• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبیﷺ کا فرمان کہ میری طرف سے کچھ اختلافی حدیثیں آئیں گی، کی تحقیق

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
آخر میں عرض یہ ہے کہ جب کسی حدیث پر حکم لگانا ہو تو اس کے تمام طرق کو دیکھنا چاہیے اور ہر طرح چھان پھٹک کرنی چاہیے۔ اور اگر کسی ایک طریق پر حکم لگانا ہو تو اس کی وضاحت کرنی چاہیے کہ یہ طریق یا یہ سند ضعیف ہے۔ مطلقاً ایک یا دو یا تین چار طرق کو دیکھ کر سب پر حکم لگانا بے احتیاطی کا کام ہے۔ نیز حدیث کا ضعف الگ چیز ہے اور سند کا ضعف الگ۔ بسا اوقات کسی روایت کی سند تو ضعیف ہوتی ہے لیکن اس کا متن اور معنی صحیح ہوتا ہے۔
و اللہ اعلم بالصواب
حرف بہ حرف متفق. آج لوگوں نے حدیث پر حکم لگانے کو کھیل سمجھ لیا ہے. ایک آدھ کتابیں پڑھ کر اپنے آپکو محدث ومحقق سمجھنے لگتے ہیں.
اللہ ایسے فتنوں سے محفوظ رکھے آمین.
جزاکم اللہ خیرا محترم @اشماریہ بھائی. آپ نے بہت عمدہ بات کہی.
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
حرف بہ حرف متفق. آج لوگوں نے حدیث پر حکم لگانے کو کھیل سمجھ لیا ہے. ایک آدھ کتابیں پڑھ کر اپنے آپکو محدث ومحقق سمجھنے لگتے ہیں.
اللہ ایسے فتنوں سے محفوظ رکھے آمین.
جزاکم اللہ خیرا محترم @اشماریہ بھائی. آپ نے بہت عمدہ بات کہی.
یہ بات مطلقا کہی ہے.
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
جہاں
جہاں تک بات جبارہ کی ہے تو ابو ذرعہ نے کہا کہ مجھ سے ابن نمیر نے کہا کیا آپ اس کی حدیث لکھتے ہیں تو کہا کہ ہاں پھر پوچھا کیا آپ اس سے روایت کرتے ہہں کہا نہیں۔
بزار نے کہا کہ کثیر الخطا ہے کوئی اہل علم اس سے حدیث نہیں لیتا۔۔عقیلی نے احمد کے حوالے سے کہا کہ اس کی روایات موضوع اور جھوٹ ہوتی ہیں۔ حالانکہ بقی بن مخلد نے بھی ان سے روایت کی ہیں۔۔۔مگر دو بڑے آئمہ ذھبی و ابن حجر نے بھی ان کع ضعیف کہا ہے۔۔ابن معین نے کذاب کہا ہے۔۔۔
ابن معین خود متشدد ہیں، ذہبی اور ابن حجر نے ضعیف کہا ہے اور ضعیف کی متابعت مقبول ہوتی ہے، بزار نے کثیر الخطا کہا ہے جو کہ ضعیف کے معنی میں ہی ہے۔
رہ گئے امام احمدؒ تو انہوں نے ان کی بعض احادیث کے بارے میں کہا ہے کہ "یہ موضوع ہیں، یا کذب ہیں"۔ لیکن یہ قول اس حدیث کے بارے میں ہے۔ اس کا کون سا راوی ایسا ہے جس نے اسے وضع کیا اس کی تفصیل نہیں ہے۔ اسی لیے ابن حجر اور ذہبی نے انہیں متروک اور کذاب نہیں کہا بلکہ "ضعیف" کہا ہے۔ یہ باریک فرق ہوتے ہیں جو دیکھنے پڑتے ہیں۔


عاصم کے بارے میں عجلی نے کہا ہے۔۔تاریخ ثقات میں
عاصم كا مسئلہ یہ تھا کہ یہ روایات میں "زر بن حبیش" اور "ابو وائل" میں اضطراب کا شکار ہوتے تھے۔ دونوں ان کے استاد تھے اس لیے یہ بعض روایات میں کبھی زر کو ذکر کرتے اور کبھی ابو وائل کو۔ چونکہ دونوں ہی ثقہ ہیں لہذا حدیث اس اضطراب کے باوجود صحیح رہتی ہے۔
مزید یہ کہ ان کے اس اضطراب کے بارے میں دارقطنیؒ کا طرز یہ تھا کہ یہ حدیث دونوں اساتذہ سے ہونا ممکن ہے۔ چنانچہ:
وسئل عن حديث زر، عن عبد الله، قال: إن الله اتخذ إبراهيم خليلا ألا وإن صاحبكم خليل الله، ثم قرأ: {عسى أن يبعثك ربك مقاما محمودا} .
فقال: يرويه أبو بكر بن عياش، وزائدة بن قدامة، عن عاصم، عن زر، عن عبد الله.
ورواه المسعودي، عن عاصم، عن أبي وائل، عن عبد الله.
ويحتمل أن يكون القولان صحيحين.
(العلل للدارقنی)

یہ تو ان روایات کے بارے میں ہے جن میں اضطراب ہے۔ لیکن یہاں مذکورہ روایت میں تو اضطراب کا ثبوت ہی نہیں ہے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
حرف بہ حرف متفق. آج لوگوں نے حدیث پر حکم لگانے کو کھیل سمجھ لیا ہے. ایک آدھ کتابیں پڑھ کر اپنے آپکو محدث ومحقق سمجھنے لگتے ہیں.
اللہ ایسے فتنوں سے محفوظ رکھے آمین.
جزاکم اللہ خیرا محترم @اشماریہ بھائی. آپ نے بہت عمدہ بات کہی.
سیدھی تلوار ہی اٹھا لی آپ نے ابتسامہ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
سیدھی تلوار ہی اٹھا لی آپ نے ابتسامہ
جناب عالی!
یہ ایک المیہ ہے. حالت تو یہ ہیکہ وہ لوگ بھی تحقیق و تخریج میں ہاتھ آزما رہے ہیں جو عربی تک صحیح سے نہیں جانتے محدثین کی اصطلاحات تو دور کی بات ہے. اس تعلق سے میری دو لوگوں سے بحث بھی ہوئی. کئی علماء کرام سے اس تعلق سے سوال کیا اور جواب بھی انکو بھیجا. لیکن وہی حال رہا انکا. الٹا میرے خلاف بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی ان لوگوں نے
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
قال ابو اسماعیل الہروی فی کتابہ: ذم الکلام و اہلہ: أخبرنا أبو يعقوب أخبرنا زاهر بن أحمد أخبرنا محمد بن إدريس حدثنا أبوكريب حدثنا أبو بكر بن عياش عن عاصم عن زر بن حبيش عن علي بن أبي طالب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ستكون علي رواة يروون عني الحديث فاعرضوها على القرآن فإن وافقت القرآن فخذوها وإلا فدعوها
اشماریہ بھائی
اگر ہم اس حدیث کو قرآن پر پیش کریں تو سب سے پہلے تو ہمیں اسے ہی رد کرنا پڑے گا۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ جامع بیان العلم میں فرماتے ہیں:
"وهذه الألفاظ لا تصح عنه صلى الله عليه وسلم عند أهل العلم بصحيح النقل من سقيمه وقد عارض هذا الحديث قوم من أهل العلم فقالوا : نحن نعرض هذا الحديث على كتاب الله قبل كل شيء ونعتمد على ذلك ، قالوا : فلما عرضناه على كتاب الله عز وجل وجدناه مخالفا لكتاب الله ؛ لأنا لم نجد في كتاب الله ألا نقبل من حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا ما وافق كتاب الله ، بل وجدنا كتاب الله يطلق التأسي به والأمر بطاعته ويحذر المخالفة عن أمره جملة على كل حال « أخبرنا محمد بن خليفة ، ثنا محمد بن الحسين ، ثنا أحمد بن سهل الأشناني ، ثنا الحسين بن علي بن الأسود ، ثنا يحيى بن آدم ، ثنا ابن المبارك ، عن معمر ، عن علي بن زيد ، عن أبي نضرة ، عن عمران بن حصين ، « أنه قال لرجل : إنك امرؤ أحمق أتجد في كتاب الله الظهر أربعا ، لا تجهر فيها بالقراءة ، ثم عدد عليه الصلاة والزكاة ونحو هذا ، ثم قال : أتجد هذا في كتاب الله مفسرا ، إن كتاب الله أبهم هذا وإن السنة تفسر ذلك »"

اس کے علاوہ ماہرینِ حدیث نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ دراصل آپ نے بھی ان الفاظ کا دھیان نہیں رکھا:
جب کسی حدیث پر حکم لگانا ہو تو اس کے تمام طرق کو دیکھنا چاہیے اور ہر طرح چھان پھٹک کرنی چاہیے۔ اور اگر کسی ایک طریق پر حکم لگانا ہو تو اس کی وضاحت کرنی چاہیے کہ یہ طریق یا یہ سند ضعیف ہے۔ مطلقاً ایک یا دو یا تین چار طرق کو دیکھ کر سب پر حکم لگانا بے احتیاطی کا کام ہے۔ نیز حدیث کا ضعف الگ چیز ہے اور سند کا ضعف الگ۔
کیونکہ کتب علل میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ یہ روایت اصلا منقطع ہے۔

امام شافعی فرماتے ہیں: "ما روى هذا أحد يثبت حديثه في شيء صغير ولا كبير ، فيقال لنا : قد ثبتم حديث من روى هذا في شيء ، قال : وهذه أيضا رواية منقطعة عن رجل مجهول ، ونحن لا نقبل مثل هذه الرواية في شيء" (المعرفہ: 1:8)

امام العلل زکریا بن یحیی الساجی فرماتے ہیں: " هذا حديث موضوع عن النبي صلى الله عليه وسلم . قال : وبلغني عن علي بن المديني ، أنه قال : ليس لهذا الحديث أصل ، والزنادقة وضعت هذا الحديث" ۔

امام ابن بطہ اس کے تحت فرماتے ہیں: " وصدق ابن الساجي ، وابن المديني رحمهما الله ، لأن هذا الحديث كتاب الله يخالفه ، ويكذب قائله وواضعه ، والحديث الصحيح ، والسنة الماضية عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ترده قال الله عز وجل : ( فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما" (الابانہ الکبری: 1:109)

امام جورقانی فرماتے ہیں: "یہ حدیث منکر ہے" (الاباطیل)۔

اس کے علاوہ یہ دیگر صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے:
امام ابو داود ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ : لَا نَدْرِي ، مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ ، وإلا فَلاَ" (سنن ابی داود: 4605، ترمذی: 2663، ابن ماجہ: 13)۔

اسی لئے کبار ائمہ نے اس حدیث کو سخت ضعیف کہا ہے۔ کیونکہ قرآن اور حدیث دونوں کے خلاف ہے۔ اور کبار متقدمین ائمہ جب کسی حدیث کے ضعف پر متفق ہو جائیں تو وہ حدیث صحیح کبھی نہیں ہو سکتی۔
جس طرح سند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں، اسی طرح بعض اوقات سند کے صحیح یا معمولی طور پر ضعیف ہونے سے حدیث کی صحت بھی لازم نہیں ہوتی۔

واللہ اعلم۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اشماریہ بھائی
اگر ہم اس حدیث کو قرآن پر پیش کریں تو سب سے پہلے تو ہمیں اسے ہی رد کرنا پڑے گا۔
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ جامع بیان العلم میں فرماتے ہیں:
"وهذه الألفاظ لا تصح عنه صلى الله عليه وسلم عند أهل العلم بصحيح النقل من سقيمه وقد عارض هذا الحديث قوم من أهل العلم فقالوا : نحن نعرض هذا الحديث على كتاب الله قبل كل شيء ونعتمد على ذلك ، قالوا : فلما عرضناه على كتاب الله عز وجل وجدناه مخالفا لكتاب الله ؛ لأنا لم نجد في كتاب الله ألا نقبل من حديث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا ما وافق كتاب الله ، بل وجدنا كتاب الله يطلق التأسي به والأمر بطاعته ويحذر المخالفة عن أمره جملة على كل حال « أخبرنا محمد بن خليفة ، ثنا محمد بن الحسين ، ثنا أحمد بن سهل الأشناني ، ثنا الحسين بن علي بن الأسود ، ثنا يحيى بن آدم ، ثنا ابن المبارك ، عن معمر ، عن علي بن زيد ، عن أبي نضرة ، عن عمران بن حصين ، « أنه قال لرجل : إنك امرؤ أحمق أتجد في كتاب الله الظهر أربعا ، لا تجهر فيها بالقراءة ، ثم عدد عليه الصلاة والزكاة ونحو هذا ، ثم قال : أتجد هذا في كتاب الله مفسرا ، إن كتاب الله أبهم هذا وإن السنة تفسر ذلك »"

اس کے علاوہ ماہرینِ حدیث نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ دراصل آپ نے بھی ان الفاظ کا دھیان نہیں رکھا:

کیونکہ کتب علل میں واضح بیان کیا گیا ہے کہ یہ روایت اصلا منقطع ہے۔

امام شافعی فرماتے ہیں: "ما روى هذا أحد يثبت حديثه في شيء صغير ولا كبير ، فيقال لنا : قد ثبتم حديث من روى هذا في شيء ، قال : وهذه أيضا رواية منقطعة عن رجل مجهول ، ونحن لا نقبل مثل هذه الرواية في شيء" (المعرفہ: 1:8)

امام العلل زکریا بن یحیی الساجی فرماتے ہیں: " هذا حديث موضوع عن النبي صلى الله عليه وسلم . قال : وبلغني عن علي بن المديني ، أنه قال : ليس لهذا الحديث أصل ، والزنادقة وضعت هذا الحديث" ۔

امام ابن بطہ اس کے تحت فرماتے ہیں: " وصدق ابن الساجي ، وابن المديني رحمهما الله ، لأن هذا الحديث كتاب الله يخالفه ، ويكذب قائله وواضعه ، والحديث الصحيح ، والسنة الماضية عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ترده قال الله عز وجل : ( فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم ثم لا يجدوا في أنفسهم حرجا مما قضيت ويسلموا تسليما" (الابانہ الکبری: 1:109)

امام جورقانی فرماتے ہیں: "یہ حدیث منکر ہے" (الاباطیل)۔

اس کے علاوہ یہ دیگر صحیح احادیث کے بھی خلاف ہے:
امام ابو داود ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: "لَا أُلْفِيَنَّ أَحَدَكُمْ مُتَّكِئًا عَلَى أَرِيكَتِهِ يَأْتِيهِ الْأَمْرُ مِنْ أَمْرِي مِمَّا أَمَرْتُ بِهِ أَوْ نَهَيْتُ عَنْهُ فَيَقُولُ : لَا نَدْرِي ، مَا وَجَدْنَا فِي كِتَابِ اللَّهِ اتَّبَعْنَاهُ ، وإلا فَلاَ" (سنن ابی داود: 4605، ترمذی: 2663، ابن ماجہ: 13)۔

اسی لئے کبار ائمہ نے اس حدیث کو سخت ضعیف کہا ہے۔ کیونکہ قرآن اور حدیث دونوں کے خلاف ہے۔ اور کبار متقدمین ائمہ جب کسی حدیث کے ضعف پر متفق ہو جائیں تو وہ حدیث صحیح کبھی نہیں ہو سکتی۔
جس طرح سند کے ضعیف ہونے سے حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں، اسی طرح بعض اوقات سند کے صحیح یا معمولی طور پر ضعیف ہونے سے حدیث کی صحت بھی لازم نہیں ہوتی۔

واللہ اعلم۔
اس حدیث کی بہت ساری اسانید ہیں اور وہ بھی الگ الگ صحابہ کرام رض سے۔ مثال کے طور پر امام شافعیؒ والی سند ہے جس میں جہالت کا الزام تو ثابت نہیں ہے لیکن انقطاع بہرحال ہے۔ دیگر طرق بھی ہیں، کچھ ابو ہریرہ رض سے، کچھ ابن عمر رض سے اور کچھ علی رض سے۔ اسی لیے میں نے عرض کیا تھا کہ یہ طریق "غالباً" اصح ما فی الباب ہے کیوں کہ سب سے کم اعتراضات میرے احاطے کے مطابق اس طریق میں ہیں۔

البتہ کیا یہ حدیث واقعی خود قرآن و حدیث کے خلاف ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا حضرت عمر رض کا فیصلہ بھی پھر قرآن و حدیث کے خلاف تھا جس پر صحابہ کرام رض میں سے بھی کسی نے نکیر نہیں کی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو اصل فرق واضح کرتا ہے۔ اس حدیث سے اصل میں اباضیہ اور شیعہ نے استدلال کیا ہے۔ شیعہ کی مجمع البحار تو اس کے مضمون سے پر ہے ہی، اباضیہ کے امام الربیع بن الحبیب کی مسند میں بھی یہ صحیح سند (عندہم) سے موجود ہے۔ اباضیہ یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہی ہے کہ ہر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے اور جو اس کے خلاف ہو اسے حقیقتاً رد کر دیا جائے۔ اسی لیے علی بن المدینیؒ و غیرہم نے اس حدیث کو زنادقہ کی وضع کردہ کہا ہے کیوں کہ اس معنی کا انکار تو خود قرآن سے ہوتا ہے۔
اہل سنت کا طریقہ تاویل کا ہے۔ یعنی جب اس طرح کوئی حدیث کتاب اللہ کے خلاف آ جائے تو اس میں تطبیق کرتے ہیں، ترجیح دیتے ہیں یا اس کے معنی میں ایسی تاویل کرتے ہیں جس کے ذریعے حدیث مبارکہ اور قرآن کریم دونوں میں اتفاق ہو جائے۔ حضرت فاطمہ بنت قیس رض کی حدیث مبارکہ میں حضرت عائشہ رض نے ایسی ہی تاویل فرمائی ہے۔
یہاں یہ ملحوظ رکھا جائے کہ اس سے مراد ایسی تاویل نہیں ہے جو صرف ظنی ہو بلکہ وہ تاویل مراد ہے جس کا اثبات خود دلائل یا قرائن سے ہوتا ہو۔ علم حدیث میں "معلول" بھی بسا اوقات ایک تاویل ہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے حدیث کو رد کیا جاتا ہے۔
چنانچہ اس معنی میں یہ حدیث بالکل درست ہے۔ سلف کی جانب سے اس حدیث کا اکثر رد اباضیہ وغیرہ کی ہی وجہ سے کیا گیا ہے۔
خود اس حدیث کو رد کرنے والوں کو اگر دیکھیں تو صحت سند کی صورت میں ان کا یہ رد اس حدیث کے معنی پر عمل کرنے کی ہی صورت میں بنتا ہے کہ انہوں نے اس روایت کو قرآن اور حدیث پر پیش کیا اور ان کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کا رد کیا۔ اگر اس حدیث کو قرآن و حدیث پر پیش نہ کیا جائے اور اس کی سند کو صحیح ہی سمجھا جائے تو اس کا اور دیگر نصوص کا اختلاف کبھی حل نہیں ہو سکتا۔
ھذا ما ظہر لی، و اللہ اعلم بالصواب
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,410
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
آخر میں عرض یہ ہے کہ جب کسی حدیث پر حکم لگانا ہو تو اس کے تمام طرق کو دیکھنا چاہیے اور ہر طرح چھان پھٹک کرنی چاہیے۔ اور اگر کسی ایک طریق پر حکم لگانا ہو تو اس کی وضاحت کرنی چاہیے کہ یہ طریق یا یہ سند ضعیف ہے۔ مطلقاً ایک یا دو یا تین چار طرق کو دیکھ کر سب پر حکم لگانا بے احتیاطی کا کام ہے۔ نیز حدیث کا ضعف الگ چیز ہے اور سند کا ضعف الگ۔ بسا اوقات کسی روایت کی سند تو ضعیف ہوتی ہے لیکن اس کا متن اور معنی صحیح ہوتا ہے۔
و اللہ اعلم بالصواب
اشماریہ بھائی کی اس بات سے بالکل متفق ہوں!
مگر جس حدیث پر بحث ہے :
قال ابو اسماعیل الہروی فی کتابہ: ذم الکلام و اہلہ: أخبرنا أبو يعقوب أخبرنا زاهر بن أحمد أخبرنا محمد بن إدريس حدثنا أبوكريب حدثنا أبو بكر بن عياش عن عاصم عن زر بن حبيش عن علي بن أبي طالب قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ستكون علي رواة يروون عني الحديث فاعرضوها على القرآن فإن وافقت القرآن فخذوها وإلا فدعوها
(ذم الکلام و اہلہ، 4۔164، ط: مکتبۃ العلوم و الحکم)
یہ حدیث بہر حال کم از کم سخت ضعیف ہے، بلکہ اسے موضوع بھی قرار دیا گیا ہے۔
ایک حنفی عالم کا حوالہ ہی پیش کردیتا ہوں:
وَفِي رِسَالَة علم الحَدِيث مَا أوردهُ الأصوليون من قَوْله «إِذَا رُوِيَ عَنِّي حَدِيثٌ فَاعْرِضُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ وَافَقَهُ فاقبلوه وَإِن خَالفه فَردُّوهُ» وَقَالَ الْخطابِيّ وَضعته الزَّنَادِقَة ويدفعه حَدِيث أَنِّي أويت الْكتاب وَمَا يعدله «ويروى وَمثله مَعَه» وَكَذَا قَالَ الصغاني.
صفحه 28

الكتاب: تذكرة الموضوعات
المؤلف: محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ)
الناشر: إدارة الطباعة المنيرية




باقی اشماریہ صاحب، اس حدیث کو خود تحقیق و دلائل سے صحیح یا مقبول ثابت کر سکیں، تو الگ بات ہے۔ ویسے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا!

اس کے علاوہ اس کا معنی بھی صحیح ہے۔ حضرت عمر رض نے فیصلہ کرتے وقت حضرت فاطمہ بنت قيس رض كي روايت کے بارے میں فرمایا تھا: لا ندع کتاب ربنا و سنۃ نبینا بقول امراۃ۔۔۔۔
اسی لیے اس روایت سے استدلال کرتے ہوئے خطیب بغدادی نے الکفایہ میں رد خبر واحد کے ضمن میں ایک سبب کتاب اللہ کے خلاف ہونے کو بھی ذکر کیا ہے۔
اس حدیث کا معنی فقہ اہل الحدیث کے مطابق صحیح نہیں! ہاں فقہ اہل الرائے کے موافق ہے۔
غالباً فقہ اہل الرائے کو تقویت دینے کے لئے ہی اسے بنایا گیا ہے!
اصول الشاشی میں بھی ضعیف و مردود حدیث کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے انکار کے اصول کی دلیل بنایا گیا ہے!
رہی بات خطیب بغدادی کی، تو خطیب بغدادی نے علل الحدیث کی بات ہے، کہ جہاں قرآن سے کسی بات کی تردید ثابت ہو جائے!
یہ ایک نفیس نکتہ ہے!
تفصیل مطلوب ہو تو بتلائیے گا!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

اشماریہ بھائی کی اس بات سے بالکل متفق ہوں!
مگر جس حدیث پر بحث ہے :

یہ حدیث بہر حال کم از کم سخت ضعیف ہے، بلکہ اسے موضوع بھی قرار دیا گیا ہے۔
ایک حنفی عالم کا حوالہ ہی پیش کردیتا ہوں:
وَفِي رِسَالَة علم الحَدِيث مَا أوردهُ الأصوليون من قَوْله «إِذَا رُوِيَ عَنِّي حَدِيثٌ فَاعْرِضُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ فَإِنْ وَافَقَهُ فاقبلوه وَإِن خَالفه فَردُّوهُ» وَقَالَ الْخطابِيّ وَضعته الزَّنَادِقَة ويدفعه حَدِيث أَنِّي أويت الْكتاب وَمَا يعدله «ويروى وَمثله مَعَه» وَكَذَا قَالَ الصغاني.
صفحه 28

الكتاب: تذكرة الموضوعات
المؤلف: محمد طاهر بن علي الصديقي الهندي الفَتَّنِي (المتوفى: 986هـ)
الناشر: إدارة الطباعة المنيرية




باقی اشماریہ صاحب، اس حدیث کو خود تحقیق و دلائل سے صحیح یا مقبول ثابت کر سکیں، تو الگ بات ہے۔ ویسے ایسا ہوتا نظر نہیں آتا!


اس حدیث کا معنی فقہ اہل الحدیث کے مطابق صحیح نہیں! ہاں فقہ اہل الرائے کے موافق ہے۔
غالباً فقہ اہل الرائے کو تقویت دینے کے لئے ہی اسے بنایا گیا ہے!
اصول الشاشی میں بھی ضعیف و مردود حدیث کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے انکار کے اصول کی دلیل بنایا گیا ہے!
رہی بات خطیب بغدادی کی، تو خطیب بغدادی نے علل الحدیث کی بات ہے، کہ جہاں قرآن سے کسی بات کی تردید ثابت ہو جائے!
یہ ایک نفیس نکتہ ہے!
تفصیل مطلوب ہو تو بتلائیے گا!
جزاک اللہ خیرا۔ آپ کی رائے مل گئی۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
176
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
اضطراب كا کوئی حوالہ؟؟؟


جبارہ کے بارے میں "ضعیف" کا قول ہے۔ اس کی وجہ بھی ابن نمیر یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی اپنی احادیث صحیح ہوتی تھیں لیکن کچھ لوگ (ابن نمیر نے ان کی تعیین نہیں کی) ان کی احادیث میں گڑبڑ کرتے تھے (کما فی التہذیب)۔
امام بخاریؒ فرماتے ہیں کہ ان کی حدیث میں اضطراب ہوتا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں کہ ان کی بعض احادیث میں ان کی کوئی متابعت نہیں کرتا لیکن یہ جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے۔
ان سب اقوال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ضعیف ہیں متروک و کذاب نہیں۔ ایسا راوی کسی اور روایت کے لیے متابع یا شاہد بن سکتا ہے۔
 

اٹیچمنٹس

Top