صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : دونوں جمروں کے پاس دعا کرنے کے بیان میں (دنوں جمروں سے جمرہ اولی اور جمرہ وسطی مراد لیے )
حدیث نمبر : 1753
وقال محمد حدثنا عثمان بن عمر، أخبرنا يونس، عن الزهري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا رمى الجمرة التي تلي مسجد منى يرميها بسبع حصيات، يكبر كلما رمى بحصاة، ثم تقدم أمامها فوقف مستقبل القبلة رافعا يديه يدعو، وكان يطيل الوقوف، ثم يأتي الجمرة الثانية، فيرميها بسبع حصيات، يكبر كلما رمى بحصاة، ثم ينحدر ذات اليسار مما يلي الوادي، فيقف مستقبل القبلة رافعا يديه يدعو، ثم يأتي الجمرة التي عند العقبة فيرميها بسبع حصيات، يكبر عند كل حصاة، ثم ينصرف ولا يقف عندها. قال الزهري سمعت سالم بن عبد الله يحدث مثل هذا عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم وكان ابن عمر يفعله.
اور محمد بن بشار نے کہا کہ ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی اور انہیں زہری نے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اس جمرہ کی رمی کرتے جو منی کی مسجد کے نزدیک ہے تو سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے، پھر آگے بڑھتے اور قبلہ رخ کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر دعائیں کرتے تھے، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت دیر تک کھڑے رہتے تھے پھر جمرہ ثانیہ (وسطی ) کے پاس آتے یہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے، پھر بائیں طرف نالے کے قریب اتر جاتے اور وہاں بھی قبلہ رخ کھڑے ہوتے اور ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرتے رہتے، پھر جمرہ عقبہ کے پاس آتے او ریہاں بھی سات کنکریوں سے رمی کرتے اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہتے، اس کے بعد واپس ہوجاتے یہاں آپ دعا کے لیے ٹھہرتے نہیں تھے۔ زہری نے کہا کہ میں نے سالم سے سنا وہ بھی اسی طرح اپنے والد (ابن عمر رضی اللہ عنہما ) سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے تھے او ریہ کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خود بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔
تشریح : حافظ صاحب فرماتے ہیں :
و فی الحدیث مشروعیۃ التکبیر عند رمی کل حصاۃ و قد اجمعوا علی ان من ترکہ لا یلزمہ شی الا الثوری فقال یطعم و ان جبرہ بدم احب الی و علی الرمی بسبع و قد تقدم ما فیہ و علی استقبال القبلۃ بعد الرمی و القیام طویلا و قد وقع تفسیرہ فیما رواہ ابن ابی شیبۃ باسناد صحیح عن عطاءکان ابن عمر یقوم عند الجمرتین مقدار ما یقرا سورۃ البقرۃ و فیہ التباعد من موضع الرمی عند القیام للدعاءحتی لا یصیب رمی غیرہ و فیہ مشروعیۃ رفع الیدین فی الدعاءو ترک الدعاءو القیام عند جمرۃ العقبۃ ( فتح الباری )
یعنی اس حدیث میں ہر کنکری کو مارتے وقت تکبیر کہنے کی مشروعیت کا ذکر ہے اور اس پر اجماع ہے کہ اگر کسی نے اسے ترک کردیا تو اس پر کچھ لازم نہیں آئے گا مگر ثوری کہتے ہیں کہ وہ مسکینوں کو کھانا کھلائے گا اور اگر دم دے تو زیادہ بہتر ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سات کنکریوں سے رمی کرنا مشروع ہے اور وہ بھی ثابت ہوا کہ رمی کے بعد قبلہ رخ ہو کر کافی دیر تک کھڑے کھڑے دعا مانگنا بھی مشروع ہے۔ یہاں تک کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جمرتین کے نزدیک اتنی دیر تک قیام فرماتے جتنی دیر میں سورۃ بقرہ ختم کی جاتی ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مقام رمی سے ذرا دور ہو کر دعا کے لیے قیام کرنا مشروع ہے تاکہ کسی کی کنکری اس کو نہ لگ سکے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس وقت دعاؤں میں ہاتھ اٹھانا بھی مشروع ہے اور یہ بھی کہ جمرہ عقبہ کے پاس نہ تو قیام کرنا ہے نہ دعا کرنا، وہاں سے کنکریاں مارتے ہی واپس ہو جانا چاہئے۔
مزید ہدایات :
گیارہ ذی الحجہ تک یہ تاریخیں ایام تشریق کہلاتی ہیں، طواف افاضہ جو دس کو کیاجاتا ہے اس کے بعد کی تاریخوں میں منیٰ کے میدان میں مستقل پڑاؤ رکھنا چاہئے۔ یہ دن کھانے پینے کے ہیں، ان میں روزہ رکھنا بھی منع ہے۔ ان دنوں میں ہر روز زوال کے بعد ظہر کی نماز سے پہلے تینوں شیطانوں کو کنکریاں مارنی ہوں گی جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں
قالت افاض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من آخر یومہ حین صلی الظہر ثم رجع الی منیٰ فمکث بہا لیالی ایام التشریق برمی الجمرۃ اذا زالت الشمس کل جمرۃ بسبع حصیات یکبر مع کل حصاۃ و یقف عند الاولی و الثانیۃ فیطیل القیام و یتفرع و یرمی الثالۃ فلا یقف عندہا ( رواہ ابوداود ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز تک طواف افاضہ سے فارغ ہو گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منی واپس تشریف لے گئے اور ایام تشریق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں ہی شب کو قیام فرمایا۔ زوال شمس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ رمی جمار کرتے ہر جمرہ پر سات سات کنکریاں مارتے اور ہر کنکری پر نعرہ تکبیر بلند کرتے۔ جمرہ اولی جمرہ ثانیہ کے پاس بہت دیر تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیام فرماتے اور باری تعالیٰ کے سامنے گریہ و زاری فرماتے۔ جمرہ ثالثہ پر کنکری مارتے وقت یہاں قیام نہیں فرماتے تھے۔ پس تیرہ ذی الحجہ کے وقت زوال تک منیٰ میں رہنا ہوگا۔ ان ایام میں تکبیرات بھی پڑھنی ضروری ہیں، کنکریاں بعد نماز ظہر بھی ماری جاسکتی ہیں۔
رمی جمار کیا ہے؟ :
کنکریاں مارنا، صفا و مروہ کی سعی کرنا، یہ عمل ذکر اللہ کو قائم رکھنے کے لیے ہیں جیسا کہ ترمذی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مرفوعاً مروی ہے۔ کنکریاں مارنا شیطان کو رجم کرنا ہے، یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی پیروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب مناسک حج ادا کرچکے تو جمرہ عقبہ پر آپ کے سامنے شیطان آیا آپ علیہ السلام نے اس پر سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا۔ پھر جمرہ ثانیہ پر وہ آپ علیہ السلام کے سامنے آیاتو آپ نے وہاں بھی سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا، پھر جمرہ ثالثہ پر آپ کے سامنے آیا تو بھی آپ علیہ السلام نے سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنسنے لگا۔ یہ اسی واقعہ کی یادگار ہیں۔
کنکریاں مارنے سے مہلک ترین گناہوں میں سے ایک گناہ معاف ہوتا ہے نیز کنکریاں مارنے واے کے لیے قیامت کے روز وہ کنکریاں باعث روشنی ہوگی۔ جو کنکریاں باری تعالیٰ کے دربار میں درجہ قبولیت کو پہنچتی ہیں، وہ وہاں سے اٹھ جاتی ہیں اگر یہ بات نہ ہوتی تو پہاڑوں کے ڈھیر لگ جاتے ( مشکوٰۃ، مجمع الزاوائد ) اب ہر سہ جمرات کی تفصیل علیحدہ علیحدہ لکھی جاتی ہے۔
جمرہ اولی :
یہ پہلا منارہ ہے جس کو پہلا شیطان کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد خیف کی طرف بازار میں ہے۔ گیارہ تاریخ کو اسی سے کنکریاں مارنی شروع کریں، کنکریاں مارتے وقت قبلہ شریف کو بائیں طرف اور منیٰ دائیں ہاتھ کرنا چاہئے۔ اللہ اکبر کہہ کر ایک ایک کنکری پیچھے بتلائے طریقے سے پھینکیں۔ جب ساتوں کنکریاں مار چکیں تو قبلہ کی طرف چند قدم بڑھ جائیں اور قبلہ رخ ہو کر دونوں ہاتھ اٹھا کر تسبیح، تحمید اور تہلیل و تکبیر پکاریں اور خوب دعائیں مانگیں۔ سنت طریقہ یہ ہے کہ اتنی دیر تک یہاں دعا مانگیں اور ذکر اذکار کریں جتنی دیر سورۃ بقرہ کی تلاوت میں لگتی ہے اتنا نہ ہو سکے تو جو کچھ ہو سکے اس کو غنیمت جانیں۔
جمرہ وسطی :
یہ درمیانی منارہ ہے جس طرح جمرہ اولی کو کنکریاں ماری تھیں اسی طرح اس کو بھی ماریں اور چند قدم بائیں طرف ہٹ کر نشیب میں قبلہ رو کھڑے ہو کر مثل سابق کے دعائیں مانگیں اور بقدر تلاوت سورۃ بقرہ کے حمد و ثنائے الٰہی میں مشغول رہیں۔ ( بخاری )
جمرہ عقبی :
یہ منارہ بیت اللہ کی جانب ہے اس کوبڑے شیطان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کو بھی اسی طرح کنکریاں ماریں۔ ہاں اس کو کنکریاں مار کر یہاں ٹھہرنا نہیں چاہئے اور نہ یہاں ذکر و اذکار اور دعائیں ہونی چاہئیں۔ ( بخاری )
یہ تیرہ ذی الحجہ کے زوال تک کا پروگرام ہے یعنی 13 کی زوال تک منی میں رہ کر روزانہ وقت مقررہ پر رمی جمار کرنا چاہئے۔ ہاں ضرورت مندوں مثلاً اونٹ چرانے والوں اور آب زمزم کے خادموں اور ضروری کام کاج کرنے والوں کے لیے اجازت ہے کہ گیارہ تاریخ ہی کو گیارہ کے ساتھ بارہ تاریخ کی بھی اکٹھی چودہ کنکریاں مار کر چلے جائیں، پھر تیرہ کو تیرہ کی کنکریاں مار کر منیٰ سے رخصت ہونا چاہئے، اگر کوئی بارہ ہی کو 13 کی بھی مار کر منیٰ سے رخصت ہو جائے تو درجہ جواز میں ہے مگر بہتر نہیں ہے۔ دوران قیام منیٰ میں نماز باجماعت مسجد خیف میں ادا کرنی چاہئے۔ یہاں نماز جمع نہیں کرسکتے ہاں قصر کرسکتے ہیں۔
جمروں کے پاس والی مسجد کی داخلی اور ان کا طواف کرنا بدعت ہے، منیٰ سے تیرہویں تاریخ کو زوال کے بعد تینوں شیطانوں کو کنکریاں مار کر مکہ شریف کو واپسی ہے، کنکریاں مارتے ہوئے سیدھے وادی محصب کو چلے جائیں یہ مکہ شریف کے قریب ایک گھاٹی ہے جو ایک سنگریزہ زمین ہے حصیب البطح اور بطحاءاور خیف بنی کنانہ بھی اسی کے نام ہیں، یہاں اتر کر نماز ظہر، عصر، مغرب اور عشاءادا کریں اور سو رہیں۔ صبح سویرے مکہ شریف میں14کی فجر کے بعد داخل ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا تھا اگر کوئی اس وادی میں نہ ٹھہرے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے، مگر سنت سے محرومی رہے گی یہاں ٹھہرنا ارکان حج میں سے نہیں ہے لیکن ہماری کوشش ہمیشہ یہ ہونی چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے سنت ترک نہ ہو، جیسا کہ ایک شاعر سنت فرماتے ہیں :
مسلک سنت پہ اسے سالک چلا جا بے دھڑک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک