• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نزول عیسیٰ کے قائلین سے چند سوالات

شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
"اگرہم مفسرین کو ایک طرف رکھ کر سورہ آل عمران کی آیت "اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور عزت دونگا (یعیسی انی متوفیک الی رافعک الی) کو سورہ النسا کی آیت "بلکہ اللہ نے عیسی کو اپنے حضور عزت دی" (بل رفعہ اللہ علیہ) کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو ہم پر یہ امر واضع ہوگا کہ پہلی آیت میں اللہ تعالی نے ایک وعدہ فرمایا ہے اور دوسری آیت میں اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اس وعدہ کو پورا فرمایا۔ خداتعالی کا وعدہ جیسا کہ پہلی آیت میں مذکور ہے یہ ہے کہ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو خود وفات دے کر انہیں اپنے حضور عزت و رفعت دیگا۔ اور انکو کافروں کے الزامات سے پاک کریگا۔ اور موخرالذکر آیت میں تمام امور کا حوالہ دیئے بغیر صرف مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور خدا کے حضور رفعت دئیے جانے کا ذکر ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں آیات کی تفسیر اور تطبیق ایک دوسرے کی روشنی میں کی جانی چاہئے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالی نے واقعی مسیح علیہ السلام کو موت دی اور ان کا اپنے حضور میں رفع درجات فرمایا۔ اور کفر کرنے والوں کے الزامات سے ان کو پاک فرمایا۔ قرآن کریم کی لغت کے ایک بہت بڑے مستند مفسر علامہ الالوسی نے اس آیت کے معنی "میں تجھے موت دونگا" اس مفہوم میں کئے ہیں کہ اللہ تعالی نے مسیح علیہ السلام کو پوری طبعی عمر عطا فرمائی اور ان کی وفات بھی طبعی رنگ میں اس طرح فرمائی کہ انہیں ان کے دشمنوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا کہ وہ آپ کو قتل کر سکتے یا آپ کے خلاف اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوسکتے۔
یہ ظاہر ہے کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کے حضور سرفرازی اور بلندی درجات عطا کی گئی۔ آیت میں لفظ رفع توفی کے بعد مذکور ہے اس لئے اس کے معنی رفع درجات کے ہی ہوسکتے ہیں۔ مادی جسم کے آسمان پر اٹھائے جانے کے نہیں۔
اس ترجمہ کی تائید اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام سے فرمایا ہے کہ وہ انہیں ان پر ایمان نہ لانے والوں (کافروں) سے پاک کرے گا۔ گویا ساری آیت کا مقصد مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور اللہ تعالی کے دربار میں بلندی درجات کو بیان کرنا ہے۔
قرآن کریم کے دوسرے متعدد مقامات میں اور عربی زبان کے کلاسیکی ادب میں لفظ رفع کے عربی مفہوم سے بھی مذکورہ بالا معنوں کی تائید ہوتی ہے۔ آخر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کے تعلق میں اس لفظ کے استعمال کے ایک اور صرف ایک ہی معنی ہوسکتے ہیں یعنی اللہ کی نصرت اور حفاظت۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری تفسر کرنا قرآن کریم سے بے انصافی کے مترادف ہوگا۔ البتہ بے بنیاد کہانیوں اور من گھڑت روایات کے بے جا تائید ضرور ہوگی۔ ------------ حیرانی ہوتی ہے کہ مسیح کو ان کے دشمنوں کے درمیان سے اٹھا کر مع ان کے مادی جسم کے آسمان پر لے جانا کس طرح اللہ تعالی کی تدبیر کہلا سکتا ہے۔ اور کیسے اس تدبیر کو مسیح کے دشمنوں کی تدبیر سے بہتر اور برتر کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ان کے لئے اللہ تعالی کے اس فعل کا مقابلہ کرنا ہرگز ممکن نہیں تھا۔
اس طویل مقالہ کی بحث میں ہم مندرجہ ذیل نتائج پر پہنچتے ہیں:
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
یہاں یہ بل رفعہ اللہ علیہ پر صرف مفتی مصر علامہ محمود شلتوت کی رائے پیش کی گئی ہے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
1- قرآن کریم اور صحیح مستند احادیث میں ہمیں ہرگز کوئی ایسا اشارہ نہیں ملتا جس پر ہم اس عقیدے کی بنیاد رکھ سکیں کہ عیسی علیہ السلام اپنے مادی جسم کے ساتھ آسمان پر اٹھائے گئے تھے اور وہ اب تک وہاں بقید حیات ہیں اور اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک وہ آخری زمانہ میں زمین پر دوبارہ نزول فرمالیں۔
2- متعلقہ آیات سے صرف یہی مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے کہ خداتعالی کا وعدہ تھا کہ وہ عیسی علیہ السلام کو طبعی وفات دے کر ان کا رفع درجات فرمائے گا۔ اور کافروں کے الزامات سے انہیں پاک کرے گا۔ یہ وعدہ حرف بحرف پورا ہوا اور اس کے مطابق مسیح علیہ السلام نہ تو قتل کئے گئے اور نہ ہی دشمن کے ہاتھوں صلیب پر مارے جاسکے۔ بلکہ انہوں نے پوری زندگی گزاری اللہ کے حضور سرفرازی سے نوازے گئے۔
3- اس عقیدہ کا انکارکہ عیسی علیہ السلام کو ان کے مادی جسم کے ساتھ آسمان پر لے جایا گیا جہاں وہ اب تک زندہ موجود ہیں اور وہاں سے وہ آخری زمانہ میں زمین پر نازل ہوں گے۔ کسی مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کرتا۔
جو لوگ اس عقیدہ پر جرح اور تنقید کرتے ہیں ان کے خلاف ارتداد کا فتوی لگانا صریح بے انصافی ہے۔ وفات مسیح کا عقیدہ رکھنے والے لوگ مسلمان اور مومن ہیں اور ان کے ساتھ نہ صرف ان کی زندگی میں بلکہ موت کے بعد بھی وہی سلوک کیا جانا چاہئے جو کسی مسلمان یا مومن سے کرنا فرض ہے۔ کیونکہ عقیدہ حیات مسیح کا انکاراسلام کے بنیادی عقائد کے انکار کے ہرگز مترادف نہیں۔
(الشیخ محمود شلتوت مرحوم۔ سابق مفتی اعظم و ریکٹر آف جامعہ ازھر قاہرہ - مصر۔ مجلہ الازھر زیر ارادت احمد حسن الزیات فروری 1960)

یہ مفتی مصر علامہ محمود شلتوت کے ایک طویل مقالہ میں سے صرف کچھ حصہ میں نے یہاں نقل کیا ہے۔ لیکن افسوس کہ بےچارے اتنے بڑے عالم ہوکر بھی آپ کے وضع کئے ہوئے گرانقدرقوائد اوراصولوں سے محض بے خبر رہ کرہی اس دارفانی سے کوچ کرگئے۔

لیکن ایک دلچسپ بات مجھے ان کے مقالے سے یہ معلوم ہوئی اور آپ نے بھی نوٹ کی ہوگی کہ انہوں اس آیت سے کہ "یہود نے بھی تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی تدبیر کی۔ اور اللہ سب تدبیر کرنے والوں میں سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے" سے کتنا پیارا اسنتباط کیا ہے کہ تدبیراور معجزہ میں تو بہت بنیادی فرق ہے۔ جو کچھ آپ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں وہ تو معجزہ ہے اسے تدبیر کیسے کہا جاسکتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ قابل قدر نکتہ علامہ محود جیسے قابل علما ہی پاسکتے تھے۔ آپ کے علما کے لئے تو سب جائز ہے۔ اللہ تعالی کی طرف سے اختیار کی گئی اس تدبیرکی کچھ تفصیل انشاء اللہ اگر موقع ملا تو ضرور شئیر کروں گا کیونکہ بہت دلچسپ اور ایمان افروز واقعہ ہے مسیح کا صلیب سے بچایا جانا جبکہ بظاہر حالات سب حضرت عیسی علیہ السلام کے خلاف نظر آرہے تھے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
باقی رہی یہ بات کہ اگر رفع سے رفع روح بمعنی موت مراد ہے تو قتل و صلب کی نفی سےکیا فائدہ؟ یہ ایک اچھا سوال ہے۔ لیکن اس سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ رفع کا معنی درجات کی بلندی یا قرب عطاکرنے کے بھی ہیں اوراگر موت کے معنوں میں لیا جائے تو ہمیشہ عزت والی موت مراد ہوتی ہے۔ یہ نکتہ خاص طور پر یاد رکھنے کے لائق ہے کہ توفی ہرطرح کی موت کے لئے استعمال ہوتا ہے جوعزت والی بھی ہوسکتی ہے اور لعنتی بھی۔ لیکن رفع ہمیشہ عزت والی موت ہی ہوتی ہے۔
اب ذرا اس آیت کے پس منظر کو بھی ملحوظ رکھیں جس میں یہ بات کہی گئی ہے۔ جس میں احمدی اور غیر احمدی علما متفق ہیں۔ چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت معجزانہ طور پر بغیر باپ کے ہوئی تھی۔ اس لئے یہودی جو آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے آپ کے انکار کا یہ بہانہ بنانے لگے کہ آپ نعوذباللہ ناجائز اولاد ہیں اور بائیبل کی رو سے ہر ناجائز بچہ لعنتی ہوتا ہے اس لئے آپ کے نبی ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انکی دلیل بظاہر بڑی پختہ تھی کیونکہ لعنتی وہ ہوتا ہے جو خداتعالی سے دور ہو اور نبی وہ ہوتا ہے جو خداتعالی کے سب سے زیادہ قریب ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک شخص میں بیک وقت اکٹھی ہوہی نہیں سکتیں۔ چنانچہ یہود علماء نے اس چالاکی سے اکثر عوام کو حضرت مسیح علیہ السلام کا منکر بنا دیا کہ یہ تو نعوذ باللہ لعنتی پیدائش کا نتیجہ ہیں نبی کیسے بن گئے۔ پھر انہوں نے اسی پر بس نہیں کی۔ بلکہ اور زیادہ شرارت کی راہ اختیار کرتے ہوئے یہ سوچا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی صرف پیدائش ہی لعنتی ثابت نہ کی جائے بلکہ موت بھی لعنتی ثابت کردی جائے۔ ظاہر بات ہے کہ ایک شخص جس کی پیدائش بھی لعنتی ہو اور موت بھی لعنتی ہو وہ خدا تعالی کا مقرت بندہ تو کیا ایک عام شریف انسان کہلانے کا مستحق بھی نہیں رہتا۔ چنانچہ اس شیطانی خیال کے ساتھ انہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھانے کا ارادہ کیا۔ کیونکہ بائیبل میں یہ بھی لکھا تھا کہ جو مجرم صلیب پر مارا جائے وہ لعنتی ہوتا ہے۔
جس آیت پر بحث کی جارہی ہے وہ یہود کے اس دعوے کی تردید میں نازل ہوئی کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح کی پیدائش اور موت دونوں لعنتی تھیں اس لئے وہ خداتعالی کا مقرب نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالی نے پہلے الزام کا تو یہ جواب دیا کہ حضرت مریم پر یہود نے بہتان عظیم باندھا ہے۔ یعنی وہ پاکباز تھیں۔ اور مسیح ابن مریم کی پیدائش لعنتی نہ تھی بلکہ معجزانہ اور مبارک تھی۔ دوسرے الزام کا جواب یہ دیا ہے یہودی ہرگز حضرت مسیح کو نہ تو صلیب پر مارسکے اور نہ قتل کرسکے۔ پس ان کی لعنتی موت کا الزام بھی درست نہیں۔ غرضیکہ وہ دونوں الزامات جو یہود حضرت مسیح کے خلاف ثابت کرکے انہیں خدا سے دور ثابت کرنا چاہتے تھے۔ قرآن کریم نے غلط قرار دے دیئے۔ اور واضع اعلان فرمایا کہ لعنت کا کیا سوال اللہ تعالی نے تو انہیں ہر الزام سے پاک ٹھہرا کر اپنا قرب عطا فرمایا۔ آیت رفعہ اللہ کا یہی مفہوم ہے اور قرآنی محاورہ اسی کی تائید کرتا ہے۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
1- حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہ۔ انہوں نے صحیح بخاری میں متوفیک کا مینی ممیتک کربیان کرکے اپنا عقیدہ صاف ظاہر کیا کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں۔ (بخاری الجز الثانی کتاب التفسیر قولہ ما جعل اللہ من بحیرۃ ولا سائبۃ)

2- حضرت امام مالک رحمہ اللہ: مجمع البحار میں لکھا ہے کہ امام مالک فرمایا کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ فوت ہوچکے ہیں۔ (مجمع بحار الانوار جلد 1 صفحہ 286)

3- امام ابن حزم رحمہ اللہ: کمالین حاشیہ تفسیر جلالین میں لکھا ہے کہ امام ابن حزم نے آیت کے ظاہری معنوں سے استدلال کرکے مسیح کی وفات بیان کی ہے۔ (جلالین مع کمالین صفحہ 109)

4- مفتی مصر: مصر کے مشہور متبحر عالم الازہر یونیورسٹی کے شیخ علامہ محمود شلتوت لکھتے ہیں:
"قرآن مجید اورسنت مطہرہ میں کوئی ایسی سند نہیں ہے جس سے اس عقیدہ پر دل مطمئن ہوسکے کہ حضرت عیسیٰ اپنے جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور اب تک وہ آسمان پر زندہ ہیں۔ اور یہ کہ وہی آخری زمانہ میں زمین پر آئیں گے۔" (الفتاوی از محمود شلتوت صفہ 58 مطبوعہ جامع الازہر)

5- ابن سعد نے الطبقات الکبری میں حضرت امام حسن کا یہ قول نقل کیا ہے۔
"اور حضرت علی کی روح اس رات قبض کی گئی جس رات عیسی بن مریم کی روح مرفوع ہوئی تھی یعنی 27 رمضان کی رات"

6- مشہور شیعہ عالم و بزرگ علامہ قمی وفات مسیح کے بارے میں اپنی کتاب اکمال الدین واتمام النعمہ میں فرماتے ہیں:
"یہودی مسیح کے قتل اور ان کو صلیب دینے پر قدرت نہ پاسکے کیونکہ اگر وہ اس پر قادر ہوتے تو اللہ کی بات جھوٹی نکلتی۔ لیکن اللہ نے حضرت مسیح کو طبعی طور پر وفات دی اور اس کے بعد ان کو روحانی رفعت عطا فرمائی۔"

7- مشہور شعیہ عالم علامہ جبائی نے اسی آیت کے یہ معنی کئے ہیں:
"جب تو نے مجھے وفات دے دی اور طبعی موت دی"۔ (مجمع البیان فی تفسیر القران المولفہ شیخ ابو الفضل بن الحس۔ اجز الثالث)

8- اسکے علاوہ علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم، علامہ ابن حیان، علامہ ابو مسلم اصفہانی، علامہ محی الدین ابن عربی اور بہت سے دوسرے بزرگان امت کے حوالے ہیں جو اس وقت بوجہ طوالت لکھنا مشکل ہے۔ بلکہ کئی کے تو اصل کتابوں کے صفحات اسکین شدہ بھی مہیا ہیں۔ اگر کسی کو مذید تسلی کرنی ہو یہ سب حوالے پیش کیے جاسکتے ہے۔ آجکل کے علما میں سے سر سید، مولانا ابو الکلام آزاد، سعودی عرب کے مشہور مفسر قرآن علامہ عبدالرحمن سعدی، علامہ عبید اللہ سندھی، جاوید احمد غامدی اور آجکل ایک جماعت المسلمین بھی ہے جن کا بعینہ یہی عقیدہ ہے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود تھا کہ کیا ان سب سے آپ احمدیت کی بحث کرنے لگ جائیں گے اس وجہ سے کہ انہوں نے حضرت عیسیٰ کو زندہ تسلیم کیوں نہیں کیا؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
قرآن مجید حاکم کتاب ہے کہ حدیث و روایات کی کتابیں۔۔۔۔؟ قرآن مجید کے ترجمے اگر حدیثوں کی کتابیں یا روایات کو سامنے رکھ کر کئے جائیں گے تو کیا قرآن مجید کی حاکمیت قائم رہے گی؟؟؟؟؟
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
79
قرآن مجید سب کتابوں کی حاکم کتاب ہے ۔دلیل سے واضح ہے۔
وہ لوگ جو ان احادیث کو غلط ثابت کرنے میں لگے ہیں سنو ۔ ہر وہ کام کرتے ہو جو قرآن کے خلاف ہو اور کہتے ہو ہم ہیں مسلمان۔ یہ دو احادیث بھی قرآن مجید کی حاکم ہونے کی تصدیق کرتی ہیں اور آپ لوگ ان حدیثوں کو غلط ثابت کرتے ہو کیوں۔?????
ابن عبدالبر نے [جامع بیان العلم،۲؍۳۳] میں اس حدیث کو روایت کیا ہے.
إذَا جَائَ کُمْ عَنِّیْ حَدِیْثٌ فَأَعْرِضُوہُ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ فَمَا وَافَقَ فَخُذُوْہُ وَمَا خَالَفَ فَاتْرُکُوْہُ۔
جب تمہارے پاس میری کوئی حدیث پہنچے تو اسے قرآن پر پیش کیا کرو۔ جو اس کے مطابق ہو اسے قبول کرلو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ دو۔
الأصول لِلْبَزْدَوِی میں کسی بھی حدیث کے صحیح ہونے کا یہ قاعدہ بتایا گیا ہے.
قاَلَ النَّبِیُّ ﷺ تَکْثُرُ لَکُمُ الْاَحَادِیْثُ مِنْ بَعْدِیْ فَإِذَا رُوِیَ لَکُمْ عَنِّیْ حَدِیْثٌ فَأَعْرِضُوْہُ عَلَی کِتَابِ اللّٰہِ تَعَالٰی ، فَمَا وَافَقَ کِتَابَ اللّٰہِ تَعَالٰی فَاقْبَلُوہُ وَمَا خَالَفَہُ فَرَدُّوْہُ۔ اصول للبزدوی۔ تمہارے سامنے میرے بعد بکثرت احادیث روایت کی جائیں گی تو انہیں کتاب اللہ پر پیش کرنا جو اس کے موافق ہو اسے لے لینا او رجو مخالف ہو اسے ترک کردینا۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
" توفی " کا لفظ وفاء سے ماخوذ ہے جس کے معنی پورے کا پورا لے لینے کے ہیں ۔ لغت عرب میں یہ لفظ اسی معنی کیلئے موضوع ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام حضرت علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب " الجواب الصحیح لمن بدل دین المسیح " میں اس کی تصریح فرمائی ہے، اور لکھا ہے کہ لغت عرب میں " توفی " کا لفظ استیفاء اور قبض کے معنی میں ہی مستعمل ہوتا ہے اور اس کی تین صورتیں ہوتی ہیں ۔ ایک نیند کی حالت میں جبکہ شعور و ادراک کا قبض و استیفاء ہو جاتا ہے، اور دوسری قسم توفی کی موت ہے جس میں روح قبض کی جاتی ہے، اور تیسری قسم توفی کی وہ ہے جس میں جسم اور روح دونوں کو قبض کیا جاتا ہے جیسا کہ حضرت عیسٰی - علیہ الصلوۃ والسلام - کے بارے میں ہوا (الجواب الصحیح ج2 ص 283) اور قرآن حکیم کی آیات کریمہ میں اس کے شواہد موجود ہیں کہ توفی کا لفظ موت کے علاوہ دوسرے معانی کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے، جیسے مثال کے طور پر سورہ انعام کی آیت نمبر 60 میں ارشاد ہوتا ہے {وَہُوَ الَّذِیْ یَتَوَفَّاکُمْ بِاللَّیِْل وَیَعْلَمُ مَا جَرَحْتُمْ بِالنَّہَار} الاٰیۃ۔ یہاں پر " توفی " سے مراد نیند ہے، اور اسی معنی کے اعتبار سے توفی کی ان دونوں قسموں کا ذکر سورہ زمرکی بیالیسیوں آیت کریمہ میں یکجا طور پر فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ وہاں ارشاد ہوتا ہے {اَللّٰہُ یَتَوفَّی الاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا }الاٰیۃ۔ کہ ایک قسم کی توفی و قبض وہ ہوتی ہے جو موت کی صورت میں ہوتی ہے، اور ایک وہ جو نیند کی صورت میں ہوتی ہے۔ سو آیت زیر بحث میں حضرت عیسیٰ سے متعلق جس توفی کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے مراد یہی ہے کہ آٰنجناب علیہ الصلوۃ والسلام کو جسم اور روح دونوں کے ساتھ اوپر اٹھا لیا گیا، نہ کہ صرف روح کو ۔ اور دوسرا قول اس میں حضرات اہل علم کا یہ ہے کہ توفی کا لفظ یہاں پر موت کے معنی میں ہے جو کہ اس لفظ کا عام اور معروف استعمال ہے، جیسا کہ یہ قول قتادہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، مگر اس کے ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس صورت میں اس عبارت میں تقدیم و تاخیر ہے کہ {مُتُوَفِّیْکَ} جو کہ لفظوں میں یہاں پر مقدم ہے حقیقت کے اعتبار سے مؤخر ہے اور {رَافِعُکَ} جو کہ بظاہر مؤخر ہے حقیقت کے اعتبار سے مقدم ہے۔ مطلب یہ کہ یہ دشمن آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکیں گے۔ ہم آپ کو پورے کا پورا اپنی طرف اور اپنے جوار کرامت میں اٹھالیں گے، اور پھر بعد میں آپکو اپنے وقت پر طبعی موت دیں گے۔ مآل دونوں صورتوں کا ایک ہی رہتا ہے کہ حضرت عیسی نہ قتل ہوئے نہ سولی دے گئے، جیسا کہ یہود و نصاریٰ کا کہنا ہے۔ یہود تو فخر و اعلان سے کہتے ہیں کہ ہم نے مسیح عیسی بن مریم کو جو کہ اللہ کا رسول تھا قتل کر دیا ہے{وَقَوْلِہِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہ }الآیۃ (النساء ۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
نصاریٰ کا کہنا ہے کہ حضرت عیسی کو سولی پر لٹکا کر قتل کر دیا گیا تھا ۔ جمعہ کے روز ان کو سولی پر لٹکایا گیا - والعیاذ باللہ - مغرب تک اسی طرح لٹکے رہے۔ ہفتے کی رات کو ان کو اتار کر دفن کر دیا گیا۔ ہفتے کے روز وہ قبر میں رہے اور اتوار کے روز وہ پھر زندہ ہو کر آٰسمان پر چلے گئے۔ (محاسن التاویل، المعروف بتفسیر القاسمی رحمہ اللہ ) ۔ اور اس پورے افسانے کی بنیاد انہوں نے اپنی من گھڑت اور خود ساختہ روایات و خرافات پر رکھی ہے۔ وَالْعِیَاذُ بِاللّٰہ - جبکہ مسلمانوں کا عقیدہ اس سب کے برعکس یہ ہے کہ آنجناب کو نہ قتل کیا گیا نہ سولی پر لٹکایا گیا، بلکہ خود ان لوگوں کو شبہے میں ڈال دیا گیا جو آنجناب کو قتل کرنے گئے تھے اور آپ کو قتل سے بچانے کے لئے ان حملہ آوروں کے اپنے ہی ایک آدمی پر حضرت عیسٰی کی شباہت ڈال دی گئی، جس کی بناء پر انہوں نے اسی کو قتل کر دیا۔ اور پھر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ ہم نے عیسٰیٰ کو قتل کر دیا۔ پھر جب ان کے سامنے یہ سوال آیا کہ اگر ہم نے عیسیٰ کو قتل کیا تو ہمارا اپنا آدمی کدھر گیا ؟ اس کا کوئی جواب ان کو نہ ملنا تھا نہ ملا۔ پس وہ شک و اشتباہ کی اسی دلدل میں پڑے ذلت و رسوائی کے دھکے کھا رہے ہیں، اور کھاتے رہیں گے - والعیاذ باللہ - ارشاد ہوتا ہے {وَمَا قَتَلُوْْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ} الاٰیۃ (النسائ۔ 157) نیز ارشاد فرمایا گیا { وَمَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًا بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہ }الاٰیۃ (النساء 157 ۔ 158) ۔ اس لئے جمہور امت کا اس پر اجماع ہے کہ حضرت عیسیٰ کو نہ قتل کیا گیا، نہ سولی دیا گیا۔ بلکہ ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ (معارف للکاندھلوی رحمہ اللہ وللد یوبندی، رحمہ اللہ صفوۃ، جامع البیان ، تلخیص الحببر ، لابن حجرص 2 19 وغیرہ) ۔ اور حافظ ابن کثیررحمہ اللہ نے نزول مسیح سے متعلق احادیث کو متواتر کہا ہے (معارف) ۔ اسی لئے سابق مفتی دیار مصریہ شیخ حسنین محمد مخلوف مرحوم لکھتے ہیں کہ نصاریٰ وغیرہ کا حضرت عیسی کے بارے میں قتل اور سولی کا اعتقاد رکھنا ایسا صاف و صریح کفر ہے جس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ۔ (صفوۃ البیان لمعانی القرآن ص 82) - والعیاذ باللہ العظیم - اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے اور ہر قسم کے زیغ و ضلال سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
" رَافِعُکَ اِلَیَّ " کا مطلب؟ : یعنی " میں تم کو اپنی طرف اٹھا لونگا زندہ و سلامت، پورے کا پورا " ۔ کیونکہ ضمیر منصوب کا مرجع حضرت عیسیٰ ہیں، اپنے جسم اور روح دونوں کے ساتھ، نہ کہ صرف روح کے اعتبار سے۔ لہذا آپ کو جسم و جان کے مجموعے کے ساتھ اوپراٹھایا گیا - علیہ الصلوۃ والسلام - سو اس طرح پہلے تو حضرت عیسیٰ کو توفی کی بشارت سے نوازا گیا۔ یعنی آپ کو دشمنوں کے نرغے سے پورے کا پورا اور صحیح و سالم طور پر نکال لیا جائے گا اور یہ لوگ آپ کو کوئی بھی گزند نہیں پہنچا سکیں گے۔ اس کے بعد دوسری بشارت آپ کو یہ دی گئی کہ دشمنوں سے بچانے اور نجات دینے کے بعد آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیا جائے گا اور آپ کو وہیں رکھا جائے گا جو کہ ملائکہ کی قرارگاہ ہے اور اس طرح آپ کو رفع آسمانی اور معراج جسمانی کی بشارت سے نوازا اور سرفراز فرمایا گیا۔ اور {رَافِعْکَ } کو محض رفع درجات کے معنی میں لینا صحیح نہیں کیونکہ اس صورت میں {اِلَیَّ} کا لفظ بالکل بے معنی ہو کر رہ جائے گا اور قرآن پاک میں کوئی لفظ بھی بے ضرورت استعمال نہیں ہو سکتا۔ سو اگر رفع سے یہاں پر مراد صرف درجے کی بلندی کا بیان کرنا ہوتا تو عربیت کے لحاظ سے اس کے لئے صرف{ رَافِعُکَ} فرماناکافی تھا۔ اس کے ساتھ{ اِلَیّ} کے اضافے کی ضرورت نہیں تھی۔ بلندی مرتبہ کے لئے یہ لفظ جہاں بھی استعمال ہوا ہے وہاں یہ اس مسئلہ کے بغیر ہی استعمال ہوا ہے جیسے سورہ بقرہ آیت نمبر 353، اعراف 176 اور مریم آیت نمبر 57 وغیرہ، سو {رَافِعُکَ اِلَیَّ} کا صحیح معنیٰ و مطلب یہ ہو گا کہ میں تم کو عزت و اکرام کے ساتھ اپنی طرف اٹھانے والا ہوں - والحمد للہ جل وعلا - سو اس کے خلاف مطلب لینا تقاضائے نصوصٍ کتاب و سنت کے خلاف ہے - والعیاذ باللہ جل وعلا -
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
تفسیر در منثور میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت اس طرح منقول ہے :(اخرج اسحاق بن بشر وابن عساکر من طریق جوھر عن الضحاک عن ابن عباس فی قولہ تعالی انی متوفیک ورافعک الی یعنی رافعک ثم متوفیک فی اخرالزمان ۔ (درمنثور صفحہ:۳٦ جلد ۲) "اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے بروایت جوہر عن الضحاک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے آیت انی متوفیک وافعک الی کی تفسیر میں یہ لفظ نقل کئے ہیں کہ میں آپ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا، پھر آخر زمانہ میں آپ کو طبعی طور پر وفات دوں گا"۔
 
Top