• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ٣ - حدیث نمبر١٦٥٥ تا ٢٤٩٠

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : (حج کے بعد ) عمرہ کرنے والا عمرہ کا طواف کرکے مکہ سے چل دے تو طواف وداع کی ضرورت ہے یا نہیں ہے

حدیث نمبر : 1788
حدثنا أبو نعيم، حدثنا أفلح بن حميد، عن القاسم، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت خرجنا مهلين بالحج في أشهر الحج، وحرم الحج، فنزلنا سرف، فقال النبي صلى الله عليه وسلم لأصحابه ‏"‏من لم يكن معه هدى، فأحب أن يجعلها عمرة، فليفعل ومن كان معه هدى فلا‏"‏‏. ‏ وكان مع النبي صلى الله عليه وسلم ورجال من أصحابه ذوي قوة الهدى، فلم تكن لهم عمرة، فدخل على النبي صلى الله عليه وسلم وأنا أبكي فقال ‏"‏ما يبكيك‏"‏‏. ‏ قلت سمعتك تقول لأصحابك ما قلت فمنعت العمرة‏.‏ قال ‏"‏وما شأنك‏"‏‏. ‏ قلت لا أصلي‏.‏ قال ‏"‏فلا يضرك أنت من بنات آدم، كتب عليك ما كتب عليهن، فكوني في حجتك عسى الله أن يرزقكها‏"‏‏. ‏ قالت فكنت حتى نفرنا من منى، فنزلنا المحصب فدعا عبد الرحمن، فقال ‏"‏اخرج بأختك الحرم، فلتهل بعمرة، ثم افرغا من طوافكما، أنتظركما ها هنا‏"‏‏. ‏ فأتينا في جوف الليل‏.‏ فقال ‏"‏فرغتما‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ فنادى بالرحيل في أصحابه، فارتحل الناس، ومن طاف بالبيت، قبل صلاة الصبح، ثم خرج موجها إلى المدينة‏.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے افلح بن حمید نے بیان کیا، ان سے قاسم بن محمد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ حج کے مہینوں اور آداب میں ہم حج کا احرام باندھ کر مدینہ سے چلے اور مقام سرف میں پڑاؤ کیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا کہ جس کے ساتھ قربانی نہ ہو اور وہ چاہے کہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ میں بدل دے تو وہ ایسا کرسکتاہے، لیکن جس کے ساتھ قربانی ہے وہ ایسا نہیں کرسکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب میں سے بعض مقدور والوں کے ساتھ قربانی تھی، اس لیے ان کا (احرام صرف ) عمرہ کا نہیں رہا، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے تو میں رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ رو کیوں رہی ہو؟ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ نے اپنے اصحاب سے جو کچھ فرمایا میں سن رہی تھی، اب تو میرا عمرہ رہ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہوئی؟ میں نے کہا کہ میں نماز نہیں پڑھ سکتی (حیض کی وجہ سے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ کوئی حرج نہیں، تو بھی آدم کی بیٹیوں میں سے ایک ہے، اور جو ان سب کے مقدر میں لکھا ہے وہی تمہارا بھی مقدرہے۔ اب حج کا احرام باندھ لے شاید اللہ تعالیٰ تمہیں عمرہ بھی نصیب کرے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے حج کا احرام باندھ لیا پھر جب ہم (حج سے فارغ ہوکر اور ) منی سے نکل کر محصب میں اترے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن کو بلایا اور ان سے کہا کہ اپنی بہن کو حد حرم سے باہر لے جا (تنعیم ) تاکہ وہ وہاں سے عمرہ کا احرام باندھ لیں، پھر طواف و سعی کروہم تمہارا انتظار یہیں کریں گے۔ ہم آدھی رات کو آپ کی خدمت میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا فارغ ہو گئے؟ میں نے کہا ہاں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اپنے اصحاب میںکوچ کا اعلان کردیا۔ بیت اللہ کا طوف وداع کرنے والے لوگ صبح کی نماز سے پہلے ہی روانہ ہو گئے اور مدینہ کی طرف چل دیئے۔

حافظ نے کہا اس روایت میں غلطی ہو گئی ہے صحیح یوں ہے کہ لوگ چل کھڑے ہوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طوا ف کیا۔ امام مسلم اور ابوداؤد کی روایتوں میں ایسا ہی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : عمرہ میں ان ہی کاموں کا پرہیز ہے جن سے حج میں پرہیز ہے

حدیث نمبر : 1789
حدثنا أبو نعيم، حدثنا همام، حدثنا عطاء، قال حدثني صفوان بن يعلى بن أمية يعني، عن أبيه، أن رجلا، أتى النبي صلى الله عليه وسلم وهو بالجعرانة وعليه جبة وعليه أثر الخلوق أو قال صفرة فقال كيف تأمرني أن أصنع في عمرتي فأنزل الله على النبي صلى الله عليه وسلم، فستر بثوب ووددت أني قد رأيت النبي صلى الله عليه وسلم وقد أنزل عليه الوحى‏.‏ فقال عمر تعال أيسرك أن تنظر إلى النبي صلى الله عليه وسلم وقد أنزل الله الوحى قلت نعم‏.‏ فرفع طرف الثوب، فنظرت إليه له غطيط وأحسبه قال كغطيط البكر‏.‏ فلما سري عنه قال ‏"‏أين السائل عن العمرة اخلع عنك الجبة واغسل أثر الخلوق عنك، وأنق الصفرة، واصنع في عمرتك كما تصنع في حجك‏"‏‏.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے عطا بن ابی رباح نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے صفوان بن یعلیٰ بن امیہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا جبہ پہنے ہوئے اور اس پر خلوق یا زردی کا نشان تھا۔ اس نے پوچھا مجھے اپنے عمرہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح کرنے کا حکم دیتے ہیں؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کپڑا ڈال دیا گیا، میری بڑی آرزو تھی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہو رہی ہو تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہاں آؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہو رہی ہو، اس وقت تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے آرزو مند ہو؟ میں نے کہا ہاں ! انہوں نے کپڑے کا کنارہ اٹھایا اور میں نے اس میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ زور زور سے خراٹے لے رہے تھے، میرا خیال ہے کہ انہوں نے بیان کیا ” جیسے اونٹ کے سانس کی آواز ہوتی ہے، پھر جب وحی اترنی بند ہو ئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پوچھنے والا کہاں ہے جو عمرے کا حال پوچھتا تھا؟ اپنا جبہ اتار دے، خلوق کے اثر کو دھو ڈال اور (زعفران کی ) زردی صاف کر لے اور جس طرح حج میں کرتے ہو اسی طرح اس میں بھی کرو۔

حدیث نمبر : 1790
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، أنه قال قلت لعائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم وأنا يومئذ حديث السن أرأيت قول الله تبارك وتعالى ‏{‏إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏}‏ فلا أرى على أحد شيئا أن لا يطوف بهما‏.‏ فقالت عائشة كلا، لو كانت كما تقول كانت فلا جناح عليه أن لا يطوف بهما‏.‏ إنما أنزلت هذه الآية في الأنصار كانوا يهلون لمناة، وكانت مناة حذو قديد، وكانوا يتحرجون أن يطوفوا بين الصفا والمروة، فلما جاء الإسلام سألوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فأنزل الله تعالى ‏{‏إن الصفا والمروة من شعائر الله فمن حج البيت أو اعتمر فلا جناح عليه أن يطوف بهما‏}‏‏.‏ زاد سفيان وأبو معاوية عن هشام ما أتم الله حج امرئ ولا عمرته لم يطف بين الصفا والمروة‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد (عروہ بن زبیر ) نے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا جب کہ ابھی میں نو عمر تھاکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ” صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں اس لیے جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لیے ان کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں “ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی ان کی سعی نہ کرے تو اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔ یہ سن کر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہرگز نہیں۔ اگر مطلب یہ ہوتا جیسا کہ تم بتا رہے ہو پھر تو ان کی سعی نہ کرنے میں واقعی کوئی حرج نہیں تھا، لیکن یہ آیت تو انصار کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو منات بت کے نام کا احرام باندھتے تھے جو قدید کے مقابل میں رکھا ہوا تھا وہ صفا اور مروہ کی سعی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، جب اسلام آیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا اور اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ” صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیاں ہیں اس لیے جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے یے ان کی سعی کرنے میں کوئی گناہ نہیں “ سفیان اور ابومعاویہ نے ہشام سے یہ زیادتی نکالی ہے کہ جو کوئی صفا مروہ کا پھیرا نہ کرے تو اللہ ا اس کا حج اور عمرہ پورا نہ کرے گا۔

یہ اس لیے کہ اللہ پاک نے صفا اور مروہ پہاڑیوں کو بھی اپنے شعائر قرا ر دیا ہے اور اس سعی سے ہزار ہا سال قبل کے اس واقعہ کی یاد تازہ ہوتی ہے جب کہ حضرت ہاجرہ علیہاالسلام نے اپنے نور نظر اسماعیل علیہ السلام کے لیے یہاں پانی کی تلاش میں چکر لگائے تھے اور اس موقع پر چشمہ زمزم کا ظہور ہوا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : عمرہ کرنے والا احرام سے کب نکلتا ہے؟

وقال عطاء عن جابر ـ رضى الله عنه ـ أمر النبي صلى الله عليه وسلم أصحابه أن يجعلوها عمرة ويطوفوا ثم يقصروا ويحلوا‏.
اور عطاءبن ابی رباح نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو یہ حکم دیا کہ حج کے احرام کو عمرہ سے بدل دیں اور طواف (بیت اللہ اور صفا و مروہ ) کریں پھر بال ترشوا کر احرام سے نکل جائیں۔

تشریح : ابن بطال نے کہا میں تو علماءکا اختلاف اس باب میں نہیں جانتا کہ عمرہ کرنے والا اس وقت حلال ہوتا ہے جب طواف اور سعی سے فارغ ہو جائے، مگر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شاذ قول منقول ہے کہ صرف سعی کرنے سے حلال ہو جاتا ہے اور اسحاق بن راہویہ ( استاذ امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ ) نے اسی کو اختیار کیا ہے اور امام بخاری نے یہ باب لا کر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مذہب کی طرف اشارہ کیا اور قاضی عیاض نے بعض اہل علم سے نقل کیا ہے کہ عمرہ کرنے والا جہاں حرم میں پہنچا وہ حلال ہو گیا گو طواف اور سعی نہ کرے مگر صحیح بات وہی ہے جو باب اور حدیث سے ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 1791
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، عن جرير، عن إسماعيل، عن عبد الله بن أبي أوفى، قال اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم واعتمرنا معه فلما دخل مكة طاف وطفنا معه، وأتى الصفا والمروة وأتيناها معه، وكنا نستره من أهل مكة أن يرميه أحد‏.‏ فقال له صاحب لي أكان دخل الكعبة قال لا‏.‏
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، ان سے جریر نے، ان سے اسماعیل نے، ان سے عبداللہ بن ابی اوفیٰ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ بھی کیا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کیا، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے (بیت اللہ کا ) طواف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے بھی طواف کیا، پھر صفا اور مروہ آئے اور ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آئے۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ والوں سے حفاظت کر رہے تھے کہ کہیں کوئی کافر تیر نہ چلا دے، میرے ایک ساتھی نے ابن ابی اوفی سے پوچھا کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں اندر داخل ہوئے تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔

حدیث نمبر : 1792
قال فحدثنا ما، قال لخديجة‏.‏ قال ‏"‏بشروا خديجة ببيت في الجنة من قصب لا صخب فيه ولا نصب‏"‏‏. ‏
کہا انہوں نے پھر پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے متعلق کیا کچھ فرمایا تھا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا ” خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں ایک موتی کے گھر کی بشارت ہو، جس میں نہ کسی قسم کا شور و غل ہوگا نہ کوئی تکلیف ہوگی۔ “

حدیث نمبر : 1793
حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، عن عمرو بن دينار، قال سألنا ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ عن رجل، طاف بالبيت في عمرة، ولم يطف بين الصفا والمروة، أيأتي امرأته فقال قدم النبي صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت سبعا، وصلى خلف المقام ركعتين، وطاف بين الصفا والمروة سبعا، وقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏.‏
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے کہا کہ ہم نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا جو عمرہ کے لیے بیت اللہ کا طواف تو کرتا ہے لیکن صفا اور مروہ کی سعی نہیں کرتا، کیا وہ (صرف بیت اللہ کے طواف کے بعد ) اپنی بیوی سے ہم بستر ہو سکتا ہے؟ انہوں نے اس کا جواب یہ دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ ) تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا سات چکروں کے ساتھ طواف کیا، پھر مقام ابراہیم علیہ السلام کے قریب دو رکعت نماز پڑھی، اس کے بعد صفا اور مروہ کی سات مرتبہ سعی کی ” اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ “

حدیث نمبر : 1794
قال وسألنا جابر بن عبد الله ـ رضى الله عنهما ـ فقال لا يقربنها حتى يطوف بين الصفا والمروة‏.
انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے بھی اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا صفا اور مروہ کی سعی سے پہلے اپنی بیوی کے قریب بھی نہ جانا چاہئے۔

حدیث نمبر : 1795
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن قيس بن مسلم، عن طارق بن شهاب، عن أبي موسى الأشعري ـ رضى الله عنه ـ قال قدمت على النبي صلى الله عليه وسلم بالبطحاء وهو منيخ فقال ‏"‏أحججت‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏بما أهللت‏"‏‏. ‏ قلت لبيك بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏أحسنت‏.‏ طف بالبيت وبالصفا والمروة ثم أحل‏"‏‏. ‏ فطفت بالبيت، وبالصفا والمروة، ثم أتيت امرأة من قيس، ففلت رأسي، ثم أهللت بالحج‏.‏ فكنت أفتي به، حتى كان في خلافة عمر فقال إن أخذنا بكتاب الله فإنه يأمرنا بالتمام، وإن أخذنا بقول النبي صلى الله عليه وسلم فإنه لم يحل حتى يبلغ الهدى محله‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، ان سے غندر بن محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قیس بن مسلم نے بیان کیا، ان سے طارق بن شہاب نے بیان کیا، اور ان سے ابوموسیٰ اشعری نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بطحاءمیں حاضر ہوا آپ وہاں (حج کے لیے جاتے ہوئے اترے ہوئے تھے ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارا حج ہی کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا، جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا اور احرام کس چیز کا باندھا ہے؟ میں نے کہا میں نے اسی کا احرام باندھا ہے، جس کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اچھا کیا، اب بیت اللہ کا طواف اور صفا اور مروہ کی سعی کرلے پھر احرام کھول ڈال، چنانچہ میں نے بیت اللہ کا طوا ف کیا اور صفا اور مروہ کی سعی، پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا اور انہوں نے میرے سر کی جوئیں نکالیں، اس کے بعد میں نے حج کا احرام باندھا۔ میں(آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ) اسی کے مطابق لوگوں کو مسئلہ بتایا کرتا تھا، جب عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کا دور آیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں کتاب اللہ پر عمل کرنا چاہے کہ اس میں ہمیں (حج اور عمرہ ) پورا کرنے کا حکم ہوا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا تھا جب تک ہدی کی قربانی نہیں ہوگئی تھی۔ لہٰذا ہدی ساتھ لانے والوں کے واسطے ایسا ہی کرنے کا حکم ہے۔

حدیث نمبر : 1796
حدثنا أحمد بن عيسى، حدثنا ابن وهب، أخبرنا عمرو، عن أبي الأسود، أن عبد الله، مولى أسماء بنت أبي بكر حدثه أنه، كان يسمع أسماء تقول كلما مرت بالحجون صلى الله على محمد لقد نزلنا معه ها هنا، ونحن يومئذ خفاف، قليل ظهرنا، قليلة أزوادنا، فاعتمرت أنا وأختي عائشة والزبير وفلان وفلان، فلما مسحنا البيت أحللنا، ثم أهللنا من العشي بالحج‏.‏
ہم سے احمد بن عیسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، انہیں ابوالاسود نے کہ اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہا کے غلام عبداللہ نے ان سے بیان کیا، انہوں نے اسماءرضی اللہ عنہا سے سنا تھا، وہ جب بھی حجون پہاڑ سے ہو کر گزرتیں تو یہ کہتیں ” رحمتیں نازل ہوں اللہ کی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہیں قیام کیا تھا، ان دنوں ہمارے (سامان ) بہت ہلکے پھلکے تھے، سواریاں اور زاد راہ کی بھی کمی تھی، میں نے، میری بہن عائشہ رضی اللہ عنہا نے، زبیر اور فلاں فلاں رضی اللہ عنہم نے عمرہ کیا اور جب بیت اللہ کاطواف کر چکے تو (صفا اور مروہ کی سعی کے بعد ) ہم حلال ہو گئے، حج کا احرام ہم نے شام کو باندھا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : حج، عمرہ یا جہاد سے واپسی پر کیا دعا پڑھی جائے

حدیث نمبر : 1797
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا قفل من غزو أو حج أو عمرة يكبر على كل شرف من الأرض ثلاث تكبيرات، ثم يقول ‏"‏لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شىء قدير، آيبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون، صدق الله وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں نافع نے او رانہیں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ یا حج و عمرہ سے واپس ہوتے تو جب بھی کسی بلند جگہ کا چڑھاؤ ہوتا تو تین مرتبہ اللہ اکبر کہتے اور یہ دعاءپڑھتے ” اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کا ہے اور حمد اسی کے لیے ہے وہ ہرچیز پر قادر ہے، ہم واپس ہو رہے ہیں، توبہ کرتے ہوئے عبادت کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور سجدہ کرتے ہوئے اور اس کی حمد کرتے ہوئے، اللہ نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی اور سارے لشکر کو تنہا شکست دے دی۔ فتح مکہ کی طرف اشارہ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : مکہ آنے والے حاجیوں کا استقبال کرنا اور تین آدمیوں کا ایک سواری پر چڑھنا

حدیث نمبر : 1798
حدثنا معلى بن أسد، حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس ـ رضى الله عنهما ـ قال لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم مكة استقبلته أغيلمة بني عبد المطلب، فحمل واحدا بين يديه وآخر خلفه‏.‏
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے خالد نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو بنو عبدالمطلب کے چند بچوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بچے کو (اپنی سواری کے ) آگے بٹھا لیا اور دوسرے کو پیچھے۔

معلوم ہوا کہ حاجی کا آگے جاکر استقبال کرنا بھی سنت ہے مگر ہار پھول کا مروجہ رواج ایسا ہے جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں اور اس سے ریا، نمود، عجب کا بھی خطرہ ہے، لہٰذا اچھے حاجی کو ان چیزوں سے ضرور پرہیز کرنا لازم ہے ورنہ خطرہ ہے کہ سفر حج کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ رائیگاں جائیں اور بجائے ثواب کے حج الٹا باعث عذاب بن جائے کیوں کہ ریا، نمود، عجب ایسی بیماریاں ہیں جن سے نیک اعمال اکارت ہو جاتے ہیں۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اونٹ وغیرہ پر بشرطیکہ ان جانوروں میں طاقت ہو بیک وقت تین آدمی سواری کرسکتے ہیں، بنو عبدالمطلب کے لڑکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کو آئے اس سے خاندانی محبت جو فطری چیز ہے اس کا بھی ثبوت ملتا ہے۔ نوجوانان خاندان عبدالمطلب کے لیے اس سے بڑھ کر کیا خوشی ہوسکتی ہے کہ آج ان کے ایک بزرگ ترین فرد رسول معظم، سردار بنی آدم، فخر دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں مکہ شریف میں داخل ہورہے ہیں۔ آج وہ قسم پوری ہوئی جو قرآن مجید میں ان لفظوں میں بیان کی گئی” لا اقسم بہذا البلد“ توراۃ کا وہ نوشتہ پورا ہوا جس میں ذکر ہے کہ فاران سے ہزارہا قدسیوں کے ساتھ ایک نور ظاہر ہوا۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ بچوں سے پیار محبت، شفقت کا برتاؤ کرنا بھی سنت نبوی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : مسافر کا اپنے گھر میں صبح کے وقت آنا

حدیث نمبر : 1799
حدثنا أحمد بن الحجاج، حدثنا أنس بن عياض، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج إلى مكة يصلي في مسجد الشجرة، وإذا رجع صلى بذي الحليفة ببطن الوادي وبات حتى يصبح‏.‏
ہم سے احمد بن حجاج نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے عبید اللہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لے جاتے تو مسجد شجرہ میں نماز پڑھتے۔ اور جب واپس ہوتے تو ذو الحلیفہ کی وادی کے نشیب میں نماز پڑھتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک ساری رات وہیں رہتے۔

پھر مدینہ میں دن میں تشریف لاتے لہٰذا مناسب ہے کہ مسافر خاص طور پر سفر حج سے واپس ہونے والے دن میں اپنے گھروں میں تشریف لائےں کہ اس میں بھی شارع علیہ السلام نے بہت سے مصالح کو مد نظر رکھا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : شام میں گھر کو آنا

حدیث نمبر : 1800
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا همام، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال كان النبي صلى الله عليه وسلم لا يطرق أهله، كان لا يدخل إلا غدوة أو عشية‏.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سفر سے ) رات میں گھر نہیں پہنچتے تھے یا صبح کے وقت پہنچ جاتے یا دوپہر بعد (زوال سے لے کر غروب آفتاب تک کسی بھی وقت تشریف لاتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : آدمی جب اپنے شہر میں پہنچے تو گھر میں رات میں نہ جائے

حدیث نمبر : 1801
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا شعبة، عن محارب، عن جابر ـ رضى الله عنه ـ قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم أن يطرق أهله ليلا‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محارب بن دثار نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سفر سے ) گھر رات کے وقت اترنے سے منع فرمایا۔

یہ اس لیے کہ گھر میں بیوی صاحبہ نہ معلوم کس حالت میں ہوں، اس لیے ادب کا تقاضہ ہے کہ دن میں گھر میں داخل ہو تاکہ بیوی کو گھر کے صاف کرنے، خود صاف بننے کا موقعے حاصل رہے، اچانک رات میں داخل ہونے سے بہت سے مفاسد کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ حدیث جابر رضی اللہ عنہ میں فرمایا ”لتمتشط الشعثۃ“ تاکہ پریشان بال والی اپنے بالوں میں کنگھی کرکے ان کو درست کرلے اور اندرونی صفائی کی ضرورت ہو تو وہ بھی کرلے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : جس نے مدینہ طیبہ کے قریب پہنچ کر اپنی سواری تیز کردی (تاکہ جلد سے جلداس پاک شہر میں داخلہ نصیب ہو )

حدیث نمبر : 1802
حدثنا سعيد بن أبي مريم، أخبرنا محمد بن جعفر، قال أخبرني حميد، أنه سمع أنسا ـ رضى الله عنه ـ يقول كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قدم من سفر، فأبصر درجات المدينة أوضع ناقته، وإن كانت دابة حركها‏.‏ قال أبو عبد الله زاد الحارث بن عمير عن حميد حركها من حبها‏.‏ قال أبو عبد الله: زاد الحارث بن عمير، عن حميد: حركها من حبها. حدثنا قتيبة: حدثنا إسماعيل، عن حميد، عن أنس قال: جدرات. تابعه الحارث بن عمير.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، کہا کہ مجھے حمید طویل نے خبر دی انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے مدینہ واپس ہوتے اور مدینہ کے بالائی علاقوں پر نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے، کوئی دوسرا جانور ہوتا تو اسے بھی ایڑ لگاتے۔ ابوعبداللہ امام بخاری نے کہا کہ حارث بن عمیر نے حمید سے یہ لفظ زیادہ کئے ہیں کہ ” مدینہ سے محبت کی وجہ سے سواری تیز کردیتے تھے۔ “ ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے حمید طویل نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے، انھوں نے (درجات کے بجائے ) جدرات کہا، اس کی متابعت حارث بن عمیر نے کی۔

حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے وطن کی محبت کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے انسان جہاں پیدا ہوتا ہے، اس جگہ سے محبت ایک فطری جذبہ ہے، سفر میں بھی اپنے وطن کا اشتیاق باقی رہتا ہے۔ الغرض وطن سے محبت ایک قدرتی بات ہے اور اسلام میں یہ مذموم نہیں ہے مشہور مقولہ ہے ”حب الوطن من الایمان“ وطنی محبت بھی ایمان میں داخل ہے۔

”جدرات“ یعنی مدینہ کے گھروں کی دیواروں پر نظر پڑتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری تیز فرما دیتے تھے۔ بعض روایتوں میں ”دوحات“ کا لفظ آیا ہے یعنی مدینہ کے درخت نظر آنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وطن کی محبت میں سواری تیز کردیتے۔ آپ حج کے یا جہاد وغیرہ کے جس سفر سے بھی لوٹتے اسی طرح اظہار محبت فرمایا کرتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
صحیح بخاری -> کتاب العمرہ
باب : اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ گھروں میں دروازوں سے داخل ہوا کرو

حدیث نمبر : 1803
حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن أبي إسحاق، قال سمعت البراء ـ رضى الله عنه ـ يقول نزلت هذه الآية فينا، كانت الأنصار إذا حجوا فجاءوا لم يدخلوا من قبل أبواب بيوتهم، ولكن من ظهورها، فجاء رجل من الأنصار، فدخل من قبل بابه، فكأنه عير بذلك، فنزلت ‏{‏وليس البر بأن تأتوا البيوت من ظهورها ولكن البر من اتقى وأتوا البيوت من أبوابها‏}‏‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے کہ میں نے براءبن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی۔ انصار جب حج کے لیے آتے تو (احرام کے بعد ) گھروں میں دروازوں سے نہیں جاتے بلکہ دیواروں سے کود کر (گھر کے اندر ) داخل ہوا کرتے تھے پھر (اسلام لانے کے بعد ) ایک انصاری شخص آیا اور دروازے سے گھر میں داخل ہو گیا اس پر لوگوں نے لعنت ملامت کی تو یہ وحی نازل ہوئی کہ ” یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ گھروں میں پیچھے سے (دیواروں پر چڑھ کر ) آؤ بلکہ نیک وہ شخص ہے جو تقویٰ اخیار کرے اور گھروں میں ان کے دروازوں سے آیا کرو۔ “

تشریح : عہد جاہلیت میں قریش کے علاوہ عام غریب لوگ حج سے واپس ہوتے وقت گھروں کے دروازوں سے آنا معیوب سمجھتے اور دورازے کا سایہ سر پر پڑنا منحوس جانتے، اس لیے گھروں کی دیواروں سے پھاند کر آتے۔ قرآن مجید نے اس غلط خیال کی تردید۔ وہ آنے والا انصاری جس کا روایت میں ذکر ہے قطبہ بن عامر انصاری تھا۔ ابن خزیمہ اور حاکم کی روایت میں اس کی صراحت ہے اس کا نام رفاعہ بن تابوت بتایا ہے۔ قرآن مجید کی آیت مذکورہ اسلامی اساسی امور کے بیان پر مشتمل ہے۔ آنے والے بزرگ کی تفصیلات کے سلسلے میں حافظ ابن حجر کا بیان یہ ہے : فی صحیحہما من طریق عمار بن زریق عن الاعمش عن ابی سفیان عن جابر قال کانت قریش تدعی الحمس و کانوا یدخلون من الابواب فی الاحرام و کانت الانصار و سائر العرب لا یدخلون من الابواب فبینما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی بستان فخرج من بابہ فخرج معہ قطبۃ بن عامر الانصاری فقالوا یا رسول اللہ ان قطبۃ رجل فاجر فانہ خرج معک من الباب فقال ماحملک علی ذٰلک فقال رایتک فعلتہ ففعلت کما فعلت قال انی احمس قال فان دینی دینک فانزل اللہ الایۃ ( فتح الباری ) یعنی قریش کو حمس کے نام سے پکارا جاتا تھا اور صرف وہی حالت احرام میں اپنے گھروں میں دروازوں سے داخل ہو سکتے تھے، ایسا عہد جاہلیت کا خیال تھا اور انصار بلکہ تمام اہل عرب اگر حالت احرام میں اپنے گھروں کو آتے تو دروازے سے داخل نہ ہوتے بلکہ پیچھے کی دیوار پھاند کر گھر آیا کرتے تھے۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک باغ کے دروازے سے باہر تشریف لائے تو آپ کے ساتھ یہ قطبہ بن عامر انصاری بھی دروازے سے ہی آگئے۔ اس پر لوگوں نے ان کو لعن طعن شروع کی بلکہ فاجر تک کہہ دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے بھی ایسا کیا کیوں؟ تو انہوں نے کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے کیا تو آپ کی اتباع میں میں نے بھی ایسا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو حمسی ہوں انہوں نے کہا کہ حضور دین اسلام جو آپ کا ہے وہی میرا ہے۔ اس پر یہ آیت شریفہ نازل ہوئی۔
 
Top