• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نزول عیسیٰ کے قائلین سے چند سوالات

شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
۲:…حضرت حذیفہ بن اسید الغفاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ہم آپس میں مذاکرہ کر رہے تھے، اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا کہ: کیا مذاکرہ ہو رہا تھا؟ عرض کیا: قیامت کا تذکرہ کر رہے تھے! فرمایا: قیامت نہیں آئے گی جب تک کہ اس سے پہلے دس نشانیاں نہ دیکھ لو! دخان، دجال، دابة الارض، مغرب سے آفتاب کا طلوع ہونا، عیسیٰ بن مریم کا نازل ہونا، یاجوج و ماجوج کا نکلنا․․․․․․ الخ۔” (صحیح مسلم، مشکوٰة ص:۴۷۲)
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ: معراج کی رات میری ملاقات حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے ہوئی، قیامت کا تذکرہ ہوا کہ کب آئے گی؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا، موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا تو انہوں نے بھی لاعلمی ظاہر کی، پھر عیسیٰ علیہ السلام کی باری آئی تو انہوں نے فرمایا:
“قیامت کا ٹھیک ٹھیک وقت تو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو بھی معلوم نہیں، البتہ مجھ سے میرے رب کا ایک عہد ہے کہ قربِ قیامت میں دجال نکلے گا تو میں اسے قتل کرنے کے لئے نازل ہوں گا۔ (آگے قتل دجال اور یاجوج ماجوج کے نکلنے کی تفصیل ہے، اس کے بعد فرمایا) پس مجھ سے میرے رب کا عہد ہے کہ جب یہ سب کچھ ہوجائے گا تو قیامت کی مثال پورے دنوں کی حاملہ جیسی ہوگی۔”
(مسند احمد ج:۱ ص:۳۷۵، ابن ماجہ ص:۳۰۹، تفسیر ابن جریر ج:۱۷ ص:۷۲، مستدرک حاکم ج:۴ص:۴۸۸، ۵۴۵، فتح الباری ج:۱۳ص:۷۹، درمنثور ج:۴ ص:
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
کیا “کل نفس ذائقة الموت” کی آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات پر اثر انداز نہیں ہوتی؟ جواباً گزارش ہے کہ یہ آیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح آپ کو، مجھ کو، زمین کے تمام لوگوں کو، آسمان کے تمام فرشتوں کو، بلکہ ہر ذی روح مخلوق کو شامل ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ہر متنفس کو ایک نہ ایک دن مرنا ہے، چنانچہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی موت آئے گی۔ لیکن کب؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کا وقت بھی بتادیا ہے کہ آخری زمانہ میں نازل ہوکر وہ چالیس برس زمین پر رہیں گے، پھر ان کا انتقال ہوگا، مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے اور میرے روضہ میں ان کو دفن کیا جائے گا۔ (مشکوٰة شریف ص:۴۸۰)
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
اس لئے آپ نے جو آیت نقل فرمائی ہے وہ اسلامی عقیدہ پر اثر انداز نہیں ہوتی، البتہ یہ عیسائیوں کے عقیدہ کو باطل کرتی ہے۔ اسی بنا پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے پادریوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا تھا: “کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارا رب زندہ ہے، کبھی نہیں مرے گا اور عیسیٰ علیہ السلام کو موت آئے گی۔” یہ نہیں فرمایا کہ: عیسیٰ علیہ السلام مر چکے ہیں۔ (در منثور ج:۲ ص:۳)
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
۱:…یہود کے دعویٰ کی تردید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قتل اور صلب (سولی دئیے جانے) کی تردید فرمائی، بعد ازاں قتل اور رفع کے درمیان مقابلہ کرکے قتل کی نفی کی اور اس کی جگہ رفع کو ثابت فرمایا۔
۲:…جہاں قتل اور رفع کے درمیان اس طرح کا مقابلہ ہو جیسا کہ اس آیت میں ہے، وہاں رفع سے روح اور جسم دونوں کا رفع مراد ہوسکتا ہے، یعنی زندہ اٹھالینا صرف روح کا رفع مراد نہیں ہوسکتا اور نہ رفع درجات مراد ہوسکتا ہے۔ قرآن کریم، حدیث نبوی اور محاورات عرب میں ایک مثال بھی ایسی نہیں ملے گی کہ کسی جگہ قتل کی نفی کرکے اس کی جگہ رفع کو ثابت کیا گیا ہو، اور وہاں صرف روح کا رفع یا درجات کا رفع مراد لیا گیا ہو، اور نہ یہ عربیت کے لحاظ سے ہی صحیح ہے۔
 
شمولیت
نومبر 17، 2014
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
35
پوائنٹ
68
جن آیتوں کو حضرات، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کی دلیل میں پیش کرتے ہیں، من گھڑت تفسیر کے بجائے ان سے کہئے کہ ان میں ایک ہی آیت کی تفسیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے، صحابہ کرام سے، تابعین سے یا بعد کے کسی صدی کے مجدد کے حوالے سے پیش کردیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرچکے ہیں، وہ آخری زمانہ میں نہیں آئیں گے، بلکہ ان کی جگہ ان کا کوئی مثیل آئے گا۔ کیا یہ ظلم و ستم کی انتہا نہیں کہ جو مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ و تابعین اور ائمہ مجددین کے عقیدے پر قائم ہیں ان کو تو “فیج اعوج” (یعنی گمراہ اور کجرو لوگ) کہا جائے، اور جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام اکابرِ امت کے خلاف قرآن کی تفسیر کریں ، ان کو حق پر مانا جائے۔
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
کمال ہے یہ لکھنے والا بھی دیکھیں ذرا نوال عیسی کے قائلین کیلئے لمحہ فکریہ میں دوسرے نمبر کی عبارت کو اسم فاعل کیا لکھا ہے ارے بھائی اس کو کیا پڑھیں ف پر زبر یا ۲ زیر
ویسے اگر ان صاحب کا جواب چاھیئے تو یونی کوڈ میں لکھ دیں طبیعت صاف ہو جائے گی ان شاء اللہ
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
یونی کوڈ میں جو لکھا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بطور امتی ہی آئیں گے رہا یہ سوال
کیا کسی امتی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سارے اہل کتاب اور غیر مسلموں سے کہے کہ مجھ پر ایمان لاؤ؟
تو یہ تو اللہ سے پوچھیں کہ اللہ نے کہا ہے و ان من اھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ آل عمران 199
وہاں دعوت دینے کا یہ معنی ہے کہ مجھ عیسی کو تم اللہ یا اللہ کا جز یا اللہ کا بیٹا کہتے تھے اس عقیدے سے توبہ کرو اور ایمان تو انہیں محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر لانا ہو گا اور یہی ایمان عیسی علیہ السلام پر ایمان کو متضمن ہو گا کیونکہ سب انبیاء پر اھل اسلام ایمان لاتے ہیں ویسے اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ موسی علیہ السلام نبی تھے اور ھارون علیہ السلام کیا تھے؟ موسی کے امتی تھے یا نہیں؟؟؟ بعینہ یہی معاملہ عیسی علیہ السلام کے ساتھ ہو تو کیا اعتراض ہے ؟؟؟
۔قرآنِ حکیم میں جہاں ساری انسانیت اور اہل کتاب کو دعوتِ اسلام دی گئی ہے کیاوہاں یہ بات ان سے کہی گئی ہے کہ تم ایک امتی (عیسیٰ علیہ السلام) پر بھی ایمان لانا؟
قرآن میں یہ لکھا ہے کہ عیسی علیہ السلام پر ایمان لاو شک نہ کرو اب وہاں کیون نہیں لکھا وہاں کیوں لکھا ہے تو یہ اللہ کی مرضی اللہ جہاں لکھوا دے لا یسئل عما یفعل و ھم یسئلون
(ولما ضرب ابن مريم مثلا إذا قومك منه يصدون وقالوا أآلهتنا خير أم هو ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون إن هو إلا عبد أنعمنا عليه وجعلناه مثلا لبني إسرائيل ولو نشاء لجعلنا منكم ملائكة في الأرض يخلفون وإنه لعلم للساعة فلا تمترن بها واتبعون هذا صراط مستقيم ولا يصدنكم الشيطان إنه لكم عدو مبين) سورت زخرف آیت نمبر 57تا 62
کیا قرآن و حدیث میں یہ لکھا ہوا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بطور امتی ہوگا؟ % عیسیٰ علیہ السلام کو دوبارہ نزول کے وقت ’’ نبی ‘‘ کی بجائے ’’ امتی ‘‘ ماننے سے ان کی نبوت کا انکار تو لازم نہیں آئے گا؟ (کیونکہ بزبان عیسیٰ علیہ السلام قرآنِ حکیم میں سورۂ مریم آیت نمبر: ۳۰ میں ہے وَجَعَلَنِیْ نَبِیًّا اور اس (اللہ ) نے مجھے نبی بنایا ہے۔‘
حدیث میں لکھا ہوا ہے کہ وہ شریعت محمدیہ کے مطابق فیصلہ دیں گے اور یہ اللہ نے قراآن میں بھی کہا
و اذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما آتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جائکم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ و لتنصرنہ ال عمران 81
ان کو امتی ماننے سے ان کی نبوت کا انکار نہیں ہو رہا سورت ال عمران کی آیت ۸۱ کو پڑھ لیں
آخری سوال کا جواب یہ ہے کہ کیا ان کو کھلانا پلانا اللہ کی نعمتوں میں سے ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو اللہ نے اس کا ذکر کیون نہیں کیا ؟؟
حقیقت یہ ہے کہ لا یسئل عما یفعل و ھم یسئلون
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
پھر یہ آیت دیکھیں:
وَرَفَعۡنَ۔ٰهُ مَكَانًا عَلِيًّا (٥٧)
"اورہم نے اسکا رفع بلند مقام پر کیا تھا" (سورہ مریم 57)
یہاں بھی حضرت ادریس علیہ السلام کی بات ہورہی ہے جو کہ ایک انسان مع الجسم تھے ناکہ اعمال و اقوال و افعال وغیرہ۔ تو کیا انہیں یہاں بھی رفع جسمانی ہی مراد لیں گے؟ یہاں تمام علما متفق ہیں کہ رفع روحانی یعنی ترقی درجات ہی مراد ہے۔

تمام مسلمان جانتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تماز میں دو سجدوں کے درمیان جو دعا پڑھا کرتے تھے اس میں ایک لفظ "وارفعنی" بھی ہے۔ یعنی اے اللہ میرا رفع کر۔ (ابن ماجہ)
سب مانتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رفع ہوا مگر زمین پر ہی رہ کر۔ اور تمام مسلمان سنت رسول میں یہ دعا ہر نماز میں پڑھتے ہیں۔ تو بھائی جب آپ کے علما وہی لفظ رفع کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آتا ہے تو اس سے رفع روحانی مراد لیتے ہیں جبکہ یہاں بھی آپ کی شرط کے مطابق رفع اجسام کی بات ہورہی ہے تو پھر حضرت مسیح کے لئے کیوں رفع جسمانی زبردستی خود ساختہ قاعدے وضع کرکے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے؟ مسلمان روز نماز میں سنت رسول میں یہ دعا کرتے ہیں تو کیا اپنے رفع جسمانی کے لئے کرتے ہیں؟ پھر طرفہ یہ کہ پورے قرآن اور احادیث کے ذخیرے میں کہیں بھی رفع آسمان پرجسمانی طور پر جانے کے معنوں میں نہیں آیا۔ جب بھی بندے کے لئے اللہ تعالی رفع کا لفظ استعمال کرے تو اس سے مراد آسمان پر جانا نہیں ہوتا بلکہ درجات کی بلندی یا عزت والی موت کے ہوتے ہیں۔

اب ذرا آپ کے اس قاعدے کی طرف آتے ہیں کہ جہاں رفع اجسام کا ذکر ہوگا وہاں رفع اجسام ہی مراد ہوگی۔ جس آیت پر بہت زیادہ زبردستی کرنے کی کوشش کررہے ہیں اسی سے ملتی جلتی ایک حدیث ملاحظہ کریں:

اذاتواضع العبد رفعہ اللہ الی السماء السابعۃ۔ (کنز العمال جلد 2 صفہ 25)۔
ترجمہ: جب بندہ فروتنی اختیار کرتا ہے (خدا کے آگے گرتا ہے) تو اللہ تعالی اسکا ساتویں آسمان پر رفع کر لیتا ہے۔

یہ حدیث محاورہ عرب کے لحاظ سے اس آیت "بل رفعہ اللہ الیہ" کے معنی سمجھنے کے لئے واضع نص ہے۔ کیوں کہ اس میں لفظ رفع بھی موجود ہے۔ رفع کرنے والا بھی اللہ ہے۔ اور خاص بات اس میں یہ ہے کہ صلہ بھی الی ہی آیا ہے جیسا کہ "بل رفعہ اللہ الیہ" میں ہے۔ اور زائد بات یہ کہ ساتویں آسمان کا لفظ بھی ہے۔ حالانکہ آیت میں تو آسمان کا لفظ بھی نہیں۔ لیکن اس حدیث میں آسمان کا لفظ بھی ہے اور وہ ساری شرائط پوری ہورہی ہیں جن کو اب تک آپ نے پیش کیا ہے۔ لیکن پھر بھی مولوی صاحبان اس کا ترجمہ رفع روحانی یعنی بلندی درجات ہی لیتے ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ مسیح کے لئے بھی جو رفع کا لفظ آیا ہے اس میں بھی بلندی درجات ہی مراد ہے ناکہ آسمان کی طرف جانا۔

پھر اس حدیث کو دیکھیں:
ماتواضع احد للہ الا رفعہ اللہ (مسلم جلد 2 صفہ 321)
یعنی کوئی ایسا شخص نہیں کہ وہ اللہ کے آگے گرا ہو اور پھر اللہ نے اسکا رفع نہ کیا ہو۔

تمام قرآن اوراحادیث کا ذخیرہ آپ کے زبردستی کے کئے ہوئے ترجمے کو رد کرہے ہیں۔ آپ نے رفع اجسام کے بارے میں جو بھی قواعد وضع کئے وہ تو آپ نے دیکھ لئے کہ قرآن و حدیث ہی آپ کے خلاف ہیں۔ اب رفع اجسام کے بارے میں صحیح قاعدہ بھی سن لیں۔ کہ قرآن مجید، احادیث، لغات العرب اور محاورہ عرب کی رو سے لفظ "رفع" جب بھی اللہ تعالی کی طرف سے کسی انسان کی نسبت بولا جائے تو اس کے معنی ہمیشہ ہی بلندی درجات یا قرب روحانی کے ہوتے ہیں۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے غیراحمدی علما کو بارہا یہ چیلنج دیا جا چکا ہے کہ وہ کلام عرب سے ایک ہی مثال اس امر کی پیش کریں کہ لفظ رفع کا فاعل اللہ تعالی مذکور ہو اور کوئی انسان اس کا مفعول ہو اور رفع کے معنی جسم سمیت آسمان پر اٹھا لینے کے ہوں۔ مگر آج تک اس کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکی اور نہ آئندہ پیش کی جاسکے گی۔
 
شمولیت
جون 11، 2015
پیغامات
401
ری ایکشن اسکور
14
پوائنٹ
79
وَلَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنَ۔ٰهُ بِہَا وَلَ۔ٰكِنَّهُ ۥۤ أَخۡلَدَ إِلَى ٱلۡأَرۡضِ وَٱتَّبَعَ هَوَٮٰهُ‌ۚ فَمَثَلُهُ ۥ كَمَثَلِ ٱلۡڪَلۡبِ إِن تَحۡمِلۡ عَلَيۡهِ يَلۡهَثۡ أَوۡ تَتۡرُڪۡهُ يَلۡهَث‌ۚ ذَّٲلِكَ مَثَلُ ٱلۡقَوۡمِ ٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِ۔َٔايَ۔ٰتِنَا‌ۚ فَٱقۡصُصِ ٱلۡقَصَصَ لَعَلَّهُمۡ يَتَفَكَّرُونَ (١٧٦)
ترجمہ: "اگر ہم چاہتے تو ان نشانوں کے ذریعہ اس کا "رفع" کرتے۔ لیکن وہ تو خود زمین کی طرف جھک گیا۔" (سورہ الاعراف 176)

یہاں بھی رفع اجسام کی بات ہورہی ہے۔ یہ آیات بلعم باعور کے متعلق ہیں اور وہ ایک انسان ہی تھا ناکہ اعمال یا کچھ اور۔ لیکن کیا آپ کوئی ایک بھی مثال دے سکتے ہیں کہ یہاں رفع جسمانی کا معنی کیا گیا ہو۔ آپ کے علما بھی یہاں رفع روحانی ہی مراد لیتے ہیں۔
 
Top