- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
مکڑی ۔ایک معجزہ
پیش لفظ
ہو سکتا ہے کہ بعض قارئین یہ خیال کریں گے کہ اس کتاب کا موضوع ان کے نزدیک دلچسپ نہیں۔وہ یہ سوچیں گے کہ ایک ننھے سے کیڑے پر مبنی کتاب میں ان کے لئے کچھ نہیں رکھا اور مصروف رفتارِ زندگی میں ان کے پاس ایسی کتاب کے مطالعے کا وقت بھی نہیں بچتا۔
ہو سکتا ہے یہی لوگ پھر یہ محسوس کریں کہ معاشی اور سیاسی تحقیق پر کتب یا ایک ناول ، نسبتاً زیادہ دلکش اور ’’کارآمد‘‘ ہو ں گے۔ یا پھر وہ خیال کریں گے کہ دیگر مضا مین پرکتابیں ان کے لئے زیادہ دلچسپی کا باعث ہوں گی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب جو اس وقت قاری کے ہاتھ میں ہے ان بیشمار کتابوں سے زیادہ ’مفید‘ ثابت ہوگی جن کا وہ اب تک مطالعہ کر چکا ہے اور اُن سے کہیں زیادہ معلومات پیش کرے گی۔ کیونکہ یہ کتاب، حیاتیات (Biology) کی درسی کتاب نہیں جو ایک ننھے سے جانور ’ مکڑی ‘ پر مفصل معلومات فراہم کرنے کے لئے تحریر کی گئی ہو۔ کتاب کا موضوع ’مکڑی‘ ضرور ہے مگر اس کی اصل اہمیت زندگی کی اس اصلیت سے وابستہ ہے کہ جسے یہ بے نقاب کرتی ہے، اور اس پیغام میں پوشیدہ ہے جو یہ پیش کرتی ہے۔
بالکل ایک چابی کی طرح ۔۔۔ چابی ایک ایسا آلہ ہے جو بذاتِ خود بہت غیر اہم ہے۔ اگر آپ یہ کسی ایسے شخص کو تھما دیں جس نے یہ پہلے کبھی نہ دیکھی ہو اور اسی لاعلمی کی بناء پر چابی اور تالے کے باہمی تعلق سے بھی ناواقف ہو تو اسے اپنے ہاتھ میں تھمائی گئی یہ چیز (چابی) بے معنی اور لوہے کا ایک بے کار ٹکڑا معلوم ہوگی۔ حالانکہ اگر دروازے کے پیچھے کوئی بہت ہی قیمتی چیز، تالے میں بند کرکے رکھی گئی ہو تو اس موقع پر(اس تالے کی) چابی ہی دنیا کی سب سے قیمتی شے ثابت ہو سکتی ہے۔
یہ کتاب لکھنے کا مقصد صرف یہ نہیں کہ مکڑی کو کتاب کا موضوع بنادیا جائے، بلکہ یہاں اسے بطور ’چابی‘ استعمال میں لانا ہے اور اس چابی سے کھلنے والے دروازے کے پیچھے واقع حقیقت(reality) وہ عظیم ترین سچائی ہے جسے کوئی بھی شخص اپنی زندگی میں کسی بھی وقت دریافت کر سکتا ہے۔ کیونکہ اس حقیقت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نظریۂ ارتقاء جو حق کو جھٹلانے والوں نے پیش کیا ہے ، کسقدر بے بنیاد ہے ۔اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں چند سوالات کے جوابات بھی فراہم کئے ہیں۔ایسے جوابات جن کا بنی نوانسان ازل سے متلاشی ہے۔’میں کون ہوں؟‘، ’مجھے اور کائنات کو کیسے تخلیق کیا گیا؟‘اور ’زندگی کا مقصد ومطلب کیا ہے؟‘ ان بنیادی سوالوں کے جواب ہی دروازے کے پیچھے واقع حقیقت ہیں۔
ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ بنی نو انسان اور کائنات، جس کے وہ (انسان) مکین ہیں،آخری (یعنی معمولی اور مختصر ترین) جزو تک صرف اور صرف ایک ہی خالق، اللہ تعالیٰ نے تخلیق کئے ہیں۔ان کا اپنا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود ہے، اور انہیں اسی خالق کا اقرار کرنے اور اسی کی حمد و ثنا کے لئے یہ وجود بخشا گیا ہے۔وہ خالق جو عیب اور خامیوں سے بالاتر ہے اور لامحدود طور پر طاقتور ہے ،اللہ تعالیٰ ہی ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی بھی انسان کے وجود کی واحد وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی اور کائنات کی تخلیق پر غوروفکر کرے اور اﷲتعالیٰ کی عبادت کرے جو ہر شے کا مالک ہے۔
یہ سمجھ اور فہم حاصل کرنے کے لئے ذرا سی سعی و کوشش درکار ہوتی ہے۔اسی کوشش کا ایک حصہ ہر چیز کا مشاہدہ کرنا،اس پر غوروفکر کرنا اور اس میں موجود پیغام کو سمجھنا ہے۔کیونکہ وجود رکھنے والی ہر چیز بالعموم اور کائنات کی ہر ذی روح شے بالخصوص، اللہ تعالیٰ کے وجود کی نشانی ہے اور اس کی ذات کی گواہی دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید کی مندرجہ زیل آیت کی جانب ہمیں متوجہ کرتا ہے جو اس نے اپنے تخلیق کردہ انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لئے نازل کی۔
إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللَّـهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ﴿١٦٤﴾
’’جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں ،رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں،ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لئے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں ، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے، ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں،بیشمار نشانیاں ہیں‘‘۔(سورۃ البقرہ:۱۶۴)
اگر جائزہ لیا جائے تودرج بالا آیت میں قرآنِ مجیدنے جن امور کا اظہار کیا ہے وہ بہت سے لوگوں کی نظر میں بالکل عام اور معمولی واقعات ہوں گے۔ رات اور دن کا یکے بعد دیگرے آنا، کشتیوں کا ڈوبنے کے بجائے تیرنا، بارش کا مٹی کو زندگی بخشنا، ہواؤں اور بادلوں کی جنبش۔۔۔ دورِ جدید کے انسان کا خیال ہے کہ ان تمام امور کی سائنس اور میکانیکی استدلال کے ذریعے وضاحت کی جاسکتی ہے اور اسی وجہ سے اس کے نزدیک ان تمام امور میں حیرت کا کوئی عنصر موجود نہیں۔تاہم سائنس محض ظاہری مادی سچائیوں پر غور کرتی ہے اور کبھی بھی سوال ’کیوں‘ کا جواب فراہم نہیں کر سکی۔ بے خبری اور لاعلمی کی یہ کیفیت ، جو دنیا میں چھائے بے دین معاشرتی طبقے کی پیداوار ہے، لوگوں کو ان آیات پر غور کرنے اور ان کے پیچھے واقع مختلف معنوں کو سمجھنے سے روکتی ہے۔فی الحقیقت قرآنِ مجید میں ارشاد ہے کہ صرف ’غوروتدبر کرنے والے‘ ہی ان آیات کی نوعیت کا ادراک کر سکتے ہیں۔
’غوروتدبر کرنے والوں‘ کے لئے بنیادی طور پر کائنات کا ہر حصہ ایک نشانی کی حیثیت رکھتا ہے یا دوسرے الفاظ میں سچائی کے دروازے کی کنجی ہے۔چونکہ کائنات قریباً لاتعداد حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہے اسی لئے چابیوں اور دروازوں کی تعداد بھی تقریباً لامحدود ہے۔تاہم کبھی کبھار کسی شخص کوسچا راستہ دکھانے کے لئے صرف ایک ہی دروازہ کھول دینا کافی ہوتا ہے۔ کائنات میں سے اخذ کیا گیا ایک حصہ ، مثال کے طور پر ایک پودا یا جانور، سچائی کے متلاشی کو تمام کائنات کو سمجھ لینے کے قریب لا سکتا ہے۔اسی وجہ سے قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ اللَّـهَ لَا يَسْتَحْيِي أَن يَضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا ۚ فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۖ وَأَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّـهُ بِهَـٰذَا مَثَلًا ۘ يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ ﴿٢٦﴾
’’ ہاں اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے‘‘،کیونکہ ’’ جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے‘‘۔(سورۃ البقرہ:۲۶)
مکڑی اور مچھر جیسے ننھے جانوروں کا قرآنی آیات میں تذکرہ موجود ہے۔جس طرح لوگ مچھر کو ایک غیر اہم جانورتصور کرتے ہیں اُسی طرح مکڑی بھی خاص اہمیت کی حامل نہیں ، مگر ’ غوروفکر کرنے والے‘ان معجزات کو دیکھ سکتے ہیں جن کے بارے میں یہ آیات ہمیں بتاتی ہیں۔ان چھوٹے جانوروں میں سے ہر ایک کو ’چابی‘ کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور یہ مخلوقِ خدا کی جامعیت و اکملیت کو ظاہر کرنے کے لئے دروازہ کھولتے ہیں۔اور یہ کتاب بھی، جو مکڑی کی ایسی حیران کن اور ناقابلِ یقین خصوصیات بیان کرتی ہے جو بہت کم لوگ جانتے ہیں، اور جو دورانِ بیان ’کیسے‘ اور ’کیوں‘ جیسے سوالات بھی اٹھاتی ہے، اسی بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے لکھی گئی ہے۔ صرف یہی وجہ ہے کہ یہ کتاب ان بیشمار کتابوں سے زیادہ اہم ہے جن کا آپ اب تک مطالعہ کر چکے ہیں کیونکہ ’غوروفکر کرنے والوں‘ میں شامل ہو جانا کسی بھی شے سے زیادہ ضروری ہے۔
وَسَخَّرَ لَكُم مَّا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مِّنْهُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ﴿١٣﴾
’’اس نے زمین اور آسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لئے مسخر کر دیا، سب کچھ اپنے پاس سے ۔اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جوغوروفکرکرنے والے ہیں۔‘‘(سورۃ الجاثیہ:۱۳)
(THE MIRACLE IN THE SPIDER)
مصنف: ہارون یحيٰ
مترجم: افشین عبدالحمید لودھی
مصنف: ہارون یحيٰ
مترجم: افشین عبدالحمید لودھی