• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نایاب اور پرانی کتب حاصل کریں

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اور تیس دجال والی روایت موجود ہے تو ایک نبی کے آنے کی خبر بھی موجود ہے ، اور صحیح مسلم کی شرح اکمال میں 600 سال قبل یہ اعتراف موجود ہے کہ یہ روایت والی تعداد مکمل ہوگئی ۔
یہ دونوں باتیں غلط ہیں ؛
صحیح مسلم کی شرح اکمال ۔600 سال قبل ،نہیں لکھی گئی ،
دوسری بات کہ :جھوٹے نبیوں کی تعداد پوری ہوگئی ۔۔یہ بداہۃ غلط ہے،،اس لئے کہ اس معنی تو یہ ہے اب جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا
وہ اپنے دعوی میں سچا ہوگا ۔۔۔۔۔اور یہ بات تو کوئی ’’ پنجابی متنبی ‘‘ بھی نہیں مانتا۔۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
مرزا صاحب کی وفات لاہور میں ہوئی بستر پر چند قریبی احباب کے سامنے ،۔
عبرت ناک انجام :

بعض گناہوں کی سزا کی ایک جھلک اللہ تعالی دنیا ہی میں دکھا دیتے ہیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔مرزا غلام احمد قادیانی کا گناہ تو بہت بڑا تھا وہ صرف خود گمراہ نہیں ہوا بلکہ نہ معلوم کتنوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی کےنام اعمال کو سیاہ تر کرتا جا رہا ہے۔

اللہ تعالی بھی شاید انکے انجام کی ایک جھلک اپنے بندوں کو دکھانا چاہتا تھا۔ ہوا یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے علماء اسلام میں مولانا ثناء اللہ امرتسری سے مباہلہ کیا کہ اگر آپ حق پر ہیں تو میری موت پہلے ہوگی اور اگر میں حق پر ہوں تو آپ کی وفات مجھ سے پہلے ہوگی اور جو باطل پر ہوگا اللہ اسے کسی مہلک بیماری طاعون ہیضہ وغیرہ میں مبتلا کریگا۔مرزا غلام احمد قادیانی اس مباہلہ کے ایک سال بعد 25 مئی سنہ 1908 عیسوی کو لاہور میں بعد نماز عشاء اسہال میں مبتلا ہوااسہال کے ساتھ استفراغ بھی تھا بالآخر 26 مئی بروز منگل دن چڑھے مرزا غلام احمد قادیانیکا انتقال ہو گیا۔ نعش قادیان لے جائی گئی ، 27مئی 1908 عیسوی کو تدفین عمل میں آئی۔اور مولانا ثناء اللہ امرتسری مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات کے بعد پورے چالیس برس زندہ رہے، آپ کا انتقال 15 مارچ سنہ 1948 عیسوی میں اسی برس کی عمر میں ہوا۔

مرزا غلام احمد قادیانی کی موت کے بعد ان کے پیروکار دو جماعتوں میں بٹ گئے ایک جماعت احمدی کہلائی جو آپ کو مبلغ اسلام مانتی ہے اور دوسری قادیانی جو آپ کو نبی مانتی ہے۔


http://forum.mohaddis.com/threads/ہندوستانی-دجال-احمد-قادیانی-کی-موت.708/
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جہنم سے پہلے جہنم ۔ قادیانی خلیفوں کا عبرت ناک انجام

مجھے یقین ہے کہ اگر قادیانی زندیق اپنے مرزا جی کے کافرانہ عقائد، توہین انبیاء اکرام و اکابرین ملت میں لکھی اس کی گستاخانہ تحریریں کھلے ذہن کے ساتھ پڑھیں اور پھراس کے ہولناک انجام سےعبرت حاصل کریں تو کانوں کو ہاتھ لگا کرقادیانیت کو خیرباد کہہ دیں۔ مرزا غلام قادیانی کی بیت الخلا میں دردناک موت کے احوال کے بارے تو اکثر و بیشتر مسلمان اورخود قادیانی حضرات بھی خوب جانتے ہیں۔ لیکن یہاں میں مرزا جی کے خلیفوں کی عبرت انگیز اموات کا وہ حال درج کر رہا ہوں جس سے سب مسلمان تو شاید آگاہ نہ ہوں لیکن ہاں ہر قادیانی زندیق ضرور واقف ہے۔ امید کرتا ہوں کہ میرے یاد دلانے پران کے دلوں کے قفل کھلیں اور وہ قادیانیت سے تائب ہو کر دائرہء اسلام میں لوٹ آئیں۔
مرزا غلام قادیانی کے آنجہانی ہونے کے بعد اس کا پہلا خلیفہ حکیم نورالدین تھا جو خود مرزا جی کی ہی روایت کے مطابق ایک ایسا غلیظ المزاج اور بدبودار شخص تھا کہ جو مدتوں تک نہ نہاتا تھا اور نہ ہی اپنے بال اور ناخن تراشتا تھا۔ مگر اس کے گھوڑے پر بیٹھنے کا انداز انتہائی تکبرانہ اور شاہانہ ضرور تھا۔ یاد رہے کہ حضرت علامہ اقبال رحمۃ علیہ ہر اس محفل میں شرکت کرنے سے صاف انکار کر دیتے تھے، جہاں یہ بدبخت شخص مدعو ہوتا تھا۔ ایک دن یہ بدبخت گھوڑے پر سوار ہو کے نکلا تو گھوڑے کے بدکنے پر نیچے گرتے ہوئے اپنا ایک پاؤں گھوڑے کی رکاب میں پھنسا بیٹھا۔ پاؤں رکاب میں پھنسا رہا اور گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہوا خلیفہ جی کو گھسیٹتا اوراس کی ہڈیاں چٹخاتا رہا۔ اس حادثے میں نامراد خلیفہ زندہ تو بچ گیا مگر قدرت کو اس منکر ختم نبوت کی عبرت ناک موت زمانے کو دکھنا منظور تھا۔ زخم ناسور کی شکل اختیار کر کے پہلے اذیت ناک اور مابعد جان لیوا ثابت ہوئے۔ سارے قادیانی حکیم اور قادیانیوں کے سرپرست انگریز ڈاکٹرز تک اس بد بخت حکیم کا علاج کرنے میں ناکالم رہے۔ اور یوں مرزا قادیانی کا جانشین ، یہ خلیفہ اول بسترِ مرگ پر انتہائی درد ناک انداز میں ایڑیاں رگڑتے رگڑتے دنیا میں ہی جہنم کا مزہ اور عذاب الہی جھیلتے ہوئے اپنے جھوٹے نبی مرزا غلام احمق کی قربت میں مقام ہاویہ کو سدھار گیا۔

حکیم نورالدین کے اس انجام کے بعد ممکنہ جانشین مولوی محمد علی لاہوری کو خلافت نہ ملی۔ مرزا قادیانی کی بیوی نے اپنے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود کو زبردستی خلیفہ بنوا دیا۔ اکھنڈ بھارت کےخواب دیکھنے والا بدترین گستاخ قرآن و رسالت مرزا بشیر جنسی تعلقات کا دلدادہ اورانتہائی عیاش جوان تھا، جسے خلافت ملنے پر مرزا قادیانی کے وفادار ساتھی مولوی محمد علی لاہوری نے جماعت قادیان چھوڑ کراپنا لاہوری مرزائی فرقہ بنا لیا۔ مرزا بشیرنے خلیفہ بنتے ہی ایسی گھناؤنی حرکتیں کیں کہ خود شرم بھی شرما گئی۔ اسن کی قصرخلافت نامی رہائشگاہ دراصل قصرِ جنسی جرائم تھی جہاں عینی شاہدین کے مطابق صرف عقیدتوں کا خراج ہی بھینٹ نہیں چڑھا بلکہ مختلف حیلے بہانوں سے یہاں عصمتیں بھی لٹتی رہیں۔ ربوہ کے قصرمحمود میں اس عیاش خلیفہ نے صرف قادیانی نوجوان لڑکیوں کی عصمتیں ہی برباد نہیں کیں بلکہ یہ ملعون ایک ایسا پلید ترین جنسی بھیڑیا تھا جس کی جنسی ہوس سے اس کی اپنی سگی بیٹی تک بھی محفوظ نہ رہ سکی۔ اس خلیفہ کے جنسی جرائم کے بارے قادیانی جماعت کے لوگوں کے تبصرے، حلفیہ بیانات، مباہلے اورقسمیں موجود ہیں۔ خدائے برتر ایسے ظالم انسان کو کبھی معاف نہیں کرتے چنانچہ اس خلیفہ ثانی کی زندگی کا خاتمہ بھی ایسے دردناک حالات میں ہوا کہ اس فالج زدہ ابلیس کو زندگی کے آخری بارہ سال بسترمرگ پر ایڑیاں رگڑتے اور مرتے دیکھ کرقادیانی لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ اس ملعون کی شکل و صورت پاگلوں کی سی بن چکی تھی اور وہ سر ہلاتا رہتا منہ میں کچھ ممیاتا رہتا تھا۔ اکثر یہ مجنون اپنے بال اور داڑھی نوچتا رہتا اور اپنی ہی نجاست ہاتھ منہ پرمل لیا کرتا تھا۔ بہت لوگ ان حالات و واقعات کےعینی شاہد ہیں۔ ایک لمبا عرصہ اذیت ناک زندگی بسترمرگ پرگزارنے کے بعد جب یہ گستاخ قرآن و رسالت، جہنم کو سدھارا تواس کا جسم بھی عبرت کا اک عجب نمونہ تھا۔ ایک لمبےعرصہ تک بستر مرگ پر لیٹے رہنے کی وجہ سے لاش مرغ کے چرغے کی طرح اس قدر اکڑ چکی تھی کی ٹانگوں کو رسیوں سے باندھ کر بمشکل سیدھا کیا گیا۔ چہرے پرپڑی لعنتیں چھپانے کیلئے ماہرین سے خصوصی میک اپ کروایا گیا۔ اور پھرعوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے مرکری بلب کی تیزروشنی میں لاش کواس طرح رکھا گیا کہ چہرے پر لعنت زدہ سیاہی نظر نہ آئے۔ لیکن قادیانی توساری اصل حقیقت سے آشنا تھے
مرزا بشیرکی دردناک موت کے بعد مورثی وراثت اور چندوں کے نام پر لوٹ مار کا روایتی سلسلہ جاری رکھنے کی خاطر اسی کا بڑا بیٹا مرزا ناصراحمد گدی نشین ہوا۔ یہ تیسرا خلیفہ گھوڑوں کی ریس کا شوقین ہونے کے ساتھ ساتھ نوجوان مٹیاروں سے معاشققوں کا دلدادہ تھا۔ جنسی ہوس اسے بھی اپنے دادا مرزا غلام احمق سے وراثت میںملی تھی۔
یاد رہے کہ اس کے گھڑ سواری کے شہنشاہی شوق نے ربوہ میں گھڑ دوڑ کے دوران ایک غریب شخص کی جان بھی لی۔ قادیانی حضرات بھی گواہ ہیں کہ ان کے اس تیسرے خلیفہ مرزا ناصر کی موت بھی ایک بوڑھے جنسی مریض کی داستان صد ہوس ہے۔ ہوس رسیدہ و شہوت زدہ خیلفہ جی نے اڑسٹھ سال کی بوڑھی عمر میں فاطمہ جناح میڈیکل کی ستائیس سالہ طالبہ کو یہ کہتے ہوئے اپنے عقد میں لے لیا کہ ’’ آج یہ مقدس دولہا اپنا نکاح خود ہی پڑھائے گا ‘‘۔ اور پھر وہی وہا جس کا خدشہ خود قادیانی کلٹ کی مرکزی قیادت کو تھا۔ خود سے چوالیس برس چھوٹی عمر کی بیوی سے ازدواجی تعلقات میں جسمانی طور پر کلی ناکام ٹھہرنے کے بعد بوڑھے دولہا نے اپنے ناکارہ و ناقابل مرمت اعضاء میں نئی جوانی بھرنے کے لیے دیسی کشتوں کا بے دریغ استعمال شروع کر دیا ۔ اور ان کشتوں کے راس نہ آنے پر خود ہی کشتہ ہو گیا۔ مرنے سے پہلے اس تیسرے قادیانی خلیفہ کا جسم پھول کرکپا ہو گیا۔ سونے چاندی کے کشتوں کا زہریلا ناگ ایسا ڈسا کہ یہ زندیق ، مختصر عرصے میں خدائے قہارکے قہر کی گرفت میں، کشتوں ہی کی آگ میں جھلس کر، محمدی بیگم کے ناکام عاشق، اپنے دادا مرزا غلام قادیانی کے پاس ملک عدم کو سدھارگیا ۔
مرزا ناصر احمد کی موت کے بعد مرزا طاہر احمد گدی نشین ہوا تو اس کا سوتیلا بھائی مرزا رفیع احمد خلافت کو اپنا حق سمجھتے ہوئے میدان میں آ گیا۔ جب اسکی بات نہ مانی گئی تو وہ اپنے حواریوں سمیت سڑکوں پر آ گیا۔ لیکن ان باغیوں کو بزور قوت گھروں میں دھکیل دیا کر خلافت پر قبضہ کر لیا گیا۔ جماعت قادیان کا چوتھا خلیفی مرزا طاہراحمد انتہائی آمرانہ مزاج کا حامل تھا۔ اس کی فرعونی عادات نے نہ صرف اسے بلکہ پوری قادیانی جماعت کو دنیا بھر میں ذلیل و خوار کیا۔
اپنی زبان درازی ہی کی وجہ سے وہ پاکستان سے بھاگ کر لندن میں اپنے گورے آقاؤں کے ہاں پناہ گزین ہوا۔ اس کے دور خلافت میں اس کے ہاتھوں غیر تو کیا کسی قادیانی کی بھی عزت محفوظ نہیں تھی ۔ اس نے نظریں ملا کر بات نہ کرنے کا حکم دے رکھا تھا۔ مرزا طاہر ہومیو پیتھک ڈاکٹر کہلوانے کے شوقین تھا اور اس کا یہی شوق انسانوں کے لیے مصیبت کا باعث بن گیا۔ مرزا طاہرکی خواہش تھی کہ قادیانی عورتیں صرف لڑکے ہی پیدا کریں جن میں ذات پات یا نسل کا کوئی لحاظ نہ ہو۔ مرا طاہر قادیانیوں کو’’ نر نسل ‘‘ پیدا کرنے کی گولیاں تو دیتا رہا مگر یہ ڈاکٹر اپنی بیوی کو لڑکا نہ دے سکا اور اس کے اپنے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ اس خبطی کے ذہنی توازن کا یہ حال تھا کہ امامت کے دوران عجیب و غریب حرکتیں کرتا، کبھی باوضو تو کبھی بے وضو ہی نماز پڑھا دیتا۔ رکوع کی جگہ سجدہ اور سجدہ کی جگہ رکوع اورکبھی دوران نمازہی یہ کہتے ہو ئے گھر کوچل دیتا کہ ٹھہرو، میں ابھی وضو کر کے آتا ہوں۔ غرضیکہ اپنے پیشرؤں کی طرح مرزا طاہرکی بھی بڑی مشکل سے جان نکلی۔ پرستاروں کے دیدار کے لیے جب لاش رکھی گئی تو چہرہ سیا ہ ہونے کے ساتھ ساتھ لاش سے اچانک ایسا بدبودار تعفن اٹھا کہ پرستاروں کو فوراً کمرے سے باہر نکال دیا گیا اورلاش بند کرکے تدفین کے لیے روانہ کر دی گئی۔ لوگوں نے یہ عبرتناک مناظر براہِ راست قادیانی ٹی وی پربھی دیکھے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق موجودہ خلیفہ مرزا مسرور بھی ایک پراسرار بیماری میں مبتلا ہے اور قادیانی قیادت نے اپنے اگلے خلیفہ کی تلاش شروع کر دی ہے۔

http://farooqdarwaish.com/blog/?p=3369
 
Last edited by a moderator:
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا جو چیرا تو قطرہ خون بھی نہ نکلا
احسان صاحب نے کہا کہ
اور آپ کی یہ بات کہ : پھر جناب قرآن مجید کے اسلوب بیان سے یہ بات ظاہر ہے کہ آپ کی امت اجابت کو یا ایھا لذین امنو سے مخاطب کیا جاتا ہے اور امت دعوت کو یا ایھاالناس سے خطاب ہو تا ہے۔قرآن میں کہیں بھی آپ کی امت کو یابنی آدم سے خطاب نہیں کیا گیا ۔جو اس امر کی دلیل ہے کہ آیت بالا میں حکایت ہے حال ماضیہ کی۔

یہ آپ کو خود بھی نہیں پتہ کہ آپ نے کہا کیا ہے ، آیات کا سیاق و سباق پڑھیں جناب۔

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَنْ تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ {33}
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً ۖ وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ{34}

یہ دونوں اس آیت سے پہلی آیات ہیں ، اور یہاں قل کہہ کر مخاطب آنحضرت ﷺ کو کیا گیا ہے تو آپ کا سے قصہ ماضی قرار دینا جہالت محض ہے ،۔

اور آپ کا قول کہ : پھر اگلی بات اما حرف شرط ہے۔جس کا تحقق ضروری نہیں، یاتینکم مضارع ہے اور ہر مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں،جیسا کہ فرمایا فاما ترین من البشر احدا(مریم 26)کیاحضرت مریم قیامت تک زندہ رہیں گی اور کسی بشر کو دیکھتی رہیں گی؟مضارع اگرچہ استمرار کے لئے بھی آتا ہے۔مگر استمرار کے لئے قیامت تک رہنا ضروری نہیں،جو فعل دوچار پایا جائے اس کے لئے مضارع استمرار سے تعبیر کرنا جائز ہے ۔

جنا ب مجھے پتہ ہے کہ آپ نے یہ کہاں کہاں سے نقل کیا جس کا مطلب آپ کو خود نہیں معلوم ہے ، اور یاتین میں جو نون ثقلیہ ہے یہ مضارع میں مستقبل کے لیے ہی آتا ہے یہ تو آپ کی بنیادی صرف کی کتب میں موجود ہے۔

13854 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں

13855 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
1۔پہلی بات کا جواب یہ بالفرض یا بنی آدم کی عمومیت میں حضور کی امت کا بھی ذکر ہوتو اس کی عمومیت میں امت کے لئے بھی وہی سابقہ احکام ہو تے ہیں ،بشرطیکہ وہ منسوخ نہ ہو گئے ہوں ،اگر وہ منسوخ ہو گئے ہوں یا کوئی ایسا حکم کی وجہ سے آپ کی امت اس عموم میں داخل نہ ہو سکے تو پھت آپ کی امت کا اس عموم سے سابقہ نہ ہوگا۔

پھر میں نے کہا تھاکہ بنی آدم میں ہندو سکھ اور عیسائی بھی آتے ہیں کیا ان میں سے نبی پیدا ہو سکتا ہے ؟اس کا جناب نے کوئی جواب نہیں دیا۔
رہ گئی بات نون ثقلیہ کی تو ترین میں بھی تو نون ثقلیہ ہے کیا اس کو بھی مضارع پر محمول کرو گئے؟
پھر بات بنی آدم کی ہو رہی ہے اور نرزا خود کو بنی آدم مانتا ہی نہیں۔حوالے کا تو آپ کو پتہ ہی ہو گا۔
 
شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
یہ دونوں باتیں غلط ہیں ؛
صحیح مسلم کی شرح اکمال ۔600 سال قبل ،نہیں لکھی گئی ،
دوسری بات کہ :جھوٹے نبیوں کی تعداد پوری ہوگئی ۔۔یہ بداہۃ غلط ہے،،اس لئے کہ اس معنی تو یہ ہے اب جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا
وہ اپنے دعوی میں سچا ہوگا ۔۔۔۔۔اور یہ بات تو کوئی ’’ پنجابی متنبی ‘‘ بھی نہیں مانتا۔۔
جس نے روایت پیش کی تھی اس کو اس کے مطابق جواب مل گیا تھا باقی جن ذاتی خیالات کا کوئی یہاں اظہار کرتا رہے تو مجھ پر کوئی اخلاقی یا علمی فرض نہیں کہ جواب دیتا پھروں ۔
اور آپ کا کہنا کہ : صحیح مسلم کی شرح اکمال ۔600 سال قبل ،نہیں لکھی گئی : کس بنیاد پر لکھنے کا خیال آیا یہ ؟ کم از کم ایک دفعہ اس شرح کے مصنف کی وفات کا سال دیکھ لیا ہوتا ۔
Sharah Sahih Muslim Vol 7 Front.jpg


اور دوسری بات یہ کہ جس نے روایت پیش کی اس میں تعداد کا جو ذکر تھا اس کا میں جواب دیا تھا اور کہا تھا کہ ایک نبی کے آنے کی خبر بھی دی تھی رسول اللہ ﷺ نے ، میری آدھی بات نقل کر کے خود سے نتیجہ اور معنی نکال کر میری مراد کے خلاف جان بوجھ کر بات بنانے سے ملتا کیا ہے ۔
اور آپ کا کہنا کہ : اس لئے کہ اس معنی تو یہ ہے اب جو بھی نبوت کا دعوی کرے گا وہ اپنے دعوی میں سچا ہوگا :
یہ آپ کا اپنا خیال ہوگا نہ تو میں نے یہ کہا اور نہ ایسے معنی قرآن حدیث سے نکلتے ہیں ، اگر آپ واقعی حنفی یا کوئی مقلد نہیں ہیں تو اتنی قیاس بازی کیوں نظر آرہی ہے آپ کی باتوں میں ؟ جس بات کے خلاف آپ کے علماء لکھتے ہیں اور حنفیوں پر قیاس آرائی کا تعنہ مارتے ہیں تو آپ کیسے باہر ہیں اس کام سے ، انداز تو وہی ہیں آپ کے بھی اور آ پ کے علماء کے بھی کہ اپنے سے ایک سوچ دوسروں کے متعلق گھڑ لی اور اسی کو قرآن کی آیت طرح مانتے رہے ۔
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
ابن قدامہ آپ واقعی جاہل ہیں یا لاجواب ہو کر جاہلوں والی باتیں کر تے ہیں ،
لا جواب تو آپ ہو گے ہیں ۔ میرا تو سوال اپنی جگہ قائم ہے۔
اور جواب نہ دینے کی صورت میں جہل بھی آپ ہی صابت ہوگے
 
شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
عبرت ناک انجام :

بعض گناہوں کی سزا کی ایک جھلک اللہ تعالی دنیا ہی میں دکھا دیتے ہیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔مرزا غلام احمد قادیانی کا گناہ تو بہت بڑا تھا وہ صرف خود گمراہ نہیں ہوا بلکہ نہ معلوم کتنوں کی گمراہی کا ذریعہ بنا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے جو مرزا غلام احمد قادیانی کےنام اعمال کو سیاہ تر کرتا جا رہا ہے۔

اللہ تعالی بھی شاید انکے انجام کی ایک جھلک اپنے بندوں کو دکھانا چاہتا تھا۔ ہوا یہ کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے علماء اسلام میں مولانا ثناء اللہ امرتسری سے مباہلہ کیا کہ اگر آپ حق پر ہیں تو میری موت پہلے ہوگی اور اگر میں حق پر ہوں تو آپ کی وفات مجھ سے پہلے ہوگی اور جو باطل پر ہوگا اللہ اسے کسی مہلک بیماری طاعون ہیضہ وغیرہ میں مبتلا کریگا۔مرزا غلام احمد قادیانی اس مباہلہ کے ایک سال بعد 25 مئی سنہ 1908 عیسوی کو لاہور میں بعد نماز عشاء اسہال میں مبتلا ہوااسہال کے ساتھ استفراغ بھی تھا بالآخر 26 مئی بروز منگل دن چڑھے مرزا غلام احمد قادیانیکا انتقال ہو گیا۔ نعش قادیان لے جائی گئی ، 27مئی 1908 عیسوی کو تدفین عمل میں آئی۔اور مولانا ثناء اللہ امرتسری مرزا غلام احمد قادیانی کی وفات کے بعد پورے چالیس برس زندہ رہے، آپ کا انتقال 15 مارچ سنہ 1948 عیسوی میں اسی برس کی عمر میں ہوا۔

مرزا غلام احمد قادیانی کی موت کے بعد ان کے پیروکار دو جماعتوں میں بٹ گئے ایک جماعت احمدی کہلائی جو آپ کو مبلغ اسلام مانتی ہے اور دوسری قادیانی جو آپ کو نبی مانتی ہے۔


http://forum.mohaddis.com/threads/ہندوستانی-دجال-احمد-قادیانی-کی-موت.708/
یہ بچہ پتہ نہیں کسی حلالہ والی قوم سے ہے یا اس قوم سے ہے جس کے ایمان کی مثال تھانوی صاحب نے ایک فحش طریق سے دی تھی ، یا امرتسری کی امت سے جس کے خلاف فیصلہ مکہ کے نام سے خود اس کے اپنے مسلک والوں نے اس کو رگڑا تھا ۔ خیر جو بھی ہو اب آپ کی کذب بیانی دکھا ہی دیتے ہیں ، جس امرتسری کا نام لے کر اتنا اچھلتے پھرتے ہیں مقلدین کے جاہل اور غیر مقلد بھی ، اس امرتسری نے تو خود مباہلہ کرنے سےانکار کر دیا تھا ، بلکہ بعد میں مباہلہ کو یکطرفہ دعا کہتا رہا ۔
یہ دیکھیں 2011 کے 24 تا 30 جون کے اھلحدیث میں 19 اپریل 1907 کا اھلدیث سے امرتسری کا مضمون نقل کیا گیا ہے ، جس میں صاف طور پر امرتسری نے مباہلہ کی دعوت کو رد کیا بلکہ کہا کہ''افسوس ہے کہ میں نے قسم کھانے پر آمادگی کی ہے مگر آپ اس کو مباہلہ کہتے ہو حالانکہ مباہلہ اس کو کہتے ہیں جو فریقین مقابلہ پر قسمیں کھائیں۔ ''

پھر اسی شمارہ میں تھوڑا آگے چل کر امرتسری نے لکھا کہ :
'' میں نے حلف اٹھانا کہا ہے ، مباہلہ نہیں کہا ۔ نہ میں نے آپ کو دعوت دی ہے بلکہ آپ کی دعوت کو منظور کیا ہے ۔ نہ میں نے لعنۃ اللہ علی الکاذبین کہنا لکھا تھا ۔ قسم اور ہے مباہلہ اور ہے ۔''
اب بولو آپ کذاب یا آپ کا یہ باپ ؟ آئندہ سے سوچ سمجھ کر قلابازیاں لگانا ورنہ میں دھونے پر آیا تو آپ کے علماء کو الگ الگ پکڑ کر آپ کی مہمان نوازی کروں گا ، مجھے ذاتی حملوں کا شوق نہیں لیکن اس وقت کا دیکھ رہا کہ چند احباب جہالت کی حد تک موضوع سے بھاگنے کے لیے نیا ڈرامہ یا بندر کی طرح کاپی پیسٹ کے سہارے لٹک رہے ہیں ۔

Mubahila Sanauallah Amratsari Weekly Ahle Hadith 24-30 June 2011_0000.jpg


Mubahila Sanauallah Amratsari Weekly Ahle Hadith 24-30 June 2011_0002 H.jpg

Mubahila Sanauallah Amratsari Weekly Ahle Hadith 24-30 June 2011_0004 H.jpg
 

ابن قدامہ

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 25، 2014
پیغامات
1,772
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
198
اور آپ نے لکھا کہ : جو میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیاء کے سلسلہ کی مثال ایک عمارت کی ہے ، ساری مکمل ہوچکی تھی ، صرف ایک اینٹ کی جگہ باقی تھی ، حضور اس عمارت کی آخری اینٹ تھے ، جس کے بعد اس عمارت نبوت میں کسی کے لیے کوئی جگہ نہیں ۔

فتح الباری اور عمدۃ القاری اٹھا کر دیکھو حدیث میں عمارت اور اینٹ سے مراد شریعت والی نبوت ہے ، اور میں تو خود متفق ہوں کہ شریعت محمدی کے بعد کوئی نئی شریعت آنا ممکن نہیں ، بات تو محض ایسی نبوت کی کر رہا جو امتی ہو کر خادم ہو اسی شریعت کی ،۔
حدیث قصر نبوت اور مرزائی اعتراض

نمبر۱:
اول تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محل کی ایک اینٹ قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ بہت بلند ہے۔ پھر اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی شرائع کو کامل کردیا ہے اور شریعت کے محل کو مکمل کردیا۔ حدیث میں پہلے انبیاء کا ذکر ہے بعد میں آنے والے کا نہیں۔(۱۶۸)
الجواب:
محل کی تو ایک مثال ہے۔ شریعت وغیرہ کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین فرمایا اور ساتھ یہ جان کر کہ آئندہ کذاب و دجال پیدا ہونے والے ہیں جن میں سے کوئی تو یہ عذر کرے گا کہ میرا نام '' لا'' ہے اور حدیث میں لا نبی بعدی آیا ہے۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ مردوں میں نبوت ختم ہے۔ میں عورت ہوں اس لیے میرا دعویٰ خاتم النبیین کے منافی نہیں اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ دور محمدیہ میں نبوت ختم ہے نئی کتاب اور شریعت خاتم النبیین کے خلاف نہیں (جیسا کہ بہائی مذہب والے کہتے ہیں) اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ شریعت والی نبوت ختم ہے۔ بغیر شریعت کے نبی آسکتا ہے جیسا کہ مرزا صاحب نے کہا۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ حدیث میں پہلے نبیوں کا ذکر ہے بعد کا نہیں۔ ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے آیت کی وہ تفسیر کرائی جس سے تمام دجالوں کی تاویلات ھباء منثوراً ہو جاویں۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا خاتم النبیین ہونا ان معنوں سے ہے کہ جس طرح ایک محل بنایا جائے۔ جس کی تکمیل میں صرف ایک اینٹ کی کسر ہو۔ سو اسی طرح یہ سلسلہ انبیاء کا ہے جس میں کتاب والے بھی آئے اور بلا کتاب والے بھی۔ یہ روحانی انبیاء کا سلسلہ چلتا چلتا اس مقام پر پہنچا کہ صرف ایک ہی نبی باقی رہ گیا۔ سو وہ نبی میں ہوں جس کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوگا۔ اس مثال سے جملہ دجال و کذاب اشخاص کی تاویلات واہیہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں نہ تشریعی و غیر تشریعی کا عذر نہ عورت و مرد کا امتیاز، نہ پہلے اور پچھلوں کا فرق، محل نبوت تمام ہوگیا، نبوت ختم ہوگئی اب بعد میں پیدا ہونے والے بموجب حدیث سوائے دجال کے اور کسی خطاب کے حق دار نہیں۔
 
شمولیت
ستمبر 15، 2014
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
66
حدیث قصر نبوت اور مرزائی اعتراض

نمبر۱:
اول تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو محل کی ایک اینٹ قرار دینا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ بہت بلند ہے۔ پھر اس کا مطلب یہ بتایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی شرائع کو کامل کردیا ہے اور شریعت کے محل کو مکمل کردیا۔ حدیث میں پہلے انبیاء کا ذکر ہے بعد میں آنے والے کا نہیں۔(۱۶۸)
الجواب:
محل کی تو ایک مثال ہے۔ شریعت وغیرہ کا اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے خاتم النبیین فرمایا اور ساتھ یہ جان کر کہ آئندہ کذاب و دجال پیدا ہونے والے ہیں جن میں سے کوئی تو یہ عذر کرے گا کہ میرا نام '' لا'' ہے اور حدیث میں لا نبی بعدی آیا ہے۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ مردوں میں نبوت ختم ہے۔ میں عورت ہوں اس لیے میرا دعویٰ خاتم النبیین کے منافی نہیں اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ دور محمدیہ میں نبوت ختم ہے نئی کتاب اور شریعت خاتم النبیین کے خلاف نہیں (جیسا کہ بہائی مذہب والے کہتے ہیں) اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ شریعت والی نبوت ختم ہے۔ بغیر شریعت کے نبی آسکتا ہے جیسا کہ مرزا صاحب نے کہا۔ اور کوئی یہ عذر کرے گا کہ حدیث میں پہلے نبیوں کا ذکر ہے بعد کا نہیں۔ ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے آیت کی وہ تفسیر کرائی جس سے تمام دجالوں کی تاویلات ھباء منثوراً ہو جاویں۔
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا خاتم النبیین ہونا ان معنوں سے ہے کہ جس طرح ایک محل بنایا جائے۔ جس کی تکمیل میں صرف ایک اینٹ کی کسر ہو۔ سو اسی طرح یہ سلسلہ انبیاء کا ہے جس میں کتاب والے بھی آئے اور بلا کتاب والے بھی۔ یہ روحانی انبیاء کا سلسلہ چلتا چلتا اس مقام پر پہنچا کہ صرف ایک ہی نبی باقی رہ گیا۔ سو وہ نبی میں ہوں جس کے بعد اور کوئی نبی نہیں ہوگا۔ اس مثال سے جملہ دجال و کذاب اشخاص کی تاویلات واہیہ تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی ہیں نہ تشریعی و غیر تشریعی کا عذر نہ عورت و مرد کا امتیاز، نہ پہلے اور پچھلوں کا فرق، محل نبوت تمام ہوگیا، نبوت ختم ہوگئی اب بعد میں پیدا ہونے والے بموجب حدیث سوائے دجال کے اور کسی خطاب کے حق دار نہیں۔
چلو آپ نے ہمت کر ہی لی کہ محدثین کو یہ کہہ کر دجال کا خطاب دیا کہ : ان تمام باتوں کو ملحوظ رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے آیت کی وہ تفسیر کرائی جس سے تمام دجالوں کی تاویلات ھباء منثوراً ہو جاویں : اب آنکھیں ہیں تو دیکھیں اور توبہ استغفار کریں کہ آپ لوگ جاہل نام نہاد علماء کی اندھی تقلید میں محدثین اور اپنے بڑے سے بڑے بزرگوں کو دجال کا نام دے چکے ہیں جس طرح کی تاویل کو دجل فریب اور کذب بیانی کا نام دیتے وہی آپ کے محدثین کرتے رہے ہیں اب ہمت ہے تو ان تمام پر الگ الگ نام لے کر اللہ ، رسول ﷺ اور تمام پرشتوں کی لعنت بھیج دینا ، اب دیکھتے ہیں کتنی ہمت ہے اپنے موقف پر جمے رہنے کی آپ میں اور آپ جیسے دوسرے ابو جہل کی نسلوں میں کتنی ایمان داری ہے ۔

Sharah Hadees Amarat Aur Nabuwat.jpg
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جناب کسی کے عقائد اسی کی کتاب سے پڑھتے ہیں ، حضرت ابن تیمہ کے لیے کیا میں ان کے مخالف کی کتب سے پڑھوں گا ؟
آپ کتابیں پیش کرنے میں کافی فراخ دل محسوس ہوئے اس لیے آپ کو یہ مشورہ دیا تھا ، اور تاکہ آپ کی فراخدلی کی حقیقت سب کے سامنے آجائے ۔
ورنہ تو سب کو پتہ ہے کہ قادیانیت اپنے آئینے میں کیا ہے ۔ اور یہ بھی معلوم ہے کہ بازار میں ان کی کیا قیمت و حیثیت ہے ۔
 
Top