اور آپ کی یہ بات کہ : پھر جناب قرآن مجید کے اسلوب بیان سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کی امت اجابت کو یا ایھا لذین امنو سے مخاطب کیا جاتا ہے اور امت دعوت کو یا ایھاالناس سے خطاب ہو تا ہے۔قرآن میں کہیں بھی آپ کی امت کو یابنی آدم سے خطاب نہیں کیا گیا ۔جو اس امر کی دلیل ہے کہ آیت بالا میں حکایت ہے حال ماضیہ کی۔
یہ آپ کو خود بھی نہیں پتہ کہ آپ نے کہا کیا ہے ، آیات کا سیاق و سباق پڑھیں جناب۔
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ {33}
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ{34}
یہ دونوں اس آیت سے پہلی آیات ہیں ، اور یہاں قل کہہ کر مخاطب آنحضرت ﷺ کو کیا گیا ہے تو آپ کا سے قصہ ماضی قرار دینا جہالت محض ہے ،۔
اور آپ کا قول کہ : پھر اگلی بات اما حرف شرط ہے۔جس کا تحقق ضروری نہیں، یاتینکم مضارع ہے اور ہر مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں،جیسا کہ فرمایا فاما ترین من البشر احدا(مریم 26)کیاحضرت مریم قیامت تک زندہ رہیں گی اور کسی بشر کو دیکھتی رہیں گی؟مضارع اگرچہ استمرار کے لئے بھی آتا ہے۔مگر استمرار کے لئے قیامت تک رہنا ضروری نہیں،جو فعل دوچار پایا جائے اس کے لئے مضارع استمرار سے تعبیر کرنا جائز ہے ۔
جنا ب مجھے پتہ ہے کہ آپ نے یہ کہاں کہاں سے نقل کیا جس کا مطلب آپ کو خود نہیں معلوم ہے ، اور یاتین میں جو نون ثقلیہ ہے یہ مضارع میں مستقبل کے لیے ہی آتا ہے یہ تو آپ کی بنیادی صرف کی کتب میں موجود ہے۔
13854 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
13855 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں