• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : ایک معین مدت کے وعدہ پر قرض دینا یا بیع کرنا

قال ابن عمر في القرض إلى أجل لا بأس به، وإن أعطي أفضل من دراهمه، ما لم يشترط‏.‏ وقال عطاء وعمرو بن دينار هو إلى أجله في القرض‏.‏
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ کسی مدت معین تک کے لیے قرض میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ اس کے درہموں سے زیادہ کھرے درہم اسے ملیں۔ لیکن اس صورت میں جب کہ اس کی شرط نہ لگائی ہو۔ عطا اور عمرو بن دینار نے کہا کہ قرض میں، قرض لینے والا اپنی مقررہ مدت کاپابند ہوگا۔

حدیث نمبر : 2404
وقال الليث حدثني جعفر بن ربيعة، عن عبد الرحمن بن هرمز، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه ذكر رجلا من بني إسرائيل، سأل بعض بني إسرائيل أن يسلفه، فدفعها إليه إلى أجل مسمى‏.‏ الحديث‏.‏
لیث نے بیان کیا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن ہرمز نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اسرائیلی شخص کا تذکر فرمایا جس نے دوسرے اسرائیلی شخص سے قرض مانگا تھا اور اس نے ایک مقررہ مدت کے لیے اسے قرض دے دیا۔ ( جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : قرض میں کمی کی سفارش کرنا

حدیث نمبر : 2405
حدثنا موسى، حدثنا أبو عوانة، عن مغيرة، عن عامر، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ قال أصيب عبد الله وترك عيالا ودينا، فطلبت إلى أصحاب الدين أن يضعوا بعضا من دينه فأبوا، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فاستشفعت به عليهم فأبوا، فقال ‏"‏صنف تمرك كل شىء منه على حدته، عذق ابن زيد على حدة، واللين على حدة، والعجوة على حدة، ثم أحضرهم حتى آتيك‏"‏‏. ‏ ففعلت، ثم جاء صلى الله عليه وسلم فقعد عليه، وكال لكل رجل حتى استوفى، وبقي التمر كما هو كأنه لم يمس‏.‏
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ا بوعوانہ نے بیان کیا، ان سے مغیرہ نے، ان سے عامر نے، اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ( میرے والد ) عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اپنے پیچھے بال بچے اور قرض چھوڑ گئے۔ میں قرض خواہوں کے پا س گیا کہ اپنا کچھ قرض معاف کر دیں، لیکن انہوں ے انکار کیا، پھر میں نبی کریم صلی للہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی سفارش کروائی۔ انہوں نے اس کے باوجود بھی انکار کیا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ ولم نے فرمایا کہ ( اپنے باغ کی ) تمام کھجور کی قسمیں الگ الگ کر لو۔ عذق بن زید الگ، لین الگ، اور عجوہ الگ ( یہ سب عمدہ قسم کی کھجوروں کے نام ہیں ) اس کے بعد قرض خواہوں کو بلاؤ اور میں بھی آؤں گا۔ چنانچہ میں نے ایسا کر دیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ڈھیر پر بیٹھ گئے۔ اور ہر قرض خواہ کے لیے ماپ شروع کر دی۔ یہاں تک کہ سب کا قرض پورا ہو گیا اور کھجور اسی طرح باقی بچ رہی جیسے پہلے تھی۔ گویا کسی نے اسے چھوا تک نہیں۔

حدیث نمبر : 2406
وغزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم على ناضح لنا، فأزحف الجمل فتخلف على فوكزه النبي صلى الله عليه وسلم من خلفه، قال ‏"‏بعنيه ولك ظهره إلى المدينة‏"‏‏. ‏ فلما دنونا استأذنت قلت يا رسول الله إني حديث عهد بعرس‏.‏ قال صلى الله عليه وسلم ‏"‏فما تزوجت بكرا أم ثيبا‏"‏‏. ‏ قلت ثيبا، أصيب عبد الله وترك جواري صغارا، فتزوجت ثيبا تعلمهن وتؤدبهن، ثم قال ‏"‏ائت أهلك‏"‏‏. ‏ فقدمت فأخبرت خالي ببيع الجمل فلامني، فأخبرته بإعياء الجمل، وبالذي كان من النبي صلى الله عليه وسلم ووكزه إياه، فلما قدم النبي صلى الله عليه وسلم غدوت إليه بالجمل، فأعطاني ثمن الجمل والجمل وسهمي مع القوم‏.‏
اور ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جہاد میں ایک اونٹ پر سوار ہو کر گیا۔ اونٹ تھک گیا۔ اس لیے میں لوگوں سے پیچھے رہ گیا۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیچھے سے مارا اور فرمایا کہ یہ اونٹ مجھے بیچ دو۔ مدینہ تک اس پر سواری کی تمہیں اجازت ہے۔ پھر جب ہم مدینہ سے قریب ہوئے تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی، عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے ابھی نئی شادی کی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا، کنواری سے کی ہے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا کہ بیوہ سے۔ میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو اپنے پیچھے کئی چھوٹی بچیاں چھوڑ گئے ہیں۔ اس لیے میں نے بیوہ سے کی تاکہ انہیں تعلیم دے اور ادب سکھاتی رہے۔ پھر آپ نے فرمایا، اچھا اب اپنے گھر جاؤ۔ چنانچہ میں گھر گیا۔ میں نے جب اپنے ماموں سے اونٹ بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے مجھے ملامت کی۔ اس لیے میں نے ان سے اونٹ کے تھک جانے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واقعہ کا بھی ذکر کیا۔ اور آپ کے اونٹ کو مارنے کا بھی۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے تو میں بھی صبح کے وقت اونٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے اونٹ کی قیمت بھی دے دی، اور وہ اونٹ بھی مجھے واپس بخش دیا اور قوم کے ساتھ میرا ( مال غنیمت کا ) حصہ بھی مجھ کو بخش دیا۔

تشریح : ماموں نے اس وجہ سے ملامت کی ہوگی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اونٹ بیچنا کیا ضروری تھا۔ یوں ہی آپ کو دے دیا ہوتا۔ بعض نے کہا کہ اس بات پر کہ ایک ہی اونٹ ہمارے پاس تھا اس سے گھر کا کام کاج نکلتا تھا وہ بھی تو نے بیچ ڈالا۔ اب تکلیف ہوگی۔ بعض نے کہا ماموں سے جد بن قیس مراد ہے وہ منافق تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : مال کو تباہ کرنا یعنی بے جا اسراف منع ہے

وقول الله تعالى ‏{‏والله لا يحب الفساد‏}‏ و‏{‏لا يصلح عمل المفسدين‏}‏‏.‏ وقال في قوله ‏{‏أصلواتك تأمرك أن نترك ما يعبد آباؤنا أو أن نفعل في أموالنا ما نشاء ‏}‏ وقال ‏{‏ولا تؤتوا السفهاء أموالكم‏}‏ والحجر في ذلك، وما ينهى عن الخداع‏.‏
اور اللہ تعالیٰ نے سورۃ بقرہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فساد کو پسند نہیں کرتا ( اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد سورۃ یونس میں کہ ) اور اللہ فسادیوں کا منصوبہ چلنے نہیں دیتا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ ہود میں ) فرمایا ہے کیا تمہاری نماز تمہیں یہ بتاتی ہے کہ جسے ہمارے باپ دادا پوجتے چلے آئے ہیں ہم ان بتوں کو چھوڑ دیں۔ یا اپنے مال میں اپنی طبیعت کے مطابق تصرف کرنا چھوڑ دیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ نساءمیں ) ارشاد فرمایا اپنا روپیہ بے وقوفوں کے ہاتھ میں مت دو اور بے وقوفی کی حالت میں حجر کرنا۔

تشریح : بے وقوفوں سے مراد نادان ہیں جو مال کو سنبھال نہ سکیں بلکہ اس کو تباہ اور برباد کردیں جیسے عورت، بچے، کم عقل جوان بوڑھے وغیرہ۔ حجر کا معنی لغت میں روکنا، منع کرنا، اور شرع میں اس کوکہتے ہیں کہ حاکم اسلام کسی شخص کو اس کے اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دے۔ اور یہ دو وجہ سے ہوتا ہے یا تو وہ شخص بے وقوف ہو، اپنا مال تباہ کرتا ہو یا دوسروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے۔ مثلاً مدیون مفلس پر حجر کرنا، قرض خواہوں کے حقوق بچانے کے لیے، یا راہن پر یا مریض پر مرتہن اور وارث کا حق بچانے کے لیے۔ اس روکنے کو شرعی اصطلاح میں حجر کہا جاتا ہے۔

آیات قرآنی سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ حلال طور پر کمایا ہوا مال بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کا ضائع کرنا یا ایسے نادانوں کو اسے سونپنا جو اس کی حفاظت نہ کرسکیں باوجود یہ کہ وہ اس کے حق دار ہیں۔ پھر بھی ان کو ان کے گزارے سے زیادہ دینا اس مال کو گویا ضائع کرنا ہے جو کسی طرح جائز نہ ہوگا۔

حدیث نمبر : 2407
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن عبد الله بن دينار، سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال قال رجل للنبي صلى الله عليه وسلم إني أخدع في البيوع‏.‏ فقال ‏"‏إذا بايعت فقل لا خلابة‏"‏‏. ‏ فكان الرجل يقوله‏.‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے عمر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے عرض کیا کہ خرید و فروخت میں مجھے دھوکا دے دیا جاتا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب خرید و فروخت کیا کرے، تو کہہ دیا کر کہ کوئی دھوکا نہ ہو۔ چنانچہ پھر وہ شخص اسی طرح کہا کرتا تھے۔

ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے اور مجھ کو تین دن تک اختیارہے۔ یہ حدیث اوپر گزر چکی ہے۔ یہاں باب کی مناسبت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مال کو تباہ کرنا برا جانا۔ ا س لیے اس کو یہ حکم دیا کہ بیع کے وقت یوں کہا کرو، دھوکا فریب کا کام نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 2408
حدثنا عثمان، حدثنا جرير، عن منصور، عن الشعبي، عن وراد، مولى المغيرة بن شعبة عن المغيرة بن شعبة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إن الله حرم عليكم عقوق الأمهات، ووأد البنات، ومنع وهات، وكره لكم قيل وقال، وكثرة السؤال، وإضاعة المال‏"‏‏. ‏
ہم سے عثمان بن ابی شبیہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے شعبی نے، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد نے اور ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں ( اور باپ ) کی نافرمانی لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، ( واجب حقوق کی ) ادائیگی نہ کرنا اور ( دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر ) دبالینا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بکواس کرنے اورکثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔

لفظ منع وہات کا ترجمہ بعض نے یوں کیا ہے اپنے اوپر جو حق واجب ہے جیسے زکوٰۃ، بال بچوں، ناتے والوں کی پرورش، وہ نہ دینا۔ اور جس کا لینا حرام ہے یعنی پرایا مال وہ لے لینا، قیل و قال کا مطلب خواہ مخواہ اپنا علم جتانے کے لیے لوگوں سے سوالات کرنا۔ یا بے ضرورت حالا ت پوچھنا۔ کیوں کہ یہ لوگوں کو برا معلوم ہوتا ہے۔ بعض بات وہ بیان کرنا نہیں چاہتے۔ اس کے پوچھنے سے ناخوش ہوتے ہیں۔
تشریح : ترجمہ باب لفظ اضاعۃ المال سے نکلتا ہے یعنی مال ضائع کرنا مکروہ ہے۔ قسطلانی نے کہا مال برباد کرنا یہ ہے کہ کھانے پینے لباس وغیرہ میں بے ضرورت تکلف کرنا۔ باسن پر سونے چاندی کا ملمع کرانا۔ دیوار چھت وغیرہ سونے چاندی سے رنگنا، سعید بن جبیر نے کہا مال برباد کرنا یہ ہے کہ حرام کاموں میں خرچ کرے اور صحیح یہی ہے کہ خلاف شرع جو خرچ ہو، خواہ دینی یا دنیاوی کام میں، وہ برباد کرے میں داخل ہے۔ بہرحال جو کام شرعاً منع ہیں جیسے پتنگ بازی، مرغ بازی، آتش بازی، ناچ رنگ ان میں تو ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ اور جو کام ثواب کے ہیں مثلاً محتاجوں، مسافروں، غریبوں، بیماروں کی خدمت، قومی کام جیسے مدرسے، پل، سرائے، مسجد، محتاج خانے، شفا خانے بنانا، ان میں جتنا خرچ کرے وہ ثواب ہی ثواب ہے۔ اس کو برباد کرنا نہیں کہہ سکتے۔ رہ گیا اپنے نفس کی لذت میں خرچ کرنا تو اپنی حیثیت اور حالت کے موافق اس میں خرچ کرنا اسراف نہیں ہے۔ اسی طرح اپنی عزت یا آبرو بچانے کے لیے یاکسی آفت کو روکنے کے لیے۔ اس کے سوا بے ضرورت نفسانی خواہشوں میں مال خرچ کرنا مثلاً بے فائدہ بہت سے کپڑے بنا لینا، یا بہت سے گھوڑے رکھنا، یا بہت سا سامان خریدنا یہ بھی اسراف میں داخل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : غلام اپنے آقا کے مال کا نگراں ہے اس کی اجازت کے بغیر اس میں کوئی تصرف نہ کرے

حدیث نمبر : 2409
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني سالم بن عبد الله، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏كلكم راع ومسئول عن رعيته، فالإمام راع، وهو مسئول عن رعيته، والرجل في أهله راع، وهو مسئول عن رعيته، والمرأة في بيت زوجها راعية وهى مسئولة عن رعيتها، والخادم في مال سيده راع، وهو مسئول عن رعيته‏"‏‏. ‏ قال فسمعت هؤلاء من رسول الله صلى الله عليه وسلم وأحسب النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏والرجل في مال أبيه راع، وهو مسئول عن رعيته، فكلكم راع، وكلكم مسئول عن رعيته‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا انہیں سالم بن عبداللہ نے خبر دی اور انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا، تم میں سے ہر فرد ایک طرح کا حاکم ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ پس بادشاہ حاکم ہی ہے اور اس کی رعیت کے بارے میں اس سے سوال ہوگا۔ ہر انسان اپنے گھر کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ عورت اپنے شوہر کے گھر کی حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ خادم اپنے آقا کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ انہوں نے بیان کیا کہ یہ سب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مرد اپنے والد کے مال کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔ پس ہر شخص حاکم ہے اور ہر شخص سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا۔

تشریح : یہ حدیث ایک بہت بڑے تمدنی اصل الاصول پر مشتمل ہے۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جس کی کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں نہ ہوں۔ ان ذمہ داریوں کو محسوس کرکے صحیح طور پر ادا کرنا عین شرعی مطالبہ ہے۔ ایک حاکم بادشاہ اپنی رعایا کا ذمہ دار ہے، گھر میں مرد جملہ اہل خانہ پر حاکم ہے۔ عورت گھر کی مالکہ ہونے کی حیثیت سے گھر اور اولاد کی ذمہ دار ہے۔ ایک غلام اپنے آقا کے مال میں ذمہ دار ہے۔ ایک مرد اپنے والد کے مال کا ذمہ دار ہے الغرض اسی سلسلہ میں تقریباً دنیا کا ہر انسان بندھا ہوا ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داریوں کوادا کرے۔ حاکم کا فرض ہے اپنی حکومت کے ہر کہ رومہ پر نظر شفقت رکھے۔ ایک مرد کا فرض ہے کہ اپنے جملہ اہل خانہ پر توجہ رکھے۔ ایک عورت کا فرض ہے کہ اپنے شوہر کے گھر کی ہر طرح سے پوری پوری حفاظت کرے۔ اس کی دولت اور اولاد اور عزت میں کوئی خیانت نہ کرے۔ ایک غلام، نوکر، مزدور کا فرض ہے کہ اپنے فرائض متعلقہ کی ادائیگی میں اللہ کا خوف کرکے کوتاہی نہ کرے۔ یہی باب کا مقصد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الخصومات


صحیح بخاری -> کتاب الخصومات
باب : قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان

حدیث نمبر : 2410
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، قال عبد الملك بن ميسرة أخبرني قال سمعت النزال، سمعت عبد الله، يقول سمعت رجلا، قرأ آية سمعت من النبي، صلى الله عليه وسلم خلافها، فأخذت بيده، فأتيت به رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏كلاكما محسن‏"‏‏. ‏ قال شعبة أظنه قال ‏"‏لا تختلفوا فإن من كان قبلكم اختلفوا فهلكوا‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ عبدالملک بن میسرہ نے مجھے خبری دی کہا کہ میں نے نزال بن سمرہ سے سنا، اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو قرآن کی آیت اس طرح پڑھتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم سے میں نے اس کے خلاف سنا تھا۔ اس لیے میں ان کا ہاتھ تھامے آپ کی خدمت میں لے گیا۔ آپ نے ( میرا اعتراض سن کر ) فرمایا کہ تم دونوں درست ہو۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں سجھتا ہوں کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اختلاف نہ کرو، کیوں کہ تم سے پہلے لوگ اختلاف ہی کی وجہ سے تباہ ہو گئے۔

تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس شخص کو پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے جب قرآن غلط پڑھنے پر پکڑ کر لے جانا درست ٹھہرا تو اپنے حق کے بدل بھی پکڑ کر لے جانا درست ہوگا جیسے پہلا امر ایک مقدمہ ہے ویسا ہی دوسرا بھی۔ آپ کا مطلب یہ تھا کہ ایسی چھوٹی باتوں میں لڑنا جھگڑنا، جنگ و جدل کرنا برا ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کو لازم تھا کہ اس سے دوسری طرح پڑھنے کی وجہ پوچھتے۔ جب وہ کہتا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے تو آپ سے دریافت کرتے۔

اس حدیث سے ان متعصب مقلدوں کو نصیحت لینا چاہئے، جو آمین اور رفع یدین اور اسی طرح کی باتوں پر لوگوں سے فساد اور جھگڑا کرتے ہیں۔ اگر دین کے کسی کام میں شبہ ہو تو کرنے والے سے نرمی اوراخلاق کے ساتھ اس کی دلیل پوچھے۔ جب وہ حدیث یا قرآن سے کوئی دلیل بتلا دے بس سکوت کرے۔ اب اس سے معترض نہ ہو۔ ہر مسلمان کو اختیا رہے کہ جس حدیث پر چاہے عمل کرے، بشرطیکہ وہ حدیث بالاتفاق منسوخ نہ ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ اختلاف یہ نہیں ہے کہ ایک رفع یدین کرے، دوسرا نہ کرے۔ ایک پکا رکر آمین کہے ایک آہستہ۔ بلکہ اختلاف یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ناحق جھگڑے، اس کو ستائے۔ کیوں کہ آپ نے ان دونوں کی قراتوں کو اچھا فرمایا۔ اور لڑنے جھگڑنے کوبرا کہا۔ و قال المظہری الاختلاف فی القرآن غیر جائز لان کل لفظ منہ اذا جاز قراتہ علی وجہین او اکثر فلو انکر احد و احد من ذینک الوجہین او الوجوہ فقد انکر القرآن ولا یجوز فی القرآن بالرائی لان القرآن سنۃ متبعۃ بل علیہما ان یسالا عن ذلک ممن ہو اعلم منہما ( قسطلانی ) یعنی مظہری نے کہا کہ قرآن مجید میں اختلاف کرنا ناجائز ہے کیوں کہ اس کا ہر لفظ جب اس کی قرات دونوں طریقوں پر جائز ہو تو ان میں سے ایک قرات کا انکار کرنا یا دونوں کا انکار یہ سارے قرآن کا انکار ہوگا۔ اور قرآن شریف کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ قرآن مجید مسلسل طور پر نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ پس ان اختلاف کرنے والوں کو لازم تھا کہ اپنے سے زیادہ جاننے والے سے تحقیق کرلیتے۔

الغرض اختلاف جو موجب شقاق و افتراق و فساد ہو وہ اختلاف سخت مذموم ہے اور طبعی اختلاف مذموم نہیں ہے۔
حدیث باب سے یہ بھی نکلا کہ دعویٰ اور مقدمات میں ایک مسلمان کسی بھی غیر مسلم پر اور کوئی بھی غیر مسلم کسی بھی مسلمان پر اسلامی عدالت میں دعویٰ کرسکتا ہے۔ انصاف چاہنے کے لیے مدعی اور مدعا علیہ کا ہم مذہب ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 2411
حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة، وعبد الرحمن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال استب رجلان رجل من المسلمين ورجل من اليهود، قال المسلم والذي اصطفى محمدا على العالمين، فقال اليهودي والذي اصطفى موسى على العالمين‏.‏ فرفع المسلم يده عند ذلك فلطم وجه اليهودي، فذهب اليهودي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره بما كان من أمره وأمر المسلم، فدعا النبي صلى الله عليه وسلم المسلم فسأله عن ذلك، فأخبره فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا تخيروني على موسى، فإن الناس يصعقون يوم القيامة، فأصعق معهم، فأكون أول من يفيق، فإذا موسى باطش جانب العرش، فلا أدري أكان فيمن صعق فأفاق قبلي، أو كان ممن استثنى الله‏"‏‏.
ہم سے یحیٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ اور عبدالرحمن اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ دو شخصوں نے جن میں ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی، ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ مسلمان نے کہا، اس ذا ت کی قسم ! جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تمام دنیا والوں پر بزرگی دی۔ اور یہودی نے کہا، اس ذا ت کی قسم جس نے موسیٰ ( علیہ الصلوٰۃ و السلام ) کو تمام دنیا والوں پر بزرگی دی۔ اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھا کر یہودی کے طمانچہ مارا۔ وہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور مسلمان کے ساتھ اپنے واقعہ کو بیان کیا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کو بلایا اور ان سے واقعہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے آپ کو اس کی تفصیل بتا دی۔ آپ نے اس کے بعد فرمایا، مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو۔ لوگ قیامت کے دن بے ہوش کر دیئے جائیں گے۔ میں بھی بے ہوش ہو جاؤں گا۔ بے ہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کا کنارہ پکڑے ہوئے پاؤں گا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہونے والوں میں ہوں گے اور مجھ سے پہلے انہیں ہوش آجائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں میں رکھا ہے جو بے ہوشی سے مستثنیٰ ہیں۔

ایک روایت میں یوں ہے اس یہودی نے کہا یا رسول اللہ ! میں ذمی ہوں، اور آپ کی امان میں ہوں۔ اس پر بھی اس مسلمان نے مجھ کو تھپڑ مارا۔ آپ غصے ہوئے اور مسلمان سے پوچھا تو نے اس کو کیوں تھپڑ مارا۔ اس پر اس مسلمان نے یہ واقعہ بیان کیا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ کسی نبی کی شان میں ایک رائی برابر بھی تنقیص کا کوئی پہلو اختیار کیا جائے۔

حدیث نمبر : 2412
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا عمرو بن يحيى، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس جاء يهودي، فقال يا أبا القاسم ضرب وجهي رجل من أصحابك‏.‏ فقال ‏"‏من‏"‏‏. ‏ قال رجل من الأنصار‏.‏ قال ‏"‏ادعوه‏"‏‏. ‏ فقال ‏"‏أضربته‏"‏‏. ‏ قال سمعته بالسوق يحلف والذي اصطفى موسى على البشر‏.‏ قلت أى خبيث، على محمد صلى الله عليه وسلم فأخذتني غضبة ضربت وجهه‏.‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لا تخيروا بين الأنبياء، فإن الناس يصعقون يوم القيامة، فأكون أول من تنشق عنه الأرض، فإذا أنا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش، فلا أدري أكان فيمن صعق، أم حوسب بصعقة الأولى‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ یحییٰ بن عمارہ نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی آیا اور کہا کہ اے ابوالقاسم ! آپ کے اصحاب میں سے ایک نے مجھے طمانچہ مارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کس نے؟ اس نے کہا کہ ایک انصاری نے۔ آپ نے فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ وہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے اسے مارا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے بازار میں یہ قسم کھاتے سنا۔ اس ذات کی قسم ! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر بزرگی دی۔ میں نے کہا، او خبیث ! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ! مجھے غصہ آیا اور میں نے اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو انبیاءمیں باہم ایک دوسرے پر اس طرح بزرگی نہ دیا کرو۔ لوگ قیامت میں بے ہوش ہو جائیں گے۔ اپنی قبر سے سب سے پہلے نکلنے والا میں ہی ہوں گا۔ لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہوں گے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے یا انہیں پہلی بے ہوشی جو طور پر ہو چکی ہے وہی کافی ہوگی۔

تشریح : اس حدیث کے ذیل میں علامہ قسطلانی فرماتے ہیں : و مطابقۃ الحدیث للترجمۃ فی قولہ علیہ الصلوۃ و السلام ادعوہ فان المراد بہ اشخاصہ بین یدیہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کو یہاں بلاؤ۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی حاضری ہی اس کے حق میں سزا تھی۔ اس حدیث کو اور بھی کئی مقامات پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرما کر اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔

ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت جملہ انبیاءو رسل علیہم السلام پر ایسی ہی ہے جیسی فضیلت چاند کو آسمان کے سارے ستاوں پر حاصل ہے۔ اس حقیقت کے باوجود آپ نے پسند نہیں فرمایا کہ لوگ آپ کی فضیلت بیان کرنے کے سلسلے میں کسی دوسرے نبی کی تنقیص شروع کر دیں۔ آپ نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف فرمایا۔ بلکہ ذکر بھی فرمادیا کہ قیامت کے دن میرے ہوش میں آنے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ نہ معلوم آپ ان میں سے ہیں جن کا اللہ نے استثناءفرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے فصعق من فی السموات و من فی الارض الا من شاءاللہ ( الزمر : 68 ) یعنی قیامت کے دن سب لوگ بے ہوش ہو جائیں گے مگر جن کو اللہ چاہے گا بے ہوش نہ ہوں گے۔ یا پہلے طور پر جو بے ہوشی ان کو لاحق ہو چکی ہے وہ یہاں کام دے دی گی یا آپ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کو اللہ پاک نے محاسبہ سے بری قرار دے دیا ہوگا۔ بہرحال آپ نے اس جزوی فضیلت کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی افضیلت کا اعتراف فرمایا۔ اگرچہ یہ سب کچھ محض بطور اظہار انکساری ہی ہے۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کا درجہ بخشا ہے جملہ انبیاءعلیہم السلام پر آپ کی افضلیت کے لیے یہ عزت کم نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 2413
حدثنا موسى، حدثنا همام، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن يهوديا، رض رأس جارية بين حجرين، قيل من فعل هذا بك أفلان، أفلان حتى سمي اليهودي فأومت برأسها، فأخذ اليهودي فاعترف، فأمر به النبي صلى الله عليه وسلم فرض رأسه بين حجرين‏.‏
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا۔ ( اس میں کچھ جان باقی تھی ) اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے، فلاں نے؟ جب اس یہودی کا نام آیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا ( کہ ہاں ) یہودی پکڑا گیا اور اس نے بھی جرم کا اقرار کر لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔

تشریح : علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ مقتولہ لڑکی انصار سے تھی۔ و عند الطحاوی عدا یہودی فی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی جاریۃ فاخذ اوضاخا کانت علیہا و رضح راسہا و الاوضاخ نوع من الحلی یعمل من الفضۃ و لمسلم فرضح راسہا بین حجرین و للترمذی خرجت جاریۃ علیہا اوضاح فاخذہا یہودی فرضح راسہا و اخذا ما علیہا من الحلی قال فادرکت و بہا رمق فاتی بہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم قیل الحدیث یعنی زمانہ رسالت میں ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا، جو چاندی کے کڑے پہنے ہوئے تھی۔ یہودی نے اس بچی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور کڑے اس کے بدن سے اتار لیے چنانچہ وہ بچی اس حال میں کہ اس میں جان باقی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی اور اس نے اس یہودی کا یہ ڈاکہ ظاہر کر دیا۔ اس کی سزا میں یہودی کا بھی سر دو پتھروں کے درمیان کچل کر اس کو ہلاک کیا گیا۔

احتج بہ المالکیۃ و الشافعیۃ و الحنابلۃ و الجمہور علی ان من قتل بشی یقتل بمثلہ ( قسطلانی ) یعنی مالکیہ اور شافعیہ اور حنابلہ اور جمہور نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ جو شخص کسی چیز سے کسی کو قتل کرے گا اسی کے مثل سے اس کو بھی قتل کیا جائے گا۔ قصاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ مماثلت کے قائل نہیں ہیں اور یہاں جو مذکور ہے اسے محض سیاسی اور تعزیری حیثیت دیتے ہیں۔ قانونی حیثیت سے اسے تسلیم نہیں کرتے مگر آپ کا یہ خیال حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔ حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرما دیا ہے اذا صح الحدیث فہو مذہبی جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخصومات
باب : ایک شخص نادان یا کم عقل ہو گو حاکم اس پر پابندی نہ لگائے مگر اس کا کیا ہوا معاملہ رد کیا جائے گا

وإن لم يكن حجر عليه الإمام‏.‏ ويذكر عن جابر ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم رد على المتصدق قبل النهى ثم نهاه‏.‏ وقال مالك إذا كان لرجل على رجل مال، وله عبد، لا شىء له غيره، فأعتقه، لم يجز عتقه‏.‏
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا صدقہ رد کر دیا، پھر اس کو ایسی حالت میں صدقہ کرنے سے منع فرمادیا اور امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ اگر کسی کا کسی دوسرے پر قرض ہو اور مقروض کے پاس صرف ایک ہی غلام ہو۔ اس کے سوا اس کے پاس کچھ بھی جائیداد نہ ہو تو اگر مقروض اپنے اس غلام کو آزاد کردے تو اس کی آزادی جائز نہ ہوگی۔ اور اگر کسی نے کسی کم عقل کی کوئی چیز بیچ کر اس کی قیمت اسے دے دی اور اس نے اپنی اصلاح کرنے اور اپنا خیال رکھنے کے لیے کہا، لیکن اس نے اس کے باوجود مال بربا دکر دیا تو اسے اس کے خرچ کرنے سے حاکم روک دے گا۔ کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اور آپ نے اس شخص سے جو خریدتے وقت دھوکا کھا جایا کرتا تھا فرمایا تھا کہ جب تو کچھ خرید و فروخت کرے تو کہا کر کہ کوئی دھوکے کا کام نہیں ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مال اپنے قبضے میں نہ لیا۔

تشریح : حضرت جابر رضی اللہ عنہ والی حدیث کو عبد بن حمید نے نکالا ہے۔ ہوا یہ کہ ایک شخص ایک مرغی کے انڈے کے برابر سونے کا ایک ڈالا لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت شریف میں آیا اور کہنے لگا کہ آپ بطور صدقہ اسے میری طرف سے قبول فرمائیے۔ واللہ ! میرے پاس اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ اس نے پھر یہی کہا۔ آخر آپ نے وہ ڈالا اس کی طرف پھینک دیا اور فرمایا تم میں کوئی نادار ہوتا ہے اور اپنا مال جس کے سوا اس کے پاس کچھ اور نہیں ہوتا خیرات کرتا ہے۔ پھر خالی ہو کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا پھرتا ہے۔ یہ خیرات کسی حالت میں بھی پسندیدہ نہیں ہے۔ خیرات اس وقت کرنی چاہیے جب آدمی کے پا س خیرات کرنے کے بعد بھی مال باقی رہ جائے۔ اس حدیث کو ابوداؤد اور ابن خزیمہ نے نکالا ہے۔

یہ حدیث اسلام کے ایک جامع اصل الاصول کو ظا ہر کر رہی ہے کہ انسان کا دنیا میں محتاج اور تنگ دست بن کر رہنا عند اللہ کسی حال میں بھی محبوب نہیں ہے۔ اور خیرات و صدقات کا یہ نظریہ بھی صحیح نہیں کہ ایک آدمی اپنے سارے اثاثہ حیات کو خیرات کرکے پھر خود خالی ہاتھ بن کر بیٹھ جائے اور پھر لوگوں کے سامن ہاتھ پھیلاتا رہے۔ آیت قرآنی و لا تجعل یدک مغلولۃ الی عنقک و لا تبسطہا کل البسط الآیۃ اس پر واضح دلیل ہے۔ ہاں بلاشک اگر کوئی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسا ایمان و یقین اور توکل کا مالک ہو تو اس کے لیے سب کچھ جائز ہے۔ مگر یہ قطعاً ناممکن ہے کہ امت میں کوئی قیامت تک حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مثیل پیدا ہو سکے۔ اس موقع پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے الفاظ مبارکہ ہمیشہ آب زر سے لکھے جائیں گے۔ جب آپ سے پوچھا گیا کہ آپ کیا خیرات لے کر آئے اور کیا گھر میں چھوڑ کر آئے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا تھا کہ ترکت اللہ و رسولہ میں گھر میں اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ کر آیا ہوں، اورباقی سب کچھ لا کر حاضر کر دیا ہے۔ زبان حال سے گویا آپ نے فرمایا تھا ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین ( الانعام : 163 ) رضی اللہ عنہ و ارضاہ

امت کے ان بدترین لوگوں پر ہزار نفرین جو ایسے فخر اسلام عاشق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تبرا بازی کرتے اور بے حیائی کی حد ہوگئی کہ اس تبرا بازی کو کار ثواب جانتے ہیں۔ سچ ہے فاضلہم الشیطان بما کانوا یفسقون

اس باب کے ذیل میں حافظ صاحب فرماتے ہیں و اشار البخاری بما ذکر من احادیث الباب الی التفصیل بین من ظہرت منہ الاضاعۃ فیرد تصرفہ فیما اذا کان فی الشی الکثیر وا المستغرق و علیہ تحمل قصۃ المدبر و بین ما اذا کان فی الشی الیسیر او جعل لہ شرطا یامن بہ من افساد مالہ فلا یرد ( فتح الباری ) یعنی باب میں مندرجہ احادیث سے مجتہد مطلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس تفصیل کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جب مال کثیر ہو یا کوئی اور چیز جو خاص اہمیت رکھتی ہو اور صاحب مال کی طرف سے اس کے ضائع کردینے کا خطرہ ہو تو اس کا تصرف حکومت کی طرف سے اس میں رد کر دیا جائے گا۔ مدبر کا واقعہ اسی پر محمول ہے اور اگر تھوڑی چیز ہو یا کوئی ایسی شرط لگا دی گئی ہو جس سے اس مال کے ضائع ہونے کا ڈر نہ ہو تو ایسی صورت میں اس کا تصرف قائم رہے گا اور وہ رد نہ کیا جاسکے گا۔ اصل مقصد مال کی حفاظت اور قرض خواہ وغیرہ اہل حقوق کو ان کے حقوق کا ملنا ہے یہ جس صورت ممکن ہو۔ یہ سلطان اسلام کی صوابدید سے متعلق چیز ہے۔

حدیث نمبر : 2414
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن مسلم، حدثنا عبد الله بن دينار، قال سمعت ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رجل يخدع في البيع فقال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إذا بايعت فقل لا خلابة‏"‏‏. ‏ فكان يقوله‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ نے کہا کہ ایک صحابی کوئی چیز خریدتے وقت دھوکا کھا جایا کرتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جب تو خریدا کرے تو یہ کہہ دے کہ کوئی دھوکا نہ ہو۔ پس وہ اسی طرح کہا کرتے تھے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسم نے کم تجربہ ہونے کے باوجود اس شخص پر کوئی پابندی نہیں لگائی، حالانکہ سامان خریدنا ان سے نہیں آتا تھا۔ اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔

حدیث نمبر : 2415
حدثنا عاصم بن علي، حدثنا ابن أبي ذئب، عن محمد بن المنكدر، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ أن رجلا، أعتق عبدا له، ليس له مال غيره، فرده النبي صلى الله عليه وسلم، فابتاعه منه نعيم بن النحام‏.‏
ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نے اپنا ایک غلام آزاد کیا، لیکن اس کے پاس اس کے سوا اور کوئی مال نہ تھا۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کا غلام واپس کرا دیا۔ اور اسے نعیم بن نحام نے خرید لیا۔

دوسری روایات میں ہے کہ یہ شخص مقروض تھا اور قرض کی ادائیگی کے لیے اس کے پاس کچھ نہ تھا۔ صرف یہی غلام تھا اور اسے بھی اس نے مدبر کر دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تفصیلات کو معلوم کرلیا تو اس کی آزادی کو رد کر کے اس غلام کو نیلام کرا دیا اور اس حاصل شدہ رقم سے اس کا قرض ادا کر دیا۔ واللہ اعلم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخصومات
باب : مدعی یا مدعی علیہ ایک دوسرے کی نسبت جو کہیں

( یہ غیبت میں داخل نہیں ہے ) بشرطیکہ ایسا کوئی کلمہ منہ سے نہ نکالیں جس میں حد یا تعزیر واجب ہو، ورنہ سزا دی جائے گی )
باب کے ذیل حافظ مرحوم فرماتے ہیں : ای فیما لا یوجب حدا و لا تعزیرا فلا یکون ذلک من الغیبۃ المحرمۃ ذکر فیہ اربعۃ احادیث یعنی مدعی اور مدعی علیہ آپس میں ایسا کلام کریں جس پر حد واجب نہ ہوتی ہو اور نہ تعزیر۔ پس ایسا کلام غیبت محرمہ میں شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس باب کے ذیل حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے چار احادیث ذکر فرمائی ہے پہلی اور دسری حدیث ابن مسعود اور اشعث رضی اللہ عنہ کی ہے والغرض منہ قولہ قلت یا رسول اللہ اذا یحلف و یذہب بما لی فانہ نسبہ الی الحلف الکاذب و لم یوخذ بذلک لانہ اخبر بما یعلمہ منہ فی حال التظلم منہ یعنی غرض حدیث اشعث رضی اللہ عنہ سے یہ ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مدعیٰ علیہ کے بارے میں یہ بیان دیا کہ وہ جھوٹی قسم کھا کر میرا مال لے اڑے گا۔ آپ نے مدعی کے اس بیان پر کوئی اعتراض نہیں فرمایا۔ تیسری حدیث کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی ہے۔ جس میں فارتفعت اصواتہما کے الفاظ ہیں اور بعض طرق میں فتلاحیا کا لفظ بھی آیا ہے کہ وہ دونوں باہمی طور پر جھگڑنے لگے۔ اس سے مقصد باب ثابت ہوگا ہے۔ چھوٹی حدیث ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے محض اپنے اجتہاد کی بنا پر حضرت ہشام رضی اللہ عنہ پر انکار فرمایا تھا۔

مقصد یہ ہے کہ دوران مقدمہ عین عدالت میں مدعی اور مدعیٰ علیہ آپس میں بعض دفعہ کچھ سخت کلامی کر گزرتے ہیں اوربعض اوقات عدالت ان پر کوئی نوٹس نہیں لیتی۔ ہاں اگر حد کے باہر کوئی شخص عدالت کا احترام بالائے طاق رکھ کر سخت کلامی کرے گا تو یقینا وہ قابل سزا ہوگا۔

حدیث نمبر : 2416
حدثنا محمد، أخبرنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن شقيق، عن عبد الله ـ رضى الله عنه ـ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏من حلف على يمين وهو فيها فاجر ليقتطع بها مال امرئ مسلم لقي الله وهو عليه غضبان‏"‏‏. قال: فقال الأشعث: في والله كان ذلك، كان بيني وبين رجل من اليهود أرض فجحدني، فقدمته إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: (ألك بينة). قلت: لا، قال: فقال لليهودي: (احلف). قال: قلت: يا رسول الله، إذا يحلف ويذهب بمالي، فأنزل الله تعالى: {إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا} إلى آخر الآية.
ہم سے محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں شقیق نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جس نے کوئی جھوٹی قسم جان بوجھ کر کھائی تاکہ کسی مسلمان کا مال ناجائز طور پر حاصل کرلے۔ تو وہ اللہ تعالی ٰکے سامنے اس حالت میں حاضر ہو گا کہ اللہ پاک اس پر نہایت ہی غضبناک ہوگا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس پر اشعث رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم ! مجھ سے ہی متعلق ایک مسئلے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین کا جھگڑا تھا۔ اس نے انکار کیا تو میں نے مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا، کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے فرمایا کہ پھر تو قسم کھا۔ اشعث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! پھر تویہ جھوٹی قسم کھا لے گا اور میرا مال اڑا لے جائے گا۔ اس پر اللہ تعالی ٰنے یہ آیت نازل فرمائی، بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں سے تھوڑی پونچی خریدتے ہیں۔ آخر آیت تک۔

مدعی یعنی اشعث رضی اللہ عنہ نے عدالت عالیہ نبویہ میں یہودی کی خامی کو صاف لفظوں میں ظاہر کر دیا۔ باب کا یہی مقصد ہے کہ مقدمہ سے متعلق مدعی اور مدعی علیہ عدالت میں اپنے اپنے دلائل واضح کردیں، اس کا نام غیبت نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 2418
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا عثمان بن عمر، أخبرنا يونس، عن الزهري، عن عبد الله بن كعب بن مالك، عن كعب ـ رضى الله عنه ـ أنه تقاضى ابن أبي حدرد دينا كان له عليه في المسجد، فارتفعت أصواتهما حتى سمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في بيته، فخرج إليهما، حتى كشف سجف حجرته فنادى ‏"‏يا كعب‏"‏‏. ‏ قال لبيك يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏ضع من دينك هذا‏"‏‏. ‏ فأومأ إليه، أى الشطر‏.‏ قال لقد فعلت يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏قم فاقضه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عبداللہ بن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ انہوں نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے مسجد میں اپنے قرض کا تقاضا کیا۔ اور دونوں کی آواز اتنی بلند ہو گئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی گھر میں سن لی۔ آپ نے حجرہ مبارک کا پردہ اٹھا کر پکارا اے کعب ! انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے قرض میں سے اتنا کم کر دے اور آپ نے آدھا قرض کم کردینے کا اشارہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے کم کر دیا۔ پھر آپ نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اٹھ اب قرض ادا کردے۔

جھگڑا طے کرانے کا ایک بہترین راستہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار فرمایا۔ اور بے حد خوش قسمت ہیں وہ دونوں فریق جنہوں نے دل و جان سے آپ کا یہ فیصلہ منظور کر لیا۔ مقروض اگر تنگ دست ہے تو ایسی رعایت دینا ضروری ہو جاتا ہے۔ اور صاحب مال کو بہر صورت صبر اور شکر کے ساتھ جو ملے وہ لے لینا ضروری ہوجاتا ہے۔

حدیث نمبر : 2419
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عروة بن الزبير، عن عبد الرحمن بن عبد القاري، أنه قال سمعت عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ يقول سمعت هشام بن حكيم بن حزام، يقرأ سورة الفرقان على غير ما أقرؤها، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أقرأنيها، وكدت أن أعجل عليه، ثم أمهلته حتى انصرف، ثم لببته بردائه فجئت به رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت إني سمعت هذا يقرأ على غير ما أقرأتنيها، فقال لي ‏"‏أرسله‏"‏‏. ‏ ثم قال له ‏"‏اقرأ‏"‏‏. ‏ فقرأ‏.‏ قال ‏"‏هكذا أنزلت‏"‏‏. ‏ ثم قال لي ‏"‏اقرأ‏"‏‏. ‏ فقرأت فقال ‏"‏هكذا أنزلت‏.‏ إن القرآن أنزل على سبعة أحرف فاقرءوا منه ما تيسر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے، انہیں عبدالرحمن بن عبدالقاری نے کہ انہوں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کو سورۃ فرقان ایک دفعہ اس قرات سے پڑھتے سنا جو اس کے خلاف تھی جو میں پڑھتا تھا۔ حالانکہ میری قرات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھائی تھی۔ قریب تھا کہ میں فوراً ہی ان پر کچھ کر بیٹھوں، لیکن میں نے انہیں مہلت دی کہ وہ ( نماز سے ) فارغ ہو لیں۔ اس کے بعد میں نے ان کے گلے میں چادر ڈال کر ان کو گھسیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںحاضر کیا۔ میں نے آپ سے کہا کہ میں نے انہیں اس قرات کے خلاف پڑھتے سنا ہے جو آپ نے مجھے سکھائی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ پہلے انہیں چھوڑ دے۔ پھر ان سے فرمایا کہ اچھا اب تم قرات سناؤ۔ انہوں نے وہی اپنی قرات سنائی۔ آپ نے فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی تھی۔ اس کے بعد مجھ سے آپ نے فرمایا کہ اب تم بھی پڑھو، میں نے بھی پڑھ کر سنایا۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ اسی طرح نازل ہوئی۔ قرآن سات قراتوں میں نازل ہوا ہے۔ تم کو جس میں آسانی ہو اسی طرح سے پڑھ لیا کرو۔

تشریح : یعنی عرب کے ساتوں قبیلوں کے محاورے اور طرز پر اور کہیں کہیں اختلاف حرکات یا اختلاف حروف سے کوئی ضرر نہیں بشرطیکہ معانی اور مطالب میں فرق نہ آئے، جیسے سات قراتوں کے اختلاف سے ظاہر ہوتا ہے۔ علماءنے کہا ہے کہ قرآن مجید مشہور سات قراتوں میں سے ہر قرات کے موافق پڑھا جاسکتا ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن شاذ قرات کے ساتھ پڑھنا اکثر علماءنے درست نہیں رکھا جیسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی قراۃ حافظوا علی الصلوات و الصلوۃ الوسطی و صلوۃ العصر یا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرات فما استمتعتم منہن الی اجل مسمی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخصومات
باب : جب حال معلوم ہو جائے تو مجرموں او رجھگڑے والوں کو گھر سے نکال دینا

وقد أخرج عمر أخت أبي بكر حين ناحت‏.‏
اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بہن ام فروہ رضی اللہ عنہا نے جب وفات صدیق اکبر پر نوحہ کیا تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے انہیں ( ان کے گھر سے ) نکا ل دیا۔

تاکہ اس حرکت سے روح صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو تکلیف نہ ہو۔ اور تجہیز و تکفین کے کام میں خلل نہ آئے۔ پھر عمر فاروق اعظم کا جلال نوحہ جیسے ناجائز کام کو کیسے برداشت کرسکتا تھا۔ ام فروہ والی روایت کو ابن سعد نے طبقات میں نکالا ہے۔

حدیث نمبر : 2420
حدثنا محمد بن بشار حدثنا محمد بن أبي عدي، عن شعبة، عن سعد بن إبراهيم، عن حميد بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏لقد هممت أن آمر بالصلاة فتقام ثم أخالف إلى منازل قوم لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن عدی نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سعد بن ابراہیم نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نے تو یہ ارادہ کر لیا تھا کہ نماز کی جماعت قائم کرنے کا حکم دے کر خود ان لوگوں کے گھروں میں جاؤں جو جماعت میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر کو جلا دوں۔

اس سے بھی ثابت ہوا کہ خطاکاروں پر کس حد تک تعزیر کا حکم ہے۔ خصوصاً نماز باجماعت میں تساہل برتنا اتنی بڑی غلطی ہے جس کے ارتکاب کرنے والوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے انتہائی غیظ و غضب کا اظہار فرمایا۔ اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔
تشریح : حدیث میں لفظ فاحرق علیہم سے ترجمہ باب نکلتا ہے کیوں کہ جب گھر جلائے جائیں گے تو وہ نکل بھاگیں گے۔ پس گھر سے نکالنا جائز ہوا۔ ہمارے شیخ امام ابن قیم نے اس حدیث سے اور کئی حدیثوں سے دلیل لی ہے۔ کہ شریعت میں تعزیر بالمال درست ہے یعنی حاکم اسلام کسی جرم کی سزا میں مجرم کو مالی تاوان کر سکتا ہے۔

پچھلے باب میں مدعی اور مدعی علیہ کے باہمی ناروا کلام کے بارے میں کچھ نرمی تھی۔ مجتہد مطلق حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ باب منعقد فرما کر اشارہ کیا کہ اگر حد سے باہر کوئی حرکت ہو تو ان پر سخت گرفت بھی ہوسکتی ہے۔ ان کو عدالت سے باہر نکالا جاسکتا ہے۔ حضرت امام نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کے اس اقدام سے استدلال فرمایا کہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات پر خود ان کی بہن ام فروہ رضی اللہ عنہا کو جب نوحہ کرتے دیکھا تو ان کو گھر سے نکلوا دیا۔ بلکہ بعض دوسری نوحہ کرنے والی عورتوں کو درے مار مار کر گھر سے باہر نکالا۔
فثبتت مشروعیۃ الاقتصار علی اخراج اہل المعصیۃ من باب الولی و محل اخراج الخصوم اذا وقع منہم من المراءواللدد ما یقتضی ذلک ( فتح الباری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخصومات
باب : میت کا وصی اس کی طرف سے دعویٰ کرسکتا ہے

اس حدیث کے ذیل حافظ صاحب فرماتے ہیں : ای عن المیت فی الاستلحاق وغیرہ من الحقوق ذکر فیہ حدیث عائشۃ فی قصۃ سعد و ابن زمعہ قال ابن المنیر ملخصۃ دعویٰ الوصی عن الموصی علیہ لا نزاع فیہ وکان المصنف اراد بیان مستند الاجماع و سیاتی مباحث الحدیث المذکور فی کتاب الفرائض ( فتح ) یعنی مرنے والا جس کو وصیت کر جائے وہ اپنا حق حاصل کرنے کے لیے دعویٰ کرسکتاہے۔ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ گویا حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے یہی اشارہ فرمایا ہے اس پر جمیع علمائے امت کا اجماع ہے۔

حدیث نمبر : 2421
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن عبد بن زمعة، وسعد بن أبي وقاص، اختصما إلى النبي صلى الله عليه وسلم في ابن أمة زمعة فقال سعد يا رسول الله أوصاني أخي إذا قدمت أن أنظر ابن أمة زمعة فأقبضه، فإنه ابني‏.‏ وقال عبد بن زمعة أخي وابن أمة أبي، ولد على فراش أبي‏.‏ فرأى النبي صلى الله عليه وسلم شبها بينا فقال ‏"‏هو لك يا عبد بن زمعة، الولد للفراش، واحتجبي منه يا سودة‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ زمعہ کی ایک باندی کے لڑے کے بارے میں عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اپنا جھگڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر گئے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ ! میرے بھائی نے مجھ کو وصیت کی تھی کہ جب میں ( مکہ ) آؤں اور زمعہ کی باندی کے لڑکے کو دیکھوں تو اسے اپنی پرورش میں لے لوں۔ کیوں کہ وہ انہیں کا لڑکا ہے۔ اور عبد بن زمعہ نے کہا کہ وہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا لڑکا ہے۔ میرے والد ہی کے ” فراش “ میں اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے اندر ( عتبہ کی ) واضح مشابہت دیکھی۔ لیکن فرمایا کہ اے عبد بن زمعہ ! لڑکا تو تمہاری ہی پرورش میں رہے گا کیوں کہ لڑکا ” فراش “ کے تابع ہوتا ہے اور سودہ تو اس لڑکے سے پردہ کیا کر۔

حضرت سعد رضی اللہ عنہ اپنے کافر بھائی کی طرف سے وصی تھے۔ اس لیے انہوں نے اس کی طرف سے دعویٰ کیا۔ جس میں کچھ اصلیت تھی۔ مگر قانون کی رو سے وہ دعویٰ صحیح نہ تھا۔ کیوں کہ اسلامی قانون یہ ہے الولد للفراش و للعاہر الحجر اس لیے آپ نے ان کا دعویٰ خارج کر دیا۔ مگر اتقوا الشبہات کے تحت حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس لڑکے سے پردہ کرنے کا حکم فرمادیا۔ بعض دفعہ حاکم کے سامنے کچھ ایسے حقائق آجاتے ہیں کہ ان کو جملہ دلائل سے بالا ہو کر اپنی صوابدید پر فیصلہ کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الخصومات
باب : اگر شرارت کا ڈر ہو تو ملزم کا باندھنا درست ہے

وقيد ابن عباس عكرمة على تعليم القرآن والسنن والفرائض‏.
اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ( اپنے غلام ) عکرمہ کو قرآن و حدیث اور دین کے فرائض سیکھنے کے لیے قید کیا۔

حدیث نمبر : 2422
حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنهما ـ يقول بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد، فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال سيد أهل اليمامة، فربطوه بسارية من سواري المسجد، فخرج إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ما عندك يا ثمامة‏"‏‏. ‏ قال عندي يا محمد خير‏.‏ فذكر الحديث قال ‏"‏أطلقوا ثمامة‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند سواروں کا ایک لشکر نجد کی طرف بھیجا۔ یہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا اور جو اہل یمامہ کا سردار تھا، پکڑ لائے اور اسے مسجد نبوی کے ایک ستون میں باندھ دیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اورآپ نے پوچھا، ثمامہ ! تو کس خیال میں ہے؟ انہوں نے کہا اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں اچھا ہوں۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔

تشریح : کئی دفعہ کی گفتگو میں ثمامہ اخلاق نبوی سے حد درجہ متاثر ہو چکا تھا۔ اس نے آپ سے ہر بار کہا تھا کہ آپ اگر میرے ساتھ اچھا برتاؤ کریں تو میں اس کی ناقدری نہیں کروں گا چنانچہ یہی ہوا۔ آپ نے اسے بخوشی اعزاز و اکرام کے ساتھ آزاد فرما دیا۔ وہ فوراً ہی ایک کنویں پر گیا اور غسل کرکے آیا اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گیا۔ پس ترجمۃ الباب ثابت ہوا کہ بعض حالات میں کسی انسان کا کچھ وقت کے لیے مقید کرنا ضروری ہو جاتا ہے اور ایسی حالت میں یہ گناہ نہیں ہے بلکہ نتیجہ کے لحاظ سے مفید ثابت ہوتا ہے۔

عہد نبوی انسانی تمدن کا ابتدائی دور تھا، کوئی جیل خانہ الگ نہ تھا۔ لہٰذا مسجد ہی سے یہ کام بھی لیا گیا۔ اور اس لیے بھی کہ ثمامہ کو مسلمانوں کو دیکھنے کا بہت ہی قریب سے موقع دیا جائے اور وہ اسلام کی خوبیوں اور مسلمانوں کے اوصاف حسنہ کو بغور معائنہ کرسکے۔ خصوصاً اخلاق محمدی نے اسے بہت ہی زیادہ متاثر کیا۔ سچ ہے :
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

ترجمۃ الباب الفاظ فربطوہ بساریۃ من سواری المسجد سے نکلتا ہے۔ قاضی شریح جب کسی پر کچھ حکم کرتے اور اس کے بھاگ جانے کا ڈر ہوتا تو مسجد میں اس کو حراست میں رکھنے کا حکم دیتے۔ جب مجلس برخاست کرتے، اگر وہ اپنے ذمے کا حق ادا کردیتا تو اس کو چھوڑ دیتے ورنہ قید خانے میں بھجوا دیتے۔

دوسری روایت میں یوں ہے کہ آپ ہر صبح کو ثمامہ کے پاس تشریف لے جاتے اور اس کا مزاج اور حالات دریافت فرماتے۔ وہ کہتا کہ اگر آپ مجھ کو قتل کرادیں گے تو میرا بدلہ لینے والے لوگ بہت ہیں۔ اور اگر آپ مجھ کو چھور دیں گے تو میں آپ کا بہت بہت احسان مند رہوں گا۔ اور اگر آپ میری آزادی کے عوض روپیہ چاہتے ہیں تو جس قدر آپ فرمائیں گے آپ کو روپیہ دوں گا۔ کئی روز تک معاملہ ایسے ہی چلتا رہا۔ آخر ایک روز رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ثمامہ کو بلا شرط آزاد کرا دیا۔ جب وہ چلنے لگا تو صحابہ کو خیال ہوا کہ شاید یہ فرار اختیار کر رہا ہے۔ مگر ثمامہ ایک درخت کے نیچے گیا، جہاں پانی موجود تھا۔ وہاں اس نے غسل کیا اور پاک صاف ہو کر دربار رسالت میں حاضر ہوا۔ اور کہا کہ حضور اب میں اسلام قبول کرتا ہوں۔ فوراً ہی اس نے کلمہ شہادت اشہد ان لا الہ الا اللہ و اشہد ان محمداً رسول اللہ پڑھا اور صدق دل سے مسلمان ہو گیا۔ رضی اللہ عنہ ارضاہ
 
Top