- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
محدث جناب البانی کون ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
محدث جناب البانی کون ہیں؟
السلام علیکمروایت نمبر ٤
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو، تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، اللہ نے مٹی پر حرام کر دیا کہ انبیا کے جسموں کو کھائے۔ نسائی جلد ۱ ص ۱۳۹، مسند احمد جلد ٤ ص۸، ابو داود جلد ۱ ص۱
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ؛السلام علیکم
امام البانی رح اس کے بارے میں کیا فرماتے ہیں
اسی طرح کی ایک اور بھی حدیث شریف ھے کہ تم شب جمعہ کو مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو کہ باقی دنوں میں مجھ تک فرشتے تمہارا درود پہنچاتے ہیں مگر اس دن میں خود سنتا ہوںالسلام و علیکم و رحمت الله -
وقال ابو داود :؛
حدثنا محمد بن عوف حدثنا المقرئ حدثنا حيوة عن ابي صخر حميد بن زياد عن يزيد بن عبد الله بن قسيط عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ما من احد يسلم علي إلا رد الله علي روحي حتى ارد عليه السلام ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں“۔(قال الشيخ الألباني: حسن )
مذکورہ بالا حدیث میں کچھ علتیں ہیں:
اول: روایت ابو داؤد جلد۱ ص ۳۸٤ میں محمد بن عوف سے مروی ہے – ذہبی کہتے ہیں کہ یہ محمد بن عوف سلیم بن عثمان سے روایت کرتا ہے اور یہ مجہول الحال ہے۔ میزان الاعتدال جلد ۳ ص ۳۸٦:
دوم: صلوٰۃ وسلام دراصل اللہ سے نبیؐ کریم کیلئے رحمت کی دعا ہے اور دعا جس کیلئے بھی کی جائے وہ اللہ کے حضور ہی جاتی، جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے اسکے پاس کبھی دعا نہیں جاتی۔ دعا ایک عبادت ہے جیسے ہم نماز میں تشہد کے دوران پڑھتے ہیں (جیسا کہ نبی مکرم نے سکھایا) -التحیات للہ والصلوٰت و الطیبٰت: تمام زبانی عبادتیں اور تمام بدنی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں-
سوم: مذکورہ روایت میں الفاظ نبوی "فعل حال" کے طور پر پیش کیے گئے ہیں - کہ "مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھے لوٹا دیتا ہے یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں" - بالفرض اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو الفاظ "فعل مستقبل" پر مبنی ہونے چاہیے تھے نا کہ فعل حال پر- یعنی کہنا یہ ہوتا کہ "میری وفات کے بعد مجھ پر جب بھی کوئی سلام بھیجے گا تو اللہ تعالیٰ میری روح مجھ پر لوٹانے گا یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا سن کر اس کا جواب دونگا"
چہارم: یہ روایت قرآن کے نص صریح سے متصادم ہے - قرآن میں الله کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ لَا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ - أَمْوَاتٌ غَيْرُ أَحْيَاءٍ ۖ وَمَا يَشْعُرُونَ أَيَّانَ يُبْعَثُونَ سوره النحل ٢٠-٢١
اور جنہیں یہ الله کے سوا پکارتے ہیں (یعنی انبیاء و اولیاء وغیرہ) وہ کچھ بھی پیدانہیں کرتے اور وہ خود پیدا کیے ہوئے ہیں- وہ تو مردے ہیں جن میں جان نہیں اور انھیں شعور نہیں کہ وہ کب زندہ کرکے اٹھائے جائیں گے-
جب کہ سلام سن کر سلام کا جواب دینا شعور کے بغیر ممکن نہیں-
پنجم: امّت محمدیہ تو ہر وقت ہر لمحہ الله سے نبی کریم محمّد مصطفیٰ صل اللہ علیہ و آ له وسلم پر درود و سلام بھیجنے کی درخواست کرتی رہتی ہے- سوال ہے کہ ایسی صورت میں بار بار روح محمّدی کو جسم مبارک میں لوٹانے کا کیا جواز باقی رہتا ہے؟؟؟ جب کہ امّت کی طرف سے بھیجے گئے دررود و سلام کا ایک لمحہ بھی خالی نہیں جاتا ؟؟
ایک
اسی طرح کی ایک اور بھی حدیث شریف ھے کہ تم شب جمعہ کو مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو کہ باقی دنوں میں مجھ تک فرشتے تمہارا درود پہنچاتے ہیں مگر اس دن میں خود سنتا ہوں