• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : قطعات اراضی بطور جاگیر دینے کا بیان

اصل کتاب میں قطائع کا لفظ ہے وہ مقطعہ اور جاگیر دونوں کو شامل ہے۔ شافعیہ نے کہا، آباد زمین کو جاگیر میں دینا درست نہیں، ویران زمین میں سے امام جس کو لائق سمجھے جاگیر دے سکتا ہے۔ مگر جاگیر دار یا مقطعہ داراس کا مالک نہیں ہوجاتا، محب طبری نے اسی کا یقین کیا ہے۔ لیکن قاضی عیاض نے کہا کہ اگر امام اس کو مالک بنا دے تو وہ مالک ہو جاتا ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 2376
حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد، عن يحيى بن سعيد، قال سمعت أنسا ـ رضى الله عنه ـ قال أراد النبي صلى الله عليه وسلم أن يقطع من البحرين، فقالت الأنصار حتى تقطع لإخواننا من المهاجرين مثل الذي تقطع لنا قال ‏"‏سترون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني‏"‏‏. ‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حماد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین میں کچھ قطعات اراضی بطور جاگیر ( انصار کو ) دینے کا ارادہ کیا تو انصار نے عرض کیا کہ ہم جب لیں گے کہ آپ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بھی اسی طرح کے قطعات عنایت فرمائیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعد ( دوسرے لوگوں کو ) تم پر ترجیح دی جایا کرے گی تو اس وقت تم صبر کرنا، یہاں تک کہ ہم سے ( آخرت میں آکر ) ملاقات کرو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بحرین میں کچھ جاگیریں دینے کا ارادہ فرمایا، اسی سے قطعات اراضی بطور جاگیر دینے کا جواز ثابت ہوا۔ حکومت کے پاس اگر کچھ زمین فالتو ہو تو وہ پبلک میں کسی کو بھی اس کی ملی خدمات کے صلہ میں دے سکتی ہے۔ یہی مقصد باب ہے۔ مستقبل کے لیے آپ نے انصار کو ہدایت فرمائی کہ وہ فتنوں کے دور میں جب عام حق تلفی دیکھیں خاص طور پر اپنے بارے میں ناساز گار حالات ان کے سامنے آئیں تو ان کو چاہئے کہ صبر و شکر سے کام لیں۔ ان کے رفع درجات کے لیے یہ بڑا بھاری ذریعہ ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : قطعات اراضی بطور جاگیر دے کر ان کو سند لکھ دینا

حدیث نمبر : 2377
وقال الليث عن يحيى بن سعيد، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ دعا النبي صلى الله عليه وسلم الأنصار ليقطع لهم بالبحرين، فقالوا يا رسول الله إن فعلت فاكتب لإخواننا من قريش بمثلها، فلم يكن ذلك عند النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏إنكم سترون بعدي أثرة فاصبروا حتى تلقوني‏"‏‏. ‏
اور لیث نے یحییٰ بن سعید سے بیان کیا اور انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلا کر بحرین میں انہیں قطعات اراضی بطور جاگیر دینے چاہے تو انہوں نے عرض کیا کے اے اللہ کے رسول ! اگر آپ کو ایسا کرنا ہی ہے تو ہمارے بھائی قریش ( مہاجرین ) کو بھی اسی طرح کی قطعات کی سند لکھ دیجئے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ” میرے بعد تم دیکھو گے کہ دوسرے لوگوں کو تم پر مقدم کیا جائے گا۔ تو اس وقت تم مجھ سے ملنے تک صبر کئے رہنا۔ “

حکومت اگر کسی کو بطور انعام جاگیر عطا کرے تو اس کی سند لکھ دینا ضروری ہے تاکہ وہ آئندہ ان کے کام آئے اور کوئی ان کا حق نہ مار سکے۔ ہندوستان میں شاہان اسلام نے ایسی کتنی سندیں تانبے کے پتروں پر کندہ کرکے بہت سے مندروں کے پچاریوں کو دی ہیں۔ جن میں ان کے لیے زمینوں کا ذکر ہے پھر بھی تعصب کا برا ہوا کہ آج ان کی شاندار تاریخ کو مسخ کرکے مسلمانوں کے خلاف فضا تیار کی جارہی ہے۔ اللہم انصر الاسلام و المسلمین آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : اونٹنی کو پانی کے پاس دوہنا

حدیث نمبر : 2378
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا محمد بن فليح، قال حدثني أبي، عن هلال بن علي، عن عبد الرحمن بن أبي عمرة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من حق الإبل أن تحلب على الماء‏"‏‏. ‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے محمد بن فلیح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اونٹ کا حق یہ ہے کہ ان کا دودھ پانی کے پاس دو ہا جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب المساقاۃ
باب : باغ میں سے گزرنے کا حق یا کھجور کے درختوں میں پانی پلانے کا حصہ

قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من باع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع‏"‏‏. ‏ فللبائع الممر والسقى حتى يرفع وكذلك رب العرية‏.‏
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر کسی شخص نے پیوندی کرنے کے بعد کھجور کا کوئی درخت بیچا تو اس کا پھل پیچنے والے ہی کا ہوتا ہے۔ اور اس باغ میں سے گزرنے اور سیراب کرنے کا حق بھی اسے حاصل رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا پھل توڑ لیا جائے۔ صاحب عریہ کو بھی یہ حقوق حاصل ہوں گے۔

تشریح : امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا یہی قول ہے اور ایک روایت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسے ہی ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ اگر بائع نے اس غلام کو کسی مال کا مالک بنا دیا تھا۔ تو وہ مال خریدار کا ہوگیا، مگر یہ کہ بائع شرط کرلے۔

باب کی مناسبت اس طرح سے ہے کہ جب عریہ کا دینا جائز ہوا تو خواہ مخواہ عریہ والا باغ میں جائے گااپنے پھلوں کی حفاظت کرنے کو۔ یہ جو فرمایا کہ اندازہ کرکے اس کے برابر خشک کھجور کے بدل بیج ڈالنے کی اجازت دی ہے اس کا مطلب یہ کہ مثلاً ایک شخص دو تین درخت کھجور کے بطور عریہ کے لے۔ وہ ایک اندازہ کرنے والے کو بلائے وہ اندازہ کردے۔ کہ درخت پر جو تازی کھجور ہے وہ سوکھنے کے بعداتنی رہے گی اور یہ عریہ والا اتنی سوکھی کھجور کسی شخص سے درخت کا میوہ لے کر اس کے ہاتھ بیج ڈالے تو یہ درست ہے حالانکہ یوں کھجور کو کھجور کے بدل اندازہ کرکے بیچنا درست نہیں کیوں کہ اس میں کمی بیشی کا احتمال رہتا ہے۔ مگر عریہ والے اکثر محتاج بھوکے لوگ ہوتے ہیں تو ان کو کھانے کے لیے ضرورت پڑتی ہے اس لیے ان کے لیے یہ بیع آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز فرما دی۔

حدیث نمبر : 2379
أخبرنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، حدثني ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، عن أبيه ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏من ابتاع نخلا بعد أن تؤبر فثمرتها للبائع، إلا أن يشترط المبتاع، ومن ابتاع عبدا وله مال فماله للذي باعه إلا أن يشترط المبتاع‏"‏‏. ‏ وعن مالك عن نافع عن ابن عمر عن عمر في العبد‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے اور ان سے ان کے باپ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ پیوندکاری کے بعد اگر کسی شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچا تو ( اس سال کی فصل کا ) پھل بیچنے والے ہی کا رہتا ہے۔ ہاں اگر خریدار شرط لگا دے ( کہ پھل بھی خریدار ہی کا ہوگا ) تو یہ صورت الگ ہے۔ اور اگر کسی شخص نے کوئی مال والا غلام بیچا تو وہ مال بیچنے والے کا ہوتا ہے۔ ہاں اگر خریدار شرط لگا دے تو یہ صورت الگ ہے۔ یہ حدیث امام مالک سے، انہوں نے نافع سے، انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے اس میں صرف غلام کا ذکر ہے۔

حدیث نمبر : 2380
حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن يحيى بن سعيد، عن نافع، عن ابن عمر، عن زيد بن ثابت ـ رضى الله عنهم ـ قال رخص النبي صلى الله عليه وسلم أن تباع العرايا بخرصها تمرا‏.
ہم سے محمد بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید نے، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اور ان سے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عریہ کے سلسلہ میں اس کی رخصت دی تھی کہ اندازہ کرکے خشک کھجور کے بدلے بیچا جاسکتا ہے۔

حدیث نمبر : 2381
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا ابن عيينة، عن ابن جريج، عن عطاء، سمع جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن المخابرة، والمحاقلة، وعن المزابنة، وعن بيع الثمر حتى يبدو صلاحها، وأن لا تباع إلا بالدينار والدرهم، إلا العرايا‏.‏
ہم سے عبداللہ بن محمدنے بیان کیا، کا کہ ہم سے ابن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاءنے، انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ، محاقلہ، اور مزابنہ سے منع فرمایاتھا۔ اسی طرح پھل کو پختہ ہونے سے پہلے بیچنے سے منع فرمایا تھا، اور یہ کہ میوہ یاغلہ جو درخت پر لگا ہو، دینار و درہم ہی کے بدلے بیچا جائے۔ البتہ عرایا کی اجازت دی ہے۔

الفاظ مخابرہ، محاقلہ اور مزابنہ کے معانی پیچھے تفصیل سے لکھے جاچکے ہیں۔

حدیث نمبر : 2382
حدثنا يحيى بن قزعة، أخبرنا مالك، عن داود بن حصين، عن أبي سفيان، مولى أبي أحمد عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال رخص النبي صلى الله عليه وسلم في بيع العرايا بخرصها من التمر فيما دون خمسة أوسق أو في خمسة أوسق، شك داود في ذلك‏.‏
ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں داؤد بن حصین نے، انہیں ابواحمد کے غلام ابوسفیان نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا کی اندازہ کرکے خشک کھجور کے بدلے پانچ وسق سے کم، یا ( یہ کہا کہ ) پانچ وسق کے اندر اجازت دی ہے اس میں شک داؤد بن حصین کو ہوا ( بیع عریہ کا بیان پیچھے مفصل ہو چکا ہے )

حدیث نمبر : 2383-2384
حدثنا زكرياء بن يحيى، أخبرنا أبو أسامة، قال أخبرني الوليد بن كثير، قال أخبرني بشير بن يسار، مولى بني حارثة أن رافع بن خديج، وسهل بن أبي حثمة، حدثاه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة بيع الثمر بالتمر، إلا أصحاب العرايا فإنه أذن لهم‏.‏ قال أبو عبد الله وقال ابن إسحاق حدثني بشير مثله‏.‏
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابواسامہ نے خبر دی، کہا کہ مجھے ولید بن کثیر نے خبر دی، کہا کہ مجھے بنی حارثہ کے غلام بشیر بن یسار نے خبر دی، ان سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اور سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ یعنی درخت پر لگے ہوئے کھجور کو خشک کی ہوئی کھجور کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا، عریہ کرنے والوں کے علاوہ کہ انہیں آپ نے اجازت دے دی تھی۔ ابوعبداللہ ( حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ) نے کہا کہ ابن اسحاق نے کہا کہ مجھ سے بشیر نے اسی طرح یہ حدیث بیان کی تھی۔ ( یہ تعلیق ہے کیوں کہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے ابن اسحاق کو نہیں پایا۔ حافظ نے کہا کہ مجھ کو یہ تعلیق موصلاً نہیں ملی۔ )


تشریحات مفیدہ :
از خطیب الاسلام فاضل علام حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی ناظم جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال ادام اللہ فیوضہم

کتاب المزارعۃ اور کتاب المساقاۃ کے خاتمہ پر اپنے ناظرین کرام کی معلومات میں مزید اضافہ کے لیے ہم ایک فاضلانہ تبصرہ درج کر رہے ہیں جو فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالرؤف رحمانی زید مجدہم کی دماغی کاوش کا نتیجہ ہے۔ فاضل علامہ نے اپنے اس مقالہ میں مسائل مزارعت کو مزید احسن طریق پر ذہن نشین کرانے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے۔ جس کے لیے مولانا موصوف نہ صرف میرے بلکہ جملہ قارئین کرام بخاری شریف کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔ اللہ پاک اس عظیم خدمت ترجمہ و تشریحات صحیح بخاری شریف میں اس علمی تعاون و اشتراک پر محترم مولانا موصوف کو برکات دارین سے نوازے اور آپ کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔
مولانا خود بھی ایک کامیاب زمیندار ہیں۔ اس لیے آپ کی بیان کردہ تفصیلات کس قدر جامع ہوں گی، شائقین مطالعہ سے خود ان کا اندازہ کر سکیں، محترم مولانا کی تشریحات مفیدہ کا متن درج ذیل ہے۔ ( مترجم )

زمین کی آبادی کاری کا اہتمام :
( 1 ) ملک کے تمام خام پیداوار اور اشیاءخوردنی کا دار و مدار زمین کی کاشت پر ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی زمین کے آباد و گلزار رکھنے کی ترغیب دی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من اشتری قریۃ یعمرہا کان حقا علی اللہ عونہ یعنی جو شخص کسی گاؤں کو خرید کر اس کو آباد کرے گا۔ تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر طرح سے مدد کرے گا ( منتحب کنزل العمال جلد دوم ص 128 )
اسی طرح کتاب الخراج میں قاضی ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث نقل کی ہے فمن احیا ارضا میتا فہی لہ و لیس بمحتجر حق بعد ثلثیعنی جس شخص نے کسی بنجر و افتادہ زمین کی کاشت کر لی تو وہ اسی کی ملکیت ہے۔ اور بلاکاشت کئے ہوئے روک رکھنے والے کا تین سال کے بعد حق ساقط ہو جاتا ہے۔ ( کتاب الخراج، ص : 72 )
( 2 ) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر قیامت قائم ہو جانے کی خبر مل جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی شاخ اور پودا ہو تو اسے ضائع نہ کرے۔ بلکہ اسے زمین میں گاڑ اور بٹھا کر دم لے۔ ( الادب المفرد ص : 69 )
ایک روایت میں ا س طرح وارد ہے کہ اگر تم سن لو کہ دجال کانا نکل چکا ہے اور قیامت کے دوسرے سب آثار و علامات نمایاں ہو چکے ہو اور تم کوئی نرم و نازک پودا زمین میں بٹھانا اور لگانا چاہتے ہو تو لگا دو۔ اور اس کی دیکھ بھال اور نشو و نما کے انتظامات میں سستی نہ کرو۔ کیوں کہ وہ بہرحال زندگی کے گزران کے لیے ایک ضروری کوشش ہے۔ ( الادب المفرد ص 69 )

انتباہ :
ان روایات میں غور کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ زمین کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے اور پھل دار درختوں اور غلہ والے پودوں کو لگانے کے لیے کس قدر عملی اہتمام مقصود ہے کہ مرتے مرتے اور قیامت ہوتے ہوئے بھی انسان زراعتی کاروبار اور زمینی پیداوار کے معاملہ میں ذار بھی بے فکری اور سستی ولاپرواہی نہ برتے۔

کیا زراعت کا پیشہ ذلیل ہے؟
ان حالات کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ زراعت کا پیشہ ذلیل ہے۔ حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہل اور کھیتی کے بعض آلات کو دیکھ کر فرمایا کہ لا یدخل ہذا بیت قوم الا ادخلہ اللہ الذل یعنی جس گھر میں یہ داخل ہوگا اس میں ذلت داخل ہو کر رہے گی۔

لیکن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی توجیہ کی روشنی میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کھیتی کا پیشہ اس قدر ہمہ وقتی مشغولیت کا طالب ہے کہ جو اس میں منہمک ہو گا وہ اسلامی زندگی کے سب سے اہم کام جہاد کو چھوڑ بیٹھے گا اور اس سے بے پروا رہے گا اور ظاہر ہے کہ ترک جہاد، شوکت و قوت کے اعتزال کے مترادف ہے۔ بہرحال اگر کھیتی کی مذمت ہے تو اس کی ہمہ گیر مصروفیت کے سبب کہ وہ اپنے ساتھ بے حد مشغول رکھ کر دوسرے تمام اہم مقاصد سے غافل و بے نیاز کر دیتی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اسی فلسفہ کے ماتحت لکھتے ہیں فاذا ترکوا الجہاد و اتبعوا اذناب البقر احاط بہم الذل و غلبت علیہم اہل سائر الادیان۔ ( حجۃ اللہ البالغہ جلد ثانی ص : 173 ) یعنی کاشتکار بیلوں کی دم میں لگ کر جہاد وغیرہ سے غافل ہوجاتے ہیں اور ان پر ذلت محیط ہو جاتی ہے۔ اور جہاد سے کاشتکاروں اور زمینداروں کی غفلت ان کی رہی سہی شوکت و قوت کو ختم کر دیتی ہے۔ اور ان پر تمام ادیان اور مذاہب اپنا تسلط جما لیتے ہیں۔ لیکن اگر جہاد یا دین کے دوسرے اہم مقاصد سے صرف نظر نہ ہو تو آبادی زمین اور کاشتکاری خود اہم مقاصد میں سے ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی لوگوں کو مختلف زمینوں کو بطور جاگیر عطا فرمایا کہ اسے آباد و گلزار رکھیں اور خلق خدا اور خود اس سے مستفید ہوں۔

زمین کا آباد رہنا اور عوامی ہونا اصل مقصد ہے :
( 1 ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب زراعت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی تو کچھ لوگوں نے ایسی جاگیروں کے بعض افتادہ حصص کو آباد کر لیا تواصل مالکان زمین نالش کے لیے دربار فاروقی میں حاضر ہوئے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم لوگوں نے اب تک غیر آبا دچھوڑے رکھا۔ اب ان لوگوں نے جب اسے آباد کر لیا تو تم ان کو ہٹانا چاہتے ہو۔ مجھے اگر اس امر کا احترام پیش نظر نہ ہوتا کہ تم سب کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جاگیریں عنایت کی تھیں تو تم لوگوں کو کچھ نہ دلاتا۔ لیکن اب میرا فیصلہ یہ ہے کہ اس کی آبادی کاری اور پرتی توڑائی کا معاوضہ اگر تم دے دو گے تو زمین تمہارے حوالے ہو جائے گی۔ اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو زمین کے بغیرآباد حالت کی قیمت دے کر وہ لوگ اس کے مالک بن جائیں گے۔ فرمان کے آخری الفاظ یہ ہیں ” وان شئتم ردوا علیکم ثمن ادیم الارض ثم ہی لہم“ ( کتاب الاموال ص389 )

اس کے بعد عام حکم دیا کہ جس نے کسی زمین کو تین برس تک غیر آباد رکھا تو جو شخص بھی اس کے بعد اسے آباد کرے گا، اس کی ملکیت تسلیم کر لی جائے گی۔ ( کتاب الخراج : ص72 ) اس حکم کا خاطر خواہ اثر ہوا اور بکثرت بے کار و مقبوضہ محض زمینیں آباد ہو گئیں۔

( 2 ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک لمبی زمین جاگیر کے طور پر عطا فرمائی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے آباد کئے ہوئے حصہ کو چھوڑ کر بقیہ غیر آباد زمین اس سے واپس لے لی ( کتاب الخراج : ص78 )
( 3 ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو ( قطیعہ ) ایک جاگیر عطا فرمائی تھی اور چند اشخاص کو گواہ بنا کر حکم نامہ ان کے حوالہ کر دیا۔ گواہوں میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ جب دستخط لینے کی غرض سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچتے ہیں، تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا ”اہذا کلہ لکن دون الناس“ کیا یہ پوری جائیداد تنہا تم کو مل جائے گی۔ اور دوسرے لوگ محروم رہ جائیں۔ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ غصہ میں بھرے ہوئے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے ”واللہ لا ادری انت الخلیفۃ ام عمر“ میں نہیں جانتا کہ اس وقت اپ امیر المومنین ہیں یا عمر؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا عمر و لکن الطاعۃ لی ہاں ان شاءاللہ العزیز آئندہ عمر فاروق ہی امیر المومنین ہوں گے۔ البتہ اطاعت میری ہوگی۔ الغرض سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی مخالفت کی بنا پر وہ جاگیر نہ پاسکے۔ ( منتخب کنز العمال جلد چہار ص390، و کتاب الاموال ص : 276 )

( 4 ) اس طرح عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہ کو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک جاگیر عطا فرمائی۔ جب دستخط کرانے کی غرض سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو حضرت فاروق نے دستخط کرنے سے انکار ہی پربس نہ کیا بلکہ تحریرشدہ سطروں کو مٹا دیا۔ عیینہ رضی اللہ عنہ دوبارہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پا س آئے اور یہ خواہش ظاہر کی کہ دوسرا حکم نامہ ارقام فرما دیا جائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے برملا فرمایا واللہ لا اجدد شیاءردہ عمر قسم خدا کی وہ کام دوبارہ نہیں کروں گا جس کو عمر رضی اللہ عنہ نے رد کیا ہو۔ ( منتخب کنزل العمال جلد چہارم ص219 )
اسی سلسلہ میں ابن الجوزی نے مزید یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑی تیزی میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر کہنے لگے کہ یہ جاگیر و اراضی جو آپ ان کو دے رہے ہیں، یہ آپ کی ذاتی زمین ہے یا سب مسلمانوں کی ملکیت ہے؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ سب کی چیز ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا تو پھر آپ نے کسی خاص شخص کے لیے اتنی بڑی جاگیر کو مخصوص کیوں کیا؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا میں نے ان حضرات سے جو میرے پاس بیٹھتے ہیں، مشورہ لے کر کیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، یہ سب کے نمائندہ نہیں ہوسکتے۔ ( سیرت عمرابن الخطاب ص : 40، و اصابہ لابن حجر رحمۃ اللہ علیہ جلد : ثالث، ص 56 )
بہرحال ان کے اس شدید انکار کی وجہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ میں تلاش کی جاسکتی ہے۔ اہذا کلہ لک دون الناس کیا دیگر افراد کو محروم کرکے یہ سب کچھ تمہیں کو مل جائے گا۔ ( منتخب کنزالعمال، جلد چہارم، ص 371، و کتاب الاموال ص : 277 )
ان روایات سے معلوم ہوا کہ مفاد عامہ کی چیز کسی شخص واحد کے لیے قانونا مخصوص نہیں کی جاسکتی، کوئی جاگیر یا جائیداد شخص واحد کو صرف اسی قدر ملے گی جتنا وہ سر سبز شاداب اور آبا درکھ سکے۔ درحقیقت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین رضی اللہ عنہما کا منشاءیہ تھا کہ قطعات لوگوں کو دے کر زمینوں کو زیر کاشت لایا جائے تاکہ خلق خدا کے لیے زیادہ سے زیادہ غلہ مہیا ہو سکے۔ مگر یہ بات ہر وقت ملحوظ خاطری رہنی چاے کہ زمین صرف امراءکے ہاتھوں میں پڑ کر عیش کوشی اور عشرت پسندی کا سبب نہ بن سکے۔ یا بیکار نہ پڑی رہے، اس لیے احتیاط ضروری تھی کہ زمین صرف ان لوگوں کو دی جائے جو اہل تھے اور صرف اسی قدر دی جائے جتنی وہ بار آور کر سکتے ہوں۔ بہرحال پبلک کے فائدہ کے لیے بیکار اور زائد کاشت زمین حکومت اسلامی اپنے نظم میں لے لیتی ہے تاکہ اس کو مستحقین میں تقسیم کیا جاسکے۔
انگریزی دور حکومت میں رواج تھا کہ لوگ زمینوں پر سیر خود کاشت لکھا کر اور فرضی ناموں سے اندراج کرا کے زمینوں پر قابض رہتے تھے۔ اور اس سے دوسرے لوگوں کا نفع اٹھانا شخص واحد کی نامزدگی کی وجہ سے ناممکن تھا۔ ملک میں زرعی زمینوں پر قبضۃ المحض ہونے اور ساری زمینوں کے زیر کاشت نہ آسکنے کے باعث قحط اور پیداوار کی کمی برابر چلی آتی رہی۔ اسلام کا منشاءیہ ہے کہ جتنی کاشت تم خود کر سکو اتنی ہی اراضی پر قابض رہو۔ یا جتنی آبادی مزدوروں اور ہلواہوں کے ذریعہ زیر کاشت لا سکتے ہو بس اسی پر تصرف رکھو باقی حکومت کے حوالہ کر دو۔ اسلامی حکومت کو حق ہے کہ مالک اور زمیندار کو یہ نوٹس دے دے کہ ان عجزت عن عمارتہا عمرنا ہا وزرعنا ہا اگر اس زمین کے آباد کرنے کی صلاحیت تجھ میں نہیں ہے تو ہم اس زمین کو آباد کریں گے“ حکومت کے نوٹس کے ان الفاظ کو نقل کرکے علامہ ابوبکر جصاص نے لکھا ہے : کذالک یفعل الامام عندنا باراضی العاجز عن عمارتہا، اپنی زمین کی آبادی سے جو معذور ہوں، ان کی زمینوں کے متعلق امام کو یہی کرنا چاہئے ( احکام القرآن جلد : 3 ص532 )
اور اس قسم کے گشتی فرامین حکومت کی طرف سے جاری بھی ہوا کرتے تھے، مثلاً عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کے الفاظ اسی سلسلہ میں کتابوں میں نقل کئے گئے ہیں کہ اپنے گورنروں کو لکھا کرتے تھے لا تدعوا الارض خرابا ( محلی ابن حزم، جلد : 8 ص : 216 ) زمین کو ہرگز غیر آباد نہ چھوڑنا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ اسی لیے اپنے عمال کو بار بار تاکید کے ساتھ لکھا کرتے تھے کہ نصف محاصل پر کسان کو زمینوں کا بندوبست کرو۔ اگر تیار نہ ہوں تو فاعطوہا بالثلث فان لم یزرع فاعطوہا حتی یبلغ العشر تہائی پر بندوست کردو اگر پھر بھی آباد نہ ہو تو دسویں حصہ کی شرط پر دے دو اور آخر میں یہ اجازت دے دی کہ فان لم یزرعہا احد فامنحہا یعنی پھر بھی کوئی کسی زمین کو آباد نہ کرے تو لوگوں کو یونہی مفت آباد کرنے کو دے دو۔ اور اگر زمین کو مفت لینے پر بھی کوئی آمادہ نہ ہو تو حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ کا حکم یہ تھا فان لم یزرع فانفق علیہا من بیت مال المسلمین یعنی حکومت کے خزانہ سے خرچ کرکے غیر آباد زمینوں کو آباد کرو۔ بہرحال زمین کی آبادکاری کے لیے کوئی ممکن صورت ایسی باقی نہیں رہی جو چھوڑ دی گئی۔۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نجران کے سودخوار سرمایہ داروں کو معاوضہ دے کر زرعی زمینوں کو حاصل کرکے مقامی کاشتکاروں کے ساتھ بندوبست کر دیا تھا۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اسی موقعہ پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان نقل کیا ہے۔ ان جاوا بالبقر و الحدید من عندہم فلہم الثلثان و لعمر الثلث و ان جاءعمر بالبذر من عندہ فلہ الشطر ( فتح الباری، جلد : 5 ص 9 ) اگر بیل اور لوہا ( ہل بیل ) کسانوں کی طرف سے مہیا کیا جائے توان کو پیداوار کا دو تہائی ملے گا۔ اور عمر ( حکومت ) کو تہائی اور بیج کا بندوبست اگر عمر ( کی حکومت ) کرے تو کسانوں کو نصف حصہ ملے گا۔ اس واقعہ سے آبادی زمین اور انصاف و رعایت بحق رعایا کا حال خوب واضح ہوا۔

( 5 ) ایک زمین قبیلہ مزینہ کے کچھ افراد کو ملی ہوئی تھی۔ ان لوگوں نے اس جاگیر کو یونہی چھوڑ رکھا تھا۔ تو دوسرے لوگوں نے اس کو آباد کرلیا۔ مزینہ کے لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کی شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص تین برس تک زمین یونہی چھوڑ رکھے گا اور دوسرا کوئی شخص اسے آباد کرے تو یہ دوسرا ہی اس زمین کا حق دار ہوجائے گا۔ ( الاحکام السلطانیۃ للماروری ص182 )
( 6 ) حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : فخذ منہا ما قدرت علی عمارتہا یعنی جو زمین تم کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی ہے اس میں سے جس قدر تم آباد رکھ سکتے ہو اسے اپنے پاس رکھو۔ لیکن جب وہ پوری اراضی کو آباد نہ کرسکے تو باقی ماندہ زمین کو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دوسرے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو اراضی اس مقصد کے پیش نظر دی تھی کہ اس سے تم فائدہ اٹھاؤ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تو نہ تھا کہ تم خواہ مخواہ قابض ہی رہو۔ ( تعلیق کتاب الاموال ص290 بحوالہ ابوداؤد و مستدرک حاکم و خلاصۃ الوفاءص237 )

( نوٹ ) اس بلال رضی اللہ عنہ سے بلال رضی اللہ عنہ موذن رسول مراد نہیں ہیں بلکہ بلال بن ابی رباح ہیں۔ ( استعیاب )
( 7 ) حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے دور حکومت میں بھی اس قسم کا ایک واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک شخص نے زمین کو غیر آباد سمجھ کر اس کو آباد کرلیا۔ زمین والے کو اس کی اطلاع ملی تو نالش لے کر حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ اس شخص نے جو کچھ زمین کے سلسلہ محنت مزدوری صرف کی ہے اس کا معاوضہ تم ادا کردو۔ گویا اس نے یہ کام تمہارے لیے کیا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کے مصارف ادا کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔ تو آپ نے مدعی علیہ سے فرمایا ادفع الیہ ثمن ارضہ یعنی تم اس کی قیمت ادا کرکے اس کے مالک بن جاؤ اور اب کھیت کو سرسبز و شاداب رکھو۔ ( کتاب الاموال ص289 )
یہ فیصلے بتلاتے ہیں کہ ان حضرات کا منشاءیہ تھا کہ زمین کبھی غیر آباد اور بیکار نہ رہنے پائے اور ہر شخص کے پاس اتنی ہی رہے جتنی خودکاشت کر سکے یا کرا سکے۔ ان واقعات کی روشنی میں اب گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین کے وہ بڑے بڑے ٹکڑے جو ایسے زمینداروں کے قبضے میں ہوں جن کی کاشت نہ وہ خود کرتے ہیں، نہ مزدوروں کے ذریعہ ہی کراتے ہیں۔ بلکہ فرضی سیر و فرضی خود کاشت کے فرضی اندراجات کے ذریعہ ان جاگیروں پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔ ایسے زمینداروں کے اس ظالمانہ قبضہ کے لیے شریعت اسلامیہ میں کوئی جواز نہیں ہے۔ زمینداروں، جاگیرداروں کے نظام میں پہلے عموماً جاگیردار اور تعلقہ دار ایسی ایسی زمینوں پر قابض رہتے تھے اور پٹواری کے کھاتوں میں سیر خود کاشت کا فرضی اندراج کراتے تھے، حالانکہ درحقیقت ان کی کاشت نہ ہوتی تھی۔

زمین کی آباد کاری کے لیے بلاسودی قرضہ کا انتظام :
آج کے دور میں حکومت کاشتکاروں کے سدھار کے لیے بیج و غیرہ کی سوسائٹی کھول کر سودی قرضہ پر کھیتی کے آلات، زراعت اور بیج وغیرہ تقسیم کرتی ہے۔ لیکن خلاف راشدہ میں یہ بات نہ تھی۔ بلکہ وہ غیر مسلم رعایا کو بھی کھیتی کی ضروریات و فراہمی آلات کے لیے بلا سودی رقم دیتی تھی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عراق، کوفہ و بصرہ کے حکام کے نام فرمان بھیجا تھا کہ بیت المال کی رقم سے ان غیر مسلم رعایا کی امداد کرو جو ہمیں جزیہ دیتے ہیں۔ اور کسی تنگی و پریشانی کے سبب اپنی زمینوں کو آبا دنہیں کرسکتے۔ تو ان کی ضروریات کے مطابق ان کو قرض دو۔ تاکہ وہ زمین آباد کرنے کا سامان کر لیں، بیل خرید لیں، اور تخم ریزی کا انتظام کر لیں۔ اور یہ بھی بتا دو کہ ہم اس قرض کو اس سال نہیں لیں گے بلکہ دو سال بعد لیں گے۔ تاکہ وہ اچھی طرح اپنا کام سنبھال لیں ( کتاب الاموال ص251، سیرت عمر بن عبدالعزیز ص 67 )

زمین کی آبادکاری اور پیداوار کے اضافہ کے لیے پانی کا اہتمام :
غلہ کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آب پاشی پر موقوف ہے۔ جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعہ پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو غلہ سرسبز و شاداب ہو کر پیدا ہوتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کاشتکار کی اس اہم ضرورت کا ہمیشہ لحاظ رکھا، چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کی ماتحتی میں اسلامی فوجوں نے سواد عراق کو فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمان بھیجا کہ جائیداد منقولہ گھوڑے ہتھیار وغیرہ اور نقد کو لشکر میں تقسیم کرو، اور جائیداد غیر منقولہ کو مقامی باشندوں ہی کے قبضے میں رہنے دو، تاکہ اس کی مال گزاری، اور خراج سے اسلامی ضروریات اور سرحدی افواج کے مصارف اور آئندہ عسکری تنظیموں کے ضروری اخراجات فراہم ہوتے رہیں۔ اس موقع پر آپ نے زمینوں کی شادابی کے خیال سے فرمایا : الارض والانہار لعمالہا زمین اور اس کے متعلقہ نہروں کو موجودہ کاشتکاروں ہی کے قبضہ میں رہنے دو۔ ( کتاب الاموال ص 59، سیرت عمر لابن الجوزی ص 80، مشاہیر الاسلام جلد اول ص 317 )

غلہ کی پیداوار اورآبپاشی کی اہمیت کے سلسلہ میں ایک اور واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک معاملہ پیش ہوا۔ محمد بن مسلمہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین میں سے نہر لے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ تم کو اجازت دے دینی چاہئے کیوں کہ وہ نہرتمہاری زمین سے ہو کر ان کی زمین میں جائے گی۔ تو اول و آخر اس سے تم بھی فائدہ اٹھا سکو گے۔ محمد بن مسلمہ نے اپنے فریق مدعی سے کہا کہ خدا کی قسم میں نہیں جانے دوں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا و اللہ لیمرن بہ و لو علی بطنک قسم خدا کی وہ نہر بنائی جا ئے گی تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے۔ حتی کہ نہر جاری کرنے کا حکم دے دیا اور انہوں نے نہر نکالی ( موطا امام محمد ص 382 )

ان واقعات سے ظاہر ہے کہ خلافت راشدہ کے مبارک دور میں زمین کی آبپاشی اور پیداوار کے اضافہ ہی کے لیے پانی وغیرہ کے بہم رسانی کا ہر ممکن طور سے انتظام و اہتمام ہوتا رہا۔

بلا مرضی کاشت :
زمین کی آباد کاری کے سلسلہ میں بلا اجازت کاشت، بٹائی، دخل کاری وغیرہ سے متعلق چند ضروری باتیں عرض کی جاتی ہیں۔
اب سب سے پہلے سنئے کہ زمین والے کی بلا مرضی کاشت کی حقیقت شریعت میں کیا ہے۔ اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی موجود ہے : ”من زرع ارضا بغیر اذن اہلہا لیس لہ من الزرع شی“ یعنی جس نے کسی کی زمین کو بلا اجازت جوت لیا، تو اس کو اس کھیتی سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ زمین کی حیثیت عرفی کا احترام شریعت میں مد نظر ہے۔ پس اگر کوئی شخص اس کے غیر افتادہ اور آباد زمین پر یونہی قبضہ کرے تو اس کا تصرف قطعاً باطل ہے۔ لیکن بنجر وغیرآبادپرتی زمین جو مسلسل تین سال تک اگر مالک زمین اپنے تصرف و کاشت میں نہ لاسکے، اس کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔

دخل کاری :
اسی طرح دخل کاری کا موجودہ سسٹم بھی قطعاً باطل ہے۔ اسلام کبھی کاشتکار کو یہ اجازت نہ دے گا۔ کہ وہ اصل مالک زمین کی زمین پر پٹواری وغیرہ کی فرضی کاروائیوں کی بنا پر قبضہ جمالے۔ کاشتکار کی محنت و شرکت زمین کی پیداوار اور زمین کے منافع میں ہے نہ کہ اصل زمین کی ملکیت میں۔ اگر عدالت سے اس کے حق میں فیصلہ بھی ہو جائے، اور فرضی دلائل و شواہد اور پٹواریوں کے اندراجات و کاغذات کے بنا پر کوئی حاکم فیصلہ بھی کر دے تو وہ شرعاً باطل ہے۔ احادیث میں اس سلسلہ میں سخت وعید وارد ہے۔ ارشاد نبوی ہے : و انما تختصمون الی و لعل بعضکم یکون الحن بحجتہ من بعض فاقضی لہ علی نحو ما اسمع فمن قضیت لہ بحق اخیہ فلا یاخدہ فانا اقطع لہ قطعۃ من النار ( مشکوۃ جلد ثانی باب الاقضیہ )

اس روایت سے معلوم ہوا کہ حاکم کے ایسے کاغذات پٹواری وغیرہ کے فراہم کردہ شواہد کی بنا پر اگر کسی شخص کے لیے ایسی زمین کی ملکیت کا بنام دخل کاری فیصلہ ہو بھی جائے جو درحقیقت اس کی مملوکہ و زر خرید نہ تھی تو اس حاکم کا فیصلہ ہرگز اس زمین کو دخل کاری کے لیے حلال نہیں قرار دے سکتا۔ پٹواری سے ساز باز کرکے ایسی زمینوں پر قبضہ لکھانایا اپنی ملکیت دکھلانا جو درحقیقت زمیندار کی زر خرید ہے، اولاً حرام ہے اور ان اکاذیب و شہادات کاذبہ کی بنیاد پر اسے حلال سمجھنا حرام در حرام ہے۔

بٹائی :
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو فتح کرکے وہاں کی زمین کو خیبر کے کسانوں کے سپرد فرمایا ۔ بٹائی کے سلسلہ میں طے ہوا کہ نصف کاشتکار لیں گے اور نصف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لیں گے ۔ جب کھجور پک کر تیار ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو کھجور کا تخمینہ کرنے بھیجا ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فراخدلی کے ساتھ تخمینہ نکالا کہ اس منصفانہ تقسیم پر یہودی کاشتکار پکار اٹھے ۔ بہذا قامت السموات و الارض کہ آسمان و زمین اب تک اسی قسم کے عدل و انصاف کی بنا پر قائم ہیں ۔ انہوں نے پوری پیداوار کو چالیس ہزار وسق ٹھہرایا ۔ اور پورے باغ کا دو مساوی حصہ بنا دیا اور ان کو اختیار دے دیا کہ اس میں سے جس حصہ کو چاہیں لے لیں ۔ راوی کا بیان ہے کہ پھل توڑنے کے بعد ایک نصف کی پیداوار دوسرے نصف پر ذرہ برابر بھی زیادہ نہ نکلی ۔ ( کتاب الاموال ص482 )
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی بٹائی کو جائز لکھا ہے ، فرماتے ہیں : و المزارعۃ جائز فی اصح قول العلماءو ہی عمل السملمین علی عہد نبیہم و عہد خلفاءالراشیدین و علیہا عمل آل ابی بکر و آل عمر و آل عثمان و آل علی رضی اللہ عنہم و غیرہم و ہی قول اکابر الصحابۃ و ہی مذہب فقہاءالحدیث و احمد بن حنبل و ابن راہویہ و البخاری و ابن خزیمۃ و غیرہم و کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قد عامل اہل خیبر بشطر ما یخرج منہا من ثمر و زرع حتی مات ( الحسبۃ فی الاسلام ، ص : 20 )

اس کا حاصل یہ ہے کہ بٹائی کھیتی جائز ہے عہد نبوی و عہد خلفاءراشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اس طرح کا تعامل موجود ہے ۔ زمین سے شریعت کو پیداوار حاصل کرنا مقصود ہے ۔ زمین کبھی معطل و بیکار ہاتھوں میں پڑی نہ رہے اس لیے یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مجبوری سے اپنی زمین فروخت کرنے لگے تو اپنے دوسرے پڑوسی کاشتکار سے سب سے پہلے پوچھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس شخص کے پاس زمین یا کھجور کے باغات ہوں اور ان کو وہ فروخت کرنا چاہتا ہو تو اس کو سب سے پہلے اپنے شریک پر پیش کرے ۔ ( مسند احمد جلد3 ص 307 )
اسی طرح اگر شرکت میں کھیتی ہو اور کوئی شخص اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو ا س پر لازم ہے کہ پہلے اپنے شریک کو پیش کرے اس لیے کہ وہ اول حق دار ہے ۔ ( مسند احمد جلد 3ص 381 )
یہاں یہ مقصد ہے کہ دوسرا آدمی آلات حرث و انتظامات اور وسائل فراہم کرے گا ۔ ممکن ہے جلد مہیا نہ ہو اور اس کے پڑوسی کے پاس جب کہ تمام آلات و اسباب فراہم ہیں تو زمین کے بار آور وزیر کاشت ہونے کے لیے یہاں زیادہ اطمینان بخش صورت موجود ہے ۔ اس لیے پہلے یہ زمین اس پڑوسی کو پیش کرنا لازم ہے ۔

کاشتکاری کے لیے ترغیب :
( 11 ) زمینی پیداورا کے سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مختلف انداز میں توجہ دلائی ہے ۔ چنانچہ کچھ لوگ یمن سے آئے ہوئے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا ، تم کون لوگ ہو ؟ جواب دیا کہ ہم لوگ متوکل علی اللہ ہیں ۔ فرمایا ، تم لوگ ہرگز متوکل علی اللہ نہیں ہوسکتے ۔ انما المتوکل رجل القبی فی الارض و توکل علی اللہ متوکل وہ شخص ہے جو زمین میں ہل چلا کے اسے ملائم کرکے اس میں بیج ڈالے ، پھر اس کے نشو ونما و برگ و بار کے معاملہ کو خدا کے سپرد کردے ۔ ( منتخب کنز العمال ، جلد : 2 ص : 216 )
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ عمل کریں اور نتیجہ عمل کو خدا کے سپرد کردیں وہی لوگ دراصل متوکل ہیں ۔ کاشتکاری کی تمثیل ترعیب پر دلالت کرتی ہے اور ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ہے کہ حقیقی توکل کی مثال کاشتکار کی زندگی و سپردگی میں ملاحظہ کی جاتی ہے ۔ بیج کی پرورش ہوا ، پانی میں آسمان کی طرف نظر ، آفتاب و ماہتاب سے مناسب تمازت و ٹھنڈک کی ملی جلی کیفیتوں کا جس قدر احتیاج کسان ( کاشتکار ) کو ہے اور جس طرح قلبہ رانی کے بعد کسان اپنے تمام معاملات از اول تا آخر خدا کے سپرد کرتا ہے یہ بات کسی شعبہ میں اس حد تک نہیں ہے ۔
علامہ غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ کھیتی باڑی ، تجارت و زراعت وغیرہ سے الگ ہونا اور متعلقہ امور معاش کا اہتمام چھوڑ دینا حرام ہے ۔ اور اس کا توکل نام رکھنا غلط ہے ۔ ( احیاءالعلوم جلد رابع ص 265 )
( 12 ) زمین کی آبادی و کاشتکاری کا حکم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی دیا ہے ۔ ابوظبیان نامی ایک شخص سے آپ نے پوچھا کہ تم کو کس قدر وظیفہ بیت المال سے ملتا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا کہ ڈھائی ہزار درہم ۔ آپ نے فرمایا کہ یا اباظبیان اتخذ من الحرث یعنی اے ابوظبیان ! کھیتی کا سلسلہ قائم رکھو ۔ وظیفہ پر بھروسہ کرکے کاشتکاری سے غفلت نہ کرو ۔ ( الادب المفرد ص84 )

( 13 ) ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قیدیوں کے متعلق فرمایا کہ تحقیقات کرکے کاشتکار و زراعت پیشہ افراد کو سب سے پہلے رہا کرو ۔ حکم کے الفاظ یہ ہیں ۔ خلوا کل اکار و زراع ( منتخب کنز العمال جلد2 ص323 )
یہ عام قیدیوں سے صرف کاشتکار کی فوری رہائی کا بندوبست اس لیے فرمایا جارہا ہے کہ ملک کے عوامی فلاح کا دار و مدار غلہ و اجناس کی عام پیداوار پر ہے ۔ ہمارے یہاں نیپال میں تمام مقدمات کی کھیتی زمانہ میں لمبی تاریخیں دے کر ملتوی کر دی جاتی ہیں تاکہ کاشتکار اپنے مکان پر واپس جاکر فراغت سے کھیتی سنبھال سکیں ۔

لے اڑی طرز فغاں بلبل نالاں ہم سے
گل نے سیکھی روش چاک گریباں ہم سے

( 14 ) ایک بار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے زید بن مسلمہ کو دیکھا کہ زمین کو آباد کر رہے ہیں ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اصت استغن عن الناس یکن اصون لدینک و اکرم علیہم یعنی یہ تم بہت اچھا کر رہے ہو ۔ اسی طرح وجہ معاش کا انتظام ہو جانے سے دوسروں سے تم کو استغناءحاصل ہو جائے گا اور تمہارے دین کی حفاظت ہوگی اور اس طرح لوگوں میں تمہاری عزت بھی ہوگی ۔ یہ فرما کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ شعر پڑھا ۔
فلن ازل علی الزوراءاعمرہا ان الکریم علی الاخوان ذومال

( احیاءالعلوم جلد2 ص 64 )
( 15 ) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب وظائف پر بھروسہ ہونے لگا ، تو آپ نے بھی حکم دیا و من کان لہ منکم ضرع فلیلحق بضرعہ و من لہ زرع فلیلحق بزرعہ فانا لا نعطی مال اللہ الا لمن غزا فی سبیلہ ( الامامۃ و السیاسۃ جلد اول ص33 ) یعنی جس کے پاس دودھ والے جانور ہوں وہ اپنے ریوڑ کی پرورش سے اپنے معاش کا انتظام کرے اور جس کے پاس کھیت ہو وہ کھیتی میں لگ کر اپنی ضرورتوں کا انتظام کرلے ۔ وظیفہ پر بھروسہ کرنے کے سبب سے سارا نظام معطل ہو جائے گا ۔ اس لیے اب یہ مال صرف مجاہد و غازی سپاہیوں کے لیے مخصوص رہے گا ۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی سخ نامی مقام میں اپنی زمین داری کا کاروبار کرتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود بھی کاشت کراتے تھے ۔ ( بخاری کتاب المزارعۃ )

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ و حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ وغیرہ نے بھی مختلف جاگیروں کو بٹائی پر دے رکھا تھا ۔ ( کتاب الخروج ص73 )
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الاستقراض


صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض

(کتاب قرض لینے اور قرض ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بارے میں)
بسم اللہ الرحمن الرحیم

حجر کا معنی لغت میں روکنا، منع کرنا اور شرع میں اس کو کہتے ہیں کہ حاکم اسلام کسی شخص کو اپنے مال میں تصرف کرنے سے روک دے اور یہ دو وجہ سے ہوتا ہے۔ یا تو وہ شخص بے وقو ف ہو، اپنا مال تباہ کرتا ہو، یا دوسروں کے حقوق کی حفاظت کے لیے۔ مثلاً مدیون مفلس پر حجر کرنا، قرض خواہوں کے حقوق بچانے کے لیے یا راہن پر یا مرتہن پر یا مریض پر اور وارث کا حق بچانے کے لیے۔ تفلیس لغت میں کسی آدمی کا محتاجگی کے ساتھ مشہور ہوجانا۔ یہ لفظ فلوس سے ماخود ہے اور یہ پیسہ کے معنی میں ہے۔ شرعاً جسے حاکم وقت دیوالیہ قرار دے کر اس کو بقایا املاک میں تصرف سے روک دے تاکہ جو بھی ممکن ہو اس کے قرض خواہوں وغیرہ کو دے کر ان کے معاملات ختم کرائے جائیں۔

باب : جو شخص کوئی چیز قرض خریدے اوراس کے پاس قیمت نہ ہو یا اس وقت موجود نہ ہو تو کیا حکم ہے؟

حدیث نمبر : 2385
حدثنا محمد، أخبرنا جرير، عن المغيرة، عن الشعبي، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال غزوت مع النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏كيف ترى بعيرك أتبيعنيه‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ فبعته إياه، فلما قدم المدينة غدوت إليه بالبعير، فأعطاني ثمنه‏.
ہم سے محمد بن یوسف بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو جریر نے خبری دی، انہیں مغیرہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک تھا۔ آپ نے فرمایا، اپنے اونٹ کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ کیا تم اسے بیچو گے؟ میں نے کہا ہاں، چنانچہ اونٹ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیچ دیا۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچے۔ تو صبح اونٹ کو لے کر میں آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی قیمت ادا کردی۔

ثابت ہوا کہ معاملہ ادھار کرنا بھی درست ہے مگر شرط یہ کہ وعدہ پر رقم ادا کردی جائے۔

حدیث نمبر : 2386
حدثنا معلى بن أسد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الأعمش، قال تذاكرنا عند إبراهيم الرهن في السلم فقال حدثني الأسود عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم اشترى طعاما من يهودي إلى أجل، ورهنه درعا من حديد‏.
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، ان سے عبدالواحد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ ابراہیم کی خدمت میں ہم نے بیع سلم میں رہن کا ذکر کیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اسود نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہما نے بیا ن کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے غلہ ایک خاص مدت ( کے قرض پر ) خریدا، اور اپنی لوہے کی زرہ اس کے پاس رہن رکھ دی۔

معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت کوئی اپنی چیز رہن بھی رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن آج کل الٹا معاملہ ہے کہ رہن کی چیز از قسم زیور وغیرہ پر بھی مہاجن لوگ سود لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ زیور جلدی واپس نہ لیا جائے تو ایک نہ ایک دن سارا سود کی نذ ر ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے جس طرح سود لینا حرام ہے ویسے ہی سود دینا بھی حرام ہے، لہٰذا ایسا گروی معاملہ ہرگز نہ کرنا چاہئیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : جوشخص لوگوں کا مال ادا کرنے کی نیت سے لے اور جو ہضم کرنے کی نیت سے لے

حدیث نمبر : 2387
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله الأويسي، حدثنا سليمان بن بلال، عن ثور بن زيد، عن أبي الغيث، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من أخذ أموال الناس يريد أداءها أدى الله عنه، ومن أخذ يريد إتلافها أتلفه الله‏"‏‏. ‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے، ان سے ابوغیث نے، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کردے گا۔

حدیث نبوی اپنے مطلب میں واضح ہے۔ جس کی نیت ادا کرنے کی ہوتی ہے اللہ پاک بھی ضرور اس کے لیے کچھ نہ کچھ اسباب وسائل بنا دیتا ہے۔ جن سے وہ قرض ادا کرا دیتا ہے اور جن کی نیت ادا کرنے کی ہی نہ ہو، اس کی اللہ بھی مدد نہیں کرتا۔ اس صورت میں قرض لینا گویا لوگوں کے مال پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔ پھر ایسے لوگوں کی ساکھ بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اور سب لوگ اس کی بے ایمانی سے واقف ہو کر اس سے لین دین ترک کردیتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ قرض لیتے وقت ادا کرنے کی نیت اور فکر ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : قرضوں کا ادا کرنا

وقال الله تعالى ‏{‏إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها وإذا حكمتم بين الناس أن تحكموا بالعدل إن الله نعما يعظكم به إن الله كان سميعا بصيرا‏}‏
اور اللہ تعالیٰ نے ( سورۃ نساءمیں ) فرمایا : ” اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مالکوں کو ادا کرو۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو۔ اللہ تمہیں اچھی ہی نصیحت کرتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ بہت سننے والا، بہت دیکھنے والا ہے۔ “

حدیث نمبر : 2388
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا أبو شهاب، عن الأعمش، عن زيد بن وهب، عن أبي ذر ـ رضى الله عنه ـ قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم فلما أبصر ـ يعني أحدا ـ قال ‏"‏ما أحب أنه يحول لي ذهبا يمكث عندي منه دينار فوق ثلاث، إلا دينارا أرصده لدين‏"‏‏. ‏ ثم قال ‏"‏إن الأكثرين هم الأقلون، إلا من قال بالمال هكذا وهكذا‏"‏‏. ‏ وأشار أبو شهاب بين يديه وعن يمينه وعن شماله ـ وقليل ما هم ـ وقال مكانك‏.‏ وتقدم غير بعيد، فسمعت صوتا، فأردت أن آتيه، ثم ذكرت قوله مكانك حتى آتيك، فلما جاء قلت يا رسول الله، الذي سمعت أو قال الصوت الذي سمعت قال ‏"‏وهل سمعت‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏أتاني جبريل ـ عليه السلام ـ فقال من مات من أمتك لا يشرك بالله شيئا دخل الجنة‏"‏‏. ‏ قلت وإن فعل كذا وكذا قال ‏"‏نعم‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوشہاب نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے زید بن وہب نے اور ان سے ابوذر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا، آپ کی مراد احد پہاڑ ( کو دیکھنے ) سے تھی۔ تو فرمایا کہ میں یہ بھی پسند نہیں کروں گا کہ احد پہاڑ سونے کا ہو جائے تو اس میں سے میرے پاس ایک دینار کے برابر بھی تین دن سے زیادہ باقی رہے۔ سوا اس دینار کے جو میں کسی کا قرض ادا کرنے کے لیے رکھ لوں۔ پھر فرمایا، ( دنیا میں ) دیکھو جو زیادہ ( مال ) والے ہیں وہی محتاج ہیں۔ سوا ان کے جو اپنے مال و دولت کو یوں اور یوں خرچ کریں۔ ابوشہاب راوی نے اپنے سامنے اور دائیں طرف اور بائیں طرف اشارہ کیا، لیکن ایسے لوگوں کی تعدا د کم ہوتی ہے۔ پھر آپ نے فرمایا یہیں ٹھہرے رہو اور آپ تھوڑی دور آگے کی طرف بڑھے۔ میں نے کچھ آواز سنی ( جیسے آپ کسی سے باتیں کر رہے ہوں ) میں نے چاہا کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاؤں۔ لیکن آپ کا یہ فرمان یادآیا کہ ” یہیں اس وقت تک ٹھہرے رہنا جب تک میں نہ آجاؤں “ اس کے بعد جب آپ تشریف لائے تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! ابھی میں نے کچھ سنا تھا۔ یا ( راوی نے یہ کہا کہ ) میں نے کوئی آواز سنی تھی۔ آپ نے فرمایا، تم نے بھی سنا ! میں نے عرض کیا کہ ہاں۔ آپ نے فرمایا کہ میرے پاس جبریل علیہ السلام آئے تھے اور کہہ گئے ہیں کہ تمہاری امت کا جو شخص بھی اس حالت میں مرے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو، تو وہ جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے پوچھا کہ اگرچہ وہ اس طرح ( کے گناہ ) کرتا رہا ہو۔ تو آپ نے کہا کہ ہاں۔

حدیث نمبر : 2389
حدثنا أحمد بن شبيب بن سعيد، حدثنا أبي، عن يونس، قال ابن شهاب حدثني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، قال قال أبو هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏لو كان لي مثل أحد ذهبا، ما يسرني أن لا يمر على ثلاث وعندي منه شىء، إلا شىء أرصده لدين‏"‏‏. ‏ رواه صالح وعقيل عن الزهري‏.‏
ہم سے احمد بن شبیب بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے یونس نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تب بھی مجھے یہ پسند نہیں کہ تین دن گزر جائیں اور اس ( سونے ) کا کوئی حصہ میرے پاس رہ جائے۔ سوا اس کے جو میں کسی قرض کے دینے کے لیے رکھ چھوڑوں۔ اس کی روایت صالح اور عقیل نے زہری سے کی ہے۔

تشریح : باب کا مطلب اس فقرے سے نکلتا ہے۔ مگر وہ دینار تو رہے جس کو میں نے قرضہ ادا کرنے کے لیے رکھ لیا ہو۔ کیوں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرض ادا کرنے کی فکر ہر شخص کو کرنا چاہئے۔ اور اس کا ادا کرنا خیرات کرنے پر مقدم ہے۔ اب اس میں اختلاف ہے کہ خیرات کرنے کے لیے کوئی شخص بلا ضرورت قرض لے تو جائز ہے یا نہیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ ادا کرنے کی نیت ہو تو جائز ہے بلکہ ثواب ہے۔ عبداللہ بن جعفر بے ضرورت قرض لیا کرتے تھے۔ لوگوں نے پوچھا، انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ قرض دار کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ اپنا قرض ادا کردے۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ میرے ساتھ رہے اور تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ جو شخص نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وجہ سے قرض دار ہو جائے تو پروردگار اس کا قرض غیب سے ادا کرا دیتا ہے۔ مگر ایسی کیمیا صفت شخصیتیں آج کل نایاب ہیں۔ بہ حالات موجود قرض کسی حال میں بھی اچھا نہیں ہے یوں مجبوری میں سب کچھ کرنا پڑتا ہے مگر خیر خیرات کرنے کے لیے قرض نکالنا تو آج کسی طرح بھی زیبا نہیں۔ کیوں کہ ادائیگی کا معاملہ بہت ہی پریشان کن بن جاتا ہے۔ پھر ایسا مقروض آدمی دین اور دنیا ہر لحاظ سے گر جاتا ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو قرض سے بچائے۔ اور مسلمان قرض داروں کا غیب سے قرض ادا کرائے۔ آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : اونٹ قرض لینا

حدیث نمبر : 2390
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، أخبرنا سلمة بن كهيل، قال سمعت أبا سلمة، ببيتنا يحدث عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رجلا، تقاضى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأغلظ له، فهم أصحابه، فقال ‏"‏دعوه، فإن لصاحب الحق مقالا‏.‏ واشتروا له بعيرا، فأعطوه إياه‏"‏‏. ‏ وقالوا لا نجد إلا أفضل من سنه‏.‏ قال ‏"‏اشتروه فأعطوه إياه، فإن خيركم أحسنكم قضاء‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں سلمہ بن کہیل نے خبر دی، کہا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، وہ ہمارے گھر میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور سخت سست کہا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو سزا دینی چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے کہنے دو۔ صاحب حق کے لیے کہنے کا حق ہوتا ہے اور اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو۔ لوگوں نے عرض کیا کہ اس کے اونٹ سے ( جو اس نے آپ کو قرض دیا تھا ) اچھی عمر ہی کا اونٹ مل رہا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہی خرید کے اسے دے دو۔ کیوں کہ تم میں اچھا وہی ہے جو قرض ادا رکرنے میں سب سے اچھا ہو۔ ( حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : تقاضے میں نرمی کرنا

حدیث نمبر : 2391
حدثنا مسلم، حدثنا شعبة، عن عبد الملك، عن ربعي، عن حذيفة ـ رضى الله عنه ـ قال سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏مات رجل، فقيل له قال كنت أبايع الناس، فأتجوز عن الموسر، وأخفف عن المعسر، فغفر له‏"‏‏. ‏ قال أبو مسعود سمعته من النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک نے، ان سے ربعی بن حراش نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کا انتقال ہوا ( قبر میں ) اس سے سوال ہوا، تمہارے پا س کوئی نیکی ہے؟ اس نے کہا کہ میں لوگوں سے خرید و فروخت کرتا تھا۔ ( اور جب کسی پر میرا قرض ہوتا ) تو میں مالداروں کو مہلت دیا کرتاتھا اور تنگ دستوں کے قرض کو معاف کر دیا کرتا تھا اس پر اس کی بخشش ہو گئی۔ ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔

تشریح : اس سے تقاضے میں نرمی کرنے کی فضیلت ثابت ہوئی۔ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا و ان کان ذو عسرۃ فنظرۃ الی میسرۃ و ان تصدقوا خیر لکم ( البقرۃ : 280 ) یعنی اگر مقروض تنگ دست ہو تو اس کو ڈھیل دینا بہتر ہے۔ اور اگر اس پر صدقہ ہی کردو تو یہ اور بھی بہتر ہے خلاصہ یہ ہے کہ یہ عمل عنداللہ بہت ہی پسندیدہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : کیا بدلہ میں قرض والے اونٹ سے زیادہ عمر والا اونٹ دیا جاسکتا ہے؟

مراد یہ ہے کہ قرض میں معاملہ کی رو سے کم عمر والا اونٹ دینا ہے مگر وہ نہ ملا اور بڑی عمر والا مل گیا تو اسی کو دیا جاسکتا ہے اگرچہ دینے والے کو اس میں نقصان بھی ہے۔

حدیث نمبر : 2392
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن سلمة، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كان لرجل على النبي صلى الله عليه وسلم سن من الإبل فجاءه يتقاضاه فقال صلى الله عليه وسلم ‏"‏أعطوه‏"‏‏. ‏ فطلبوا سنه، فلم يجدوا له إلا سنا فوقها‏.‏ فقال ‏"‏أعطوه‏"‏‏. ‏ فقال أوفيتني، وفى الله بك‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إن خياركم أحسنكم قضاء‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے کہ مجھ سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا قرض کا اونٹ مانگنے آیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اسے اس کا اونٹ دے دو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ قرض خواہ کے اونٹ سے اچھی عمر کا ہی اونٹ مل رہا ہے۔ اس پر اس شخص ( قرض خواہ ) نے کہا مجھے تم نے میرا پورا حق دیا۔ تمہیں اللہ تمہارا حق پورا پورا دے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے وہی اونٹ دے دو کیوں کہ بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ بہتر طریقہ پراپنا قرض ا دا کرتا ہو۔
 
Top