• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : زمانہ حج میں تجارت کرنا اور جاہلیت کے بازاروں میں خرید و فروخت کا بیان

حدیث نمبر : 1770
حدثنا عثمان بن الهيثم، أخبرنا ابن جريج، قال عمرو بن دينار قال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ كان ذو المجاز وعكاظ متجر الناس في الجاهلية، فلما جاء الإسلام كأنهم كرهوا ذلك حتى نزلت ‏{‏ليس عليكم جناح أن تبتغوا فضلا من ربكم‏}‏ في مواسم الحج‏.‏
ہم سے عثمان بن ہیثم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا او ران سے حضرت عبدللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ذو المجاز اور عکاظ عہد جاہلیت کے بازار تھے جب اسلام آیا تو گویا لوگوں نے (جاہلیت کے ان بازاروںمیں ) خرید و فروخت کو برا خیال کیا اس پر (سورہ بقرۃ کی ) یہ آیت نازل ہوئی ” تمہارے لیے کوئی حرج نہیں اگر تم اپنے رب کے فضل کی تلاش کرو، یہ حج کے زمانہ کے یے تھا۔

جاہلیت کے زمانہ میں چار منڈیاں مشہور تھیں عکاظ، ذو المجاز، مجنہ اور حباشہ، اسلام کے بعد بس حج کے دنوں میں ان منڈیوں میں خرید و فروخت اور تجارت جائز رہی۔ اللہ نے خود قرآن شریف میں اس کا جواز اتارا ہے کہ تجارت کے ذریعہ نفع حاصل کرنے کو اپنا فضل قرار دیا۔ جیسا کہ آیت مذکورہ سے واضح ہے۔ تجارت کرنا اسلاف کا بہترین شغل تھا۔ جس کے ذریعہ وہ اطراف عالم میں پہنچے، مگر افسوس کہ اب مسلمانوں نے اس سے توجہ ہٹالی جس کا نتیجہ افلاس و ذلت کی شکل میں ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب الحج
باب : (آرام کرلینے کے بعد ) وادی محصب سے آخری رات میں چل دینا

حدیث نمبر : 1771
حدثنا عمر بن حفص، حدثنا أبي، حدثنا الأعمش، حدثني إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت حاضت صفية ليلة النفر، فقالت ما أراني إلا حابستكم‏.‏ قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏عقرى حلقى أطافت يوم النحر‏"‏‏. ‏ قيل نعم‏.‏ قال ‏"‏فانفري‏"‏‏. ‏
ہم سے عمرو بن حفص نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے بیان کیا، ان سے اسود نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مکہ سے روانگی کی رات صفیہ رضی اللہ عنہا حائضہ تھیں، انہوں نے کہا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے میں ان لوگوں کے روکنے کا باعث بن جاؤں گی، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاعقری حلقی کیا تو نے قربانی کے دن طواف الزیارۃ کیا تھا؟ اس نے کہا کہ جی ہاں کر لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر چلو۔

حدیث نمبر : 1772
قال أبو عبد الله وزادني محمد حدثنا محاضر، حدثنا الأعمش، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نذكر إلا الحج، فلما قدمنا أمرنا أن نحل، فلما كانت ليلة النفر حاضت صفية بنت حيى، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏حلقى عقرى، ما أراها إلا حابستكم‏"‏‏. ‏ ثم قال ‏"‏كنت طفت يوم النحر‏"‏‏. ‏ قالت نعم‏.‏ قال ‏"‏فانفري‏"‏‏. ‏ قلت يا رسول الله‏.‏ إني لم أكن حللت‏.‏ قال ‏"‏فاعتمري من التنعيم‏"‏‏. ‏ فخرج معها أخوها، فلقيناه مدلجا‏.‏ فقال ‏"‏موعدك مكان كذا وكذا‏"‏‏. ‏
ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا، محمد بن سلام نے (اپنی روایت میں ) یہ زیادتی کی ہے کہ ہم سے محاضر نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابراہیم نخعی نے، ان نے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (حجۃ الوادع ) میں مدینہ سے نکلے تو ہماری زبانوں پر صر ف حج کا ذکر تھا۔ جب ہم مکہ پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھول دینے کا حکم دیا (افعال عمرہ کے بعد جن کے ساتھ قربانی نہیں تھی ) روانگی کی رات صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا حائضہ ہو گئیں، آنحضرت صلی اللہ علی وسلم نے اس پر فرمایا عقری، حلقی ایسا معلوم ہوتا کہ تم ہمیں روکنے کا باعث بنو گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا قربانی کے دن تم نے طواف الزیارۃ کر لیا تھا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر چلی چلو ! (عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے متعلق کہا کہ ) میں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے احرام نہیں کھولا ہے آپ نے فرمایا کہ تم تنعیم سے عمرہ کا احرام باندھ لو (اور عمرہ کرلو ) چنانچہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ ان کے بھائی گئے (عائشہ رضی اللہ عنہا نے ) فرمایا کہ ہم رات کے آخر میں واپس لوٹ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہم تمہار انتظار فلاں جگہ کریں گے۔

معلوم ہوا کہ محصب سے آخر رات میں کوچ کرنا مستحب ہے۔ عقری کا لفظی ترجمہ بانجھ اور حلقی کا سرمنڈی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہ محبت یہ لفظ استعمال فرمائے جیسا کہہ دیا کرتے ہیں سرمنڈی، یہ بول چال کا عام محاورہ ہے۔ یہ حدیث بھی بہت سے فوائد پر مشتمل ہے، خاص طور پر صنف نازک کے لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک میں کس قدر رافت اور رحمت تھی کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ذرا سی دل شکنی بھی گوار نہیں فرمائی بلکہ ان کی دل جوئی کے لیے ان کو تنعیم جاکر وہاں سے عمرہ کا احرام باندھنے کا حکم فرمایا اور ان کے بھائی عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو ساتھ کر دیا، جس سے ظاہر ہے کہ صنف نازک کو تنہا چھوڑنا مناسب نہیں ہے۔ بلکہ ان کے ساتھ بہرحال کوئی ذمہ دار نگران ہونا ضروری ہے۔ ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے حائضہ ہوجانے کی خبر سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ محبت ان کے لیے عقری حلقی کے الفاظ استعمال فرمائے اس سے بھی صنف نازک کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت ٹپکتی ہے، نیز یہ بھی کہ مفتی حضرات کو اسوہ حسنہ کی پیروی ضروری ہے کہ حدود شرعیہ میں ہر ممکن نرمی اختیار کرنا اسوہ نبوت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب العمرہ

صحیح بخاری -> کتاب العمرہ

باب : عمرہ کا وجوب اور اس کی فضیلت
وقال ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ ليس أحد إلا وعليه حجة وعمرة‏.‏ وقال ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ إنها لقرينتها في كتاب الله ‏{‏وأتموا الحج والعمرة لله‏}‏

اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ (صاحب استطاعت ) پر حج اور عمرہ واجب ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ کتاب اللہ میں عمرہ حج کے ساتھ آیا ہے ” اور پوراکرو حج اور عمرہ کو اللہ کے لیے۔ “

کعبہ شریف کی مخصوص اعمال کے ساتھ زیارت کرنا اسے عمرہ کہتے ہیں، عمرہ سال بھر میں ہر وقت کیا جاسکتا ہے، ہاں چند دنوں میں منع ہے جن کا ذکر ہو چکا ہے اکثر علماءکا قول ہے کہ عمرہ عمر بھرمیں ایک دفعہ واجب ہے، بعض لوگ صرف مستحب مانتے ہیں۔

حدیث نمبر : 1773
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن سمى، مولى أبي بكر بن عبد الرحمن عن أبي صالح السمان، عن أبي هريرة ـ رضى الله عنه ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة‏"‏‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوبکر بن عبدالرحمن کے غلام سمی نے خبر دی، انہیں ابوصالح سمان نے خبر دی اور انہیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ دونوں کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کی جزا جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔

اللہ پاک نے قرآن مجید میں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کلام بلاغت نظام میں حج کے ساتھ عمرہ کا ذکر فرمایا ہے، جس سے عمرہ کا وجوب ثابت ہوا، یہی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بتلانا چاہتے ہیں آپ نے عمرہ کا وجوب آیت اور حدیث ہر دو سے ثابت فرمایا۔ حج مبرور وہ حج ہے جس میں از ابتداءتا انتہاءنیکیاں ہی ہوں اور آداب حج کو پورے طور پرنبھایا جائے ایسا حج یقینا دخول جنت کا موجب ہے۔ اللہم ارزقناہ ( آمین
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اس شخص کا بیان جس نے حج سے پہلے عمرہ کیا

حدیث نمبر : 1774
حدثنا أحمد بن محمد، أخبرنا عبد الله، أخبرنا ابن جريج، أن عكرمة بن خالد، سأل ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن العمرة، قبل الحج فقال لا بأس‏.‏ قال عكرمة قال ابن عمر اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم قبل أن يحج‏.‏ وقال إبراهيم بن سعد عن ابن إسحاق حدثني عكرمة بن خالد سألت ابن عمر مثله‏.
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، انہیں عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے خبر دی کہ عکرمہ بن خالد نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے حج سے پہلے عمرہ کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں، عکرمہ نے کہا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کرنے سے پہلے عمرہ ہی کیا تھا اور ابراہیم بن سعد نے محمد بن اسحاق سے بیان کیا، ان سے عکرمہ بن خالد نے بیان کیا کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا پھر یہی حدیث بیان کی۔ ہم سے عمرو بن علی فلاس نے بیان کیا، ان سے ابوعاصم نے بیان کیا، انہیں ابن جریج نے خبر دی، ان سے عکرمہ بن خالد نے بیان کیا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا پھر یہی حدیث بیان کی۔

حضرت عبداللہ بن مبارک مروزی ہیں۔ بنی حنظلہ کے آزاد کردہ ہیں، ہشام بن عروہ، امام مالک، ثوری، شعبہ اور اوزاعی اور ان کے ماسوا بہت سے لوگوں سے حدیث کو سنا اور ان سے سفیان بن عیینہ اور یحییٰ بن سعید اور یحییٰ بن معین وغیرہ روایت کرتے ہیں، ان علماءمیں سے ہیں جن کو قرآن مجید میں علماءربانین سے یاد کیا گیا ہے، اپنے زمانہ کے امام اور پختہ کار فقیہ اور حافظ حدیث تھے، ساتھ ہی زاہد کامل اور قابل فخر سخی اور اخلاق فاضلہ کے مجسمہ تھے۔ اسماعیل بن عیاش نے کہا کہ روئے زمین پر ان کے زمانہ میں کوئی ان جیسا باخدا عالم مسلمانوں میں نہ تھا۔ خیر کی کوئی ایسی خصلت نہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو نہ بخشی ہو، ان کے شاگردوں کی بھی کثیر تعداد ہے۔ عرصہ تک بغداد میں درس حدیث دیا۔ ان کا سال پیدائش118ھ ہے اور181ھ میں وفات پائی، اللہ پاک فردوس بریں میں آپ کے بہترین مقامات میں اضافہ فرمائے اور ہم کو ایسے بزرگوں کے ساتھ محشور کرے، آمین۔ صد افسوس کہ آج ایسے بزرگوں اور باخدا حضرات سے امت محروم ہے، کاش ! اللہ پاک پھر ایسے بزرگ پیدا کرے اور امت کو پھر ایسے بزرگوں کے علوم سے نور ایقان عطا کرے۔ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے ہیں

کسی روایت میں چار عمرے مذکور ہیں، کسی میں دو۔ ان میں جمع یوں کیاگیا ہے کہ اخیر کی روایت میں وہ عمرہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے ساتھ کیا تھا۔ اسی طرح وہ عمرہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم روکے گئے تھے شمار نہیں کیا۔ سعید بن منصور نے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلیم نے تین عمرے کئے دو تو ذی قعدہ میں اور ایک شوال میں اور دوسری راویتوں میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تینوں عمرے ذی قعدہ میں کئے ہیں۔

حدیث نمبر : 1775
حدثنا قتيبة، حدثنا جرير، عن منصور، عن مجاهد، قال دخلت أنا وعروة بن الزبير المسجد،، فإذا عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ جالس إلى حجرة عائشة، وإذا ناس يصلون في المسجد صلاة الضحى‏.‏ قال فسألناه عن صلاتهم‏.‏ فقال بدعة‏.‏ ثم قال له كم اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم قال أربع إحداهن في رجب، فكرهنا أن نرد عليه‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے مجاہد نے بیان کیا کہ میں اور عروہ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے، وہاں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کچھ لوگ مسجد نبوی میں اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے عبداللہ بن عمر سے ان لوگوںکی اس نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ بدعت ہے، پھر ان سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے؟ انہوں نے کہا کہ چار، ایک ان میں سے رجب میں کیا تھا، لیکن ہم نے پسند نہیں کیا کہ ان کی اس بات کی تردید کریں۔

حدیث نمبر : 1776
قال وسمعنا استنان، عائشة أم المؤمنين في الحجرة، فقال عروة يا أماه، يا أم المؤمنين‏.‏ ألا تسمعين ما يقول أبو عبد الرحمن‏.‏ قالت ما يقول قال يقول إن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتمر أربع عمرات إحداهن في رجب‏.‏ قالت يرحم الله أبا عبد الرحمن، ما اعتمر عمرة إلا وهو شاهده، وما اعتمر في رجب قط‏.
مجاہد نے بیان کیا کہ ہم نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ سے ان کے مسواک کرنے کی آواز سنی تو عروہ نے پوچھا اے میری ماں ! اے ام المومنین ! ابوعبدالرحمن کی بات آپ سن رہی ہیں؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہہ رہے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے تھے جن میں سے ایک رجب میں کیا تھا، انہوں نے فرمایا کہ اللہ ابوعبدالرحمن پر رحم کرے ! آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کوئی عمرہ ایسا نہیں کیا جس میں وہ خود موجود نہ رہے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں تو کبھی عمرہ ہی نہیں کیا۔

تشریح : حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے نزدیک اشراق کی نماز سے متعلق معلومات نہ ہوں گی اس لیے انہوں نے اسے بدعت کہہ دیا حالانکہ یہ نماز احادیث میں مذکور ہے، یا آپ نے اس نماز کو مسجد میں پڑھنا بدعت قرار دیا جیسا کہ ہر نماز گھر میں پڑھنے ہی سے متعلق ہے۔ جمہور کے نزدیک اس نماز کو مسجد یا گھر ہر جگہ پڑھا جاسکتا ہے۔ عمرہ نبوی کے بارے میں ماہ رجب کا ذکر صیحیح نہیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وضاحت کے ساتھ سمجھا دیا۔ آپ عروہ کی خالہ ہیں اس لیے آپ نے ان کو یا اماہ کہہ کر پکارا۔

حدیث نمبر : 1777
حدثنا أبو عاصم، أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني عطاء، عن عروة بن الزبير، قال سألت عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت ما اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجب‏.
ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھے عطاءبن ابی رباح نے خبر دی، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھاتو آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا تھا۔

حدیث نمبر : 1778
حدثنا حسان بن حسان، حدثنا همام، عن قتادة، سألت أنسا ـ رضى الله عنه ـ كم اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم قال أربع عمرة الحديبية في ذي القعدة، حيث صده المشركون، وعمرة من العام المقبل في ذي القعدة، حيث صالحهم، وعمرة الجعرانة إذ قسم غنيمة أراه حنين‏.‏ قلت كم حج قال واحدة‏.
ہم سے حسان بن حسان نے بیان کیا کہ ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے؟ تو آپ نے فرمایا کہ چار، عمرہ حدیبیہ ذی قعدہ میں جہاں پر مشرکین نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا تھا، پھر آئندہ سال ذی قعدہ ہی میں ایک عمرہ قضا جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین سے صلح کی تھی اور تیسرا عمرہ جعرانہ جس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت غالباً حنین کی تقسیم کی تھی، چوتھا حج کے ساتھ میں نے پوچھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کتنے کئے؟ فرمایا کہ ایک۔

حدیث نمبر : 1779
حدثنا أبو الوليد، هشام بن عبد الملك حدثنا همام، عن قتادة، قال سألت أنسا ـ رضى الله عنه ـ فقال اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم حيث ردوه، ومن القابل عمرة الحديبية، وعمرة في ذي القعدة وعمرة مع حجته‏.
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے بیان کیا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عمرہ کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عمرہ وہاں کیا جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرکین نے واپس کر دیا تھا اور دوسرے سال (اسی ) عمرہ حدیبیہ (کی قضا ) کی تھی اور ایک عمرہ ذی قعدہ میں اور ایک اپنے حج کے ساتھ کیا تھا۔

جن راویوں نے حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کھولنے اور قربانی کرنے کو عمرہ قرار دیا انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار عمرے بیان کئے، اور جنہوں نے اسے عمرہ قرار نہیں دیا انہوں نے تین عمرے بیان کئے اور روایات میں اختلاف کی وجہ صرف یہی ہے اور ان توجیہات کی بنا پر کسی بھی روایت کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔

حدیث نمبر : 1780
حدثنا هدبة، حدثنا همام، وقال، اعتمر أربع عمر في ذي القعدة إلا التي اعتمر مع حجته عمرته من الحديبية، ومن العام المقبل، ومن الجعرانة، حيث قسم غنائم حنين، وعمرة مع حجته‏.
ہم سے ہدبہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، اس روایت میں یوں ہے کہ جوعمرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حج کے ساتھ کیا تھا اس کے سوا تمام عمرے ذی قعدہ ہی میں کئے تھے۔ حدیبیہ کا عمرہ اور دوسرے سال اس کی قضا کا عمرہ تھا۔ (کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قران کیا تھا اورحجۃ الوداع سے متعلق ہے ) اور جعرانہ کا عمرہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ حنین کی غیمت تقسیم کی تھی۔ پھر ایک عمرہ اپنے حج کے ساتھ کیا تھا۔

حدیث نمبر : 1781
حدثنا أحمد بن عثمان، حدثنا شريح بن مسلمة، حدثنا إبراهيم بن يوسف، عن أبيه، عن أبي إسحاق، قال سألت مسروقا وعطاء ومجاهدا‏.‏ فقالوا اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة قبل أن يحج‏.‏ وقال سمعت البراء بن عازب ـ رضى الله عنهما ـ يقول اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة، قبل أن يحج مرتين‏.‏
ہم سے احمد بن عثمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابواسحق نے بیان کیا کہ میں نے مسروق، عطاءاور مجاہد رحمہم اللہ تعالیٰ سے پوچھا تو ان سب حضرات نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے پہلے ذی قعدہ ہی میں عمرے کئے تھے اور انہوں نے بیان کیا کہ میں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسالم نے ماہ ذی قعدہ میں حج سے پہلے دو عمرے کئے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : رمضان میں عمرہ کرنے کا بیان

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ترجمہ باب میں اس کی فضیلت کی تشریح نہیں کی اور شاید انہوں نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا جو دار قطنی نے نکالی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے عمرے میں نکلی، آپ صلی اللہ علیہ وسم نے افطار کیا اور میں نے روزہ رکھا۔ آپ نے قصر کیا میں نے پوری نماز پڑھی، بعض نے کہا یہ روایت غلط ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں کوئی عمرہ نہیں کیا، حافظ نے کہا شاید مطلب یہ ہو کہ میںرمضان میں عمرہ کے لیے مدینہ سے نکلی، یہ صحیح ہے کیوں کہ فتح مکہ کا سفر رمضان ہی میں ہوا تھا۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1782
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن جريج، عن عطاء، قال سمعت ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ يخبرنا يقول قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لامرأة من الأنصار سماها ابن عباس، فنسيت اسمها ‏"‏ما منعك أن تحجي معنا‏"‏‏. ‏ قالت كان لنا ناضح فركبه أبو فلان وابنه ـ لزوجها وابنها ـ وترك ناضحا ننضح عليه قال ‏"‏فإذا كان رمضان اعتمري فيه فإن عمرة في رمضان حجة‏"‏‏. ‏ أو نحوا مما قال‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، ان سے ابن جریج نے، ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے ہمیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری خاتون (ام سنان رضی اللہ عنہا ) سے (ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کا نام بتایا تھا لیکن مجھے یاد نہ رہا ) پوچھا کہ تو ہمارے ساتھ حج کیوں نہیں کرتی؟ وہ کہنے لگی کہ ہمارے پاس ایک اونٹ تھا، جس پر ابوفلاں (یعنی اس کا خاوند ) اور اس کا بیٹا سوار ہو کر حج کے لیے چل دیئے او رایک اونٹ انہوں نے چھوڑا ہے، جس سے پانی لایا جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کے اچھا رمضان آئے تو عمرہ کرلینا کیوں کہ رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہوتا ہے یا اسی جیسی کوئی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی۔

امام بخاری کی دوسری روایات میں اس عورت کا نام ام سنان رضی اللہ عنہا مذکور ہے، بعض نے کہا وہ ام سلیم رضی اللہ عنہا تھیں جیسے ابن حبان کی روایت میں ہے اور نسائی نے نکالا ہے کہ بنی اسعد کی ایک عورت معقل نے کہا میں نے حج کا قصد کیا لیکن میرا اونٹ بیمار ہو گیا، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو رمضان میں عمرہ کر لے رمضان کا عمرہ حج کے برابر ہے۔ حافظ نے کہا اگر یہ عورت ام سنان تھی تو اس کے بیٹے کا نام سنان ہوگا اور اگر ام سلیم تھی تو اس کا بیٹا ہی کوئی ایسا نہیں تھا جو حج کے قابل ہوتا۔ ایک انس تھے وہ چھوٹی عمر میں تھے اور شاید ان کے خاوند ابوطلحہ کا بیٹا مراد ہو وہ بھی گویا ام سلیم کا بیٹا ہوا کیوں کہ ابوطلحہ ام سلیم کے خاوند تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : محصب کی رات عمرہ کرنا یا اس کے علاوہ کسی دن بھی عمرہ کرنے کا بیان

حدیث نمبر : 1783
حدثنا محمد بن سلام، أخبرنا أبو معاوية، حدثنا هشام، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم موافين لهلال ذي الحجة فقال لنا ‏"‏من أحب منكم أن يهل بالحج فليهل ومن أحب أن يهل بعمرة فليهل بعمرة، فلولا أني أهديت لأهللت بعمرة‏"‏‏. ‏ قالت فمنا من أهل بعمرة، ومنا من أهل بحج، وكنت ممن أهل بعمرة، فأظلني يوم عرفة، وأنا حائض، فشكوت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ارفضي عمرتك، وانقضي رأسك وامتشطي، وأهلي بالحج‏"‏‏. ‏ فلما كان ليلة الحصبة أرسل معي عبد الرحمن إلى التنعيم، فأهللت بعمرة مكان عمرتي‏.‏
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عروہ نے او ران سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے نکلے تو ذی الحجہ کا چاند نکلنے والا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی حج کا احرام باندھنا چاہتا ہے تو وہ حج کا باندھ لے اور اگر کوئی عمرہ کا باندھنا چاہتا ہے تو وہ عمرہ کا باندھ لے۔ اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ہم میں بعض نے تو عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج کا احرام باندھا۔ میں بھی ان لوگوں میں تھی جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، لیکن عرفہ کا دن آیا تو میں اس وقت حائضہ تھی، چنانچہ میں نے اس کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر عمرہ چھوڑ دے اور سر کھول دے اوراس میں کنگھا کرلے پھر حج کا احرام باندھا لینا۔ (میں نے ایسا ہی کیا ) جب محصب کے قیام کی رات آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن کو میرے ساتھ تنعیم بھیجا، وہاں سے میں نے عمرہ کا احرام اپنے اس عمرہ کے بدلہ میں باندھا (جس کو توڑ ڈالا تھا
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : تنعیم سے عمرہ کرنا

یہ خاص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کیا تھا باقی کسی صحابی سے منقول نہیں کہ اس نے عمرہ کا احرام تنعیم سے باندھا ہو نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایسا کیا، امام ابن قیم نے زاد المعاد میں ایسا ہی کہا ہے۔ حافظ نے کہا کہ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بحکم نبوی ایسا کیا تواس کا مشروع ہونا ثابت ہو گیا اگرچہ اس میں شک نہیں کہ عمرہ کے لیے بھی خاص اپنے ملک سے سفر کرکے جانا افضل اور اعلیٰ ہے اور سلف کا اس میں اختلاف ہے کہ ہر سال ایک عمرہ سے زیادہ کرسکتے ہیں یا نہیں، امام مالک نے ایک سے زیادہ کرنا مکروہ جانا ہے اور جمہور علماءنے ان کا خلاف کیا اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے عرفہ اور یوم النحر اور ایام تشریق میں عمرہ کرنا مکروہ رکھا ہے۔ ( وحیدی )

حدیث نمبر : 1784
حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، عن عمرو، سمع عمرو بن أوس، أن عبد الرحمن بن أبي بكر ـ رضى الله عنهما ـ أخبره أن النبي صلى الله عليه وسلم أمره أن يردف عائشة، ويعمرها من التنعيم‏.‏ قال سفيان مرة سمعت عمرا، كم سمعته من عمرو‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، انہوں نے عمرو بن اوس سے سنا، ان کو عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے ساتھ سواری پر لے جائیں اور تنعیم سے انہیں عمرہ کرالائیں۔ سفیان بن عیینہ نے کہیں یوں کہا میں نے عمرو بن دینار سے سنا، کہیں یوں کہا میں نے کئی بار اس حدیث کو عمرو بن دینار سے سنا۔

حدیث نمبر : 1785
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب بن عبد المجيد، عن حبيب المعلم، عن عطاء، حدثني جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم أهل وأصحابه بالحج وليس مع أحد منهم هدى، غير النبي صلى الله عليه وسلم وطلحة، وكان علي قدم من اليمن، ومعه الهدى فقال أهللت بما أهل به رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ وإن النبي صلى الله عليه وسلم أذن لأصحابه أن يجعلوها عمرة، يطوفوا بالبيت، ثم يقصروا ويحلوا، إلا من معه الهدى، فقالوا ننطلق إلى منى وذكر أحدنا يقطر فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏لو استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت، ولولا أن معي الهدى لأحللت‏"‏‏. ‏ وأن عائشة حاضت فنسكت المناسك كلها، غير أنها لم تطف بالبيت قال فلما طهرت وطافت، قالت يا رسول الله أتنطلقون بعمرة وحجة، وأنطلق بالحج فأمر عبد الرحمن بن أبي بكر أن يخرج معها إلى التنعيم، فاعتمرت بعد الحج في ذي الحجة، وأن سراقة بن مالك بن جعشم لقي النبي صلى الله عليه وسلم وهو بالعقبة، وهو يرميها، فقال ألكم هذه خاصة، يا رسول الله قال ‏"‏لا، بل للأبد‏"‏‏.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، ان سے عبدالوہاب بن عبدالمجید نے، ان سے حبیب معلم نے، ان سے عطاءبن ابی رباح نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب نے حج کا احرام باندھا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے سوا قربانی کسی کے پاس نہیں تھی۔ ان ہی دنوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے تو ان کے ساتھ بھی قربانی تھی۔ انہوں نے کہا کہ جس چیز کا احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے میرا بھی احرام وہی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو (مکہ میں پہنچ کر ) اس کی اجازت دے دی تھی کہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کردیں اور بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرکے بال ترشوا لیں اور احرام کھول دیں، لیکن وہ لوگ ایسا نہ کریں جن کے ساتھ قربانی ہو۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ ہم منیٰ سے حج کے لیے اس طرح سے جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منیٰ ٹپک رہی ہو۔ یہ با ت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو بات اب ہوئی اگر پہلے سے معلوم ہوتی تو میں اپنے ساتھ ہدی نہ لاتا اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو (افعال عمرہ ادا کرنے کے بعد ) میں بھی احرام کھول دیتا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا (اس حج میں ) حائضہ ہو گئی تھیں اس لیے انہوں نے اگرچہ تمام مناسک ادا کئے لیکن بیت اللہ کا طو اف نہیں کیا۔ پھر جب وہ پاک ہو گئیں اور طواف کر لیا تو عرض کی یا رسول اللہ ! سب لوگ حج اور عمرہ دونوں کرکے واپس ہو رہے ہیں لیکن میں صرف حج کرسکی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عبدالرحمن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ انہیں ہمراہ لے کر تنعیم جائیں اور عمرہ کرالائیں، یہ عمرہ حج کے بعد ذی الحجہ کے ہی مہینہ میں ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب جمرہ عقبہ کی رمی کر رہے تھے تو سراقہ بن مالک بن جعشم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا یہ (عمرہ اورحج کے درمیان احرام کھول دینا ) صرف آپ ہی کے لیے ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔

تشریح : یزید کی روایت میں یوں ہے کہ کیا یہ حکم خاص ہمارے لیے ہے، امام مسلم کی روایت میں یوں ہے سراقہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ کیا یہ حکم خاص اسی سال کے لیے ہے۔ آپ نے انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا اور دوبارہ فرمایا عمرہ حج میں ہمیشہ کے لیے شریک ہو گیا۔ نووی نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا درسست ہوا۔ اور جاہلیت کا قاعدہ ٹوٹ گیا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا مکروہ ہے۔ بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ قران یعنی حج اور عمرے کو جمع کرنا درست ہوا اس باب کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ تمتع، جس میں قربانی ہے وہ یہ ہے کہ حج سے پہلے عمرہ کرے اور جو لوگ حج کے مہینوں میں سارے ذی الحجہ کو شامل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذی الحجہ میں حج کے بعد بھی عمرہ کرے تو وہ بھی تمتع ہے اور اس میں قربانی یا روزے واجب نہیں، وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی تھی۔ جیسے ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک گائے قربان کی اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے قربانی دی اور شاید حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کی خبر نہ ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : حج کے بعد عمرہ کرنا اور قربانی نہ دینا

حدیث نمبر : 1786
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، حدثنا هشام، قال أخبرني أبي قال، أخبرتني عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم موافين لهلال ذي الحجة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏من أحب أن يهل بعمرة فليهل، ومن أحب أن يهل بحجة فليهل، ولولا أني أهديت لأهللت بعمرة‏"‏‏. ‏ فمنهم من أهل بعمرة، ومنهم من أهل بحجة، وكنت ممن أهل بعمرة، فحضت قبل أن أدخل مكة، فأدركني يوم عرفة، وأنا حائض، فشكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏دعي عمرتك، وانقضي رأسك وامتشطي، وأهلي بالحج‏"‏‏. ‏ ففعلت، فلما كانت ليلة الحصبة أرسل معي عبد الرحمن إلى التنعيم، فأردفها، فأهلت بعمرة مكان عمرتها، فقضى الله حجها وعمرتها، ولم يكن في شىء من ذلك هدى، ولا صدقة، ولا صوم‏.
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد عروہ نے خبر دی کہا کہ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی انہوں نے کہا کہ ذی الحجہ کا چاند نکلنے والا تھا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے حج کے لیے چلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو عمرہ کا احرام باندھنا چاہے وہ عمرہ کا باندھ لے اور جو حج کا باندھنا چاہے وہ حج کا باندھ لے، اگر میں اپنے ساتھ قربانی نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا ہی احرام باندھتا، چنانچہ بہت سے لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھااوربہتوں نے حج کا۔ میں بھی ان لوگوں میں تھی جنھوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ مگر میں مکہ میںداخل ہونے سے پہلے حائضہ ہو گئی، عرفہ کا دن آگیا اور ابھی میں حائضہ ہی تھی، اس کا رونا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے روئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمرہ چھوڑ دے اور سر کھول لے اور کنگھا کرلے پھر حج کا احرام باندھ لینا، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، اس کے بعد جب محصب کی رات آئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ عبدالرحمن کو تنعیم بھیجا وہ مجھے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر لے گئے وہاں سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے (چھوڑے ہوئے ) عمرے کے بجائے دوسرے عمرہ کا احرام باندھا اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کا بھی حج اور عمرہ دونوں ہی پورے کر دیئے نہ تو اس کے لیے انہیں قربانی لانی پڑی نہ صدقہ دینا پڑا اور نہ روزہ رکھنا پڑا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : عمرہ میں جتنی تکلیف ہو اتنا ہی ثواب ہے

حدیث نمبر : 1787
حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا ابن عون، عن القاسم بن محمد، وعن ابن عون، عن إبراهيم، عن الأسود، قالا قالت عائشة ـ رضى الله عنها ـ يا رسول الله يصدر الناس بنسكين وأصدر بنسك فقيل لها ‏"‏انتظري، فإذا طهرت فاخرجي إلى التنعيم، فأهلي ثم ائتينا بمكان كذا، ولكنها على قدر نفقتك، أو نصبك‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ان سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے ابن عون نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور دوسری (روایت میں ) ابن عون، ابراہیم سے روایت کرتے ہیں اور وہ اسود سے، انہوں نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ ! لوگ تو دو نسک (حج اور عمرہ ) کرکے واپس ہو رہے ہیں اور میں نے صرف ایک نسک (حج ) کیا ہے؟ اس پر ان سے کہا گیا کہ پھر انتظار کریں اور جب پاک ہو جائیں تو تنعیم جاکر وہاں سے (عمرہ کا ) احرام باندھیں، پھر ہم سے فلاں جگہ آملیں اور یہ کہ اس عمرہ کا ثواب تمہارے خرچ اور محنت کے مطابق ملے گا۔

تشریح : ابن عبدالسلام نے کہا کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے، بعض عبادتوں میں دوسری عبادتوں سے تکلیف اور مشقت کم ہوتی ہے، لیکن ثواب زیادہ ملتا ہے، جیسے شب قدر میں عباد ت کرنا رمضان کی کئی راتوں میں عبادت کرنے سے ثواب میں زیادہ ہے یا فرض نماز یا فرض زکوٰۃ کا ثواب نفل نمازوں اور نفل صدقوں سے بہت زیادہ ہے۔
 
Top