشہور ہے کہ اس نے زندگی میں خدا جانے کتنے بے گناہوں کا خون ناحق زمین کے گردن پر بہایا ہے، باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے قال ابن المنیر خص عبداللہ سورۃ البقرۃ بالذکر لانہا التی ذکراللہ فیہا الرمی فاشار الی ان فعلہ صلی اللہ علی وسلم مبین لمراد کتاب اللہ تعالیٰ الخ ( فتح الباری ) یعنی ابن منیر نے کہا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے خصوصیت کے ساتھ سورۃ بقرہ کا ذکر اس لیے فرمایا کہ اس میں اللہ نے رمی کا ذکر فرمایا ہے پس آپ نے اشارہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل سے کتاب اللہ کی مراد کی تفسیر پیش کردی گویا یہ بتلایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر احکام مناسک کا نزول ہوا۔ اس میں یہ تنبیہ ہے کہ احکام حج توقیفی ہیں جس طرح شارع علیہ السلام نے ان کو بتلایا، اسی طرح ان کی ادائیگی لازم ہے کمی بیشی کی کسی کو مجال نہیں ہے۔ واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس کے متعلق جس نے جمرہ عقبہ کی رمی کی اور وہاں ٹھہرا نہیں

قاله ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اس حدیث کو ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ (یہ حدیث اگلے باب میں آرہی ہے
 
Top