• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : جب حاجی دونوں جمروں کی رمی کرچکے تو ہموار زمین پر قبلہ رخ کھڑا ہوجائے

حدیث نمبر : 1751
حدثنا عثمان بن أبي شيبة، حدثنا طلحة بن يحيى، حدثنا يونس، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أنه كان يرمي الجمرة الدنيا بسبع حصيات، يكبر على إثر كل حصاة، ثم يتقدم حتى يسهل فيقوم مستقبل القبلة فيقوم طويلا، ويدعو ويرفع يديه، ثم يرمي الوسطى، ثم يأخذ ذات الشمال فيستهل ويقوم مستقبل القبلة فيقوم طويلا ويدعو ويرفع يديه، ويقوم طويلا، ثم يرمي جمرة ذات العقبة من بطن الوادي، ولا يقف عندها ثم ينصرف فيقول هكذا رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يفعله‏.‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے طلحہ بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے یونس نے زہری سے بیان کیا، ان سے سالم نے کہ حضرت عبدللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پہلے جمرہ کی رمی سات کنکریوں کے ساتھ کرتے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے، پھر آگے بڑھتے اور ایک نرم ہموار زمین پر پہنچ کر قبلہ رخ کھڑے ہو جاتے اسی طرح دیر تک کھڑے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے، پھر جمرہ وسطیٰ کی رمی کرتے، پھر بائیں طرف بڑھتے اور ایک ہموار زمین پر قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہوجاتے، یہاں بھی دیر تک کھڑے کھڑے دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے رہتے، اس کے بعد والے نشیب سے جمرہ عقبہ کی رمی کرتے اس کے بعد آپ کھڑے نہ ہوتے بلکہ واپس چلے آتے اور فرماتے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا تھا۔

یہ آخری رمی گیارہویں تاریخ میں سب سے پہلے رمی جمرہ کی ہے، یہ جمرہ مسجد خیف سے قریب پڑتا ہے یہاں نہ کھڑا ہونا ہے نہ دعا کرنا، ایسے مواقع پر عقل کا دخل نہیں ہے، صرف شارع علیہ السلام کی اتباع ضروری ہے۔ ایمان اور اطاعت اسی کا نام ہے جہاں جو کام منقول ہوا ہے وہاں وہی کام سر انجام دینا چاہئے اور اپنی ناقص عقل کا دخل ہرگز ہرگز نہ ہوناچاہئے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : پہلے اور دوسرے جمرہ کے پاس جاکر دعا کے لیے ہاتھ اٹھانا

جمہور علماءکے نزدیک ہاتھ اٹھا کر جمرہ اولی اور جمرہ وسطیٰ کے پاس دعا مانگنا مستحب ہے، ابن قدامہ نے کہا کہ میں اس میں کسی کا اختلاف نہیں پاتا مگر امام مالک سے اس کے خلاف منقول ہے قال ابن المنذر لا اعلم احدا انکر رفع الیدین فی الدعاءعند الجمرۃ الا ما حکاہ ابن القاسم عن مالک انتہی ( فتح )

حدیث نمبر : 1752
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني أخي، عن سليمان، عن يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، عن سالم بن عبد الله، أن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ كان يرمي الجمرة الدنيا بسبع حصيات، ثم يكبر على إثر كل حصاة، ثم يتقدم فيسهل، فيقوم مستقبل القبلة قياما طويلا، فيدعو ويرفع يديه، ثم يرمي الجمرة الوسطى كذلك، فيأخذ ذات الشمال فيسهل، ويقوم مستقبل القبلة قياما طويلا، فيدعو ويرفع يديه، ثم يرمي الجمرة ذات العقبة من بطن الوادي، ولا يقف عندها، ويقول هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل‏.
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے بھائی (عبدالحمید ) نے بیان کیا، ان سے سلیمان نے بیان کیا، ان سے یونس بن یزید نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پہلے جمرہ کی رمی سات کنکریوں کے ساتھ کرتے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے، اس کے بعد آگے بڑھتے اور ایک نرم ہموار زمین پر قبلہ رخ کھڑے ہو جاتے، دعائیں کرتے رہتے اور دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے پھر جمرہ وسطی کی رمی میں بھی اسی طرح کرتے اور بائیں طرف آگے بڑھ کر ایک نرم زمین پر قبلہ رخ کھڑے ہوجاتے، بہت دیر تک اسی طرح کھڑے ہو کر دعائیں کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کی رمی بطن وادی سے کرتے لیکن وہاں ٹھہرتے نہیں تھے، آپ فرماتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔

یہ حدیث کئی جگہ نقل ہوئی ہے اور اس سے حضرت مجتہد مطلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہت سے مسائل کا اخراج فرمایا ہے، جو آپ کے تفقہ کی دلیل ہے ان لوگوں پر بے حد افسوس جو ایسے فقیہ اعظم فاضل مکرم امام معظم رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں تنقیص کرتے ہوئے آپ کی فقاہت اور درایت کا انکار کرتے ہیں اور آپ کو محض ناقل مطلق کہہ کر اپنی ناسمجھی یا تعصب باطنی کا ثبوت دیتے ہیں، بعض علماءاحناف کا رویہ اس بارے میں انتہائی تکلیف دہ ہے جو محدثین کرام خصوصاً امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں اپنی زبان بے لگام چلا کر خود ائمہ دین مجتہدین کی تنقیص کرتے ہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ پاک نے جو مقام عظمت عطا فرمایا ہے وہ ایسی واہی تباہی باتوں سے گرایا نہیں جاسکتا ہاں ایسے کور باطن نام نہاد علماءکی نشان دہی ضرور کردیتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : دونوں جمروں کے پاس دعا کرنے کے بیان میں (دنوں جمروں سے جمرہ اولی اور جمرہ وسطی مراد لیے )

حدیث نمبر : 1753
وقال محمد حدثنا عثمان بن عمر، أخبرنا يونس، عن الزهري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا رمى الجمرة التي تلي مسجد منى يرميها بسبع حصيات، يكبر كلما رمى بحصاة، ثم تقدم أمامها فوقف مستقبل القبلة رافعا يديه يدعو، وكان يطيل الوقوف، ثم يأتي الجمرة الثانية، فيرميها بسبع حصيات، يكبر كلما رمى بحصاة، ثم ينحدر ذات اليسار مما يلي الوادي، فيقف مستقبل القبلة رافعا يديه يدعو، ثم يأتي الجمرة التي عند العقبة فيرميها بسبع حصيات، يكبر عند كل حصاة، ثم ينصرف ولا يقف عندها‏.‏ قال الزهري سمعت سالم بن عبد الله يحدث مثل هذا عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم وكان ابن عمر يفعله‏.‏
اور محمد بن بشار نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی اور انہیں زہری نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس جمرہ کی رمی کرتے جو منی کی مسجد کے نزدیک ہے تو سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر آگے بڑھتے اور قبلہ رخ کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے تھے، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک کھڑے رہتے تھے پھر جمرہ ثانیہ (وسطی ) کے پاس آتے یہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے، پھر بائیں طرف نالے کے قریب اتر جاتے اور وہاں بھی قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے او ریہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے، اس کے بعد واپس ہوجاتے یہاں آپ دعا کے لیے ٹھہرتے نہیں تھے۔ زہری نے کہا کہ میں نے سالم سے سنا وہ بھی اسی طرح اپنے والد (ابن عمر رضی اللہ عنہما ) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے او ریہ کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خود بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

تشریح : حافظ صاحب فرماتے ہیں : و فی الحدیث مشروعیۃ التکبیر عند رمی کل حصاۃ و قد اجمعوا علی ان من ترکہ لا یلزمہ شی الا الثوری فقال یطعم و ان جبرہ بدم احب الی و علی الرمی بسبع و قد تقدم ما فیہ و علی استقبال القبلۃ بعد الرمی و القیام طویلا و قد وقع تفسیرہ فیما رواہ ابن ابی شیبۃ باسناد صحیح عن عطاءکان ابن عمر یقوم عند الجمرتین مقدار ما یقرا سورۃ البقرۃ و فیہ التباعد من موضع الرمی عند القیام للدعاءحتی لا یصیب رمی غیرہ و فیہ مشروعیۃ رفع الیدین فی الدعاءو ترک الدعاءو القیام عند جمرۃ العقبۃ ( فتح الباری )

یعنی اس حدیث میں ہر کنکری کو مارتے وقت تکبیر کہنے کی مشروعیت کا ذکر ہے اور اس پر اجماع ہے کہ اگر کسی نے اسے ترک کردیا تو اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا مگر ثوری کہتے ہیں کہ وہ مسکینوں کو کھانا کھلائے گا اور اگر دم دے تو زیادہ بہتر ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سات کنکریوں سے رمی کرنا مشروع ہے اور وہ بھی ثابت ہوا کہ رمی کے بعد قبلہ رخ ہو کر کافی دیر تک کھڑے کھڑے دعا مانگنا بھی مشروع ہے۔ یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جمرتین کے نزدیک اتنی دیر تک قیام فرماتے جتنی دیر میں سورۃ بقرہ ختم کی جاتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقام رمی سے ذرا دور ہو کر دعا کے لیے قیام کرنا مشروع ہے تاکہ کسی کی کنکری اس کو نہ لگ سکے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس وقت دعاؤں میں ہاتھ اٹھانا بھی مشروع ہے اور یہ بھی کہ جمرہ عقبہ کے پاس نہ تو قیام کرنا ہے نہ دعا کرنا، وہاں سے کنکریاں مارتے ہی واپس ہو جانا چاہئے۔

مزید ہدایات :
گیارہ ذی الحجہ تک یہ تاریخیں ایام تشریق کہلاتی ہیں، طواف افاضہ جو دس کو کیاجاتا ہے اس کے بعد کی تاریخوں میں منیٰ کے میدان میں مستقل پڑاؤ رکھنا چاہئے۔ یہ دن کھانے پینے کے ہیں، ان میں روزہ رکھنا بھی منع ہے۔ ان دنوں میں ہر روز زوال کے بعد ظہر کی نماز سے پہلے تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہوں گی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں قالت افاض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من آخر یومہ حین صلی الظہر ثم رجع الی منیٰ فمکث بہا لیالی ایام التشریق برمی الجمرۃ اذا زالت الشمس کل جمرۃ بسبع حصیات یکبر مع کل حصاۃ و یقف عند الاولی و الثانیۃ فیطیل القیام و یتفرع و یرمی الثالۃ فلا یقف عندہا ( رواہ ابوداود ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز تک طواف افاضہ سے فارغ ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منی واپس تشریف لے گئے اور ایام تشریق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں ہی شب کو قیام فرمایا۔ زوال شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ رمی جمار کرتے ہر جمرہ پر سات سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر نعرہ تکبیر بلند کرتے۔ جمرہ اولی جمرہ ثانیہ کے پاس بہت دیر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرماتے اور باری تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری فرماتے۔ جمرہ ثالثہ پر کنکری مارتے وقت یہاں قیام نہیں فرماتے تھے۔ پس تیرہ ذی الحجہ کے وقت زوال تک منیٰ میں رہنا ہوگا۔ ان ایام میں تکبیرات بھی پڑھنی ضروری ہیں، کنکریاں بعد نماز ظہر بھی ماری جاسکتی ہیں۔

رمی جمار کیا ہے؟ :
کنکریاں مارنا، صفا و مروہ کی سعی کرنا، یہ عمل ذکر اللہ کو قائم رکھنے کے لیے ہیں جیسا کہ ترمذی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے۔ کنکریاں مارنا شیطان کو رجم کرنا ہے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مناسک حج ادا کرچکے تو جمرہ عقبہ پر آپ کے سامنے شیطان آیا آپ علیہ السلام نے اس پر سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا۔ پھر جمرہ ثانیہ پر وہ آپ علیہ السلام کے سامنے آیاتو آپ نے وہاں بھی سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا، پھر جمرہ ثالثہ پر آپ کے سامنے آیا تو بھی آپ علیہ السلام نے سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا۔ یہ اسی واقعہ کی یادگار ہیں۔
کنکریاں مارنے سے مہلک ترین گناہوں میں سے ایک گناہ معاف ہوتا ہے نیز کنکریاں مارنے واے کے لیے قیامت کے روز وہ کنکریاں باعث روشنی ہوگی۔ جو کنکریاں باری تعالیٰ کے دربار میں درجہ قبولیت کو پہنچتی ہیں، وہ وہاں سے اٹھ جاتی ہیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو پہاڑوں کے ڈھیر لگ جاتے ( مشکوٰۃ، مجمع الزاوائد ) اب ہر سہ جمرات کی تفصیل علیحدہ علیحدہ لکھی جاتی ہے۔

جمرہ اولی :
یہ پہلا منارہ ہے جس کو پہلا شیطان کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد خیف کی طرف بازار میں ہے۔ گیارہ تاریخ کو اسی سے کنکریاں مارنی شروع کریں، کنکریاں مارتے وقت قبلہ شریف کو بائیں طرف اور منیٰ دائیں ہاتھ کرنا چاہئے۔ اللہ اکبر کہہ کر ایک ایک کنکری پیچھے بتلائے طریقے سے پھینکیں۔ جب ساتوں کنکریاں مار چکیں تو قبلہ کی طرف چند قدم بڑھ جائیں اور قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر تسبیح، تحمید اور تہلیل و تکبیر پکاریں اور خوب دعائیں مانگیں۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ اتنی دیر تک یہاں دعا مانگیں اور ذکر اذکار کریں جتنی دیر سورۃ بقرہ کی تلاوت میں لگتی ہے اتنا نہ ہو سکے تو جو کچھ ہو سکے اس کو غنیمت جانیں۔

جمرہ وسطی :
یہ درمیانی منارہ ہے جس طرح جمرہ اولی کو کنکریاں ماری تھیں اسی طرح اس کو بھی ماریں اور چند قدم بائیں طرف ہٹ کر نشیب میں قبلہ رو کھڑے ہو کر مثل سابق کے دعائیں مانگیں اور بقدر تلاوت سورۃ بقرہ کے حمد و ثنائے الٰہی میں مشغول رہیں۔ ( بخاری )

جمرہ عقبی :
یہ منارہ بیت اللہ کی جانب ہے اس کوبڑے شیطان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کو بھی اسی طرح کنکریاں ماریں۔ ہاں اس کو کنکریاں مار کر یہاں ٹھہرنا نہیں چاہئے اور نہ یہاں ذکر و اذکار اور دعائیں ہونی چاہئیں۔ ( بخاری )

یہ تیرہ ذی الحجہ کے زوال تک کا پروگرام ہے یعنی 13 کی زوال تک منی میں رہ کر روزانہ وقت مقررہ پر رمی جمار کرنا چاہئے۔ ہاں ضرورت مندوں مثلاً اونٹ چرانے والوں اور آب زمزم کے خادموں اور ضروری کام کاج کرنے والوں کے لیے اجازت ہے کہ گیارہ تاریخ ہی کو گیارہ کے ساتھ بارہ تاریخ کی بھی اکٹھی چودہ کنکریاں مار کر چلے جائیں، پھر تیرہ کو تیرہ کی کنکریاں مار کر منیٰ سے رخصت ہونا چاہئے، اگر کوئی بارہ ہی کو 13 کی بھی مار کر منیٰ سے رخصت ہو جائے تو درجہ جواز میں ہے مگر بہتر نہیں ہے۔ دوران قیام منیٰ میں نماز باجماعت مسجد خیف میں ادا کرنی چاہئے۔ یہاں نماز جمع نہیں کرسکتے ہاں قصر کرسکتے ہیں۔
جمروں کے پاس والی مسجد کی داخلی اور ان کا طواف کرنا بدعت ہے، منیٰ سے تیرہویں تاریخ کو زوال کے بعد تینوں شیطانوں کو کنکریاں مار کر مکہ شریف کو واپسی ہے، کنکریاں مارتے ہوئے سیدھے وادی محصب کو چلے جائیں یہ مکہ شریف کے قریب ایک گھاٹی ہے جو ایک سنگریزہ زمین ہے حصیب البطح اور بطحاءاور خیف بنی کنانہ بھی اسی کے نام ہیں، یہاں اتر کر نماز ظہر، عصر، مغرب اور عشاءادا کریں اور سو رہیں۔ صبح سویرے مکہ شریف میں14کی فجر کے بعد داخل ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا اگر کوئی اس وادی میں نہ ٹھہرے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے، مگر سنت سے محرومی رہے گی یہاں ٹھہرنا ارکان حج میں سے نہیں ہے لیکن ہماری کوشش ہمیشہ یہ ہونی چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے سنت ترک نہ ہو، جیسا کہ ایک شاعر سنت فرماتے ہیں :
مسلک سنت پہ اسے سالک چلا جا بے دھڑک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : رمی جمار کے بعد خوشبو لگانا اور طواف الزیارۃ سے پہلے سر منڈانا

امام بخاری نے باب کی حدیث سے یہ مضمون اس طرح پر نکالا کہ دوسری روایت سے یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مزدلفہ سے لوٹے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے ساتھ نہ تھیں اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کی رمی تک سوار رہے۔ پس لامحالہ انہوں نے رمی کے بعد آپ کے خوشبو لگائی ہوگی۔ جمہور علماءکا یہی قول ہے کہ رمی اور حلق کے بعد خوشبو وغیرہ اور سلے ہوئے کپڑے درست ہو جاتے ہیں صرف عورتوں سے صحبت کرنا درست نہیں ہوتا، طواف الزیارۃ کے بعد وہ بھی درست ہوجاتا ہے۔ بیہقی نے یہ مضمون مرفوعاً روایت کیا ہے گو وہ حدیث ضعیف ہے اور نسائی کی حدیث یوں ہے اذا رمیتم الجمرۃ فقد حل لکم الا النساء یعنی جب تم جمرہ عقبہ کی رمی سے فارغ ہو گئے تو اب عورتوں کے سوا ہر چیز تمہارے لیے حلال ہوگئی۔

حدیث نمبر : 1754
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، حدثنا عبد الرحمن بن القاسم، أنه سمع أباه ـ وكان أفضل أهل زمانه ـ يقول سمعت عائشة ـ رضى الله عنها ـ تقول طيبت رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدى هاتين حين أحرم، ولحله حين أحل، قبل أن يطوف‏.‏ وبسطت يديها‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن قاسم نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، جب آپ نے احرام باندھنا چاہا، خوشبو لگائی تھی اس طرح کھولتے وقت بھی جب آپ نے طواف الزیارۃ سے پہلے احرام کھولنا چاہا تھا (آپ نے ہاتھ پھیلا کر خوشبو لگانے کی کیفیت بتائی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : طواف وداع کا بیان

اس کو طواف الصدر بھی کہتے ہیں اکثر علماءکے نزدیک یہ طواف واجب ہے اور امام مالک وغیرہ اس کو سنت کہتے ہیں، مگر صحیح حدیث سے یہ ثابت ہے کہ حیض نفاس کے عذر سے اس کا ترک کردینا اور وطن کو چلے جانا جائز ہے۔

حدیث نمبر : 1755
حدثنا مسدد، حدثنا سفيان، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال أمر الناس أن يكون آخر عهدهم بالبيت، إلا أنه خفف عن الحائض‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ لوگوں کو اس کا حکم تھا کہ ان کا آخری وقت بیت اللہ کے ساتھ ہو (یعنی طواف وداع کریں ) البتہ حائضہ سے یہ معاف ہو گیا تھا۔

تشریح : کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا فتوی حائضہ اور نفساءعورتوں کے متعلق پہلے یہ تھا کہ وہ حیض اور نفاس کا خون بند ہونے کا انتظار کریں اور پاک ہونے پر طواف وداع کرکے رخصت ہوں، مگر جب ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث معلوم ہوئی تو انہوں نے اپنے اس مسلک سے رجوع کر لیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عام دستور العمل یہی تو تھا کہ وہ حدیث صحیح کے سامنے اپنے خیالات کو چھوڑ دیا کرتے تھے اور اپنے مسلک سے رجوع کر لیا کرتے تھے، نہ جیسا کہ بعد کے مقلدین جامدین کا دستور بن گیا ہے کہ حدیث صحیح جو ان کے مزعومہ مسلک کے خلاف ہو اسے بڑے بے باکی کے ساتھ رد کردیتے ہیں اوراپنے مزعومہ امام کے قول کو ہرحال میں ترجیح دیتے ہیں۔ آیت کریمہ اتخذوا احبارہم و رہبانہم اربابا من دون اللہ ( التوبہ31 ) کے مصداق درحقیقت یہی لوگ ہیں جن کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث مرحوم نے فرمایا کہ احادیث صحیحہ کو رد کرکے اپنے امام کے قول کو ترجیح دینے والے اس دن کیا جواب دیں گے جس دن دربار الٰہی میں پیشی ہوگی۔ ( حجۃ اللہ البالغہ )

حدیث نمبر : 1756
حدثنا أصبغ بن الفرج، أخبرنا ابن وهب، عن عمرو بن الحارث، عن قتادة، أن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى الظهر والعصر، والمغرب والعشاء، ثم رقد رقدة بالمحصب، ثم ركب إلى البيت فطاف به‏. تابعه الليث: حدثني خالد، عن سعيد، عن قتادة: أن أنس بن مالك رضي الله عنه حدثه: عن النبي صلى الله عليه وسلم.‏
ہم سے اصبغ بن فرج نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن وہب نے خبر دی، انہیں عمرو بن حارث نے، انہیں قتادہ نے اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر، عصر، مغرب اور عشاءپڑھی، پھر تھوڑی دیر محصب میں سو رہے، اس کے بعد سوار ہو کر بیت اللہ تشریف لے گئے اور وہاں طواف زیارۃ عمرو بن حارث کے ساتھ کیا، اس روایت کی متابعت لیث نے کی ہے، ان سے خالد نے بیان کیا، ان سے سعید نے، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اگر طواف افاضہ کے بعد عورت حائضہ ہو جائے؟

حدیث نمبر : 1757
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن صفية بنت حيى، زوج النبي صلى الله عليه وسلم حاضت، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏أحابستنا هي‏"‏‏. ‏ قالوا إنها قد أفاضت‏.‏ قال ‏"‏فلا إذا‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالرحمن بن قاسم نے، انہیں ان کے والد نے او رانہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا (حجۃ الوداع کے موقع پر ) حائضہ ہو گئیں تو میں نے اس کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر تو یہ ہمیں روکیں گیں، لوگوں نے کہا کہ انہوں نے طواف افاضہ کر لیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کوئی فکر نہیں۔

تشریح : یہاں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ ایک روایت میں پہلے گزر چکا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے صحبت کرنی چاہی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ وہ حائضہ ہیں پس اگر آپ کو یہ معلوم نہ تھا کہ وہ طواف الزیارۃ کرچکی ہیں، جیسے اس روایت سے نکلتا ہے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے صحبت کرنے کا ارادہ کیوں کر کیا اور اس کا جواب یہ ہے کہ صحبت کا قصد کرتے وقت یہ سمجھے ہوں گے کہ اور بیویوں کے ساتھ وہ بھی طواف الزیارۃ کرچکی ہیں کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب بیویوں کو طواف کا اذن دیا تھا اور چلتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا خیال نہ رہا یا آپ کو یہ خیال آیا کہ شاید طواف الزیارۃ سے پہلے ان کو حیض آیا تھا تو انہوں نے طواف الزیارہ بھی نہیں کیا۔ ( وحیدی ) بہرحال اس صورت میں ہر دو احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے، احادیث صحیحہ مختلفہ میں بایں صورت تطبیق دنیا ہی مناسب ہے نہ کہ ان کو رد کرنے کی کوشش کرنا جیسا کہ آج کل منکرین احادیث دستو رسے اپنی ناقص عقل کے تحت احادیث کو پرکھنا چاہتے ہیں، ان کی عقلوں پر خدا کی مار ہو کہ یہ کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گہرائیوں کوسمجھنے سے اپنے کوقاصر پاکر ضلالت و غوایت کا یہ خطرناک راستہ اختیار کرتے ہیں۔ اس شک و شبہ کے لیے ایک ذرہ برابر بھی گنجائش نہیں ہے کہ احادیث صحیحہ کا انکار کرنا، قرآن مجید کا انکار کرنا ہے، بلکہ اسلام اور اس جامع شریعت کا انکار کرنا ہے، اس حقیقت کے بعد منکرین حدیث کو اگر دائرہ اسلام اور ز مرہ اہل ایمان سے قطعاً خارج قرار دیا جائے تو یہ فیصلہ عین حق بجانب ہے۔ واللہ علی مانقول وکیل۔

حدیث نمبر : 1758-1759
حدثنا أبو النعمان، حدثنا حماد، عن أيوب، عن عكرمة، أن أهل المدينة، سألوا ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ عن امرأة، طافت ثم حاضت، قال لهم تنفر‏.‏ قالوا لا نأخذ بقولك وندع قول زيد‏.‏ قال إذا قدمتم المدينة فسلوا‏.‏ فقدموا المدينة فسألوا، فكان فيمن سألوا أم سليم، فذكرت حديث صفية‏.‏ رواه خالد وقتادة عن عكرمة‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے عکرمہ نے کہ مدینہ کے لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک عورت کے متعلق پوچھا کہ جو طواف کرنے کے بعد حائضہ ہو گئی تھیں، آپ نے انہیں بتایا کہ (انہیں ٹھہرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ) چلی جائیں۔ لیکن پوچھنے والوں نے کہا ہم ایسا نہیں کریں گے کہ آپ کی بات پر عمل تو کریں اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہم کی بات چھوڑ دیں، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ جب تم مدینہ پہنچ جاؤ تو یہ مسئلہ وہاں (اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم سے ) پوچھنا۔ چنانچہ جب یہ لوگ مدینہ آئے تو پوچھا، جن اکابر سے پوچھا گیا تھا ان میں ام سلیمرضی اللہ عنہا بھی تھیں اور انہوں نے (ان کے جواب میں وہی ) صفیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی۔ اس حدیث کو خالد اور قتادہ نے بھی عکرمہ سے روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 1760
حدثنا مسلم، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال رخص للحائض أن تنفر إذا أفاضت‏.‏
ہم سے مسلم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہیب نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن طاؤس نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عورت کو اس کی اجازت ہے کہ اگر وہ طواف افاضہ (طواف زیارت ) کرچکی ہو اور پھر (طواف وداع سے پہلے ) حیض آجائے تو (اپنے گھر ) واپس چلی جائے۔

حدیث نمبر : 1761
قال وسمعت ابن عمر، يقول إنها لا تنفر‏.‏ ثم سمعته يقول بعد إن النبي صلى الله عليه وسلم رخص لهن‏.‏
کہا میں نے ابن عمر کو کہتے سنا کہ اس عورت کے لیے واپسی نہیں۔ اس کے بعد میں نے ان سے سنا آپ فرماتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اس کی اجازت دی ہے۔

ایسی معذور عورتوں کے لیے طواف وداع معاف ہے، اور وہ اس کے بغیر اپنے وطن لوٹ سکتی ہیں۔

حدیث نمبر : 1762
حدثنا أبو النعمان، حدثنا أبو عوانة، عن منصور، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ولا نرى إلا الحج، فقدم النبي صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت وبين الصفا والمروة، ولم يحل وكان معه الهدى، فطاف من كان معه من نسائه وأصحابه، وحل منهم من لم يكن معه الهدى، فحاضت هي، فنسكنا مناسكنا من حجنا، فلما كان ليلة الحصبة ليلة النفر، قالت يا رسول الله كل أصحابك يرجع بحج وعمرة غيري‏.‏ قال ‏"‏ما كنت تطوفي بالبيت ليالي قدمنا‏"‏‏. ‏ قلت لا‏.‏ قال ‏"‏فاخرجي مع أخيك إلى التنعيم فأهلي بعمرة، وموعدك مكان كذا وكذا‏"‏‏. ‏ فخرجت مع عبد الرحمن إلى التنعيم، فأهللت بعمرة، وحاضت صفية بنت حيى، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏عقرى حلقى، إنك لحابستنا، أما كنت طفت يوم النحر‏"‏‏. ‏ قالت بلى‏.‏ قال ‏"‏فلا بأس‏.‏ انفري‏"‏‏. ‏ فلقيته مصعدا على أهل مكة، وأنا منهبطة، أو أنا مصعدة، وهو منهبط‏.‏ وقال مسدد قلت لا‏.‏ تابعه جرير عن منصور في قوله لا‏.‏
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان سے اسود نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، ہماری نیت حج کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ ) پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا کیوں کہ آپ کے ساتھ قربانی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے اور دیگر اصحاب نے بھی طواف کیا اور جن کے ساتھ قربانی نہیں تھیں انہوں نے (اس طواف و سعی کے بعد ) احرام کھول دیا لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہو گئی تھیں، سب نے اپنے حج کے تمام مناسک ادا کر لیئے تھے، پھر جب لیلۃ حصبہ یعنی روانگی کی رات آئی تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام ساتھی حج اور عمرہ دونوں کرکے جارہے ہیں صرف میں عمرہ سے محروم ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے اچھا جب ہم آئے تھے تو تم (حیض کی وجہ سے ) بیت اللہ کا طوا ف نہیں کرسکی تھیں؟ میں نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم چلی جا اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ (اور عمرہ کر ) ہم تمہارا فلاں جگہ انتظار کریں گے، چنانچہ میں اپنے بھائی (عبدالرحمن رضی اللہ عنہ ) کے ساتھ تنعیم گئی اور وہاں سے احرام باندھا۔ اسی طرح صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا بھی حائضہ ہو گئی تھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں (ازراہ محبت ) فرمایا عقری حلقی، تو تو ہمیں روک لے گی، کیا تو نے قربانی کے دن طواف زیارت نہیں کیا تھا؟ وہ بولیں کہ کیا تھا، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کوئی حرج نہیں، چلی چلو۔ میں جب آپ تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے بالائی علاقہ پر چڑھ رہے تھے اور میں اتر رہی تھی یا یہ کہا کہ میں چڑھ رہی تھی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم اتر رہے تھے۔ مسدد کی روایت میں (رسول اللہ صلی علیہ وسلم کے کہنے پر ) ہاں کے بجائے نہیں ہے، اس کی متابعت جریر نے منصور کے واسطہ سے ” نہیں “ کے ذکر میں کی ہے۔

عقریٰ کے لفظی ترجمہ بانجھ اور حلقی کا ترجمہ سر منڈی ہے، یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت میں استعمال فرمائے، معلوم ہوا کہ ایسے مواقع پر ایسے لفظوں میں خطاب کرنا جائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس سے متعلق جس نے روانگی کے دن عصر کی نماز ابطح میں پڑھی

حدیث نمبر : 1763
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا إسحاق بن يوسف، حدثنا سفيان الثوري، عن عبد العزيز بن رفيع، قال سألت أنس بن مالك أخبرني بشىء، عقلته عن النبي صلى الله عليه وسلم أين صلى الظهر يوم التروية قال بمنى‏.‏ قلت فأين صلى العصر يوم النفر قال بالأبطح‏.‏ افعل كما يفعل أمراؤك‏.‏
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحق بن یوسف نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن رفیع نے بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا، مجھے وہ حدیث بتائے جو آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد ہو کہ انہوں نے آٹھویں ذی الحجہ کے دن ظہر کی نماز کہاں پڑھی تھی، انہوں نے کہا منیٰ میں، میں نے پوچھا اور روانگی کے دن عصر کہاں پڑھی تھی انہوں نے فرمایا کہ ابطح میں اور تم اسی طرح کرو جس طرح تمہارے حاکم لوگ کرتے ہوں۔ (تاکہ فتنہ واقع نہ ہو )

حدیث نمبر : 1764
حدثنا عبد المتعال بن طالب، حدثنا ابن وهب، قال أخبرني عمرو بن الحارث، أن قتادة، حدثه عن أنس بن مالك ـ رضى الله عنه ـ حدثه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه صلى الظهر والعصر، والمغرب والعشاء، ورقد رقدة بالمحصب، ثم ركب إلى البيت فطاف به‏.‏
ہم سے عبدالمتعال بن طالب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے عمرو بن حارث نے خبر دی، ان سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ظہر، عصر، مغرب، عشاءنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی اور تھوڑی دیر کے لیے محصب میں سو رہے، پھر بیت اللہ کی طرف سوار ہو کر گئے اور طواف کیا۔ (یہاں طواف الزیارۃ مرا دہے )

کسی نے کیا خوب کہا ہے :

امر علی الدیار دیار لیلیٰ
و ما حب الدیار شغفن قلبی
اقبل ذا جدار و ذا الحدارا
و لکن حب من سکن الدیارا
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : وادی محصب کا بیان

محصب ایک کھلا میدان مکہ اور منیٰ کے درمیان واقع ہے اس کو ابطح اور بطحا اور خیف بنی کنانہ بھی کہتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1765
حدثنا أبو نعيم، حدثنا سفيان، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت إنما كان منزل ينزله النبي صلى الله عليه وسلم ليكون أسمح لخروجه‏.‏ يعني بالأبطح‏.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ سے کوچ کرکے یہاں محصب میں اس لیے اترے تھے تاکہ آسانی کے ساتھ مدینہ کو نکل سکیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ابطح میں اترنے سے تھی۔

حدیث نمبر : 1766
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو عن عطاء، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ ليس التحصيب بشىء، إنما هو منزل نزله رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ محصب میں اترنا حج کی کوئی عبادت نہیں ہے، یہ تو صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کی جگہ تھی۔

محصب میں ٹھہرنا کوئی حج کا رکن نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں آرام کے لیے اس خیال سے کہ مدینہ کی روانگی وہاں سے آسان ہوگی ٹھہر گئے تھے، چنانچہ عصرین و مغربین آپ نے وہیں ادا کیں، اس پر بھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ٹھہرے تو یہ ٹھہرنا مستحب ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی وہاں ٹھہرا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ذی طویٰ میں قیام کرنا اور مکہ سے واپسی میں ذی الحلیفہ کے کنکریلے میدان میں قیام کرنا

حدیث نمبر : 1767
حدثنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا أبو ضمرة، حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ كان يبيت بذي طوى بين الثنيتين، ثم يدخل من الثنية التي بأعلى مكة، وكان إذا قدم مكة حاجا أو معتمرا لم ينخ ناقته إلا عند باب المسجد، ثم يدخل فيأتي الركن الأسود فيبدأ به، ثم يطوف سبعا ثلاثا سعيا، وأربعا مشيا، ثم ينصرف فيصلي سجدتين، ثم ينطلق قبل أن يرجع إلى منزله، فيطوف بين الصفا والمروة، وكان إذا صدر عن الحج أو العمرة أناخ بالبطحاء التي بذي الحليفة التي كان النبي صلى الله عليه وسلم ينيخ بها‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوضمرہ انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ جاتے وقت ذی طویٰ کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان رات گزارتے تھے اور پھر اس پہاڑی سے ہو کر گزرتے جو مکہ کے اوپر کی طرف ہے اورجب مکہ میں حج یا عمرہ کا احرام باندھنے آتے تو اپنی اونٹنی مسجد کے دروازہ پر لاکر بٹھاتے پھر حجر اسود کے پاس آتے اور یہیں سے طواف شروع کرتے، طواف سات چکروں میں ختم ہوتا جس کے شروع میں رمل کرتے اور چار میں معمول کے مطابق چلتے، طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے پھر ڈیرہ پر واپس ہونے سے پہلے صفا اور مروہ کی دوڑ کرتے۔ جب حج یا عمرہ کرکے مدینہ واپس ہوتے تو ذو الحلیفہ کے میدان میں سواری بٹھاتے، جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی (مکہ سے مدینہ واپس ہوتے ہوئے ) اپنی سواری بٹھایا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 1768
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، حدثنا خالد بن الحارث، قال سئل عبيد الله عن المحصب، فحدثنا عبيد الله، عن نافع،، قال نزل بها رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمر وابن عمر‏.‏ وعن نافع أن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ كان يصلي بها ـ يعني المحصب ـ الظهر والعصر ـ أحسبه قال والمغرب‏.‏ قال خالد لا أشك في العشاء، ويهجع هجعة، ويذكر ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبید اللہ سے محصب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے نافع سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عمر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم نے محصب میں قیام فرمایا تھا۔ نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما محصب میں ظہر اور عصر پڑھتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے مغرب (پڑھنے کا بھی ) ذکر کیا، خالد نے بیان کیا کہ عشاءمیں مجھے کوئی شک نہیں۔ اس کے پڑھنے کا ذکر ضرور کیا پھر تھوڑی دیر کے لیے وہاں سو رہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ایسا ہی مذکور ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : اس سے متعلق جس نے مکہ سے واپس ہوتے ہوئے ذی طویٰ میں قیام کیا

حدیث نمبر : 1769
وقال محمد بن عيسى حدثنا حماد، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أنه كان إذا أقبل بات بذي طوى، حتى إذا أصبح دخل، وإذا نفر مر بذي طوى وبات بها حتى يصبح، وكان يذكر أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يفعل ذلك‏.‏
اور محمد بن عیسیٰ نے کہا کہ ہم سے حماد بن سلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے نافع نے بیان کیا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب مدینہ سے مکہ آتے تو ذی طویٰ میں رات گزارتے اور جب صبح صادق ہوتی تو مکہ میں داخل ہوتے۔ اسی طرح مکہ سے واپسی میں بھی ذی طویٰ سے گزرتے اور وہیں رات گزارتے اور فرماتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی طرح کرتے تھے۔

آج کل یہ مقام شہری آبادی میں آگیا ہے۔ الحمد للہ 52ءکے سفر حج میں یہاں غسل کرنے کا موقع ملا تھا۔ والحمد للہ علی ذلک۔
 
Top