• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : قرض اچھی طرح سے ادا کرنا

حدیث نمبر : 2393
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن سلمة، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال كان لرجل على النبي صلى الله عليه وسلم سن من الإبل فجاءه يتقاضاه فقال صلى الله عليه وسلم ‏"‏أعطوه‏"‏‏. ‏ فطلبوا سنه، فلم يجدوا له إلا سنا فوقها‏.‏ فقال ‏"‏أعطوه‏"‏‏. ‏ فقال أوفيتني، وفى الله بك‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏إن خياركم أحسنكم قضاء‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تقاضا کرنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اونٹ دے دو۔ صحابہ نے تلاش کیا لیکن ایسا ہی اونٹ ملک سکا جو قرض خواہ کے اونٹ سے اچھی عمر کا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ مجھے میرا حق پوری طرح دیا اللہ آپ کو بھی اس کا بدلہ پورا پورا دے۔ آپ نے فرمایا کہ تم میں بہتر آدمی وہ ہے جو قرض ادا کرنے میں بھی سب سے بہتر ہو۔

معلوم ہوا کہ قرض خواہ کو اس کے حق سے زیادہ دے دینا بڑا کار ثواب ہے۔

حدیث نمبر : 2394
حدثنا خلاد، حدثنا مسعر، حدثنا محارب بن دثار، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد ـ قال مسعر أراه قال ضحى ـ فقال ‏"‏صل ركعتين‏"‏‏. ‏ وكان لي عليه دين فقضاني وزادني‏.‏
ہم سے خلاد نے بیان کیا، ان سے مسعر نے بیان کیا، ان سے محارب بن دثار نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ مسجد نبوی میں تشریف رکھتے تھے۔ مسعر نے بیان کیا کہ میرا خیا ل ہے کہ انہوں نے چاشت کے وقت کا ذکر کیا۔ ( کہ اس وقت خدمت نبوی میں حاضر ہوا ) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو رکعت نماز پڑھ لو۔ میرا آپ پر قرض تھا۔ آپ نے اسے ادا کیا، بلکہ زیادہ بھی دے دیا۔

ایسے لوگ بہت ہی قابل تعریف ہیں جو خوش خوش قرض ادا کرکے سبکدوشی حاصل کرلیں۔ یہ اللہ کے نزدیک بڑے پیارے بندے ہیں۔ اچھی ادائیگی کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ واجب حق سے کچھ زیادہ ہی دے دیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : اگر مقروض قرض خواہ کے حق میں کم ادا کرے

جب کہ قرض خواہ اسی پر راضی بھی ہو یا قرض خواہ اسے معاف کر دے تو جائز ہے۔

حدیث نمبر : 2395
حدثنا عبدان، أخبرنا عبد الله، أخبرنا يونس، عن الزهري، قال حدثني ابن كعب بن مالك، أن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن أباه قتل يوم أحد شهيدا، وعليه دين فاشتد الغرماء في حقوقهم، فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فسألهم أن يقبلوا تمر حائطي ويحللوا أبي فأبوا، فلم يعطهم النبي صلى الله عليه وسلم حائطي، وقال ‏"‏سنغدو عليك‏"‏‏. ‏ فغدا علينا حين أصبح، فطاف في النخل، ودعا في ثمرها بالبركة، فجددتها فقضيتهم، وبقي لنا من تمرها‏.‏
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں زہری نے بیان کیا، ان سے کعب بن مالک نے بیان کیا، اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ان کے والد ( عبداللہ رضی اللہ عنہ ) احد کے دن شہید کر دیئے گئے تھے۔ ان پر قرض چلا آرہا تھا۔ قرض خواہوں نے اپنے حق کے مطالبے میں سختی اختیار کی تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے ان سے دریافت فرما لیا کہ وہ میرے باغ کی کھجور لے لیں۔ اور میرے والد کو معاف کر دیں۔ لیکن قرض خواہوں نے اس سے انکار کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں میرے باغ کا میوہ نہیں دیا۔ اور فرمایا کہ ہم صبح کو تمہارے باغ میں آئیںگے۔ چنانچہ جب صبح ہوئی تو آپ ہمارے باغ میں تشریف لائے۔ آپ درختوں میں پھرتے رہے۔ اور اس کے میوے میں برکت کی دعا فرماتے رہے۔ پھر میں نے کھجور توڑی اور ان کا تمام قرض ادا کرنے کے بعد بھی کھجور باقی بچ گئی۔

مضمون باب اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہید صحابی رضی اللہ عنہ کے قرض خواہوں سے کچھ قرض معاف کر دینے کے لیے فرمایا۔ جب وہ لوگ تیار نہ ہوئے، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے باغ میں دعائے برکت فرمائی۔ جس کی وجہ سے سارا قرض پورا ادا ہونے کے بعد بھی کھجوریں باقی رہ گئیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : اگر قرض ادا کرتے وقت کھجور کے بدل اتنی ہی کھجور یا اور کوئی میوہ یا اناج کے بدل برابر ناپ تول کر یا اندازہ کرکے دے تو درست ہے

حدیث نمبر : 2396
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أنس، عن هشام، عن وهب بن كيسان، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أنه أخبره أن أباه توفي، وترك عليه ثلاثين وسقا لرجل من اليهود، فاستنظره جابر، فأبى أن ينظره، فكلم جابر رسول الله صلى الله عليه وسلم ليشفع له إليه، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وكلم اليهودي ليأخذ ثمر نخله بالذي له فأبى، فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم النخل، فمشى فيها ثم قال لجابر ‏"‏جد له فأوف له الذي له‏"‏‏. ‏ فجده بعد ما رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم فأوفاه ثلاثين وسقا، وفضلت له سبعة عشر وسقا، فجاء جابر رسول الله صلى الله عليه وسلم ليخبره بالذي كان، فوجده يصلي العصر، فلما انصرف أخبره بالفضل، فقال ‏"‏أخبر ذلك ابن الخطاب‏"‏‏. ‏ فذهب جابر إلى عمر، فأخبره‏.‏ فقال له عمر لقد علمت حين مشى فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم ليباركن فيها‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے کہا کہ ہم سے انس نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے وہب بن کیسان نے اور انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ جب ان کے والد شہید ہوئے تو ایک یہودی کا تیس وسق قرض اپنے اوپر چھوڑ گئے۔ جابر رضی اللہ عنہ نے اس سے مہلت مانگی، لیکن وہ نہیں مانا۔ پھر جابر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ اس یہودی ( ابوشحم ) سے ( مہلت دینے کی ) سفارش کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور یہودی سے یہ فرمایا کہ جابر رضی اللہ عنہ کے باغ کے پھل ( جو بھی ہوں ) اس قرض کے بدلے میں لے لے۔ جو ان کے والد کے اوپر اس کا ہے، اس نے اس سے بھی انکار کیا۔ اب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باغ میں داخل ہوئے اور اس میں چلتے رہے پھر جابر رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا کہ باغ کا پھل توڑ کے اس کا قرض ادا کرو۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے تو انہوں نے باغ کی کھجوریں توڑیں اور یہودی کا تیس وسق ادا کر دیا۔ سترہ وسق اس میں سے بچ بھی رہا۔ جابر رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آپ کو بھی یہ اطلاع دیں۔ آپ اس وقت عصر کی نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی خبر ابن خطاب کو بھی کردو۔ چنانچہ جابر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ باغ میں چل رہے تھے کہ اس میں ضرور برکت ہوگئی۔

تشریح : یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا۔ عرب لوگوں کو کھجور کا جو درختوں پر ہو ایسا اندازہ ہوتا ہے کہ توڑ کر تولیں ناپیں تو اندازہ بالکل صحیح نکلتا ہے۔ سیر دو سیر کی کمی بیشی ہو تو یہ اور بات ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ڈیوڑھے سے زیادہ فرق نکلے۔ اگر کھجور پہلے ہی سے زیادہ ہوتی تو یہودی خوشی سے باغ کا سب میوہ اپنے قرض کے بدل قبول کرلیتا، مگر وہ تیس وسق سے بھی کم معلوم ہوتا تھا۔ آپ کے وہاں پھرنے اور دعا کرنے کی برکت سے وہ 47وسق ہو گیا۔ یہ امر عقل کے خلاف نہیں ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے معجزات مکرر سہ کرر ظاہر ہوتے رہے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : قرض سے اللہ کی پناہ مانگنا

حدیث نمبر : 2397
حدثنا أبو اليمان، أخبرنا شعيب، عن الزهري، ح وحدثنا إسماعيل، قال حدثني أخي، عن سليمان، عن محمد بن أبي عتيق، عن ابن شهاب، عن عروة، أن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدعو في الصلاة ويقول ‏"‏اللهم إني أعوذ بك من المأثم والمغرم‏"‏‏. ‏ فقال له قائل ما أكثر ما تستعيذ يا رسول الله من المغرم قال ‏"‏إن الرجل إذا غرم حدث فكذب ووعد فأخلف‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی، وہ زہری سے روایت کرتے ہیں ( دوسری سند ) ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے، ان سے محمد بن ابی عتیق نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے بیان کیا، اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دعا کرتے تو یہ بھی کہتے ” اے اللہ ! میں گناہ اور قرض سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ “ کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ قرض سے اتنی پناہ مانگتے ہیں؟ آپ نے جوابد یا کہ جب آدمی مقروض ہوتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور وعدہ کرکے اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : قرض دار کی نماز جنازہ کا بیان

حدیث نمبر : 2398
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن عدي بن ثابت، عن أبي حازم، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏من ترك مالا فلورثته، ومن ترك كلا فإلينا‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عدی بن ثابت نے، ان سے ابوحازم نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص ( اپنے انتقال کے وقت ) مال چھوڑے تو وہ اس کے وارثوں کا ہے اور جو قرض چھوڑے تو وہ ہمارے ذمہ ہے۔

حدیث نمبر : 2399
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا أبو عامر، حدثنا فليح، عن هلال بن علي، عن عبد الرحمن بن أبي عمرة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ما من مؤمن إلا وأنا أولى به في الدنيا والآخرة اقرءوا إن شئتم ‏{‏النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم‏}‏ فأيما مؤمن مات وترك مالا فليرثه عصبته من كانوا، ومن ترك دينا أو ضياعا فليأتني فأنا مولاه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر نے بیان کیا، ان سے فلیح نے بیان کیا، ان سے ہلال بن علی نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی عمرہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ہر مومن کا میں دنیا و آخرت میں سب سے زیادہ قریب ہوں۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو ” نبی مومنوں سے ان کی جان سے بھی زیادہ قریب ہے۔ “ اس لیے جو مومن بھی انتقال کر جائے اور مال چھوڑ جائے تو چاہئے کہ ورثاءاس کے مالک ہوں۔ وہ جو بھی ہوں اور جو شخص قرض چھوڑ جائے یا اولاد چھوڑ جائے تو وہ میرے پاس آجائیں کہ ان کا ولی میں ہوں۔

تشریح : یعنی اس کے بال بچوں کی پرورش کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ یعنی بیت المال میں سے یہ خرچہ دیا جائے گا۔ سبحان اللہ ! اس سے زیادہ شفقت اور عنایت کیا ہوگی۔ جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت سے تھی۔ باپ بھی بیٹے پر اتنا مہربان نہیں ہوتا جتنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلمانوں پر مہربانی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمان سب برابر کے شریک تھے اور بیت المال یعنی خزانہ ملک سارے مسلمانوں کا حصہ تھا۔ یہ نہیں کہ وہ بادشاہ کا ذاتی سمجھا جائے کہ جس طرح چاہئے، اپنی خواہشوں میں اس کو اڑائے اور مسلمان فاقے مرتے رہیں۔ جیسے ہمارے زمانے میں عموماً مسلمان رئیسوں اور نوابوں کا حال ہے اللہ ان کو ہدایت کرے۔

النبی اولی بالمومنین من انفسہم ( الاحزاب : 6 ) یعنی جتنا ہر مومن خود اپنی جان پر آپ مہربان ہوتا ہے اس سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس پر مہربان ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی گناہ اور کفر کرکے اپنے تئیں ہلاکت ابدی میں ڈالنا چاہتا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو بچانا چاہتے ہیں۔ اور فلاح ابدی کی طرف لے جانا۔ اس لیے آپ ہر مومن پر خود اس کے نفس سے بھی زیادہ مہربان ہیں۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جو نادار غریب مسلمان بحالت قرض انتقال کر جائیں، بات المال سے ان کے قرض کی ادائیگی کی جائے گی۔
بیت المال سے وہ خزانہ مراد ہے جو اسلامی خلافت کی تحویل میں ہوتا ہے۔ جن میں اموال غنائم، اموال زکوٰۃ اور دیگر قسم کی اسلامی آمدنیاں جمع ہوتی ہیں۔ اس بیت المال کا ایک مصرف نادار غریب مساکین کے قرضوں کی ادائیگی بھی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : ادائیگی میں مالدار کی طرف سے ٹال مٹول کرنا ظلم ہے

حدیث نمبر : 2400
حدثنا مسدد، حدثنا عبد الأعلى، عن معمر، عن همام بن منبه، أخي وهب بن منبه أنه سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏مطل الغني ظلم‏"‏‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ نے بیان کیا، ان سے معمر نے، ان سے ہمام بن منبہ، وہب بن منبہ کے بھائی نے، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مالدار کی طرف سے ( قرض کی ادائیگی میں ) ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : جس شخص کا حق نکلتا ہو وہ تقاضا کر سکتا ہے

ويذكر عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏لى الواجد يحل عقوبته وعرضه‏"‏‏. ‏ قال سفيان عرضه يقول مطلتني‏.‏ وعقوبته الحبس‏.‏
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے کہ ( قرض کے ادا کرنے پر ) قدرت رکھنے کے باوجود ٹال مٹول کرنا، اس کی سزا اور اس کی عزت کو حلال کر دیتا ہے۔ سفیان نے کہا کہ عزت کو حلال کرنا یہ ہے کہ قرض خواہ کہے ” تم صرف ٹال مٹول کر رہے ہو “ اور اس کی سزا قید کرنا ہے۔

حدیث نمبر : 2401
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، عن سلمة، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل يتقاضاه فأغلظ له فهم به أصحابه‏.‏ فقال ‏"‏دعوه فإن لصاحب الحق مقالا‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے سلمہ نے، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص قرض مانگنے اور سخت تقاضا کرنے لگا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کی گوشمالی کرنی چاہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو، حق دار ایسی باتیں کہہ سکتا ہے۔

اس حدیث سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ حقوق العباد کے معاملہ میں اسلام نے کس قدر ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہے۔ مذکورہ قرض خواہ وقت مقررہ سے پہلے ہی تقاضا کرنے آگیا تھا۔ اس کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اس کی سخت کلامی کو برداشت کیا بلکہ اس کی سخت کلامی کو روا رکھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : اگر بیع یا قرض یا امانت کا مال بجنسہ دیوالیہ شخص کے پاس مل جائے تو جس کا وہ مال ہے دوسرے قرض خواہوں سے زیادہ اس کا حق دار ہوگا

وقال الحسن إذا أفلس وتبين لم يجز عتقه، ولا بيعه ولا شراؤه‏.‏ وقال سعيد بن المسيب قضى عثمان من اقتضى من حقه قبل أن يفلس فهو له، ومن عرف متاعه بعينه فهو أحق به‏.‏
اور حسن رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ جب کوئی دیوالیہ ہو جائے اور اس کا ( دیوالیہ ہونا حاکم کی عدالت میں ) واضح ہو جائے تو نہ اس کا اپنے کسی غلام کو آزاد کرنا جائز ہوگا اور نہ اس کی خرید و فروخت صحیح مانی جائے گی۔ سعید بن مسیب نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا تھا کہ جو شخص اپنا حق دیوالیہ ہونے سے پہلے لے لے تو وہ اسی کا ہوجاتا ہے۔ اور جو کوئی اپنا ہی سامان اس کے ہاں پہچان لے تو وہی اس کا مستحق ہوتا ہے۔

مثلاً زید نے عمرو کے پاس ایک گھوڑا امانت رکھا یا اس کے ہاتھ ادھار بیچا، یا قرض دیا، اب عمرو نادا رہو گیا، گھوڑا جوں کا توں عمرو کے پاس ملا۔ تو زید اس کو لے لے گا۔ دوسرے قرض خواہوں کا اس میں حصہ نہ ہوگا۔

حدیث نمبر : 2402
حدثنا أحمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا يحيى بن سعيد، قال أخبرني أبو بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، أن عمر بن عبد العزيز، أخبره أن أبا بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام أخبره أنه، سمع أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم أو قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏من أدرك ماله بعينه عند رجل أو إنسان قد أفلس، فهو أحق به من غيره‏"‏‏.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، ان سے زہیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ان سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے خبر دی۔ انہیں عمر بن عبدالعزیز نے خبر دی، انہیں ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام نے خبر دی، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یایہ بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا، جو شخص ہو بہو اپنا مال کسی شخص کے پاس پا لے جب کہ وہ شخص دیوالیہ قرار دیا جا چکا ہو تو صاحب مال ہی اس کا دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مستحق ہے۔

تشریح : اگر وہ چیز بدل گئی، مثلاً سونا خریدا تھا اس کا زیور بنا ڈالا تو اب سب قرض خواہوں کا حق اس میں برابر ہوگا۔ حنفیہ نے اس حدیث کے خلاف اپنا مذہب قرار دیا ہے اور قیاس پر عمل کیا ہے حالانکہ وہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ قیاس کو حدیث کے مخالف ترک کر دینا چاہئے۔

حدیث اپنے مضمون میں واضح ہے کہ جب کسی شخص نے کسی شخص سے کوئی چیز خریدی اوراس پر قبضہ بھی کر لیا، لیکن قیمت نہیں ادا کی تھی کہ وہ دیوالیہ ہو گیا۔ پس اگر وہ اصل سامان اس کے پاس موجود ہے تو اس کا مستحق بیچنے والا ہی ہوگا اور دوسرے قرض خواہوں کا اس میں کوئی حق نہ ہوگا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مسلک ہے جو حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوی بھی یہی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : اگر کوئی مالدار ہو کر کل پرسوں تک قرض ادا کرنے کا وعدہ کرے تو یہ ٹال مٹول کرنا نہیں سمجھا جائے گا

ولم ير ذلك مطلا‏.‏ وقال جابر اشتد الغرماء في حقوقهم في دين أبي فسألهم النبي صلى الله عليه وسلم أن يقبلوا ثمر حائطي فأبوا، فلم يعطهم الحائط ولم يكسره لهم، قال ‏"‏سأغدو عليك غدا‏"‏‏. ‏ فغدا علينا حين أصبح فدعا في ثمرها بالبركة فقضيتهم‏.‏
اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرے والد کے قرض کے سلسلے میں قرض خواہوں نے اپنا حق مانگنے میں شدت اختیار کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے یہ صورت رکھی کہ وہ میرے باغ کا میوہ قبول کرلیں۔ انہوں نے اس سے انکار کیا، اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باغ نہیں دیا اور نہ پھل توڑوائے بلکہ فرمایا کہ میں تمہارے پاس کل آؤں گا۔ چنانچہ دوسرے دن صبح ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے اور پھلوں میں برکت کی دعا ئی فرمائی۔ اور میں نے ( اسی باغ سے ) ان سب کا قرض ادا کر دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الاستقراض
باب : دیوالیہ یا محتاج کا مال بیج کر قرض خواہوں کو بانٹ دینا یا خود اس کو ہی دے دینا کہ اپنی ذات پر خرچ کرے

حدیث نمبر : 2403
حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا حسين المعلم، حدثنا عطاء بن أبي رباح، عن جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ قال أعتق رجل غلاما له عن دبر فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏من يشتريه مني‏"‏‏. ‏ فاشتراه نعيم بن عبد الله، فأخذ ثمنه، فدفعه إليه‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے حسین معلم نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبدللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک شخص نے اپنا ایک غلام اپنی موت کے ساتھ آزاد کرنے کے لیے کہا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس غلام کو مجھ سے کون خریدتا ہے؟ نعیم بن عبداللہ نے اسے خرید لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قیمت ( آٹھ سو درہم ) وصول کرکے اس کے مالک کو دے دی۔

اسی سے باب کا مضمون ثابت ہوا۔ شخص مذکور مفلس تھا، صرف وہی غلام اس کا سرمایہ تھا۔ اور ا سکے لیے اس نے اپنے مرنے کے بعد آزادی کا اعلان کر دیا تھا جس سے دیگر مستحقین کی حق تلفی ہوتی تھی۔ لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کی حیات ہی میں فروخت کرا دیا۔
 
Top