کتاب الخصومات
صحیح بخاری -> کتاب الخصومات
باب : قرض دار کو پکڑ کر لے جانا اور مسلمان اور یہودی میں جھگڑا ہونے کا بیان
حدیث نمبر : 2410
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، قال عبد الملك بن ميسرة أخبرني قال سمعت النزال، سمعت عبد الله، يقول سمعت رجلا، قرأ آية سمعت من النبي، صلى الله عليه وسلم خلافها، فأخذت بيده، فأتيت به رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال "كلاكما محسن". قال شعبة أظنه قال "لا تختلفوا فإن من كان قبلكم اختلفوا فهلكوا".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہ عبدالملک بن میسرہ نے مجھے خبری دی کہا کہ میں نے نزال بن سمرہ سے سنا، اور انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ایک شخص کو قرآن کی آیت اس طرح پڑھتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم سے میں نے اس کے خلاف سنا تھا۔ اس لیے میں ان کا ہاتھ تھامے آپ کی خدمت میں لے گیا۔ آپ نے ( میرا اعتراض سن کر ) فرمایا کہ تم دونوں درست ہو۔ شعبہ نے بیان کیا کہ میں سجھتا ہوں کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اختلاف نہ کرو، کیوں کہ تم سے پہلے لوگ اختلاف ہی کی وجہ سے تباہ ہو گئے۔
تشریح : ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس شخص کو پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے جب قرآن غلط پڑھنے پر پکڑ کر لے جانا درست ٹھہرا تو اپنے حق کے بدل بھی پکڑ کر لے جانا درست ہوگا جیسے پہلا امر ایک مقدمہ ہے ویسا ہی دوسرا بھی۔ آپ کا مطلب یہ تھا کہ ایسی چھوٹی باتوں میں لڑنا جھگڑنا، جنگ و جدل کرنا برا ہے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کو لازم تھا کہ اس سے دوسری طرح پڑھنے کی وجہ پوچھتے۔ جب وہ کہتا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے تو آپ سے دریافت کرتے۔
اس حدیث سے ان متعصب مقلدوں کو نصیحت لینا چاہئے، جو آمین اور رفع یدین اور اسی طرح کی باتوں پر لوگوں سے فساد اور جھگڑا کرتے ہیں۔ اگر دین کے کسی کام میں شبہ ہو تو کرنے والے سے نرمی اوراخلاق کے ساتھ اس کی دلیل پوچھے۔ جب وہ حدیث یا قرآن سے کوئی دلیل بتلا دے بس سکوت کرے۔ اب اس سے معترض نہ ہو۔ ہر مسلمان کو اختیا رہے کہ جس حدیث پر چاہے عمل کرے، بشرطیکہ وہ حدیث بالاتفاق منسوخ نہ ہو۔ اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ اختلاف یہ نہیں ہے کہ ایک رفع یدین کرے، دوسرا نہ کرے۔ ایک پکا رکر آمین کہے ایک آہستہ۔ بلکہ اختلاف یہ ہے کہ ایک دوسرے سے ناحق جھگڑے، اس کو ستائے۔ کیوں کہ آپ نے ان دونوں کی قراتوں کو اچھا فرمایا۔ اور لڑنے جھگڑنے کوبرا کہا۔
و قال المظہری الاختلاف فی القرآن غیر جائز لان کل لفظ منہ اذا جاز قراتہ علی وجہین او اکثر فلو انکر احد و احد من ذینک الوجہین او الوجوہ فقد انکر القرآن ولا یجوز فی القرآن بالرائی لان القرآن سنۃ متبعۃ بل علیہما ان یسالا عن ذلک ممن ہو اعلم منہما ( قسطلانی ) یعنی مظہری نے کہا کہ قرآن مجید میں اختلاف کرنا ناجائز ہے کیوں کہ اس کا ہر لفظ جب اس کی قرات دونوں طریقوں پر جائز ہو تو ان میں سے ایک قرات کا انکار کرنا یا دونوں کا انکار یہ سارے قرآن کا انکار ہوگا۔ اور قرآن شریف کے بارے میں اپنی رائے سے کچھ کہنا جائز نہیں ہے اس لیے کہ قرآن مجید مسلسل طور پر نقل ہوتا چلا آرہا ہے۔ پس ان اختلاف کرنے والوں کو لازم تھا کہ اپنے سے زیادہ جاننے والے سے تحقیق کرلیتے۔
الغرض اختلاف جو موجب شقاق و افتراق و فساد ہو وہ اختلاف سخت مذموم ہے اور طبعی اختلاف مذموم نہیں ہے۔
حدیث باب سے یہ بھی نکلا کہ دعویٰ اور مقدمات میں ایک مسلمان کسی بھی غیر مسلم پر اور کوئی بھی غیر مسلم کسی بھی مسلمان پر اسلامی عدالت میں دعویٰ کرسکتا ہے۔ انصاف چاہنے کے لیے مدعی اور مدعا علیہ کا ہم مذہب ہونا کوئی شرط نہیں ہے۔
حدیث نمبر : 2411
حدثنا يحيى بن قزعة، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن أبي سلمة، وعبد الرحمن الأعرج، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال استب رجلان رجل من المسلمين ورجل من اليهود، قال المسلم والذي اصطفى محمدا على العالمين، فقال اليهودي والذي اصطفى موسى على العالمين. فرفع المسلم يده عند ذلك فلطم وجه اليهودي، فذهب اليهودي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فأخبره بما كان من أمره وأمر المسلم، فدعا النبي صلى الله عليه وسلم المسلم فسأله عن ذلك، فأخبره فقال النبي صلى الله عليه وسلم "لا تخيروني على موسى، فإن الناس يصعقون يوم القيامة، فأصعق معهم، فأكون أول من يفيق، فإذا موسى باطش جانب العرش، فلا أدري أكان فيمن صعق فأفاق قبلي، أو كان ممن استثنى الله".
ہم سے یحیٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوسلمہ اور عبدالرحمن اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ دو شخصوں نے جن میں ایک مسلمان تھا اور دوسرا یہودی، ایک دوسرے کو برا بھلا کہا۔ مسلمان نے کہا، اس ذا ت کی قسم ! جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو تمام دنیا والوں پر بزرگی دی۔ اور یہودی نے کہا، اس ذا ت کی قسم جس نے موسیٰ ( علیہ الصلوٰۃ و السلام ) کو تمام دنیا والوں پر بزرگی دی۔ اس پر مسلمان نے ہاتھ اٹھا کر یہودی کے طمانچہ مارا۔ وہ یہودی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور مسلمان کے ساتھ اپنے واقعہ کو بیان کیا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسلمان کو بلایا اور ان سے واقعہ کے متعلق پوچھا۔ انہوں نے آپ کو اس کی تفصیل بتا دی۔ آپ نے اس کے بعد فرمایا، مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو۔ لوگ قیامت کے دن بے ہوش کر دیئے جائیں گے۔ میں بھی بے ہوش ہو جاؤں گا۔ بے ہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کا کنارہ پکڑے ہوئے پاؤں گا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہونے والوں میں ہوں گے اور مجھ سے پہلے انہیں ہوش آجائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں میں رکھا ہے جو بے ہوشی سے مستثنیٰ ہیں۔
ایک روایت میں یوں ہے اس یہودی نے کہا یا رسول اللہ ! میں ذمی ہوں، اور آپ کی امان میں ہوں۔ اس پر بھی اس مسلمان نے مجھ کو تھپڑ مارا۔ آپ غصے ہوئے اور مسلمان سے پوچھا تو نے اس کو کیوں تھپڑ مارا۔ اس پر اس مسلمان نے یہ واقعہ بیان کیا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پسند نہیں فرمایا کہ کسی نبی کی شان میں ایک رائی برابر بھی تنقیص کا کوئی پہلو اختیار کیا جائے۔
حدیث نمبر : 2412
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا عمرو بن يحيى، عن أبيه، عن أبي سعيد الخدري ـ رضى الله عنه ـ قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس جاء يهودي، فقال يا أبا القاسم ضرب وجهي رجل من أصحابك. فقال "من". قال رجل من الأنصار. قال "ادعوه". فقال "أضربته". قال سمعته بالسوق يحلف والذي اصطفى موسى على البشر. قلت أى خبيث، على محمد صلى الله عليه وسلم فأخذتني غضبة ضربت وجهه. فقال النبي صلى الله عليه وسلم "لا تخيروا بين الأنبياء، فإن الناس يصعقون يوم القيامة، فأكون أول من تنشق عنه الأرض، فإذا أنا بموسى آخذ بقائمة من قوائم العرش، فلا أدري أكان فيمن صعق، أم حوسب بصعقة الأولى".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ یحییٰ بن عمارہ نے اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ ایک یہودی آیا اور کہا کہ اے ابوالقاسم ! آپ کے اصحاب میں سے ایک نے مجھے طمانچہ مارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کس نے؟ اس نے کہا کہ ایک انصاری نے۔ آپ نے فرمایا کہ انہیں بلاؤ۔ وہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے اسے مارا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے اسے بازار میں یہ قسم کھاتے سنا۔ اس ذات کی قسم ! جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر بزرگی دی۔ میں نے کہا، او خبیث ! کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ! مجھے غصہ آیا اور میں نے اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو انبیاءمیں باہم ایک دوسرے پر اس طرح بزرگی نہ دیا کرو۔ لوگ قیامت میں بے ہوش ہو جائیں گے۔ اپنی قبر سے سب سے پہلے نکلنے والا میں ہی ہوں گا۔ لیکن میں دیکھوں گا کہ موسیٰ علیہ السلام عرش الٰہی کا پایہ پکڑے ہوئے ہیں۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بے ہوش ہوں گے اور مجھ سے پہلے ہوش میں آجائیں گے یا انہیں پہلی بے ہوشی جو طور پر ہو چکی ہے وہی کافی ہوگی۔
تشریح : اس حدیث کے ذیل میں علامہ قسطلانی فرماتے ہیں :
و مطابقۃ الحدیث للترجمۃ فی قولہ علیہ الصلوۃ و السلام ادعوہ فان المراد بہ اشخاصہ بین یدیہ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی باب اور حدیث میں مطابقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کو یہاں بلاؤ۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کی حاضری ہی اس کے حق میں سزا تھی۔ اس حدیث کو اور بھی کئی مقامات پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نقل فرما کر اس سے بہت سے مسائل کا استخراج فرمایا ہے۔
ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت جملہ انبیاءو رسل علیہم السلام پر ایسی ہی ہے جیسی فضیلت چاند کو آسمان کے سارے ستاوں پر حاصل ہے۔ اس حقیقت کے باوجود آپ نے پسند نہیں فرمایا کہ لوگ آپ کی فضیلت بیان کرنے کے سلسلے میں کسی دوسرے نبی کی تنقیص شروع کر دیں۔ آپ نے خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف فرمایا۔ بلکہ ذکر بھی فرمادیا کہ قیامت کے دن میرے ہوش میں آنے سے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کا پایہ پکڑے ہوئے نظر آئیں گے۔ نہ معلوم آپ ان میں سے ہیں جن کا اللہ نے استثناءفرمایا ہے جیسا کہ ارشاد ہے
فصعق من فی السموات و من فی الارض الا من شاءاللہ ( الزمر : 68 ) یعنی قیامت کے دن سب لوگ بے ہوش ہو جائیں گے مگر جن کو اللہ چاہے گا بے ہوش نہ ہوں گے۔ یا پہلے طور پر جو بے ہوشی ان کو لاحق ہو چکی ہے وہ یہاں کام دے دی گی یا آپ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کو اللہ پاک نے محاسبہ سے بری قرار دے دیا ہوگا۔ بہرحال آپ نے اس جزوی فضیلت کے بارے میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی افضیلت کا اعتراف فرمایا۔ اگرچہ یہ سب کچھ محض بطور اظہار انکساری ہی ہے۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کا درجہ بخشا ہے جملہ انبیاءعلیہم السلام پر آپ کی افضلیت کے لیے یہ عزت کم نہیں ہے۔
حدیث نمبر : 2413
حدثنا موسى، حدثنا همام، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ أن يهوديا، رض رأس جارية بين حجرين، قيل من فعل هذا بك أفلان، أفلان حتى سمي اليهودي فأومت برأسها، فأخذ اليهودي فاعترف، فأمر به النبي صلى الله عليه وسلم فرض رأسه بين حجرين.
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا تھا۔ ( اس میں کچھ جان باقی تھی ) اس سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ یہ کس نے کیا ہے؟ کیا فلاں نے، فلاں نے؟ جب اس یہودی کا نام آیا تو اس نے اپنے سر سے اشارہ کیا ( کہ ہاں ) یہودی پکڑا گیا اور اس نے بھی جرم کا اقرار کر لیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کا سر بھی دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا گیا۔
تشریح : علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ وہ مقتولہ لڑکی انصار سے تھی۔
و عند الطحاوی عدا یہودی فی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی جاریۃ فاخذ اوضاخا کانت علیہا و رضح راسہا و الاوضاخ نوع من الحلی یعمل من الفضۃ و لمسلم فرضح راسہا بین حجرین و للترمذی خرجت جاریۃ علیہا اوضاح فاخذہا یہودی فرضح راسہا و اخذا ما علیہا من الحلی قال فادرکت و بہا رمق فاتی بہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم قیل الحدیث یعنی زمانہ رسالت میں ایک یہودی ڈاکو نے ایک لڑکی پر حملہ کیا، جو چاندی کے کڑے پہنے ہوئے تھی۔ یہودی نے اس بچی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اور کڑے اس کے بدن سے اتار لیے چنانچہ وہ بچی اس حال میں کہ اس میں جان باقی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائی گئی اور اس نے اس یہودی کا یہ ڈاکہ ظاہر کر دیا۔ اس کی سزا میں یہودی کا بھی سر دو پتھروں کے درمیان کچل کر اس کو ہلاک کیا گیا۔
احتج بہ المالکیۃ و الشافعیۃ و الحنابلۃ و الجمہور علی ان من قتل بشی یقتل بمثلہ ( قسطلانی ) یعنی مالکیہ اور شافعیہ اور حنابلہ اور جمہور نے اس سے دلیل پکڑی ہے کہ جو شخص کسی چیز سے کسی کو قتل کرے گا اسی کے مثل سے اس کو بھی قتل کیا جائے گا۔ قصاص کا تقاضا بھی یہی ہے۔ مگر حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے اس کے خلاف ہے۔ وہ مماثلت کے قائل نہیں ہیں اور یہاں جو مذکور ہے اسے محض سیاسی اور تعزیری حیثیت دیتے ہیں۔ قانونی حیثیت سے اسے تسلیم نہیں کرتے مگر آپ کا یہ خیال حدیث کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے۔ حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرما دیا ہے
اذا صح الحدیث فہو مذہبی جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میرا مذہب ہے۔