جناب -
پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں الله رب العزت کا فرمان ہے کہ:
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ سوره المائدہ ٤٨
ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور واضح راہ مقرر کر دی ہے-
یعنی ہر نبی کو ایک شریعت ملتی ہے - ایک ہی زمانہ میں اگر کئی نبی آئے توان کی شریعت میں اختلاف ضروری نہیں تھا، حضرت لوطؑ علیہ سلام اور حضرت ابراہیمؑ علیہ سلام کا زمانہ ایک تھا اور اسی طرح ہارون علیہ سلام و موسیٰؑ علیہ سلام کا زمانہ ایک تھا- لیکن ان کی شریعتیں متحد تھیں، اس کے علاوہ پچھلی شریعتوں کے احکام جب اللہ و رسول نے علی الاطلاق بیان کردیئے ہیں تویہ شریعت محمدیہ کا بھی جزو بن گئے-
لہذا آپ کی بات سرے سے غلط ہے کہ " ہر نبی کو شریعت لانا لازم نہیں ہے" -قرآن کی نصوص سے واضح ہے کہ الله رب العزت کی طرف سے ہر نبی کو الگ الگ شریعت دی گئی ہے-
آپ کی یہ بات بھی غلط ہے کہ "ضرورت نہیں تو یہ آپ نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر بہتان باندھا ہے کہ بغیر ضرورت ایک نبی کے آنے کی خبر دی ہے"-
جناب - حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی آمد کی ضرورت اس بنیاد پر ہے کہ وہ امّت محمّدیہ کو متحد کریں گے- ان کی حیثیت ایک نبی کی نہیں امتی کو ہوگی- حضرت عیسیٰ علیہ سلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ مذہبی اعتبار سے دنیا کی کثیر آبادی ان نفوس پر مشتمل ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ سلام کے پیروکار ہونے کے دعوے دار ہیں- ان کا آنا بلا تشبیہ اسی نوعت کا ہوگا جیسے ایک صدر ریاست کے دور میں کوئی سابق صدر آئے اور وقت کے صدر کی ماتحتی میں مملکت کی کوئی خدمت انجام دے۔ ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ایک صدر کے دور میں کسی سابق صدر کے محض آجانے سے آئین نہیں ٹوٹتا۔ ۔
یہی معاملہ حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی آمد ثانی کا بھی ہے کہ ان کے محض آجانے سے ختم نبوت نہیں ٹوٹتی ۔ البتہ اگر وہ آکر پھر نبوت کا منصب سنبھال لیں اور فائض نبوت انجام دینے شروع کردیں، یا کوئی شخص ان کی سابق نبوت کابھی انکار کردے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے آئین نبوت کی خلاف ورزی لازم آتی۔ احادیث نے پوری وضاحت کے ساتھ دونوں صورتوں کا سد باب کردیا ہے۔ ایک طرف احادیث تصریح کرتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ اور دوسری طرف وہ خبر دیتی ہیں کہ عیسی ابن مریم علیہ السلام دوبارہ نازل ہوںگے۔ اس سے صاف ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان کی یہ آمد ثانی منصب نبوت کے فرائض انجام دینے کے لیے نہ ہوگی۔
اسی طرح ان کی آمد سے مسلمانوں کے اندر کفر و ایمان کا بھی کوئی نیا سوال پیدا نہ ہوگا۔ ان کی سابقہ نبوت پر تو آج بھی اگر کوئی ایمان نہ لائے تو کافر ہوجائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود عیسیٰ علیہ سلام کی اس نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری امت ابتداء سے عیسیٰ علیہ سلام کو نبی برحق تسلیم کرتی آئی ہے۔ یہی چیز اس وقت بھی ہوگی۔ مسلمان ان کو ایک سابقہ نبی ہی تسلیم کریں گے نا کہ کسی تازہ نبوت پر ایمان لائیںگے۔ یہ چیز نہ آج ختم نبوت کے خلاف ہے نہ اس وقت ہوگی-
اور آپ کی یہ کہنا کہ "یہ چیز صریح طور پر حدیث کے خلاف ہے کہ : نہ توحضرت عیسیٰ علیہ سلام پر کوئی الله کی طرف سے وحی نازل ہوگی : صحیح مسلم کی حدیث میں واضح موجود ہے کہ ان پر وحی نازل ہوگی"
توا س کی وجہ قرآن فہمی سے نابلد ہونا ہے - آپ نے صحیح مسلم میں عیسیٰ علیہ سلام سے متعلق نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے قول "الله عیسیٰ پر وحی کرے گا" کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کیا ہے جس بنا پر آپ کو یہ بات حدیث مخالف لگ رہی ہے-
جب کہ اگر ہم قرآن کی آیات پر غور کریں تو تو ہمیں معلوم ہو گا کہ وحی کے لغوی معنی ہیں لکھنے، اشارہ کرنے، کسی کو بھیجنے، الہام اور کلامِ خفی وغیرہ اور اسی پر وحی کا اطلاق کیا جاتا ہے- عمومی طور پر تو وحی صرف انبیاء کی نبوت کی دلیل ہے- جو خدائی احکامات انبیاء پر نازل کرنے کا ایک ذریعہ ہے- لیکن اس کو اگر وسیع معنوں میں لیا جیے تو یہ وحی صرف انبیاء کرام پر ہی نہیں غیر انبیاء پربھی نازل ہوتی ہے یا ہوتی رہی ہے -
اس زمن میں ملاحظه ہوں قرآن کی کچھ آیات :
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا شَـيٰطِيْنَ الْاِنْسِ وَالْجِنِّ يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا سوره الانعام ١١٢
اور اس طرح ہم نے سرکش انسانوں اور جنوں کو ہرنبی کا دشمن بنادیا جو خفیہ طور سے ملمع کی ہوئی جھوٹی باتیں (لوگوں کو) دھوکا دینے کے لیئے ایک دوسرے پروحی کرتے ہیں۔
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنْ يُّكَلِّمَهُ اللّٰهُ اِلَّا وَحْيًا اَوْ مِنْ وَّرَاۗئِ حِجَابٍ اَوْ يُرْسِلَ رَسُوْلًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهٖ مَا يَشَاۗءُ ۔ سورہ الشوری: ٥١
اور کوئی بشر اس لائق نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے، مگر وحی سے یا پردے کے پیچھے سے ، یا کوئی فرشتہ بھیج دے جو اس کے حکم سے وہ پہنچائے جو اللہ چاہے۔
وَاَوْحَيْنَآ اِلٰٓى اُمِّ مُوْسٰٓى اَنْ اَرْضِعِيْهِ ۔ سورہ القصص ٧
اور ہم نے موسیٰ علیہ سلام کی ماں پر وحی فرمائی کہ ان کو دودھ پلاؤ۔
وَاَوْحٰى رَبُّكَ اِلَى النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِيْ مِنَ الْجِبَالِ بُيُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُوْنَ ۔سورہ النحل ٦٨
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی پر وحی بیھجی کہ پہاڑوں میں، درختوں میں اور ان چھپریوں میں گھر بنا جنہیں لوگ اونچا بناتے ہیں۔
ان تمام قرآنی آیات میں وحی کی نسبت غیر نبی کی طرف کی گئی ہے- لہذا صحیح مسلم کی حدیث قرآن سے کسی بھی طور متعارض نہیں ہے- اور نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے قول "الله عیسیٰ پر وحی کرے گا" کو وسیع معنی میں لیا گیا ہے- اس سے یہ معنی لینا کہ عیسیٰ علیہ سلام پر کسی نئی شریعت یا خدائی احکامات سے متعلق وحی نازل ہو گی گمراہ کن عقیدہ ہے-حضرت عیسیٰ آمد ثانی کے بعد بھی محمّد صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی نبوت پر ایمان رکھیں گے کسی نئی شریعت کا اعادہ نہیں کریں گے- (واللہ اعلم)-
پہلے وہ باتیں آپ کی لکھتا ہوں جو خود سے آپ نے بنا لیں اور میری طرف منسوب کر دیں ؛اس سے یہ معنی لینا کہ عیسیٰ علیہ سلام پر کسی نئی شریعت یا خدائی احکامات سے متعلق وحی نازل ہو گی گمراہ کن عقیدہ ہے-حضرت عیسیٰ آمد ثانی کے بعد بھی محمّد صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی نبوت پر ایمان رکھیں گے کسی نئی شریعت کا اعادہ نہیں کریں گے۔
یہ میں کہاں لکھا تھا کہ نئی شریعت آسکتی ہے یا تشریعی وحی کا نزول ہوسکتا ہے ؟ میں تو خود قائل ہوں کہ شریعت محمدی قیامت تک کے لیے ہے اور تشریعی وحی اس لیے اب ممکن نہیں اور نہ ایسی نبوت جو نئی شریعت کی بات کرے اور آپ نے جو آیات نقل کی ہیں وہ ہمارے موقف کے حق میں ہیں :
جیسا کہ یہ آیت آپ نے پیش کی : اور ہم نے موسیٰ علیہ سلام کی ماں پر وحی فرمائی کہ ان کو دودھ پلاؤ۔ :
اس سے ثابت ہوا کہ غیر تشریعی بھی وحی ہو سکتی ہے ، بلکہ عورت اور غیر نبی کو بھی ، اس لیے امت کے اولیاء کے وحی الہام کے دعویٰ کو جو رد کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں ۔ اور اس کے حق میں آپ خود یہ بات لکھ چکے ہیں کہ : لیکن اس کو اگر وسیع معنوں میں لیا جیے تو یہ وحی صرف انبیاء کرام پر ہی نہیں غیر انبیاء پربھی نازل ہوتی ہے یا ہوتی رہی ہے - :
اور آپ کا یہ قیاس کہ : مسلمان ان کو ایک سابقہ نبی ہی تسلیم کریں گے نا کہ کسی تازہ نبوت پر ایمان لائیںگے۔ یہ چیز نہ آج ختم نبوت کے خلاف ہے نہ اس وقت ہوگی- : یہ اس لیے غلط ہے کہ قرآن نے حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت کو محض بنی اسرائیل تک رکھا ہے ۔ سورة الصف کی آیت 6 میں یہ فرما کر :
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۔۔
اور جب کہا عیسی ابن مریم نے کہ اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف رسول ہوں ۔
ایسے قرآن میں چند اور مقامات پر بھی حضرت عیسی علیہ السلام کا تعلق محض بنی اسرائیل سے بتایا گیا ہے ، جبکہ شریعت محمدی تو تمام دنیا کے لیے ہے کسی ایک یا دو قوم کے لیے نہیں ۔
اور آپ کی یہ قیاس بازی جو میں پہلے ہزار دفعہ سن چکا ہوں کہ : حضرت عیسیٰ علیہ سلام کی آمد کی ضرورت اس بنیاد پر ہے کہ وہ امّت محمّدیہ کو متحد کریں گے- ان کی حیثیت ایک نبی کی نہیں امتی کو ہوگی- حضرت عیسیٰ علیہ سلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ مذہبی اعتبار سے دنیا کی کثیر آبادی ان نفوس پر مشتمل ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ سلام کے پیروکار ہونے کے دعوے دار ہیں- ان کا آنا بلا تشبیہ اسی نوعت کا ہوگا جیسے ایک صدر ریاست کے دور میں کوئی سابق صدر آئے اور وقت کے صدر کی ماتحتی میں مملکت کی کوئی خدمت انجام دے۔ ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ایک صدر کے دور میں کسی سابق صدر کے محض آجانے سے آئین نہیں ٹوٹتا۔ ۔
اس میں آپ کی یہ بات تو واضح غلط ہے : ان کی حیثیت ایک نبی کی نہیں امتی کو ہوگی : ایک تو سورۃ صف میں ، سورۃ مریم میں اور دیگر مقامات میں جو ان کا رسول نبی ہونا لکھا ہے ، اگر وہ واپس آئیں نبوت کے بغیر تو آیات قرآنی کا انکار کرنا پڑے گا ۔
وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ ۔۔ سورۃ صف کی آیت 6 سے ہے یہ
قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ آتَانِيَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا {30} ۔۔ اور یہ سورۃ مریم سے
اور پھر قرآن سے وفات بھی ثابت ہے ان کی اس لیے واپسی والا آپ کا خیال یوں بھی غلط ہی ہے ۔
آپ کی صدر والی مثال بھی محض خود ساختہ ہے جو میں جانتا ہوں کن لوگوں کی بنائی ہوئی ہے ، جواب یہ ہے کہ کوئی صدر مرنے کے بعد نہیں واپس آتا اور پرانے صدر کو بلانے کی ضرورت تب پڑے اگر موجودہ صدر اور اس کی پوری قوم نکمی ہو جائے اور کوئی بھی خدمت کرنے کے لائق نہ ہو ۔ یہ صرف آپ کی قیاس پر بنے سوال کا جواب دیا ہے ورنہ سوال بھی یہ شرعی دلیل پر مبنی نہیں ہے ۔
اور آپ میری باتوں کے جواب دینے کی موشش میں خود پھنس گئے ہیں ،
یہ آپ نے میری بات نقل کر کے جو جواب دیا دیکھیں :
اور آپ کی یہ کہنا کہ "یہ چیز صریح طور پر حدیث کے خلاف ہے کہ : نہ توحضرت عیسیٰ علیہ سلام پر کوئی الله کی طرف سے وحی نازل ہوگی : صحیح مسلم کی حدیث میں واضح موجود ہے کہ ان پر وحی نازل ہوگی"
توا س کی وجہ قرآن فہمی سے نابلد ہونا ہے - آپ نے صحیح مسلم میں عیسیٰ علیہ سلام سے متعلق نبی کریم صل الله علیہ و آ لہ وسلم کے قول "الله عیسیٰ پر وحی کرے گا" کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کیا ہے جس بنا پر آپ کو یہ بات حدیث مخالف لگ رہی ہے-
جب کہ اگر ہم قرآن کی آیات پر غور کریں تو تو ہمیں معلوم ہو گا کہ وحی کے لغوی معنی ہیں لکھنے، اشارہ کرنے، کسی کو بھیجنے، الہام اور کلامِ خفی وغیرہ اور اسی پر وحی کا اطلاق کیا جاتا ہے- عمومی طور پر تو وحی صرف انبیاء کی نبوت کی دلیل ہے- جو خدائی احکامات انبیاء پر نازل کرنے کا ایک ذریعہ ہے- لیکن اس کو اگر وسیع معنوں میں لیا جیے تو یہ وحی صرف انبیاء کرام پر ہی نہیں غیر انبیاء پربھی نازل ہوتی ہے یا ہوتی رہی ہے - :
میں نے وحی نازل نہ ہونے کے دعویٰ کو جو حدیث سے رد کیا ، اس کا آپ جواب تو نہیں بنا سکے ، بلکہ وحی کی اقسام میں پڑ گئے جس سے خود ثابت ہوتا ہے کہ وحی تو ان پر ہوگی قسم بے شک آپ سوچتے رہیں ۔
اور آپ نے آیت کے ساق و سباق سے ہٹ کر جھوٹ سے کام لیا ہے یہاں : پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن میں الله رب العزت کا فرمان ہے کہ:
لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ سوره المائدہ ٤٨
ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور واضح راہ مقرر کر دی ہے-
یعنی ہر نبی کو ایک شریعت ملتی ہے - ۔۔۔۔۔۔
سورۃ مائدہ کی یہ آیت سے آپ نے ہر نبی کے لیے الگ شریعت کی بات نکالی ، پوری آیت :
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ الْكِتَابِ وَمُهَيْمِنًا عَلَيْهِ ۖ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ ۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ عَمَّا جَاءَكَ مِنَ الْحَقِّ ۚ لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا ۚ وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِنْ لِيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ {48}
اور ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اپنے سے اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور ان کی محافﻆ ہے۔ اس لئے آپ ان کے آپس کے معاملات میں اسی اللہ کی اتاری ہوئی کتاب کے ساتھ حکم کیجیئے، اس حق سے ہٹ کر ان کی خواہشوں کے پیچھے نہ جائیے تم میں سے ہر ایک کے لئے ہم نے ایک دستور اور راه مقرر کردی ہے۔ اگر منظور مولیٰ ہوتا تو تم سب کو ایک ہی امت بنا دیتا، لیکن اس کی چاہت ہے کہ جو تمہیں دیا ہے اس میں تمہیں آزمائے، تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو، تم سب کا رجوع اللہ ہی کی طرف ہے، پھر وه تمہیں ہر وه چیز بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہتے ہو ۔ یہ ترجمہ
http://quran.com/ سے نقل کیا ہے ۔
آپ کا یہ لکھنا کر کہ : ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت : اور اس سے ہر نبی کی الگ شریعت نکال لینا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ نے اس سے پہلی آیات اور خود یہ آیت بھی غور سے نہیں پڑھی ۔
چند آیات قبل ہی یہ موجود ہے کہ :
إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَاةَ فِيهَا هُدًى وَنُورٌ ۚ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوا لِلَّذِينَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَالْأَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ وَكَانُوا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ ۚ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ وَلَا تَشْتَرُوا بِآيَاتِي ثَمَنًا قَلِيلًا ۚ وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ {44}
ہم نے تورات نازل فرمائی ہے جس میں ہدایت ونور ہے، یہودیوں میں اسی تورات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے ماننے والے انبیا (علیہم السلام) اور اہل اللہ اور علما فیصلے کرتے تھے کیونکہ انہیں اللہ کی اس کتاب کی حفاﻇت کا حکم دیا گیا تھا۔ اور وه اس پر اقراری گواه تھے اب تمہیں چاہیئے کہ لوگوں سے نہ ڈرو اور صرف میرا ڈر رکھو، میری آیتوں کو تھوڑے تھوڑے مول پر نہ بیچو، جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں وه (پورے اور پختہ) کافر ہیں ۔
یہ لیں جناب اللہ خود فرما رہا ہے کہ تورات سے انبیاء فیصلے کرتے تھے ، ایک شریعت سے انبیاء فیصلہ کرتے رہے اور آپ نے نہ جانے کہاں سے سن لیا کہ ہر نبی کو الگ شریعت لانا ضروری ہے ،۔
اب میں یہ باتیں ثابت کر چکا ہوں :
شرعی نبی کے علاوہ بھی نبی ہوتا ہے جو اس کا امتی ہو کر اس کی شریعت سے ہی فیصلہ کرتا ہے ۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی نبوت بنی اسرائیل کے لیے ہے اور یہ بات قیامت تک کے لیے ہے بوجہ قرآنی آیت ۔
حضرت عیسی علیہ السلام کا نبوت سے الگ ہو کر آنا اور ایسی قیاس آرائیاں قرآن و حدیث کے خلاف ہیں ۔
آخر میں درخواست ہے کہ قرآن خود غور سے پڑھا کریں ، آپ جن کتب سے چند آیات کے حوالہ جات دیکھ کر غلط دلیل نکال رہے ہوتے ہیں ، اسی قیاس آرائی کا رد خود قریبی آیات اور پورے قرآن میں ہوتا ہے ۔
والسلام
احسان احمد