- شمولیت
- جون 11، 2015
- پیغامات
- 401
- ری ایکشن اسکور
- 13
- پوائنٹ
- 79
"اگرہم مفسرین کو ایک طرف رکھ کر سورہ آل عمران کی آیت "اے عیسی میں تجھے وفات دوں گا اور تجھے اپنے حضور عزت دونگا (یعیسی انی متوفیک الی رافعک الی) کو سورہ النسا کی آیت "بلکہ اللہ نے عیسی کو اپنے حضور عزت دی" (بل رفعہ اللہ علیہ) کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو ہم پر یہ امر واضع ہوگا کہ پہلی آیت میں اللہ تعالی نے ایک وعدہ فرمایا ہے اور دوسری آیت میں اس امر کی تصدیق کی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اس وعدہ کو پورا فرمایا۔ خداتعالی کا وعدہ جیسا کہ پہلی آیت میں مذکور ہے یہ ہے کہ اللہ تعالی حضرت عیسی علیہ السلام کو خود وفات دے کر انہیں اپنے حضور عزت و رفعت دیگا۔ اور انکو کافروں کے الزامات سے پاک کریگا۔ اور موخرالذکر آیت میں تمام امور کا حوالہ دیئے بغیر صرف مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور خدا کے حضور رفعت دئیے جانے کا ذکر ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں آیات کی تفسیر اور تطبیق ایک دوسرے کی روشنی میں کی جانی چاہئے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالی نے واقعی مسیح علیہ السلام کو موت دی اور ان کا اپنے حضور میں رفع درجات فرمایا۔ اور کفر کرنے والوں کے الزامات سے ان کو پاک فرمایا۔ قرآن کریم کی لغت کے ایک بہت بڑے مستند مفسر علامہ الالوسی نے اس آیت کے معنی "میں تجھے موت دونگا" اس مفہوم میں کئے ہیں کہ اللہ تعالی نے مسیح علیہ السلام کو پوری طبعی عمر عطا فرمائی اور ان کی وفات بھی طبعی رنگ میں اس طرح فرمائی کہ انہیں ان کے دشمنوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا کہ وہ آپ کو قتل کر سکتے یا آپ کے خلاف اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب ہوسکتے۔
یہ ظاہر ہے کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کے حضور سرفرازی اور بلندی درجات عطا کی گئی۔ آیت میں لفظ رفع توفی کے بعد مذکور ہے اس لئے اس کے معنی رفع درجات کے ہی ہوسکتے ہیں۔ مادی جسم کے آسمان پر اٹھائے جانے کے نہیں۔
اس ترجمہ کی تائید اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام سے فرمایا ہے کہ وہ انہیں ان پر ایمان نہ لانے والوں (کافروں) سے پاک کرے گا۔ گویا ساری آیت کا مقصد مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور اللہ تعالی کے دربار میں بلندی درجات کو بیان کرنا ہے۔
قرآن کریم کے دوسرے متعدد مقامات میں اور عربی زبان کے کلاسیکی ادب میں لفظ رفع کے عربی مفہوم سے بھی مذکورہ بالا معنوں کی تائید ہوتی ہے۔ آخر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کے تعلق میں اس لفظ کے استعمال کے ایک اور صرف ایک ہی معنی ہوسکتے ہیں یعنی اللہ کی نصرت اور حفاظت۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری تفسر کرنا قرآن کریم سے بے انصافی کے مترادف ہوگا۔ البتہ بے بنیاد کہانیوں اور من گھڑت روایات کے بے جا تائید ضرور ہوگی۔ ------------ حیرانی ہوتی ہے کہ مسیح کو ان کے دشمنوں کے درمیان سے اٹھا کر مع ان کے مادی جسم کے آسمان پر لے جانا کس طرح اللہ تعالی کی تدبیر کہلا سکتا ہے۔ اور کیسے اس تدبیر کو مسیح کے دشمنوں کی تدبیر سے بہتر اور برتر کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ان کے لئے اللہ تعالی کے اس فعل کا مقابلہ کرنا ہرگز ممکن نہیں تھا۔
اس طویل مقالہ کی بحث میں ہم مندرجہ ذیل نتائج پر پہنچتے ہیں:
یہ ظاہر ہے کہ عیسی علیہ السلام کو اللہ تعالی کے حضور سرفرازی اور بلندی درجات عطا کی گئی۔ آیت میں لفظ رفع توفی کے بعد مذکور ہے اس لئے اس کے معنی رفع درجات کے ہی ہوسکتے ہیں۔ مادی جسم کے آسمان پر اٹھائے جانے کے نہیں۔
اس ترجمہ کی تائید اللہ تعالی کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام سے فرمایا ہے کہ وہ انہیں ان پر ایمان نہ لانے والوں (کافروں) سے پاک کرے گا۔ گویا ساری آیت کا مقصد مسیح علیہ السلام کی سرفرازی اور اللہ تعالی کے دربار میں بلندی درجات کو بیان کرنا ہے۔
قرآن کریم کے دوسرے متعدد مقامات میں اور عربی زبان کے کلاسیکی ادب میں لفظ رفع کے عربی مفہوم سے بھی مذکورہ بالا معنوں کی تائید ہوتی ہے۔ آخر ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام کے تعلق میں اس لفظ کے استعمال کے ایک اور صرف ایک ہی معنی ہوسکتے ہیں یعنی اللہ کی نصرت اور حفاظت۔ اس کے علاوہ کوئی دوسری تفسر کرنا قرآن کریم سے بے انصافی کے مترادف ہوگا۔ البتہ بے بنیاد کہانیوں اور من گھڑت روایات کے بے جا تائید ضرور ہوگی۔ ------------ حیرانی ہوتی ہے کہ مسیح کو ان کے دشمنوں کے درمیان سے اٹھا کر مع ان کے مادی جسم کے آسمان پر لے جانا کس طرح اللہ تعالی کی تدبیر کہلا سکتا ہے۔ اور کیسے اس تدبیر کو مسیح کے دشمنوں کی تدبیر سے بہتر اور برتر کہا جاسکتا ہے۔ جبکہ کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ان کے لئے اللہ تعالی کے اس فعل کا مقابلہ کرنا ہرگز ممکن نہیں تھا۔
اس طویل مقالہ کی بحث میں ہم مندرجہ ذیل نتائج پر پہنچتے ہیں: